بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للہ وکفیٰ والصلاۃ والسلام علیٰ أشرف الأنبیاء.
اللّٰھم وفقني کما تحب وترضی والطف بنا في تیسیر کل عسیر فإن تیسیر کل عسیر علیك یسیر، آمین!
(۵) ……کیونکہ وہ فتح کے حصول کے لیے شرعی اور کائناتی سنتوں کو اپنانے والے ہیں
غلبۂ حق کے لیے دلیل و بیان اور تلوار و کلاشن کوف دونوں کی قوت ضروری ہے۔ حضرت امام ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب منہاج السنۃ النبویۃ میں فرماتے ہیں:
’’إن ھذا الدین إنما قام بالکتاب الھادي، والسيف الناصر.‘‘
’’دینِ اسلام کی بنیاد ہدایت دینے والی کتاب اور نصرت کرنے والی تلوار پر ہے۔‘‘
حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ اپنی شرح صحیح بخاری’ فیض الباری‘ میں فرماتے ہیں:
’’جہاد دین کی حفاظت کے لیے ایسا ہی ضروری ہے جیسے قرآن، دین کی رہنمائی کے لیے ضروری ہے۔‘‘
الغرض یہ بات شرعاً و عقلاً اور تکوینی طور پر ثابت شدہ ہے کہ قوت کتاب و تلوار دونوں کے ایک جگہ ہونے کا نام ہے اور ان دونوں کا ایک جگہ اجتماع ہی غلبۂ حق کی شاہ کلید ہے۔
یہ بات جاننا از حد ضروری ہے کہ جنگ میں کامیابی، یا استعماری و غاصب قوتوں اور ان کے مقامی آلۂ کاروں کے خلاف فتح تب تک حاصل نہیں کی جا سکتی جب تک کہ شرعی احکام و سنن اور کائناتی حقائق و طریقوں کا لحاظ رکھتے ہوئے عمل نہ کیا جائے۔ حق کو غالب کرنا اور کفر و شرک و ارتداد کے غلبے کو دنیا سے مٹانا اللہ پاک کا عائد کردا فریضہ ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ (سورۃ النساء: ۱۰۵)
’’ بیشک ہم نے حق پر مشتمل کتاب تم پر اس لیے اتاری ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان اس طریقے کے مطابق فیصلہ کرو ۔‘‘
اور اللہ پاک نے فرمایا:
وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ (سورة الانفال: 39)
’’ اور (مسلمانو) ان کافروں سے لڑتے رہو، یہاں تک کہ (کفر کا)فتنہ باقی نہ رہے، اور دین پورے کا پورا اللہ کا ہوجائے ۔‘‘
یہ غلبہ حاصل کرنا تب تک ممکن نہیں جب تک کہ شرعی اور کائناتی سنتوں کا لحاظ نہ رکھا جائے۔ ہمارے یہاں کی تحریکاتِ اسلامی کا مشاہدہ کیا جائے تو جس جس تحریک و تنظیم نے ان دونوں امور پر توجہ دی ہے تو وہ نتیجتاً دنیائے اسباب میں غالب ہوئی ہے اور جس نے کسی بھی ایک چیز میں سستی کی تو اس کو غلبہ نہیں ملا اور غلبے سے ابھی ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ یہ غلبہ لازماً اقتدار و اختیار کی صورت میں ہی ہو گا، غلبے سے مراد دعوت کی کامیاب بھی ہو سکتا ہے۔ ان دو مذکورہ امور میں بھی شریعتِ مطہرہ کا اتباع ایک ایسا لازمہ ہے کہ اگر یہ کسی تحریک و تنظیم میں نہیں ہو گا تو عند اللہ اخروی لحاظ سے بھی اس پر پکڑ ہو گی۔
جہاں تک تنظیم القاعدہ کا شرعی سنتوں کی پیروی کا تعلق ہے، تو ان کا جہاد مشروعیت، فضیلت، اور لوگوں کے دلوں میں اس فریضے کو زندہ کرنے کے لحاظ سے علمِ شرعی کی بنیاد پر قائم ہے ۔ انہوں نے اس زمانے میں اللہ کے حکم کی تعمیل کی جب اکثر لوگ اس سے رو گردانی کرنے والے اور مخالفت کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِيْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ ۭ اَرَضِيْتُمْ بِالْحَيٰوةِ الدُّنْيَا مِنَ الْاٰخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِيْلٌ (سورۃ التوبۃ: ۳۸)
’’اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے راستے میں نکلو، تو تم زمین سے چمٹ جاتے ہو؟ کیا تم آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی پر راضی ہوگئے ہو؟ دنیا کی زندگی کا سامان آخرت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔‘‘
ہم نے تنظیم میں دیکھا ہے کہ علماء، قاضی اور شرعی فتاویٰ دینے والے ذمہ داران بھی عملاً جہاد کے لیے نکلتے ہیں۔جان لیجیے کہ جو طالب علم عملًا جہاد کے راستے پر چلتا ہے، تو اس کے علم میں اللہ ایسی برکت ڈالتاہے جو ان بہت سے علماء کے پاس بھی نہیں ہوتی جو راہ جہاد سے لاتعلق ہوتے ہیں ۔ بندۂ مترجم نے استاد احمد فاروق رحمہ اللہ سے خود سنا کہ انہیں شیخ ابو ولید الانصاری (حفظہ اللہ، جو مجاہدین کے حلقوں میں ایک معروف عالمِ دین ہیں) نے بنفسِ نفیس کہا کہ ’میں نے حرمِ مکی میں کعبۃ اللہ کے ساتھ بیٹھ کر بھی تحصیلِ علم کی، لیکن جو مسائل و معارف مجھ پر اللہ نے میدانِ جہاد میں کھولے وہ کعبے کے پڑوس میں بھی مجھ پر منکشف نہ ہوئے‘۔اگرچہ یہاں بات اصلاً علمِ دین اور طلبائے علم ِ دین کی ہو رہی ہے لیکن یہ نکتہ بھی بہر کیف قابلِ ذکر ہے کہ ہم نے میدانِ جہاد میں یہ عام طور سے مشاہدہ کیا ہے کہ یہاں ہر ہر عملی میدان (field) کے ماہرین عام دنیا میں ماہرینِ فن سے زیادہ ماہر و فنّان ہوتے ہیں۔ بظاہر دنیوی ڈگریوں سے بے بہرہ یہ لوگ طب، انجنیئرنگ، تعمیرات، کمپیوٹر سائنس، سائبر سکیورٹی، امورِ امنیت، انتطام و ادارت، اعلام، شعر و ادب وغیرہ میں بہت آگے ہوتے ہیں۔ اسی کی ایک مثال خود تنظیم القاعدہ بھی ہے۔ اگرچہ تنظیم القاعدہ میں بہت سے ماہرینِ فن اور متخصص تعلیم یافتہ لوگوں نے بھی شمولیت اختیار کی، لیکن تنظیم میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے بنیادی تعلیم و تحصیلِ فنون ’جامعة الجهاد(University of Jihad)‘ ہی میں کی ہے۔
شیخ ابو مصعب العولقی شہید کہتے ہیں کہ میں نے خود شیخ ابن عثیمین رحمۃ اللہ علیہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ وہ کچھ جہادی مسائل میں شیخ اسامہ ؒسے استفادے کا ذکر کرتے تھے، حالانکہ دونوں کے مجموعی علم میں فرق موجود تھا۔ایک عالمِ دین نے مجھے بتایا کہ جب وہ مجاہدین کے راستے کے سالک بنے تو اللہ نے ان پر جہاد کے احکام کا ایسا علم اور فہم کھولا جو وہ پہلے نہیں جانتے تھے ، باوجود اس کے کہ وہ مسائل ان کے سامنے پہلے بھی آئے تھے۔پس یہ لوگ اللہ کے فضل سے جہاد کے احکام میں منضبط ہیں خواہ جنگ ہو، صلح ہو، مالِ غنیمت ہو یا امن و امان کا معاملہ۔
میں یہ نہیں کہتا کہ القاعدہ یا مجاہدین کا کوئی اور گروہ غلطیوں سے پاک ہے، ان سے بھی غلطی ہو سکتی ہے ، بلکہ یقیناً ان سے غلطیاں ہوئی ہیں جیسا کہ امورِ جہاد میں بعض صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی سہو ہوا ۔
جہاں تک ان کا امورِ تکوینی کو اپنانا ہے تو یہ اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہے کہ سلطنتوں اور حکومتوں کا قیام اور غلبہ صرف قوت اور ’سنتِ تدافع‘(ٹکراؤ اور مقابلے) کے ذریعے ہی ممکن ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ جمہوری ریاستیں بھی ایسی جنگوں کے بعد قائم ہوئیں جنہوں نے بحر و بر اور خشک و تر کا مزہ چکھ لیا اور وہ ہر طرح کے نشیب و فراز سے گزرے۔
ہمیں جان لینا چاہیے کہ یہ کائناتی سنت (یعنی قوت اختیار کرنا) کبھی منسوخ نہیں ہوئی، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کو اپنایا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفسِ نفیس خود ایک اسلامی سلطنت مدینہ میں انصار اور مہاجرین کے مسلح تعاون سے قائم فرمائی، بیعتِ عقبہ ثانیہ میں تو عہد و پیمان ہی مسلح دفاع و جنگ کا ہوا۔
جہاں تک ان جماعتوں کے طریقۂ کار کا تعلق ہے جو ’کفّ الید‘ (یعنی ہاتھ روکے رکھنے) کا نظریہ اپنائے ہوئے ہیں، اور جو مسلح قوت کو اس دلیل کے تحت جمع کرنے سے گریز کرتی ہیں کہ ایسا کرنے سے طاغوتی حکومتیں ان کے خلاف ہو جائیں گی اور ایسا کرنے سے دعوت کے ثمرات ضائع ہو جائیں گے ۔ یہ جماعتیں ایسی جگہوں کی طرف کہ جہاں انصار و اعوان موجود ہیں ہجرت سے محض اس اندیشے کے سبب گریزاں ہیں کہ انہیں ’ریاست‘ کو کمزور کرنے والا نہ سمجھا جائے! ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر وہ بھی نکل گئے تو ان خِطوں میں کوئی ایسا فرد بچے گا ہی نہیں جو دین کی دعوت کا کام چلائے ، در حقیقت یہ حضرات شرعی سنت اور مدنی دور کی کائناتی سنت، دونوں کی مخالفت کر رہے ہیں (ملاحظہ ہو کتاب ’إدارة التوحش‘)۔ یہاں یہ نکتہ بھی واضح رہے کہ ہم یہ دعوت نہیں دے رہے کہ سب کے سب لوگ ہجرت کر جائیں، لیکن ہم یہ ضرور کہہ رہے ہیں کہ یہ نا ممکن ہے کہ آپ دین کی ٹھیٹھ دعوت دیتے رہیں اور اپنے گھروں اور شہروں میں بھی چین سے رہتے رہیں اور وقت کے طواغیت آپ کو دین کی یہ سَچی دعوت دینے پر کچھ بھی نہ کہیں۔
پس جان لیجیےکہ جو شخص صرف علم اور تربیت پر اکتفا کرتے ہوئے غلبۂ دین کا خواہاں ہے، وہ ہرگز اسے حاصل نہیں کر پائے گا، کیونکہ وہ قوت اور دفع کی سنت (جو شرعی بھی ہے اور کائناتی بھی )کے خلاف جا رہا ہے۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’نقشِ حیات ‘میں موجود ہے کہ ’قرآن کی تفسیر صرف درس و تدریس سے نہیں، میدانِ عمل اور جہاد سے بھی ہوتی ہے‘ اور خود حضرت مدنی کا ایک قول معروف ہے کہ ’شریعت کا نفاذ صرف تقریر و تدریس سے ممکن نہیں، اس کے لیے قوتِ نافذہ بھی چاہیے‘۔
اسی طرح جو شخص اسلامی ریاست کے قیام کو بیلٹ بکسوں کے راستے سے ممکن سمجھتا ہے، وہ بھی کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا اور جن حضرات نے بصد اخلاص و للہیت اس جمہوری نظام میں حصہ لیا خود ان کا عمل اور اس کا نتیجہ اس بات پر گواہ ہے کہ وہ کوئی مؤثر تبدیلی نہیں لا سکے۔ پاکستان کے صوبۂ سرحد میں متحدہ مجلسِ عمل کی حکومت اقتدار میں ہونے کے باوجود ایک ’حسبہ بل‘ پاس نہ کروا سکی ۔ انقلاباتِ بہارِ عرب کے بعد جمہوری نظام وبیلٹ بکسوں اور ووٹوں ہی کی سیاست نے اس بہار کا ثمرہ چھینا، مصر میں اخوان المسلمون کی ووٹوں کی اکثریت سے آئی حکومت کو ایک ’مؤثر‘ بوٹوں اور بندوقوں کی قوت نے کچلا اور طاقت کے زور پر غالب ہو گئی۔ آپ تاریخِ عالم اٹھا کر دیکھ لیجیے کہ دنیا میں کون سی مؤثر تبدیلی ہے جو خون بہائے بغیر آئی ہے؟ شہید داعی میلکم ایکس رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں (راقم کے تصرف کے ساتھ)کہ ’دنیا کا ہر انقلاب خون بہا کر ، مسلح جد و جہد ہی سے کامیاب ہوا، انقلابِ فرانس، انقلابِ امریکہ، انقلابِ روس…… لیکن ایک ہمارا ہی انقلاب ہے جو ’’پر امن جد و جہد‘‘ سے آرہا ہے‘۔
جب غلبے کا یہ طریقہ ایک امرِ تکوینی بھی ہے تو پھر ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقرر کردہ راستہ یعنی جہاد کیوں چھوڑتے ہیں؟
ممکن ہے کہ کوئی کہنے والا کہے کہ ’ہم اس لیے اس راہ کو ابھی چھوڑتے ہیں کہ ہم کمزور ہیں‘۔ تو ہم کہتے ہیں کہ کمزوری کوئی ایسا عذر نہیں ہے کہ جس کے سبب نبوی علاج کو ترک کر دیا جائے، بلکہ ہمیں قوت حاصل کرنے کے اسباب تلاش کرنے چاہییں، کیونکہ اس کے بغیر ہمیں نصرت حاصل نہیں ہو سکتی۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہمیں یہ ذہن نشین کرنا چاہیے کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما تھے تو آپؐ نے فرمایا:+
’’وأعدوا لهم ما استطعتم من قوة، ألا إنّ القوة الرمي، ألا إنّ القوة الرمي، ألا إنّ القوة الرمي.‘‘ (صحیح مسلم)
’’اور ان (دشمن)کے مقابلے کے لیے تیار رکھو جو کچھ تم طاقت سے تیار کر سکو۔ سن لو! طاقت رمی (تیر اندازی) میں ہے ، سن لو! طاقت رمی (تیر اندازی) میں ہے ، سن لو! طاقت رمی (تیر اندازی) میں ہے!‘‘
جہاد تو کمزوروں کو طاقت ور بنانے والی قوت کا نام ہے۔ بدر میں کتنے صحابہ تھے اور ان کے پاس کتنا اسلحہ تھا؟ لیکن اللہ نے اسی تھوڑی سی جمعیت اور انتہائی قلیل اسلحے میں قوتِ جہاد سے صحابہ کو ایسی طاقت دی کہ انہوں نے حجاز کی سپر پاور کو بعون ا للہ ناکوں چنے چبوا دیے۔ ابھی ڈیڑھ سال قبل کتائب القسام کے مجاہدوں کے پاس کتنی جمعیت تھی؟ کیا اسلحہ تھا؟ کچھ دیسی ساختہ قسام و یاسین میزائیل اور کچھ راکٹ اور گولیاں؟ مقابلے میں دنیا کی وہ قوت جس کے محافظ مخلوق کی تاریخ کے سبھی شیاطینِ انس و جن، عزازیل و دجال، آئرن ڈوم اور بائیڈن و ٹرمپ، نیٹو ٹریٹی (NATO Treaty) سے ابراہم اکارڈز (Abraham Accords)کے کرتے دھرتے۔ غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، بلکہ اینٹ سے اینٹ بجا دینا جیسا محاورہ غزہ کے لیے نہیں ہے، غزہ اپنی تباہی میں خود ایک ضرب المثل ہے، لیکن یہ مٹھی بھر مجاہدین ہیں جو قوتِ جہاد سے بعون اللہ جبلِ استقامت بنے آج بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔ کیا آپ کے پاس مجاہدینِ قسام سے بھی کم قوت ہے؟
مکرر! ہمیں جان لینا چاہیے کہ جو شخص قرآن و سنت کے مطابق غلبے کا خواہاں ہو، اس کے لیے دو چیزیں لازم ہیں:
حجت و بیان، اور تلوار و کلاشن کوف……قرآن يهدي وسيف ينصر، ہدایت کا حامل قرآن اور نصرت کرنے والی تلوار!جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَكَفٰى بِرَبِّكَ هَادِيًا وَّنَصِيْرًا (سورۃ الفرقان: ۳۱)
’’اور آپ کا رب ہی کافی ہے، وہ ہدایت دینے والا بھی ہے ، اور مدد فرمانے والا بھی۔‘‘
پس اگر ہم صرف علم و تربیت و تزکیے پر اکتفا کریں گے ، تو ہم شریعت کا نفاذ ہرگز نہ کر سکیں گے، کیونکہ ہم نے کائناتی سنت (جو بذاتِ خود شرعی سنت بھی ہے )یعنی قوت اختیار کرنے کی سنت کو ترک کر دیا ہو گا۔اور اگر ہم حجت و دلیل کے بغیر جہاد کریں گے ، تو ہم قوت کا استعمال غلط جگہ پر کر بیٹھیں گے۔
لہٰذا ان دونوں امور، یعنی علم و حجت اور جہاد و قوت ، کا ہونا لازمی ہے۔
اللھم اجعلنا هادين مهتدين، غير ضالّين ولا مضلّين، سلماً لأوليائك، وحرباً علی أعدائك، نحب من أحبك، ونعادي بعداوتك من خالفك. اللهم هذا الدعاء ومنك الإجابة، اللهم هذا الجهد وعليك التكلان، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم، آمين!
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭