اللہ تعالیٰ نے زندگی میں ایک اور ربیع الاوّل بھی دکھا دیا۔ الحمد للہ، کہ ایک بار پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ محبت اور عقیدت کا جذبہ تازہ کرنے کا موقع ملا۔ انہی جذبات کی بدولت ایک ادنیٰ سے امتی کے دل میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عزت و ناموس پر اپنا تن من دھن ،سب کچھ فدا کرنےکا عزم پیدا ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا رتبہ بھی یہی ہے کہ ان پر ہمارا سب کچھ قربان ہو، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا حق بھی۔ ہر سال ربیع الاول کی یہی تاثیر ہوتی ہے۔
لیکن ہم من حیث القوم اپنے حکمرانوں پر قربان ہوئے جا رہے ہیں۔ خوشی سے قربان ہوں تو بھی کوئی بات ہے، لیکن ہماری حالتِ زار قربان ہونے سے زیادہ ’’قربان کیے جانے‘‘ کا مفہوم پیش کر رہی ہے۔ ہم اپنا خون پسینا ایک کر کے کمائیں اوربجلی، آٹا، گھی، گیس اور پٹرول جیسی بنیادی ضروریات کو عیاشی کا سامان سمجھ کر مہنگے داموں خریدیں اور یوں اپنے ملک پر قربان ہوئے جائیں۔ معذرت، ’’قربان کیے جائیں‘‘۔ یہ قربانیاں ہم اپنے حکمرانوں کی نیاز سمجھ کر ثواب کی نیت سے دیں۔
نہیں نہیں، اپنی مجبوری ہے جی!
بہر حال یہ حکمران بھی تو ’اپنے‘ ہی ہیں؟
کیا کہا؟ اپنے؟
ہاں، نہیں، سارے تو اپنے نہیں ہیں…
(اگر اپنے نہ ہوتے تو ۷۵ سالوں سے حکومت نہ کر رہے ہوتے!)
لیکن فوج تو اپنی ہی ہے! ہماری پیاری پاک فوج!
تو پھر مشکل کس بات کی ہے؟ تھوڑا صبر سے کام لیں، حکمران اور فوج جب اپنے ہیں تو اپنوں پر تو بندہ سب کچھ لْٹاتا ہے۔ ہم بھی لْٹا رہے ہیں!
لیکن لْٹایا تو تب جاتا ہے جب جیب میں کچھ لْٹانے کو ہو بھی۔ اب ہم کیا لْٹائیں؟
تو یہ اتنی مہنگی چیزیں جو آپ خرید رہے ہیں آپ کے خیال میں اتنی مہنگی کیوں ہیں؟ آج سے پہلے، آج تک اتنے پیسے جو ایک ایک چیز کے آپ بھرتے رہے ہیں، یہ جاتے کدھر ہیں؟ اور جو آئندہ بھریں گے وہ کہاں جائیں گے؟
اسٹیبلشمنٹ کی جیب میں!
تو آپ لْٹا ہی تو رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟
آپ ان پر لْٹا رہے ہیں اور وہ آپ کو لوٹ رہے ہیں۔کچھ زیادہ فرق تو نہیں ہے!
بس نیت صاف رکھیں، یہ سب ان ’اپنوں‘ کی نیاز ہے۔
پاکستان میں گرمی بھی بہت ہے اور لوڈ شیڈنگ بھی۔ اور دونوں کے ساتھ ساتھ مچھر بھی بہت ہیں۔یہ مچھر جب کاٹتے ہیں تو خون چوستے ہیں۔ اور اگر ہوس میں آ کر یہ اپنی جسامت سے زیادہ پی جائیں، تو ان پر سچی میں ’پی جانے‘ والی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اور ہولے ہولے اِدھر اْدھر اڑتے پھرتے بھنبھناتے رہتے ہیں۔انہیں ہوش تب آتا ہے جب کہیں زور سے ٹکر لگتی ہے،لیکن ہوش آنے کا فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ فوراً ہی مربھی جاتے ہیں۔ اور ان کے پیے ہوئے خون کے قطرے پھیل کر لال دھبہ بنا دیتے ہیں۔یہ نشان ہے ضائع ہو جانے کا۔ خون رائیگاں جانے کا۔
ہماری ’اپنی‘ پیاری فوج اور ہمارے ’اپنے‘ حکمران بھی ہمارا خون چوستے ہیں۔ چوس چوس کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ اور اتنا سارا پی جانے سے نشہ ہونا تو لازمی ہے۔لیکن ڈھیٹ ایسے ہیں کہ ٹکراتے نہیں، بس اڑتے پھرتے رہتےہے۔ہمیں کبھی کبھی دور سے بھنبھنانے کی آوازیں آجاتی ہیں۔لیکن جب ان کا نشہ ٹوٹتا ہے، توندوں میں بھرنے کی سپلائی لائن جب تھوڑی سی خالی ہوتی ہے، تو پھر کاٹنے اور چوسنے پہنچ جاتے ہیں۔ بہانے ہزاروں بناتے ہیں۔ہمیں دکھاتے ہیں کہ ہم دیوالیہ ہونے والے ہیں، اِدھر سے اُدھر سے بھیک مانگ کر گزارا کر رہے ہیں، لہذا ہم چیزیں مہنگی کر رہے ہیں۔اور آپ کا خون ہمیں عزیز ہے،لہذا ہم پی پی کر اسے اپنی توندوں میں محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے آپ قربانی دیں۔
اور ہم بھی مجبورا قربان ہوتے رہتے ہیں۔
نہیں!معذرت، ثواب کی نیت سے نیاز سمجھ کر قربانی دیتے رہتے ہیں۔
سب سے افسوسناک بات یہ ہے ،کہ جب کبھی اس اسٹیبلیشمنٹ میں سے کوئی مر جاتا ہے، تب ہی ہمارانشان نظر آتا ہے۔
وہ چوسا ہوا خون ، جو بالآخر رائیگاں گیا……
٭٭٭٭٭