نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home اسرائیل ایران جنگ

ایران اسرائیل تعلقات پر شیخ اسامہ بن لادن کی تحریر

شیخ عطیۃ اللہ کے حواشی و تبصروں کے ساتھ

اسامہ بن لادن by اسامہ بن لادن
13 جولائی 2025
in اسرائیل ایران جنگ, جولائی 2025
0

یہ ایک بیان کا مسودہ ہے، جو شیخ اسامہ بن لادن ﷫نے سن 2007ء کے بعد تحریر کیا تھا، جس میں اُنہوں نے ایران اور امریکہ کے درمیان ممکنہ طور پر بھڑکنے والی جنگ کے آثار پر تبصرہ کیا تھا۔ یہ تحریر پہلے شائع نہیں ہوئی، لیکن اس کا مسودہ ’’ ایبٹ آباد کی دستاویزات کے چوتھے حصے‘‘ میں دستیاب ہوا۔ ہم نے اسے اس لیے شائع کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ یہ دستاویزی حیثیت اختیار کرلے کہ جہادی تحریک اور اس کے رہنماؤں نے اپنے حالات کی تبدیلیوں کے ساتھ کس طرح کا معاملہ کیا، اور ہر نئے پیش آنے والے مسئلے کو کس طرح سمجھا اور اس سے کیسے نمٹے۔ نیز اہل بصیرت کی نصیحتوں، تجربات اور رہنمائی سے استفادے کے لیے بھی یہ مناسب سمجھا گیا۔

حالیہ سالوں میں مسلسل پیش آنے والے واقعات نے یہ ثابت کیا کہ ان کا کلام اکثر مواقع پر بالکل موقع محل کے مطابق ہوتا تھا، اور ان کی باتوں کو وقت نے سچ ثابت کر دکھایا۔

شیخ عطیۃ اللہ نے اس مسودے پر تبصرہ اور تعلیق لکھی ہے۔ یہ باہمی مشورہ ان حضرات کا مستقل معمول رہا ہے، اور ان کے خطوط میں اس کا عکس ملتا ہے، جس سے استفادہ کرنا ضروری ہے۔

ہم نے شیخ عطیۃ اللہ کی تعلیق دو اقسام میں درج کی ہیں:

  1. پہلی قسم: جو صرف کسی عبارت کی تصحیح پر مشتمل ہے، اُسے ہم نے مربع قوسین [ ] کے درمیان لکھا ہے۔1ہم نے ترجمے میں روانی کے لیے عبارت کی تصحیح پر مشتمل شیخ عطیہ کے تبصروں کو شیخ اسامہ کی تحریر میں ضم کر دیا ہے اور مربع قوسین ختم کر دیے ہیں۔ (ادارہ)

  2. دوسری قسم: جس میں وضاحت یا تفصیلی تبصرہ ہے، اُسے ہم نے حاشیے میں درج کیا ہے۔ چنانچہ جہاں بھی ’’شیخ عطیۃ اللہ نے کہا‘‘ یا ’’شیخ عطیۃ اللہ کا تبصرہ‘‘ جیسے الفاظ بغیر کسی خاص حوالہ کے آئیں، تو سمجھا جائے کہ یہ اسی مسودے پر ان کا تبصرہ ہے۔

مزید یہ کہ ہم نے موقع کی مناسبت سے ان کے دوسرے بیانات سے بھی کچھ باتیں حواشی میں شامل کی ہیں تاکہ مضمون مزید واضح ہو جائے۔

ہم اللہ تعالیٰ سے یقین کے ساتھ ہدایت اور راہِ راست کی توفیق مانگتے ہیں، ولا حول ولا قوة ‌إلا بالله۔

ادارہ النازعات


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

میری عزیز امتِ مسلمہ!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

میری یہ گفتگو آپ سے ایک نہایت اہم اور فیصلہ کن معاملے کے بارے میں ہے، جو آپ اور آپ کی آئندہ نسلوں کے مستقبل سے گہرا تعلق رکھتی ہے، لہٰذا میری گزارش ہے کہ پوری توجہ سے سنیے۔

یہ گفتگو جنگ اور اس کی بڑھتی ہوئی ہلچل کے بارے میں ہے، مشرق و مغرب میں گونجتے طبلِ جنگ کے بارے میں ہے، اس تیسری عالمی جنگ کے بارے میں، جس کی دھمکی اس وقت وائٹ ہاؤس کا سربراہ ہمارے خطے کو دے رہا ہے، اور اس بار اس نے خاص طور پر ایران اور اس کے حامیوں کو نشانہ بنایا ہے، جبکہ اس کے اثرات پوری خطے پر مرتب ہوں گے۔

ان سنگین دھمکیوں کے باوجود، اور فریقین کے درمیان شدید ٹکراؤ اور کشمکش کے جو بھی نتائج ہوں، بدقسمتی سے بہت سے لوگ اب بھی حقیقتِ حال کے بارے میں اختلاف کا شکار ہیں۔ بے پروا اور غفلت میں مبتلا ہیں، اور اس بات سے غافل ہیں کہ اس حوالے سے ان کی کیا ذمہ داری بنتی ہے، اسی تیاری کا بیان ہمارے موضوع کا اصل محور ہے۔

اگرچہ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم حالات و واقعات کا جائزہ لیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ آیا یہ جنگ دونوں فریقوں کے درمیان واقع ہو سکتی ہے یا نہیں، تاہم حقیقت یہ ہے کہ جنگ ہو یا فریقین کے درمیان صلح طے پا جائے، اس کے نتیجے میں خطے پر مرتب ہونے والے خطرناک اثرات بہرحال یقینی ہیں۔

اگر جنگ چھڑتی ہے، تو اس کے کئی ممکنہ نتائج ہو سکتے ہیں:

  1. ان میں سے ایک وہ ہے جس کی تمنا خلیجی حکمران کرتے ہیں اور جس کے لیے کوشاں ہیں اور وہ یہ ہے کہ ان کے حلیف بلکہ ان کے معبود امریکہ کو فتح حاصل ہو۔ لیکن یہ ایک ایسا نتیجہ ہو گا، جس کے نہایت سنگین اثرات اور دور رس خطرات ہوں گے۔

  2. دوسرا امکان یہ ہے کہ امریکہ مشکلات کے بوجھ تلے دب کر ناکام ہو جائے، اور اس پر زوال کے تمام اسباب مجتمع ہو جائیں اور اس کے مقابلے میں ایران درمیانی اور طویل مدت میں کامیاب ہو جائے، چونکہ ان کے قدم خطے میں جمے ہوئے ہیں اور وہ ایک علاقائی طاقت بن چکے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں بھی اس کے گہرے اثرات اور کئی قسم کے نتائج ہوں گے، جن پر گفتگو ضروری ہے۔

  3. ایک اور امکان صلح کا بھی ہے، جو ہمارے مفادات کے مطابق بھی ہے، اور اس کے اثرات و ضرورت بھی ہے۔

اس امر کی وضاحت کے لیے عرض ہے کہ کسی شے پر فیصلہ اس کے ادراک پر منحصر ہوتا ہے، اصل حقیقت یہ ہے کہ دنیا پر قابو پانے کی کنجی خلیج کی ریت پر پڑی ہے، مگر یہاں کے باشندوں کی طرف سے اس کی کوئی حفاظت نہیں کی جا رہی۔ بین الاقوامی اور علاقائی طاقتیں اپنی اپنی بالادستی کے لیے اور ہمارے تیل پر ناجائز قبضہ کے لیے خلیج کے خطے میں مقابلے کے لیے کوشاں ہیں۔

امریکہ نے پچھلی نصف صدی سے زیادہ عرصے سے برطانیہ کی جگہ لے کر خلیجی ممالک پر اپنی حکمرانی قائم کر رکھی ہے، جس میں ایران بھی شامل ہے۔ تقریباً تیس سال قبل ایران نے شاہ کو ہٹا کر امریکی تسلط سے جان چھڑائی، وہی شاہ جو خلیج کا ’’چوکیدار‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن آج کے ایرانی حکمران صرف شاہ کی جگہ لینے کے خواہش مند نہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ پورا خلیج ان کے مکمل اور براہِ راست کنٹرول میں ہو۔ انہوں نے جنوبی اور وسطی عراق پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے اور خلیجی ممالک کی طرف سے اس منصوبے کو روکنے کے لیے کوئی خاطر خواہ مزاحمت نہیں دیکھ رہے، جو انہیں مزید شہ دینے کے مترادف ہے۔

ایران خود کو خلیجی اور علاقائی طاقت کا جائز وارث سمجھتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ اس کی سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ خلیج کے دوسرے کنارے امریکی فوجی اڈے نہ ہوں، اور اس حوالے سے ان کا میڈیا ،منصوبہ ساز اور بعض سیاستدان بات کرتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں لاریجانی نے کہا ہے کہ ’’امریکہ کے ساتھ اختلاف کی اصل وجہ یہ ہے کہ امریکہ ایران کو خطے میں ایک قائدانہ علاقائی کردار کے طور پر قبول نہیں کرتا۔‘‘

اور اگر اس مطالبے کے ساتھ ایران کو تسلیم کیا جائے، تو یہ ایک طرف امریکہ سے، اور دوسری طرف اس کے ایجنٹوں سے ٹکراؤ کا باعث بنے گا۔ یہی وجہ ہے کہ خلیجی حکمرانوں نے تیزی سے امریکہ کا ساتھ دیا اور ایران کے خلاف پیشگی جنگ کی ضرورت پر زور دیا، قبل اس کے کہ ایران اپنا اثر و رسوخ خلیج کی باقی ریاستوں تک پھیلا دے۔ اور یہ بات ’’اناپولس‘‘2 ’’اناپولیس کانفرنس‘‘ 27 نومبر 2007ء کو امریکی صدر جارج بُش کی انتظامیہ کی دعوت پر منعقد ہوئی، جس میں پچاس سے زائد ممالک اور اداروں کے نمائندے شریک ہوئے۔ ان میں سرِفہرست اوسلو اتھارٹی، اسرائیلی نمائندے اور عرب ممالک جیسے سعودی عرب، مصر اور شام شامل تھے، اور یہ ایک بے مثال منظر تھا جس میں عرب دنیا کی براہِ راست شرکت دیکھنے کو ملی۔
ان عرب ممالک کی شرکت دراصل ایک غیر اعلانیہ تعلقات کی بحالی تھی، اور قابض اسرائیل کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کے اصول سے خاموش دستبرداری، بلکہ وہ سیاسی بائیکاٹ بھی ٹوٹ گیا جو طویل عرصے سے عرب ممالک کے سرکاری مو قف کی بنیاد تھا، یعنی اسرائیل کی موجودگی والے بین الاقوامی فورمز میں عدم شمولیت۔ کانفرنس میں ’’امن‘‘ کا پرچم بلند کیا گیا، اور ایک ایسی فلسطینی ریاست کے قیام کی دعوت دی گئی جو اسرائیل کے ساتھ زندگی گزارے۔ لیکن اختتامی بیان انصاف کے جوہر سے خالی، اور مبہم و غیر مؤثر جملوں سے پُر تھا۔ اس میں قابض فریق (اسرائیل) پر کسی قسم کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں کی گئی، اور نہ ہی مظلوم فریق کو کسی بھی طرح کا انصاف دیا گیا۔ بیان میں کوئی واضح اور صریح عہد شامل نہ تھا، بلکہ وہ چند رسمی جملوں سے آگے نہ بڑھ سکا، جن میں کہا گیا تھا کہ مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے اور ان کا مقصد اگلے سال 2008ء کے اختتام سے پہلے ایک حتمی حل تک پہنچنا ہو گا۔
لیکن حقائق نے ان تمام دعوؤں کو جھوٹا ثابت کر دیا، کیونکہ اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا، اور مقبوضہ علاقوں میں اپنی آبادکاری کے توسیعی منصوبوں کو مزید بڑھاتا چلا گیا۔ اس نے غزہ پر محاصرہ مسلط کیے رکھا، اس کے باشندوں پر ظلم و ستم ڈھائے، القدس اور باقی تمام مقبوضہ علاقوں کے مستقبل سے کھلواڑ کیا، اور وہاں کے باشندوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا۔ اس تمام تر صورتحال کے دوران، امریکہ بدستور مکمل طور پر یہودی ریاست کے ایجنڈے اور مطالبات کے ساتھ کھڑا رہا۔
اس کانفرنس کو امت کے اہلِ بصیرت نے رد کر دیا اور اسے ایک خیانت، حقوق میں صریح کوتاہی، اور اصولوں سے انحراف قرار دیا۔ اس کانفرنس نے غاصب کو مزید وقت فراہم کیا تاکہ وہ بلا کوئی قیمت چکائے اور بغیر کسی روک ٹوک کے اپنی گرفت مضبوط کرے۔ یہ صریح طور پر صلیبیوں اور یہودیوں کے دسترخوان پر مذموم سی خواہش کی علامت تھی، اور باطل کو قانونی شکل دینے میں شراکت داری کا ایک نمونہ۔
یوں یہ کانفرنس ویسے ہی ختم ہوئی جیسے شروع ہوئی تھی، ایک نمائشی سیاسی منظر، جس کا مقصد صرف یہ تاثر دینا تھا کہ کچھ پیش رفت ہو رہی ہے، اور یہ کہ امن اب بھی ممکن ہے۔ جبکہ در حقیقت، زمین پر حق مٹ رہا ہے، اور قابض مزید درندگی اختیار کر رہا ہے۔
’’انابولس‘‘ بھی باقی تمام نام نہاد امن کانفرنسوں کی طرح ختم ہوئی، ایسے وعدے جو کبھی پورے نہیں ہوتے، وہ حقوق جو کبھی نہیں ملتے، اور حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ کانفرنس ایسی بے جان بدلی کی مانند تھی جو نہ بارش لاتی ہے نہ کسی کے کام آتی ہے۔
زمین اب بھی صہیونیوں کے قبضے اور سائے تلے کراہ رہی ہے، حق اب بھی بے یارو مددگار منتظر کھڑا ہے، اور اسے نجات دلانے کا واحد راستہ صرف جہاد کی راہ ہے، اور مظلوموں کی امداد صرف مجاہدین کے عزائم سے ممکن ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے: ’’انابولس: ایک خیانت ‘‘ از شیخ ایمن الظواہری۔
 جیسی منحوس کانفرنس میں بخوبی نمایاں ہو گئی۔

یہی وہ بات تھی جس کا اظہار صہیونی ریاست کی خاتون وزیر خارجہ نے کھلے الفاظ میں کیا جب اس نے کہا:

’’عرب ممالک پہلی بار امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ایران اور اس کے اتحادیوں کے خلاف کھڑے ہیں۔‘‘

اور اس شرمناک مؤقف پر ان کے اصرار کی ایک وجہ، ملت، امت اور فلسطینی مسئلے سے خیانت کے علاوہ، ان کا یہ خوف بھی تھا کہ کہیں وہ بالکل منظر نامے سے غائب نہ ہو جائیں۔ اسی لیے خلیجی حکام اس جنگ میں امریکہ سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں، کیونکہ یہ ان کے لیے ایک فیصلہ کن جنگ ہے، یعنی یا تو وہ باقی رہیں گے یا فنا ہو جائیں گے، اور وہ اپنی تقدیر دو حالتوں میں بالکل واضح دیکھ رہے ہیں:

  1. اگر امریکہ نے ایران پر ایسے طاقتور عسکری حملے کرنے سے انکار کر دیا، جو ایران کو کئی عشرے پیچھے دھکیل دے

  2. یا اگر امریکہ نے جنگ میں قدم رکھا مگر درمیانی یا طویل مدت میں وہ جنگ ہار گیا، تو ایرانی اثر و رسوخ کا پھیلاؤ شروع ہو جائے گا اور وہ خطے کی ریاستوں پر اپنی بالادستی قائم کرنا شروع کر دے گا۔

خلیجی حکمران اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایران کے رہنما اور ان کے حامی اُن کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو انہوں نے صدام حسین کے ساتھ کیا تھا، یعنی قربانی کی طرح انہیں سب کے سامنے عید کے دن ذبح کر دیں گے، اور ان کا جواز یہ ہو گا کہ خلیجی حکمران تو صدام کے حلیف تھے، جب اس نے امریکہ کی طرف سے ایران کے خلاف پہلی خلیجی جنگ لڑی تھی۔

کیا ریاض کے حکمرانوں نے خود تہران کے سامنے اس بات کا اعتراف نہیں کیا کہ انہوں نے اس جنگ میں صدام کی پچیس ارب ڈالر کی مالی مدد کی تھی؟

یہ اعتراف ایران کے پاس باقاعدہ محفوظ اور قلم بند ہے، اور وہ اسے مناسب وقت پر، اپنے فائدے کے لیے، استعمال کرے گا۔

جنگ اور اس کے سنگین و خطرناک اثرات پر بات چیت سے پہلے میں ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں، اور وہ یہ کہ، واللہ اعلم ، میں کسی قوم کے لیے صرف نسل یا نسب کی بنیاد پر تعصب نہیں رکھتا، اور اللہ کا شکر ہے کہ اُس نے ہمیں ایمان کی نعمت عطا فرمائی۔

پس سلمان فارسیؓ اور بلال حبشیؓ ، اگرچہ وہ عجم سے تھے، ہمارے اولیاء اور سردار ہیں، اور ابن سلول خزرجی اور ابو لہب ہاشمی، اگرچہ وہ عرب تھے اور ہمارے زیادہ قریبی نسب والے تھے، ہمارے دشمن ہیں، کیونکہ اصل معیار اسلام اور تقویٰ ہے، نہ کہ وطن یا قومیت۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ۭ (سورۃ الحجرات: ۱۳)

’’ بے شک تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو۔‘‘

ہم اُن لوگوں میں سے نہیں ہیں جو زبان سے کچھ کہیں لیکن دل میں کچھ اور ہو، بلکہ اللہ کے فضل سے ہمارے اعمال نے ہماری باتوں کی تصدیق کی ہے۔

ہم نے قحطان اور عدنان کے عرب حکمرانوں سے برأت کا اعلان کیا ہے اور اُن کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں، حالانکہ وہ ہمارے ہم قوم ہیں۔

جبکہ ہم نے ملا محمد عمر، جو افغانستان کے امیرالمومنین ہیں، کے ہاتھ پر بیعت کی اور ہم پر راضی ہوئےاور ہمارے دل مطمئن ہوئے3شیخ عطیۃ اللہ ﷫ نے تبصرہ فرمایا:
شاید یہ موقع اس بات کے لیے موزوں ہو کہ ہم اس مسئلے میں اپنا موقف، اپنے اصول اور بنیاد کو واضح کریں، اور اس پر تاکید کے ساتھ لوگوں کے لیے وضاحت کریں، نیز (بعض بڑے حضرات کی جانب سے) ممکنہ طور پر کی جانے والی اشاعت سے قبل پیش بندی کے طور پر یہ وضاحت ضروری ہے، ہم اللہ سے عافیت کے طلبگار ہیں، وہ یہ کہ مثلاً یوں کہا جا سکتا ہے:
ہم اپنے عہد پر ان شاء اللہ قائم ہیں، دین، وفاداری اور دیانت کے ساتھ (جو اللہ اور اس کے رسول کا عہد ہے)، اور ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے اور اپنے بھائیوں کے لیے حق پر ثابت قدمی کی دعا کرتے ہیں، یہاں تک کہ ہم اللہ سے اس حال میں ملاقات کریں کہ وہ ہم سے راضی ہو اور ہم نہ بدلنے والے ہوں، نہ بدلنے والے بنیں، نہ فتنہ ڈالنے والے ہوں، اور نہ فتنے میں پڑنے والے۔
، رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کی تعمیل میں:

اسمعوا وأطيعوا وإن تأمّر عليكم عبدٌ حبشيٌّ يقودكم بكتاب الله4النسائي(۲۷۲۷۰) و أحمد (۴۱۹۲).

’’سنو اور اطاعت کرو، چاہے تم پر کوئی حبشی غلام امیر بنا دیا جائے جو تمہاری اللہ کی کتاب کے مطابق قیادت کرے۔ ‘‘

اور رسول اللہ ﷺ نے قوم پرستی اور نسلی تعصب سے باز رہنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:

دعوها فإنها منتنة5البخاري (۳۵۱۸) ومسلم(۲۵۸۴).

’’اسے(عصبیت) چھوڑ دو، بے شک یہ بدبو دار (گندی) چیز ہے۔‘‘

پس جو اپنے ایمان کی قدر کرتا ہے، وہ ہر اس دعوت سے نفرت کرتا ہے جو اسلام کے علاوہ کسی اور بنیاد پر ہو، چاہے وہ قومیّت کے نام پر ہو، یا وطنیت کے، یا اس جیسی کسی اور چیز کے نام پر ہو۔

اور میں تاکیداًکہتا ہوں کہ میں نہ کسی تعصب میں مبتلا ہوں، اور نہ ہی کسی (ذاتی) رائے کا پابند، بلکہ میں صرف اللہ تعالیٰ کے دین کے راستے پر قائم ہوں، اُس کی عظیم کتاب (قرآن)، اُس کے عظیم نبی ﷺ کی سنت، اگر کہا جائے تواُس فہم کے مطابق جو صحابہ کرام ﷢اور ان کے نقشِ قدم پر خیرالقرون میں چلنے والوں کا تھا۔

اہل سنت اور اہل تشیع کو ایک نصیحت

اللہ گواہ ہے کہ میری دلی خواہش ہے کہ حق کا پیغام تمام اہلِ قبلہ ،بلکہ شاید زیادہ مناسب یہ ہے کہ کہا جائے کہ تمام انسانوں تک پہنچاؤں، تاکہ وہ اسے پہچانیں، اس پر عمل کریں اور ہم سب مل کر اللہ کے اذن ،اُس کی رحمت اور فضل سے جنت میں داخل ہوں۔

اے میری عزیز امتِ مسلمہ! ہمارا حال آج اُن ’’فریب دینے والے برسوں‘‘ سے کچھ مختلف نہیں، جن کی خبر رسول اللہ ﷺ نے دی تھی، جب آپ نے فرمایا:

سيأتي على الناس …6پوری حدیث یہ ہے:
سَيَأْتِي عَلَى النَّاسِ سَنَوَاتٌ خَدَّاعَاتٌ، يُصَدَّقُ فِيهَا الْكَاذِبُ، وَيُكَذَّبُ فِيهَا الصَّادِقُ، وَيُؤْتَمَنُ فِيهَا الْخَائِنُ، وَيُخَوَّنُ فِيهَا الْأَمِينُ، وَيَنْطِقُ فِيهَا الرُّوَيْبِضَةُ.» قِيلَ: وَمَا الرُّوَيْبِضَةُ؟ قَالَ: الرَّجُلُ التَّافِهُ يَتَكَلَّمُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ ابن ماجه(۴۰۳۶) واللفظ له، وأحمد(۷۹۱۲).
’’ایسے دھوکہ دینے والے زمانے لوگوں پر آئیں گے کہ ان میں جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا کہا جائے گا، خائن کو امین گردانا جائے گا اور امانت دار کو خائن قرار دیا جائے گا اور ان زمانوں میں رويبضہ بولے گا۔ پوچھا گیا: روَيبضہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ گھٹیا شخص جو لوگوں کے اہم امور میں بات کرے۔‘‘
شیخ عطیۃ الله ﷫نے اس حدیث پر اپنی معروف غیر مطبوعہ تحریر ’’بیان الإيمان‘‘ میں تبصرہ کیا تھا، مگر یہ رسالہ شائع نہ ہو سکا لیکن یہ مسودہ شیخ عطیہ اللہ، ابو یحییٰ، اور ابو الحسن کے تعلیقات کے ساتھ محفوظ رہا، یہاں تک کہ بعد میں ’’دستاویزاتِ ایبٹ آباد‘‘ کی دوسری قسط میں یہ منظرعام پر آیا۔
دیکھیے: ’’الأعمال الكاملة للشیخ عطية الله‘‘‎ ۳/۱۹۸۹-۱۹۸۳
مزیددیکھیے: ’’الأعمال الكاملة للشیخ أبي يحيى‘‘۳/۲۶۹۹-۲۶۹۲

آج بہت سے اہلِ سنت اپنے دین کے معاملے میں دھوکے میں ڈال دیے گئے ہیں، اور خود انہیں اس کا شعور بھی نہیں، یہ سب کچھ ظالم حکمرانوں اور علمائے سوء کے ہاتھوں ہوا۔

پس، اے بندگانِ خدا! اپنے ایمان اور اسلام کا جائزہ لو، اور اُسے درست کرو۔

اور میں نے اس معاملے کی وضاحت کے لیے ایک تحریر لکھی ہے جس کا عنوان ہے:’’بیان الإيمان‘‘ پس جو چاہے، وہ اُسے پڑھ لے۔

پھر میں کہتا ہوں: بے شک مسلمان وہی ہے جو اپنے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے مکمل طور پر سرِ تسلیم خم کرے،اور یہی حقیقی بندگی ہے، اس شخص کی جو دل سے اور سچائی کے ساتھ یہ گواہی دیتا ہے کہ ’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘‘۔

پس اگر کوئی شخص اللہ کے حکم کے سامنے بعض امور میں تو سر جھکائے، جیسے نماز اور روزہ، لیکن دیگر معاملات میں اس کے حکم کو نہ مانے، بلکہ کسی حاکمیا ایسے ظالم و جابر شخص کی اطاعت کرے جس کے پاس مادی یا معنوی اقتدار ہو اور وہ اللہ کے حکم کے بغیر حلال و حرام کے فیصلے کرے جیسے سود کو حلال قرار دینا یا اللہ کے دین کے مخالف انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین اور دستور نافذ کرنا، یا کھلے اور معلوم کفار کی مسلمانوں کے خلاف مدد کرنا، تو ایسا شخص اللہ کی اطاعت اور طاغوت کی اطاعت کو جمع کرتا ہے، اور یہ شرک اکبر ہے، جو انسان کو اسلام سے خارج کر دیتا ہے!

پس ضروری ہے کہ ہمارے مؤقف دینِ حق اسلام کو منبع بنائیں، وہ دین جو صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی کا منبع و مرکز ہے۔

جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ أَوْثَقَ عُرَى الإِيمَانِ: الحُبُّ فِي اللهِ، وَالبُغْضُ فِي اللهِ7مسند الطیالسي(۷۸۳).

’’یقیناً ایمان کی سب سے مضبوط کڑی اللہ کے لیے محبت کرنا اور اللہ کے لیے دشمنی رکھنا ہے۔‘‘

بے شک وہ طریقہ کار یا منہج جسے اہل سنت سے منسوب حکومتیں اپنائے ہوئے ہیں، درحقیقت اس کا اسلام سے کوئی حقیقی تعلق نہیں۔

یہ اپنے نفس کی خواہشات کے مطابق فیصلے کرتی ہیں، اللہ کی شریعت کے مطابق نہیں۔ یہ ’’لا إله إلا الله‘‘ کے تقاضوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتی ہیں اور یہ ایک واضح اور نمایاں طور پر شریعت کی مخالفت ہے۔

یہ روش ایسا ’’کفر اکبر‘‘ ہے جو انسان کو دائرۂ اسلام سے خارج کر دیتا ہے ۔

اور یہ لوگ عوام کو دھوکہ دیتے ہیں، ان کے ساتھ فریب سے معاملہ کرتے ہیں، لہٰذا ان سے بیزاری کا اظہار کرنا اور ان کی مخالفت کرنا واجب ہے۔

جس طرح ایران اور دیگر جگہوں پر شیعہ فرقے کی قیادت ہے، ان کے تمام قائدین اور دینی مراجع دینِ اسلام کے بعض ظاہری شعائر کو تھامے رکھتے ہیں اور اسلام کے نام استعمال کرتے ہیں، لیکن حقیقت میں اور عملی میدان میں ایران میں بالا دستی اسلام کی نہیں، بلکہ حلال و حرام کے فیصلوں میں ان رہنماؤں، مراجع، فرقے اور ان کے محدود ذاتی مفادات کو حاصل ہے۔ اور یہ ایک شرکِ اکبر ہے جو انسان کو دائرۂ اسلام سے خارج کر دیتا ہے8 شیخ اسامہ بن بن لادنؒ نے شیخ مصطفی ابو الیزیدؒ کے نام ایک خط میں فرمایا:
’’اس وقت ہمیں جو کچھ کرنا چاہیے، وہ اس پس منظر میں ہے کہ دونوں طرف سے جنگ کے نقارے بجنے لگے ہیں۔ امت کے سامنے صورتِ حال یوں بیان کی جائے کہ ہمارے لیے خطرہ ہر دو صورتوں میں موجود ہے: چاہے صلیبی صیہونی اتحاد جیت جائے یا تہران، کیونکہ دونوں ہماری امت پر غلبے کی کوشش میں ہیں۔
لہٰذا لوگوں کو خبردار کیا جائے کہ وہ کسی بھی فریق کی طرف نہ جھکیں، صحیح راستہ صرف جہاد اور مجاہدین کی مدد ہے، خاص طور پر عراق میں، جہاں مجاہدین دونوں فریقوں سے لڑ رہے ہیں۔
علمائے حق اور مخلص داعیوں کو منظم مہم کے تحت اسلامی دنیا میں متحرک کیا جائے، تاکہ امت کو ان تمام فریقوں کے خطرات اور نقصانات سے آگاہ کیا جا سکے۔ اس دوران گفتگو سادہ، واضح، مختصر اور نرم ہو، تاکہ عام لوگوں کو بات سمجھ آ سکے، بالخصوص عام شیعہ عوام کو بچانے کی کوشش بھی ملحوظ ہو۔
لیکن یہ کام متوازن ہو، ایک طرف صلیبی صیہونی اتحاد اور ان کے مرتد ایجنٹوں پر، اور دوسری طرف تہران کے رافضی پیشواؤں پر جو دجال صفت ہیں، جو دعویٰ تو اسلام کا کرتے ہیں، مگر ان کا مذہب اور عقیدہ اسلام دشمنی اور اس کی تباہی پر قائم ہے۔ یہ حقیقت واضح کی جائے اور امت کو ان سے خبردار کیا جائے۔
ہمیں صرف ان کے تاریخی جرائم کا نہیں، بلکہ آج کے واضح جرائم کا بھی ذکر کرنا چاہیے، جنہوں نے طالبان حکومت کو گرانے اور عراق پر قبضہ کرنے کے لیے امریکیوں کی مدد کی، اس میں تہران اور اس کے وفادار تمام ملیشیائیں شامل ہیں۔ یہی لوگ ہمارے بھائیوں کو عراق میں قید خانوں میں بدترین تشدد اور دن دہاڑے زندہ جلانے جیسے مظالم کرتے رہے۔
ایسے حالات مزید انتظار کی گنجائش نہیں، خاص طور پر جب ایران میں ہمارے قیدی بھائیوں کی حالت یہ ہو کہ تہران کی حکومت انتہائی بے شرمی سے مجاہدین کو ان کی عورتوں اور بچوں کے ذریعے بلیک میل کرتی ہے۔‘‘
شیخ عطیۃ اللہ ﷫ نے ’’لقاء الحسبة‘‘ میں فرمایا:
’’ان باتوں میں سے جن پر توجہ دینا ضروری ہے، یہ ہے کہ یہ دونوں دشمن [صلیبی اور رافضی] آپس میں اختلاف اور جھگڑے میں مبتلا ہیں، دونوں خوف کی حالت میں اور مشکل حالات سے دوچار ہیں اور دونوں اپنی طاقت کے مطابق اپنے دشمن کے دشمنوں کو اپنے ساتھ ملانے یا کم از کم غیر جانبدار کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ صورتحال نہایت پیچیدہ ہے اور خطہ کسی بھی وقت ممکنہ تصادم کی لپیٹ میں آ سکتا ہے، فتنے بہت شدید ہیں اور دشمن معمولی یا کمزور نہیں، بلکہ چالاکی اور دھوکہ دہی میں خوب تربیت یافتہ ہیں (اللہ ہمیں ان کے شر سے محفوظ رکھے)، میں نے کچھ لوگوں میں یہ رجحان محسوس کیا ہے کہ وہ رافضی خطرے کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ بے شک، واللہ، یہ ایک بڑا خطرہ ہے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ کچھ لوگ اس خطرے کی شدت اور اس کی ترجیح کے بیان میں مبالغہ سے کام لیتے ہیں۔ میری رائے میں، اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے، اسلامی جہادی تحریک پر لازم ہے کہ وہ ثابت قدم رہے، اپنی خودمختاری اور پاکیزگی کو برقرار رکھے، اور کسی بھی فریق کے ساتھ، خواہ وہ کتنی بھی طاقت رکھتا ہو، اس تنازع کو بھڑکانے یا اس کی طرف کھینچنے سے گریز کرے، بالخصوص سب سے بڑے اور طاقتور دشمن، یعنی امریکی صلیبی دشمن اس کے حلیفوں اور ساتھیوں کے ساتھ۔‘‘’’الأعمال الكاملة للشيخ عطية الله‘‘(۱/۶۶۶) الطبعة الثانية.
۔
اور ان کا بعض ظاہری اسلامی شعائر پر عمل محض لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے ہے، لہٰذا تہران کے رہنماؤں اور ان جیسے دیگر افراد سے لا تعلقی اختیار کرنا اور ان سے دشمنی رکھنا بھی ضروری ہے۔9شیخ عطیۃ اللہ ﷫نے تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’سیاسی قیادت کی بعض باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ گویا جنگ کا اعلان ہے، لہٰذا اس پہلو پر غور کرنا چاہیے۔ ان (روافض) سے لاتعلقی کی دعوت دینا ہی کافی ہے، کیونکہ یہی دینی دشمنی کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ یہ بات نہایت مناسب ہے کہ ہم روافض کے بارے میں اجماعی مؤقف میں سے کچھ وضاحت ضرور کریں، مثلاً: بے شک رافضی ایک باطل دین پر ہیں، جس کا دینِ اسلام سے کوئی تعلق نہیں، وہی اسلام جسے اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کے ذریعے بھیجا۔ ان کا دین ائمہ کی تعظیم و تقدیس پر قائم ہے یہاں تک کہ وہ ان کی عبادت تک کرتے ہیں، اس میں شدید فرقہ وارانہ اور نسلی تعصب پایا جاتا ہے اور یہ دین، صحابۂ کرام ﷢ سے برأت پر مبنی ہے، نیز یہ دین اُن کے سرداروں اور بڑوں کی خواہشات و اقوال سے اخذ شدہ ہے۔
(’’حزب اللات والقضیة الفلسطینیة‘‘ از مجموعه: الأعمال الكاملة، الطبعة الثانية)۔ تفصیل کے لیے دیکھیں:’’حزب اللات والقضية الفلسطينية: رؤیة کاشفة‘‘ في ’’الأعمال الكاملة للشيخ عطية الله‘‘(۱/۵۶۱-۶۰۹) الطبعة الثانية.

ان دونوں گروہوں (یعنی رافضیوں اور بعض نام نہاد اہلِ سنّت) پر دلائل بہت زیادہ ہیں، اور اس موضوع کی تفصیل طویل ہے، لیکن ہم یہاں صرف اتنا کہنا کافی سمجھتے ہیں کہ ان میں سے بعض نے مسلمانوں کے خلاف افغانستان میں امریکہ کی مدد کی۔

اہلِ اسلام اور سنّت سے وابستگی کا دعویٰ کرنے والوں میں بہت سے لوگ ایک بڑے فریب کا شکار ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین پر ہیں، حالانکہ درحقیقت وہ بادشاہوں کے دین پر ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ آیا وہ معذور ہیں یا نہیں، کیونکہ یہ ایک فقہی تفصیل طلب مسئلہ ہے۔

یہی بڑی فریب کاری شیعہ مذہب سے منسوب لوگوں میں بھی ہے۔ وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے دین پر ہیں، حالانکہ حقیقت میں وہ اپنے علماء و مراجع اور بڑوں کے بنائے ہوئے ’’بڑوں کے دین‘‘ پر ہیں، جو ان کے لیے خود احکام بناتے ہیں، حلال و حرام کا فیصلہ اللہ کے بجائے خود کرتے ہیں، اور وہ ان کی اندھی پیروی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہود و نصارى کے اس طرزِ عمل سے خبردار فرمایا ہے، جنہوں نے اپنے علماء کو اللہ کے سوا حلال و حرام کے احکام دینے والا مانا، چنانچہ وہ شرک میں مبتلا ہو گئے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:

اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ (سورۃ التوبۃ: ۳۱)

’’انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا تھا۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان علماء اور سرداروں کی اطاعت سے خبردار فرمایا ہے جو ہدایت پر نہیں ہوتے:

اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاۗءَنَا (سورۃ الأحزاب: 67)

’’بے شک ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی تھی۔‘‘

اب میں جنگ کے ممکنہ نتائج پر گفتگو کرتا ہوں کہ اگر جنگ ہوئی، تو اس کے کئی ممکنہ نتائج ہو سکتے ہیں۔

ان میں سے ایک اہم احتمال وہ ہے جس کی خلیجی حکمران تمنا رکھتے ہیں اور اس کے لیے کوشاں ہیں، یعنی ایران کی شکست اور امریکہ کی قیادت میں قائم صلیبی صہیونی اتحاد کی فتح ۔ اگر ایسا ہوا تو اس کے نہایت ہی خطرناک نتائج ہوں گے۔

یہ دراصل اس بات کا اظہار ہے کہ پورا خطہ مکمل طور پر اس کافر، فاجر اتحاد کی پالیسیوں کے تابع اور اس کے سامنے جھک جائے گا۔ اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ خطے کو مغرب زدہ بنایا جائے گا، جزیرۂ عرب کی شناخت کو بدل دیا جائے گا، اور اسے امریکی صہیونی غرور کے مطابق غلام بنا دیا جائے گا۔

اور جو کوئی یہ جاننا چاہتا ہو کہ جزیرۂ عرب اُس ظالم اتحاد کے بعد کیسا ہو گا، تو وہ مغربی کنارے اور غزہ میں ہمارے فلسطینی بھائیوں کی حالت دیکھ لے، جو اسی اتحاد کے تحت زندگی گزار رہے ہیں، وہ مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کرتے ہیں، گھروں کو تباہ کرتے ہیں، کارخانوں پر بمباری کرتے ہیں، کھیتوں کو روندتے ہیں، اور بہترین زرعی زمینیں چھین لیتے ہیں۔

انہوں نے مغربی کنارے کی پوری پٹی کو سینکڑوں سکیورٹی چوکیوں میں تقسیم کر رکھا ہے تاکہ اس کے باشندوں کو ذلیل اور رسوا کیا جا سکے۔ اور غزہ میں ہمارے پندرہ لاکھ بھائیوں کو ایک بڑے قید خانے میں قید کر رکھا ہے تاکہ وہ بھوک، بیماری اور غذائی قلت کے باعث مر جائیں اور جب یہودی چاہیں ان سے بجلی اور پانی کاٹ دیں گے، جب چاہیں گے تو راستے بند کر دیں گے اور پھر وہاں صرف مصائب ہی مصائب ہوں گے! پوری دنیا، خاص طور پر عرب اور مسلم حکمران، اس بڑی انسانی تباہی سے غافل ہیں!10 شیخ عطیۃ اللہ ﷫نے خلیجی حکام کی طرف سے ’’ایران پر امریکہ کی فتح کی تمنا اور اس کے لیے کوشش‘‘ کے امکان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
’’میری رائے میں، اگرچہ یہ بات مجموعی طور پر درست ہے، لیکن اس کی نشاندہی کرنا ضروری ہے کہ خلیج اور اس خطے کے حکمران خائن اور زندیق ہیں۔ اگرچہ وہ واقعی امریکہ کی ایران پر فتح کو ترجیح دیتے ہیں، اس کی حمایت کرتے ہیں اور اسے چاہتے اور پسند کرتے ہیں، تو یہ ان کی جانب سے ایک ترجیح، انتخاب، اور فیصلہ ہے جو شک و شبہ، اضطراب اور بے چینی سے خالی نہیں۔
وہ اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہیں اور اس سے خوف زدہ بھی ہیں کہ اگر امریکہ غالب آ گیا اور اس کی بالادستی مکمل اور بلا مزاحمت ہو گئی، تو یہ ان کی مطلق بادشاہت، ان کے تخت و تاج اور اقتدار کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ وہ ڈرتے ہیں کہ اس صورت میں وہ پوری طرح امریکہ کے زیرِ اثر آ جائیں گے، اور تب امریکہ جب چاہے گا، انہیں ہٹا کر ان کی جگہ کسی اور کو لا سکتا ہے جو اسے زیادہ خدمت، وفاداری اور غلامی پیش کرے۔
عرب حکمران اس حقیقت کو جانتے ہیں اور اس سے خائف بھی ہیں۔ وہ دراصل دو خطرناک راستوں کے بیچ کھڑے ہیں، مگر وہ اس راستے کا انتخاب کرتے ہیں جو ان کی سفلی خواہشات کے زیادہ قریب ہے، یعنی اپنے اقتدار اور بادشاہت کو باقی رکھنا۔ اور وہ جانتے ہیں کہ فی الحال اس اقتدار کو برقرار رکھنے کا راستہ صرف امریکہ سے وفاداری، اس کے ساتھ کھڑا ہونا، اس کی خدمت کرنا اور اس کی رضا حاصل کرنا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھیں اندھی کر دی ہیں اور انہیں ان کی سرکشی میں بھٹکنے دیا ہے، اور ہم گمان رکھتے ہیں کہ ان میں سے اکثر ایسے ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے، وہ اب رجوع نہیں کریں گے۔ ورنہ سچ بات تو یہ ہے کہ حل اور صحیح راستہ بالکل واضح ہے، اور وہ یہ ہے کہ اسلام کا ساتھ دیا جائے، امتِ اسلام کا ساتھ دیا جائے، اور اسلام و مسلمانوں کے وفادار بن کر رہا جائے۔‘‘

دوسرا امکان یہ ہے کہ ایران درمیانے یا طویل عرصے میں فتح حاصل کر لے، اور اس کے بھی سنگین اثرات اور نتائج ہوں گے، کیونکہ ایران دینِ حق کی نمائندگی نہیں کرتا اور وہ انسانیت کو وہ پیغام نہیں دے گا جو اللہ نے اپنے آخری رسول محمد ﷺ کے ذریعے بھیجا تھا اور دین خالص اللہ کے لیے نہیں ہو گا۔

میرے مسلمانوں بھائیو، میں آپ کو ایک تجربہ کار عالمِ دین کی طرف سے خبردار کرنا چاہتا ہوں جو عرب اور فارس کےروافض کے بارے میں ہے، ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ صدام حسین کے ہاتھوں جو ظلم و ستم ہوا ہے، یہ سب اس تباہی کے سامنے کچھ نہیں جو خطے اور اس کے باشندوں کو اس فرقے کے ظلم، فساد اور عقائد کی بدولت درپیش ہے۔ ان دونوں میں فرق بالکل ویسا ہے جیسا دریا اور سمندر میں ہے۔

لوگ صدام اور اس کی جماعت کے جرائم کو رافضی درندوں کے ظلم و ستم کے مقابلے میں ہیچ سمجھیں گے، جو لوگ ان روافض کی قدیم اور جدید تاریخ کا علم رکھتے ہیں اور ان کے اہلِ سنت کے ساتھ دھوکہ دہی کے واقعات جانتے ہیں، انہیں علم ہے کہ میرے الفاظ ان کے عظیم خطرے کی مکمل وضاحت نہیں کر سکتے، کیونکہ مسلمانوں کی تاریخ ان کی غداریوں سے بھری پڑی ہے۔

ان کی مسلمانوں سے غداری، خیانتیں اور مسلمانوں کے خلاف تاتاریوں و صلیبیوں اور دیگر دشمنانِ اسلام کی مدد ایسی حالت میں تھی جب وہ (روافض) کمزور تھے اور ان کے پاس کوئی ریاست نہیں تھی۔

لیکن آج جبکہ ان کے پاس ایران میں ایک ریاست قائم ہو چکی ہے، عراق میں ایک ریاست ہے، اور وہ شام میں بھی ایک ریاست قائم کرنے کی کوشش میں ہیں تو اب ان کے بارے میں کچھ کہنے کی حاجت ہی نہیں، بلکہ بس عقل والوں کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ دیکھیں کہ عراق میں اہلِ سنت پر روزانہ ان کے ہاتھوں کیا گزرتی ہے؟ اغوا، تشدد، قتل، خونریزی، عزتوں کی پامالی، مساجد اور قرآن مجید کی بے حرمتی جیسے جرائم ان کے ہاتھوں انجام دیے جا رہے ہیں۔

اگر آپ ان کے عقائد کا کچھ مطالعہ کریں تو آپ کو ان کے ان وحشیانہ افعال پر حیرت نہ ہو، کیونکہ وہ تمام صحابۂ کرام کو سوائے چند ایک کے کافر سمجھتے ہیں، اور صدیقۂ کائنات ﷞پر وہ بہتان لگاتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اپنے واضح قرآن میں بری کر دیا ہے، اور یہ بہتان صریح کفر ہے۔

اور وہ اہلِ سنت کو قتل کرنا سب سے بڑی نیکی اور قرب الٰہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ شاید انسانیت نے روافض سے بڑھ کر جھوٹ بولنے والی کوئی قوم نہ دیکھی ہو گی۔

اے عزیز امت! معاملہ نہایت سنگین ہے، مصیبت بہت بڑی ہے، اور یہ اب خواب یا خیالات کی بات نہیں رہی، بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے جو ہر روز بغداد اور اس کے آس پاس اہلِ سنت کے قدموں تلے زمین کو لرزا دیتی ہے۔ جانیں لی جا رہی ہیں، خون بہایا جا رہا ہے، عزتیں پامال ہو رہی ہیں، اور ہم اللہ ہی سے فریاد کرتے ہیں، وہی ہمارے لیے کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے۔

آج کئی ملکوں میں رافضیوں اور منافقوں کے سر اٹھنے لگے ہیں، خصوصاً شام اور خلیجی ممالک میں، جو موقع کی تلاش میں ہیں تاکہ ایران اور عراق میں اپنے بھائیوں سے مدد لیں اور انہی کے نقشِ قدم پر چلیں۔ علی السيستانی، عبد العزیز الحکیم، نوری المالکی، اور مقتدیٰ الصدر، سب کے سب ایک جیسے ہیں، مقتدیٰ الصدر نے تو اپنے ملیشیا کے افراد کو اُکسایا کہ وہ عراق میں اہلِ سنت کی عورتوں اور بچوں کو عام سڑکوں پر سب کے سامنے آگ لگا کر جلا ڈالیں۔

ان افعال میں کوئی فرق نہیں جو حسن نصر اللہ لبنان میں کر رہا ہے یا حسن الصفار مشرقی سعودی عرب میں کر رہا ہے، یہ سب اس عقیدے پر قائم ہیں کہ اہلِ سنت کو قتل کرنا اور اُنہیں جلانا اللہ کی قربت کا ذریعہ ہے، جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔

اصل فرق ان کے درمیان صرف اس بات میں ہے کہ ہر گروہ نے اپنے نظریے میں کس مرحلے تک رسائی حاصل کی ہے اور یہ بھی کہ ان میں سے ہر ایک گروہ کی سیاسی صورت حال کس بات کا تقاضا کرتی ہے، چاہے وہ کسی بات کا کھلم کھلا اعلان ہو یا خاموشی، لیکن انجام اور آخری نتیجہ سب کا ایک ہی ہے۔

اگر انہیں جہاد کے بغیر چھوڑ دیا گیا تو یہ سب اسی منزل تک پہنچیں گے۔ اور اگر عراق میں ان کو دبایا گیا اور شکست دی گئی، تو ان کے باقی ساتھی دوسرے ملکوں میں وقتی طور پر پیچھے ہٹ جائیں گے۔

اور وہ علاقہ جہاں اسلامی ممالک میں رافضیوں سے چشم پوشی برتی جاتی ہے، ایسا ہے جیسے کوئی اپنے کمرے میں سانپوں اور بچھوؤں کے پھیلنے پر آنکھ بند کر لے۔

اگر اللہ کا فضل اور مجاہدین کی کوششیں نہ ہوتیں تو یہ ساری تباہیاں عراق سے ملحقہ ممالک تک پہنچ چکی ہوتیں۔

اور ہم اللہ کے فضل سے وہ ابتدائی لوگ ہیں جنہوں نے ان کے پھیلاؤ اور توسیع پسندانہ عزائم کا مقابلہ کیا، اگرچہ ہم اللہ کے کرم سے ان رافضیوں اور دیگر لوگوں کے ساتھ بھی سب سے زیادہ رحم دل اور ان شاء اللہ سب سے زیادہ انصاف کرنے والے ہیں، اور ہم اللہ سے اس کا فضل مانگتے ہیں۔

اور آپ کے مجاہد بھائیوں کے مؤقف اللہ کے فضل سے بالکل واضح ہیں، لیکن ان لوگوں میں سے بہت سے جو اپنے متعلق علم و فقہ کا دعویٰ کرتے ہیں، اُس وقت ہمارے مؤقف پر طعن کرتے رہے جب ہم ایران کے اجرتی رافضی فوجیوں سے برسرِپیکار تھے، جیسے ’’جیش المہدی‘‘ اور ’’جیش الحکیم‘‘۔ مذکورہ بالا لوگ بیانات جاری کرتے تھے جن میں ہمیں ان سے لڑنے سے روکتے، حالانکہ یہ روافض ہی تھے جو عراق میں قابض دشمن کو مضبوط کرنے کا ذریعہ تھے۔

میں ہمیشہ خبردار کرتا رہا کہ اے اہلِ اسلام! اپنے بھائیوں کی مدد کرو، اپنے عراقی بھائیوں کی مدد کرو، کیونکہ وہی پہلا دفاعی مورچہ ہیں اور اُمّت کے دشمنوں کے خلاف ایک مضبوط ڈھال ہیں۔

اور امیرمحترم، امام ابو مصعب الزرقاویؒ نے ان کے منصوبوں کو بے نقاب کرنے اور ان پر کاری ضرب لگانے میں نمایاں کردار ادا کیا، ایسے وقت میں جب اہلِ کلام، پیچھے بیٹھنے والے، لفظوں کے بازیگر، اور متکبر فقیہ نما لوگ اُن پر طعن کر رہے تھے اور یہ دعویٰ کرتے تھے کہ مجاہدین کو سمجھ نہیں۔

جبکہ اللہ کے فضل سے سب پر ثابت ہو چکا ہے کہ مجاہدین ہی حقیقت شناس فقیہ ہیں، مردانِ میدان ہیں اور اُمّت انہی پر اللہ کے بعد بھروسہ کرتی ہے کہ وہ مصیبتوں سے نجات دلائیں، اور وہی ان جنگوں کے لیے اصل تیاری اور ذخیرہ ہیں اور خوش نصیب تو وہی ہے جو دوسروں کے انجام سے عبرت حاصل کرے۔

آپ اس اندھی تباہی اور ہولناک آفت سے نکلنے کے حل کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہیں۔

ابتدائی طور پر ضروری ہے کہ ہم کفار پر اپنے علاقے کے دفاع کے لیے انحصار ختم کریں، جیسا کہ ہمارے علاقے کے حکمران سیاست دانوں کا وطیرہ ہے، اور جو دراصل اس بات کا کھلا اعتراف ہے کہ خطے کے ممالک ان کفار کے اثر و رسوخ اور تسلط کے تابع ہیں۔ امریکہ ہی ہے جو اس خطے پر اپنی مرضی کی پالیسی مسلط کرتا ہے تاکہ اپنے مفادات حاصل کرے اور اسی لیے اس خطے کا محافظ بھی بنا ہوا ہے، اور اس خطے کے حکمران محض اس کے ایجنٹ ہیں۔

اس کے علاوہ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہمارے ارد گرد کیا کچھ ہو رہا ہے اور ہم سچے دل سے اللہ کے حضور توبہ کریں۔ اس کے بعد ہم پر جو سب سے بڑی ذمہ داریاں ہیں ان کو ادا کریں، جن میں سب سے پہلی چیز ایک اللہ پر ایمان رکھنا، اور عمل کو صرف اسی کے لیے خالص کرنا، جس کا شریک نہیں۔

پھر اس کی شریعت کے مطابق عمل کرنا، اور اپنے نبی ﷺ کی سنت کو جہاں تک ممکن ہو عمل میں لانا، اس کے بعد اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ہے یعنی اہلِ سنت کو پورے عالم اسلام میں اور خاص طور پر عرب ممالک میں بالخصوص ہمسایہ ممالک اور یمن میں منظم کرنا۔

اور یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ایران کے اندر موجود اہلِ سنت کی مدد اور اس کے ہمسایہ ممالک جیسے افغانستان اور ترکی میں ان کی پشت پناہی کتنی اہم ہے، اور لوگوں کو رافضیوں کے جھوٹ، فریب اور باطل عقائد سے آگاہ کرنا کتنا ضروری ہے۔

اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کویت، عراق اور ایران کے بعض رافضی علماء، رفض کو چھوڑ کر اہلِ سنت کے طریق و منہج پر واپس آ چکے ہیں، کتاب و سنت کی طرف رجوع کر چکے ہیں، اور انہوں نے ہدایت پا لی ہے، لہٰذا ان کی مدد کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اس گمراہ فرقے کے بگاڑ اور فساد کو لوگوں کے سامنے واضح کر سکیں۔

یقیناً زمین پر موجود طاقت کا سرچشمہ اور حقیقی طور پر تشکیل پانے والی قوت، مسلم حکمرانوں اور ان کی افواج میں نہیں۔ یہ لوگ اگر ہم ان کے بارے میں اچھا گمان بھی رکھیں تو بھی فلسطین کو واپس لینے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں، بلکہ ان میں سے اکثر کا فلسطین کو یہودیوں کے ہاتھ بیچنے میں ملوث ہونا ثابت ہو چکا ہے۔

اور عراق پر حالیہ امریکی حملہ اسی خفیہ ساز باز کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی تھا، جب ان حکمرانوں نے امریکہ کی افواج کو فضاؤں، سمندروں اور میدانوں میں مدد فراہم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ پس نہ یہ حکمران، نہ ان کی افواج، نہ وہ منافق علماء جو ان کے گرد گھومتے ہیں، ان کی تعریفیں کرتے ہیں، نہ وہ جماعتیں جو اسلامی ناموں سے پہچانی جاتی ہیں اور دہائیوں سے کفری پارلیمانوں کے تحت بیٹھی ہوئی ہیں، ان میں سے کسی کے پاس بھی اس امت کا حل نہیں ہے۔

بلکہ، اس امت کا اصل سرمایہ اور حقیقی طاقت، جس پر اللہ تعالیٰ کے بعد اعتماد کیا جا سکتا ہے، وہ دین، صدق اور عفت کے حامل اس کے مجاہد بیٹے ہیں۔11 شیخ عطیۃ اللہ نے فرمایا:
یہی مجاہد ہی ان مسائل کا حل نکال سکتے ہیں نہ کہ یہ حکمران۔

الله تعالی کا فرمان ہے:

وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰيٰتِ اللّٰهِ يُكْفَرُ بِھَا وَيُسْتَهْزَاُ بِھَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ حَتّٰي يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِهٖٓ ڮ اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُھُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِيْنَ وَالْكٰفِرِيْنَ فِيْ جَهَنَّمَ جَمِيْعَۨا ۝(سورۃ النسآء: ۱۴۰)

’’ اور بے شک اللہ تم پر کتاب میں اتار چکا کہ جب تم اللہ کی آیتوں کو سنو کہ ان کا انکا رکیا جاتا اور ان کی ہنسی بنائی جاتی ہے تو ان لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو جب تک وہ اور بات میں مشغول نہ ہوں ورنہ تم بھی انہیں جیسے ہو بے شک اللہ کافروں اورمنافقوں سب کو جہنم میں اکٹھا کرے گا۔‘‘

اور یہی مجاہدین آج افغانستان میں اللہ کے فضل سے روسی ریچھ کے اس منصوبے کو ناکام بنا چکے ہیں جس کے تحت وہ گرم پانیوں تک رسائی اور اس خطے کے تیل پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ یہی مجاہدین آج صلیبی امریکی سلطنت کے پھیلاؤ کو روک رہے ہیں اور اس کی چالوں سے ہماری امت کا دفاع کر رہے ہیں۔

اے امت مسلمہ! یہ ہیں تمہارے مجاہد بیٹے، جو آج عراق میں اللہ کے فضل سے امریکہ کے منصوبوں کو ناکام و نامراد کر چکے ہیں اور ان کے منصوبوں کو درہم برہم کر دیا ہے، جب کہ صدام کے سقوط کے بعد امریکی سیاست دان، مفکرین اور مصنفین خطے میں جمہوریت کے پھیلاؤ، امریکی توسیع پسندی، اور ’’بڑے مشرقِ وسطیٰ‘‘ کے منصوبوں پر مسلسل باتیں کر رہے تھے۔

پس ان خوش نما اور محض باتیں کرنے والوں اور ان لوگوں سے اعراض کرو، جو حقیقت پسندی، اعتدال پسندی، مثبت اقدامات وغیرہ کے نام پر تمہیں کمزوری، پیچھے ہٹنے اور مایوسی کی تلقین کرتے ہیں۔ اور پہچانو اُن لوگوں کو جو واقعی علمِ نافع، نیک عمل، تقویٰ، صدق، اور اللہ، اُس کے دین اور مسلمانوں کے لیے خیر خواہی کے حامل ہیں ۔

  • 1
    ہم نے ترجمے میں روانی کے لیے عبارت کی تصحیح پر مشتمل شیخ عطیہ کے تبصروں کو شیخ اسامہ کی تحریر میں ضم کر دیا ہے اور مربع قوسین ختم کر دیے ہیں۔ (ادارہ)
  • 2
    ’’اناپولیس کانفرنس‘‘ 27 نومبر 2007ء کو امریکی صدر جارج بُش کی انتظامیہ کی دعوت پر منعقد ہوئی، جس میں پچاس سے زائد ممالک اور اداروں کے نمائندے شریک ہوئے۔ ان میں سرِفہرست اوسلو اتھارٹی، اسرائیلی نمائندے اور عرب ممالک جیسے سعودی عرب، مصر اور شام شامل تھے، اور یہ ایک بے مثال منظر تھا جس میں عرب دنیا کی براہِ راست شرکت دیکھنے کو ملی۔
    ان عرب ممالک کی شرکت دراصل ایک غیر اعلانیہ تعلقات کی بحالی تھی، اور قابض اسرائیل کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کے اصول سے خاموش دستبرداری، بلکہ وہ سیاسی بائیکاٹ بھی ٹوٹ گیا جو طویل عرصے سے عرب ممالک کے سرکاری مو قف کی بنیاد تھا، یعنی اسرائیل کی موجودگی والے بین الاقوامی فورمز میں عدم شمولیت۔ کانفرنس میں ’’امن‘‘ کا پرچم بلند کیا گیا، اور ایک ایسی فلسطینی ریاست کے قیام کی دعوت دی گئی جو اسرائیل کے ساتھ زندگی گزارے۔ لیکن اختتامی بیان انصاف کے جوہر سے خالی، اور مبہم و غیر مؤثر جملوں سے پُر تھا۔ اس میں قابض فریق (اسرائیل) پر کسی قسم کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں کی گئی، اور نہ ہی مظلوم فریق کو کسی بھی طرح کا انصاف دیا گیا۔ بیان میں کوئی واضح اور صریح عہد شامل نہ تھا، بلکہ وہ چند رسمی جملوں سے آگے نہ بڑھ سکا، جن میں کہا گیا تھا کہ مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے اور ان کا مقصد اگلے سال 2008ء کے اختتام سے پہلے ایک حتمی حل تک پہنچنا ہو گا۔
    لیکن حقائق نے ان تمام دعوؤں کو جھوٹا ثابت کر دیا، کیونکہ اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا، اور مقبوضہ علاقوں میں اپنی آبادکاری کے توسیعی منصوبوں کو مزید بڑھاتا چلا گیا۔ اس نے غزہ پر محاصرہ مسلط کیے رکھا، اس کے باشندوں پر ظلم و ستم ڈھائے، القدس اور باقی تمام مقبوضہ علاقوں کے مستقبل سے کھلواڑ کیا، اور وہاں کے باشندوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا۔ اس تمام تر صورتحال کے دوران، امریکہ بدستور مکمل طور پر یہودی ریاست کے ایجنڈے اور مطالبات کے ساتھ کھڑا رہا۔
    اس کانفرنس کو امت کے اہلِ بصیرت نے رد کر دیا اور اسے ایک خیانت، حقوق میں صریح کوتاہی، اور اصولوں سے انحراف قرار دیا۔ اس کانفرنس نے غاصب کو مزید وقت فراہم کیا تاکہ وہ بلا کوئی قیمت چکائے اور بغیر کسی روک ٹوک کے اپنی گرفت مضبوط کرے۔ یہ صریح طور پر صلیبیوں اور یہودیوں کے دسترخوان پر مذموم سی خواہش کی علامت تھی، اور باطل کو قانونی شکل دینے میں شراکت داری کا ایک نمونہ۔
    یوں یہ کانفرنس ویسے ہی ختم ہوئی جیسے شروع ہوئی تھی، ایک نمائشی سیاسی منظر، جس کا مقصد صرف یہ تاثر دینا تھا کہ کچھ پیش رفت ہو رہی ہے، اور یہ کہ امن اب بھی ممکن ہے۔ جبکہ در حقیقت، زمین پر حق مٹ رہا ہے، اور قابض مزید درندگی اختیار کر رہا ہے۔
    ’’انابولس‘‘ بھی باقی تمام نام نہاد امن کانفرنسوں کی طرح ختم ہوئی، ایسے وعدے جو کبھی پورے نہیں ہوتے، وہ حقوق جو کبھی نہیں ملتے، اور حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ کانفرنس ایسی بے جان بدلی کی مانند تھی جو نہ بارش لاتی ہے نہ کسی کے کام آتی ہے۔
    زمین اب بھی صہیونیوں کے قبضے اور سائے تلے کراہ رہی ہے، حق اب بھی بے یارو مددگار منتظر کھڑا ہے، اور اسے نجات دلانے کا واحد راستہ صرف جہاد کی راہ ہے، اور مظلوموں کی امداد صرف مجاہدین کے عزائم سے ممکن ہے۔
    تفصیل کے لیے دیکھیے: ’’انابولس: ایک خیانت ‘‘ از شیخ ایمن الظواہری۔
  • 3
    شیخ عطیۃ اللہ ﷫ نے تبصرہ فرمایا:
    شاید یہ موقع اس بات کے لیے موزوں ہو کہ ہم اس مسئلے میں اپنا موقف، اپنے اصول اور بنیاد کو واضح کریں، اور اس پر تاکید کے ساتھ لوگوں کے لیے وضاحت کریں، نیز (بعض بڑے حضرات کی جانب سے) ممکنہ طور پر کی جانے والی اشاعت سے قبل پیش بندی کے طور پر یہ وضاحت ضروری ہے، ہم اللہ سے عافیت کے طلبگار ہیں، وہ یہ کہ مثلاً یوں کہا جا سکتا ہے:
    ہم اپنے عہد پر ان شاء اللہ قائم ہیں، دین، وفاداری اور دیانت کے ساتھ (جو اللہ اور اس کے رسول کا عہد ہے)، اور ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے اور اپنے بھائیوں کے لیے حق پر ثابت قدمی کی دعا کرتے ہیں، یہاں تک کہ ہم اللہ سے اس حال میں ملاقات کریں کہ وہ ہم سے راضی ہو اور ہم نہ بدلنے والے ہوں، نہ بدلنے والے بنیں، نہ فتنہ ڈالنے والے ہوں، اور نہ فتنے میں پڑنے والے۔
  • 4
    النسائي(۲۷۲۷۰) و أحمد (۴۱۹۲).
  • 5
    البخاري (۳۵۱۸) ومسلم(۲۵۸۴).
  • 6
    پوری حدیث یہ ہے:
    سَيَأْتِي عَلَى النَّاسِ سَنَوَاتٌ خَدَّاعَاتٌ، يُصَدَّقُ فِيهَا الْكَاذِبُ، وَيُكَذَّبُ فِيهَا الصَّادِقُ، وَيُؤْتَمَنُ فِيهَا الْخَائِنُ، وَيُخَوَّنُ فِيهَا الْأَمِينُ، وَيَنْطِقُ فِيهَا الرُّوَيْبِضَةُ.» قِيلَ: وَمَا الرُّوَيْبِضَةُ؟ قَالَ: الرَّجُلُ التَّافِهُ يَتَكَلَّمُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ ابن ماجه(۴۰۳۶) واللفظ له، وأحمد(۷۹۱۲).
    ’’ایسے دھوکہ دینے والے زمانے لوگوں پر آئیں گے کہ ان میں جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا کہا جائے گا، خائن کو امین گردانا جائے گا اور امانت دار کو خائن قرار دیا جائے گا اور ان زمانوں میں رويبضہ بولے گا۔ پوچھا گیا: روَيبضہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ گھٹیا شخص جو لوگوں کے اہم امور میں بات کرے۔‘‘
    شیخ عطیۃ الله ﷫نے اس حدیث پر اپنی معروف غیر مطبوعہ تحریر ’’بیان الإيمان‘‘ میں تبصرہ کیا تھا، مگر یہ رسالہ شائع نہ ہو سکا لیکن یہ مسودہ شیخ عطیہ اللہ، ابو یحییٰ، اور ابو الحسن کے تعلیقات کے ساتھ محفوظ رہا، یہاں تک کہ بعد میں ’’دستاویزاتِ ایبٹ آباد‘‘ کی دوسری قسط میں یہ منظرعام پر آیا۔
    دیکھیے: ’’الأعمال الكاملة للشیخ عطية الله‘‘‎ ۳/۱۹۸۹-۱۹۸۳
    مزیددیکھیے: ’’الأعمال الكاملة للشیخ أبي يحيى‘‘۳/۲۶۹۹-۲۶۹۲
  • 7
    مسند الطیالسي(۷۸۳).
  • 8
    شیخ اسامہ بن بن لادنؒ نے شیخ مصطفی ابو الیزیدؒ کے نام ایک خط میں فرمایا:
    ’’اس وقت ہمیں جو کچھ کرنا چاہیے، وہ اس پس منظر میں ہے کہ دونوں طرف سے جنگ کے نقارے بجنے لگے ہیں۔ امت کے سامنے صورتِ حال یوں بیان کی جائے کہ ہمارے لیے خطرہ ہر دو صورتوں میں موجود ہے: چاہے صلیبی صیہونی اتحاد جیت جائے یا تہران، کیونکہ دونوں ہماری امت پر غلبے کی کوشش میں ہیں۔
    لہٰذا لوگوں کو خبردار کیا جائے کہ وہ کسی بھی فریق کی طرف نہ جھکیں، صحیح راستہ صرف جہاد اور مجاہدین کی مدد ہے، خاص طور پر عراق میں، جہاں مجاہدین دونوں فریقوں سے لڑ رہے ہیں۔
    علمائے حق اور مخلص داعیوں کو منظم مہم کے تحت اسلامی دنیا میں متحرک کیا جائے، تاکہ امت کو ان تمام فریقوں کے خطرات اور نقصانات سے آگاہ کیا جا سکے۔ اس دوران گفتگو سادہ، واضح، مختصر اور نرم ہو، تاکہ عام لوگوں کو بات سمجھ آ سکے، بالخصوص عام شیعہ عوام کو بچانے کی کوشش بھی ملحوظ ہو۔
    لیکن یہ کام متوازن ہو، ایک طرف صلیبی صیہونی اتحاد اور ان کے مرتد ایجنٹوں پر، اور دوسری طرف تہران کے رافضی پیشواؤں پر جو دجال صفت ہیں، جو دعویٰ تو اسلام کا کرتے ہیں، مگر ان کا مذہب اور عقیدہ اسلام دشمنی اور اس کی تباہی پر قائم ہے۔ یہ حقیقت واضح کی جائے اور امت کو ان سے خبردار کیا جائے۔
    ہمیں صرف ان کے تاریخی جرائم کا نہیں، بلکہ آج کے واضح جرائم کا بھی ذکر کرنا چاہیے، جنہوں نے طالبان حکومت کو گرانے اور عراق پر قبضہ کرنے کے لیے امریکیوں کی مدد کی، اس میں تہران اور اس کے وفادار تمام ملیشیائیں شامل ہیں۔ یہی لوگ ہمارے بھائیوں کو عراق میں قید خانوں میں بدترین تشدد اور دن دہاڑے زندہ جلانے جیسے مظالم کرتے رہے۔
    ایسے حالات مزید انتظار کی گنجائش نہیں، خاص طور پر جب ایران میں ہمارے قیدی بھائیوں کی حالت یہ ہو کہ تہران کی حکومت انتہائی بے شرمی سے مجاہدین کو ان کی عورتوں اور بچوں کے ذریعے بلیک میل کرتی ہے۔‘‘
    شیخ عطیۃ اللہ ﷫ نے ’’لقاء الحسبة‘‘ میں فرمایا:
    ’’ان باتوں میں سے جن پر توجہ دینا ضروری ہے، یہ ہے کہ یہ دونوں دشمن [صلیبی اور رافضی] آپس میں اختلاف اور جھگڑے میں مبتلا ہیں، دونوں خوف کی حالت میں اور مشکل حالات سے دوچار ہیں اور دونوں اپنی طاقت کے مطابق اپنے دشمن کے دشمنوں کو اپنے ساتھ ملانے یا کم از کم غیر جانبدار کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ صورتحال نہایت پیچیدہ ہے اور خطہ کسی بھی وقت ممکنہ تصادم کی لپیٹ میں آ سکتا ہے، فتنے بہت شدید ہیں اور دشمن معمولی یا کمزور نہیں، بلکہ چالاکی اور دھوکہ دہی میں خوب تربیت یافتہ ہیں (اللہ ہمیں ان کے شر سے محفوظ رکھے)، میں نے کچھ لوگوں میں یہ رجحان محسوس کیا ہے کہ وہ رافضی خطرے کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ بے شک، واللہ، یہ ایک بڑا خطرہ ہے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ کچھ لوگ اس خطرے کی شدت اور اس کی ترجیح کے بیان میں مبالغہ سے کام لیتے ہیں۔ میری رائے میں، اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے، اسلامی جہادی تحریک پر لازم ہے کہ وہ ثابت قدم رہے، اپنی خودمختاری اور پاکیزگی کو برقرار رکھے، اور کسی بھی فریق کے ساتھ، خواہ وہ کتنی بھی طاقت رکھتا ہو، اس تنازع کو بھڑکانے یا اس کی طرف کھینچنے سے گریز کرے، بالخصوص سب سے بڑے اور طاقتور دشمن، یعنی امریکی صلیبی دشمن اس کے حلیفوں اور ساتھیوں کے ساتھ۔‘‘’’الأعمال الكاملة للشيخ عطية الله‘‘(۱/۶۶۶) الطبعة الثانية.
  • 9
    شیخ عطیۃ اللہ ﷫نے تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:
    ’’سیاسی قیادت کی بعض باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ گویا جنگ کا اعلان ہے، لہٰذا اس پہلو پر غور کرنا چاہیے۔ ان (روافض) سے لاتعلقی کی دعوت دینا ہی کافی ہے، کیونکہ یہی دینی دشمنی کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ یہ بات نہایت مناسب ہے کہ ہم روافض کے بارے میں اجماعی مؤقف میں سے کچھ وضاحت ضرور کریں، مثلاً: بے شک رافضی ایک باطل دین پر ہیں، جس کا دینِ اسلام سے کوئی تعلق نہیں، وہی اسلام جسے اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کے ذریعے بھیجا۔ ان کا دین ائمہ کی تعظیم و تقدیس پر قائم ہے یہاں تک کہ وہ ان کی عبادت تک کرتے ہیں، اس میں شدید فرقہ وارانہ اور نسلی تعصب پایا جاتا ہے اور یہ دین، صحابۂ کرام ﷢ سے برأت پر مبنی ہے، نیز یہ دین اُن کے سرداروں اور بڑوں کی خواہشات و اقوال سے اخذ شدہ ہے۔
    (’’حزب اللات والقضیة الفلسطینیة‘‘ از مجموعه: الأعمال الكاملة، الطبعة الثانية)۔ تفصیل کے لیے دیکھیں:’’حزب اللات والقضية الفلسطينية: رؤیة کاشفة‘‘ في ’’الأعمال الكاملة للشيخ عطية الله‘‘(۱/۵۶۱-۶۰۹) الطبعة الثانية.
  • 10
    شیخ عطیۃ اللہ ﷫نے خلیجی حکام کی طرف سے ’’ایران پر امریکہ کی فتح کی تمنا اور اس کے لیے کوشش‘‘ کے امکان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
    ’’میری رائے میں، اگرچہ یہ بات مجموعی طور پر درست ہے، لیکن اس کی نشاندہی کرنا ضروری ہے کہ خلیج اور اس خطے کے حکمران خائن اور زندیق ہیں۔ اگرچہ وہ واقعی امریکہ کی ایران پر فتح کو ترجیح دیتے ہیں، اس کی حمایت کرتے ہیں اور اسے چاہتے اور پسند کرتے ہیں، تو یہ ان کی جانب سے ایک ترجیح، انتخاب، اور فیصلہ ہے جو شک و شبہ، اضطراب اور بے چینی سے خالی نہیں۔
    وہ اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہیں اور اس سے خوف زدہ بھی ہیں کہ اگر امریکہ غالب آ گیا اور اس کی بالادستی مکمل اور بلا مزاحمت ہو گئی، تو یہ ان کی مطلق بادشاہت، ان کے تخت و تاج اور اقتدار کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ وہ ڈرتے ہیں کہ اس صورت میں وہ پوری طرح امریکہ کے زیرِ اثر آ جائیں گے، اور تب امریکہ جب چاہے گا، انہیں ہٹا کر ان کی جگہ کسی اور کو لا سکتا ہے جو اسے زیادہ خدمت، وفاداری اور غلامی پیش کرے۔
    عرب حکمران اس حقیقت کو جانتے ہیں اور اس سے خائف بھی ہیں۔ وہ دراصل دو خطرناک راستوں کے بیچ کھڑے ہیں، مگر وہ اس راستے کا انتخاب کرتے ہیں جو ان کی سفلی خواہشات کے زیادہ قریب ہے، یعنی اپنے اقتدار اور بادشاہت کو باقی رکھنا۔ اور وہ جانتے ہیں کہ فی الحال اس اقتدار کو برقرار رکھنے کا راستہ صرف امریکہ سے وفاداری، اس کے ساتھ کھڑا ہونا، اس کی خدمت کرنا اور اس کی رضا حاصل کرنا ہے۔
    اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھیں اندھی کر دی ہیں اور انہیں ان کی سرکشی میں بھٹکنے دیا ہے، اور ہم گمان رکھتے ہیں کہ ان میں سے اکثر ایسے ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے، وہ اب رجوع نہیں کریں گے۔ ورنہ سچ بات تو یہ ہے کہ حل اور صحیح راستہ بالکل واضح ہے، اور وہ یہ ہے کہ اسلام کا ساتھ دیا جائے، امتِ اسلام کا ساتھ دیا جائے، اور اسلام و مسلمانوں کے وفادار بن کر رہا جائے۔‘‘
  • 11
    شیخ عطیۃ اللہ نے فرمایا:
    یہی مجاہد ہی ان مسائل کا حل نکال سکتے ہیں نہ کہ یہ حکمران۔
Previous Post

کشمیر کا شاندار اسلامی ورثہ: خطرات و حل

Next Post

قبلۂ اوّل سے خیانت کی داستان – اردن

Related Posts

اِک نظر اِدھر بھی! | جولائی 2025
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | اگست 2025

17 اگست 2025
احکامِ الٰہی
گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال

احکامِ الٰہی

15 جولائی 2025
ٹیلی گرام: پرائیویسی کا فریب
اوپن سورس جہاد

ٹیلی گرام: پرائیویسی کا فریب

14 جولائی 2025
امنیت (سکیورٹی) | پہلی قسط
الدراسات العسکریۃ

امنیت (سکیورٹی) | پہلی قسط

14 جولائی 2025
سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | چودھواں درس

14 جولائی 2025
عمر ِثالث | ساتویں قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | آٹھویں قسط

14 جولائی 2025
Next Post
قبلۂ اوّل سے خیانت کی داستان – اردن

قبلۂ اوّل سے خیانت کی داستان - اردن

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version