نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home تذکرۂ عمرِ ثالث: ملا عمر مجاہدؒ

ملا محمد عمر مجاہدؒ…… صبروتوکل کا پیکر!

مولوی عبد الجبار عمری by مولوی عبد الجبار عمری
23 مئی 2023
in تذکرۂ عمرِ ثالث: ملا عمر مجاہدؒ, اپریل و مئی 2023
0

امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہدؒ کے بارے میں علمائے کرام اور مسئول بھائیوں نے کافی گفتگو کی ہے اور ان کی گفتگو کے بعد مجھے میری گفتگو کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، لیکن چونکہ ملا صاحبؒ1 کے آخری ایام کا ساتھی میں تھا اور بھائیوں کی خواہش تھی کہ آپ ؒ کے آخری بارہ سال میں ہجرت کی زندگی کے اسرار و حالات دنیا بھر کے لوگوں اور اپنے بھائیوں کے سامنے بیان کروں۔ اگرچہ میں ابھی تک میڈیا پر نہیں آیا تھا، اور یہ پہلا موقع ہے، میں اللہ رب العزت کی حمد و شکر ادا کرتا ہوں کہ اس سٹیج سے کل تک ملا صاحبؒ کے بارے میں پراپیگنڈا ہوا کرتا تھا کہ وہ پاکستان میں ہیں، پاکستانی استخبارات کے زیرِ اثر زندگی گزار رہے ہیں اور ان کی رحلت کراچی میں ہوئی۔ آج الحمدللہ اسی سٹیج سے حق کی آواز بلند ہو رہی ہے۔ دشمن کا بیس سالہ پراپیگنڈا آج سب کے سامنے عیاں ہے، ملا صاحبؒ کے حالاتِ زندگی کو دیکھا جائے تو آپ ؒ کے کافی واقعات ہیں، لیکن چونکہ رمضان کا مہینہ ہے، بھائی بھی تھکے ہوئے ہیں اس لیے آپ ؒ کے حالاتِ زندگی کو مختصراً عرض کروں گا۔

اس صدی میں ملا صاحبؒ کے توکل، دیانت اور دینی غیرت کو دیکھا جائے تو ان کا کوئی ثانی نہیں۔ آپ ؒ اللہ تعالیٰ کے ایک خاص، صابر اور غیرتِ اسلامی سے سرشار بندے تھے۔ آئیے! دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ملا صاحبؒ کو کس عظیم صبر سےنوازا تھا۔ اللہ تعالیٰ اپنے قرآن پاک میں فرماتے ہیں: وَاصْبِرُوْا اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ؁ ’’صبر سے کام لو، یقین رکھو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ ملا صاحبؒ نے اپنی تمام تر مشکلات اور زندگی کے تمام امور میں، چاہے وہ امارت سے منسلک ہوں یا ساتھیوں سے اور گھر والوں سے منسلک اپنے تمام امور میں صبر اختیار کیا تھا۔ دوسرا یہ کہ ملا صاحبؒ کامل ترین توکل کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ اپنے کلامِ پاک میں فرماتے ہیں: وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُه؁ ’’جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرے، تو اللہ اس (کا کام بنانے) کے لیے کافی ہے‘‘۔

ملا صاحبؒ نے اپنی زندگی میں جو کارنامے سرانجام دیے؛ آپ ؒ نے روس کے خلاف جہاد کیا، افغانستان کی سرزمین پر شریعت کو نافذ کیا، پھر تیرہ سال دنیا بھر کے کفار، یہود و نصاریٰ اور منافقین کے خلاف مزاحمتی تحریک کی قیادت کی، اور ہمارے گمان کے مطابق عاقبت میں اللہ رب العزت نے ان کو سرفراز کیا۔ آپ کے صبر اور توکل کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس عظیم کام کے لیے چنا۔ صبر اور توکل ایمانِ کامل کا نتیجہ ہے۔ ملا صاحبؒ کو یہ کامیابیاں صبروتوکل کی بدولت ملی، وہ صبروتوکل جو ایمانِ کامل کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے۔ تو ملا صاحبؒ کے صبروتوکل اور دیانت کا کافی تذکرہ ہے، جس طرح شیخ صاحب نے کہا کہ آپ ؒ کا یہ تذکرہ ایک کتاب میں قلم بند نہیں ہوسکتا۔

ملا صاحبؒ قندھار میں تھے۔ یہ وہ مشکل ایام تھے کہ ایمان کے ساتھ دین پر عمل کرنا انگارے کو ہاتھ میں لینے کے مترادف تھا۔ رمضان المبارک کے مہینے کی بیسویں رات تھی، میں قندھار چلا گیا۔ رات میں نے ’زاڑہ گمرک‘ میں گزاری، صبح جب میں نے شہر کے حالات دیکھے تو دشمن کے سامنے مزاحمت کرنا ناممکن تھا۔ میں نے سوچا ان مشکل حالات میں ملا صاحبؒ کی حفاظت کرنی چاہیے کیونکہ دشمن کی پیش قدمی کا مقابلہ کرنا ناممکن ہے۔ میں نے قندھار میں شہید نافذؒ کو ڈھونڈا، وہ شہدا چوک سے نیچے ایک سرائے تھی، اس میں بیٹھے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا آپ کی ملا صاحبؒ سے ملاقات تو ہوتی ہوگی، آپ میری طرف سے ملا صاحب کو ایک پیغام دے دیجیے گا، وہ یہ کہ ملا صاحبؒ کو میری طرف سے سلام کہیے، سلام کے بعد ان سے عرض کیجیے گا کہ اگر آپ مناسب سمجھ کر جنگ کی قیادت میرے ہاتھ میں دیتے ہیں تو دشمن کی پیش قدمی روکنے کے لیے آج جنگ کا دن ہے۔ ہم آپ کے حکم کے منتظر ہیں اور آپ کی اتباع کریں گے، نتائج اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اور اگر آپ کی طرف سے جنگ کا حکم نہیں تو پھر ہمیں چاہیے کہ آپ کو محفوط مقام تک منتقل کریں، ہلمند غیر ملکی افواج کے ہاتھ میں ہے، ارغنداب اور خواجہ عمری میں امریکی قابض ہوچکے ہیں، بولدک مخالفین کے ہاتھ میں ہیں، باقی زابل کا راستہ بچا ہے تو وہ بھی دوپہر تک بند ہو جائے گا۔ میں نے نافذ شہیدؒ کو یہ پیغام دیا۔ آپ ؒ ملا صاحبؒ کی طرف چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد میں دیکھتا ہوں کہ نافذ شہیدؒ اور ملا شیرین اخوند (جو کہ ابھی وزارتِ دفاع میں استخبارات کے مسئول ہیں) آگئے۔ ہم تینوں گاڑی میں بیٹھ گئے۔ ملا شیرین اخوند نے مجھے کہا؛ ملا صاحب کو سنبھال لوگے؟ میرے منہ سے بے اختیار یہ بات نکلی کہ ان شاء اللہ اپنی زوجہ کی چادر اٹھا کر اس کے نیچے ملا صاحب کو چھپا لوں گا۔ ملا شیرین اخوند اور نافذ شہیدؒ میری یہ بات سن کر آبدیدہ ہوگئے۔ ہم نے سفر شروع کردیا اور ملا صاحبؒ جس گھر میں موجود تھے ادھر پہنچ گئے۔ آپ ؒ، ملا گل آغا اخوند (جو کہ ابھی اس مجلس میں بیٹھے ہیں) اور ملا عبدالسلام راکٹی اور ان کے علاوہ کافی ساتھی تھے، ان کے ساتھ بیٹھے تھے۔ جس طرح شیخ صاحب نے پہلے ذکر کیا کہ ملا صاحبؒ کو اللہ تعالیٰ نے فراست سے نوازا تھا، جی ہاں ایسا ہی تھا!

میرا ملا صاحبؒ کے ساتھ اتنا قریبی تعلق نہیں تھا۔ میں بغلان کا والی تھا، اس کے بعد سمنگان کا والی بن گیا، اور اس کے بعد دوبارہ بغلان کا والی بن گیا۔ میرا ملا صاحبؒ کے ساتھ فقط اتنا تعلق تھا کہ ایک دفعہ میں کچھ فائلیں ملا صاحب کے پاس دستخط کے لیے لایا تھا۔ اس کے علاوہ ملا صاحبؒ کے ساتھ کوئی خاص جان پہچان نہیں تھی۔ لیکن جب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، سلام کے بعد حال احوال پوچھا، پھر اس کے بعد ملاصاحبؒ نے بہت سادہ الفاظ میں مجھ سے پوچھا: ہمیں سنبھال لوگے؟ میں نے بھی سادہ الفاظ میں جواب دیا کہ اصل حفاظت کرنے والی تو اللہ رب العزت کی ذات ہے، لیکن میرے ذمے آپ کی حفاظت کی جو مسئولیت ہے وہ میں آخری دم تک احسن طریقے سے ادا کروں گا۔ اس کے بعد ہم نے زیادہ گفتگو نہیں کی۔ فوراً ترتیب بنائی، کافی لوگ مجھ سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ ملاصاحبؒ نے اتنے افراد میں سے آپ کا انتخاب کیوں کیا؟ میں کہتا ہوں اس میں میرا کوئی کمال نہیں، یہ اللہ رب العزت کا انتخاب تھا۔ اور ملاصاحبؒ کی اپنی بھی عادت تھی جس کام یا راستے کا انتخاب کرتے پھر اس سے پیچھے نہیں ہٹتے تھے، یہاں تک کہ آپ کامیاب ہوجاتے۔ آپ ؒ نے میرے اوپر اعتماد کیا، میں فقط ایک صوبے کا والی اور امارت کا ایک عام فرد تھا۔ آپ ؒ نے مجھے ہدایت کی کہ آپ جا کر ’نساجہ کارخانے‘ کے ساتھ قریب کھڑے ہوجائیں، پیچھے سے میں آپ کے پاس آجاتا ہوں۔ رمضان المبارک کی بیس تاریخ تھی، دوپہر کے گیارہ بج رہے تھے۔ میں متعلقہ جگہ تک پہنچا، پیچھے سے ملاصاحبؒ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ سراچا گاڑی (ڈگی بند ٹویوٹا کورولا)میں آگئے۔ میں ان سے آگے ہوگیا اور یہ میرے پیچھے آرہے تھے۔ ’جیلدک‘ کے مقام پر ہم نے نمازِ ظہر ادا کی۔ جب میں سنتوں کے لیے کھڑا ہوگیا تو آپؒ نے کہا؛ سنتیں نہ پڑھو، ہم مسافر ہیں۔ ہم نے دو رکعات نماز پڑھی اور آگے سفر شروع کردیا۔ زابل کے شہر ’قلات‘ میں جب پہنچے تو یہاں ملاصاحبؒ کی گاڑی پنکچر ہوگئی۔ ہم نے پنکچر لگایا اور عصر کے وقت ہم اپنے گاؤں پہنچ گئے۔ ہمارا گھر صوبہ زابل کے ضلع سیوری کے ’مجزو‘ گاؤں میں ہے۔ ہم نے گھر پر رات گزاری۔ صبح ملا صاحبؒ نے مجھے کہا کہ زابل کے تمام عسکری کماندانوں کو یہاں مدعو کرو۔ میں نے ان کی ہدایت کے مطابق سب کو یہاں اپنے گھر بلایا۔ ملاصاحبؒ نے ہمارے گھر پر ان کے ساتھ عمومی مشورہ کیا۔ ہمارا سارا گاؤں گاڑیوں سے بھرا ہوا تھا، پورے علاقے میں بات پھیل گئی کہ امیرالمومنین آئے ہوئے ہیں۔ اس بات میں ایک خاص نقطے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہا ہوں اور وہ نقطہ یہ ہےکہ اس گاؤں میں ملا صاحبؒ کی مشہوری اور بعد میں یہی گاؤں ملا صاحب کو اپنی حفاظت میں چھپا لیتا ہے۔ ملا صاحب نے مجلس میں موجود تمام ساتھیوں کو یہ ہدایت فرمائی:

’’آپ سب اپنی حفاظت کریں، اور مطمئن رہیے۔ ان شاء اللہ! اللہ تعالیٰ ہمیں دوبارہ سرخرو کرے گا۔ یہ ہمارے اوپر ایک ابتلا ہے اور ان شاء اللہ اس کا اختتام ہماری کامیابی پہ ہوگا۔ ہم نے جب بھی کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا تو ہم آپ کو اطلاع دے دیں گے۔‘‘

مجلس برخاست ہوگئی اور سارے مہمانوں نے اپنی راہ لی۔ ہم نے دو تین راتیں ادھر گزاری۔ ملا صاحبؒ کو تو اللہ نے ایسی حکمتوں سے نوازا تھا جس کو سمجھنا ہمارے لیے مشکل تھا۔ ملا صاحبؒ کو اندازہ ہوا کہ یہاں اس گاؤں میں ہمارا راز افشا ہوگیا ہے، پورے گاؤں میں یہ بات گردش کررہی ہے کہ ملا صاحب ادھر موجود ہیں، اور آئندہ ہم نے ادھر اس گھر میں ہی رہنا ہے، لہٰذا اس بات کو مخفی رکھنا زیادہ اہم ہے۔ ان سب حالات کو دیکھتے ہوئے ملا صاحبؒ نے مجھے کہا؛ چلو ’شین کئی‘ چلتے ہیں۔ ہم نے عشاء کی نماز پڑھی، میرے پاس ایک لینڈ کروزر گاڑی تھی ہم اس میں بیٹھ کر شین کئی چلے گئے۔ شین کئی میں ملا صاحبؒ کی بہن کا گھر تھا۔ مجھے وہ وقت یاد آرہا ہے، ہم عوام کے خوف سے گاؤں کے اندر گاڑی نہیں لے جا سکتے تھے۔ ہم نے گاڑی گاؤں سے باہر کھڑی کردی۔ ملا صاحبؒ کے پاس سردی سے بچنے کے لیے ایک پرانی قبا2 تھی، جسے آپ نے اپنے کندھوں پہ ڈالا ہوا تھا اور آپ شدید ٹھنڈ کی وجہ سے کانپ رہے تھے۔ ہم نے گھر کے دروازے پہ پہنچ کر دستک دی، اندر سے آواز آئی کون ہے، ملا صاحب نے اپنا نام لیا۔ انہوں نے دروازہ کھولا اور ہم کمرے میں جاکر بیٹھ گئے۔ میں نے ملا صاحبؒ کو ادھر چھوڑ کر اپنے گھر کی راہ لی اور اسی رات واپس اپنے گاؤں پہنچ گیا۔

دو دن بعد میں ملا صاحبؒ سے ملنے گیا تو ملا صاحبؒ نے کہا کہ کسی کے علم میں لائے بغیر اب واپس ’سیوری‘ چلتے ہیں۔ ہم نے مغرب کی نماز پڑھی۔ سراچہ گاڑی میں بیٹھ گئے اور واپس سیوری آگئے۔ سیوری گاؤں میں میرے ایک دوست ملا کبیر اخوند شہیدؒ کا گھر تھا، ہم نے اس گھر میں اٹھارہ دن گزارے۔ اس کے بعد میرے ایک استاد ہیں استاد عبدالصمد، ان کے گھر چلے گئے اور وہاں ملا صاحب نے ساڑھ تین سال گزارے۔

میں اپنے گھر میں رہتا تھا اور ملا صاحب سے ملنے مہینے میں ایک بار چلا جاتا تھا۔ ایک دن میں اپنے گھر میں بیٹھا ہوا تھا کہ میرے دوست شیر علی آگئے اور کہا کہ ملا صاحبؒ آئے ہوئے ہیں۔ میں حیران ہوگیا، میں نے پوچھا ملا صاحبؒ کا کیسے آنا ہوا۔ خیر میں آپ ؒ سے ملنے چلا گیا۔ ملا صاحبؒ اسی کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے جس کمرے میں ہم نے چار سال قبل زابل کے عسکری کماندانوں کا اجلاس بلایا تھا۔ میں نے ملا صاحب سے ان کا حال احوال پوچھا۔ آپ ؒ نے مجھ سے پوچھا: گھر میں میرے لیے کمرہ بنایا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں بنایا ہے۔ پھر ملا صاحب اُٹھ گئے اور کہا چلو چلتے ہیں۔ میں ملا صاحب کو ان کے کمرے میں لے آیا اور پھر ہمارے گھر میں ملا صاحب نے ساڑھے آٹھ سال گزارے۔ اس حال میں کہ میں خود بھی دشمن کو مطلوب تھا۔ اس عرصے میں ملا صاحب نے ضلع سیوری، تغر اور سور زنگل کی مسئولیت مجھے دی تھی۔ میرا گھر بھی پورے علاقے میں معروف تھا۔ لیکن الحمدللہ ہم نے اس گھر میں آٹھ سال گزارے۔

یہ مختصر روداد تھی جو میں نے سنائی، اب اس بات کی طرف آتا ہوں کہ ملا صاحب نے ادھر کیسی زندگی گزاری۔ امریکیوں کا کیمپ ہمارے گاؤں سے قریب تھا۔ جب مجاہدین امریکیوں پر کارروائی کرتے تو امریکی جوابی فائرنگ شروع کرتے تھے اور ان کی گولیاں ہمارے گاؤں تک پہنچتی تھی۔ امریکی جب گشت پر باہر نکلتے یا ان کے ایمرجنسی الارم بجتے تھے تو ان کی آوازیں ہمیں گھر بیٹھ کے سنائی دیتی تھی۔ میں جب ملا صاحبؒ کے لیے کھانا لے جاتا تھا تو کیمپ کے اوپر لگائے گئے سکیورٹی غباروں (Security Balloon) سے بچنے کے لیے دیوار کے قریب چلتا تھا۔ ہمارے گھر امریکی تلاشی کے لیے دس بار آئے۔ ان تلاشیوں میں دو بار مقامی فوجی ملا صاحب کے اس کمرے میں آئے جہاں آپ رہتے تھے۔ الحمدللہ ہم نے کمرے کے اندر ایک خفیہ جگہ بنائی تھی۔ جب بھی تلاشی ہوتی، ہم اس کے اندر چلے جاتے تھے۔ وہ بھی کوئی خاص محفوظ جگہ نہیں تھی، بس اللہ تعالیٰ نے ہماری حفاظت کے لیے ایک ذریعہ بنایا تھا۔

ملا صاحبؒ نے میرے گھر جو زندگی گزاری، وہ حیران کن ہے۔ میں نے قطار میں تین کمرے بنائے تھے۔ ملا صاحب کے کمرے کے ساتھ میرا کمرہ تھا۔ جب میرے بچوں کی پیدائش ہوئی تو ملا صاحب نے ان کے نام رکھے۔ آپ کا میرے بچوں کے ساتھ اس حالت میں وقت گزرا کہ میرے بچے آپ کی آنکھوں کے سامنے بیٹھنے کی عمر تک پہنچ جاتے، پھر زمین پہ قدم رکھ کر بڑے ہوجاتے۔ یہاں تک کہ میرا ایک بیٹا جس کا نام محمد ہے آپ کی آنکھوں کے سامنے بڑا ہوگیا اور ابھی وہ جوان ہے۔ وہ سارا دن چھت کے اوپر ہمارے لیے پہرا دیتا تھا۔ میرے بچے جب میرے کمرے سے نکلتے تھے تو دوسرے کمرے میں ملا صاحبؒ ہوتے تھے۔ بچے وہاں آپ ؒ کے ساتھ بیٹھتے تھے۔ ملا صاحبؒ ان کے ساتھ پیار کرتے اور ان کو ٹافیاں دیتے تھے۔ میرے ساتھ گھر میں میرے چار بھائی بھی رہتے تھے لیکن ان آٹھ سالوں میں کبھی بھی میرے بچوں کے منہ سے یہ بات نہیں نکلی کہ ہمارے گھر میں ایک بابا جی رہتے ہیں جو ہمارے ساتھ پیار کرتے ہیں اور ہمیں ٹافیاں دیتے ہیں۔ میرے والد صاحب کا کمرہ ملا صاحب کے کمرے سے دس میٹر دور تھا۔ اس سارے وقت میں میرے والد صاحب کو ملا صاحبؒ کا پتہ نہیں چلا۔ میرے گھر میں تین بھابھیاں ہیں، ان تینوں کو اس بات کا علم نہیں تھا۔ میرے گھر والوں اور بچوں کے علاوہ کسی کے علم میں نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی حفاظت ایسے کرتا ہے۔ ہم نے قرآن مجید اور تاریخ میں پڑھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیائے کرام کی حفاظت پانی اور آگ کے اندر کی۔ ہم نے تاریخ میں پڑھا تھا اور آج اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء اللہ کی حفاظت ہمارے آنکھوں کے سامنے دکھا دی۔ جب ایک دشمن پورے کرۂ ارض پر اپنے تسلط کا دعویٰ کررہا ہو، اس کے پاس ٹیکنالوجی حد سے زیادہ ہو، پائے دار اقتصاد کا مالک ہو، اس نے ایک مسلمان کے خلاف جنگ شروع کی ہو، اس کے سر کی قیمت مقرر کی ہو۔ ابھی کچھ دنوں پہلے کی بات ہے، میں نے بی بی سی پہ سنا کہ امریکیوں کے پاس افغانستان میں ستر ہزار جواسیس تھے۔ پھر ایک مردِ قلندر کا توکل دیکھیے کہ وہ کھڑا ہوجاتا ہے، اس نے جس گاؤں میں اجلاس کیا ہو، جہاں اس کے آنے کے خوب چرچے ہوئے ہوں، پھر ایک ایسے آدمی کے ساتھ جس کے بارے میں امریکی بھی جانتے ہیں کہ آخری وقت میں ملا صاحب قندھار سے زابل کی طرف ملا عبدالجبار کے ساتھ آئے تھے۔ آپ کی وفات کے بعد جب میں گرفتار ہوگیا تو میں نے امریکیوں کو ساری تفصیل سنائی۔ پھر ایک فوجی اڈے کے قریب رہنا بغیر اسلحے کے۔ میرے پاس صرف ایک پستول تھی، وہ بھی میں نے گھر سے باہر ایک محفوظ جگہ رکھی ہوئی تھی۔ ایک دن میں نے آپ ؒ سے پوچھا: ملا صاحب! اسلحہ لے آؤں؟ آپ نےجواب دیا: آپ کی مرضی ہے۔ میں نے جواب میں کہا: اگر آپ نے میری مرضی پہ چھوڑ دیا تو پھر مجھے آپ کے توکل پہ یقین ہے۔ صرف ایک پستول تھی وہ بھی میں نے احتیاطاً اپنے پاس رکھی تھی کہ کہیں امریکیوں کے ہاتھ نہ لگ جائے۔

علمائے کرام بیٹھے ہیں، ہم اگر قرآن مجید پڑھیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیا کی حفاظت ہمیشہ اپنی کمزور مخلوق سے کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کے دشمن کو ایک چھوٹے مچھر کے ذریعے سے شکست دی۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے ملا صاحبؒ کی حفاظت کا کیا ذریعہ بنایا تھا؟ آپ سب کے سامنے بے ادبی معاف! ہمارے دو خادم تھے جن میں سے ایک خاتون تھی یعنی میری بیوی اور دوسرا میرا بیٹا محمد تھا۔ دیکھیے! ہم اگر دیکھیں تو انسانوں میں سب سے کمزور ذات خواتین اور بچوں کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو ہماری خدمت کے لیے چنا تھا۔ محمد چھت کے اوپر پہرا دیتا تھا، جب بھی چھاپہ آجاتا تو وہ ہمیں خبر دیتا اور جب ہم خطرے کے وقت خفیہ جگہ ہائیڈ کے اندر جاتے تھے تو میری گھر والی آکر ہمارے قدموں کے نشان مٹا دیتی تھی اور غسل خانے کے اندر ہائیڈ کے اوپر جو الماری تھی اس میں برش اور صابن رکھ دیتی تھی۔ پھر جب امریکی واپس چلے جاتے تو میرے گھر والے ہمیں آواز دیتے کہ باہر آجائیے، امریکی واپس چلے گئے ہیں۔ تو یہ ہماری فوج تھی، اللہ تعالیٰ نے اس ضعیف مخلوق کے ذریعے ہماری حفاظت فرمائی۔ پھر وہ مکان و جگہ، کیا عقل یہ تسلیم کرتی ہے کہ یہاں کوئی محفوظ رہے گا؟ اس موضوع پر میں اور ملا صاحبؒ تبادلۂ خیال کرتے تھے۔ ملا صاحبؒ کہتے تھے:

’’یہاں عقل تسلیم نہیں کرتی کہ ہماری حفاظت اللہ تعالیٰ اس چھوٹی سی جگہ پر کریں گے، لیکن اللہ رب العزت نے ہماری حفاظت کا ارادہ کیا ہے اسی وجہ سے ہم محفوظ ہیں۔‘‘

جب اوبامہ کی حکومت آگئی اور اس نے مزید تیس ہزار فوجی افغانستان بھیجے تو اس وقت ہمارے علاقے میں فوجی چیک پوائنٹ کافی زیادہ ہوگئے۔ گھر گھر تلاشیاں بھی کافی زیادہ ہوگئیں۔ تو ایک دن میں عصر اور مغرب کے درمیان باہر بیٹھا ہوا تھا، اوپر ڈرون گھوم رہا تھا، ملا صاحب بھی باہر بیٹھے تھے۔ میں نے آپ ؒ سے کہا: ملا صاحب! یہ ڈرون آپ کے سر کے اوپر گھوم رہا ہے اور آپ باہر بیٹھے ہیں، اگر آپ کو تکلیف نہ ہو تو اندر کمرے میں چلے جائیں۔ ملا صاحبؒ نے جواب دیا: ’’ان فضائی چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے اندھا کردیا ہے، ان کو میں نظر نہیں آتا‘‘۔ میں نے جب آپ کی یہ بات سنی تو میری پریشانی ختم ہوگئی، اس کے بعد میں اس بارے میں کبھی فکرمند نہیں ہوا۔

ایک دن میں نے ملا صاحب کو کہا کہ ہمارے کمروں کے سامنے برآمدہ نہیں ہے۔ ایسا نہ ہو رات کو امریکی چھاپہ آجائے، وہ ہماری چھتوں پہ کھڑے ہوں اور برآمدہ نہ ہونے کی وجہ سے میرا اور آپ کا رابطہ کٹ جائے۔ آپ ؒ نے جواب دیا: ان شاء اللہ کچھ نہیں ہوتا، برآمدہ بنانےکی ضرورت نہیں ہے۔ یہی ملا صاحب کا توکل تھا، یہی ان کی درویشی تھی جس کی بدولت اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بندے کی حفاظت فرمائی۔ الغرض یہ ملا صاحب کا صبروتوکل تھا جو آپ ؒ کے کامل ایمان کا نتیجہ تھا۔

امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کی سیرت کو دیکھتے ہوئے ہمارے اوپر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟ ملا صاحب نے تو اس دین کی خاطر صبر، توکل اور غیرت کا مظاہرہ کرکے اپنے اللہ اور رسولﷺ کی محبت کو پالیا۔ کیا ہمارے لیے صرف ملا صاحبؒ کی تعریفیں کرنا کافی ہے؟ نہیں بھائیوں یہ کافی نہیں ہے، ہمیں چاہیے خصوصاً مسئول ساتھیوں کو کہ وہ ملا صاحبؒ کی سیرت سے سبق اخذ کریں۔ ملا صاحب نے اپنے کامل ایمان کی بدولت کفار کا مقابلہ کیا، اپنی عوام کے ساتھ خیرخواہی کی اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ وفا نبھائی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم آپ ؒ کی مانند اپنے ایمان کو کامل بنائیں۔ ایمان کو کامل بنانے کے کیا شرائط ہیں؟ جب آزمائش آجائے تو اس پر توکل اور صبر اختیار کرو۔ وقت کم ہے، یہ امیرالمومنین رحمہ اللہ کے چند اور مختصر سوانح تھے جو میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیے۔ آپ سب کو اللہ رب العزت کے سپرد کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو ملا محمد عمر رحمہ اللہ کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق دے اور اللہ تعالیٰ ہمیں آپ ؒ کی مانند صبروتوکل سے نوازیں۔ ومن اللہ توفیق!

٭٭٭٭٭


1 زیرِ نظر بیان میں مولوی عبدالجبار صاحب نے امیرالمومنین ملا محمد عمر مجاہدؒ کا ذکر ’’ملاصاحب‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ افغان معاشرے میں ملا محمد عمر مجاہدؒ کو ’’لوئے ملا صاحب‘‘ ، یعنی ’’بڑے ملا صاحب‘‘کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔(ادارہ)

2 جسے پشتو میں ’’چپان‘‘ کہتے ہیں۔

Previous Post

اہلِ حق اور اہلِ باطل کے درمیان دورانِ معرکہ مشاورت نہیں ہوتی!

Next Post

ایسا ہوتا ہے اسلام کا حکمراں……!

Related Posts

أَلَيْسَ مِنَّا رَجُلٌ رَّشِيدٌ؟!
اداریہ

أَلَيْسَ مِنَّا رَجُلٌ رَّشِيدٌ؟!

23 مئی 2023
اُس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا!
اداریہ

اُس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا!

23 مئی 2023
فضائلِ نماز | پانچویں قسط
تزکیہ و احسان

فضائلِ نماز | چوتھی قسط

23 مئی 2023
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

علاماتِ کبریٰ: [پہلی نشانی] خروجِ دجّال | دسواں درس

23 مئی 2023
عیدالفطر کی مناسبت سے امیرالمومنین شیخ ہبۃ اللہ اخندزادہ حفظہ اللہ کا پیغام
حلقۂ مجاہد

امیر المومنین شیخ ہبۃ اللہ اخوندزاہ نصرہ اللہ کی ہدایات……مجاہدین کے نام

23 مئی 2023
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: ستائیس (۲۷)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: اٹھارہ ۱۸

23 مئی 2023
Next Post
ایسا ہوتا ہے اسلام کا حکمراں……!

ایسا ہوتا ہے اسلام کا حکمراں……!

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version