نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home فکر و منہج

اجنبی ___ کل اور آج | دوسری قسط

احسن عزیز by احسن عزیز
23 مئی 2023
in فکر و منہج, اپریل و مئی 2023
0

الشیخ المجاہد احسن عزیز شہید رحمۃ اللہ علیہ کی آج سے بیس سال قبل تصنیف کردہ نابغہ تحریر ’ اجنبی ___ کل اور آج ‘، آنکھوں کو رلاتی، دلوں کو نرماتی، گرماتی ، آسان و سہل انداز میں فرضیتِ جہاد اور اقامتِ دین سمجھانے کا ذریعہ ہے۔ جو فرضیتِ جہاد اور اقامتِ دین( گھر تا ایوانِ حکومت) کا منہج سمجھ جائیں تو یہ تحریر ان کو اس راہ میں جتے رہنے اور ڈٹے رہنے کا عزم عطا کرتی ہے، یہاں تک کہ فی سبیل اللہ شہادت ان کو اپنے آغوش میں لے لے(اللھم ارزقنا شہادۃ في سبیلک واجعل موتنا في بلد رسولک صلی اللہ علیہ وسلم یا اللہ!)۔ ایمان کو جِلا بخشتی یہ تحریر مجلہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ میں قسط وار شائع کی جا رہی ہے۔(ادارہ)


جو کتاب ہم سے کہہ دے وہی فیصلہ ہمارا

جب ان کے سامنے ﯚ فَاعْفُوْاﯙ ’’ معاف کردو‘‘ ﯚوَاصْفَحُوْاﯙ’’چھوڑدو‘‘ ﯚکُفُّوْا اَیْدِیَکُمْﯙ ’’اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو‘‘ جیسے احکام تھے تو ان سے بڑھ کر کوئی حلیم نہ تھا۔ لیکن جب جبریلِ امین ؑآسمانوں پر سے ﯚوَاغْلُظْ ﯙ’’سخت ہوجاؤ‘‘ﯚ خُذُوْہُمْ ﯙ’’انھیں پکڑو‘‘ ﯚوَاحْصُرُوْہُمْﯙ ’’انھیں گھیرو‘‘ﯚ قَاتِلُوْا ﯙ’’جنگ کرو‘‘ ﯚاُقْتُلُوْاﯙ’’قتل کرو‘‘ ﯚفَاضْرِبُوْاﯙ’’مارو‘‘ﯚضَرْبَ الرِّقَابِ ﯙ’’گردنیں اڑاؤ‘‘ ا ور ﯚشُدُّواالْوَثَاقَﯙ’’مضبوطی سے باندھو‘‘___ جیسی روشن آیات لائے تو ان کی مثل میدانوں کے شیر بھی کسی نے نہ دیکھے تھے۔ متاع الغرور ’’دھوکے کے سامان‘‘ کی قیمت کا تعین تو وہ پہلے سے کر چکے تھے لیکن اب ﯚ……تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍﯙکا مرحلہ تھا۔ درد ناک عذاب سے بچانے والی اس تجارت کی خاطر انھوں نے باغات بیچے، جاگیریں وقف کیں___اپنی عالی شان سواریوں کو سجایا اور بچایا نہیں، بلکہ انھیں اللہ کی راہ میں چلاتے اور تھکاتے رہے۔ پھر جونہی موقع ملا بہترین دام طے کرتے ہوئے ان کا سودا کیا ، خود اپنی جان کے بھی مول لگائے اورپھر بغیر کسی خیانت و بخل اور تذبذب کے پوری پوری ادائیگی کرتے ہوئے اپنا عوض وصول کرنے ہیرے موتی کے خیموں، سونے چاندی کے محلات، مشک وزعفران کی زمینوں اور دودھ و شہد کی نہروں کی دنیا میں چلے گئے۔ کیا خوب تھا وہ سوداجو انھوںؓ نے اپنے ربّ سے کیا! بے شک تاریخ کے ہردور میں ذہین لوگوں نے ایسے ہی نقد سودے کیے ہیں۔یہ سوداگردیکھنے میں تو سادہ مزاج نظر آتے ہیں لیکن دراصل یہ ذہانت کی معراج پر ہوتے ہیں۔تورات وانجیل اور قرآن کی گواہیاں ان کے ، اور قیامت تک آنے والے جنت کے ان خریداروں کے میثاقِ تجارت پر ثبت ہیں:

ﯚ اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرَاۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِ وَمَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ وَذٰلِکَ ھُوَالْفَوْزُ الْعَظِیْمِﯙ (سورۃ التوبۃ:۱۱۱ )

’’بے شک ا للہ نے مومنین سے ان کی جانیں اور اموال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ وہ ا للہ کے راستے میں قتال کرتے ہیں،پس قتل کرتے ہیں اور قتل ہوتے بھی ہیں۔ان سے (جنت کا وعدہ) ا للہ کے ذمے ایک پختہ وعدہ ہے تورات و انجیل اور قرآن میں۔ اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کو پورا کرنے والا ہو؟پس خوشیاں مناؤ اپنے اس سودے پر جو تم نے اللہ سے چکا لیا ہے، اور یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘

بڑی کامیابی کے اس فی سبیل اللہ سفر میں ہدف ان کے سامنے بہت واضح رہا: ﯚ وَقَا تِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِﯙ(سورۃ الأنفال:۳۹) ’’اور ان کافروں سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پوراکا پورا اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ فتنے یعنی کفر و شرک کی شوکت وبالا دستی کے خاتمے،مظلوم مسلمانوں کی نجات اور مکمل غلبۂ دین تک قتال ___اس امر میں انھیں ؓ کوئی ابہام نہ تھا کہ یہ بات لا الٰہ الا اللّٰہ ’’اللہ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں‘‘ کے تقاضوں میں شامل تھی۔چنانچہ اس دعوت کو ردّ کرنے والے اور مزاحمت کرنے والے اپنے انجام کو پہنچے۔ قریشِ مکہ کے متکبرین کو مکّی دور میں دی جانے والی نبوی ؐ بشارت ’’اَمَا وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لَقَدْ جِئْتُکُمْ بِالذَّبْحِ‘‘ (احمد، مسند عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاصؓ)’’سن رہے ہو! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، میں تمہارے پاس(تمہارے) ذبح (کا حکم) لے کر آیا ہوں‘‘___ پوری ہو ئی۔ فتنہ گر اور بد عہد یہود(بنو قینقاع و بنو نضیر) کو ان کے دیاروں سے جلا وطن کر دیا گیا۔ غدار اور خائن بنو قریظہ پر سات آسمانوں کے اوپر سے ہوا اللہ تعالیٰ کا فیصلہ نافذ ہو کر رہا، ان کے چھے سو سے زائد اہلِ قتال (تمام بالغ مرد) ،ایک وقت میں تہہِ تیغ کر دیے گئے۔خیبر کی تباہی : ’’اَللّٰہُ اَکْبَرُخَرِبَتْ خَیْبَرُ‘‘(البخاري،کتاب الصلٰوۃ)کا اعلان ہوا اور : ’’اِعْلَمُوْا اَنَّ الْاَرْضَ لِلّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ‘‘(البخاري، کتاب الاکراہ)’’جان لو کہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے‘‘___ کہہ کر یہود کے بقایا جات مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نکال دیے گئے۔

توحید کی دعوت کفر کے اماموں کو بھی دی گئی۔قیصرسے صاف صاف کہہ دیا گیا: ((اَسْلِمْ تَسْلَمْ))(البخاري،کتاب بدء الوحي)’’اسلام لے آؤ،بچ جاؤ گے‘‘۔کسریٰ اور اس کے غلاموں کے لیے واشگاف بد دعا سنا دی گئی:’’اَنْ یُّمَزَّقُوْا کُلَّ مُمَزَّقٍ‘‘ (البخاري،کتاب العلم)’’وہ بالکل ہی پھاڑ دیے جائیں‘‘۔پھرلا الٰہ الا اللّٰہ کی یہ صدا کعبے میں بلند کی گئی ، یہ ربِّ کعبہ کی حاکمیت کاعالمگیر اعلان تھا۔انکار کرنے والوں سے اقتدار چھین لیا گیا۔ منکرینِ حق کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ اعلانِ جہاد بڑا واضح تھا:

’’اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوا: لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، فَمَنْ قَالَ:لَآ اِلٰہ اِ لَّا اللّٰہُ فَقَدْ عَصَمَ مِنِّیْ نَفْسَہٗ وَمَالَہٗ اِلَّا بِحَقِّہٖ، وَحِسَابُہٗ عَلَی اللّٰہِ‘‘ (البخاري،کتاب الجہاد )

’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللّٰہ کہیں پس جس نے لا الٰہ الا اللّٰہ کہہ دیا تو اس نے اپنے جان و مال کو مجھ سے بچا لیا،مگر کسی حق کے بدل۔اور اس کا حساب اللہ پر رہے گا۔‘‘

مشرکینِ عرب کو اسلام یا تلوار میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑا۔ ا ہلِ کتاب کے لیے بھی مسلمان ہونے یا پھر اسلام کی رعایا بن کر رہنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ یوں خیر القرون کا زمانہ اپنے جلو میں ستائیس غزواتِ رسولؐ،اور سینتا لیس سرایائے صحابہؓ کے انمٹ نقوش تاریخ کے صفحات پر رقم کرتا ہوا گزرا۔اب اسلام کی ان برگزیدہ ہستیوں کا دور ِ خلافت تھا ، کہ زمین کی پشت پر (انبیاء ؑ کے بعد) کوئی بشر ان کے جیسا نہیں گزرا ۔

تمام ادیانِ باطل پر دینِ حق کے غلبے کی خوش خبری ﯚ……لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖﯙ ___ تو وہؓ اور ان کے ساتھیؓ اس وقت بھی سُن چکے تھے جب انہیں فتحِ مکّہ سے بہت پہلے، بظاہر بے بسی کے عالم میں حرم میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔اسی طرح فارس و شام اور یمن کی فتوحات کی بشارتیں بھی انھیں ایک ایسے یومِ عسرت میں مل چکی تھیں جب پورے عرب نے ان کو مدینہ کی چھوٹی سی بستی میں گھیر رکھا تھا اور وہ بھوک، خوف اور سردی کے عالم میں دارالاسلام کی حفاظت کے لیے خندقی مورچے کھود رہے تھے۔لیکن اب ان سچے وعدوں کی تکمیل اور کفری اقتدار کے عالمگیر قفل توڑنے کا موسم آ چکا تھا۔چنانچہ اللہ کے کلمے کی سربلندی کے لیے اللہ کے شہسوار میدان میں نکلے ۔ ابوعبیدہ ؓبن الجراح نے ہرقْل کو ہمیشہ کے لیے شام سے نکال دیا،عمرو بن العاصؓ نے مصر کواسلام کے لیے زیر کیا، عراق و ایران پر لا الٰہ الا اللّٰہ کاعَلم سعد بن ابی وقاصؓ نے لہرا دیا۔

پھر خلافتِ ر اشدہ کے دورِ زرّیں کے بعد بھی اسلام کی تلوار حرکت میں رہی۔ قتیبہ بن مسلمؒ نے خُراسان و ترکستان کے طول و عرض میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کااعلان کیا، محمد بن قاسمؒ نے جاہلیت کا یہی قُفل سندھ و ہند میں اپنی تلوار سے توڑ ڈالا۔ یورپ کے دروازے پر لگے یہ بند طارق بن زیادؒ اوران کی سپاہ نے کھولے۔ آئمۂ کفر راستے سے ہٹا دیے گئے، انسانیت کو لا الٰہ الا اللّٰہ قبول کرنے کی دعوت دی گئی۔ جس نے یہ دعوت قبول نہ کی اسے مجبور نہ کیا گیا لیکن اپنے ہاتھ سے جزیہ دے کر اور ذلیل بن کر رہنا اس کا مقدر بن گیا،کیونکہ ’’کتاب‘‘ کا فیصلہ یہی تھا!

یوں جہاں ایمان کی تلواریں کفری اقتدار کے پھاٹک توڑتی گئیں وہیں ساتھ ساتھ قرآن کا نور دلوں کو فتح کرتا چلا گیا۔ اس قرآن کو سمجھنے میں نئے ایمان والوں کو کچھ بھی دشواری پیش نہ آئی کیونکہ اس کی چلتی پھرتی تفسیریں تو وہ صبح و شام اپنے ارد گرد دیکھتے تھے۔ صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی جیتی جاگتی شرحیں بھی ان کے درمیان زندہ کرداروں کی شکل میں موجود تھیں۔ اب اسلام نہ صرف یہ کہ انجان اور نا مانوس نہ تھابلکہ صورت اس کے بالعکس تھی۔ اس کے دامنِ رحمت میں لاکھوں میل کی سلطنت تھی، عرب و عجم کے خزانے تھے، خیر و برکت کی وہ کانیں تھیں جنہوں نے تفقہ فی الدین کے چشمۂ نور سے منور ہو کر اصلاح کی کرنیں پورے عالم میں بکھیر دیں۔دنیا شریعت کے سایۂ رحمت میں آ گئی اور پھر تاریخ و جغرافیہ کے طول و عرض نے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ کثرت دیکھی جو قیامت کے دن بھی دیگر انبیاء ؑ کے مقابلے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امتیازی شان قرار پائے گی۔

ہے عدل کا تقاضا کفار سے عداوت

اس سارے سفر میں عدل(ہر چیز کو اپنے صحیح مقام پر رکھنا) ان ؓکے ہر عمل کی اساس تھا۔ گھر کی چوکھٹ ہو یا دنیا کا آنگن ،محبت و نفرت انھی پیمانوں پر استوار تھی:

’’مَنْ اَعْطٰی لِلّٰہ تَعَالٰی،وَمَنَعَ لِلّٰہ تَعَالٰی، وَاَحَبَّ لِلّٰہِ تَعَالٰی وَاَبْغَضَ لِلّٰہ تَعَالٰی، وَاَنْکَحَ لِلّٰہِ تَعَالٰی فَقَدِ اسْتَکْمَلَ اِیْمَانَہٗ‘‘(احمد، مسند مکّیّین)

’’جس نے دیا تو اللہ تعالیٰ کے لیے اور روکا تو اللہ تعالیٰ کے لیے، محبت کی تواللہ تعالیٰ کے لیے، اور بغض رکھا تو اللہ تعالیٰ کے لیے اور نکاح کیا تو اللہ تعالیٰ کے لیے تو یقینا اس نے اپنے ایمان کی تکمیل کرلی۔‘‘

چنانچہ اس ایمان کا اثر تھا کہ وہ تمام انسانوں کو قطعاً ’’ ایک برادری‘‘ نہیں سمجھتے تھے، نہ ہی سب انسان ان کے نزدیک ’’برابر ‘‘تھے۔ عباداللہ (اللہ کے بندوں)اور عباد الطاغوت (سرکشوں کے غلاموں) کی تقسیم ان کے ہاں بڑی واضح تھی اور ان میں سے ہر ایک کو وہ (شرعی حیثیت اور حق کے مطابق ) اپنے مقام پر رکھتے تھے۔ اِدھر والوں کے حق میں وہﯚاَذِلَّۃٍﯙ’’نرم دل ‘‘اور ﯚرُحَمَآئُﯙ’’مہربان‘‘تھے اوران کی خاطر حقیقتاً اپنے جان و مال تک سے گزر جاتے تھے۔ جب کہ اُ دھر والوں کے مقابلے میںﯚ اَعِزَّۃٍ ﯙ’’سخت ‘‘ا ور ﯚ اَشِدَّآئُ ﯙ’’تیز‘‘تھے۔اِن سے تعلق ﯚوَلِیٌّﯙ’’دوست( مدد گار،محبت کرنے والے)‘ ‘کا تھا،جب کہ اُن سے یہ ﯚبَرِیْئٌﯙ’’ بیزار (دستبردار وکنارہ کش)‘‘تھے۔ناحق ایک انسان کی جان لینا اُن کے نزدیک پوری انسانیت کے قتل جیسا تھا لیکن ناحق ایک انسان کو چھوڑ دینا ___ اسے بھی وہ اپنے ایمان کا مسئلہ سمجھتے تھے۔ اہلِ کفر و شرک سے تعلق کی بابت ان کا اساسی اعلان وہی تھا جو اُن کے اور ہمارے امام ابراہیم ؑکا تھا:

ﯚ قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُ سْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْ اِبْرٰہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِھِمْ اِنَّا بُرَئٰٓ ؤُا مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَآئُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَحْدَہٗﯙ (سورۃ الممتحنہ:۴)

’’(مسلمانو!) تمہارے لیے ابراہیم ؑمیں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے جب کہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے ا ور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو،ان سب سے بالکل بیزار ہیں۔ ہم تمہارا انکار کرتے ہیں اور ہم میں تم میں ہمیشہ کے لیے کھلم کھلا عداوت اور دشمنی رہے گی جب تک کہ تم ا للہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لے آؤ ۔‘‘

یہ ہے ہمارے باپ ابراہیم علیہ السلام کا اُسوہ۔ﯚوَمَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّۃِ اِبْرٰہٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِہَ نَفْسَہٗﯙ(سورۃ البقرۃ:۱۳۰)’’اور ملّتِ ا براہیمی سے تو وہی روگردانی کرے گا جو اپنی ذات ہی سے احمق ہو‘‘۔

خزاں کی گرد نے دھندلا دیے چہرے اپنے

خیر القرون کا زمانہ گزرا اور پھرایک ایک کر کے چودہ صدیاں گزر گئیں۔شیطان کے ساتھیوں اور رحمٰن کے بندوں کے درمیان کشمکش بھی، سرفروشی کے فسانے کو آگے بڑھاتی رہی۔ ایمان بالغیب اور اس کے تقاضوں کی دعوت کو مٹانے اوردھندلانے کیے لیے ،اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح نت نئے فتنے بھی نازل ہوتے رہے یہاں تک کہ قربِ قیامت کی نشانیاں لیے تاریخ کاوہ دوربھی آگیا،آج جس سے ہم گزر رہے ہیں۔جب یہود و نصاریٰ اور ان کے متعفن معاشروں کی سڑاند سے جنم لینے والی مغربی تہذیب اپنی ساری آرائش و آلائش، ثقافت و کثافت اور فکرو کفر کے ساتھ دنیا پر راج کر نے لگی اور تہذیب کے امام وہ قرار پائے جواپنی شناختی دستاویزات میں، ولدیت کے خانے میں ___ صرف اپنی ماں کا نام لکھنے پر اکتفا کرتے ہیں! وہ انسان جو دنیا میں اللہ کی بندگی اوروحی کی تعلیمات کی پیروی اور اقامت کے لیے آیا تھا، وہ بھی اس تہذیب کے اثرات سے اپنا دامن نہ بچا سکا (الا ما رحم ربّی)اور رسولِ صادق و امین صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودہ پیشین گوئیاں کھلی آنکھوں سے دیکھی جانے لگیں:

’’لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ شِبْرًا شِبْرًا، وَ ذِرَاعًا ذِرَاعًا، حَتّٰی لَوْدَخَلُوا جُحْرَضَبٍّ تَبِعْتُمُوْھُمْ‘‘ قُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارٰی؟ قَالَ ’’فَمَنْ؟‘‘ ( البخاري،کتاب الاعتصام)

’’یقیناً تم لوگ اپنے سے پہلے لوگوں کے طور طریقوں کی بالشت بہ بالشت اور گز بہ گز پیروی کرو گے حتیٰ کہ اگر وہ گوہ کے بل میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم اس میں بھی ان کی پیروی کرو گے‘‘۔ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہؐ!کیا یہود و نصاریٰ کی(پیروی)؟ آپؐ نے فرمایا ’’ تو اور کس کی؟‘‘

یہود و نصاریٰ کے اتباع ،ان سے مرعوبیت، معذرت خواہانہ رویوں، اور اللہ کے معاملے میں ملامت کرنے والوں کی ملامت کے خوف نے دنیا میں ہماری امتیازی شناخت کو دُھندلا کر رکھ دیا۔ وضع قطع ان شکلوں کی اختیار کی جانے لگی، جہنم میں پھینکے جانا جن کا مقدر ہے۔ لباس اور زبان میں نقالی اُن کی ہونے لگی جومحمدٌ رسول ا للّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا اوّلین دشمن، ا ور آپؐ کے پیرو کاروں کو کھلم کھلا بد تہذیب قرار دیتے ہیں۔ چھری کانٹا پکڑنے تک کے آداب ان سے لیے گئے، شراب و سؤر جن کی گھٹی میں پڑے ہیں۔ آلودگی سے بچاؤ کا درس وہ دینے لگے جو طہارت و پاکیزگی کے ابتدائی آداب تک سے واقف نہیں۔ نصابِ تعلیم تو کیا مقصد ِتعلیم بھی ان کا اپنا لیا گیا جو اپنا شجرہ ٔنسب بندر سے جوڑ نے والے ہیں۔ آسمانوں سے ہدایت لے کر اترنے والی زبان عربی ٔ مبین اپنوں میں بیگانی ہو گئی ، مقابلے میں غیروں کی زبانیں سیکھی نہیں بلکہ ’’اختیار‘‘کر لی گئیں ۔ جنہیں سلام میں پہل کرنے کی ممانعت اور تنگ راستوں کی طرف مجبور کردینے کا حکم تھا ان کی تعظیم و تکریم ہونے لگی،بلا تفریقِ مذہب و ملت سب کو بھائی بھائی قرار دیا گیا۔ مغرب نے اپنے ظلمت کدوں کو جن مصنوعی روشنیوں سے چمک بخشی اور جن فنون کے بل پر بخشی،انھی کا سیکھنا سکھانا زندگیوں کا ہدف بن گیا۔ایک طبقے نے مسلم علماء کے بجائے علمائے یہود و نصاریٰ سے علومِ اسلامیہ کے حصول کو فخر جانا۔ سہانے مستقبل کے خواب لیے، دارالکفرکے اُن باسیوں میں جا بسنا ___ جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا تھا اورجو گمراہ ہوچکے تھے___ معیارِ زندگی کی علامت بن گیا۔ پھر انھی ملکوں کے نظام اور قانون کی تعریفیں ہونے لگیں اور یہ تعریفیں کرتے وقت سوچا بھی نہ گیا کہ یہ مدح سرائی نواقضِ اسلام میں سے ہے۔ (کیا ایک چمکتے دمکتے بیت الخلاء کو ،جو سونے چاندی کی ملمع کاری کے باوجود بھی جائے غلاظت ہی رہتا ہے دارِقرار، عافیت کدہ یا ایک مثالی جگہ قرار دیاجاسکتا ہے؟) پرانے آقا دو سری جنگ ِعظیم کے بعد جو ’’آزادیاں‘‘، اطوار و اخلاق اور طرزِ حکمرانی دے کر گئے، وفاداروں نے اس کو مزید مضبوط کیا۔ نظام ہائے مملکت کو اقوام متحدہ کی صورت میں قائم بین الاقوامی جمہوری جبر کے زیر نگیں کر دیا گیا، اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں قانون سازی کے لیے ایوان سجے، کفری قوانین اور فیصلوں کی تنفیذ کے لیے عدالتیں بنیں، سود اور سٹے پر مبنی معاشی ڈھانچوں کے ذریعے امت کے وسائل کو عالمی طاغوتی اداروں کے ہاں رہن رکھوا دیا گیا ،خارجی و داخلی معاملات میں اہلِ اسلام کو ایسے معاہدات کاپابند ٹھہرایا گیا جن کے بارے میں اللہ نے کوئی سند نہیں اتاری تھی ۔ بیت ِ عتیق کے ربّ کو چھوڑ کر بیت ِابیض میں بیٹھے ہوئے فرعونوں کی بندگی اختیار کرنے والوں نے ایسے وطیرے اختیار کیے کہ پوری امت اپنے بد ترین دشمن کے ہاتھوں یرغمال بن گئی ،حقیقتاً آج رومیوں کا سردار ہی پوری اسلامی دنیا کا حاکم ہے ۔

اس تشبہ اور غلامی کے ہمارے اندازِ فکرپر جو اثرات پڑنے تھے وہ کس سے پوشیدہ ہیں؟احکامِ شریعت کی بے وزنی،ایمانی نقطۂ نظر کے بجائے اشیاء و حوادث کی ظاہر بین نگاہوں سے جانچ پرکھ اور مغربی تہذیبی اقدار کو ’’اسلامیانے‘‘ کی کوششیں ___اسی مرعوبیت کے کرشمات ہیں۔ مسلم دنیا میں اس مہم کے سرخیل ،متجدّدین اور رائے پرستوں کے مختلف طبقات ہیں۔ حالات کا تجزیہ ہو یا مسائل کی تشخیص اوران کا حل، ان کے نزدیک نصوصِ قرآن و سنّت اور ان کی مستند تشریحات سے زیادہ اہم عقل، منطق اور ’’تمام انسانیت‘‘ کی تسلی پر مبنی توجیہات ہوتی ہیں۔ یہ طبقہ اوّل تواسلامی فقہ کے اس تمام ذخیرے ہی کو لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل رکھنا چاہتا ہے جو مسلمانوں کو اہلِ سنت و الجماعت کے منہج سے جوڑے۔یا پھر اسلام کی ایسی تشریح و تعبیر اس کی جدو جہد کا مرکز ہوتی ہے جو دنیائے کفر کو مطمئن رکھے ، اُن کی اقدار کی نفی کے بجائے اسی میں سے اپنے لیے گنجائشیں نکالے ۔ شرعی اصطلاحات کی ایسی توضیح جس سے عالمی جاہلی نظام پر زد نہ پڑے اور خود اس عالمی نظام کی اصطلاحات اور اقدار کی ایسی تعبیر جس سے انھیں اسلامی جواز فراہم کیا سکے ،اور باور کرا یا جائے کہ ’’یہی کچھ تو اسلام ( چاہتا) ہے‘‘___ یہ کام ان کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔

خود مغربی مفکرین اس بات کو بکثرت دہرا چکے ہیں کہ ___مسلمانوں پر محنت سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ’’اسلام پر محنت کی جائے‘‘۔ لہٰذاچودہ سو سال پر پھیلے ہوئے عظیم ا لشّان علمی ذخیرے سے کاٹ کر ایک ایسے اسلام کا تعارف جو شرعی پابندیوں سے آزاد اور بے خار و بے ضرر (غیرذات الشوکۃ) ہو، رائے پرستوں کے ان طبقات کے ذریعے پورے عالمِ اسلام میں پھیلایا جا رہا ہے۔ تحقیقاتی اداروں اور نشریاتی چینلوں کے ذریعے اسلام کی یہ نئی تشریح پور ے زور و شور سے جاری ہے۔ نصابی کتب کا ایک ایک مضمون خود بول رہا ہے کہ اس کے پیچھے کیا ذہنیت کارفرماہے ۔سب سے اہم ہدف جو انھیں دیا گیا ہے وہ ’ولاء و براء‘ میں تحریف کا ہے حالانکہ ’’ولاء‘‘(یعنی محبت و نصرتِ مومنین) اور ’’براء‘‘(یعنی بغض وعداوتِ کافرین)___کا عقیدہ اہم ترین اسلامی عقائد میں سے ہے۔ حتیٰ کہ بعض اہلِ علم کے نزدیک توحید کے بعد،قرآنِ مجید میں جس چیز پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے وہ یہی عقیدہ ہے۔مگر یہ متجدّدین مسلمانوں کے ذہنوں سے اس عقیدے کو کھرچ دینا چاہتے ہیں اور اس کے بجائے کفار سے موالات اور مومنین و مجاہدینِ صادقین سے براء ت ___ کی فضا عام کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ اپنے فضل سے ہمیں اور ہماری آئند ہ نسلوں کواس فکری ارتداد سے بچا ئے۔ ﯚرَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُﯙ

مسلم معاشروں کی مغربی تہذیب سے اثر پذیری کا ایک اور افسوس ناک پہلو موضوعِ دعوت کی تبدیلی کی صورت میں سامنے آیا۔ پختہ نالیاں، مضبوط کھمبے، کشادہ سڑکیں، آبی وسائل، رسائل کے ذرائع اور ان جیسی تمدنی سہولیات کی فراہمی انسانیت کی عظیم خدمت قرار پائی۔ اس کام کو بڑی عبادت کا درجہ مل گیا اور امت کے بہترین دعوتی، مالی و انسانی وسائل اس عمل کے لیے جھونک دیے گئے۔ اس غلو کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ جنہیں امت کی اصلاح کرنا تھی، نیکیوں کا حکم دینا تھا، برائیوں سے روکنا تھا، تلاوتِ آیات، تزکیۂ نفوس، تعلیمِ کتاب و سنت کی روشنی کو عام کرکے لوگوں کوجنت کے دروازوں کی طرف بلانا تھا ،جہاد کا علم اُٹھانا تھا___ان کی صلاحیتوں اور مصروفیات کا بیشتر حصہ ایسی ہی کامیابیوں کے حصول میں کھپ گیا ۔ ’’فرائض کی ادائیگی‘‘کی دعوت کی جگہ ’’حقوق کی فراہمی‘‘ کے وعدوں نے لے لی۔دل اگر اس پر خون کے آنسو ر وئیں تو انھیں حق ہے کہ انھی کی زندگی کا تو سامان تھا جو جاتا رہا۔

؏وہ جو بیچتے تھے دوائے دل، وہ دکان اپنی بڑھا گئے

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

Previous Post

کفار کے ساتھ تعلقات کی شرعی حیثیت

Next Post

شیخ اسامہؒ کے کارہائے نمایاں

Related Posts

اَلقاعِدہ کیوں؟ | چوتھی قسط
فکر و منہج

اَلقاعِدہ کیوں؟ | پانچویں قسط

13 اگست 2025
مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | چھٹی قسط

13 اگست 2025
کفار کا معاشی بائیکاٹ | چوتھی قسط
فکر و منہج

کفار کا معاشی بائیکاٹ | چوتھی قسط

13 اگست 2025
کیا ریاست (State) اسلامی ہو سکتی ہے؟
فکر و منہج

کیا ریاست (State) اسلامی ہو سکتی ہے؟

13 اگست 2025
ہم بندگانِ خدا شریعت کے پابند ہیں!
فکر و منہج

ہم بندگانِ خدا شریعت کے پابند ہیں!

17 جولائی 2025
مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | پانچویں قسط

13 جولائی 2025
Next Post
اہلِ حق اور اہلِ باطل کے درمیان دورانِ معرکہ مشاورت نہیں ہوتی!

شیخ اسامہؒ کے کارہائے نمایاں

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version