نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home طوفان الأقصی

قبلۂ اوّل سے خیانت کی داستان – اردن

نعمان حجازی by نعمان حجازی
13 جولائی 2025
in طوفان الأقصی, جولائی 2025
0

یہ ایک ایسی داستان ہے جو دھوکے، مفاد پرستی، مصلحت پسندی اور قبلۂ اوّل اور فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ مسلسل خیانت سے بھری پڑی ہے۔ ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے قیام سے لے کر آج تک مسلم ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات، چاہے خفیہ ہوں یہ اعلانیہ، اکثر مسئلۂ فلسطین کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھاتے رہے ہیں، اور ان ممالک کے نام نہاد مسلمان حکمران ہمیشہ قبلۂ اوّل اور مسئلہ فلسطین کے ساتھ خیانت کے مرتکب رہے ہیں۔ یہ خیانتیں ۷ اکتوبر کے طوفان الاقصیٰ کے بعد سے شروع نہیں ہوتیں بلکہ ان کا آغاز تو اسرائیل کے قیام سے بھی پہلے ہو چکا تھا۔ لیکن غزہ میں جاری حالیہ جنگ نے نہ صرف اس خیانت کا پردہ چاک کر دیا ہے بلکہ اسے ایک ناقابلِ تردید حقیقت کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ جہاں ماضی میں مسلم ممالک اپنے سفارتی تعلقات اور خفیہ معاہدوں کو پردۂ راز میں ہی رہنے دیتے تھے وہاں ابراہیمی معاہدوں کے بعد سے ایک ایک کر کے سب کی اصلیت بے نقاب ہوتی جا رہی ہے۔ اس جنگ میں اسرائیل کی طرف بھیجے جانے والے ڈرونز اور میزائلوں کو اردن کی طرف سے نشانہ بنایا جانا ہو، مصر کی جانب سے قافلہ الصمود میں شامل لوگوں کو زدوکوب کر کے بلک بدر کرنا ہو، ترکی کا دبئی میں یہودی ربی پر حملہ کرنے والے نوجوانوں کو گرفتار کر کے متحدہ عرب امارات کے حوالے کرنا اور متحدہ عرب امارات کا انہیں پھانسی دینا ہو یا فلسطینی بچوں کی قاتل گولانی بریگیڈ کا مراکش جا کر چھٹیاں منانا اور وہاں حکومتی مراعات سے فائدہ اٹھانا ہو، ان سب چیزوں نے مسلم ممالک کے حکمرانوں کے مکروہ چہرے بہت واضح کر دیے ہیں۔

اس تحریر میں مسلم ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی تاریخ کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مسلم ممالک کی فلسطین اور مسجدِ اقصیٰ کے ساتھ خیانت اچانک ٹرمپ کے آ جانے کے بعد ابراہیمی معاہدوں کے ذریعے سے شروع نہیں ہوئی بلکہ یہ عشروں سے جاری تھی۔

اردن

اسرائیل کے ساتھ اردن کے تعلقات باقی تمام ممالک سے پرانے اور فلسطین کے مسئلے میں اس کا کردار سب سے زیادہ منافقانہ اور مکارانہ رہا ہے۔ فلسطین سے اردن کے شاہوں کی خیانت کی تاریخ تو ریاستِ اسرائیل سے بھی بہت پرانی ہے۔

شریفِ مکہ شاہ حسین بن علی کی خلافتِ عثمانیہ سے غداری

اردن کے شاہوں کی فلسطین سے خیانت کا آغاز شریف مکہ حسین بن علی کی خلافتِ عثمانیہ سے غداری سے ہوتا ہے۔ حسین بن علی اردن کے پہلے بادشاہ شاہ عبد اللہ اوّل کا باپ تھا جس نے عثمانی خلافت کے خلاف برطانیہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا اور بدلے میں مطالبہ یہ رکھا کہ اس کے تحت ایک بڑی عرب سلطنت دے دی جائے جس میں جزیرہ نما عرب، مکمل شام (بشمول موجودہ شام، لبنان، اردن اور فلسطین) اور عراق شامل ہوں۔

اس مقصد کی خاطر ۱۹۱۵ء میں شریفِ مکہ حسین بن علی نے مصر میں برطانیہ کے ہائی کمشنر ہنری مک ماہن (Sir Henry McMahon) کو خطوط لکھے۔ جن میں سے ایک خط میں، جو ۲۴ اکتوبر ۱۹۱۵ء کو لکھا گیا لکھا، اس نے عثمانی خلافت سے بغاوت اور برطانیہ سے اپنی وفاداری کے بدلے مندرجہ بالا مطالبات پیش کیے۔

اس خط کے جواب میں مک ماہن نے مبہم انداز سے اس کی حمایت پر رضامندی ظاہر کی۔ مبہم انداز میں اس لیے کہ اس نے عربوں کی عثمانی خلافت سے آزادی کی حمایت کا تو واضح اظہار کیا لیکن فلسطین شام اور لبنان کے حوالے سے کوئی واضح وعدہ نہیں کیا بلکہ ان باتوں کو تقریباً گول کر گیا۔ دونوں کے درمیان کئی خطوط کا تبادلہ ہوا لیکن مک ماہن نے کبھی بھی عرب ریاست کی سرحدات کے حوالے سے واضح جواب نہیں دیا۔

عثمانی خلافت سے آزاد پورے عرب کا واحد بادشاہ بننے کی ہوس میں شریفِ مکہ نے برطانیہ سے ابہام دور کرنے کا مطالبہ بھی نہیں کیا اور جون ۱۹۱۶ء میں عثمانی خلافت کے خلاف عرب بغاوت کا آغاز کر دیا۔ اس طرح اس نے اپنے اقتدار کی ہوس میں برطانیہ کا ساتھ دیتے ہوئے خلافتِ عثمانیہ کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا جس کے نتیجے میں فلسطین برطانویوں کے ہاتھ اور پھر ان کے ذریعے یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ کیونکہ برطانیہ نے پوری مکاری کے ساتھ شریفِ مکہ کو استعمال کرنے کے بعد ۱۹۱۷ء میں بالفور ڈکلیریشن کے ذریعے یہودیوں سے فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کا وعدہ کر لیا تھا۔

برطانیہ نے شریفِ مکہ کے ساتھ بے وفائی کی اور اس کا متحدہ عرب ریاست کا تنہا بادشاہ بننے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ لیکن شریفِ مکہ کی خدمات کے بدلے میں برطانیہ نے پہلے اسے پھر اس کے بیٹے علی بن حسین کو حجاز کا بادشاہ بنایا، یہ بادشاہت اس خاندان کے پاس ۱۹۲۵ء تک رہی جس کے بعد برطانیہ کو آل سعود کی شکل میں ان سے بہتر وفادار مل گئے تو یہ اقتدار ان سے چھین کر آل سعود کے حوالے کر دیا گیا۔ حسین بن علی کے دوسرے بیٹے فیصل بن حسین کو عراق کا بادشاہ جبکہ تیسرے بیٹے عبد اللہ اوّل کو اردن کا بادشاہ بنا دیا گیا۔ اور تب سے لے کر آج تک اردن کی بادشاہت اسی خائن خاندان کے ورثے میں چلی آ رہی ہے۔

عبد اللہ اوّل

شریفِ مکہ حسین بن علی کے دوسرے بیٹے عبد اللہ اوّل نے خلافتِ عثمانیہ کے خلاف عرب بغاوت شروع کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ بلکہ اپنے باپ کو کو خلافتِ عثمانیہ سے بغاوت پر آمادہ ہی عبد اللہ اوّل نے کیا تھا۔۱۹۱۴ء میں عبد اللہ اوّل نے قاہرہ کا خفیہ دورہ کیا تاکہ برطانیہ کے وزیرِ جنگ لارڈ کچنر (Lord Kitchener) سے ملاقات کر کے عرب بغاوت کے لیے تعاون حاصل کر سکے۔پہلی جنگِ عظیم کے دوران بھی عبد اللہ نے برطانویوں سے روابط قائم رکھے اور ۱۹۱۵ء میں حسین بن علی نے عبد اللہ اوّل ہی کے کہنے پر مصر میں برطانوی ہائی کمشنر ہنری مک ماہن سے رابطہ کیا جس کا احوال پیچھے گزر چکا ہے۔ بغاوت کے دوران عبد اللہ اوّل نے مشرقی عرب افواج کی کمانڈ سنبھالی اور ۵۰۰۰ بدوؤں کے لشکر کی کمانڈ کرتے ہوئے خلافتِ عثمانیہ کی فوجی چھاؤنیوں پر گوریلا حملےکرتا رہا۔

ان خدمات کے بدلے میں برطانیہ نے ۱۱ اپریل ۱۹۲۱ء کو عبد اللہ اوّل کو شرقِ اردن (Transjordan)1دریائے اردن کا مشرقی کنارہ کی نئی تشکیل دی گئی امارت کا امیر بنا دیا۔ اپنی امارت کے دوران اکتوبر ۲۰۲۳ء میں عبد اللہ اوّل نے برطانوی فوجی افسر ’فریڈرک گیرارڈ پیک (Frederick Gerard Peake) کی سربراہی میں ابتدائی پولیس فورس تشکیل دی جسے اردن میں ’’جیش العربی‘‘ جبکہ برطانوی عرب لیجن (Arab Legion) کہتے تھے۔ ۱۹۳۹ء میں برطانوی افسر لیفٹیننٹ جنرل جان بیگٹ گلب (John Bagot Glubb) کی سربراہی میں اسے باضابطہ فوج کی شکل دے دی گئی۔

دوسری جنگِ عظیم میں بھی عبد اللہ اوّل نے برطانیہ سے وفاداری کا حق نبھایا اور جیش العربی نے عراق اور شام کو برطانیہ کے قبضے میں دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

۲۵ مئی ۱۹۴۶ء کو برطانیہ نے امارتِ شرقِ اردن کو نام نہاد آزادی دے دی اور اردن کی ہاشمی سلطنت قائم ہوئی اور عبد اللہ اوّل اس کا پہلا بادشاہ بنا۔

عبد اللہ اوّل اپنی سلطنت کو وسعت دینا چاہتا تھا، اس کی خواہش تھی کہ ایک طرف برطانیہ کے ساتھ کچھ ساز باز کر کے اردن کےساتھ شام اور لبنان کو بھی ہاشمی سلطنت کے تحت لے آئے جبکہ دوسری طرف یہودی ایجنسی کے ساتھ مذاکرات کر کے فلسطین میں ایک یہودی ریاست قائم کروا دے جبکہ باقی فلسطینی علاقے کو اپنی سلطنت میں شامل کر لے۔

یہی وجہ تھی کہ ۱۹۳۶ء میں جب ’پیل کمیشن‘ (Peel Commission) نے تجویز پیش کی کہ فلسطین کے بیس فیصد علاقے پر ایک یہودی ریاست قائم کی جائے اور باقی کے فلسطین کو اردن کا حصہ بنا دیا جائے تو اس تجویز کی تمام عربوں نے مخالفت کی جبکہ شاہ عبد اللہ اوّل اس تجویز کا واحد حامی تھا۔

اسی طرح اقوامِ متحدہ نے جب فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ پیش کیا جس میں ۵۶ فیصد فلسطینی علاقے پر یہودی ریاست اور ۴۳ فیصد علاقہ عرب ریاست بنانے کی تجویز پیش کی گئی جبکہ بیت المقدس کو بین الاقوامی سرزمین قرار دیا گیا تو اس منصوبے کی بھی تمام عرب ریاستوں اور فلسطینیوں نے شدید مخالفت کی لیکن اردن نے اس شرط پر اس منصوبے کی بھی حمایت کی کہ فلسطینی عرب علاقہ اردن کے حوالے کر دیا جائے گا۔

شاہ عبد اللہ اوّل نے یہیں تک بس نہیں کی بلکہ اس نے اس حوالے سے یہودی ایجنسی سے خفیہ ملاقاتیں شروع کر دیں۔ شاہ عبد اللہ سے یہودی ایجنسی کا جو وفد ملاقات کرتا تھا اس میں بعد میں اسرائیل کی وزیر اعظم بننے والی ’گولڈا میئر‘ بھی شامل تھی۔ نومبر ۱۹۴۷ء میں شاہ عبد اللہ اور یہودی ایجنسی کے درمیان اقوام متحدہ سے ہٹ کر فلسطین کی تقسیم کے ایک علیحدہ منصوبے پر اتفاق ہو گیا جس میں یہودی ریاست کےعلاوہ باقی تمام فلسطین اردن میں شامل کیا جانا تھا۔ اس منصوبے کی برطانوی وزیر خارجہ ارنیسٹ بیوِن (Ernest Bevin) نے بھی حمایت کی۔

۴ مئی ۱۹۴۸ء کو شاہ عبد اللہ نے زیادہ سے زیادہ فلسطینی علاقہ اپنے قبضے میں کرنے کے لیے فلسطین میں اپنی جیش العربی بھیج دی۔ اور ساتھ میں گولڈا میئر سے ملاقات کی اور کہا کہ اپنی ریاست کے قیام میں جلدی نہ کرو، پہلے میں سارا علاقہ قبضے میں لیتا ہوں اور پھر اس میں ایک خودمختار یہودی علاقے کا اعلان کر دوں گا۔ جواب میں گولڈا میئر نے کہا کہ نومبر میں ہمارے درمیان فلسطین کی تقسیم اور آزاد یہودی ریاست کی ہی بات ہوئی تھی۔

پڑوسی عرب ریاستیں اردن پر دباؤ ڈال رہی تھیں کہ سب مل کر فلسطین کو یہودیوں سے آزاد کرواتے ہیں جب شاہ عبد اللہ کو اندازہ ہوا کہ یہودی ایجنسی اس کی بات نہیں مانے گی اور موجودہ تقسیم میں بیت المقدس بھی یہودیوں کے پاس چلا جائے گا، تو اس نے پڑوسی عرب ریاستوں کی بات مان لی اور ۱۵ مئی ۱۹۴۸ء کو پہلی عرب اسرائیل جنگ کا آغاز ہوا۔ اس جنگ کے نتیجے میں مغربی کنارہ اور بیت المقدس اردن کے قبضے میں آ گیا، جبکہ غزہ مصر کے قبضے میں چلا گیا اور باقی سارا فلسطین اسرائیل بن گیا۔

اس جنگ کے باوجود شاہ عبد اللہ نے اسرائیل سے اپنے تعلقات خراب نہیں ہونے دیے۔۳ اپریل ۱۹۴۹ء کو اسرائیل اور اردن کے درمیان آرمسٹائس معاہدے (Armistice Agreement) پر دستخط ہوئے اور باضابطہ طور پر آرمسٹائس لائن قائم کر دی گئی۔ اس کے علاوہ مخصوص علاقے غیر عسکری قرار دے دیے گئے اور تنازعات کے حل کے لیے ایک مشترکہ آرمسٹائس کمیشن تشکیل دے دیا گیا۔

لیکن یہ سب کچھ تو رسمی طور پر ہو رہا تھا، لیکن اس کے ساتھ غیر رسمی طور پر دونوں ملکوں کے درمیان افراد اور سامان کی نقل و حمل کے حوالے سے بھی معاہدے طے پائے اور اردن نے یہودی زائرین کو دیوارِ گریہ اور دیگر مقدس مقامات پر جانے کی اجازت دے دی۔

پہلی عرب اسرائیل جنگ کے بعد جب اسرائیلی ریاست قائم ہوئی تو اس کے فوراً بعد ہی دونوں ملکوں کے درمیان سکیورٹی تعاون کا آغاز ہو گیا۔ دونوں ممالک چھوٹے تنازعات کے رونما ہونے پر ایک دوسرے کو مطلع کر دیتے تھے تاکہ معاملہ بڑے تنازع کی شکل اختیار نہ کر سکے۔ بالخصوص فلسطینی ’فدائیوں‘ کے معاملے میں جو اردن کی حدود سے اسرائیل پر حملے کرتے تھے۔

ان اقدامات کی وجہ سے یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ شاہ عبد اللہ کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ہیں اور وہ اسرائیل کو تسلیم کر کے اس کے ساتھ امن معاہدہ کرنے جا رہا ہے۔

۲۰ جولائی ۱۹۵۱ء کو شاہ عبد اللہ اوّل مسجدِ اقصیٰ کے دورے پر گیا۔ جب شاہ عبد اللہ مسجد کے دروازے پر پہنچا تو ایک فلسطینی مسلح نوجوان مصطفیٰ شکری نے اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ مصطفیٰ شکری کا تعلق فلسطینی جہادی تنظیم ’جیش الجہاد المقدس‘ سے تھا۔ شاہ عبد اللہ اوّل کے محافظوں نے مصطفیٰ شکری کو بھی موقع پر ہی شہید کر دیا۔

شاہ عبد اللہ کے مارے جانے کے بعد ایک طرف اردن میں فلسطینیوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہو گیا تو دوسری طرف اردن کے حکمران اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں محتاط ہو گئے۔ اگرچہ تعلقات جاری رہے لیکن انہیں ماضی کی نسبت اب زیادہ خفیہ کر دیا گیا۔

طلال بن عبد اللہ

شاہ عبد اللہ اوّل کے مارے جانے کے بعد اس کا بیٹا ولی عہد طلال بن عبد اللہ اردن کا دوسرا شاہ بنا۔ لیکن طلال اپنے باپ سے قدرے مختلف تھا۔ طلال برطانیہ مخالف تھا، یہی وجہ تھی کہ اس نے اقتدار میں آنے کے بعد برطانیہ اور اسرائیل سے تعلقات کی بجائے پڑوسی عرب ممالک سے تعلقات بہتر بنانے شروع کیے۔ وہ ملک میں سیاسی اصلاحات لے کر آیا اور اس نے ملک میں پہلا باضابطہ آئین متعارف کروا کر ملک کو ’آئینی بادشاہت‘ میں تبدیل کیا۔ لیکن یہی اقدام اسے بھاری پڑ گیا۔ اس کے تحت جو سیاسی قیادت اقتدار میں آئی وہ سب برطانیہ اور اسرائیل کی حامی تھی ۔ اردن کے وزیر اعظم توفیق ابو الہدیٰ نے طلال کی بیوی، ولی عہد حسین بن طلال کی ماں، برطانوی نژاد ملکہ زین الشرف کے ساتھ مل کر طلال کے خلاف سازش کی اور اسے دماغی مریض قرار دے دیا۔ وزیر اعظم ابو الہدیٰ نے دونوں ایوانوں کا اجلاس بلایا اور اس میں مطالبہ رکھا کہ طلال کو بادشاہت سے ہٹا دیا جائے۔ گواہی کے طور پر طلال کی بیوی ملکہ زین نے طلال کی جانب سے خود پر قاتلانہ حملے کی کہانی گھڑی اور دعویٰ کیا کہ طلال دماغی مرض ’شیزوفرینیا‘ (schizophrenia) میں مبتلا ہے، اسے اردن سے جلا وطن کر دیا جائے اور فرانس میں اس کا علاج کروایا جائے۔

تخت نشین ہونے کے ایک سال بعد ۱۱ اگست ۱۹۵۲ء کو شاہ طلال بن عبد اللہ کو معزول کر کے جلاوطن کر دیا گیا۔ ولی عہد حسین بن طلال کو اگرچہ فوری طور پر بادشاہ قرار دے دیا گیا لیکن چونکہ ابھی کم عمر تھا اور یہ عہدہ سنبھالنے کا اہل نہیں تھا اس لیے حکومت وزیر اعظم ابو الہدیٰ نے سنبھال لی۔ ۲ مئی ۱۹۵۳ء کو ولی عہد حسین بن طلال کو ۱۸ سال کا ہونے پر باضابطہ طور پر اردن کا تیسرا بادشاہ بنا دیا گیا۔

شاہ حسین

شاہ عبد اللہ اوّل اپنے بیٹوں طلال اور نائف دونوں کو اپنے بعد اردن کے تخت پر بیٹھنے کا اہل نہیں سمجھتا تھا اور اس کی شروع سے نظریں اپنے پوتے حسین بن طلال پر تھیں اور اس نے اپنے پوتے کی تربیت پر خاص توجہ دی۔ شاہ عبد اللہ حسین کو کتنی اہمیت دیتا تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بیرون ممالک کے وفود سے ملاقات کے دوران شاہ عبد اللہ مترجم کی ذمہ داری کم سنی کے باوجود حسین کو دیتا تھا۔ اسرائیل دوست دادا اور برطانوی نژاد ماں کی وجہ سے حسین بن طلال کی تربیت بچپن سے ہی اسرائیل و برطانیہ نوازی پر ہوئی۔ اور تخت نشین ہونے کے بعد اس کی پالیسیوں سے بھی اس کا واضح اظہار ہوتا رہا۔

اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق جون ۱۹۴۹ء سے اکتوبر ۱۹۵۳ء تک فلسطینی فدائیوں کی کارروائیوں سے ۸۹ اسرائیلی مارے گئے۔ جبکہ اسی عرصے میں اردنی اعداد و شمار کے مطابق غربِ اردن میں اسرائیلی حملوں کی وجہ سے ۶۲۹ لوگ شہید ہوئے۔ ان اسرائیلی حملوں کے جواب میں اردن کی طرف سے اسرائیل سے تو صرف رسمی سے احتجاج کیا جاتا تھا جبکہ اسرائیل میں داخل ہونے کی کوشش کے الزام میں غیر مسلح فلسطینی مہاجرین کی بڑی تعداد میں گرفتاری شروع ہو جاتی تھی۔

غربِ اردن سے فلسطینی مہاجرین کے اسرائیل میں داخل ہونے کی کوشش کرنے پر اردن کی طرف سے انہیں گرفتار کرنے کا رجحان شاہ عبد اللہ اوّل کے دور سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ لیکن شاہ حسین کے دور میں اس میں شدت آ گئی۔ شاہ حسین کے تخت نشین ہونے کے بعد اردن کی جیلوں میں موجود قیدیوں کی نصف تعداد ان فلسطینیوں کی تھی جنہوں نے آرمسٹائس لائن عبور کر کے اسرائیل داخل ہونے کی کوشش کی تھی۔

۱۴ اکتوبر ۱۹۵۳ء کو اسرائیلی فوج نے آرمسٹائس لائن عبور کر کے مغربی کنارے کے گاؤں قبیا پر رات کے وقت حملہ کر دیا۔ حملہ کی وجہ اسرائیل نے یہ بتائی کہ اس گاؤں سے فلسطینی فدائی اسرائیل میں داخل ہوئے اور انہوں نے یہود نامی گاؤں کے ایک گھر میں گرینیڈ پھینکے۔ اسرائیلی فوج کے اس حملے میں ۳۰۰ کے قریب اسرائیلی فوجیوں نے شرکت کی ۔ حملے کے وقت پہلے قبیا گاؤں اور اس کے قریب بُدرُس گاؤں میں مارٹر گولے مارے۔ اس کے بعد گاؤں کے پاس موجود اردنی فوجیوں سے جھڑپ میں ۱۲ اردنی فوجی ہلاک کیے اور پھر گاؤں میں گھس کر پینتالیس عمارتوں کو ان کے مکینوں سمیت بارود لگا کر تباہ کر دیا۔ اس حملے کی کمان بعد میں وزیر اعظم بننے والے ایریل شیرون کے پاس تھی جو اس وقت اسرائیلی فوج میں میجر تھا۔ اس نے اپنے دستے کو زیادہ سے زیادہ املاک تباہ کرنے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو قتل کرنے کا حکم دیا۔

۴۵ عمارتوں کو ان کے مکینوں سمیت بارود سے تباہ کر دینے کے بعد بہت سے گھروں میں گھس کر اسرائیلی فوج نے لوگوں کو قتل کیا۔ شہداء کی اصل تعداد تو میڈیا پر نہیں آ سکی لیکن سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۶۹ فلسطینی عوام اس حملے میں شہید ہوئے۔

اس حملے کی پوری دنیا میں مذمت کی گئی۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں اس کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کی گئی، امریکہ نے احتجاجی طور پر اسرائیل کی معاشی امداد عارضی طور پر روک دی۔ بن گوریان نے دباؤ میں آ کر سرکاری ٹی وی پر جھوٹا بیان دیا کہ فوج کا اس کاروائی سے کوئی تعلق نہیں تھا یہ آرمسٹائس لائن کے قریب رہنے والے مقامی یہودیوں نے کاروائی کی تھی اور اس کی تحقیقات کی جائیں گی۔ یہ دباؤ اتنا بڑھا کہ یہ کاروائی کرنے والا ایرل شیرون کا یونٹ ۱۰۱ ختم کر دیا گیا۔

لیکن یہ سب کچھ عالمی دباؤ کی وجہ سے تھا، جبکہ اردن نے، جس کی سرزمین پر یہ سب کچھ ہوا تھا، نے صرف رسمی احتجاج تک ہی اکتفا کیا بلکہ اس کے برعکس اردن نے اس کے جواب میں اپنی سرزمین پر موجود فلسطینی فدائیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا اور ایک ہزار فلسطینی فدائی گرفتار کر لیے۔ اور آرمسٹائس لائن پر اپنے فوجیوں کی تعداد اور گشت بڑھا دیے تاکہ کوئی فلسطینی اسرائیل میں داخل ہونے کی کوشش نہ کر سکے۔

شاہ حسین نے تخت نشین ہونے کے فوراً بعد ہی ابو الہدیٰ کی جگہ فوزی الملقی کو وزیر اعظم بنا دیا تھا۔ قبیا کے قتلِ عام کے بعد جب شاہ حسین نے فلسطینی فدائیوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تو پورے ملک میں احتجاج شروع ہو گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب عرب دنیا میں مصر کے جمال عبد الناصر کا اشتراکیت پسند عرب قوم پرستی کا نظریہ عروج پر تھا۔ ارد ن میں بھی مصر کے ریڈیو کےذریعے پراپیگنڈہ زوروں پر تھا۔ وزیر اعظم فوزی الملقی بھی اسی نظریے کا حامی تھا۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے شاہ حسین نے فوزی الملقی اور اس کی حکومت ختم کر دی اور اس کی جگہ پھر سے ابو الہدیٰ کو وزیر اعظم بنا دیا۔ اس طرح سے اس نے ایک تیر سے دو شکار کیے۔ ایک طرف حکومت ختم کر کے عوام کا غصہ ٹھنڈا کیا اور دوسری طرف اشتراکیت پسند عرب قوم پرستی جو اس کے تخت کے لیے بڑا خطرہ تھی اس سے بھی خود کو بچا لیا۔ لیکن ابو الہدیٰ کی حکومت بھی ایک سال ہی چل پائی۔ اگلے ایک سال میں شاہ حسین نے تین حکومتیں بدلیں۔

۱۹۵۵ء میں ایران، عراق، پاکستان، ترکی اور برطانیہ نے مل کر سرد جنگ میں روس کے خلاف اور امریکہ کی حمایت میں ایک اتحاد کا معاہدہ کیا جو معاہدۂ بغداد (Baghdad Pact) کے نام سے جانا جاتا ہے۔برطانیہ کی جان ب سے اردن پر زور ڈالا جا رہا تھا کہ وہ بھی اس معاہدے کا حصہ بنے۔یہ معاہدہ عرب ممالک میں جمال عبد الناصر کی عرب قوم پرستی کے آگے بند باندھنے کے لیے بھی تھا، لیکن اس دور میں اردن کی عوام میں بھی اس کی بہت پزیرائی حاصل تھی۔ اس خدشے کے پیش نظر کہ شاہ حسین معاہدۂ بغداد میں شمولیت اختیار کرنے جا رہا ہے پورے ملک میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہو گئے۔ اردنی فوج نے ملک میں کرفیو نافذ کر دیا لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوا۔ شاہ حسین نے حالات پر قابو پانے کے لیے ایک نیا وزیر اعظم منتخب کیا اور اس کے ذریعے اعلان کروایا کہ اردن معاہدۂ بغداد کا حصہ نہیں بنے گا۔

اردن اور ہمسایہ ممالک میں عرب قوم پرستی کا اتنا عروج دیکھتے ہوئے شاہ حسین کو اسی میں اپنی بقا نظر آئی کہ وہ برطانیہ سے تعلقات میں کمی لائے۔ اس نے اردنی فوج سے جان بیگٹ گلب کو معزول کر دیا اور اس کی جگہ فوج کا سربراہ ایک اردنی کو بنایا، اسی طرح اس نے فوج کے دیگر اعلیٰ عہدوں سے بھی برطانوی افسروں کو معزول کر دیا۔ ان اقدامات کے نتیجے میں اسے ملک میں بھی خوب پزیرائی ملی اور اس کے ہمسایہ ممالک سے تعلقات بھی بہتر ہوئے۔

اس سارے عرصے میں اسرائیل کے ساتھ اردن کے تعلقات میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ لیکن ۱۹۶۰ء کی دہائی کے آغاز میں شاہ حسین نے اسرائیل کے ساتھ خفیہ روابط کا آغاز کیا اور اس کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے شروع کیے۔ لیکن اس کے ساتھ ۱س نے ۱۹۶۴ء میں اعلانیہ طور پر جمال عبد الناصر کے ساتھ بھی تعلقات بہتر کرنا شروع کر دیے جس کی وجہ سے اسے اندرون ملک اور عرب دنیا میں خوب پزیرائی ملی۔ یہ تعلقات ۱۹۶۴ء کے عرب لیگ کے اجلاس میں بہتر ہونا شروع ہوئے جس میں فلسطینی لبریشن آرمی (PLA) اور فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کیا قیام عمل میں آیا۔ اسی اجلاس میں اردن میں متحدہ عرب کمانڈ کے نام سے عرب ممالک کی متحدہ فوج میں شمولیت اختیار کرنے پر رضامندی کا اظہار بھی کیا۔ دورانِ اجلاس جمال عبد الناصر نے شاہ حسین کو روسی ہتھیار خریدنے پر راضی کرنے کی کوشش کی۔ لیکن شاہ حسین نے انکار کیا کیونکہ امریکہ اردن کو اس شرط پر ٹینک اور جیٹ طیارے فراہم کر رہا تھا کہ یہ اسرائیل کے خلاف استعمال نہیں ہوں گے۔

فلسطینی اتھارٹی کے قیام کے بعد اس نے خود کو فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم کے طور پر پیش کیا اور اردن اس چیز کو مغربی کنارے میں اردن کے قبضے کے لیے خطرہ سمجھتا تھا۔ فلسطینی اتھارٹی نے اردن سے مطالبہ شروع کیا کہ حکومت فلسطینی اتھارٹی کی سرگرمیوں، بشمول اسرائیل سے لڑنے کے لیے مسلح فلسطینی دستوں کی تشکیل، کو قانونی حیثیت دے۔ لیکن اردن نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔

شاہ حسین نے اسرائیلی وفد سے ایک ملاقات میں ان کے سامنے ساری صورتحال رکھ دی اور کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کی کاروائیوں پر اسرائیل کی جانب سے کوئی سخت جواب وہ برداشت نہیں کر پائے گا۔ اس پر اسرائیلی وفد نے اسے یقین دہانی کروائی کے اردن کے خلاف سخت جوابی کاروائی نہیں کی جائے گی۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوا۔

۱۹۶۵ء میں فلسطینی قوم پرست تنظیم الفتح نے اسرائیل کے خلاف حملے شروع کیے۔ اسرائیل ان حملوں کے جواب میں اردن کی حدود میں گھس کر جوابی کارروائیاں بھی کرتا رہا۔ لیکن بڑا واقعہ نومبر ۱۹۶۶ء میں مغربی کنارے کے علاقے السموع میں پیش آیا۔ جب الفتح کی ایک بارودی سرنگ پر پاؤں آنے پر تین اسرائیلی فوجی مارے گئے۔ اسرائیل جوابی کاروائی کے طور پر ٹینکوں، جنگی طیاروں اور بڑی تعداد میں فوج کے ساتھ مغربی کنارے میں گھس گیا اور السموع قصبے سمیت نزدیک کے بعض گاؤں تباہ و کر ڈالے۔ اردنی فوج سے جنگ میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۱۶ اردنی فوجی مارے گئے جبکہ درجنوں زخمی ہوئے۔ اردن کی کئی فوجی گاڑیاں اور ایک جیٹ طیارہ بھی اس جنگ میں تباہ ہوا۔ جبکہ اسرائیل کا نقصان نہ ہونے کے برابر تھا۔

اسرائیلی تجزیہ نگاروں کے مطابق اسرائیل اچھی طرح جانتا تھا کہ ان حملوں میں اردن قصور وار نہیں تھا اور وہ الفتح کے حملوں کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا جبکہ الفتح کو ساری مدد شام فراہم کر رہا تھا۔ لیکن اسرائیل یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ متحدہ عرب کمانڈ میں اردن کی شمولیت کے بعد کیا کوئی دوسرا عرب ملک اردن کی مدد کے لیے آتا ہے یا نہیں۔

اس واقعہ کے بعد مغربی کنارے میں ہاشمی سلطنت کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ شاہ حسین اسرائیل کے مقابلے میں ہمارے دفاع کی اہلیت نہیں رکھتا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ شاہ حسین کو اقتدار سے ہٹا کر اسے قتل کر دیا جائے۔

شاہ حسین یہ سمجھتا تھا کہ اسرائیل نے اس کے ساتھ بے وفائی کی ہے اور وہ چاہے دیگر عرب ملکوں کے ساتھ مل کر اسرائیل کے خلاف جنگ کا حصہ بنے یا اس جنگ سے علیحدہ رہے اسرائیل لازمی مغربی کنارے پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ پھر بھی اس نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی تو پورے اردن میں اس کے خلاف مظاہروں میں شدت آ گئی، دیگر عرب ممالک نے بھی اسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا، جمال عبد الناصر نے اسے استعمار کا غلام قرار دیا، حتیٰ کہ اس کی اپنی فوج میں بھی اس پر سے اعتماد اٹھ گیا۔

اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے شاہ حسین نے ۳۰ مئی ۱۹۶۷ء کو مصر کا دورہ کیا اور فوری طور پر مصر اردن دفاعی معاہدے پر دستخط کر دیے۔ اس معاہدے کے تحت اس نے اردن کی فوج کو مصری کمان میں دے دیا۔ اس اقدام کے نتیجے میں اسے اردن میں خوب پذیرائی ملی۔ اس معاہدے کے نتیجے میں مصری جنرل عبد المنعم ریاض اردنی فوج کی سربراہی کرنے کے لیے اردن پہنچ گیا۔

۵ جون ۱۹۶۷ء کو دوسری اسرائیل عرب ممالک جنگ کا آغاز ہوا جسے چھ روزہ جنگ کہا جاتا ہے۔ اسرائیل نے پہلے حملہ کرتے ہوئے ایک ہی حملے میں پوری مصری فضائیہ کا خاتمہ کر دیا۔ لیکن مصری فوج نے اردنی فوج کو جھوٹی خبر پہنچائی کہ اسرائیل کا حملہ ناکام ہو گیا ہے اور جوابی کاروائی میں اسرائیلی فضایہ تقریباً مکمل تباہ کر دی گئی ہے۔ ان غلط اطلاعات کی بنیاد پر عبد المنعم ریاض نے اردنی فوج کو بیت المقدس کے اردگرد اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنانے کا حکم دیا۔ مصری فضائیہ کے بعد اسرائیل نے پہلے ہی دن اردن کی فضائیہ بھی مکمل تباہ کر ڈالی اور اس کے بعد عراق اور شام کی فضائیہ بھی تباہ کر دی۔ اس طرح جنگ کے پہلے ہی دن اسرائیل کی فیصلہ کن فضائی برتری حاصل ہو گئی۔

۷ جون تک اردن کو مغربی کنارے اور بیت المقدس سے انخلاء کرنا پڑا۔ اس انخلاء کے بعد اسرائیل نے مغربی کنارے اور مشرقی کنارے کے درمیان موجود پلوں کو تباہ کر دیا تاکہ اردنی واپس نہ آ سکیں۔ اس جنگ کے نتیجے میں د و لاکھ فلسطینی مہاجرین اردن میں پناہ گزین ہوئے۔

۱۱ جون تک اسرائیل مغربی کنارہ، بیت المقدس، غزہ، صحرائے سینا اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر کے جنگ جیت چکا تھا۔ ۲۲ نومبر ۱۹۶۷ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی جس میں اسرائیل سے ۱۹۶۷ء کی جنگ میں قبضہ کیے گئے علاقوں سے انخلاء کا مطالبہ کیا گیا۔ اسرائیل نے یہ قرارداد رد کر دی۔ شاہ حسین ۱۹۶۸ء اور ۱۹۶۹ء میں اسرائیل سے مذاکرات کی کوشش کرتا رہا کہ کسی طرح اسرائیل اسے اس کے علاقے واپس کر دے لیکن اسے کوئی کامیابی نہ مل سکی۔

۱۹۶۷ء میں مغربی کنارے کے سقوط کے بعد فلسطینی فدائی مغربی کنارے سے اردن منتقل ہو گئے اور وہاں سے اسرائیل کے خلاف کاروائیوں میں تیزی لے آئے۔ اسرائیل نے جوابی کارروائی میں مغربی کنارے کی سرحد سے قریب اردنی علاقے کرامہ میں موجود فلسطینی اتھارٹی کے کیمپ پر حملہ کر دیا جو کہ ایک مکمل جنگ کی شکل اختیار کر گیا۔ اسرائیل کا مقصد فلسطینی اتھارٹی کے رہنما یاسر عرفات کو گرفتار کرنا تھا لیکن اسے اس مقصد میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے ساتھ اسے بھاری نقصان بھی اٹھانا پڑا جس کے بعد اسرائیلی فوج نے پسپائی اختیار کر لی۔ لیکن جاتے جاتے انہوں نے کرامہ کیمپ کو مکمل تباہ کر دیا۔

اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی اس فتح نے پورے عالمِ عرب میں اردن میں موجود فلسطینیوں کی حمایت میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ فلسطینی اتھارٹی کی طاقت میں اضافہ ہونے لگا اور ۱ٍ۹۷۰ء کے آغاز سے فلسطینی اتھارٹی کے اردن میں ہاشمی سلطنت کے خاتمے کاعوامی سطح پر مطالبہ شروع کر دیا۔ حالات اس وقت شدت اختیار کر گئے جب فلسطینی اتھارٹی سے منسلک ایک تنظیم نے ۱۰ ستمبر ۱۹۷۰ء کو تین سویلین ہوائی جہاز ہائی جیک کر لیے اور ان کے غیر ملکی مسافروں کو یرغمال بنا لیا۔ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اس تنظیم نے جہادوں کو بموں سے اڑا دیا۔

اس واقعے کے بعد شاہ حسین نے اپنی فوج کو فلسطینی مہاجر کیمپوں کا محاصرہ کرنے کا حکم دے دیا۔ ۱۷ ستمبر کو اردنی فوج نے ان تمام فلسطینی کمیپوں کا محاصرہ کر لیا جن میں فلسطینی اتھارٹی موجود تھی اور کیمپوں پر گولہ باری شروع کر دی۔ اسرائیل اس جنگ میں فضا سے اردون کو انٹیلی جنس معلومات فراہم کر رہا تھا۔ اگلے دن شام سے ایک فوجی دستے نے اپنے ٹینکوں سمیت فلسطینی فدائیوں کی مدد کے لیے اردن میں پیش قدمی شروع کر دی۔ اردنی فوج نے اس دستے پر زمینی اور فضائی دونوں طرف سے حملہ کر دیا اور اسرائیلی فضائیہ کے جہازوں نے بھی اردنی فوج کا ساتھ دیا۔ شامی فوج نے بھاری نقصان اٹھانے کے بعد پسپائی اختیار کر لی۔

جمال عبد الناصر کی ثالثی پر شاہ حسین اور یاسر عرفات کے درمیان معاہدہ طے پا گیا جس میں اردن میں فلسطینی فدائیوں کی موجودگی کو قانونی حیثیت دی جانی تھی۔ لیکن جنوری ۱۹۷۱ء میں شاہ حسین نے فلسطینی فدائیوں پر پھر سے کریک ڈاؤن شروع کر دیا اور تمام فدائیوں کو اردنی شہروں سے باہر دھکیل دیا، یہاں تک کہ دو ہزار فلسطینی فدائی جب ایک جنگل میں محاصرے میں گھر گئے تو اردنی فوج کے سامنے تسلیم ہو گئے۔ اس کے بعد اردن نے ان فدائیوں کو شام کے راستے لبنان جانے کی اجازت دے دی۔ اس طرح فلسطینی فدائی اور یاسر عرفات کی قیادت میں فلسطینی اتھارٹی (PLO) اردن چھوڑ کر لبنان منتقل ہو گئی۔

۱۰ ستمبر ۱۹۷۳ء کو مصری صدر انورسادات نے شاہ حسین اور شام کے صدر حافظ الاسد کو ایک اجلاس پر بلایا۔ اس اجلاس میں انور سادات نے صحرائے سینا میں محدود پیمانے کی جنگی مہم کے ارادے کا اظہار کیا اور شاہ حسین سے فدائیوں کو واپس اردن بلانے کا مطالبہ کیا۔ شاہ حسین نے فدائیوں کو واپس بلانے سے تو انکار کر دیا لیکن یہ وعدہ کیاکہ اگر جنگ ہوئی تو اردن گولان کی پہاڑیوں میں شامیوں کی مدد کے لیے محدود دفاعی کردار ادا کر سکتا ہے۔

جنگ شروع ہونے سے قبل شاہ حسین نے اسرائیلی وزیر اعظم گولڈا میئر سے تل ابیب میں ۲۵ ستمبر کو ملاقات کی اور گولڈا میئر کو عرب ممالک کے ارادوں سے آگاہ کر دیا۔۶ اکتوبر ۱۹۷۳ء کو مصر اور شام نے اسرائیل کے خلاف چوتھی عرب اسرائیل جنگ (یوم کپر جنگ) کا آغاز کر دیا۔ ۱۳ اکتوبر کو اردن نے گولان کی پہاڑیوں پر شامی فوجیوں کی مدد کے لیے علامتی طور پر اپنی کچھ فوج بھیج دی۔ اس جنگ کے بعد اردن نے اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات کا آغاز کیا۔ اردن کا مطالبہ تھا کہ اسے مغربی کنارہ واپس کر دیا جائے لیکن اسرائیل صرف اتنا قبول کرنے کو تیار تھا کہ مغربی کنارے میں سول حکومت اردن کی ہو لیکن وہ قبضے میں اسرائیل کے ہی رہے۔ اور یہ مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہو گئے۔

۱۷ ستمبر ۱۹۷۸ء کو مصر اور اسرائیل کے درمیان امریکہ کی ثالثی میں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ طے پایا جس کے بعد مصر نے اسرائیل کا وجود تسلیم کر لیا اور دونوں کے درمیان سفارتی تعلقات کا آغاز ہوا۔ امریکہ کی خواہش تھی کہ اردن بھی اس معاہدے میں شامل ہو جائے لیکن شاہ حسین نے اپنے داخلی سیاسی حالات کے پیش نظر اس میں شمولیت سے انکار کر دیا لیکن اردن تمام عرب ممالک میں واحد ملک تھا جس نے مصر اسرائیل معاہدے کا خیر مقدم کیا۔ جبکہ اس معاہدے کے بعد دیگر تمام عرب ممالک نے مصر کا بائی کاٹ کر دیا تھا۔ تقریباً ایک دہائی بعد ۸ نومبر ۱۹۸۷ء کو شاہ حسین نے اردن میں عرب لیگ کا اجلاس طلب کیا اور اس میں تمام عرب ممالک کو مصر کا بائیکاٹ ختم کرنے پر راضی کر لیا۔

ایرانی انقلاب کے بعد ۱۹۸۰ء کی دہائی کے آغاز میں جب لبنان میں حزب اللہ کھڑی ہوئی تو اردن اور اسرائیل کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ میں اضافہ ہوا۔ لبنان میں فلسطینی اتھارٹی پر ہونے والے بہت سے اسرائیلی حملے دراصل اردن کی فراہم کردہ انٹیلی جنس معلومات پر ہی کیے گئے۔

دسمبر ۱۹۸۷ء میں فلسطین میں پہلے انتفاضہ کا آغاز ہوا جس کے بعد فلسطین میں فلسطینی اتھارٹی کی مقبولیت آسمان کو چھونے لگی اور اردن مغربی کنارے کے حوالے سے مایوس ہو گیا۔ جولائی ۱۹۸۸ء میں اردن نے مقبوضہ علاقوں سے متعلق وزارت اور اردن کی پارلیمنٹ میں فلسطینیوں کی خصوصی نشستیں ختم کر دیں اور فلسطین سے مکمل طور پر ہاتھ کھینچ لیا۔ پہلے انتفاضہ کے آغاز کے ایک سال بعد نومبر ۱۹۸۸ء میں فلسطینی اتھارٹی نے اقوام متحدہ کی تمام قراردادیں قبول کر لیں اور اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے پر راضی ہو گئی۔

امریکہ نے شاہ حسین کو ۱۹۹۱ء میں سپین کے شہر میڈرڈ میں ہونے والی امن کانفرنس میں شرکت کے لیے اردن اور فلسطین کا ایک مشترکہ وفد تشکیل دینے کو کہا۔ شاہ حسین نے اس مقصد کے لیے ۱۴ اردنی شہریوں اور ۱۴ فلسطینیوں پر مشتمل ایک وفد تشکیل دیا۔ شاہ حسین نے یہ فلسطینی وفد فلسطینی اتھارٹی کا اثر و رسوخ کم کرنے کے لیے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی سے اپنی مرضی کے افراد چن کر ترتیب دیا تھا۔ شاہ حسین کا مقصد اس طریقے سے فلسطین میں اپنی مرضی کے لوگوں کو آگے لا کر اپنا اثر و رسوخ بڑھانا تھا لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔ فلسطینی عوام نے اردن کے چنیدہ نمائندوں کو مسترد کر دیا اور یہ کانفرنس فلسطین کے حوالے سے بے نتیجہ ثابت ہوئی۔

لیکن یہ کانفرنس خود اردن کے لیے بے نتیجہ ثابت نہیں ہوئی۔ اس کے بعد اردنی حکام کے اسرائیلی وفود سے ملاقاتوں کا ایک سلسلہ شروع ہویا جس کے اختتام پر ۲۶ اکتوبر ۱۹۹۴ء کو اردن اور اسرائیل کے درمیان با ضابطہ امن معاہدہ طے پا گیا۔ اس معاہدے کے ذریعے سے عشروں سے چلنے والے خفیہ تعلقات کو رسمی شکل دے دی گئی، اسرائیل کے قیام سے چلے آنے والے سکیورٹی تعاون کو بھی رسمی حیثیت دے دی گئی اور دونوں ملکوں نے معاہدہ کر لیا کہ ان کی سرزمین دوسرے ملک کے خلاف کسی قسم کی دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔ دونوں ملکوں نے اسرائیل اور اردن کے درمیان موجود سرحد کو باضابطہ طور پر بین الاقوامی سرحد تسلیم کر لیا اور اردن مغربی کنارے پر اپنے حق سے مکمل طور پر دستبردار ہو گیا۔ جواب میں اسرائیل نے بیت المقدس میں موجود مسلمانوں کے مقدس مقامات کا ’’نگہبان‘‘ اردن کے ہاشمی خاندان کو تسلیم کیا۔ لیکن فلسطین اور فلسطینی مہاجرین کے مسئلے کو ’’بعد کے تفصیلی مذاکرات‘‘ کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ اس معاہدے پر دستخط کے لیے اسرائیلی وزیر اعظم رابن، اردن کا شاہ حسین اور امریکی صدر بل کلنٹن موجود تھے۔ معاہدے کے فوری بعد دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے ملکوں میں اپنے اپنے سفارت خانوں کا افتتاح کیا۔

۴ نومبر ۱۹۹۵ء کو اردن کے ساتھ امن معاہدہ کرنے والے اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن کو ایک یہودی نے قتل کر دیا۔ اس کی آخری رسومات کی ادائیگی پر شاہ حسین کو بھی بیت المقدس مدعو کیا گیا۔ تقریب کے دوران تقریر کرتے ہوئے شاہ حسین نے اسحاق رابین کے قتل اور اپنے دادا شاہ عبد اللہ اوّل کے قتل میں مماثلت کا اظہار کیا اور کہا:

’’ہم شرمسار نہیں ہیں، نہ ہی ہم خوفزدہ ہیں، بلکہ ہم اس ورثے کو جاری رکھنے کے لیے پر عزم ہیں جس کی خاطر میرا دوست (اسحاق رابین) قربان ہوا بالکل میرے دادا کی طرح اسی شہر میں جب میں ان کے ساتھ تھا اور بس ایک کم سن لڑکا تھا۔‘‘

۱۹۹۰ء کی دہائی میں فلسطین میں حماس کی مقبولیت بڑھنے لگی اور اس حوالے سے اسرائیل اور اردن کے درمیان تعاون میں بھی اضافہ ہوا، جس میں حماس کے خلاف انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ اور دریائے اردن پر مجاہدین اور اسلحے کی ترسیل کو روکنے کے لیے دونوں ملکوں کی مشترکہ کوششیں شامل ہیں۔ اس مقصد کے لیےل دونوں ملکوں کی افواج نے سرحد کے مختلف مقامات پر مشترکہ گشت بھی ترتیب دیے۔

۹۰ء کی دہائی کے نصف میں حماس کی قیادت اردن میں مقیم تھی۔ اس عرصے میں اردن کی انٹیلی جنس اسرائیل کو حماس کے ارکان، اس کی فنڈنگ کے طریقوں اور ممکنہ حملوں کے حوالے سے پیشگی معلومات فراہم کرتا رہا۔ اس کی ایک مثال ۱۹۹۷ء میں موساد کی حماس کے راہنما خالد مشعل کو زہر دے کر شہید کرنے کی کوشش تھی جو ناکام رہی لیکن اس کے نتیجے میں اگرچہ موساد کے اس حملے پر شاہ حسین نے شدید احتجاج کیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ کھل کر سامنے آ گئی۔ اس کی وجہ سے داخلی طور پر شاہ حسین کے لیے مسائل بننا شروع ہو گئے اور اردن کے اندر حماس کی حمایت میں اضافہ ہونے لگا۔

شاہ عبد اللہ ثانی

۷ فروری ۱۹۹۹ء کو شاہ حسین کی بلڈ کینسر کی وجہ سے موت کے بعد اس کابیٹا عبد اللہ ثانی تخت نشین ہوا۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد عبد اللہ ثانی کا سب سے پہلا کام نومبر ۱۹۹۹ء میں امریکہ ، اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی (جس نے اب اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کر کے اسرائیلی ریاست کو تسلیم کر لیا تھا) کے کہنے پر حماس کے خلاف کریک ڈاؤن تھا۔ شاہ عبد اللہ ثانی نے حماس کے تمام دفاتر بند کر دیے، اردن میں ان کی ہر طرح کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی اور حماس کے چار رہنماؤں کو ملک بدر کر دیا۔ اردن کے ان اقدامات اور فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنا ستمبر ۲۰۰۰ء میں دوسرے انتفاضہ کا سبب بنا۔

دوسرے انتفاضہ کے دوران بھی اردن نے اپنا منافقانہ کردار جاری رکھا۔ سرکاری سطح پر اردن نے انتفاضہ کے دوران اسرائیلی اقدامات کی شدید مذمت کی لیکن پس پردہ فلسطینی مجاہدین کے خلاف اسرائیل کے ساتھ انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ بھی جاری رکھا۔

اردن کے ہمیشہ سے عراق کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ صدام حسین اردن کو ۵۰۰ ملین ڈالر سالانہ مالیت کا تیل مفت فراہم کرتا تھا۔ لیکن ۲۰۰۳ء کی جنگ میں شاہ عبد اللہ ثانی نے صدام حسین سے بھی بے وفائی کی۔ اپنی ساکھ بچانے کے لیے اس نے اردن سے عراق پر حملوں کی اجازت تو نہیں دی لیکن اردن کے صحرا میں عراقی سرحد کے پاس امریکی پیٹریاٹ میزائل نصب کرنے کی اجازت دے دی۔

۲۰۰۶ء میں اسرائیل لبنان جنگ میں بھی اردن کے منافقانہ کردار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ میڈیا کی سطح پر اردن نے لبنان کا ساتھ دیا، اور اسرائیل کی بھرپور مذمت کی۔ عرب لیگ کے اجلاس میں اسرائیل کے خلاف مذمتی قرارداد پاس کی گئی اور لبنان کی حمایت کا اعلان کیا گیا۔ لیکن دوسری طرف پس پردہ اردن مستقل اسرائیل کو حزب اللہ کے ٹھکانوں، اس کی کارروائیوں، اس کی رسد کے راستوں اور نقل و حرکت کے حوالے سے انٹیلی جنس معلومات فراہم کرتا رہا۔ یہاں تک کہ اردن نے اپنی شامی سرحد پر انٹیلی جنس معلومات اکٹھی کرنے اور نگرانی کرنے کے لیے اسرائیلی فضائیہ کو اردن کی فضائی حدود استعمال کرنے کی خفیہ اجازت بھی دے دی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے ایک اور منافقانہ اعلان کیا جو وہ اس کے بعد کے تنازعات میں بھی دہراتا رہا اور وہ یہ کہ وہ ’اس تنازع کو پھیلنے سے روکنے کے لیے‘ اپنی سرحدات اور فضائی حدود کی اسرائیل پر حملہ کے لیے استعمال کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دے گا۔

۲۰۱۱ء میں عرب بہار کے بعد جب شام میں جہاد کا آغاز ہوا تو اس حوالے سے اردن اور اسرائیل کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ میں بھی اضافہ ہوا۔ اردن نے شام میں مسلح گروہوں کی نقل و حرکت کی نگرانی کرنے اور سٹریٹیجک مقامات پر بمباری کرنے کے لیے اسرائیل کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی۔

شام میں جنگ کے نتیجے میں شامی مہاجرین کی ایک بڑی تعداد اردن میں پناہ گزین ہوئی جس کی وجہ سے اردن اور اسرائیل کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ ان مہاجرین میں چھپے مجاہدین دریائے اردن عبور کر کے اسرائیل اور فلسطین میں حملے کر سکتے ہیں۔ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے ۲۰۱۴ء میں اردن اور اسرائیل نے مشترکہ طور پر دریائے اردن کی سرحد پر باڑ اور جدید سرویلنس آلات نصب کیے اور سکیورٹی چیک پوائنٹس میں بھی اضافہ کیا۔

جولائی ۲۰۱۷ء میں اسرائیلی شہریت کے حامل دو عرب مسلمانوں نے مسجدِ اقصیٰ کے قریب دو اسرائیلی پولیس افسروں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کے گرد سکیورٹی انتظامات سخت کر دیے، لوگوں کے داخلے کو محدود کر دیا اور داخلے پر میٹل ڈیٹیکٹرز اور سکیورٹی کیمرے نصب کر دیے۔

اسرائیل کے ان اقدامات کی وجہ سے بیت المقدس اور مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ اردن میں بھی شدید مظاہرے شروع ہو گئے جس کے بعد اردن نے اسرائیل سے امریکہ کی ثالثی میں خفیہ مذاکرات شروع کیے۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں ۲۵ جولائی ۲۰۱۷ء کو اسرائیل نے میٹل ڈیٹیکٹر ہٹا دیے۔ اس چھوٹے سے اقدام کے بدلے میں اردن نے علاقے میں اپنے لوگوں کی مدد سے اسرائیل کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ کی ہامی بھری تاکہ اسرائیلی سکیورٹی اہلکاروں پر حملوں جیسے واقعات دوبارہ نہ ہو سکیں۔

جبکہ اسی عرصے میں ۲۳ جولائی ۲۰۱۷ء کو اردن میں اسرائیلی سفارت خانے کے باہر ایک اسرائیلی سکیورٹی گارڈ نے دو اردنی شہریوں کو گولی مار کر شہید کر دیا، لیکن اردن نے اس سکیورٹی گارڈ کو بحفاظت اسرائیل روانہ کر دیا۔

غزہ کی حالیہ جنگ میں بھی اردن نے اپنا منافقانہ کردار نہیں چھوڑا۔ میڈیا پر غزہ میں جنگ پر اسرائیل کی سخت مذمت کی ، اور جنگ بندی کا مستقل مطالبہ دہراتا رہا ، لیکن ہمیشہ کی طرح پس پردہ اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی تعاون اور انٹیلی جنس شیئرنگ اب بھی جاری ہے۔

اس حوالے سے جو چیز کھل کر کی جا رہی ہے ان میں سے ایک اردن کی سرحدات پر کیے جانے والے اقدامات ہیں۔ اردن نے شام اور فلسطین کے ساتھ منسلک اپنی سرحدات پر فوجیوں اور فوجی ساز و سامان کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ مغربی کنارے سے منسلک اردنی سرحد پر چیکنگ کا نظام مزید سخت کر دیا ہے ۔

اس کے علاوہ اردن نے شام سے فلسطین میں اسلحے کی ترسیل کو روکنے کے لیے بھی اقدامات کیے ہیں اور اردنی فوج نے ایسے کئی واقعات کا اقرار بھی کیا ہے جس میں انہوں نے شامی سرحد پر شام سے فلسطین کے لیے جانے والا اسلحہ قبضے میں لیا۔

اس کے علاوہ اردن نے جنگ کے آغاز سے ہی فلسطین سے منسلک اپنی سرحد پر سرنگوں کی تلاش اور انہیں تباہ کرنے کا کام بھی شروع کیا اور بہت سی سرنگیں تباہ بھی کیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے بہت سے چھوٹے ڈرونز بھی تباہ کیے جو خفیہ طور پر اردن سے سامان فلسطین لے جا رہے تھے۔

اپریل ۲۰۲۴ء میں جب ایران نے اسرائیل پر میزائلوں اور ڈرونز سے حملہ کیا تو اردن نے اپنی فضا ہر قسم کی پروازوں کے لیے بند کر دی اور اردنی ایئر فورس نے اردنی فضائی حدود سے گزرنے والے بہت سے ڈرونز اور میزائل تباہ کیے ۔

اسی طرح جب ایران نے دوسری بار اکتوبر ۲۰۲۴ء میں اسرائیل پر میزائل حملہ کیا تب بھی اردن نے بہت سے میزائل گرانے کا دعویٰ کیا۔

اسی طرح جون ۲۰۲۵ء کی ایران اسرائیل کشیدگی میں اردن نے اسرائیلی فضائیہ کو ایران میں حملے کرنے کی اجازت دی لیکن اسرائیل پر حملے پر اپنی فضائی حدود بند کر دیں اور ایران کی طرف سے آنے والے میزائلوں کو بھی گرانے میں مستقل اسرائیل کی مدد کرتا رہا۔

اردن کی یہ تاریخ ایک ایسی داستان ہے شریف مکہ حسین بن علی کے خاندان کی خیانتوں اور منافقتوں کے گرد گھومتی ہے۔ حسین بن علی نے خلافتِ عثمانیہ سے غداری کر کے امت کے اتحاد کو پارہ پارہ کیا تو اس کے بیٹے نے دو قدم آگے بڑھتے ہوئے فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر اسرائیلی ناجائز ریاست کے قیام میں خفیہ حمایت کی، اس کے پوتے شاہ حسین نے اس سے بھی دو قدم آگے بڑھتے ہوئے فلسطینی مزاحمت کا گلا گھونٹا، ان کی خفیہ جاسوسیاں کیں اور آخر کار باضابطہ طور پر اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے۔ اس کا بیٹا شاہ عبد اللہ ثانی اپنے باپ سے بھی چار قدم آگے بڑھا اور آج اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑا ہو کر اس نے اردن کو اسرائیل کا اوّلین دفائی خط (First line of defense) بنا دیا ہے۔ یہ تاریخ صرف اردن کے کردار کو بے نقاب نہیں کرتی بلکہ ہر اس شخص کے ضمیر کو جھنجھوڑتی ہے جو مسجدِ اقصیٰ کی حرمت کو اپنے ایمان کا جزو سمجھتا ہے۔ ان خائنین کے کرتوتوں پر خاموشی اور مصلحت پسندی بذات خود خیانت ہے۔ ہمیں خود سے سوال پوچھنے کی ضرورت ہے، کیا ہم بھی خیانت کے مرتکب تو نہیں؟

  • 1
    دریائے اردن کا مشرقی کنارہ
Previous Post

ایران اسرائیل تعلقات پر شیخ اسامہ بن لادن کی تحریر

Next Post

دل مردہ کو زندہ، تن مردہ کو بیدار کر

Related Posts

اِک نظر اِدھر بھی! | جولائی 2025
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | اگست 2025

17 اگست 2025
مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!
طوفان الأقصی

کوئی غنڈہ اپنے بل پر غنڈہ نہیں ہوتا

13 اگست 2025
غزہ: خاموشی جرم میں شرکت ہے!
طوفان الأقصی

غزہ: خاموشی جرم میں شرکت ہے!

13 اگست 2025
مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!
طوفان الأقصی

مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!

13 اگست 2025
فلسطینی صحافی انس الشریف کی وصیت
طوفان الأقصی

فلسطینی صحافی انس الشریف کی وصیت

13 اگست 2025
اہلیانِ غزہ کی فوری مدد کے لیے ہنگامی اپیل
طوفان الأقصی

اہلیانِ غزہ کی فوری مدد کے لیے ہنگامی اپیل

13 اگست 2025
Next Post
دل مردہ کو زندہ، تن مردہ کو بیدار کر

دل مردہ کو زندہ، تن مردہ کو بیدار کر

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version