نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home فکر و منہج

اجنبی ___ کل اور آج | تیسری قسط

احسن عزیز by احسن عزیز
31 جولائی 2023
in فکر و منہج, جون و جولائی 2023
0

الشیخ المجاہد احسن عزیز شہید رحمۃ اللہ علیہ کی آج سے بیس سال قبل تصنیف کردہ نابغہ تحریر ’ اجنبی ___ کل اور آج ‘، آنکھوں کو رلاتی، دلوں کو نرماتی، گرماتی ، آسان و سہل انداز میں فرضیتِ جہاد اور اقامتِ دین سمجھانے کا ذریعہ ہے۔ جو فرضیتِ جہاد اور اقامتِ دین( گھر تا ایوانِ حکومت) کا منہج سمجھ جائیں تو یہ تحریر ان کو اس راہ میں جتے رہنے اور ڈٹے رہنے کا عزم عطا کرتی ہے، یہاں تک کہ فی سبیل اللہ شہادت ان کو اپنے آغوش میں لے لے(اللھم ارزقنا شہادۃ في سبیلك واجعل موتنا في بلد رسولك صلی اللہ علیہ وسلم یا اللہ!)۔ ایمان کو جِلا بخشتی یہ تحریر مجلہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ میں قسط وار شائع کی جا رہی ہے۔(ادارہ)


کیسی جنت ہے جس نے آگ میں جھلسایا ہے؟

یہ ساری تبدیلیاں بلا و جہ نہیں ہیں بلکہ شعوراً یا لا شعوراً مغربی اقدار و تصورات کو قبول کرنے کا نتیجہ ہیں۔ فقہاء نے یہ بات صراحت کے ساتھ لکھی ہے کہ جب ہم (بطور فرد یا قوم) کسی کی مشابہت اختیار کرتے ہیں تو دراصل اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ اُس فرد یا قوم کی عظمت اور محبت ہمارے دل میں ہوتی ہے ۔یہی بات بالعکس بھی ہے یعنی یہ کہ کسی کی ظاہری مشابہت اختیار کر لینے سے باطنی اثرات بھی فوراً وارد ہوتے ہیں،خیالات و تصورات اور پھر رویے بھی بدل جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سختی سے کفار کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا اور تنبیہ فرمائی کہ: ((مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَمِنْھُمْ))(ابوداود،کتاب اللباس) ’’ جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انھیں میں (شمار) ہو گا‘ ‘ ۔ اتنی شدید وعید کے بعد اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اہلِ کفر کی ظاہری و باطنی مشابہت سے گلو خلاصی ہمارے ایمان اور نجات کے لیے کتنی اہم ہے۔

مغربی تہذیب سے اپنی ہمہ جہت اثر پذیری کو زائل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اوّلاً اسلامی عقائد کی روشنی میں___ تہذیبِ جدید کے تصوراتِ زندگی اور اس کے اقدارو نظریات کو سمجھا جائے ، اس کے اصل عزائم کو بھانپا جائے اورپھر دیکھا جائے کہ اہلِ اسلام کے پاس ان تصورات اور اقدار پر مبنی نظامِ زندگی کو اختیار کرنے کی گنجائش ہے یا نہیں؟

مغربی تہذیب در اصل ایک ایسی تہذیب ہے جس نے دنیاکو لا الٰہ الا الانسان کا نعرہ دیا اور ’’اُعْبُدُوا اللّٰہَ ‘‘ ’’ اللہ کی عبادت کرو‘‘___کے فریضے کو انسان کے ذہن سے کھرچ دیا۔ آج کا مغرب ، انسان کو الٰہ (معبود) اور حاکم(فرمانروا) مانتا ہے ۔خیر و شر کے پیمانے اسی کے ہاتھ میں تھماتا ہے اور پھر اس الٰہ کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ ’’جو چاہے اپنے لیے خواہش کرے‘‘اور ’’جس چیز کو چاہے اپنی ضرورت قرار دے‘‘۔’’ہر آسائش طلب کرنا ‘‘اور’’من چاہا اندازِ زندگی اختیار کرنا‘‘اس کے لیے جائز ہے۔ اور یہ سارے ’’حقوق‘‘ اور ’’آزادیاں‘‘اس کو حاصل ہیں۔

ساتھ ہی اس تہذیب کے پیشواؤں نے ’’ نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ ‘‘ ’’ہم ہی تمہیں رزق دیں گے‘‘ کا خدائی دعویٰ کرکے یہ اعلان کر رکھا ہے کہ’’ تمہارے سارے مادی مسائل کو حل کرنا‘‘،’’ہر (خود ساختہ) خیر کوتمہارے قدموں میں رکھنا،اور ہر(خود ساختہ) شر کو تم سے دور کرنا‘‘ اور ’’تمہاری نفسانی خواہشات کی تکمیل کا سامان کرنا‘‘ ہماری اولین ذمہ داری اور فریضہ ہے۔ چنانچہ انسان ہی اس تہذیب میں ربوبیت کے منصب پر بھی فائز ہے ۔پس ایک ایسی دنیا ___ جہاں انسان کو فکر وعمل میں ردّوقبول کی کامل آزادی ہو، فرائض ’’اُعْبُدُوااللّٰہَ‘‘ کی دعوت نہ ہو بلکہ حقوق یعنی ’’مَا تَشْتَھِیْ اَنْفُسُکُمْ‘‘ کی مثل ہر طرح کی خواہشات ،نعمتوں اور آسائشوں کو پورا کرنا کسی کی ذمہ داری ہو ___اسے مغرب اپنی ’’جنت ‘‘قرار دیتا ہے۔آج کا مغربی معاشرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کی ایک اکمل تصویر ہمارے سامنے پیش کرتا ہے :

’’الدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّۃُ الْکَافِرِ‘‘ (مسلم،کتاب الزھد والرقائق)

’’دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے۔ ‘‘

اس دنیاوی جنت کا حصول و استحکام مغرب کا منتہائے مقصود ہے۔ ان کے تمام علوم و تحقیقات (معاشی، فنّی ،عمرانی اور سائنسی ) کا کل حاصل یہی متاعِ قلیل (دنیاوی جنت) ہے۔ ﯚیَعْلَمُوْنَ ظَاھِرًا مِّنَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ عَنِ الْاٰخِرَۃِ ھُمْ غٰفِلُوْنَﯙ (الروم:۷) ’’یہ تو دنیا کی ظاہری زندگی کو جانتے ہیں اور آخرت سے تو بالکل ہی غافل ہیں‘‘۔

جو فرد یا قوم بھی آج مغرب کے اس مذکورہ بالا دِین کو،جسے وہ عرف میں’’ جمہوریت‘‘ کہتے ہیں،قبول کرلے تو اس کے لیے وہ سب کچھ ہے___کہ جو آج خود اُنھیں میسّر ہے۔ مساوات کا مطلب ان کے ہاں ہے ہی یہ کہ ہر انسان جو ان اقدار کواختیار کر لے،تو اسے اپنی خواہشات کے مطابق___ دنیا،اس کے عیش، اور اس کی سہولیات سے متمتع ہونے ___اور اپنے تصوراتِ خیرو شر کے مطابق من چاہی زندگی گزارنے کی’’ یکساں آزادی اور مواقع‘‘ حاصل ہوں گے۔اورکسی کو اس معاملے میں مداخلت کرنے کا کوئی حق نہیں ہو گا۔

(جس تہذیب کے بنیادی عقائد یہ ہوں اور انھی پر اس کی ساری عمارت کھڑی ہو___ اس میں ہمارے لیے کوئی اسوہ ہوسکتاہے؟کیا اس کی اقدار اور نظام میں اپنے لیے گنجائشیں تلاش کی جا سکتی ہیں؟انھیں اسلامی جواز فراہم کیا جا سکتا ہے؟ اور کیاکوئی مشترک اقدار تلاش کی جا سکتی ہیں جو اس فتنۂ عظیم اور اسلام کے درمیان خلیج کو مٹاسکیں؟ )

مغرب اس دین کو پوری دنیاپر نافذ کرناچاہتا ہے،تاکہ یکساں اقدار کے فروغ کے نتیجے میں اس کی تہذیب کو کسی قسم کا بیرونی خطرہ لاحق نہ رہے،اور کرّہ ٔ ارض کی امامت (اس دین کا پیشوا ہونے کی وجہ سے لا محالہ)اسی کے ہاتھ میں رہے۔اسی بات کے پیشِ نظروہ اپنی ’’جنت سازی‘‘ کے اس عمل میں شرکت کی ہر شخص کو اجازت، موقع اور آزادی دیتا ہے اور اس کے لیے ہر طرح کی قانون سازی کو روا سمجھتا ہے۔ اور مغرب میں جا بسنے والے مسلمان بھی اگر اُن کے ساتھ حقوق کی سیاست، آزادیوں کے فروغ، سرمائے کی بڑھوتری اور اپنی دنیا کوبہتر سے بہتربنانے کی اس جدوجہد میں شریک ہوجائیں تو اس سے ان کا کیابگڑتا ہے؟بلکہ اس طرح انھیں مسلم دنیا سے مخلص خدمت گزار،چُنیدہ محققین ،با صلاحیت(اور صاف ستھرے) ڈاکٹر،دیانت دار انجینئر ___ اور دوسری طرف بلادِ اسلامیہ میں واپس جاکر ان کی تہذیبی اقدار کی تنفیذ کرنے والے ماہرینِ تعلیم، مستشرقین، مداہنت کرجانے والے مذہبی وسیاسی پیشوا، ’’اعتدال پسند ‘‘ مفکرین،اجرتی مصنفین اور ضرورت پڑنے پرنگران اور عبوری وزراء وحکام بھی مل جاتے ہیں۔ بلکہ ہر اسلامی ملک کے لیے ان کے پاس ایسی کھیپ ہر وقت موجود رہتی ہے۔کم از کم فائدہ جو وہ مسلمانوں کے دار الکفرمیں جا بسنے سے اٹھاتے ہیں وہ یہ ہے کہ کفر سے کراہت اور براء ت کی خلش مسلمانوں کے دلوں سے نکل جاتی ہے اور اقبال ؔسے معذرت کے ساتھ :

مسٹر کو ہے مغرب میں جو سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد

کاش دارالکفرمیں جابسنے سے متعلق ہمارے مسلمان ،خصوصاًنوجوان شریعت کے احکام پڑھ لیں ! ان احکام کے علاوہ ہمارے ایمان کی محافظ آخر کیا چیز ہے؟اور ایمان سے بڑھ کربھی بھلا کوئی قیمتی اثاثہ ہو سکتا ہے،جس کے لیے پریشان ہوا جائے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اَنَا بَرِیْئٌ مِّنْ کُلِّ مُسْلِمٍ یُّقِیْمُ بَیْنَ اَظْھُرِ الْمُشْرِکِیْنَ‘‘ (الترمذی،ابواب السیر)

’’میں بری (لا تعلق و بیزار) ہوں ہر اس مسلمان سے جومشرکوں کے درمیان رہتا ہو۔‘‘

’’لَا تُسَاکِنُوا الْمُشْرِکِیْنَ وَلَا تُجَامِعُوْھُمْ فَمَنْ سَاکَنَھُمْ اَوْجَامَعَھُمْ فَھُوَمِثْلُھُمْ‘‘ (ترمذی:کتاب السیر)

’’مشرکین کے ساتھ مت رہواور نہ ہی ان کے ساتھ اکٹھے ہو، کیونکہ جو شخص ان کے ساتھ رہے اور ان کے ساتھ اکٹھا ہو تو وہ انھی کی مانندہے۔ ‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی حضرت عبد اللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ((من بنی ببلاد المشرکین، وصنع نیروزہم ومہرجانھم حتی یموت؛ حشر معہم یوم القیامۃ))’’ جس نے مشرکین کی بستیوں میں (گھر) تعمیر کیا،ان کے نوروزو مہرجان (عید و تہوار وغیرہ) منائے، یہاں تک کہ اسے موت آگئی توروزِ قیامت وہ انھیں کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔‘‘

دنیا کی اس آگ میں پھینکو،عقبیٰ کے پروانوں کو

کفر کے ہردھرم کی طرح مغربی نظامِ حیات کی روح بھی ’دنیا کی محبت ‘ہے ،لیکن فی زمانہ اس کی جلوہ آفرینیاں مغرب میں اپنی معراج پر ہیں۔ مفاد پرستی اور خود غرضی ،جوحبِّ دنیا کا لازمی نتیجہ ہے، وہاں کے تمدن اور معاشرت کی جان ہے۔ٹریفک کے اشارے کی پابندی اس لیے ضروری ہے کہ اس میں باہمی مفاد ہے(جان بچتی ہے)، اسی طرح کتے کی آؤ بھگت بھی اہم ہے کہ اس میں غرض ہے(شاید’’غم خوار ‘‘ ہوتا ہے)لیکن ضعیف والدین کی خدمت اس لیے غیر ضروری ہے کہ اس سے کوئی’’ فائدہ‘‘ حاصل نہیں ہوتا!بلکہ وقت، پیسہ اور جگہ ضائع ہوتی ہے، لہٰذا انھیں ردّی خانوں (اولڈ ہاؤس) میں پھینک دینا ہی حسنِ انتظام(مینجمنٹ) کا تقاضا ہے۔

اس بے ایمان معاشرے میں جس چیز کی وقعت نہیں ہے وہ عملِ صالح ہے۔اجر و ثواب ہمارے لیے سب کچھ ہے،کیونکہ اس پر ہماری کامیابی کا مدار ہے۔ہر اذان کے ساتھ دو رکعت کی ادائیگی، تحیۃالوضو اور ہمیشہ با وضو رہنے پر حضرت بلالِ حبشی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنت کی بشارت مل رہی ہے،(کما ورد في الترمذي،ابواب المناقب) کیوں ؟ اس لیے کہ ان کی یہ نیکی اللہ کے ہاں مقبول ٹھہری ،اس پر انھیں ؓ اجر ملا اور درجے بلند ہوئے۔یہ مسلمانوں کے خلیفہ اورامیر المؤمنین عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ ہیں ،لاکھوں مربع میل کے حاکم ہیں ۔لیکن ایک زاہد وعابد اور یمن کے دور دراز علاقے سے جہاد کی غرض سے آنے والے اویس قرنی ؓسے اپنے لیے استغفار کی دعا کروا رہے ہیں ۔ و جہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ(( لَوْ اَقْسَمَ علَی اللّٰہِ لَاَبَرَّہٗ))’’اگر وہ اللہ کے اعتماد پر کسی بات کی قسم کھا لیں تو اللہ ضرور ان کی قسم کو سچا کر دیتا ہے‘‘،ساتھ ہی آپؐ نے عمر ؓ سے فرمایا تھاکہ اگر تم ان سے اپنے لیے استغفار کروا سکو تو کرانا، اس موقع پرآپؐ نے اویسؓ کی جو نیکی گنوائی تھی،وہ یہ تھی کہ:((لَہٗ وَالِدَۃٌ ہُوَبِھَا بَرٌّ)) (مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ)’’اُن کی والدہ ہیں،جن کے ساتھ وہ بہت نیک سلوک کرتے ہیں‘‘۔ یہ ہے اسلام میں نیکی اور تقویٰ کی اہمیت۔ لیکن مغربی تہذیب جہاں بھی مضبوط ہو گی وہاں فضیلت کا معیار سامانِ دنیا بنے گا۔ نیکی چونکہ وہاں کوئی قدر نہیں بلکہ ___ قدر ترقی ہے ، اس لیے کسی کا عملِ صالح یا علمِ دین میں آگے ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔تاہم یہ بات اہم ہے کہ آپ کتنا سامانِ دنیا رکھتے ہیں،اپنے ادارے کو کتنا مالی نفع دے سکتے ہیں یا کتنے لاکھ (یا کروڑ) کے ترقیاتی منصوبے آپ کے ہاتھ میں ہیں۔

اس تہذیب کا بنیادی ہتھیار بھی ( ایٹم بم سے بڑھ کر) دنیا کی محبت کا فروغ ہے۔ اسی سے وہ قوموں کو فتح کرتی ہے اور جب دلوں پر ان افکار کی حکمرانی ہوجائے تو زمینوں اور جسموں کو زیر کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہتا۔ دنیاکی محبت ، حرص و ہوس کے فروغ ، سامانِ دنیا کی فراوانی اور خواہشات کی تکمیل کے عمل کو وہ ’’ترقی‘‘ کہتے ہیں۔ﯚ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِﯙ’’پس تم نیکیوں میں سبقت کرو‘‘ ___ کے بجائے شہوات میں مسابقت اور ((وَلَا تَنَافَسُوْا))’’(دنیا کے معاملے میں) مقابلہ بازی نہ کرو‘‘ ___ کے بجائے دنیا ہی میں’’ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ ‘‘کے حصول کی (موہوم) منزل کے حصول کو وہ ’’فلاح‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ اربوں ڈالر لگا کر قبائلی معاشروں اور دیہاتوں کی سطح تک ترقیاتی منصوبوں کو برپا کردینا، سہولیات و وسائلِ عیش فراہم کردینا اور پھر اس سارے عمل کے ذریعے اباحیت اور دنیا پرستی کی اقدار کو فروغ دے دینا___ یہ ان کاکارگراور دیرپا ہتھیار ثابت ہوا ہے۔ حبِّ آخرت اور شوقِ شہادت کا کانٹا دل سے نکالنے کی قیمت پر اگر کابل، کراچی اور کوالالمپور کو پیرس بنادیا جائے تو ظاہر ہے یہ سودامہنگا نہیں ہو گا۔اسی دنیاوی محبت اور سامانِ دنیا کی حرص و ہوس کے فروغ سے ان کی تہذیب ہمارے معاشروں میں مستحکم ہو سکتی ہے ۔ پس ترقی اور فلاح کے ان تصورات کو اپنی طرز کے تعلیمی، نشریاتی، تحقیقی اور تنفیذی اداروں کے ذریعے پوری دنیا میں پھیلانا ہی ان کی بنیادی فتح ہے۔ خصوصاً مسلم دنیا کے باصلاحیت اور نمائندہ افراد میں سے کچھ کو اپنے پاس بلا کر اور کچھ کی مقامی حکومتی اداروں ، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور این جی اوز وغیرہ کے ذریعے تربیت اور ذہن سازی کرنا اسی لائحۂ عمل کا حصہ ہے۔پھر اس عمل کو وہ بہت نچلی سطح تک لے جانا چاہتے ہیں تاکہ پوری دنیا میں اس کے فروغ کے لیے لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں انسانی وسائل اور ایسے مخلص کارندے میسّر آ سکیں،جن کی زندگیاں ا نھی فتوحات کی نذر ہو جائیں۔

مقامیت، عالمگیریت اور جمہوریت انھی اقدار کی ترویج کے ذرائع ہیں۔ ان سے متعلق منصوبوں میں مسلمان مردوں (اورعورتوں) کو منہمک کروا کر ’’انسانیت کی بھلائی‘‘ کا ہر ہدف سر ہو گا، سوائے غلبۂ اسلام کے۔ کیوں؟ اس لیے کہ یہ مخصوص اصطلاحات اور سانچے جنھوں نے تخلیق کیے ہیں ، انھی کے کام آتے ہیں اور جن مقاصد کے لیے ہماری طرف برآمد کیے ہیں، انھی کو یہ پورا کرتے ہیں۔ چنانچہ تعلیم (اُن والی ) ،صحت (تحدید ِ آبادی ،یاچند مخصوص بیماریوں سے نجات کے لیے )، آلودگی (زیادہ تر اُنھی کی پھیلائی ہوئی)،’انفارمیشن‘(جاسوسی کرنے اور برائیاں پھیلانے کے لیے) اور غربت(جو معصیتِ الٰہی کی سزا بھی ہوسکتی ہے) انسان کے اصل مسائل قرار پائیں گے۔ لاکھوں ، کروڑوں لوگ اصلاح سے محروم رہ جائیں، لوگ گناہ کمائیں، جہنم میں جائیں___ یہ مسئلہ غیر اہم ہو گاتاہم ان کے لیے خوبصورت قبرستان، بہترین پارک،شاندار عمارتوں اور دیگر سہولیات وغیرہ کی فراہمی اہم تر ہو گی۔فلاح کے طلب گاروں کی نگاہیں اور ہاتھ (سلسلہ در سلسلہ) جن کی طرف اٹھیں گے،وہ وہی ہوں گے جو اس تہذیب کے امام (اورنائبین ) ہیں ، کیونکہ ترقیات کی کنجیاں تو انھی کے پاس ہیں۔ (پر اسرار این جی اوز،آزاد خیال کارندوں، یہودی و نصرانی سرپرستوں کی صحبت کے منفی اثرات اس کے علاوہ ہیں)اور پھر اس سارے عمل کے نتیجے میں صفہ کا چبوترہ یا مدینے کی بستی تو دل و نگاہ کا مرکز بننے سے رہے۔بلکہ اس کی جگہ کسی (اسلامی) آکسفورڈ اور کسی (مسلم) ڈنمارک کا تصور لے گا۔ ’’ترقی دلانے‘‘ کے اس عمل میں جو لوگ کسی بھی سطح پر شریک ہوں گے، خودان میں دنیا پرستی اور حر ص و ہوس کا پیدا ہونا ایک لازمی امر ہے ۔اور اگر (معجزاتی طور پر ) ایسا نہ بھی ہوا تو بھی وہ ساری توانائیاں جو اعلیٰ و ارفع مقاصد کے لیے کھپناتھیں، ان کا ضیاع تو یقینی ہے۔اور کیا یہ بات سچ نہیں کہ جب دل و نگاہ میں دنیا بس جائے (چاہے لغیرہٖ سہی)تو جس چیز کا حرج یقینی ہے وہ آخرت کی تیاری اور اس کی طرف دعوت ہے:

ﯚوَلَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِ لٰی مَا مَتَّعْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْہُمْ زَہْرَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا لِنَفْتِنَہُمْ فِیْہِ وَرِزْقُ رَبِّکَ خَیْرٌوَّ اَبْقٰیﯙ (سورۃ طٰہٰ:۱۳۱)

’’ا ورہر گز آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھنا، دنیاوی زندگی کی آرائش کی ا ن چیزوں کی طرف جن سے ہم نے کفار کے مختلف گروہوں کو ان کی آزمائش کے لیے متمتّع کر رکھا ہے ۔ اور آپ کے ربّ کا رزق بدرجہا بہتر ہے ا ور دیر پا ہے۔‘‘

آپس میں ہیں بھائی بھائی؟!

مغرب کے لیے ان تصورات و اقدار کو فروغ دینا اس وقت تک ناممکن ہے جب تک کہ جمہوری دام کے ذریعے ان کی تنفیذ کے پہلوبہ پہلو ایک اور اہم ہدف حاصل نہ کر لیا جائے۔اور وہ ہدف ہے مسلمانوں میں مطلق امن کے تصور کا فروغ۔ ظاہر ہے تصورِ ترقی و فلاح تبھی اپنے ’’ثمرات‘‘ دکھا سکتا ہے جب ’’امن‘‘ کو فروغ حاصل ہو گا، اور سب نفرتیں مٹا کر ،عقائد و نظریات سے ماورا ہو کرمل بیٹھیں گے اور انسانوں کی ترقی کے لیے سوچیں گے۔جب ساری دنیا اپنا گھر ہے اور مل کر اس کے گلی محلوں کو سجانا ہی پیشِ نظر ہے تو پھر یہ دوریاں کیسی؟لہٰذا مطلق امن و مساوات کے خیال کو بھی مسلم عوام و خواص کے ذہنوں میں ایک مطلوب کے طور پر بٹھادیا گیا ہے۔

عالمی سطح پر بھی امن کی ایک ایسی دنیا(عالمی گاؤں) جو ا متِ مسلمہ کے ڈیڑھ ارب انسانوں کے سیلاب کے لیے بھی ساری کی ساری، محض ’’دارِ دعوت‘‘ ہو (اور یہ سیلاب ’’ غُثَائٌ کَغُثَائِ السَّیْل‘‘ بن رہے) ، جس میں بسنے والے سبھی انسان ’’انسانیت ‘‘ کی بنیاد پربھائی بھائی ہوں جو صرف ’’مشترکہ مفادات‘‘ کی خاطر جینے کا عزم رکھتے ہوں، جہاں سب برابر ہو جائیں: ﯚ َتَکُوْنُوْنَ سَوَآئً اﯙ___ یہ سب بھی ان کے نظریاتی اہداف ہیں ۔ جب کہ قرآن کی پکار کو بھلایا جا رہا ہے:

ﯚ اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَ۝ مَالَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ۝اَمْ لَکُمْ کِتٰبٌ فِیْہِ تَدْرُسُوْنَ۝ﯙ (القلم:۳۵۔۳۷)

’’کیا ہم مسلمانوں کو مجرمین کے برابر کر دیں گے؟تمہیں کیا ہو گیا؟ کیسے فیصلے کر رہے ہو ؟ کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں (یہ) پڑھتے ہو؟ ‘‘

مساواتِ انسانی کا یہ عالمگیر تصور جس کتاب سے لیا گیا ہے وہ نہ قرآن ہے نہ توراۃ اور نہ انجیل! بلکہ اسے’’ یہودی پروٹو کو لز ‘‘ سے اخذ کیا گیا ہے!حیرت ہے کہ وہ اس جدید عقیدے کو ہماری ہی زبانوں سے اگلوانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

مغر ب نے اپنے دانشوروں میں سے ایک طبقے کو ،اس طرز پر مستقل ذہن سازی کے لیے اسلامیانِ امّت کے پیچھے لگا دیا ہے۔ان کا’’قبضہ کرنے والا شعبہ ‘‘قبضہ کرتا چلا جا رہا ہے جب کہ’’شعبۂ امن کے یہ سفیر‘‘ مسلمانوں کو مذاکرات میں الجھا کر،قسمیں اٹھا اٹھا کر یہ یقین دلا رہے ہیں کہ ’’ہمارے ساتھ اس جنت میں تم بھی ہمیشہ ہمیشہ امن کے ساتھ رہو گے،بلکہ بادشاہ بن کے رہو گے___امن کا یہ بے خار پھل چکھ لو اورنفرت کی باتیں چھوڑ دو!‘‘یہ بتاتے ہیں کہ’’ ہمیں ہمارے ’’سیاست دانوں‘‘ جیسا نہ سمجھو۔ہم دنیا میں امن چاہتے ہیں،پوری انسانیت کو ایک سا دیکھنا چاہتے ہیں،ہمارے ساتھ مل بیٹھو اور جو کرنا ہے تو ہم سے شکوہ کرو،ہم تمہاری ہی آواز ہیں!‘‘ یہ مغربی دانشور در اصل بین الا قوامی جمہوریت کی عالمی حزبِ اختلاف ہے،جو پوری دنیا کی مخالفِ مغرب آوازوں کو مظاہروں، سیمیناروں، کانفرنسوں، اعلامیوں کی شکل میں مجتمع کرتے ہیں اور پھر اس سارے غم و غصے کو ان’’جمہوری مطالبات‘‘ پر مرتکز کر کے، اس کی ساری شدت کو تحلیل کر دیتے ہیں کہ:’’ مغرب کے ’’کچھ حکمران‘‘ ایسے او ر ایسے ہیں،یہ سب زیادتی ہو رہی ہے،تمام انسانوں کو مل بیٹھنا ہو گا،ہم سب مل کر فلاں فلاں’’ عالمی قوانین‘‘ کے تحت ظلم کے خلاف جدو جہد جاری رکھیں گے‘‘___ اور بس!

پہلا فائدہ مغرب کو اس سے یہ ہوتا ہے کہ اس عالمگیر حزبِ اختلاف کی قیادت خود ان کے اپنے بندوں کے ہاتھ میں رہتی ہے۔دوسرایہ کہ مسلمانوں کا اشتعال ،اطمینان کی تھپکی کھا کر آئندہ کچھ دنوں کے لیے ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ تیسرا اور اہم ترین فائدہ انھیں یہ ہوتا ہے کہ مسائل کا حل’’ وحی کیروشنی‘‘ میں نکلنے کے بجائے___ کافروں مسلمانوں کی ’’ مشترکہ تجاویز‘‘ کی شکل میں سامنے آتا ہے۔دو چار ممالک (بلکہ صرف ان کے چند علامتی رہنماؤں)کی مذمت کے ساتھ ساتھ ___ فتنے کے خاتمے کے لیے جانیں دینے والے ،جہاد کرنے والے غرباء کی کبھی کھلے اور کبھی چھپے مذمت بھی ہو جاتی ہے۔ ’’انتہاء پسندی ‘‘ کو مزید شرمسار کیا جاتاہے،’’اعتدال پسندی ‘‘ کی تکریم بڑھ جاتی ہے، حربی اقوام کی پالیسیاں وہیں رہتی ہیں ،کفار سے امن و سلامتی کے پیمان باندھے جاتے ہیں جب کہ مسلمانوں کا خون ___ پہلے کی طرح یااس سے کچھ اور زیادہ بہہ جاتاہے۔ اُحد کے ایک مشکل دن میں کفار کی جانب سے مسلمانوں کو ایسی ہی کوئی دعوتِ امن دی گئی تھی۔اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ اسلام کو صاف صاف بتا دیا تھا:

یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنِ اٰمَنُوْا اِنْ تُطِیْعُوا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یَرُدُّوْکُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ فَتَنْقَلِبُوا خٰسِِرِیْنَ۝ بَلِ اللّٰہُ مَوْلٰکُمْ وَہُوَخَیْرُ النّٰصِرِیْنَ (سورۃ اٰلِ عمران:۱۴۹۔۱۵۰)

’’اے ایمان والو! اگر تم کا فروں کی باتیں مانو گے تو وہ تمھیں تمہاری ایڑیوں کے بل پلٹادیں گے، (یعنی تمھیں مرتد بنا دیں گے) پھر تم نامرادہوجاؤگے۔(یہ نہیں)بلکہ اللہ ہی تمہارا دوست ہے ا ور وہی سب سے بہتر مددگار ہے۔‘‘

ماضی ،حال اور مستقبل کے کفار کی نفسیات کو سمجھنے کے لیے ہمارے پاس سب سے پہلا ماخذ اللہ کی کتاب ہے، جو ہمیں تنبیہ کرتے ہوئے کہتی ہے:

فَلاَ تُطِعِ الْمُکَذِّبِیْنَ۝ وَدُّوْا لَوْ تُدْھِنُ فَیُدْھِنُوْنَ (سورۃ القلم:۸۔ ۹)

’’پس تم جھٹلانے والوں کا کہنا نہ ماننا، وہ تو چاہتے ہیں کہ تم ذرا ڈھیلے پڑو تووہ بھی ڈھیلے پڑ جائیں۔ ‘‘

آج سے نو سو سال پہلے پوپ اربن دوم کی صلیبی جنگوں کی اپیل پر ایک سو نوے سال تک

یورپیوں نے مسلمانوں کا خون بہایا اور ایک ’’بدباطن ‘‘قوم کو مٹانے کا’’ مقدس فریضہ‘‘ سرانجام دیا۔ مسلمانوں کا مقابلہ اس وقت ایک سیدھی سادھی عیسائیت سے تھا۔ لیکن آج اکیسویں صدی کی صلیبی جنگ اس اعتبار سے مختلف ہے کہ حملہ آور یہ دعویٰ لے کر اٹھا ہے کہ جس قوم کو ہم عسکری شکست دینا چاہتے ہیں وہ ہماری تہذیب سے پہلے ہی ذہنی شکست کھا چکی ہے اور مسئلہ صرف ایک انتہا پسند طبقے کا ہے جو ہماری تہذیبی بالادستی تسلیم کرنے کو تیار نہیں، جو قرآن و سنّت کی ان تشریحات کو قبول کرتاہے جو چودہ سو سال سے تواتر کے ساتھ منقول چلی آ رہی ہیں۔یہ طبقہ مستشرقین (اور مستغربین) کی متجدّدانہ افکار اور رائے پرستوں کی توجیہات کے مقابلے میں ا ہلِ سنّت و الجماعت کا نہج چھوڑنے پر تیار نہیں ، جب کہ باقی مسلم دنیا کا ایک قابلِ ذکر حصہ(ان کے خیال میں) اور اس کے نمائندے ،ہمارے ہی بنائے ہوئے اصولوں مثلاً اقوام متحدہ کے دستور، جنیوا کنونشن اورحقوقِ انسانی کے چارٹر وغیرہ(جوظاہر ہے کہ سراسر کفریات ہیں) کی بنیاد پر،ہم سے مکالمہ کرنے اور اپنے لیے گنجائشیں لینے کے لیے تیار ہیں ۔ اس طرح وہ یہ اعتماد بھی حاصل کر پائے ہیں کہ یہ قوم اپنے اقتصادی منصوبوں کے لیے ہمارے عالمی معاشی ڈھانچوں پر انحصار کرتی ہے، ہماری تہذیبی برتری اورہمارے امن،آزادی، مساوات، ترقی، فلاح وغیرہ کے تصورا ت کو قبول کرچکی ہے۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭

Previous Post

مسلمانوں کے ساتھ موالات، کفار کے ساتھ دشمنی اور مسلمانوں کے لیے راہِ عمل!

Next Post

وانا آپریشن کے بارے میں پاکستان کے علماء کا متفقہ فتویٰ

Related Posts

اَلقاعِدہ کیوں؟ | چوتھی قسط
فکر و منہج

اَلقاعِدہ کیوں؟ | پانچویں قسط

13 اگست 2025
مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | چھٹی قسط

13 اگست 2025
کفار کا معاشی بائیکاٹ | چوتھی قسط
فکر و منہج

کفار کا معاشی بائیکاٹ | چوتھی قسط

13 اگست 2025
کیا ریاست (State) اسلامی ہو سکتی ہے؟
فکر و منہج

کیا ریاست (State) اسلامی ہو سکتی ہے؟

13 اگست 2025
ہم بندگانِ خدا شریعت کے پابند ہیں!
فکر و منہج

ہم بندگانِ خدا شریعت کے پابند ہیں!

17 جولائی 2025
مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | پانچویں قسط

13 جولائی 2025
Next Post
وانا آپریشن کے بارے میں پاکستان کے علماء کا متفقہ فتویٰ

وانا آپریشن کے بارے میں پاکستان کے علماء کا متفقہ فتویٰ

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version