اکثر جب ہم کوئی لذیذ کھانا تناول کرتے ہیں تو بےتکلف محفل میں یہ کہا جاتا ہے کہ پیٹ تو بھر گیا مگر نیت سیر نہیں ہوئی۔ کچھ یہی حال ہمارے ملک کے سیاست دانوں، بیوروکریٹ طبقے اور فوج کا بھی ہے۔ ان کے بینک اکاؤنٹ ابلے پڑرہے ہیں، نا صرف ان کے بلکہ ان کے اہل خاندان کے بھی؛ پاکستان میں رہتے ہوئے بھی ان کو ہر وہ سہولت اور آسائش ایک اشارے پر میسر ہے جس کا خواب بھی پاکستان کے باقی ماندہ اٹھانوے فیصد عوام نہیں دیکھ سکتے۔ مگر اس کے باوجود ان بھری جیبوں اور بھرے پیٹوں والوں کی حرص ہے جو ختم ہوکر نہیں دیتی۔ دنیا کے مختلف گوشوں میں محلوں کے محل کھڑے کرلیے ، ایک سے ایک قیمتی گاڑیوں کی قطاروں کی قطاریں ہیں، لباس اتنے کہ ایک کے بعد دوسرا زیب تن کرنے کی نوبت ہی نہ آئے، اعلیٰ خوراک کی اس قدر فراوانی کہ وہ زہر خورانی بن جائے اور بیرون ملک علاج کرانے جانا پڑے…… مگر اس کے باوجود نہ چوری سے باز آتے ہیں نہ ہیراپھیری سے، ان کے پیٹ تو بس قبر کی مٹی ہی سے بھرے جائیں گے (بمطابق حدیث)۔
بھوکے ننگے رہنے والوں کو نہ بھوک کا خوف رہتا ہے، نہ بے گھر ہونے کا، نہ لباس کے ناکافی ہونے کا اور نہ ہی معیار دنیا سے میل نہ کھانے کا…… وہ تو پیٹ پر بندھے پتھروں کے ساتھ خوف کی قریباً ہر معلوم سرحد کو پار کرچکے ہوتے ہیں۔ یہ خوف تو انہیں ہی ہوتے ہیں جنہوں نے کبھی نہ بھوک کی آزمائش دیکھی ہو نہ دربدری کی۔ جو سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوتے ہیں اور پھر ان عوام پر حکومت کرتے ہیں جن کے گھروں میں لوہے کے چمچ بھی ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔
یہ ذکر توشہ خانہ کیس کا، اس سے مستفید ہونے والوں، اور ان قوانین کا کہ جن کے تحت مال و دولت کے پہاڑ رکھنے والے، سرکاری تحائف کو کوڑیوں کے مول خرید سکتے ہیں اور خریدتے ہیں اور عوام بے چارے لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بے روزگاری، اقتصادی بدعنوانیوں کے ثمرات اور روز افزوں بڑھتے ٹیکسوں اور گھٹتی تنخواہوں کے بوجھ تلے پسنے اور آٹے جیسی بنیادی ضرورت کے حصول کی خاطر قطاروں میں لگنے اور بھگدڑ میں مرنے کے لیے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ اور صرف توشہ خانہ ہی کیوں…… پاکستان کے حکمران، جاگیردار، فوجی اور بیوروکریٹ طبقے کے حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ کوئی ملک سے باہر رہ کر ملک کو لوٹ رہے ہیں تو کوئی فوج کا ’تقدس برقرار رکھنے کی خاطر‘ اس ملک کو لوٹ رہے ہیں۔ کچھ وہ ہیں جو لوٹ کھسوٹ کے بعد سعودی عرب اور لندن میں بیٹھ کر بھی ھل من مزید کے نعرے لگا رہے ہیں اور ان کے قبر میں لٹکے پیروں والے جسم کے منہ رالیں ٹپکا رہے ہیں ۔ جب کہ عوام اور ملک کا حال یہ ہے کہ گزشتہ ماہ رمضان میں ملک کے دگرگوں معاشی حالات کے سبب چندوں میں خاطر خواہ کمی سے خیراتی اداروں تک کی چوں بول گئی اور اپنے فلاحی اور خیراتی منصوبوں پر عمل درآمد ان کے لیے مشکل ہوگیا۔ ملک کا وہ طبقہ کہ جسے سفید پوش کہا جاتا ہے اور جس نے ہمیشہ دینے والا ہاتھ بن کر ہی اپنی سفید پوشی اور انسانی ہمدردی کا ثبوت دیا ہے، وہ بھی اب خیراتی اداروں کے لنگر، ان کے سحر و افطار کے دسترخوان پر مع خاندان دکھائی دیتے ہیں۔ جب حکمرانوں اور عوام کے بیچ اس قدر بڑی خلیج ہوگی تو یہ حکمران کیونکر عوام کی مشکلات اور ان کے مسائل کو حل کرنے بارے سوچیں گے! عوام بارے تو وہ سوچتے ہیں جن کے عوام فاقے سے ہوں تو وہ خود بھی فاقے کرتے ہیں، جب عوام سوتے ہیں تو وہ ان کی جان و مال کی حفاظت کی خاطر ان کا پہرہ دیتے ہیں اور خود جنہیں اپنی حفاظت کا چنداں خوف نہیں ہوتا کہ بلا تکلف اپنے بازو کا تکیہ بنا کر درخت کے سائے تلے، یا مسجد کی خاک پر لیٹ کر سوجاتے ہیں اور اس حال میں بھی ان کا رعب و ہیبت کفار پر ایسی ہوتی ہے کہ انہیں اس طرح سوتے دیکھ کر بھی کافر سفیر تھر تھر کانپنے لگتے ہیں۔ مگر یہ ذکر تو ان ذی شان ’مسلمان‘ حکمرانوں کا ہے جن کی عزت اور شان ان کے اسلام سے تھی اور ہے اور یوں پیوندوں بھرے لباس کے ساتھ بھی بیت المقدس کی کنجیاں وصول کرنے سے ان کی شان گھٹتی نہ تھی …… یہ ہرگز ان کا ذکر نہیں جو خود کو مسلمان کہتے بھی شرماتے ہیں اور نعوذ باللہ اس ’تہمت‘ کو خود سے دور ہی رکھنے میں راحت محسوس کرتے ہیں یا اسلام کے نام کو اسلام پسند عوام کے دلوں اور ذہنوں پر راج کرنے کا ذریعہ بناتے ہیں۔
عرصہ پہلے ایک مرتبہ سڑک پر ایک بزرگ کو دیکھا۔ نہایت ہی بدحال، گندا غلیظ لباس، گندے الجھے بال، یا تو رعشہ کی وجہ سے لرزتے ہوئے اور یا (گمان غالب یہ ہے کہ) کمزوری کی وجہ سے کانپتے ہوئے سڑک پر آہستہ آہستہ چلے جارہے ہیں۔ اتنے نحیف ہیں یا دنیا سے اس قدر بے زار و بے نیاز کہ سوال بھی نہیں کررہے۔ کوئی خود ہی ترس کھا کر کچھ دے دے تو دے دے۔ ان کو دیتے ہوئے بھی دکھ ہوتا کہ اس میں سے ان کو کیا ملے گا اور نہ دے کر بھی ضمیر کوڑے برساتا۔ جن کو پالنے پوسنے پروان چڑھانے میں ان بزرگ نے اپنی راحت اپنی جوانی قربان کی ہوگی آج وہی ان کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑنے کے درپے ہیں۔ انہی بزرگ کا سا کچھ حال پاکستان کا ہوچکا ہے۔ کھاؤ کھاؤ اور مزید کھاؤ کی پالیسی کے تحت کھا کھا کر اس ملک کے ’محافظوں‘، اس کے حکمرانوں اور اس کے کرتا دھرتاؤں نے اس ملک کی جڑوں تک کو کھوکھلا کر دیا اور اس پچھتر سالہ ریاست کو کشکول پکڑا کر دنیاکے چوک میں بٹھا دیا۔
یہ تو ان کا حال ہے جو ملک کے اندر بیٹھ کر اس کے وسائل کھسوٹ رہے ہیں اور پھر انہیں غیر ملکی بینکوں میں ’محفوظ‘ کررہے ہیں۔ دوسرے وہ غیر ملکی طاقتیں ہیں جو باہر بیٹھ کر ملکی وسائل پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ ہر ملک کے وسائل پر نہیں…… بالخصوص مسلمان ممالک کے وسائل پر۔ خواہ یہ وسائل تیل، گیس، معدنیات، زمینی پیداوار، افرادی قوت سے متعلق ہوں اور خواہ یہ زرخیز اور ذہین دماغوں کی صورت ہوں۔ کفر کبھی یہ نہیں چاہتا کہ مسلمان اقوام کے اندر کسی قسم کے قابل افراد پھلے پھولیں کیونکہ وہ یہ جانتا ہے کہ اگر قابل افراد کی ایک پود تیار ہوگئی تو وہ کسی نہ کسی دن انہی کفار کا گلا کاٹنے کی تیاری کرے گی۔ لہٰذا وہی کام جو فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کےپیداہونے اور بڑے ہونے کے خوف سے کیا ، ذرا جدید طریقے سے آج کے فراعنہ بھی انجام دے رہے ہیں؛ بعینہ اس شعر کے مصداق
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
چونکہ فراعنہ عصر کو کالج کی سوجھ چکی ہے لہٰذا اول تو یہ کہ مسلمانوں کی نئی نسلوں کو سکول کالج کے ذریعے فکری کجی اور فکر معاش کی ایسی ڈگر پر ڈال دو کہ یہ کسی قابل ہی نہ بچیں۔ پھر ان کے ہاتھ میں موبائل اور انٹرنیٹ اس قدر سستا فراہم کردو کہ جس کے پاس پیٹ بھر کر روٹی کھانے کے پیسے بھی نہ ہوں وہ بھی ان ’سہولتوں‘ سے استفادہ کرسکتا ہو اور یوں ذوق کے بگڑنے اور علم و ایمان کے ضیاع میں رہتی کسر اس پر موجود گندگی پوری کردے۔ لیکن پھر بھی خدانخواستہ ثم خدانخواستہ کچھ بچے اگر گھروں کی اچھی تربیت اور اساتذہ کی مناسب رہنمائی کے سبب اپنی ذہنی صلاحیتیں ثابت کرتے پائے جائیں تو انہیں کم عمری میں ہی چھانٹ لو اور مسلمان نسل کا یہ ست یہ لب لباب طرح طرح کی ترغیبات کے ذریعے اپنے مفادات کے حصول میں استعمال کرو۔
چند ماہ قبل کراچی میں امریکی قونصلیٹ کی جانب سے ایک سائنسی مقابلہ منعقد کیا گیا جس کا موضوع تھا “Problem identification and Solution with Creativity”۔ اس مقابلے میں کراچی کے مختلف سکولوں کے طلبہ و طالبات نے اپنے سکولوں کی نمائندگی کرتے ہوئے شرکت کی۔ مقابلے میں صرف ان سکولوں کو شریک کیا گیا جن کے یہاں ماہانہ فیس تین ہزار روپے سے زیادہ نہ ہو۔ دور حاضر میں نجی یا نیم سرکاری سکولوں کی اس قدر کم فیس شاذ ہی ملتی ہے۔ بچوں کی عمریں دس سے چودہ سال کے درمیان تھیں اور یہ مقابلہ چوتھی سے آٹھویں جماعت تک کے طلبہ و طالبات کے لیے تھا۔ غور فرمائیے کہ مقابلے میں جیتنے والی ٹیم کے لیے انعام کیا رکھا گیا؟ امریکی سفارت خانے کے تعاون سے جیتنے والی ٹیم کے بچوں کو ناسا کیمپ امریکہ لے جایا جانا انعام ٹھہرا۔ کیا وجہ ہے کہ ہمارے ملک کا وہ طبقہ جو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کی جدوجہد کررہا ہے وہ امریکیوں کے لیے اس قدر اہم ہوگیا کہ اس کے بچوں کو امریکہ کا دورہ کرایا جائے؟ یاد رہے کہ ایلیٹ سکولوں کے بچے اس مقابلے میں شریک نہ تھے کہ ان کے بارے میں تو امریکہ و یورپ کو یقین ہے کہ انہوں نے ہمارے پاس ہی آنا ہے اور ہماری ہی خدمت کرنی ہے۔ مگر اس ملک کے وہ بہترین ذہن جنہوں نے بالآخر اسی ملک کی خدمت کرنی ہے اور اسی ملک کو چلانا ہے، انہیں اتنی کچی عمر میں کھسوٹ لو کہ وہ اسے اپنی خوش قسمتی گردانتے رہیں اور بے خبری میں مارے جائیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ جن بچوں نے شاید کبھی اندرون ملک بھی ہوائی جہاز کا سفر تک نہ کیا ہوگا، ان کی پہلی اڑان ہی انہیں ناسا کیمپ کا دیدار کروادے گی تو وہ اور ان کے والدین اپنے ہوش و حواس پر کیسے قابو رکھ سکیں گے؟ ایک بہت ہی تعلیم یافتہ خاندان کے اعلیٰ منصب پر فائز بزرگ کے بارے میں سنا کہ وہ اپنی انتہائی ذہین اولاد سے کہاکرتے تھے کہ امتحان میں اس قدر اچھی کارکردگی نہ دکھاؤ کہ نمایاں پوزیشن لو۔ اور وجہ اس کی یہی بیان کرتے تھے کہ کفار ایسے بچوں کو چھانٹ اور اچک لینے کے درپے ہوتے ہیں اور بہانے بہانے سے کبھی کوئی مقابلہ کبھی کوئی امتحان کبھی کوئی ترغیب دے دے کر انہیں اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسری جانب وطن عزیز کی علم دوستی کا حال یہ ہے کہ وزارت تعلیم کے سرکاری ادارے ایچ ای سی (Higher Education Commission) نے خود جن طالبعلموں کو سرکاری وظیفے پر بیرون ملک پی ایچ ڈی کے لیے بھیجا، یکایک ان کے وظائف بند کردیے اور انہیں دیار غیر میں ٹھوکریں کھانے کے لیے بے یارومددگار چھوڑ دیا۔
بعض بازار ایسے ہوتے ہیں کہ جہاں ہر جنس کا سودا ہوتا ہے، ہر شے بکتی ہے۔ پاکستان بھی ایسا ہی بازار ہے۔ یہاں جج بھی خریدے جاسکتے ہیں اور سیاست دان بھی۔ فوج بھی اور فوجی اڈے بھی۔ نظریات بھی بیچے جاتے ہیں اور بیٹیاں بھی؛ اپنی زمین بھی اور زمین کا نمک بھی۔ جس کا جی چاہے وہ بولی لگائے اور لے جائے۔ مگر اللہ کے یہاں سود و زیاں کے، نفع ونقصان کے، لین اور دین کے پیمانے دنیا سے بالکل جدا ہیں۔ جسے دنیا کامیابی کہتی ہے اسے اللہ رب العزت کا کلام بدترین خسارے سے تعبیر کرتا ہے اور جسے دنیا خسارہ گردانتی ہے اسے اللہ پاک کامیابی کی معراج قرار دیتے ہیں۔ یہ دنیا، اس کے جھمیلے، اس کے اللے تللے یہیں رہ جانے ہیں، سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے کا بنجارہ! اس سے پہلے کہ مجھے اور آپ کو لاد کر اپنے آخری آرام گاہ تک پہنچایا جائے ہمیں کچھ ایسا کرنا ہے جو ہمیں سرخرو کردے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ اللہ کا دین ایک ایک گھر اور ایک ایک جھونپڑی تک پہنچ کر رہے گا مگر اس کے پہنچانے میں مجھے اپنا حصہ اس لیے ڈالنا ہے کہ میں اللہ رب العزت کے سامنے کچھ پیش کرسکوں۔ دنیا میں نئے کپڑے، اچھا مکان، اچھی خوراک اور ایلیٹ اداروں میں تعلیم کے مواقع نہ بھی ملے مگر دل غیرت ایمانی سے سرشار ہو، اپنے نبی ، اپنے دین، اپنے قرآن کے دفاع کے لیے سینہ سپر ہو تو ، اس کے لیے کچھ کرگزرے تو سودا مہنگا نہیں!
٭٭٭٭٭