یہ تحریر تنظیم قاعدۃ الجہاد في جزیرۃ العرب سے وابستہ یمن کے ایک مجاہدلکھاری ابو البراء الاِبی کی تالیف ’تبصرة الساجد في أسباب انتكاسۃ المجاهد‘ کا ترجمہ ہے۔ انہوں نے ایسے افراد کو دیکھا جو کل تو مجاہدین کی صفوں میں کھڑے تھے، لیکن آج ان صفوں میں نظر نہیں آتے۔ جب انہیں تلاش کیا تو دیکھا کہ وہ دنیا کے دیگر دھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟یہ تحریر ان سوالوں کا جواب ہے ۔(ادارہ)
انیسویں وجہ: طاقتوں اور جیت اور ہار کے بدلتے رہنے کی سنت الٰہی کو صحیح طور سے نہ سمجھنا
بعض مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ جنگوں اور معرکوں میں جیت ہمیشہ مومن مسلمانوں کی ہونی چاہیے۔ اور اس کے برعکس ایسے بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ آج، کل اور ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے لیے ذلت اور مسکینی ہی لکھی ہوئی ہے۔ اور اسلام دوبارہ نہیں قائم ہو سکے گا۔ کہتے ہیں کہ اسرائیل، امریکہ اور ان کے حلیف طاغوت، ہمیشہ کے لیے دنیا کے حکمران ہیں۔ جبکہ ان کے مقابلے میں مسلمانوں کے لیے کہیں بھی جیت نہیں لکھی۔ مسلمان دنیا میں ہرجگہ شکست سے دوچار ہیں۔ اس قسم کا شکست خوردہ شخص یہ بھی کہتا ہے اسلام کا معاملہ تب ہی درست ہو گا جب حضرت عیسی نازل ہوں گے یا امام مہدی ظاہر ہوں گے۔
نہیں میرے مجاہد بھائی! جنگ تو مقابلہ ہے۔ یعنی کہ اس میں کبھی ہار ہوتی ہے کبھی جیت۔ ایک دن کے بدلے دوسرا دن ہوتاہے۔ اور اللہ سب سے اونچا اور با عزت ہے۔ اور ہم اور دشمن برابر نہیں۔ ہمارے مقتول جنت میں ہیں اور ان کے مقتول دوزخ میں۔
ایسا شکست خوردہ شخص مسلمانوں کے مرتبے کو گراتا ہے۔ ان کی ہمت کو پست کرتا ہے۔ اسرائیل ،امریکہ اور ان کے اتحادیوں کی حیثیت کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ مستقبل میں اپنے وہم و گمان اور تصورات کی دلیل کے طور پہ جدید دور کی بعض ان جنگوں کا ذکر کرتا ہے جس میں اسرائیل اور امریکہ جیتے۔ جبکہ جدید دور کے ہی مسلمانوں کی بعض فتوحات کو بھلا دیتا ہے۔ یہ انتہائی بڑی غلطی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس دنیا میں سنت ہے کہ وہ قوت کے پیمانے کو کبھی باطل کی طرف موڑ دیتا ہے اور کبھی حق کی طرف۔ لیکن آخر کار انجامِ خیر متقین کے لیے ہے۔
مثلاً رسولِ اعظم ﷺ جنگ بدر جیتے لیکن جنگ احد میں شکست ہوئی۔ پھر بہت سی جنگیں جیتے۔ لیکن آخر کار کامیابی ہمیشہ مومنین کے لیے ہوتی ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے کتاب حکیم میں سنت ’تداول‘ کو بیان کیا ہے۔ [یعنی کہ گردش ایام اور زمانہ کا دور اور پھیر]۔ خاص کر جنگ احد کے بعد کیونکہ احد میں نقصان نے کئی صحابہ کی ہمتوں کو متاثر کیا تھا اور بعض کا مورال گر گیا تھا۔ اس لیے اللہ عز و جل نے چاہا کہ انہیں طاقتوں کے بدلنے کی سنت الٰہی بتائے۔ اللہ تعالی اپنے مومن بندوں کو احد کے موقع پر جب انہیں تکلیف پہنچی اور ستر شہید ہوئے فرماتے ہیں:
وَ لَا تَهِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَاِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهٗ وَ تِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَ لِيَعْلَمَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ يَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَآءَ وَ اللّٰهُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَ وَ لِيُمَحِّصَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ يَمْحَقَ الْكٰفِرِيْنَ(سورۃ آل عمران: 139-141)
’’اور (دیکھو) بے دل نہ ہونا اور نہ کسی طرح کا غم کرنا اگر تم مومن (صادق) ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔ اگر تمہیں زخم (شکست) لگا ہے تو ان لوگوں کو بھی ایسا زخم لگ چکا ہے اور یہ دن ہیں کہ ہم ان کو لوگوں میں بدلتے رہتے ہیں اور اس سے یہ بھی مقصود تھا کہ خدا ایمان والوں کو متمیز کر دے اور تم میں سے گواہ بنائے اور خدا بےانصافوں کو پسند نہیں کرتا اور یہ بھی مقصود تھا کہ خدا ایمان والوں کو خالص (مومن) بنا دے اور کافروں کو نابود کر دے۔ ‘‘
شیخ سلیمان ابو الغیث (فک اللہ اسرہ) فرماتے ہیں:
”جبکہ ہماری جنگ ریاست ہائے امریکہ کے ساتھ نہ ختم ہوئی ہے اور نہ ختم ہو گی۔ کیونکہ ہمارے اور امریکیوں کے درمیان جنگ مفادات اور ذاتیات پر مبنی نہیں۔ بلکہ یہ حق و باطل کی جنگ ہے۔ یہ خیر و شر کا معرکہ ہے۔ امریکہ اس باطل کا سر اور اس شر کا جسم ہے۔ حق و باطل کی جنگ ایک جاری اور باقی جنگ ہے جب تک جہاد فی سبیل اللہ رہے گا یہ جنگ بھی رہے گی۔ اور ہم میں سے ہر کوئی جانتا ہے کہ جہاد تا قیامت جاری رہے گا۔ اگر امریکہ آج اس اتحاد کا سرخیل ہے اور عالمی کفر کا سر ہے تو ہم نہیں جانتے کہ مستقبل میں کون ہو گا۔
ہم اس لیے لڑتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا کلمہ بلند رہے۔ ہم اللہ تعالی کے اس فرمان کو پورا کرنے کےلیے تگ و دو، جہاد و قتال کرتے ہیں کہ :
وَّ يَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ(سورۃ الانفال: 39)
’’اور دین سب خدا ہی کا ہوجائے ۔ ‘‘
اور شک نہیں کہ دنیا اللہ کی شریعت کے خلاف حکمرانی کرتی ہے۔ اللہ کی شریعت روئے زمین پر کہیں بھی نافذ نہیں1۔ جبکہ ہمارا جہاد اور قتال صرف اسی عظیم مقصد کے حصول کے لیے ہے۔ جس کی خاطر ہم اپنی جانوں کی قربانی دینے کو بھی تیار ہیں، ان شاء اللہ۔
جبکہ آپ نے جیسے سوال کیا ہمارے خلاف امریکہ کے حملہ کو کیسے دیکھتے ہیں اور آیا اس نے اپنے اہداف حاصل کر لیے ہیں؟ میں اس نقطہ پر جواب دینے سے پہلے ایک انتہائی اہم بات ذکرکرنا چاہتا ہوں جسے ہر مسلمان کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ خصوصاً اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرنے والوں کو۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں کو بھی جاننا چاہیے کہ جنگ ایک مقابلہ ہے۔ کبھی ہار ہوتی ہے کبھی جیت۔ ایک دن ہماری جیت ہو گی تو دوسرے دن ہار۔ یہ دن تو پھرتے رہتے ہیں۔ کسی وقت مسلمان کافروں پر غالب ہوں گے۔ اور کسی وقت کافر مسلمانوں پر۔ اس دنیا میں سنت الٰہی یہی ہے۔ جیسے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا:
اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهٗ وَ تِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ
’’اگر تمہیں زخم (شکست) لگا ہے تو ان لوگوں کو بھی ایسا زخم لگ چکا ہے اور یہ دن ہیں کہ ہم ان کو لوگوں میں بدلتے رہتے ہیں۔‘‘
پس دن پھرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالی کا اس حکیمانہ الہی سنت سے ایک مقصد ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جیت ہمیشہ کسی ایک طرف کی نہ ہو گی۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ خاتمہ حتماً مومنوں کے حق میں ہو گا۔
كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِيْ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ (سورۃ المجادلہ : 21)
’’خدا کا حکم ناطق ہے کہ میں اور میرے پیغمبر ضرور غالب رہیں گے۔ بےشک خدا زورآور (اور) زبردست ہے۔ ‘‘
تو جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ یہ راستہ آسان ، ہموار اور گل و گلاب سے آراستہ ہے۔ تو اسے غلط فہمی ہوئی ہے۔ اسے چاہیے کہ انبیاء کی سیرت، سیرت نبوی ﷺ اور صحابہ کی سیرت کا مطالعہ کرے۔ اور ان کی سیرت جو ان کے بعد گزرے۔ ہمیں یہ بخوبی جان لینا چاہیے۔
اور ہم ایک مقابلے میں ناکام رہے جیسے کہ دوسرے لوگ گمان کرتے ہیں۔ تو اللہ تعالی کے فضل سے ہم بہت سے مقابلے جیتے بھی ہیں۔ یعنی کہ اللہ تعالی نے ہمیں اس صدی میں، یا گزشتہ صدی کے آخری چند سالوں اور اس صدی کے آغاز میں فتح بھی نصیب کی ہے۔ ہمیں ایک عظیم اور تاریخی کامیابی ملی جس سے امریکیوں کی کمر ٹوٹی۔ اس دنیا کی سب سے بڑی طاقت کی کمر ٹوٹی۔
اللہ تعالی نے ہمیں نیروبی اور دار السلام میں فتح دی۔ ہمیں عدن میں امریکی بحری بیڑہ ’کول‘ تباہ کرنے میں کامیاب کیا۔ تب ہمیں فتح دی جب دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ مجاہدین فی سبیل اللہ نے نیویارک اور واشنگٹن میں کیا کیا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ابھی جنگ کے آغاز میں ہیں۔ یہ تو بہت سے معرکوں میں سے ایک معرکہ ہے۔ ہم اب بھی آغاز میں ہیں۔ اگر ہم قتل ہوئے۔ یا ہمیں قید کر لیا گیا۔ یا اللہ کے دشمنوں نے ایک معرکے میں کامیابی حاصل کر لی ۔ تو جانیے کہ یہ راستہ بہت لمبا ہے۔ یہ مسلمانوں کا راستہ ہے جس پر انہیں تا قیامت چلنا چاہیے۔
اور آیا امریکی حملے نے اپنے اہداف حاصل کر لیے۔ میرے خیال میں وہ حقیقی اہداف حاصل نہ کر سکا۔ اگر کچھ حاصل کیا بھی ہے تو وہ ہالی وڈ کی ایک فلم کی مانند ہے۔ جس کے ذریعے امریکی ہزاروں بے گناہ افراد کو کچل سکے اور سینکڑوں گاؤں اجاڑ گئے۔ جن کا جنگ میں کوئی گناہ نہ تھا۔
امریکی حملہ ، الحمد للہ، تنظیم کو نہ ختم کر سکا۔ تنظیم اب بھی قائم ہے۔ میں مسلمانوں کو خوشخبری دیتا ہوں کہ تنظیم اب تک قائم ہے۔ اور اپنے پورے زور اور صلاحیت کو بروئے کار لا رہی ہے۔ بلکہ پہلے سے زیادہ طاقت ، مضبوط ارادے اور جنگ جاری رکھنے اور بے گناہوں کا انتقام لینے پر مصر ہے۔
القاعدہ کی تنظیم کوئی بے جان اور کمزور تنظیم نہیں ہے۔ جیسے کہ بعض گمان کرتے ہیں کہ اسے تباہ کرنا آسان ہے۔ خصوصا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہم کس کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ پوری دنیا ایک دن ہمارے مقابلے میں کھڑی ہو جائے گی۔ پوری دنیا ہمارا مقابلہ کرے گی۔ اور یہی ہوا۔‘‘
٭٭٭٭٭
1 شیخ سلیمان ابو غیث (فک اللہ اسرہ) کا یہ قول کہ ’ اللہ کی شریعت روئے زمین پر کہیں بھی نافذ نہیں ‘ کافی پرانا ہے۔ جبکہ الحمد للہ آج جہاد فی سبیل اللہ ہی کی بدولت افغانستان میں شریعت نافذ ہے اور حدود اللہ جاری ہیں! (ادارہ)