بقیۃ السلف، امامِ عزیمت، امیر المجاہدین، شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن رحمۃ اللہ علیہ نےبیسویں صدی کے آغاز میں جہاد و اقامتِ دین و اقامتِ خلافۃ علی منہاج النبوۃ کی عالمی تحریک المعروف ’تحریکِ ریشمی رومال‘کو منظم کیا اور دس برس تک خونِ جگر سے اس کی آبیاری فرمائی لیکن دنیوی طور پر وہ تحریک بظاہر کامیاب نہ ہوسکی اور نتیجتاً حضرت شیخ الہند اُس وقت کے ’گوانتا نامو‘ مالٹا کے جزیرے میں قید میں ڈال دیے گئے اور وہاں چار سال تک رہے ۔ حضرت شیخ الہند کی ذیل میں شائع کی جارہی تقریر میں ’الولاوالبراء‘ کا موضوع بھی ہےاور ’اہلِ ایمان کے لیے عمل کی راہ‘ کا اہم ترموضوع بھی، جس میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اہلِ ایمان کو تین کام کرنے کو کہا ہے: ’اول، اپنے مسلمان مظلوم بھائیوں کی نصرت و اعانت، دوم، مقامات مقدسہ کی حفاظت، سوم، خلیفۃ المسلمین کے اقتدار کی برقراری میں کوشش ، خلافت اسلامیہ کے استحکام کی سعی کرنا‘ [تیسرے نقطے کو سقوطِ خلافت کے بعد اقامتِ خلافت بھی کہا جا سکتا ہے، بلکہ حق تو یہ ہے کہ اگر بوقتِ تقریر (۱۹۲۰ء میں) شیخ الہند خلافت کی موجودگی میں استحکامِ خلافت کی بات کر رہے ہیں تو سقوطِ خلافت کے بعد تو اقامتِ خلافت فی نفسہٖ خود فریضہ ٹھہرتا ہے]۔ آج بعض حضرات، شیخ الہند ہی کے بقول ’جوکسی خوف کی وجہ سے جوان کے دلوں پر مسلط ہوگیا ہے‘، دین کا عملی طور پر کچھ اور ’بیانیہ‘ اور ’تعبیر‘ پیش کرتے ہیں۔ ذیل میں شائع کی جانے والی حضرت شیخ الہند کی تقریر ایسے لوگوں اور ان کے پھیلائے شبہات کا بھی کافی و شافی رد کرتی ہے اور کمال تو یہ ہے کہ شیخ الہند نے یہ تقریر مالٹا کے جزیرے سے رہائی پانے کے بعد فرمائی ہے، گویا کہ قید و بند کی صعوبتیں آپ کا پایۂ استقلال بفضل اللہ ہلا نہ سکیں اور آپ اسی منہجِ سلفِ صالحین پر قائم رہے جس کے اتباع کی پاداش میں آپ قید کیے گئے تھے۔ تحدیثِ نعمت اور اہلِ حق کی نشاندہی کے طور پر یہ عرض کرنا بھی موزوں ہے کہ آج سے سو برس قبل حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ رحمۃً واسعۃً اقامتِ دین اور دین پر عمل کا جو ’منہج‘ بیان کر رہے ہیں یہی منہج آج عالمی تحریکِ جہاد کا بھی ہے، وہ عالمی تحریکِ جہاد جو ایک طرف دعوت و جہاد کے محاذ آج کے طاغوتِ اکبر امریکہ کے خلاف عالمی طور پر برپا کیے ہوئے ہے تو دوسری طرف اسی عالمی جہاد کا ایک رخ یمن و صومالیہ تا افغانستان و قبائلِ پاکستان میں اس عالمی طاغوت کے مقامی ٹوڈیوں اور غلاموں کے خلاف بھی جنگ آزما ہونا ہے، بالکل اسی طرح جیسے سو برس قبل عالمی طواغیت کی ٹھیکے داری برطانیہ کے پاس تھی تو عرب میں مقامی ٹوڈی و غلام شریفِ مکہ تھا اور حضرت شیخ الہند ان کے نافذ نظاموں کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف جد و جہد کا وعظ و حکم فرما رہے تھے۔ بالکل آج بھی وہی صورتِ حال ہے، بلکہ صورتِ حال سو سالوں میں سو گنا بد تر ہو چکی ہے۔ آج عالمی ٹھیکے داری امریکہ کے پاس ہے تو مقامی طور پر کہیں ابنِ سلمان بیٹھا ہے تو کہیں ابنِ زاید، کہیں قطری تمیم، کہیں مصری سیسی، کہیں اسی شریفِ مکہ کی براہِ راست نسل کا اردن میں عبد اللہ اور کہیں للأسف ’سیّد‘ پرویز مشرف سے ’سیّد‘ عاصم منیر تک۔ یہ وہی جنگ ہے، بس چہرے مہرے بدلے ہیں۔ اور جس طرح جنگ وہی پرانی ہے، اسی طرح اس جنگ کے تقاضے بھی وہی پرانے ہیں۔ شیخ الہند کے مقام پر کبھی عبد اللہ عزام ہوتا ہے، کبھی ملا عمر و اختر منصور ہوتا ہے تو کبھی اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری۔ دیدۂ بینا سے شیخ الہند، نوّر اللہ مرقدہٗ، کی ذیل میں شائع کردہ تقریر پڑھیے اور دعوت و جہاد کے میدانوں میں اس طرح اتریے جیسا کہ اللہ نے شریعتِ محمدی (علی صاحبہا ألف صلاۃ و سلام) میں سالکینِ شریعت کے لیے فرض کیا ہے! (مدیر)
رہا یہ سوال کہ ہندوستان کے مسلمانوں کوبیرون ہند کے مسلمانوں کے ساتھ ایسا کون سا شدید تعلق ہے جس کی وجہ سے ان پر سات سمندر پار کے رہنے والوں کی جانی اور مالی امداد فرض ہوجائے؟اس کاجواب یہ ہے کہ اسلام نے اپنے پیروؤں اور کلمہ گو ؤں کے درمیان ایک ایسا رشتۂ اتحاد و اخوت قائم کیاہے جو تمام قومی مصنوعی اتحادات سے بالاتر ہے اس میں قومیت اور لباس اور رنگت کا امتیاز نہیں صرف خدائے واحد پر ایمان لانا ایک مغربی شخص کو اقصائے مشرق میں رہنے والے کا بھائی بنادیتا ہے اور ان بعدُ المشرقین کے رہنے والوں کے درمیان وہ تمام تعلقات قائم ہوجاتے ہیں جو ایک بھائی کو دوسرے بھائی کے ساتھ حاصل ہوتے ہیں۔
حضرت حق جل شانہٗ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ (سورۃ الحجرات: ۱۰)
یعنی’’تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘۔
اور حضورﷺ کا ارشادہے:
’’إن حقاً علی المؤمنین أن یتوجع بعضھم بعض کما یألم الجسد للرأس.‘‘ (کنز العمال)
’’مسلمانوں پر لازم ہے کہ ایک دوسرے کے لیے ایسے درد مند ہوں جیسے سر کے درد میں باقی اعضائے بدن دکھ پاتے ہیں۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد ہے کہ:
’’المؤمنون کرجل واحد إن اشتکی عینہ اشتکی کلہ وإن اشتکی راسہٗ اشتکی کلہٗ.‘‘ (رواہ أحمد)
’’ تمام مسلمان مثل ایک جسم ہیں اگر آنکھ میں درد ہوتو تمام بدن دکھ اٹھتا ہے اور سر میں درد ہو تو تمام بدن تکلیف پاتا ہے۔‘‘
اسی طرح ایک مسلمان کے درد اور دکھ سے تمام مسلمانوں کو درد اور تکلیف پہنچنا ضروری ہے۔خدائے تعالیٰ کے پاک فرمان اور رسول اللہﷺ کے مقدس ارشاد سے صاف ثابت ہوگیا کہ ایک مسلمان کودوسرے مسلمان کے درد سے اسی قدر صدمہ ہونا چاہیے جس قدر ایک عضو کی تکلیف سے دوسرے اعضاء کو تکلیف ہوتی ہے اور اس مثال سے یہ بھی معلو م ہوگیا کہ ایمان اسی وقت کامل ہوگا جب کہ ایک مسلمان کودوسرے مسلمان کی تکلیف سے ایسی ہی بے اختیاری اور اضطراری طور پرتکلیف پہنچے جس طرح ایک عضوکی تکلیف سے دوسرے اعضاء کی تکلیف بے اختیاری اور اضطراری ہوتی ہے ۔ ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا ہے:
’’المسلم أخو المسلم لایظلمہ ولا یسلمہٗ‘‘ وفي روایۃ المسلم ’’ولا یظلمہ ولا یخذلہ ولا ینصرہ‘‘.
’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے نہ اسے دشمن کے پنجہ میں چھوڑدے‘‘اورصحیح مسلم میں دوسری روایت ہے کہ ’’نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اس کی نصرت ومدد سے منہ موڑے اور نہ اسے حقیر کرے‘‘۔
ایک اورحدیث میں ارشاد فرمایا:
’’مَا مِنِ امْرِئٍ يَخْذُلُ مُسْلِمًا فِي مَوْطِنٍ يُنْتَقَصُ فِيهِ مِنْ عِرْضِهِ، وَيُنْتَهَكُ فِيهِ مِنْ حُرْمَتِهِ إِلا خَذَلَهُ اللَّهُ فِي مَوْطِنٍ يُحِبُّ فِيهِ نُصْرَتَهُ، وَمَا مِنِ امْرِئٍ يَنْصُرُ مُسْلِمًا فِي مَوْضِعٍ يُنْتَقَصُ فِيهِ مِنْ عِرْضِهِ، وَيُنْتَهَكُ فِيهِ مِنْ حُرْمَتِهِ إِلا نَصَرَهُ اللَّهُ فِي مَوْطِنٍ يُحِبُّ فِيهِ نُصْرَتَهُ۔‘‘ (شرح السنة)
’’جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کی ایسے موقع پر مدد نہ کرے جہاں اس کی بے عزتی کی جاتی ہواور آبروپامال ہوتی ہو تو خدا اس کی اس جگہ مدد نہیں کرے گا جہاں یہ خدا کی مدد چاہتا ہے اور جومسلمان کسی مسلمان کی ایسی جگہ مددکرے جہاں اس کی عزت خراب کی جاتی ہے اور بے آبرو ہو رہی ہے تو خدا اس کی جگہ مددکرے گا جہاں یہ اس کی مدد چاہتا ہے ۔‘‘
یہ خدائے برتر اور اس کے پاک رسولﷺ کے صریح فرمان ہیں اور یہ مقدس مذہب اسلام کے جلیل القدر احکام ہیں،جن کی وجہ سے ہندوستان کے مسلمان اپنے سمندر پار کے دینی بھائیوں کی امداد واعانت کو اپنا دینی پاک فریضہ سمجھتے ہیں۔ اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ اگر ہم نے اس دردر ناک مصیبت میں بھی ان کی بات نہ پوچھی ،کانوں میں تیل ڈالے بیٹھے رہے اور ان کو دشمنوں کا تختۂ مشق بن جانے کے لیے چھوڑ دیا اور ان کی امداد و اعانت میں امکانی کوشش نہ کی تو قیامت کے دن خدائے جلیل و جبار کے قہر سے چھٹکارا مشکل ہے۔
مسلمانان عالم بغیر کسی معاہدہ کے رشتۂ اخوت میں منسلک ہیں
اسلام سے پہلے قومی زندگی قائم رکھنے اور بنی نوع کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے اقوام عالم کے ہاں کیا طریقہ تھا؟ وہ ایک دوسرے کے ساتھ حِلْف یعنی معاہدہ کرلیتے تھے اور دونوں معاہدقومیں ایک دوسرے کی مددگار ہوتی تھیں ایک دوسرے کی طرف سے دشمنوں سے لڑتی تھیں۔معاہدے کی یہ رسم غیرمسلم اقوام میں آج تک جاری ہے، اسلام نے حلف یعنی ’معاہدۂ نصرت ‘کو مسلمانوں کے آپس میں غیرضروری قراردیا، مگر غیرضروری قرارکا منشا یہ نہ تھا کہ مسلمانوں کو متفقہ قومی طاقت یا باہمی معاونت کی ضرورت نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کو خود ان کے پاک مذہب نے باہمی نصرت و اعانت کی ایسی مضبوط زنجیر میں جکڑ دیا ہے جو انسانی ’معاہدۂ نصرت ‘سے کہیں زیادہ مضبوط اور استوار ہے۔ جس وقت کسی شخص نے کلمہ کہہ لیااسی وقت سے وہ مسلمانوں کا بھائی ہوگیا۔خواہ وہ اقصائے مغرب کا رہنے والا ہو یا منتہائے مشرق کا گورا ہو یا کالا ،کچھ تفاوت نہیں ۔بات یہ ہے کہ معاہدہ کرنے والے معاہدہ سے تین فائدے حاصل کرتے تھے ،اول یہ کہ ایک معاہد دوسرے کے حملے سے محفوظ ہوجاتا تھا، دوسرے یہ کہ کسی تیسرے حملہ آور دشمن کے ساتھ مل کر لڑنے کا خطرہ نہیں رہتا تھا، تیسرے یہ کہ اگر یہ کسی دشمن پرحملہ کرے تو معاہد اس کی مدد کرے۔ یہ تینوں باتیں ہر مسلمان پراسلام لاتے ہی فرض ہوجاتی ہیں۔
پہلی بات
مثلاً پہلی بات کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے حملے سے محفوظ ہوجائے اس کے متعلق ارشاد ہے:
’’سباب المسلم فسق وقتالہ کفر۔‘‘ (بخاری)
’’مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس پر حملہ کرنا کفر ہے۔‘‘
دوسری حدیث میں فرمایا:
کل المسلم علی المسلم حرام دمہ ومالہ وعرضہ۔ (مسندِ احمد)
’’مسلمان کو دوسرے مسلمان کے جان ومال اور آبرو پر حملہ کرنا حرام ہے۔‘‘
تیسری حدیث میں ا رشاد ہے:
’’الا لاترجعن بعدی کفاراً یضرب بعضکم رقاب بعض۔‘‘ (ترمذی)
’’دیکھو میرے بعد کافروں کی طرح نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارو۔‘‘
اور حق تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِداً فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَاباً عَظِيماً (سورۃ النساء: ۹۳)
’’جو شخص کسی مسلمان کو قصدا ًقتل کردے تو اس کا بدلہ جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پرخدا کاغضب اور لعنت نازل ہوگی اور اس کے لیے خدا تعالیٰ نے بڑا عذاب مہیا کیاہے۔‘‘
دوسری بات
اوردوسری بات کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی جانب سے یہ خوف نہ کرے کہ وہ میرے دشمن کے ساتھ ہوکر میرے اوپرحملہ کرے گا اس کے متعلق ارشاد ہے:
لاَّ يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُوْنِ الْمُؤْمِنِينَ (سورۃ آلِ عمران: ۲۸)
’’مسلمان کافروں کو اپنا دوست مسلمانوں کے خلاف نہ بنائیں کہ کفار کی طرف ہوکر مسلمانوں سے لڑیں۔‘‘
تفسیرابن جریر میں اسی آیت کی تفسیر میں لکھا ہے۔
’’ومعنی ذالک لاتتخذوا ایھا المؤمنون الکفار ظھراً وانصارا توالونھم علی دینھم وتظاھرونھم علی المسلمین۔‘‘ (ابن جریر)
’’ معنی اس آیت کے یہ ہیں کہ اے مسلمانو!کفار کو اپنا مددگار اور حمایتی نہ بناؤ کہ ان کافروں سے تم ان کے دین میں دوستی کرو اور ان کی مسلمانوں کے خلاف مدد کرو۔‘‘
تیسری بات
تیسری بات کہ اگر مسلمان کسی دشمن اسلام پر حملہ کرے تو تمام مسلمان اس کی مدد کریں اس کے متعلق حضورﷺ کا صاف و صریح ارشاد موجود ہے کہ
’’المؤمنون ید علی من سواھم۔‘‘ (ابوداوٗد)
’’تمام مسلمان دشمنان اسلام کے مقابلہ میں ایک ہی ہاتھ ہیں۔‘‘
یعنی دشمنان اسلام کے مقابلہ میں تمام مسلمانوں کو اس طرح متفقہ طاقت سے کام لینا چاہیے کہ گویا ان سب کی حرکت ایک ہاتھ کی حرکت ہے۔ پس جبکہ مسلمانوں کے لیے رسمی معاہدے کی تمام ذمہ داریاں صرف اسلام لانے سے حاصل ہوجاتی ہیں تو مسلمان کو مسلمان سے معاہدہ کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ رہا مسلمانوں کا کسی دوسری قوم سے معاہدہ کرنا اور جب تک کوئی دوسرا فریق بد عہدی نہ کرے اس پر قائم رہنا، یہ علیحدہ چیز ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آج کل دنیا کی وہ قومیں جو اپنے رسمی معاہدوں کو واجب الاحترام سمجھتی ہیں آیا ان کویہ حق ہے کہ وہ مسلمانوں کو اس آسمانی معاہدے اور مذہبی حِلْف سے روک دیں یا یہ کہہ سکیں کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ٹرکی1 یا عراق یا شام کے مسلمانوں سے کیاواسطہ یہ خواہ مخواہ کیوں اس کے لیے چیخ و پکار کرتے ہیں؟ ہم تمام ایسے لوگوں سے ببانگ دہل کہے دیتے ہیں کہ مسلمانوں میں باہمی نصرت و معاونت کامعاہدہ انسانی معاہدہ نہیں ہے بلکہ خدائے قدوس کے قائم کیے ہوئے معاہدے تمہیں مجبور کرتے ہیں کہ امریکہ والے آکر یورپ میں تمہاری مدد کریں اور ان کی یہ مددتمہارے آئین و انصاف کے خلاف نہ سمجھی جائے تو مسلمانوں کو ان کا خدا ان کا رسولﷺ ان کا پاک مذہب حکم کرتا ہے کہ وہ اپنے دینی بھائیوں کی مدد کریں خواہ وہ کہیں کے رہنے والے ہوں۔کسی انسانی قانون او ر طاقت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کو ان کے مذہبی فرائض سے روکے یا ان کی جائز مذہبی جدوجہد کو غیرآئینی قراردے ۔
مسلمانوں کی بے چینی کے اسباب
یہاں یہ سوا ل پید اہوگا کہ وہ کون سے واقعات ہیں کہ جنہوں نے مسلمانوں کو اس قدر بے چین و مضطرب کردیا ہے اور کیا اسباب ہیں کہ جن کی وجہ سے بیرون ہند کے رہنے والے بھائیوں سے ہمدردی اوراعانت فرض ہوگئی ہے۔ اس کا جواب دینے اور سننے کے لیے پتھرکادل اور فولاد کا کلیجہ درکار ہے۔ اور اس کی تفصیل کے لیے بہت زیادہ وقت کی ضرورت ہے اس لیے اول اپنے ضعف کی وجہ سے دوسرے اس لیے بھی کہ بہت سے واقعات اور مظالم اخباروں اور تقریروں کے ذریعے سے عالم آشکارا ہوچکے ہیں میں صرف چند جملوں پر اختصار کرتا ہوں۔
معزز حاضرین!
دنیائے اسلام میں گزشتہ چند صدیوں سے سلطان ٹرکی کی واحد سلطنت اسلامی شوکت کی ضامن تھی اور حرمین محترمین، بیت المقدس،عراق وغیرہ کے تمام اماکن مقدسہ و مقامات محترمہ کی حفاظت کی کفیل تھی، جمہور اہل اسلام کے اتفاق سے سلطان ٹرکی خلیفۃ المسلمین مانے جاتے تھے اور خلافت کے فرائض نہایت خوبی سے انجام دیتے تھے ان کا عروج و ترقی اور ان کی سلطنت کی وسعت جابروغاصب مسیحی سلطنتوں کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکٹی تھی اور وہ ہمیشہ اسی طرح فکر میں لگی رہتی تھی کہ خلیفۃالمسلمین کا اقتدار گھٹایا جاوے اور مستقر خلافت پر قبضہ کرکے یورپ سے اسلام کا نام و نشان مٹادیا جاوے۔ اگرچہ سلطان ٹرکی پر ان مسیحی بھیڑیوں کے درمیان بالکل بتیس دانتوں میں ایک زبان کی مثل صادق تھی مگر خلیفۃ المسلمین کی اسلام کے لیے جانبازانہ مقاومت ان غاصبوں کی متعصبانہ خواہشیں پوری نہ ہونے دیتی تھی۔ تاہم ان دشمنان اسلام کے دندان غریب ٹرکی کے بدن میں سے گوشت کے لوتھڑے نوچتے رہے اور 1877ء سے تو اس لوٹ کھسوٹ کا متواتر ایک سلسلہ قائم ہوگیا۔ مصر جیسازرخیز علاقہ جزیرہ قبرص ، طرابلس،سالونیکا، یونان ، بلغاریہ، سربیا، البانیاوغیرہ ٹرکی علاقے یکے بعد دیگرے ان ظالموں کی جوع الذئب کی بھینٹ چڑھ گئے اور یہ ان بڑے بڑے لقموں کو ایسا ہضم کرگئے کہ ڈکار تک نہ لی۔ یہاں تک کہ جنگ عظیم چھڑ گئی۔ جس کا واحد سبب طمع ملک گیری تھا کچھ ایسے اسباب پیدا ہوگئے کہ ٹرکی کو بھی شریک جنگ ہونا پڑا۔اورشریک بھی اس فریق میں جوبرطانیہ سے برسرپیکار تھا۔ اس وقت تمام عالم کے مسلمان جس مصیبت میں مبتلا ہوئے اور بالخصوص برطانوی حکومت میں رہنے والے مسلمانوں کو جومشکلات پیش آئیں اس کو خدائے علیم و حکیم ہی بہتر جانتا ہے۔برطانوی مدبرین نے اپنی مسلمان رعایا کی تسلی کے لیے وقتاً فوقتاً چند اعلان شائع کئے جن میں مسلمانوں کو اطمینان دلایا کہ ان کے مقامات مقدسہ پر کوئی آنچ نہ آئے گی۔اور مستقر خلافت پرکوئی معاندانہ قبضہ نہ کیاجائے گا۔اگرچہ مسلمانوں کا ان وعدوں پر یقین کرکے مطمئن ہوجانا ایک سخت غلطی تھی جس کا تلخ ترین مزہ آج ان کے روحانی ذائقے کو تلخ بنارہا ہے۔ لیکن واقعہ یوں ہے کہ مسلمان اس وعدے پر مطمئن ہوگئے اور سلطنت برطانوی کی جانی و مالی امداد کر کے شاندار فتح حاصل ہونے کے باعث بنے شاطرین برطانیہ نے جیسے ہی ہوا کا رخ اپنے موافق دیکھا فوراً عیاری کے داؤ چلنے لگے اور تمام دنیا کی مہذیب قوموں کی آنکھوں میں خاک ڈال کر تمام وعدے نسیا ًمنسیا ًکردیے۔
مقامات مقدسہ پر قبضہ کرلیا، مستقر خلافت یعنی قسطنطنیہ کو فوجی قبضہ میں دبوچ لیا ،سمرنا پر یونانیوں کو قبضہ دلادیا،عرب کو ترغیب اور لالچ دے کر خلیفۃ المسلمین سے باغی بنادیا، ٹرکی فوجوں سے ہتھیار رکھوالیے اور اس غریب کو زمانہ التوا میں بے دست و پا کرکے نہایت ذلت آمیز شرائط صلح پر دستخط کرنے کے لیے مجبور کیاشرائط صلح میں خاص طور پر اقتدار خلافت کو زائل کرنے والی شرطیں لگائی گئیں۔ اور تمام دیگر مسلمان رعایا کا خلیفۃ المسلمین سے مذہبی سرپرستی کا تعلق منقطع کردیا گیا۔ ولی عہد ٹرکی کوحراست میں کرلیااور اسی قسم کے ہزاروں غیر منصفانہ سلوک کیے گئے ان لڑائیوں میں شام،عراق،عرب، سمرنا،ٹرکی کے مسلمانوں پر مصیبت کے پہاڑ توڑے گئے، لاکھوں مسلمان قتل کیے گئے لاکھوں عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوئے،ہزاروں کلمہ گو خانہ ویران ہوکر وطن سے بھاگ نکلے اور آج غیر ملکوں میں سڑکوں اور میدانوں پر بے یارو مددگارپڑے ہوئے ہیں سینکڑوں کے بدن پر کپڑا اور جان پچانے کے لیے قوت لایموت بھی میسر نہیں۔ سمرنا میں ہزاروں بے گناہ قتل کردیے گئے، عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ یہ ہیں وہ روح فرسا اور جاں سوز واقعات جنہوں نے تمام عالم کے مسلمانوں کو بے چین کردیا ہے اور جس کے دل میں ذرا سا بھی ایمان باقی ہے وہ سیماب وار بے قرارہے اورا پنا شرعی اخلاقی اور قانونی حق سمجھتا ہے کہ اپنے مظلوم بھائیوں کی نصرت و اعانت کے لیے اٹھ کھڑا ہو اور جس طرح ممکن ہو اپنے بھائیوں کودشمن کے نرغے سے نکالے اور ان کے پنجۂ ظلم سے نجات دلائے۔
اخوت ایمانی کی ایک عالم گیر لہر اٹھی اور طرفۃ العین میں مشرق سے مغرب تک اور جنوب سے شمال تک دوڑ گئی سوتے ہوؤں کو بیدار کردیا بیداروں کو اٹھا کر کھڑا اور کھڑے ہوؤں کو بے محابا دوڑا دیا۔حجرہ نشین زاہد،کتاب کے کیڑے طالب علم، مدرسوں میں درس دینے والے برق تقریرعالم، دکانو ں میں بیٹھنے والے تاجر،اسباب ڈھونڈنے والے مزدور،سب ایک صف میں آکر کھڑے ہوگئے۔
مسلمانوں کے فرائض مقامات مقدسہ کے احترام اور خلافت اسلامیہ کے استحکام کے لیے سعی کرنا
اس کے بعد دوسرافریضہ حمایت مذہب اور اماکن مقدسہ کا احترام باقی رکھنے کے متعلق ہے جو مسلمانوں پر ان کے پاک مذہب نے عائد کیا ہے حضورﷺ کی وہ آخری وصیت جو دنیا سے تشریف لے جاتے وقت مسلمانوں کو فرمائی تھی وہ یہ تھی
’’اخرجو المشرکین من جزیرۃ العرب‘‘
’’مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو‘‘
اور دوسری روایت میں ہے کہ
’’اخرجو الیھود والنصاریٰ من جزیرۃ العرب‘‘
’’یہود اور نصارٰی کو جزیرہ عرب سے نکال دو‘‘
ان احکام میں تمام مسلمان مخاطب ہیں عرب و عجم کی کوئی تفریق نہیں ، شامی یا ٹرکی یا ہندی کاکوئی امتیاز نہیں۔ ان احکام کی وجہ یہ ہے کہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ اسلام کے اصلی سرچشمے ہیں ، حجاز کی مقدس سرزمین پہلی جگہ ہے کہ جہاں سے توحید ربانی کا آفتاب طلوع ہوااوراس کے ذروں کو روشن کرکے ہرذرے کودنیا کے مختلف حصوں کے لیے ایک ایک آفتاب بنادیا۔ اس پاک اور مقدس سرزمین پر اسلام کے حقیقی جاں نثاروں اور خدائے پاک کی توحید پر جان قربان کرنے والوں کے خون کے محترم قطرے گرے ہیں اور انہوں نے نہایت جلیل القدر قربانیوں کے بعد ان مقامات کو کفر وشرک کی نجاست سے پاک کیاہے ۔ پس اس لیے کہ جزیرۂ عرب اسلام کا اصلی سرچشمہ ہے، آفتاب توحید کا مطلع ہے، اسلامی شوکت کا مرکزاور تجلیات الٰہی کا مظہر ہے، اس میں خدا کے سب سے زیادہ مقدس اور محبوب رسولﷺ کی آرام گاہ ہے، اس میں دنیا کا سب سے پہلا توحید کا عبادت خانہ ہے، اس کے ریگستان کے ذرے صحابہ کے خون سے سیراب کیے گئے ہیں، اس میں اسلام کے جد ِاعلیٰ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی یادگاریں ہیں۔ ضروری ہے کہ کسی غیرطاقت اور دشمن اسلام سلطنت کے قبضے اور تسلط سے پاک رہے ۔ کیا تین خدا ماننے والوں، کیامادی قوت کے پرستاروں ، کیا دنیا کی تمام سرزمین کو اپنی جاگیر سمجھنے والوں سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ ان کے تسلط اور قبضے کے بعد رسول پاکﷺ کی روضہ مطہرہ کا احترام اور بیت الحرام کی حرمت باقی رہے گی اور دشمنان توحید اس کی تقدیس و تعلیم کو اپنے نقطۂ خیال سے ضروری سمجھیں گے؟ رعایا کے مذہبی جذبات سے خوف کھاکر اور عام ہیجان کے خطرے سے دفعتاً کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے عالم اسلامی میں ایک دم طوفان برپا ہوجائے تویہ اور بات ہے لیکن کوئی تجربہ کار جسے یورپین طاقتوں کی اس مذہبی عصبیت کا تجربہ ہے جس کی وجہ سے برطانیہ کے ذمہ داراراکین، فتح بیت المقدس کو شاندار صلیبی فتح قراردیتے ہیں اور سالونیکا پر یونانیوں کے قبضے کے وقت یہ کہہ کر خوشی مناتے ہیں کہ یورپ میں عیسائی مذہب کے داخل ہونے کا پہلا دروازہ پھر عیسائیوں کے پاس آگیا۔مسلمان ایک منٹ کے لیے مطمئن نہیں ہوسکتا کہ ان دوست نما اعدائے اسلام کے تسلط کے بعد بھی مقاماتِ مقدسہ کی حقیقی حرمت باقی رہ سکتی ہے۔بہت سے ظاہربین مسلمان بھی اس دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں کہ انگریزی تسلط کے بعد حج جاری رہے گا بلکہ آرام و آسائش کے سامان زیادہ ہوجائیں گے ۔میں ان حضرات سے صرف اسی قدر عرض کرتا ہوں کہ آپ نے ایک ظاہری سفر کو حقیقی حج سمجھ لیا ہے اور ظاہری سفر کے آرام و آسائش کوحضور قلب اور اخلاص و حلاوت ایمانی کی جگہ دے دی ہے اور پھر ظاہری آرام و آسائش کابھی آپ کو تجربہ ہوجائے گا، ابھی ذرا ٹھہرجایئے اور یہ سنہرا طوفان جو خودغرضی او رعیاری کے ساتھ عرب کی سطح پر محیط ہوگیا تھا ذرا کھل جانے دیجیے پھرآپ کوآرام وآسائش کا بھی پتہ چل جائے گا۔
یہاں پر یہ کہا جاتاہے کہ حجاز پر انگریزی قبضہ نہیں ہے بلکہ شریف مکہ کی حکومت ہے میں عرض کروں گا کہ شریف مکہ کی حکومت کی حقیقت بھی واقف کار نظروں سے پوشیدہ نہیں ہے۔ بھلا وہ شریف جس نے اپنے قدیمی ولی نعمت اور واجب الاحترام آقا اور مفروض الطاعۃ خلیفۃ المسلمین سے ایک مسیحی طاقت کی ترغیب اور راطبہ فریبی کی وجہ سے بغاوت کی ہو، وہ شریف جو انگلستان کا وظیفہ خوار ہو،وہ شریف جو مسیحی سرداروں کی تصویر کو سینہ سے لگاتا ہو، وہ شریف جو خدا کے مقدس جائے امن سے مسلمانوں کوگرفتار کر کے کفار کے حوالے کردے، کیااس کی حکومت صحیح معنوں میں اسلامی حکومت ہو سکتی ہے اور اس کا نام نہاد اقتدار اسلامی اقتدار کہلاسکتا ہے؟ حاشا وکلا۔ الغرض بیت المقدس،حجاز کی مقدس سرزمین،عراق،عرب یہ سب مسلمانوں کے اماکن مقدسہ ہیں ،مستقر خلافت یعنی قسطنطنیہ اور ایڈریا نوپل قدیم اسلامی یادگاریں ہیں ۔ان تمام مقامات کو اسلامی شوکت و وقار کا مرکز اور خلافت اسلامیہ کا محور ہونے کی وجہ سے مذہبی احکام کے بموجب غیر مسلم اثر سے پاک و صاف رکھنا مسلمانوں کا مذہبی فریضہ ہے یہاں تک اس کا بیان تھا کہ اس وقت مسلمانوں کے مذہبی فرائض کیا ہیں گزشتہ بیان سے معلوم ہوگیا کہ وہ فرائض یہ ہیں:
- اپنے مسلمان مظلوم بھائیوں کی نصرت و اعانت
- مقامات مقدسہ کی حفاظت
- خلیفۃ المسلمین کے اقتدار کی برقراری میں کوشش ، خلافت اسلامیہ کے استحکام کی سعی کرنا۔
مسلمانوں کے ادائے فرائض کی صورت
اب سوال یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ان فرائض کے ادا کرنے کی کیا سبیل ہے؟ میں پہلے یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں تک مجھے معلوم ہے نہ صرف ہندوستان بلکہ اقصائے عالم میں کوئی ایک مسلمان بھی ایسا نہ ہوگا جو ان فرائض کی واقعیت سے منکر ہو بلکہ اس میں تردد اورشبہہ رکھنے والا بھی غالبا کوئی متنفس نہ نکلے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ایک تلاطم برپا ہے۔ ہرشخص بے چین اور مضطرب ہے۔ خلافت کمیٹیوں کی کثرت اور عام قومی مظاہروں اور جلسوں کی نوعیت اس کی بیّن دلیل ہے۔مگر بعض لوگ ایسے بھی ہیں جوکسی خوف کی وجہ سے جوان کے دلوں پر مسلط ہوگیا ہے اس فریضے کے عائد ہونے میں طرح طرح کے شبہات نکالتے ہیں یا کسی دنیوی طمع اور لالچ اور اپنی سنہری رو پہلی مصلحتوں کے باعث حیلے حوالے تراشتے ہیں۔
مسلمانوں کا اولین فرض ہے کہ وہ دشمن اسلام کودشمن کے مرتبہ میں رکھیں اور ایسے تعلقات جو میل جول اور دوستی اور محبت پیدا کرنیوالے ہیں ایک دم چھوڑ دیں اس اخلاقی جنگ کا نام ترکِ موالات ہے جس کے متعلق قرآن پاک میں صریح احکام موجود ہیں۔ حق تعالیٰ نے سورۃ ممتحنہ میں ارشاد فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاء
’’ایمان والو! میرے اور اپنے دشمن کو دوست اور مددگار نہ بناؤ۔‘‘
اس آیت میں حضرت حق تعالیٰ نے مسلمانوں کودشمنان خدا اور دشمنان اہل اسلام کے ساتھ موالات کرنے سے منع فرمایا ہے اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ جس وقت نبی کریمﷺ نے غزوہ فتح مکہ کا ارادہ فرمایا اور اس کا سامان ہونے لگا تو حاطب ؓبن ابی بلتعہ صحابی نے مشرکین عرب کو ایک خفیہ اطلاع کا خط لکھا جس میں انکو متنبہ کیاگیا تھا کہ رسول خداﷺ تمہار ے اوپرحملہ کی تیاریاں کررہے ہیں تم اپنا بھلا برا سوچ لو۔ چونکہ قریش کے ساتھ ان کا کوئی نسبتی تعلق نہ تھا اس لیے انہوں نے چاہا کہ میں ان کے ساتھ یہ احسان کردوں اور اس کے بدلے میں وہ میرے اہل و عیال اور جائیداد وغیرہ کی جو مکہ میں ہے حفاظت کریں ۔ حضورﷺ کو وحی سے اطلاع ہوگئی اور راستہ میں سے وہ خط پکڑا گیا اس پر حق تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اس میں کئی باتیں خاص توجہ کے لائق ہیں اول یہ کہ اس میں حضرت حق تعالیٰ نے عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ فرمایا ہے جس میں صاف طور پر سمجھاجاتا ہے کہ دشمنان خدا اور دشمنان اہل اسلام سے ترک موالات کا حکم دینے کی علت ان کی عداوت اور دشمنی ہے۔ تو جہاں کہیں عداوت اور دشمنی موجود ہوگی وہاں ترک موالات کا حکم اسی طرح عائد ہوگا جس طرح آیت شریفہ کے نزول کے واقعہ میں ہواتھا۔ دوسرے یہ کہ حاطبؓ بن ابی بلتعہ نے کفار مکہ کی محبت یا قلبی میلان یا ان کے کفر سے راضی ہونے کی وجہ سے یہ کام نہ کیا تھا بلکہ محض ایک دنیوی مصلحت کی وجہ سے کیا تھا اور مصلحت بھی ایسی کہ ان کے اہل و عیال کی حفاظت کی اور کوئی سبیل نہ تھی کیونکہ وہ دشمنوں کے تسلط کے مقام میں تھے گویا ان کا یہ خبر دینا دشمنوں کی ایک خدمت(محافظت جائیداد اور اہل و عیال) کا معاوضہ تھا باوجود اس کے حضرت حق تعالیٰ نے اس کو موالات سے تعبیر فرمایا۔ اور ممانعت کا حکم بھیجا۔
تیسرے یہ کہ حاطب رضی اللہ عنہ کا یہ فعل یعنی خبر دینا کفار مکہ کی کوئی مادی مدد کرنا نہ تھا بلکہ صرف ان کو ان کے برے انجام سے خبردار کرنا اور اپنی نجات کا طریقہ سوچ لینے کے لیے ہلاکت کا وقت سر پرآنے سے پہلے موقعہ بہم پہنچانا تھا ۔ مگر صرف اتنی بات کو بھی حق تعالیٰ نے موالات ممنوعہ میں داخل فرما کر موالات کی ممانعت کا حکم نازل فرما دیا۔ حاطب رضی اللہ عنہ کے اس خفیہ خط کے یہ الفاظ اس مضمون پرپوری روشنی ڈالتے ہیں:
’’ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یریدکم فخذوا حذرکم۔‘‘(خازن)
’’رسول اللہ ﷺ تمہارے اوپر حملہ کا ارادہ فرما رہے ہیں تو تم اپنا بچاؤاختیار کرلو۔‘‘
اور جب حضورﷺ نے ان سے دریافت کیا کہ کیوں حاطب یہ کیا حرکت کی تھی؟ تو انہوں نے جواب دیا :
’’مافعلتہ کفراً ولا ارتداد عن دینی ولا رضا بالکفر بعد الاسلام۔‘‘
’’حضورﷺ میں نے یہ کام کفر کی وجہ سے یا اسلام سے پھر جانے کے باعث یا اسلام لانے کے بعد کفر کے ساتھ راضی ہونے کے سبب سے نہیں کیا۔‘‘
’’کان اھلی بین ظھرانیھم فخشیت علی اھلی فاردت ان اتخذنی عندھم یداً وقد علمت ان اللہ تعالیٰ ینزل بھم باسہٗ وان کتابی لا یغنی عنھم شیئا۔‘‘ (خازن)
’’میرے اہل و عیال کفار مکہ کے نرغہ میں تھے، مجھے ان کی جان کا خوف تھا تو میں نے چاہا کہ ان کے ساتھ ایک احسان کردوں اور بیشک میں جانتا تھا کہ خدا تعالیٰ ان کافروں پراپنا عذاب نازل کرے گا اور میرے خط سے انہیں کوئی فائدہ نہ پہنچے گا۔‘‘
چوتھے یہ کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حاطب رضی اللہ عنہ کے اس فعل کو نکث بیعت اور مظاہرت سے تعبیر فرمایا۔
لکنہ قد نکث وظاہرا اعدائک علیک۔ (ابن جریر طبری)
’’یا رسول اللہﷺ اس (حاطب رضی اللہ عنہ) نے اسلام کی بیعت توڑ دی اور آپ ﷺ کے خلاف آپ کے دشمنوں کی مدد کی‘‘
اس کے بعد حضرت حق تعالی ٰ ارشاد فرماتے ہیں۔
اِنَّمَا یَنھَاکُمُ للّٰہُ عنِ الَّذِینَ قَاتَلُوکُم فِی الدِّیْن وأَخرَجُوکُم مِن دِیَارِکُم وَظَاھَرُوا عَلی اِخْراجِکُم أن تَوَلَّوھُم وَمَن یَّتَوَلَّھُم فَاوْلٰئِک ھُمُ الظَّالِمُون(الممتحنہ)
’’ حق تعالیٰ تم کو ایسے لوگوں کی موالات سے منع کرتا ہے جو تم سے مذہبی لڑائی لڑے اور (جنہوں نے)تم کو تمہارے گھروں سے نکالااور نکالنے والوں کے مددگار ہوئے اور جولوگ ان سے موالات کریں گے وہ ظالم ہیں۔‘‘
جن کافروں میں یہ تین چیزیں پائی جائیں ان کی موالات کو یہ آیت حرام قراردیتی ہے( مگر یہ مطلب نہیں ہے کہ جن کافروں نے یہ کام کیے ہوں ان کے ساتھ مدت العمر موالات حرام ہے اس لیے ان کاموں کے کرنے والے جب مسلمان ہوجائیں تو ان کی گزشتہ کارروائیاں اسلام لاتے ہی کالعدم ہوجاتی ہیں یا ان سے مسلمان صلح کرلیں تو صلح کی شرائط کی تکمیل ضروری ہوتی ہے جیسے کفار مکہ سے صلح حدیبیہ کی شرائط کے ماتحت حضورﷺ نے ان مسلمانوں کو واپس کردیا جو کفار مکہ ان کی قید سے کسی طرح نکل کرآپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے):
اول: مسلمانوں سے دینی لڑائی۔
دوم: مسلمانوں کو گھروں سے نکالنا اور خانہ ویران کرنا۔
سوم:نکالنے والوں کی مدد کرنا۔
پہلی بات:مسلمانوں سے دینی لڑائی
پہلی بات کہ برطانیہ کی مسلمانوں سے مذہبی لڑائی تھی یا نہیں برطانیہ کے وزیراعظم کے ان الفاظ سے جو جنرل ایلن بی کوفتح بیت المقدس کی مبارکباد دیتے وقت کہے گئے تھے اوراس فتح کو شاندا ر صلیبی فتح قراردیاگیاتھا ،صاف ظاہر ہے اور ٹرکی کے ساتھ التواء جنگ اور صلح کے شرائط پرنظرڈالنے سے موٹی نظر والے کو بھی حقیقت حال نظر آجاتی ہے۔ تھریس پر یونانیوں کو قبضہ دلانا ،قسطنطنیہ پر قبضہ کر لینا،اپنے صریح و صاف وعدوں کی خلاف ورزی کرنا، سمرنا میں یونانیوں کے مظالم کو نہ روکنا ، یہ تمام چیزیں ایسی ہیں کہ انک ے بعد کسی کو اس بات میں شبہ باقی نہ رہ سکتا کہ ترکوں کے ساتھ صرف ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے یہ تمام ناانصافیاں روا رکھی گئی ہیں۔
دوسری و تیسری بات: مسلمانوں کو گھروں سے نکالنا
قسطنطنیہ اوراس کے اطراف سے ہزاروں محبان وطن نکل بھاگے، خود ولی عہد سلطنت نے اسلامی حمیت کی وجہ سے کئی مرتبہ نکلنے کا ارادہ کیا۔ مگر ان کو سخت حراست میں کردیاگیا۔ یونانیوں کے مظالم سے ہزاروں مسلمان سمرنا سے گھر بار چھوڑ کر بھاگے قسطنطنیہ سے بہت سے معززین اور مقتدر افراد کو جلاوطن کر کے مالٹا وغیرہ میں بھیج دیا گیا یہ تمام واقعا ت ہیں جن سے اخراج من الدیار اور مظاہرت علی الاخراج میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا۔ مالٹا میں ٹرکی کے بہت سے مقتدر افراد میری موجودگی کے زمانے میں نظر بند تھے۔
پس جبکہ یہ تینوں باتیں سلطنت برطانیہ کے ذمہ داروزراء کی طرف سے واقع ہوگئیں تو اب بھی کسی مسلمان کو برطانیہ کے ساتھ موالات کے حرام ہونے میں کوئی شبہ ہوسکتا ہے۔ رہا یہ شبہہ کہ موالات اور چیز ہے اور معاملہ اورچیز ہے ۔ آیت موالات کو منع کرتی ہے نہ کہ معاملات کو۔ تو میں کہوں گا کہ ہاں موالات کے مفہوم کے لحاظ سے فرق ضرور ہے لیکن موالات کے مفہوم میں قربت اور نزدیکی پیداکرنے والے تعلقات اور باہمی نصرت و معاونت کے تمام ارتباطات لغوی معنی کے لحاظ سے داخل ہیں پس تمام ایسے معاملات جن کی وجہ سے دشمن کے ساتھ میل جول،ربط واتحاد بڑھے ایسے معاملات جو ان کی معاندانہ طاقت کو بڑھائیں ایسے تعلقات(فوجی ملازمت وغیرہ) جو مسلمانوں کی ہلاکت اور شوکت اسلامیہ کے مٹانے میں دخل رکھتے ہوں ایسے روابط جن کی وجہ سے انہیں موقع ملے کہ مسلمانوں کی رضا مندی پراستدلال کرسکیں ۔ ایسے مراسم جن سے ان کے ساتھ محبت والفت کا اظہار ہوتا ہو۔ براہ راست یا بالواسطہ موالات ممنوعہ محرمہ میں داخل ہیں حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے واقعہ کو بغور دیکھا جائے۔ اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی ایمانی عینک سے مشاہدہ کیاجائے تو پھرکوئی شبہہ واقع نہیں ہوسکتا۔اس کی تفصیل کایہ وقت نہیں ہے اس لیے صرف اس قدرپراکتفاکرتا ہوں۔
دوسرا شبہہ یہ کیاجاتا ہے کہ مسلمان ترک موالات سے تکلیف اور نقصان اٹھائیں گے اس کے جواب میں بھی مختصراًیہ واقعہ ذکر کردینا کافی سمجھتا ہوں کہ جس وقت یہود بنوقینقاع سے مسلمانوں کی لڑائی ہوئی تو عبادہ بن صامت انصاری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
قال عبادۃ ان لی اولیآء من الیھود کثیر عددھم شدیدۃ شوکتھم وانی ابراء الی اللہ والی رسولہ من ولایتھم وحلفھم ولامولی لی الاللہ ورسولہ وقال عبداللہ ابن ابی لکنی لا ابراء من ولائِ یھود انا رجل لا بدلی منھم (ابن جریر وخازن)
’’حضورﷺ میری یہود کی ایسی جماعت سے موالات تھی جن کی تعداد بہت ہے اور طاقت زبردست ہے آج میں ان کی موالات سے دست برداری کرتا ہوں اور اب خدا اور رسولﷺ کے سوا میرا کوئی مولا نہیں۔ اس پر عبداللہ بن ابی( منافق) بولا میں تو یہود کی موالات سے دست برداری نہیں کرسکتا۔ کیونکہ میری تو ان کے بغیر گزر مشکل ہے۔‘‘
اس پر یہ آیت نازل ہوئی:
یَاَیُّھاالَّذِینَ آمَنُوا لَاتَتَّخِذُوا الیَھُودَ والنَّصَاریٰ اَوْلِیاء
’’ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ اور ان سے موالات نہ رکھو۔‘‘
اور منافقین کا یہ قول کہ ہمیں تکالیف اور مصیبتیں پہنچنے کا خوف ہے، جواز موالات کے لیے کافی نہ ہوا اور ان کو موالات کی اجازت نہ دی گئی۔بلکہ ایسے لوگوں کے بارے میں حضرت حق تعالیٰ نے فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فرمایا ہے اور ان کے اس قول کا کہ ہمیں تکلیفیں اور مصیبتیں پہنچنے کا خوف ہے یہ جواب دیاکہ عنقریب حق تعالیٰ اپنی طرف سے مسلمانوں کی فتح یا اور کوئی مہتمم بالشان امر ظاہرکرے گا۔ جس سے یہ تمام ڈرنے والے اپنے نفسانی منصوبوں پر نادم ہوجائیں گے۔
آج بھی ایک میدان عمل آپ کے سامنے ہے ابتلاء و امتحان کی کڑی منزل درپیش ہے مگر آپ دور نہ جائیں صرف اپنے آقائے نامدار خاتم النبیین کے حالات پر غور کریں۔ آپ ﷺ کو مشرکین عرب نے اس قدر سخت تکلیفیں پہنچائیں کہ الامان والحفیظ۔ مگر آپﷺ تمام جان گزار تکلیفوں کو نہایت استقامت کے ساتھ برداشت فرماتے رہے اور اپنے فرضِ تبلیغ کو جاری رکھا۔ یہاں تک کہ کفار مکہ نے آپ کے قتل کا منصوبہ باندھ کر آپ ﷺ کے مکان کا محاصرہ کرلیا۔ اس وقت آپ ﷺ خداتعالیٰ کے حکم سے مکان چھوڑ کر تشریف لے گئے۔ اور تین دن غار ثور میں رہ کرمدینہ منورہ چلے گئے۔ وہ زمانہ مسلمانوں کے لیے سخت ابتلاء و آزمائش کا زمانہ تھا مسلمانوں کی تعداد نہایت قلیل او رمالی حالت نہایت تنگی کی تھی۔ مگر ان کے ایمان پختہ اور قلب مطمئن تھے۔ ان کی صداقت و استقامت کی برکت تھی کہ کفار کے تمام منصوبے خاک میں مل گئے۔ اور خواروذلیل ہوکر مغلوب ہوئے اور خدا کا نور تمام دنیا میں پھیل گیا۔
مسلمانوں کی کامیابی یقینی ہے
میری عرض اس بیان سے صرف یہ ہے کہ آج اگر مسلمانوں کے ایما ن پختہ ہوجائیں اور خدا تعالیٰ کے وعدہ نصرت وَكَانَ حَقّاً عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ پر ان کوپورا بھروسہ ہوجائے اور تکالیف کی برداشت میں ذرا صبر و استقامت سے کام لیں تو ان کی کامیابی یقینی ہے۔کیونکہ آج دنیا میں مسلمانوں کی تعداد چالیس کروڑ ہے جس میں سے صرف ہندوستان میں ساڑھے سات کروڑ آباد ہیں۔ اگر یہ سب متفقہ طور پر اسلامی خدمت کیلیے صبرو استقامت کی ڈھال لے کر کھڑے ہوجائیں تو کیا کوئی طاقت ہے جو توحید کی بجلی پر غالب آجائے۔ دشمنان خدا ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹادینے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ لیکن خداتعالیٰ کی نصرت اور توفیق سے مومنین کی قوت ایمانی اور استقامت ہمیشہ ان کی کوششوں کے سامنے سد سکندری ثابت ہوئی ہے۔ اسلام خدا کا نور ہے جو ان کورچشموں کی معاندانہ پھونک سے کبھی نہیں بجھ سکتا۔
فرزندان توحید! آج تمہارے ایمان اور اخلاص کا امتحان لیا جارہاہے خدا تعالیٰ دیکھ رہا ہے کہ کون اس کے جلال وجبروت کے سامنے سرجھکاتا ہے اور کون ہے جو دنیا کی ناپائیدار ہستیوں کے خوف سے خدا کی امانت میں خیانت کرتا ہے۔اگر تم کو میدان محشر میں خدا کے سامنے پیش ہونا ہے ،اگر تم کو رسول پاک ﷺ کی شفاعت کی آرزو ہے، تو اس کے پاک دین کی حفاظت کرو، اس کے مقدس احکامات کی اطاعت کرو، اس کی امانتِ توحید کو برباد نہ ہونے دو اور اس کی دی ہوئی عزت کو حقیقی عزت سمجھو۔ اسلام صرف عبادات کا نام نہیں ہے بلکہ وہ تمام مذہبی تمدنی ، اخلاقی، سیاسی ضرورتوں کے متعلق ایک کامل و مکمل نظام رکھتا ہے جو لوگ زمانہ موجودہ کی کشمکش میں حصہ لینے سے کنارہ کشی کرتے ہیں اور صرف حجرہ میں بیٹھ رہنے کو اسلامی فرائض کی ادائیگی کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔ وہ اسلام کے پاک و صاف دامن پر ایک بدنما دھبہ لگاتے ہیں ان کے فرائض صرف نماز روزہ پر منحصر نہیں۔ بلکہ اس کے ساتھ ہی اسلام کی عزت برقرار رکھنے اور اسلامی شوکت کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری بھی ان پر عائد ہوتی ہے۔
علماء کا فرض
جماعت ِعلماء جو حقیقتاً مسلمانوں کے مذہبی قائد ہیں ،ان کافرض ہے کہ اس وقت موقع کی نزاکت اور اہمیت کو نظرانداز نہ کریں آپس کے نزاع اور اختلاف میں پڑ کر اصل مقصود کوخراب نہ کریں ورنہ مسلمانوں کی خرابی اور بربادی کی تمام تر ذمہ داری انہیں پرعائد ہوگی۔ علمی تدقیقات کے لیے آپ کے واسطے بہت سے میدان کھلے ہوئے ہیں ۔ عبادات و ریاضت کے لیے بہت سی راتیں آپ کو بِلا شرکت غیرے حاصل ہیں۔ مگر جوکام جبل احد اور میدان بدر میں ہوا وہ مسجد نبوی جیسی مقدس جگہ کے مناسب نہ تھا۔
برطانیہ اور مذہبی آزادی
معزز حاضرین!برطانیہ کا یہ دعویٰ کہ وہ کسی کے مذہبی امور میں مداخلت نہیں کرتا آپ ہمیشہ سنتے آئے ہیں، مگر میں پوچھتا ہوں کہ کیا ہندوستان کے مسلمان اپنے مذہبی امور میں آزادی کے ساتھ عمل کرسکتے ہیں؟ کیا سلطنت کا زبردست پنجہ ان کا گلا گھوٹنے کے لیے ہر وقت تیارنہیں ہے؟ آج مولوی ظفر علی خاں اور مولوی لقاء اللہ، صوفی اقبال احمد، مولوی محمد فاخر اور اسی طرح دوسرے فرزندان ہند کس جرم میں قید خانوں میں بند ہیں؟ کیا انہوں نے مذہبی احکام کی تبلیغ کے سوا اور کوئی گناہ کیاتھا۔کیا مسلمانوں کے مذہبی احکام کے فتوے ضبط نہیں ہوئے کیا مسلمانوں کی ہزاروں خواتین کو اپنے نکاح وطلاق کے مقدمات میں غیرمسلم عدالتوں کے سامنے جاکر اسلامی احکام کے خلاف فیصلے کرانے پر مجبور نہیں کیا؟ شفعہ و قبضہ مخالفانہ وغیرہ کے قوانین شریعت اسلامیہ کے موافق ہیں؟یہ تمام چیزیں ہیں جن کی پوری نگہداشت جمعیۃ العلماء کے اہم فرائض میں سے ہے۔
اسی طرح مذہبی تعلیم کے لیے مفید نظام قائم کرنا اور تمام اسلامی درسگاہوں کو ایک سلسلہ میں منسلک کرنا بھی علماء کے ضروری فرائض میں داخل ہے۔درسگاہوں کو ایک سلسلے میں منسلک کرنا بھی علماء کے ضروری فرائض میں داخل ہے۔اسلامی اوقاف کا وسیع وعریض سلسلہ بھی ایک خاص نظم کا محتاج ہے ۔ غرض کہ بہت سی اسلامی ضروریات ہیں جو علماء کے ایک مرکز پر جمع نہ ہونے کی وجہ سے منتشر حالت میں ہیں۔قبل اس کے کہ میں اپنے بیان کو ختم کروں آپ حضرات سے ایک التجا کرتا ہوںوہ یہ کہ ہرحال میں خدائے قدوس پر بھروسہ رکھیں اور اپنی تدبیر کوتدبیر ہی کے مرتبہ میں سمجھیں اسلامی احکام کی تعمیل کریں اور مذہبی فرائض ادا کرنے کا مضبوط اور مستحکم عہد باندھ لیں۔ خداکی رحمت نیک بندوں کے ساتھ رہتی ہے اور اس کا رحم ضعیفوں اور خدا پر بھروسہ رکھنے والوں کی مدد کرتا ہے۔
دعا
اے زندہ اور قدوس خدا، اے ارحم الراحمین، اے شہنشاہ رب العالمین ہمارے گناہوں سے درگزرفرما اور ہمارے ضعف وناتوانی پررحم کر، ہمیں اعمال صالحہ کی توفیق دے اور اپنے دین کی خدمت کے لیے ہمارے دل مضبوط کردے، ہماری کلائیوں میں طاقت عنایت فرما، ہمارے اور اپنے دشمنوں کو ہلاک کر،حق کو فتح اور باطل کوشکست دے،آمین یا ارحم الراحمین!
(جمعیۃ العلما ءکے دوسرے سالانہ جلسے(۱۹تا۲۱نومبر۱۹۲۰ء) میں وفات سے ایک سال قبل صدارتی خطاب)
1حضرت شیخ الہند نوّر اللہ مرقدہٗ نے اس تقریر میں ’ترکی‘ جسے آج کل ’ترکیہ‘ کہا جاتا ہے کے لیے ’ٹرکی‘ ہی استعمال کیا ہے۔