نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | پانچویں قسط

مدارس اور دینی جدوجہد کی تحریک

عبد الہادی مجاہد by عبد الہادی مجاہد
13 جولائی 2025
in فکر و منہج, جولائی 2025
0

زیرِ نظر تحریر افغانستان سے تعلق رکھنے والے عالم، داعی اور فکری جنگ پر دقیق نظر رکھنے والے مفکر فضیلۃ الشیخ مولوی عبد الہادی مجاہد (دامت برکاتہم)کی پشتو تصنیف ’مدرسہ او مبارزہ‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ کتاب بنیادی طور پر افغانستان میں مدارس اور دینی تعلیم کے نظام کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھی گئی ہے ، لیکن کتاب میں بیان کی گئی امت مسلمہ کی حالت اور اس حوالے سے جو مطالبہ ایک افغان عالم ِاور مدرسے سے کیا گیا ہے وہ درحقیقت باقی عالمِ اسلام کے علماء اور مدارس سے زیادہ مطلوب ہے۔ اس لیے کہ افغانستان میں تو آج ایک شرعی و اسلامی حکومت قائم ہو چکی ہے جبکہ باقی عالَمِ اسلام اس سے کہیں پیچھے ہے۔ اس کتاب کے اصل مخاطبین علماء و طلبہ ہیں جن کی تاریخ بالاکوٹ، شاملی، صادق پور اور دیوبند کے پہاڑوں، دروں، میدانوں اور مساجد و مدارس کے در و دیوار پر نوشتہ ہے! ومن اللہ التوفیق! (ادارہ)


باب دوم: عصرِ حاضر کی اسلامی جدوجہد میں دینی مدارس کا قائدانہ کردار

مدرسہ: ملک کی اسلامی شناخت اور اس کے دفاع میں انقلابی فکر و عمل کی علامت

اگر ہم موجودہ دور میں عالمِ اسلام کو مغرب کے ساتھ فکری، سیاسی اور عسکری کشمکش کے تناظر میں دیکھیں اور دینی مدارس کے کردار و اثرات کا جائزہ لیں، تو واضح ہو جاتا ہے کہ مدرسہ اب صرف ایک سادہ علمی درسگاہ نہیں رہا، بلکہ وہ اسلام، اسلامی ممالک اور مسلمانوں کی دینی شناخت کے دفاع اور مزاحمت کی ایک انقلابی فکر و عمل کی علامت بن چکا ہے، اگرچہ اس میں کچھ کمزوریاں بھی پائی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیائے کفر اور ان کے نظریات سے متاثر اسلام سے وابستہ حکمران اور فکری طبقات بھی مدرسے کو اسی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور اس کے اسٹریٹجک اثرات کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔

اسی بنا پر مدرسے کی خالص اسلامی فکر اور اس سے وابستہ افراد کے فکری، سیاسی اور جسمانی وجود کو ختم کرنے کی غرض سے ایک عالمی سیاسی و عسکری اتحاد قائم کیا گیا ہے، اور عالمِ اسلام میں مدرسے سے جنم لینے والی تحریک کے خلاف ہمہ جہتی خونریز جنگ مسلط کر دی گئی ہے، جس میں فکری، عسکری، اقتصادی اور سماجی تمام ذرائع استعمال کیے جا رہے ہیں۔

دنیا کے استعماری نظاموں نے اسی وجہ سے مدرسے کے خلاف ایک بڑی جنگ شروع کی، کیونکہ اسی مدرسے سے جنم لینے والی فکر نے نصف صدی سے بھی کم عرصے میں دنیا کی دو بڑی طاقتوں، سابق سوویت یونین اور موجودہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں، کو شکست فاش سے دوچار کیا۔

اسی مدرسے سے ابھرنے والی دینی فکر نے افغانستان میں ایک ایسی مزاحمتی قوت (مجاہدین) پیدا کی، جو بغیر کسی تنخواہ یا مادی مفادات کے، محض دینی جذبے سے سرشار ہو کر پینتالیس سال تک ایک سخت اور طویل جنگ میں ڈٹی رہی۔ یہ وہ کارنامہ ہے جو موجودہ دنیا کے عسکری تجزیے کے مطابق ایک غیر معمولی اور حیرت انگیز واقعہ شمار کیا جاتا ہے، جو دینی مدرسے نے انجام دیا۔

ممکن ہے کہ دینی مدرسہ خود اپنے وابستگان اور عام مسلمانوں کی نظر میں اتنی بڑی فکری و عسکری قوت محسوس نہ ہو، کہ جسے عالمی عسکری توازن میں ایک طرف دنیا کی سپر طاقتیں اور دوسری طرف مدرسہ تصور کیا جائے، لیکن مغرب کے عسکری اور فکری حساب کتاب کے مطابق مدرسہ حقیقتاً ایسا ہی مقام رکھتا ہے۔

کیونکہ سوویت یونین کی شکست کے بعد مغربی دنیا اور دیگر اقوام نے مشاہدہ کیا کہ امریکہ کی قیادت میں قائم ہونے والی یک قطبی دنیا دوبارہ دو قطبی بنی، ایک قطب امریکہ کی عالمی فکر اور عسکری طاقت پر مشتمل اور دوسرا قطب مدرسے کی فکر اور اس کے وابستگان سے تشکیل پانے والی قوت پر مشتمل ہے۔

مدرسے کے طلبہ نے اسلحے کی کمیابی اور عسکری عدم توازن کے باوجود دنیا کی بڑی عسکری قوت کے خلاف اس لیے مزاحمت کی، کیونکہ ان کا عقیدہ اس حقیقت پر قائم ہے کہ:

وَمَا النَّصْرُ اِلَّامِنْ عِنْدِ اللّٰهِ (سورۃ الانفال: ۱۰)

’’نصرت تو صرف اللہ کی طرف سے ہے۔‘‘

اور باقی تمام قوتیں اللہ کے مقابلے میں بے بس اور عاجز ہیں۔ یہی پختہ عقیدہ مدرسے سے وابستہ افراد کی فکر اور شخصیت میں ایک ایسا حوصلہ اور ایمانی قوت پیدا کرتا ہے، جو بڑی بڑی عسکری طاقتوں سے مرعوب ہونے سے انہیں محفوظ رکھتا ہے۔ دشمن کی عسکری برتری ان کے لیے مزاحمت کے آغاز یا اس کے تسلسل میں کوئی رکاوٹ نہ بن سکی۔

اگرچہ بعض لوگوں کو مدرسے کے نوجوانوں کا مؤقف ایک غیر ذمہ دارانہ جرأت یا انجام سے بے پروا رویہ محسوس ہوتا تھا، لیکن بعد میں امارتِ اسلامی کے سیاسی اور عسکری نتائج نے ثابت کر دیا کہ یہ کوئی جذباتی مہم جوئی یا بے سوچا سمجھا اقدام نہ تھا، بلکہ یہ مدرسے کی دینی فکر اور اس سے وابستہ نفسیاتی قوت کا اثر تھا، جسے مادی فکر اور دنیاوی حساب کتاب کے حامل لوگ سمجھنے سے قاصر رہے۔

مدرسے سے وابستہ افراد کی روحانی قوت کا ایک اور اہم سبب یہ ہے کہ وہ مغرب کے زیر اثر افراد کی طرح پریگماٹزم1پریگماٹزم (Pragmatism) یا عملیت ایک فلسفیانہ نظریہ ہے جو کسی خیال، عقیدے یا عمل کی حقیقت اور قدر کو اس کے عملی نتائج اور فائدہ مندی کی بنیاد پر پرکھتا ہے، اور یہ عملی نتائج یا فائدہ مندی خالص انسانی عقل کی بنیاد پر پرکھے جاتے ہیں۔ اس لیے کوئی عقیدہ، مذہبی اصول یا آفاقی قانون اس وقت تک قابلِ قبول نہیں ہو سکتا جب تک وہ انسانی عقل کے مطابق ’’عملی‘‘ اور ’’فائدہ مند‘‘ نہ ہو۔ (ادارہ) (Pragmatism) اور میکاولیت2میکاولیت (Machiavellianism) اطالوی سیاسی مفکر نیکولو میکاولی کا پیش کردہ سیاسی و فلسفیانہ نظریہ ہے جو ہر طرح کی اخلاقیات، عقائد اور نظریاتی اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سیاسی طاقت کے حصول، اسے برقرار رکھنے اور اس کے استعمال کے عملی طریقوں، بشمول دھوکہ دہی، جبرا ور تشدد، پر زور دیتا ہے۔(ادارہ) (Machiavellianism) کی سیاسی منافقت سے متاثر نہیں ہیں اور نہ ہی انہوں نے اسلام کو سیکولر حکومتوں کے تعلیمی اداروں میں ایک بے روح اور استشراقی انداز سے صرف اس لیے سیکھا ہے کہ وہ اس کے ذریعے مادی اسناد حاصل کریں اور دین کے نصوص کو شیطانی مقاصد کے لیے استعمال کریں۔

بلکہ مدرسے کے اہل علم کا ہر ایک سے معاملہ دین کی بنیاد پر، خلوص نیت سے ہوتا ہے، اور انہوں نے اسلام کو صرف سیکھنے کے لیے نہیں بلکہ اس پر عمل کرنے کے لیے قبول کیا ہے۔ یہی دو خصوصیات انہیں عوام میں مضبوط سیاسی مقام اور گہرا روحانی و نفسیاتی اثر عطا کرتی ہیں، اور ان کی طاقت کو نمایاں کرتی ہیں۔

اہلِ مدرسہ کے خلاف مغرب کی چار حکمت عملیاں

چونکہ مغربی سیاسی، فکری اور عسکری اداروں نے مدرسے کی روحانی اور عوامی طاقت کو ایک بڑا خطرہ محسوس کیا، اس لیے انہوں نے اہلیانِ مدرسہ کو قابو کرنے اور ان کے افکار و کردار کو غیر مؤثر بنانے کے لیے درج ذیل چار حکمتِ عملیاں اختیار کی ہیں:

  1. احتواء (روک تھام) کی حکمت عملی:

احتواء (Containment) سے مراد یہ ہے کہ مغرب اور اس کے سیکولر حلیف عالمِ اسلام میں یہ کوشش کرتے ہیں کہ مدرسے سے وابستہ افراد کو مستقل اور مخصوص فکر و عمل کے دائرے سے باہر نکالا جائے اور انہیں مادی مراعات کے بدلے، مغرب نواز حکومتوں اور اداروں میں شامل کیا جائے، یا انہیں اپنے اثر و رسوخ کے دائرے میں محدود انداز سے کام کرنے کی اجازت دی جائے۔ تاکہ بظاہر تو سیکولر حکومتیں اسلامی نظر آئیں، مگر در پردہ انہی افراد سے شریعت کے نفاذ کو روکنے، جہادکے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے اور اسلامی نظام کے قیام میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے فائدہ اٹھایا جائے۔

یہی کچھ ہمارے ملک میں امریکی قبضے کے دوران، اور ہمارے ایک ہمسایہ ملک میں بعض اسلامی جماعتوں اور دینی مدارس کے ساتھ کیا گیا۔

  1. اغفال (تحریف اور دھوکے) کی حکمتِ عملی:

اغفال یعنی تحریف اور دھوکے کی حکمتِ عملی کے تحت مغرب عالمِ اسلام میں اسلام سے منسوب مداہنت پسند (تفریطی) اور انتہا پسند (افراطی) دونوں گروہوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔

مداہنت پسندوں سے یوں فائدہ اٹھاتا ہے کہ مغرب اپنی بڑے فکری و تحقیقی اداروں کے ذریعے عالمِ اسلام میں ایسے طماع، عیش پسند، فکری طور پر گمراہ اور چالاک افراد کو آگے لاتا ہے، جو بظاہر روحانیت کی چادر اوڑھے ہوتے ہیں، لیکن درحقیقت اسلام کی حقیقی روح اور روحانیت سے یکسر خالی ہوتے ہیں۔

پھر ان افراد کو اپنے میڈیا اور دوسرے مؤثر ذرائع کے بل بوتے پر عوام میں مقام دیتا ہے، اور انہیں بھاری مالی امداد فراہم کرتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے اختیار میں بڑے بڑے فکری، تعلیمی، تبلیغی اور معاشی ادارے دے دیتا ہے۔ گویا انہیں سیکولر حکومتوں کے ساتھ شراکت دار بنا دیتا ہے، یا انہیں سیاسی و فکری سرگرمیوں کی اجازت دے دیتا ہے۔

یہ سب اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ مسلمانوں کو اسلام کے نام پر ایسا نظریہ دیا جائے جس میں اسلام کو دیگر مذاہب کے ساتھ ایک ہی راہ پر چلنے والا دین بتایا جائے، انسانی (وضَعی) قوانین کو تسلیم کیا جائے، دین کے نام پر منکرات کو جائز قرار دیا جائے، اور یہ تصور عام کیا جائے کہ اسلام جنگ سے نفرت کرنے والا دین ہے اور مسلمان کے لیے بس یہی کافی ہے کہ وہ صرف انفرادی عبادات کرے، اور یہ سوال نہ اٹھائے کہ امت کی حالت کیا ہے؟ اقتدار کس کے ہاتھ میں ہے؟ مسلمان کی زندگی پر شرعی احکام نافذ ہیں یا غیر اسلامی قوانین؟ اور کیا مسلمان دینی، سیاسی، عسکری اور معاشی آزادیوں سے بہرہ‌مند ہیں یا نہیں؟

مغرب عالمِ اسلام اور خصوصاً افغانستان میں ایسے ہی افراد کو دین کی اصلی اور خالص تعلیمات میں تحریف، مسلمانوں کو غفلت اور بے حسی میں رکھنے، مغرب کے ساتھ فکری اور سماجی روابط قائم کرنے، اور عوام کو جہاد اور مجاہدین کی حمایت سے باز رکھنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

ان منصوبوں اور فکری پروجیکٹس کے پیچھے امریکہ کے اندر واقع ادارے مثلاً ’رینڈ کارپوریشن‘، ’نکسن تحقیقاتی مرکز‘، ’امریکی انسٹیٹیوٹ برائے امن‘، ’کارنیگی تحقیقاتی ادارہ‘ نیز امریکہ میں قائم فتح اللہ گولن کی ’تحریکِ خدمت ‘، عرب امارات کے تعاون اور نگرانی میں چلنے والے ادارے مثلاً ’طابۃ‘، ’مؤمنون بلا حدود‘، ’مرکز المسبار‘، ’مجلس حکماء المسلمین‘ اور ’منتدى تعزيز السلم في المجتمعات الإسلامية‘، چیچنیا میں صدر رمضان قدیروف کی دینی تنظیم اور خطے میں امریکہ، برطانیہ اور جرمنی کے سفارت خانے، اسی طرح ہمارے ملک اور ہمسایہ ممالک میں وہ معروف خاندان اور شخصیات جنہیں کسی حد تک دینی اور روحانی مقام حاصل ہے، نیز دیگر خفیہ و علانیہ دینی و فکری تنظیمیں اور مغربی فکری و انٹیلی جنس مشیران، یہ سب اس مشن میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔

مغرب اور عالمِ اسلام میں اس کے سیکولر حلیف پوری چالاکی کے ساتھ یہ کوشش کرتے ہیں کہ انہی ذرائع سے مسلمانوں کو مغرب کے خلاف مسلح جدوجہد اور جہاد کے ذریعے اسلامی نظام کے قیام کے خیال سے برگشتہ کر دیں، انہیں سطحی سوچ تک محدود رکھیں، اہم مسائل سے غافل رکھیں، مغرب اور مقامی سیکولروں کے ساتھ فکری و عملی تعاون پر آمادہ کریں، اور انہیں اس بات کا موقع نہ ملے کہ مدارس میں انقلابی روح، ترجیحات کی سوجھ بوجھ اور سیاسی قیادت کی صلاحیت پیدا ہو۔

دوسری طرف، مغرب انتہا پسند عناصر کو یوں استعمال کرتا ہے کہ جہادی تحریکوں اور مذہبی حلقوں میں خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے ایسے افراد داخل کیے جاتے ہیں جو نوجوانوں اور مجاہدین میں شدت پسند، غیر متوازن اور گمراہ کن خیالات پھیلائیں تاکہ اسلام کو بدنام کیا جا سکے۔

ایسے گمراہ افکار کے حامل لوگ مسلمانوں کے کفر کا فتویٰ دیتے ہیں، خون ناحق بہاتے ہیں، امت کے جلیل القدر علماء اور ائمہ پر نوجوان نسل کا اعتماد ختم کرتے ہیں، مجاہدین کی صفوں میں تفرقہ ڈالتے ہیں، اسلامی علوم اور علماء کے حوالے سے شکوک و شبہات پھیلاتے ہیں، اور اس قسم کے دعوے پیش کرتے ہیں جو بظاہر درست لگتے ہیں لیکن در حقیقت ان کے پیچھے عالمی خفیہ ایجنسیوں کے خطرناک مقاصد ہوتے ہیں، جس سے دین اور مدارس کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔

یہ شدت پسند عناصر دینی نصوص کی ایسی تشریحات کرتے ہیں جو اہل السنہ والجماعت کے مسلک اور منہج سے متصادم ہوتی ہیں تاکہ عوام کو ان سے بد ظن کیا جا سکے، دین، مدارس اور علماء سے لوگوں کا اعتماد ختم ہو جائے، اسلامی نظام کے نام پر اسلام کو ہی نقصان پہنچایا جائے، دین کے خلاف لوگوں کو احتجاج پر آمادہ کیا جائے، اور اسلام و جہاد کو اندر سے اتنا نقصان پہنچایا جائے جتنا کفار باہر سے نہیں دے سکے۔

ایسے افراد کی تیاری کے لیے مغرب کے حلیف عالمِ اسلام میں دو طریقے اختیار کرتے ہیں:

  1. خفیہ طریقے سے علمی اور جہادی حلقوں میں رخنہ ڈالتے ہیں، جعلی قیادتوں کے ابھرنے کے لیے ماحول بناتے ہیں، انہیں مقام دلانے کے لیے اپنے میڈیا کو استعمال کرتے ہیں، براہِ راست یا بالواسطہ طور پر اپنے مشیر ان کے ساتھ ملاتے ہیں اور انہیں عسکری و دیگر وسائل فراہم کرتے ہیں۔

  2. مخلص علماء، مجاہدین، مفکرین، طلباء اور نیک نوجوانوں کو اپنی جیلوں میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایسی سخت اذیتیں دیتے ہیں جو وہ کبھی بھلا نہ سکیں، اور ان کے سامنے شعائر اسلام کی بے حرمتی کرتے ہیں تاکہ وہ اس قدر ذہنی طور پر اذیت سے دوچار ہوں کہ رہائی کے بعد وہ حکمرانوں، ان کے حامیوں اور اپنے ہر مخالف کے خلاف تکفیر، انتہا پسندی اور اندھی خونریزی کے سوا کسی اور رویے کو درست نہ سمجھیں۔

ایسے لوگ اگرچہ شروع میں مغرب اور اس کے حلیفوں کے ساتھ نہ بھی ہوں، مگر ان کا طرزِ فکر اور بیانیہ اس نہج پر آ جاتا ہے جس کا نتیجہ دین کی تحریف اور جہاد کی بدنامی کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور یہی وہ چیز ہے جس کی کفار اور ان کے جابر اتحادیوں کو توقع ہوتی ہے۔

ایسے افراد عالمِ اسلام کے مختلف خطوں میں، مختلف زمانوں میں پیدا کیے گئے اور دانستہ یا نادانستہ طور پر انہوں نے دینی میدان میں مغرب اور اس کے حلیفوں کے خفیہ و اعلانیہ منصوبوں کو تقویت دی۔

  1. اعتدال پسند اسلام کے نام پر ’’امریکی اسلام‘‘ تشکیل دینے کی حکمت عملی:

مدارسِ دینیہ سے ابھرنے ویہالے خالص اسلامی انقلابی فکر اور مزاحمتی سوچ کو روکنے کے لیے مغرب کی تیسری حکمت عملی یہ ہے کہ ایسے افراد کو، جو بظاہر اسلام سے وابستہ ہوں، اس کام پر لگایا جائے کہ وہ اسلام کو اس کی اصل روح اور خالص مفہوم سے خالی کر دیں، اور اس کی جگہ مغربی افکار و اصطلاحات کو اسلامی لبادہ پہنا کر پیش کریں۔

اس عمل کے دو بڑے مقاصد ہوتے ہیں:

  1. ایک تو یہ کہ وہ فکری اسلام ختم ہو جائے جو مغربی نظریات کی مخالفت کرتا ہے،

  2. دوسرا یہ کہ ایک ایسے ’’اسلام‘‘ کو فروغ دیا جائے، جسے وہ ’’اعتدال پسند اسلام‘‘ کہتے ہیں، تاکہ مسلمان اس نئے اسلام کے پیروکار بن جائیں۔

اب سوال یہ ہے کہ وہ ’’اعتدال پسند اسلام‘‘ جسے امریکہ چاہتا ہے، وہ دراصل ہے کیا؟

اس حوالے سے امریکہ میں پالیسی سازی کے ایک معروف تحقیقی ادارے ’’رینڈ کارپوریشن‘‘ نے اس کی یوں تعریف کی ہے:

’’امریکہ، نئی صنعتی دنیا اور مجموعی طور پر عالمی برادری ایک ایسا اسلام چاہتی ہے جو دنیا کے دیگر نظاموں کے ساتھ ہم آہنگ، جمہوری، ترقی پسند اور بین الاقوامی قوانین، احکام اور اخلاقی اصولوں پر مبنی ہو۔ ‘‘

یعنی اس تعریف کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کو ایسا بنایا جائے جو:

  • امریکہ اور عالمی برادری کی مرضی کے مطابق ہو، اس کا کوئی منفرد تشخص یا الگ نظام نہ ہو، بلکہ وہ دیگر غیر اسلامی نظاموں کے ساتھ میل کھاتا ہو۔

  • یہ ’’جمہوری اسلام‘‘ ہو یعنی ایسا اسلام جو وحی پر مبنی نہ ہو بلکہ عوام کی رائے سے تشکیل پاتا ہو۔

  • یہ ’’ترقی پسند اسلام‘‘ ہو یعنی اپنی اصل شکل کو چھوڑ کر مغرب کے جدید تصورات کو اپنانے والا ہو۔

  • اور اس کے احکام و اخلاقیات، مغرب کے بنائے ہوئے قوانین اور نظریات سے ہم آہنگ ہوں۔

مغرب نے اس قسم کے ’’اسلام‘‘ کے لیے ایسے افراد سے کام لیا ہے اور لے رہا ہے، جو خود کو معتدل اسلام کے حامی یا جمہوری علماء کہتے ہیں، جہاد اور عقیدۂ ولاء و براء سے نفرت رکھتے ہیں، اور مختلف دینی اداروں کے ذریعے یہ کوشش کرتے ہیں کہ قوانین، اخلاق، سیاست اور ثقافت کے شعبوں میں مغرب سے تعلقات قائم ہوں اور جہادی تحریکوں سے دوری پیدا ہو۔ یہ مغرب کے فکری حلیف ان مجاہدین اور فکری کارکنوں کو جو اسلامی نظام کے قیام کے لیے اٹھے ہیں، انتہاپسند قرار دیتے ہیں، اور مغربی ذرائع ابلاغ کی مدد سے ان کے خلاف شدید منفی پروپیگنڈا کرتے ہیں تاکہ اس فکر کے اثرات کو محدود کیا جا سکے جو مغرب کے ساتھ مفاہمت پر تیار نہیں ہوتی۔

  1. طاقت کے استعمال کی حکمتِ عملی:

طاقت کے استعمال کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ ان تمام اسلامی گروہوں، خصوصاً مزاحمتی تحریکوں کو ختم کیا جائے جو نہ مغرب سے سمجھوتہ کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے سیکولر اتحادیوں سے، بلکہ خلوصِ دل سے یہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنی عوام اور خطوں کو مغرب، خصوصاً امریکہ کے عسکری، سیاسی، فکری اور اقتصادی تسلط سے آزاد کریں، اور حقیقی معنوں میں زندگی کے تمام شعبوں میں اسلامی نظام اور شریعت نافذ کریں۔

امریکہ اور اس کے اتحادی عالمِ اسلام میں کسی کو یہ اجازت نہیں دیتے کہ سیاست، نظام، عسکریت، معیشت اور دیگر سماجی شعبوں میں شریعت نافذ کر سکیں۔ اگر کوئی قوم یا اسلامی گروہ اس سمت میں قدم بڑھاتا ہے، تو اسے ضرور مغرب، خصوصاً امریکہ کی طرف سے پابندیوں، جنگوں، بغاوتوں، قید و بند، دشمنی اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

امریکہ عالمِ اسلام کے ان تمام مدارس، تعلیمی نصابوں اور نظاموں کو اپنا دشمن سمجھتا ہے جو اپنے طلباء کو مغربی فکر سے پاک خالص اسلامی تعلیم دیتے ہیں۔

امریکہ نے پوری اسلامی دنیا کے حکمرانوں کو اس بات پر مجبور کیا ہے کہ وہ اپنے تعلیمی نصابوں سے وہ تمام مواد نکال دیں جو امریکہ کو ناپسند ہیں، کیونکہ اسے اس بات کا خوف ہے کہ اگر عالمِ اسلام کے کسی خطے میں خالص اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر کوئی سیاسی نظام قائم ہو گیا، اور عوام اُس کے سائے تلے امن اور خوشحال زندگی گزارنے لگے، تو یقیناً دیگر علاقوں کے لوگ بھی ایسے ہی نظام کے قیام کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اس کے نتیجے میں مغرب کے وفادار نظام اور قوانین ختم ہو جائیں گے، اور اسلامی دنیا سے مغرب کی بالادستی کا خاتمہ ہو جائے گا، جو کہ مغرب کسی صورت قبول نہیں کرے گا۔

اسی خطرے کو روکنے کے لیے، مغرب خصوصاً امریکہ، ان تمام علمی، مزاحمتی، فکری اور سماجی تحریکوں کو دبانے کی کوشش کرتا ہے جو عالمِ اسلام پر مغرب کی براہِ راست یا بالواسطہ حکمرانی کو تسلیم نہیں کرتیں۔

مسلمانوں کی موجودہ فکری گمراہی اور اخلاقی زوال پر دینی مدارس سے مطلوب موقف

مغربی نظریات سے متاثر مسلمانوں کی موجودہ حالت پر دینی مدارس اور مبلغینِ اسلام کو دو میں سے ایک راستہ اختیار کرنا ہوگا:

  1. یا تو مدرسہ عوام، معاشرے اور حکمرانوں کو اسی طرح مغربی رنگ میں رنگنے دیں۔ لوگ اپنا اسلامی تشخص کھو دیں، ان کے نظام بیرونی قوانین پر چلیں، ان کی فوجیں دشمن کے ساتھ کھڑی ہوں اور اپنے مسلمان عوام سے لڑیں، ریڈیو، ٹی وی، پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا مسلمانوں کا ہو مگر اس میں مغربی نظریات، افکار، اخلاقیات، اقدار اور فلسفے پھیلائے جائیں۔ تعلیمی اداروں میں طلباء مسلمان ہوں، لیکن ان کے آئیڈیل اور نمونے غیر مسلم یا ان کے ہمنوا ہوں۔ ملک مسلمانوں کا ہو لیکن اس پر حکومت اغیار کی ہو۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہمارے ہوں، لیکن ان کے ذہنی اور جذباتی تعلقات کافروں سے ہوں۔

یہ تمام غیر مطلوبہ حالات ہیں، جنہیں ایک عام مسلمان اور نہ ہی ایک دینی مدرسہ، جو کہ نبوت کا وارث اور قیادت کی تیاری کا مرکز ہے، قبول کر سکتا ہے۔

  1. دوسرا مؤقف یہ ہوسکتا ہے، اور ہونا بھی یہی چاہیے، کہ دینی مدرسہ اور اس سے وابستہ افراد دوبارہ اپنے قائدانہ کردار کی طرف لوٹ آئیں، اور اپنے مؤثر کردار اور مؤثر پیغام کے ذریعے معاشرے کی راہنمائی کریں کہ وہ دوبارہ اپنے اسلامی اصولوں، زندگی کے اسلامی معیاروں، عزت و دینداری کے راستے، شریعت کے نفاذ کے مقصد، آزادی کے حصول و تحفظ، اور اسلامی دعوت کے فروغ کی طرف لوٹ آئیں۔

اور یہ اہداف اس وقت حاصل ہوں گے جب دینی مدرسہ اپنے نصاب اور غیر نصابی سرگرمیوں میں عملی، مؤثر اور قائدانہ شخصیات کی تیاری کے لیے خالص دینی مفاہیم پر توجہ مرکوز کردے، نہ یہ کہ دینی مدارس کے طلباء کو ’’منطق‘‘ کے نام پر افلاطون اور ارسطو جیسے فلاسفہ کے غیر اسلامی نظریات کی چودہ کتابیں پڑھنے پر مجبور کیا جائے، اور وہ کئی سال ایسے موضوعات میں ضائع کریں جن کا نہ دین میں کوئی فائدہ ہو، نہ ان کے ذریعے اسلامی نظام قائم ہو سکتا ہے، اور نہ ہی کفر اور گمراہی کے مختلف طریقوں کا مؤثر مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

اسلامی نظام کے قیام، استحکام اور تسلسل کے لیے ضروری ہے کہ دینی مدرسہ اپنے طلباء کو اسلام اور پوری امت کے بارے میں جامع فہم دے، اور انہیں یہ شعور دے کہ دینی، فکری، ثقافتی، تعلیمی، سیاسی، معاشی، عسکری اور انٹیلی جنس کے میدانوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف صف آراء کفری طاقتوں اور فکری و ثقافتی اداروں کا مقابلہ کس طرح کیا جا سکتا ہے؟

یہاں یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ ہم امارتِ اسلامیہ سے یہ نہیں کہنا چاہتے کہ ’’چلو! پوری دنیا کے خلاف جنگ کا اعلان کرو!‘‘ یہ ایک غیر معقول سوچ اور نامناسب قدم ہو گا۔ بلکہ ہمارا اصل مقصد یہ ہے کہ ہم طلبہ علومِ نبوت کو اس بات کا شعور دیں کہ وہ دین کی مکمل معرفت حاصل کریں: دین کیا ہے؟ اس کے پیروکار کون ہیں؟ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں؟ وہ حاکم ہیں یا محکوم؟ مظلوم ہیں یا آزاد؟ ان کے وسائل ان کے اپنے کنٹرول میں ہیں یا دوسروں کے؟ ان کی قیادت ان کے اپنے علماء اور رہنماؤں کے ہاتھ میں ہے یا بیرونی طاقتوں کے؟ ان کے فیصلے ان کے دین کے مطابق صادر ہوتے ہیں یا وہ بیرونی قوانین اور نظام کو قبول کرنے پر مجبور ہیں؟

ہمارے دینی مدارس کو اپنے نصاب میں اسلام اور امت مسلمہ کے موجودہ حالات کی معرفت پر مشتمل مضامین شامل کرنے چاہییں۔ جب طلباء اس فہم سے بہرہ مند ہو جائیں گے تو جس طرح وہ قتال، فدائیت اور مسلح جدوجہد کے میدان میں ثابت قدم رہے، اسی طرح فکری میدان میں بھی دشمن کا مؤثر طور پر مقابلہ کر سکیں گے۔ وہ جدید مسائل پر اسلامی استدلال کر سکیں گے، لوگوں کے شبہات کے جوابات دے سکیں گے، دشمن کی چالاکیوں اور گمراہ کن پروپیگنڈے کا تجزیہ کر سکیں گے، دنیا کے ساتھ گفتگو میں مشترک نکات کو پہچان سکیں گے، اور اسلام و امت مسلمہ کا شعوری طور پر اور ہمہ جہتی دفاع کر سکیں گے۔

آج جب ہم اپنے مدارس کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے مدارس کے نصاب میں اسلام اور کفر کے درمیان جاری فکری اور تہذیبی معرکے کی جگہ صرف لغت اور گرامر جیسے موضوعات نے لے لی ہے۔ طلبہ کو اسلام اور کفر کے درمیان جاری معاصر جنگ کے بارے میں کچھ نہیں پڑھایا جاتا۔

سیاسی، ثقافتی، اخلاقی اور دینی مضامین میں بھی خاطر خواہ نصاب نہیں ہے اور نہ ہی ایسی منظم فکری تربیت موجود ہے جو طلبہ کو جدوجہد کے مراحل سے روشناس کرائے اور انہیں اس راہ کے خطرات اور تقاضوں سے خبردار کرے۔

اس صورتِ حال کی سب سے بڑی ذمہ داری حکومت، نصاب بنانے والے اداروں اور اس کے بعد مدارس کے منتظمین اور اساتذہ پر عائد ہوتی ہے۔ دینی مدارس کو چاہیے کہ اپنے طلبہ میں یہ صلاحیتیں پیدا کریں، کیونکہ مدرسہ دراصل اسلامی جدوجہد کا وہ مضبوط اور ناقابلِ تسخیر قلعہ ہے جس نے پورے عالمِ اسلام کے عالمی طاقتوں کے آگے جھک جانے کے باوجود، ہمیشہ مزاحمت کا پرچم بلند رکھا ہے۔

مدرسہ نہ تو انگریز کے سامنے جھکا، نہ روس، امریکہ اور نہ ہی بین الاقوامی یا داخلی دباؤ کے سامنے۔ یہاں تک کہ مغرب کی سیکولر اور تجدد پسند لہر بھی مدرسے کو زیر نہ کر سکی۔ لہٰذا مدرسے کے نصاب کو جمود سے نکالنا ہو گا اور اسے اس کا قائدانہ کردار واپس دینا ہو گا۔ جب مدرسے کا فارغ التحصیل طالب علم ایسی قائدانہ صلاحیتوں کا حامل بن جائے گا کہ وہ اپنی قوم، ملت، وطن اور علاقے کے لوگوں کی رہنمائی کر سکے، تو پھر یہ یقینی ہے کہ قربانیوں، جدوجہد، شہادتوں اور جہاد کا نتیجہ ضرور ثمر آور ہو گا۔

انقلابات کی کامیابیوں کا تحفظ ہمہ جہتی علم اور سائنسی ترقی کے ذریعے ہی ممکن ہے

یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ انقلاب کی کامیابیوں کو محفوظ رکھنا، آزادی کا تحفظ اور اس کی پاسبانی کرنا، دین اور ثقافت کا دفاع کرنا اور ہر قسم کی ترقی کے وسائل پیدا کرنا، صرف علم، تحقیق اور عوام کی فکری، اخلاقی اور علمی سطح کو بلند کرنے کے ذریعے ممکن ہوتا ہے۔

وہ قومیں جہاں دینی علم کا فروغ ہوتا ہے، وہ اغیار کی غلامی سے محفوظ رہتی ہیں، اور اسی طرح جہاں دنیوی علوم کی ترقی اور ترویج ہوتی ہے، وہ دوسروں کی محتاجی سے نجات پاتی ہیں۔

ہم افغانوں نے تین بار انگریزوں اور بعد میں روسیوں کے خلاف دینی قیادت کے زیر سایہ جنگیں جیتی ہیں، لیکن چونکہ ہم نے ان جنگوں کے ساتھ ساتھ علمی ترقی نہیں کی، اور نہ ہی اپنی قوم کو فکری، تعلیمی اور سیاسی لحاظ سے مطلوبہ دینی علم سے روشناس کیا، اسی لیے ہر بار ہماری جدوجہد کا پھل غیروں نے چھین لیا۔

آزادی حاصل کرنے کے بعد ہم پر ایسے نظام اور حکومتیں مسلط کی گئیں جن کی اکثریت بیرونی طاقتوں سے وابستہ تھیں اور بجائے اس کے کہ وہ مجاہدینِ آزادی کی قدردانی کرتے اور آزادی کی حفاظت کرتے، انہوں نے الٹا ان مجاہدین کو دبایا اور آزادی کی قیمت پر دشمنوں کے ساتھ خفیہ یا علانیہ سودے کیے۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭

  • 1
    پریگماٹزم (Pragmatism) یا عملیت ایک فلسفیانہ نظریہ ہے جو کسی خیال، عقیدے یا عمل کی حقیقت اور قدر کو اس کے عملی نتائج اور فائدہ مندی کی بنیاد پر پرکھتا ہے، اور یہ عملی نتائج یا فائدہ مندی خالص انسانی عقل کی بنیاد پر پرکھے جاتے ہیں۔ اس لیے کوئی عقیدہ، مذہبی اصول یا آفاقی قانون اس وقت تک قابلِ قبول نہیں ہو سکتا جب تک وہ انسانی عقل کے مطابق ’’عملی‘‘ اور ’’فائدہ مند‘‘ نہ ہو۔ (ادارہ)
  • 2
    میکاولیت (Machiavellianism) اطالوی سیاسی مفکر نیکولو میکاولی کا پیش کردہ سیاسی و فلسفیانہ نظریہ ہے جو ہر طرح کی اخلاقیات، عقائد اور نظریاتی اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سیاسی طاقت کے حصول، اسے برقرار رکھنے اور اس کے استعمال کے عملی طریقوں، بشمول دھوکہ دہی، جبرا ور تشدد، پر زور دیتا ہے۔(ادارہ)
Previous Post

اَلقاعِدہ کیوں؟ | چوتھی قسط

Next Post

فوز المبین

Related Posts

اِک نظر اِدھر بھی! | جولائی 2025
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | اگست 2025

17 اگست 2025
اَلقاعِدہ کیوں؟ | چوتھی قسط
فکر و منہج

اَلقاعِدہ کیوں؟ | پانچویں قسط

13 اگست 2025
مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | چھٹی قسط

13 اگست 2025
کفار کا معاشی بائیکاٹ | چوتھی قسط
فکر و منہج

کفار کا معاشی بائیکاٹ | چوتھی قسط

13 اگست 2025
کیا ریاست (State) اسلامی ہو سکتی ہے؟
فکر و منہج

کیا ریاست (State) اسلامی ہو سکتی ہے؟

13 اگست 2025
ہم بندگانِ خدا شریعت کے پابند ہیں!
فکر و منہج

ہم بندگانِ خدا شریعت کے پابند ہیں!

17 جولائی 2025
Next Post
فوز المبین

فوز المبین

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version