ہندُتوا تنظیموں سے متعلق اہم ملاحظات
سَنگھ تحریک کی نمایاں خصوصیات
عوام کے لیے حسّاس موضوعات پر محتاط طرزِ عمل
ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں کہ ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس کے نظریات میں کوئی فرق نہیں۔ لیکن اپنے نظریات کی وجہ سے ہندو مہاسبھا بدنام ہوئی اور آگے نہ بڑھ سکی لیکن اس کے برعکس آر ایس ایس کامیاب رہی اور ہندوستان کی سب سے بڑی تحریک بن گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندو مہاسبھا نے اس بات کا خیال نہیں کیا کہ جن افکار کا اظہار وہ کر رہے ہیں انہیں عوام ہضم بھی کر سکے گی یا نہیں اور قولی اور عملی طور پر اپنے افکار و نظریات کا کھل کر اظہار کیا، چاہے وہ برطانوی راج کی حمایت ہو، تحریک آزادی کی مخالفت، اس کے کرداروں سے عداوت ہو یاذات پات کے نظام کی حمایت، ہر معاملے میں مہاسبھا نے اپنے متشدد نظریات کا کھل کر اظہار کیا۔ جبکہ آر ایس ایس جو نظریاتی اور فکری طور پر ہندو مہاسبھا سے مکمل ہم آہنگ تھی اس نے یہ غلطی نہیں کی اور آج ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی ان حسّاس موضوعات پر آر ایس ایس کبھی رسمی طور پر کھل کر سامنے نہیں آتی بلکہ غیر رسمی ذرائع سے اس کا اظہار کرتی رہتی ہے۔ جیسے دسمبر ۲۰۲۱ء میں منعقد کیے جانے والے دھرم سنسد اور اس طرح کے دیگر اجتماعات میں ہندو پنڈتوں اور سادھوؤں کی زبان سے انہی افکار کا اظہار کروایا گیا۔ لیکن آر ایس ایس خود ان معاملات میں پس پردہ ہی رہی۔
لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ عوامی جذبات کے آگے ہتھیار ڈال کر آر ایس ایس اپنے نظریات سے پیچھے بھی کبھی نہیں ہٹی جس طرح جمہوری تحریکیں عموماً کیا کرتی ہیں۔ اس کی وجہ سے سَنگھ تحریک کی ایک نظریاتی پہچان بن گئی اور وقت کے ساتھ ساتھ اس تحریک نے ہندوؤں کی ایک کثیر تعداد اپنے نظریات کی حامی بنا لی، اور آج معاملہ یہ ہو گیا ہے کہ آر ایس ایس چاہے رسمی طور پر ان موضوعات پر کچھ نہ کہے لیکن ہندو انتہا پسند پورے ہندوستان میں یہی زبان بول رہے ہیں۔ اس طرح جو باتیں خود کہنے سے مہاسبھا بدنام ہو گئی، آر ایس ایس نے وہی باتیں خود کہنے کی بجائے زبان زدِ عام کر دیں۔
معاشرے کے تمام طبقات کی نمائندگی
آر ایس ایس نے خود کو ایک سیاسی، سماجی یا انقلابی تحریک تک محدود نہیں رکھا بلکہ حقیقی معنوں میں خود کو ایک عوامی تحریک میں ڈھالا۔ سنگھ پریوار کی چھتری تلے زندگی کے تمام شعبوں اور معاشرے کے تمام طبقات کے لیے ذیلی تنظیمیں کھڑی کی گئیں۔ اس طرح اس تحریک کے لیے زندگی کے ہر شعبے اور معاشرے کے ہر طبقے تک اپنے افکار پہنچانا اور وہاں سے اپنے لیے حمایت حاصل کرنا آسان ہو گیا۔ جس کے نتیجے میں آج سنگھ پریوار بیس کروڑ سے زیادہ کارکنان کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی تحریک کہی جا سکتی ہے۔
مضبوط عوامی رابطہ کاری
سَنگھ تحریک نے اپنی ذیلی تنظیموں کے ذریعے اور آر ایس ایس اور دیگر کے شاخوں کے نظام کے ذریعے گلی محلے کی سطح پر ہر عام آدمی تک رسائی کو ممکن بنایا۔ اس کا فائدہ انہیں یہ ہوا کہ جس بھی موضوع کو انہیں پورے ملک کی سطح پر اٹھانا ہو تو یہ تحریک اس رابطہ کاری نظام کے ذریعے سے اپنے مطلوبہ ہر شخص تک اس کا پیغام پہنچا سکتی ہے۔ اس لیے چاہے معاملہ حجاب کا ہو، لاؤڈ اسپیکر پر اذان کا یا تاریخی مساجد کو مندر بنانے کا، اس ےپورے ملک کا اہم ترین موضوع بنا دیا جاتا ہے۔
شخصیات کی بجائے نظریے سے جڑی تحریک
جو تحریکیں کسی شخصیت کے گِرد کھڑی ہوتی ہیں اگر وہ شخصیت اپنی تحریک کو نظریاتی اساس فراہم نہ کرے تو دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ اس شخصیت کے بعد ایسی تحریکیں ختم ہو جایا کرتی ہیں یا کم از کم اپنی حیثیت کھو دیتی ہیں۔ اس کی مثال شیوْ سینا سے لی جا سکتی ہے۔ جب تک بال ٹھاکرے کے ہاتھ میں اس تنظیم کی باگ ڈور تھی اسے مہاراشٹر میں مقبولیت حاصل تھی اور اس میں اختلافات بھی موجود نہیں تھے۔ لیکن جب اس کی قیادت بال ٹھاکرے کے بیٹے ادھود ٹھاکرے کے ہاتھ آئی، شیوْ سینا شکست و ریخت کا بھی شکار ہوئی اور نظریاتی اعتبار سے بھی یہ اپنے راستے سے ہٹنے لگی اور اس کی مقبولیت میں بھی واضح کمی آگئی۔ اس کے برعکس جو تحریکیں شخصیات کی بجائے نظریات سے جڑی ہوتی ہیں، اُن پر شخصیات کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ شخصیات سے جڑی تحریکیں بالعموم بہت تیزی سے ترقی کرتی ہیں اور جلدی عروج تک پہنچ جاتی ہیں، اس کے برعکس نظریاتی تحریکوں میں عروج کا سفر نسبتاً سست رفتاری سے طے ہوتا ہے۔ سَنگھ تحریک کو بھی کبھی ایسی شخصیات میسر نہیں آئیں جو اپنی ذات میں مقبولِ عام ہوں اور وہ تحریک کو اپنی شخصیت کے بل بوتے پر عروج کی طرف لے جائیں بلکہ یہ تحریک اپنے نظری سے ہمیشہ مضبوطی سے جڑی رہی ہے۔ اس لیے اگرچہ اسے اپنے حقیقی عروج تک پہنچنے میں ۹۰ سال لگ گئے لیکن ان ۹۰ سالوں میں نہ تو اس نے اپنا راستہ چھوڑا، نہ ہی شخصیتوں کے آنے جانے سے اس پر کوئی اثر پڑا اور نہ ہی کبھی یہ شکست و ریخت کا شکار ہوئی ، بلکہ اِن ۹۰ سالوں کا اس کا سفر سست رفتار تو تھا لیکن مستقل عروج کی جانب ہی رہا۔ آج لوگ سمجھتے ہیں کہ نریندر مودی ایک مقبولِ عام شخصیت ہے اور اس کا قد اب آر ایس ایس سے بڑا ہو چکا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نریندر مودی کو یہ مقام اسی تحریک اور اس سے جڑے نظریات پر عمل کر کے حاصل ہوا اور حقیقت میں اس کی حیثیت اس تحریک کے ایک نمائندہ سے زیادہ نہیں ہے۔ جب اس کا وقت ختم ہو جائے گا تو اس کی جگہ کوئی اور لے لے گا (جیسے یوگی ادتیا ناتھ) اور تحریک اسی طرح آگے چلتی رہے گی۔
نظریہ و فکر کی تابع قیادت
شخصیات سے جڑی تحریکوں کا نظریہ قیادت کے تابع ہوتا ہے ۔ اس لیے قیادت کا اس پر مکمل اختیار ہوتا ہے کہ وہ جب چاہے اپنی تحریک کا راستہ مکمل طور پر بدل دے۔ شیوْ سینا نے آغاز ’بھومی پُتر‘ کے نظریے سے کیا ، پھر بال ٹھاکرے نے ہندُتوا کا نظریہ اپنا لیا اور اب ادھوْ ٹھاکرے نے ہندُتوا نظریہ چھوڑ کر کانگریس کے سیکولر نظریے کو اپنا لیا ہے اس طرح سے حقیقت میں شیوْ سینا ایک موروثی جماعت بن کر رہ گئی ہے جو اپنی نظریاتی شناخت کھو چکی ہے۔ ایک اور مثال اکالی دل کی بھی ہے۔ اس میں بھی نظریہ قیادت کے تابع تھا اس لیے قیادت کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اس جماعت کے نظریات میں بھی تبدیلیاں آتی گئیں جو داخلی طور پر اختلافات کا سبب بھی بنیں جس کی وجہ سے اس سے کئی دھڑے علیحدہ ہوئے۔ اور پھر اکالی دل نے ۷۰ سال بعد خود بھی آر ایس ایس سے اپنا اتحاد ختم کر دیا۔
اس کے برعکس سَنگھ تحریک میں نظریہ و فکر قیادت کے تابع ہونے کی بجائے قیادت نظریہ و فکر کی تابع ہے۔ قیادت کے بدلنے سے اس تحریک کے نظریات پر کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ نظریات میں ضروری ارتقاء کا کام قیادت کی بجائے اس تحریک کے وچارکوں (مفکرین) کے ہاتھ میں ہے1 ۔اور قیادت اس فکر کی پیروی کرنے کی پابند ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سنگھ تحریک اپنی زندگی کی اس پوری صدی کے اندر نہ تو کبھی اپنی فکر کی پٹڑی سے اتری اور نہ ہی اس میں دھڑے بندیاں اور ٹوٹ پھوٹ ہوئی۔
اقلیتی اور نچلی ذات کے طبقوں کی شمولیت
سَنگھ تحریک کی ایک اور نمایاں خوبی یہ ہے کہ اس نے دَلِتوں، آدی واسیوں اور دیگر نچلی ذات کے طبقات کو اپنے ساتھ شامل کیا اور سنگھ پریوار کی چھتری تلے ان طبقوں کی فلاح و بہبود کے لیے علیحدہ تنظیمیں بنائیں اور زبانی جمع خرچ کی بجائے ان طبقات کی ترقی کے لیے عملی اقدامات بھی کیے۔ اس طرح سنگھ تحریک نے خود کو اپنے روایتی اونچی ذات کے طبقے تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس وقت سَنگھ تحریک کے کارکنان کی اکثریت نچلی ذات کے ہندوؤں پر مشتمل ہے۔ اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ نچلی ذات کے طبقے کو اپنے ساتھ شامل کرنے کا عمل کسی طور بھی نیک نیتی پر مبنی نہیں لیکن سَنگھ تحریک کمال عیاری کے ساتھ نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے جذبات کو بھڑکا کر اور ان کا معاشی و معاشرتی استحصال کر کے انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
اسی طرح سَنگھ تحریک نے روایتی ہندو مت سے باہر نکل کر جین، بدھ اور سکھوں کے سامنے خود کو اُن کا خیر خواہ دکھاتے ہوئے اُن کو بھی اپنے ساتھ شامل کیا۔ اگر سنگھ پریوار کے تحت لانے میں دال نہ گلی تو سیاسی اتحاد کر لیا۔ جیسے اکالی دل کی شکل میں سکھوں کی اکثریت کا تقسیم کے بعد سے ہی سَنگھ تحریک کے ساتھ اتحاد رہا۔
اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے سَنگھ تحریک جہاں ممکن ہو مسلمانوں کے خلاف عیسائیوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ جہاں ایک طرف عیسائیوں کے گرجوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، عیسائیوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے اور تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہیں بی جے پی نے ۲۰۲۲ء میں ریاست ’گوا‘ کے اندر عیسائی تنظیموں کے ساتھ اتحاد قائم کیا تاکہ اس ریاست میں اپنی سیاسی حیثیت کو مزید مستحکم کر سکے۔
یہی نہیں بلکہ سَنگھ تحریک مسلمانوں میں بھی ایسے طبقات کو (بریلوی اور دیگر غالی صوفی طبقات)، جو گائے ذبح کرنے کے معاملے میں ، ادویت ویدانت کے نظریے میں اور اسی طرح دیگرنظریات میں ہندوؤں کے ساتھ ہم آہنگی رکھتے ہیں، یا دوسرے لفظوں میں وہ طبقات جو ہندتوا نظریے کے مطابق خود کو ’قومی دھارے‘ میں شامل کرنے کی پوری اہلیت رکھتے ہیں، اپنے ساتھ ملانے کے لیے کوشاں ہے۔ ماضی میں اس طرح کی کئی کانفرنسیں کروائی گئی ہیں جن میں ان طبقات کے علماء کی طرف سے گائے ذبح کرنے پر پابندی لگانے اور ہندوؤں کے تہواروں میں مسلمانوں کو شریک ہونے کا کہا گیا۔ اگست ۲۰۲۲ء میں ہندوستان کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے مذہبی ہم آہنگی کے نام پر ایک کانفرنس منعقد کروائی جس میں مسلمانوں کی طرف سے ’’آل انڈیا صوفی سجادہ نشین کونسل‘‘ کو دعوت دی گئی۔ اس کونسل نے کانفرنس کے دوران بی جے پی حکومت کی مکمل حمایت کی۔ اور مطالبہ کیا کہ مسلمانوں کی جماعت ’’پاپولر فرنٹ آف انڈیا‘‘ پر پابندی لگائی جائے۔ پاپولر فرنٹ آف انڈیا اس وقت مسلمانوں کی وہ واحد جماعت ہے جو مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاج کرتی ہے اور سڑکوں پر آتی ہے۔بی جے پی کی مرکزی ترجمان نوپور شرما کی طرف سے گستاخیٔ رسولﷺ کے بعد پورے ہندوستان میں صرف اسی تنظیم کی طرف سے احتجاج کی کال دی گئی تھی ۔
عدم مرکزیت پر قائم عوامی تحریک
سَنگھ تحریک کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ اس نے سَنگھ پریوار سے منسلک تمام تنظیموں کو آر ایس ایس کی مرکزی قیادت کے تابع نہیں کیا بلکہ انہیں ایک نظریہ اور فکر پر متحد کر کے آزاد تنظیمی حیثیتوں میں کھڑا کیا۔
اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ کسی ایک تنظیم پر پڑنے والی قانونی گرفت دیگر تنظیموں کو متاثر نہیں کرتی۔ اور دوسرا یہ کہ اتنے بڑے پیمانے پر ایک مرکزیت کے تابع ہونے کی وجہ سے انتظامی پیچیدگیاں پیدا نہیں ہوتی۔
اس طریقہ کار نے سَنگھ تحریک کو ایک عوامی تحریک بنانے میں مدد دی۔ کوئی بھی گروہ جو سَنگھ تحریک کے نظریات و فکر کے ساتھ متفق ہو وہ اپنی استطاعت کے مطابق اپنی علیحدہ تنظیم کھڑی کر کے اسے سنگھ پریوار کی چھتری تلے لا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں ہندوستان کی مرکزی سطح پر سَنگھ پریوار سے درجنوں تنظیمیں منسلک ہیں تو وہیں علاقائی سطح پرسَنگھ پریوار سے منسلک تنظیموں کی تعداد سینکڑوں میں جاتی ہے۔
مودی کے حکومت میں آنے کے بعد سے اس رجحان میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور آئے دن کوئی نہ کوئی نئی تنظیم یا کوئی نئی ہندو انتہا پسند شخصیت سامنے آتی رہتی ہے۔ مقامی سطح پر مشہور ہندو شخصیات یا طاقت اور اثر و رسوخ کے خواہش مند ہندو حکومت سے مراعات حاصل کرنے کی لالچ میں آئے روز نئی تنظیمیں کھڑی کرتے رہتے ہیں اور انہیں اپنی تنظیموں میں بھرتی کے لیے بے روزگار یا کم آمدنی والے ہندو نوجوانوں کی ایک کھیپ ہر جگہ میسر آجاتی ہے جن کا معاشی استحصال کیا جاتا ہے اور انہیں تلواریں تھما کر اور اسلام مخالف گانوں پر رقص کروا کر نفسیاتی افیون فراہم کی جاتی ہے، جس میں مست ہو کر یہ لوگ اپنی معاشی مشکلات کو فراموش کر دیتے ہیں اور خود کو کسی بڑے مقصد سے جڑا محسوس کرتے ہیں۔
سَنگھ تحریک کی کمزوریاں
متحدہ ہندو قومیت کا سراب
سَنگھ تحریک اگرچہ اس وقت ہندوستان کی سب سے بڑی تحریک بن چکی ہے اور اپنی کامیاب حکمت عملی کی وجہ سے یہ اس وقت اپنے عروج پر بھی ہے لیکن یہ جس ہندُتوا نظریے کی علمبردار ہے وہ بذات خود انتہائی کمزور بنیادوں پر کھڑا ہے۔ اس نظریے کی ایک بنیاد متحدہ ہندو قومیت ہے۔ جس کے تحت ناصرف اعلیٰ ذات کے ہندو، نیچ ذات کے ہندو، دلت اور آدی واسی ایک ہندو قوم کا حصہ ہیں بلکہ ہندوؤں کے علاوہ سکھ، بدھ اور جین بھی اسی متحدہ ہندو قوم کا حصہ ہیں۔ یہ نظریہ نہ تو تاریخی طور پر درست ہے اور نہ ہی سَنگھ تحریک کے مستقبل کے عزائم کے اعتبار سے درست۔ تاریخی طور پر یہ سب جدا جدا قومیں اور اپنی جدا جدا ثقافت و تہذیب کے ساتھ رہیں۔ ’ہندو مت‘ کا لفظ تو خود انگریز نے یہاں آکر یہاں کی متنوع ثقافتوں کو ایک نام دینے کے لیے استعمال کیاجبکہ اس سے پہلے ہندومت کا وجود ہی نہیں تھا۔
اپنے مستقبل کے عزائم کے اعتبار سے بھی واضح ہے کہ سنگھ تحریک متحدہ ہندو قومیت کے نام پر برہمن کی حکمرانی چاہتی ہے جس میں باقی سب برہمن کے تحت ہوں۔ یہ نچلی ذاتوں کو حقوق دینے، انہیں معاشرے میں آگے لانے اور ذات پات کی تقسیم کو ختم کرنے کی بات تو کرتی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کا ہدف منوسمرتی کو ملک کا قانون بنانا ہے جس کی بنیاد ہی ذاتوں کے اعتبار سے حقوق و فرائض کی تقسیم ہے۔ ایک طرف متحدہ ہندو قومیت میں یہ سکھ ، بدھ اور جین کو ہندو قوم کا حصہ تسلیم کرتے ہیں ، دوسری طرف ’شنکر اچاریہ‘ کو اپنی تاریخ کا بڑا ہیرو اس بنیاد پر مانتے ہیں کہ اس نے برصغیر سے بدھ مت کا غلبہ ختم کیا اور بدھ مت کے پیروکاروں کی کثیر تعداد کو ہندو بنایا۔ یہ متحدہ ہندو قومیت کی بات تو کرتے ہیں لیکن ہندومت پربدھ مت، سکھ مت یا جین مت کو غالب تسلیم نہیں کر سکتے۔ یہ متحدہ ہندو قومیت کی بات تو کرتے ہیں لیکن کسی برہمن پر کبھی کسی نیچ ذات کو حاکم برداشت نہیں کر سکتے۔ کوئی اس کے رد میں کہہ سکتا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار ۲۰۲۲ء میں بی جے پی کی حکومت نے ایک نیچ ذات آدی واسی عورت کو ملک کا صدر منتخب کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں صدر کا عہدہ ہمیشہ سے ایک علامتی عہدہ ہی رہا ہے اور زیادہ تر اس عہدے پرکسی اقلیتی طبقے کے فرد کو ہی لگایا جاتا ہے تاکہ اقلیتوں کو رام کیا جا سکتے اور دنیا کے سامنے بھی دکھایا جا سکے کہ ہم اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں رکھتے۔
یہ بھی اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ سَنگھ تحریک کے کارکنان میں ایک بڑی تعداد نچلی ذات کے ہندوؤں کی بھی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کو جھوٹے خواب دکھا کر ان کا معاشی استحصال کیاجاتا ہے ۔ سَنگھ تحریک میں نچلی ذات کے ہندوؤں کو اس لیے رکھا جاتا ہے تاکہ دنگے فسادات میں ان کو قربانی کا بکرا بنایا جا سکے۔ صف اوّل پر یہ ہوں…… پولیس اور مسلمانوں کے مقابلے میں سامنے صرف یہ آئیں…… گرفتار یہ ہوں، قتل یہ ہوں… قتل پولیس کی گولی سے ہوں یا مسلمانوں کے جوابی حملے سے…… نشانہ صرف نچلی ذات کے ہندو ہی بنیں۔ جبکہ اعلیٰ ذات کے ہندو ایسے معاملات میں کبھی آگے نہیں آتے۔
حکومتی طاقت پر انحصار
سَنگھ تحریک کی مکمل تاریخ گواہ ہے کہ اس تحریک نے حکومت سے ٹکراؤ سے ہمیشہ اجتناب کیا ہے اور اس تحریک نے اسی وقت اپنے پر نکالے ہیں اور اپنا اصل چہرہ واضح کیا ہے جب اسے حکومت حاصل ہوئی۔ فسادات کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ ہندوؤں نے فسادات اُسی دور میں اور انہیں ریاستوں میں برپا کیے جہاں انہیں یقین تھا کہ اگر ریاستی حکومت نہیں تو کم از کم ریاستی مشینری ان کے ساتھ کھڑی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ۲۰۱۴ء میں مودی کے حکومت میں آنے کے بعد سے پورے ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف فسادات اور ان کی ہجوم زنی کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔
اس سے ایک غلط فہمی کا ازالہ ہوجاتا ہے کہ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف جو کچھ ہندوستان میں بی جے پی کی حکومت کے دوران ہو رہا ہے وہ اس لیے ہو رہا ہے تاکہ بی جے پی حکومت میں رہ سکے اور یہ سب انتخابات جیتنے کے حربے ہیں۔ حالانکہ معاملہ اس سے بالکل برعکس ہے ، بی جے پی کے لیے حکومت میں رہنا اس لیے ضروری ہے تاکہ سنگھ تحریک مسلمانوں کے خلاف اپنے عزائم کو پورا کر سکے۔ اس لیے مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی کاروائیاں جاری رکھنے کے لیے بی جے پی کے لیے حکومت میں رہنا ضروری ہے نہ کے یہ کاروائیاں فقط حکومت میں رہنے کے لیے حربے کے طور پر کی جا رہی ہیں۔ ایسی سوچ کا نقصان یہ ہے اس طرح اس سارے معاملے کو بہت محدود نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اسے انتخابات اور سیاسی حربوں تک محدود سمجھ لیا جاتا ہے اور اس بات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ یہ حقیقت میں ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے اور مسلمانوں کا ہندوستان سے مکمل صفایا کرنے کےاقدامات ہیں جو کہ وقتی نوعیت کے یا عارضی نہیں بلکہ اُس وقت تک جاری رہیں گے جب تک کہ ہدف حاصل نہ ہو جائے۔
بہادری، استقامت اور جاں نثاری جیسے جذبوں کا فقدان
حکومتی طاقت پر انحصار کی کمزوری ایک اور کمزوری کو نمایاں کرتی ہے وہ یہ کہ سَنگھ تحریک سے منسلک لوگ طاقتور سے تصادم کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ یہ تب ہی شیر ہوتے ہیں جب انہیں یقین ہو کہ مد مقابل کمزور ہے اور جواب میں کچھ خاص نہیں کر سکتا۔ جب انہیں یقین ہو کہ ریاستی مشینری ان کا ساتھ دے گی یا کم از کم ان کے راستے میں نہیں آئے گی ۔برطانوی راج کی مخالفت سے مکمل اجتناب اس کی واضح مثال ہے۔ اسی طرح آزادی کے بعد کانگریس حکومت کی طرف سے آر ایس ایس کے کارکنان کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کے بعد تمام حکومتی مطالبات کو تسلیم کر لینا بھی اس کی مثال ہے۔ معاملہ صرف حکومت کا ہی نہیں جب مخالف مسلمانوں کی طرف سے بھی جوابی کارروائی کا خطرہ انہیں نظر آئے تو ان کی حالت غیر ہو جاتی ہے۔ ۲۰۲۲ء میں جہانگیرپوری فسادات میں جب ہندو بلوائی پولیس کی حفاظت میں مسلمانوں کے علاقے میں مسجد کے سامنے دنگا کر رہے تھے اور مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے ، جب ان بلوائیوں نے دوسری طرف سے مسلمانوں کے ایک گروہ کو جوابی حملہ کرنے کے لیے آتے دیکھا تو الٹے پیروں بھاگ کھڑے ہوئے اور کسی ایک کو بھی ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ اسی طرح بی جے پی کی مرکزی ترجمان نوپور شرما نے جب ٹی وی چینل پر گستاخیٔ رسولﷺ کی تو انٹرنیٹ پر دی جانے والی چند دھمکیوں سے ہی اس کے پسینے چھوٹ گئے اور وہ گھر میں دبک کر بیٹھ گئی اورانٹرنیٹ پر سب کی منتیں کرنے لگی کہ کوئی میرے گھر کا پتہ کسی کو نہ بتائے میری جان کو خطرہ ہے۔
یہ چیزیں ثابت کرتی ہیں کہ ہندو انتہا پسند حقیقت میں انتہائی بزدل لوگ ہیں۔ نہ تو ان میں اتنی بہادری ہے کہ برابر کی سطح پر اپنے حریف کا مقابلہ کر سکیں ، نہ اتنی ثابت قدمی کہ مشکلات اور آزمائشوں کی صورت میں اپنے نظریات اور مطالبات پر ڈٹے رہیں اور نہ ہی جانثاری کا جذبہ کہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے جان دینے کو تیار ہو جائیں۔
زعفرانی دہشت گرد ہندو پنڈت ’یتی نرسنگانند ‘ بڑی تعداد میں ہندوؤں کو اکٹھا کر کے ان سے قسمیں تو لیتا ہے کہ ہندوستان کو ہندو راشٹر بنائیں گے اور اس کے لیے مریں گے اور ماریں گے، لیکن حقیقت سے وہ بھی آگاہ ہے کہ اگر حکومتی حمایت حاصل ہو تو مارنے کے لیے تو سب تیار ہوتے ہیں لیکن مرنے کے لیے، بشمول خود اس کے، کسی کا حوصلہ نہیں۔
سِکھ ہندو تعلق
ہندُتوا نظریہ ’جین مت‘، ’بدھ مت‘ اور سکھوں کو ’ہندو‘ شناخت میں شامل تصور کرتا ہے۔ اس کا مقصد ایک تو یہ ہے کہ ان تینوں مذاہب کو مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کے ساتھ متحد کیا جائے تو اس سے بڑا اہم مقصد یہ ہے کہ انہیں ہندو مت میں ضم کر دیا جائے اور ان کی حیثیت ہندو مت کے ایک فرقے کی سی رہ جائے۔ جین مت اور بدھ مت کے حوالے سے تو انہیں کامیابی حاصل ہوئی ہے اور جین مت کے ماننے والے اب ہندوستان میں ایک نچلی ذات کے ہندو کی حیثیت رکھتے ہیں، جبکہ بدھ مت کے ماننے والوں کی حیثیت بھی اب تقریباً ہندو مت کے ایک فرقے جیسی ہو چکی ہے۔ لیکن سکھوں کا معاملہ تھوڑا مختلف ہے اور وہ اپنی علیحدہ شناخت کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتے۔ اس لیے سَنگھ تحریک نے سِکھ ہندو اتحاد کو اپنی ترجیحات میں شامل کر رکھا ہے۔
ہندُتوا تنظیموں کا مطالعہ کرنے کے بعد سکھوں کے حوالے سے دو متضاد رویے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف ’اکل تخت‘ سکھوں کی ’راشٹریہ سکھ سنگت‘ میں شمولیت پر پابندی لگاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کے ذریعے سے آر ایس ایس سکھوں کو ہندوؤں میں ضم کرنا چاہتی ہے، لیکن دوسری طرف ’اکالی دل‘ جس کے تحت ’اکل تخت‘ کام کرتا ہے وہ آزادی کے بعد سے ہی آر ایس ایس کے ساتھ سیاسی اتحاد میں شامل ہے۔
اس سے نظر یہ آتا ہے کہ سکھ برادری جین اور بدھوں کے برخلاف آسانی سے سَنگھ تحریک کے دام میں آنے والی نہیں بلکہ وہ ہر حال میں اپنی جداگانہ شناخت کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ لیکن اس ایک علیحدہ شناخت کے مسئلے کے علاوہ دیگر معاملات میں، خاص طور پر سیاسی میدان میں، سنگھ تحریک کی حامی ہے۔
یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ سکھوں میں بالعموم ہندوؤں کے حوالے سے عداوت پائی جاتی ہے ، لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔ ہندوؤں سے عداوت کا جذبہ صرف خالصتان تحریک2 سے منسلک سکھوں میں پایا جاتا ہے اور اس تحریک سے منسلک سکھ اقلیت میں ہیں ، یہ علیحدہ بات ہے کہ ۱۹۸۴ء میں ہونے والے آپریشن بلیو سٹار کے بعد سے سکھوں میں اس تحریک کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے لیکن پھر بھی اس تحریک کے حامی آج بھی اقلیت میں ہیں، جب کہ اکثریت آج بھی اکالی دل اور اس کے مختلف دھڑوں کے ساتھ ہے جو کہ آزادی کے بعد سے ہی سنگھ تحریک کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اگرچہ اب مرکزی اکالی دل نے بی جے پی سے اتحاد ختم کر دیا ہے ، لیکن ایسے کوئی اشارے نہیں ملتے کہ ان میں کسی قسم کا نظریاتی اختلاف بھی پیدا ہوا ہے بلکہ یہ اختلاف اور علیحدگی خالص سیاسی نوعیت کی ہے اور اکالی دل کے دیگر دھڑے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کے لیے مرکزی اکالی دل کی جگہ لینے کے لیے بے تاب ہیں۔
نظریاتی علم بردار سے جڑنے کی اہمیت
ہندُتوا تنظیموں کے مطالعہ سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ جب کسی نظریہ کا عَلم ایک تنظیم نےاُٹھا رکھا ہو تو بعد میں آنے والی جماعتیں اُسی وقت اُس نظریے کے ساتھ مضبوطی سے جُڑ سکتی ہیں اگر وہ خود کو اس نظریاتی علم بردار کے ساتھ جوڑ لیں۔ اِلّا یہ کہ پہلی تنظیم خود کمزور ہو چکی ہو اور کوئی طاقتور تنظیم آگے بڑھ کر خود اس نظریے کا علم اپنے ہاتھ میں لے لے۔ جیسا کہ ہندو مہاسبھا کی کمزوری کے بعد ہندُتوا کا علم آر ایس ایس نے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ لیکن جب معاملہ یہ ہو کہ کسی نظریے کا علم ایک مضبوط جماعت کے ہاتھ میں ہو تو بعد میں آنے والی چھوٹی جماعتیں اُسی وقت اُس نظریے کے ساتھ اخلاص کے ساتھ جڑی رہ سکتی ہیں جب وہ خود کو اس علم بردار کے ساتھ جوڑ لیں، جیسا کہ سَنگھ پریوار سے منسلک تنظیموں نے کیا۔ صرف انتظامی اختلافات کی وجہ سے یا اپنے جاہ و منصب کی یا کسی کے تابع نہ ہونے کی خواہش میں علیحدہ گروہ کھڑا کرنے والے کبھی بھی نظریے کے ساتھ زیادہ وقت تک منسلک نہیں رہ پاتے بلکہ حالات اور ضروریات کو دیکھتے ہوئے آسانی سے اپنا راستہ بدل لیتے ہیں، جیسا کہ سَنگھ پریوار سے جدا ہندُتوا نظریہ رکھنے والی تنظیموں خاص طور پر شیوْ سینا کے معاملے میں نظر آتا ہے۔ یا پھر مکمل طور پر اپنا وجود کھو بیٹھتے ہیں جیسا کہ سبرامانین سوامی کی جنتا پارٹی کے ساتھ یا بلراج مدھوک اور پرافل گورادیہ کی اکھل بھارتیہ جن سنگھ کے ساتھ ہوا۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭
1 اس میں ایک استثناء ایم ایس گولوالکر کا دور ہے۔ یہ استثناء بھی اس لیے ہے کہ گولوالکر خود اس تحریک کا وچارک تھا اور اسے اس کی سربراہی دے دی گئی۔ اس لیے وچارک اور سر سنگھ چالک دونوں حیثیتیں رکھنے کی وجہ سے گولوالکر نے تحریک کو مضبوط نظریاتی اساس فراہم کی۔
2 خالصتان تحریک سکھوں کے لیے ایک آزاد ملک ’خالصتان‘ کا مطالبہ کرنے والی ایک علیحدگی پسند تحریک ہے۔ سکھوں کے لیے علیحدہ ملک بنانے کا مطالبہ ۱۹۴۰ء میں مسلم لیگ کی طرف سے قراردادِ لاہور کے ردّ عمل میں سکھ تنظیم ’شرومنی اکالی دل‘ کی طرف سے رکھا گیا، جو پاکستان کے مطالبے کو تاریخی سکھ علاقوں کوہتھیانے کے طور پر دیکھ رہی تھی۔ تقسیمِ ہند کے بعد اکالی دل نے ’پنجابی صوبہ‘ کی تحریک شروع کر دی اور خالصتان تحریک د ب گئی۔ ۱۹۷۰ء میں دویندر سنگھ پارمر اور اکالی دل سے منسلک ایک سیاست دان جگجیت سنگھ چوہان نے لندن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران خالصتان تحریک کا اعلان کیا۔ ۷۱ء کی انڈیا پاکستان جنگ کے بعد جگجیت سنگھ چوہان پاکستانی سیاستدان ’چودھری ظہور الہیٰ‘ کی دعوت پر پاکستان گیا۔ وہاں چوہان کی پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے بھی ملاقات ہوئی۔ بقول چوہان، بھٹو نے خالصتان تحریک کی مکمل حمایت اور مدد کرنے کی یقین دہانی کروائی اور یہاں تک کہا کہ نئی آزاد خالصتان ریاست کا دارالحکومت ننکانہ صاحب ہو گا۔ اور لاہور سمیت زیادہ تر پاکستانی پنجاب کو خالصتان میں شامل کر دیا جائے گا۔