ادارہ النازعات:
بسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
الحمد لله رب العالمين، ولا عدوان إلا على الظالمين، والصلاة والسلام على رسولنا الأمين، وعلى آله وصحبه أجمعين، أما بعد.
معزز قارئین، السلام علیکم ورحمۃ الله وبركاتہ!
آج ہم ان شاء اللہ استاذِ محترم ابو اسامہ عبدالعزیز الحلاق صاحب ﷾کے ساتھ شام میں جہاد کے مستقبل کے بارے میں اپنی سابقہ نشست سے متصل انٹرویو جاری رکھیں گے۔ اس انٹرویو کے حصۂ اول میں ہمارا مکالمہ موجودہ دور میں شامی جہاد کی حقیقت اور مستقبل قریب میں اس کو درپیش خطرات کے متعلق تھا اور ہم دمشق کی آزادی کے بعد پہلے مہینے میں نئی قیادت اور اس کی سیاسی و سفارتی سرگرمیوں کے بارے میں تشویش ناک خدشات پر قائم رہے۔
آج اس انٹرویو کے حصہ دوم میں ہم ان شاء اللہ سرزمینِ شام میں اس مرحلے پر مجاہدینِ اسلام پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں اور دمشق کی آزادی کے بعد افق پر نظر آنے والے اہم ترین اثرات پر روشنی ڈالیں گے اور اس صورتِ حال میں علماء و داعیانِ دین کو سونپی گئی امانت کے مطابق کیا کرنا چاہیے پر بات کریں گے۔ اور ہمیشہ کی طرح یہ گفتگو ہمیں شامی انقلاب کی تاریخ اور اس میں موجود اہلِ انقلاب سے متعلق مسائل کی طرف لے جائے گی۔ ہم اپنے مہمان استاذِ محترم ابو اسامہ عبدالعزیز الحلاق صاحب سے گزارش کریں گے کہ وہ ہمارے معزز قارئین اور آزاد مجاہدین کو وہ رہنمائی اور نصیحت فراہم کریں جسے آپ موجودہ مرحلے کے لیے مناسب ترین سمجھتے ہیں۔
لہٰذا ہم قارئین کرام کو اور استاذِ محترم ابو اسامہ عبدالعزیز الحلاق صاحب کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ سخت اور بے تکلف سوالات کے لیے اپنا سینہ کھلا رکھیں اور ان سوالات کی بے باکی پر تنگی محسوس نہ کریں اور مجھے شام میں جہاد کے مستقبل کے بارے میں بات جاری رکھنے کی اجازت دیں۔ پس شام کی آزادی کے دوران برپا ہونے والے معرکۂ ’ردع العدوان‘ سے حاصل شدہ اہم فوائد کے بارے میں ہمیں آگاہ فرمائیےاور یہ بھی بیان کیجیے کہ ’طوفان الاقصیٰ‘ اور ’ردع العدوان‘ کی لہروں سے پیدا ہونے والے سنگین نتائج و اثرات کیا ہوں گے؟
استاذ عبدالعزیز الحلاق: وعلیکم السلام ورحمۃ الله وبركاتہ، میرے پیارے بھائی! اللہ آپ کو برکت عطا کرےاور اپنے پسندیدہ کاموں کی طرف آپ کی رہنمائی فرمائے اور آپ کو اس مہمان نوازی اور حسنِ ظن کا بہترین بدلہ عطا فرمائے، میں اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ وہ مجھے اور آپ کو اپنے قول و عمل میں راست باز اور دیانت دار بننے کی توفیق عطا فرمائے اور مجھے، آپ کو اور قارئین کو اپنے پرہیزگار بندوں میں شامل فرمائے، آمین، آمین۔
جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ، اور اصل علم تو اللہ تعالیٰ کو ہے، معرکۂ ’ردع العدوان‘ سے حاصل شدہ اہم ترین فوائد اور مثبت پہلوؤں کا ادراک شامی جہاد کے قیام اور اس کے احیا کی وجوہات کو جان کر ہی کیا جا سکتا ہے اور اس طرح ہم اس کا موازنہ عصری جہاد کی دیگر تحریکوں کے احیا، مثلاً عراقی، افغان، صومالی جہاد وغیرہ، سے کر سکتے ہیں۔ پس جہادِ عراق و افغانستان ایک کافر دشمن کے خلاف جہاد تھا، ایک ایسا دشمن جس کا کفر پوری امت کے سامنے واضح تھا اور اس کافر دشمن کے خلاف امت کے علماء کی تحریض و ترغیب واضح، فیصلہ کن اور مضبوط تھی اور یہ جمہور امتِ مسلمہ کے نزدیک ایک اسلامی و عوامی اجماع کی مانند تھا۔
تاہم جہاں تک شامی انقلابی جہاد کا تعلق ہے تو یہ ہمارے عوام کی طرف سے ایک استبدادی کافر حکومت کے خلاف جہاد تھا جو اگرچہ اسلامی حکومت ہونے کا دکھاوا کرتی تھی لیکن شرعی لحاظ سے دین سے مرتد حکومت تھی اور آج مسلم ممالک پر مسلط زیادہ تر حکومتوں میں یہی خصوصیت پائی جاتی ہے کہ وہ حکومتیں دین سے مرتد ہو چکی ہیں، اسی وجہ سے اس مرتد دشمن کے خلاف علمائے امت کی تحریض و ترغیب، جہادِ عراق و افغانستان کے مقابلے میں نہ صرف کمزور ترین ہے بلکہ بعض نے اسے جہادِ فی سبیل اللہ کے بجائے فتنہ اور اندرونی خانہ جنگی سمجھ لیا ہے۔ جبکہ امت کے بہت سے علماء و مشائخ اور داعیانِ دین نے اسے شرعی قتال اور جہادِ فی سبیل اللہ قرار دیا ہے اور یہ شرعی و فقہی لحاظ سے صحیح ترین فیصلہ ہے۔
اسی وجہ سے شامی جہاد نے ہمارے مسلم ممالک کے بیشتر ظالم و جابر طواغیت کو پریشان کر دیا ہے، بالکل اسی طرح جیسے عرب بہار کے انقلابات نے انہیں پریشان کیا تھا۔ چنانچہ اسلام دشمنوں کی اکثریت، شامی جہاد کی کامیابی کو، پورے عالمی نظام کے لیے ایک وجودی خطرہ قرار دیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس جہاد کی شرعی حیثیت، خود دمشق کی آزادی سے کہیں زیادہ خطرناک ہے کیونکہ اس جہاد کی کامیابی جہادِ فی سبیل اللہ کے نعرے کے تحت اور مجاہدین کے نام پر ہو گی جو مقامی طواغیت کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں اور یہ جہادی کامیابی ان فکری جڑوں اور مادی بیجوں کے ذریعے ہو گی جو تنظیم القاعدہ کا قافلہ خطے کے قلب میں لے کر آیا تھا۔
آج جب آپ خطے کے ایک ظالم و جابر حکمران کو شامی انقلاب اور دمشق کی آزادی کے بعد شام کی نئی انتظامیہ کے رہنماؤں کی تعریف کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو جان لیں کہ وہ جابر اس حقیقت کا ادراک کیے بغیر، مقامی طاغوت حکمرانوں کے خلاف اس قسم کی انقلابی فکر اور جہادِ فی سبیل اللہ کی جڑوں کی شرعی حیثیت کو تسلیم کرتا ہے یا اس جہادی حقیقت کے دباؤ کے سامنے جھک کر اسے قبول کرتا ہے جس نے کسی سے اجازت لیے بغیر خطے کے طول و عرض پر خود کو مسلط کیا تھا۔ اس منفرد قسم کے عظیم جہاد میں یہ امر بہت اہم ہے کہ ایسے جہاد سے دہشت گردی کے لیبل کو ہٹانے میں مسلم ممالک پر مسلط مقامی طاغوت حکومتوں کی حیثیت جانچی جائے گی اور بین الاقوامی قانونی نظام کی صلاحیت میں نمایاں تبدیلی کی حد کا جائزہ لیا جائے گا۔ کیونکہ یہ بین الاقوامی برادری کے اس طریقہ کار میں ایک بڑی تبدیلی ہے جس کے تحت وہ اس رجحان سے نمٹتی ہے جسے ہم ’’مرتد و جابر طواغیت کے خلاف قتال اور معاصر صلیبی ایجنٹوں کے خلاف مسلح جدوجہد‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ پس یہ واضح انقلاب و بغاوت، علماء، حکومتوں اور بین الاقوامی نظام کی جانب سے انقلابات کو قبول کرنے اور ہماری اسلامی دنیا کی دیگر ظالم و جابر حکومتوں کی رخصتی اور ان کا تختہ الٹنے میں ایک جہت کا اضافہ کرے گی۔
میرے پیارے بھائی! میں کبھی یہ توقع نہیں رکھتا تھا کہ ’طوفان الاقصیٰ‘ اور ’ردع العدوان‘ کی لہروں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بڑے اور خطرناک نتائج پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے اور ’طوفان الاقصیٰ‘ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معرکۂ ’ردع العدوان و الطغیان‘ کی لہریں، خطے کی دیگر تمام جابر حکومتوں اور استبدادی نظاموں کو نگل جائیں گی۔ پس ہر چیز کے واقع ہونے کا ایک وقت ہے، اچھائی ناگزیر ہے اور صبح قریب ہے، تو کہاں ہیں انتظار کرنے والے!
ادارہ النازعات:استاذِ محترم! شام کے مجاہد نوجوان بہت سے باغیانہ سوالات کے بارے میں سوچ رہے ہیں، شامی جہاد کے میدان میں ان باغیانہ سوالات میں سے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس مرحلے پر ہماری ذمہ داری کیا ہے اور اس وقت ہم پر کیا واجب ہے؟ تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اہلِ علم پر اور اہلِ دعوت و جہاد فی سبیل اللہ پر اس مرحلے کی ذمہ داری کیا ہے اور اس وقت ان پر کیا واجب ہے؟ آپ کے خیال میں تنظیم القاعدہ کے سابق شیوخ، اگر ہمارے ساتھ دمشق میں مجاہدین کی فتح اور اس کی آزادی کا مشاہدہ کرتے، تو ان کی کیا سفارشات ہوتیں؟
استاذ عبدالعزیز الحلاق: مجھے یقین ہے کہ اس مرحلے کے فرائض و واجبات بہت عظیم اور بہت کثیر ہیں اور ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ٹھوس اور مربوط کوششوں، زیادہ عالی ہمت اور سچے عزم کی ضرورت ہے، ان میں سے اہم ترین واجبات درج ذیل ہیں:
اللہ کی توحید کی طرف دعوت دینا اور اللہ کے بندوں کو اس کے قریب لانا، ان کے دلوں میں اللہ کے کلام، قرآنِ مجید اور اس کے رسول ﷺ کی سنت کی محبت کو پیوست کرنا، کلمۂ توحید یعنی’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘ کے معنی کو واضح کرنے کا اہتمام کرنا، اسلامی عقائد و نظریات کی وضاحت کرنا، لوگوں کو ہر قسم کے شرک اور اس کے مختلف داخلی راستوں سے خبردار کرنا، خاص طور پر عبادت اور حاکمیت میں شرک کے خلاف متنبہ کرنا اور اپنی ذات پر، اپنے معاشروں اور اپنے نظام ہائے حکومت میں شریعتِ اسلامیہ کو نافذ کرنے سے توحید فی الحاکمیت کی ضرورت کے کامل ہونے کو بیان کرنا۔ اور یہ سب نہایت نرمی اور محبت سے بھرے انداز میں پیش کرنا تاکہ لوگ دین سے اور خیر کے کاموں سے متنفر نہ ہوں اور اس معاملے میں شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے عوامی رائے عامہ کو مدنظر رکھنا اور عوامی ذوق کی رعایت رکھنا۔
قرآنی عقیدے پر مبنی معاشرے کی تعمیر کے لیے کام کرنا جو جہادی زندگی کی تکالیف و مشکلات برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، جو غزہ کے معاشرے کی طرح ہو۔ اگر ہم شام میں اپنے عوام کی اکثریت کو اہلِ غزہ کے مقبول بیانیے کی سطح پر لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو میرے خیال میں یہ شام کے اسلامی منصوبے کے لیے ایک بہت بڑی اور شاندار کامیابی ہو گی۔
شام کے عوام کی بالعموم اور شام کی نئی فوج کی بالخصوص روحانی اور عسکری تربیت پر توجہ دینا، کیونکہ یہ مرحلہ دعوت، تیاری، تعلیم، اور اس کے ساتھ ساتھ عسکری، ایمانی اور جہادی تعمیر کا مرحلہ ہے اور عوام و خواص کے دلوں میں توحید کے تصور کو مضبوط کرنے، انہیں زہد و قناعت، شجاعت، جاں نثاری، قربانی اور انغماسی و استشہادی تعلیم و تربیت دینے کا مرحلہ ہے یہاں تک کہ شامی معاشرہ شام کے اسلامی نظامِ حکومت کا دفاع کرنے، مجاہدین کی کفالت، حفاظت اور ان کی مدد و نصرت کرنے، ان کے اہل خانہ، بیواؤں اور یتیموں کے معاملات کی دیکھ بھال کرنے اور اپنی سرزمین میں آئندہ آنے والی عظیم جنگوں کی تکالیف و مصائب اور اخراجات برداشت کرنے کے قابل ہو جائے۔ اور یہاں پر نئی شامی انتظامیہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ عوام کو مسلح کرنے اور ہتھیاروں کو محض ریاست تک محدود نہ کرنے پر توجہ دے، اپنے عوام کو، خطے میں بالعموم اورشام میں بالخصوص، صہیونی – صلیبی خطرے اور اس کے عزائم کے بارے میں آگاہ کرے اور خطے کے لوگوں کو ان عظیم جنگوں میں مشغول ہونے کے لیے تیار کرے جو لامحالہ عظیم تر شام (یعنی سوریہ، اردن، فلسطین اور لبنان) کی سرزمین میں رونما ہوں گی۔
ریاست کو زراعت اور معیشت میں مضبوط کرنے کی تیاری کی جائے تاکہ وہ خودمختار اور باعزت مستقبل رکھے، اپنے اصولوں پر قائم رہے اور عالمی نظام کی لومڑیوں کی جانب ہاتھ نہ پھیلائے۔
اس ظالمانہ و غیر منصفانہ عالمی نظام سے بدلہ لینے اور اسے اور اقوام متحدہ کو طویل المدتی طور پر آہستہ آہستہ کمزور کرنے کے لیے مستقبل کے کام کی منصوبہ بندی کی جائے جس عالمی نظام نے شامی عوام کے مصائب و آلام پر اپنی رضامندی ظاہر کی۔ عظیم تر شام کو خصوصاً اور امتِ مسلمہ کو عموماً تمام بیرونی غاصبوں اور مقامی جابر حکمرانوں سے آزاد کرانے کی کوشش کی جائے اور ساتھ ساتھ جہاد کے دیگر میدانوں میں برسرِ پیکار مجاہدین کی مدد کی جائے، خاص طور پر وہ لوگ جنہیں انہی دشمنوں کا سامنا ہے جو شامی انقلاب کے دشمن تھے تاکہ وہ دشمن اپنی صفوں کو دوبارہ ترتیب نہ دے سکیں اور شام کے میدان میں دوبارہ واپس نہ آ سکیں۔
جہاں تک تنظیم القاعدہ کے سابق شیوخ کی سفارشات کا تعلق ہے، اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ انہوں نے دمشق میں مجاہدین کی فتح اور اس کی آزادی کو ہمارے ساتھ دیکھا ہے تو مجھے یقین ہے کہ عرب بہار کے انقلابات کے آغاز میں پیش کیے گئے ان کے الفاظ اور مشورے اب بھی نافذ العمل ہیں۔ تاہم، میرے خیال میں اگر وہ آج ہم میں موجود ہوتے تو ذیل میں بیان کی گئی تین اہم ترین نصیحتوں پر زور دیتے:
پہلی نصیحت:
مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مجاہد نوجوانوں کے لیے، تنظیم القاعدہ کے سابق شیوخ کی دعوت، شام کی نئی قیادت کے ساتھ تعامل میں صبر و تحمل، غور و فکر اور نرمی و مہربانی سے پیش آنے کی دعوت ہوتی، صرف یہی نہیں بلکہ انہیں ان کی بات سننے، اطاعت کرنے اور ان کے حق میں نیکی کی نصیحت کرنے اور خیر، راستبازی اور تقویٰ کے کاموں میں ان کے ساتھ تعاون کرنے کی دعوت ہوتی اور انہیں حکمت و بصیرت کے ساتھ حق کی طرف بلانے، انہیں نیکی کا حکم کرنے اور برائی سے منع کرنے کی دعوت ہوتی۔ کیونکہ ان دِنوں، شام کی نئی قیادت کو خدا کی یاد دلانے اور اللہ کی نعمتوں کا تذکرہ کرنے اور اللہ کی سنت کی طرف متوجہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ انہیں گزرے ہوئے کل کے تجربات سے سیکھے گئے اسباق اور ان سے حاصل شدہ حکمت کی باتوں سے نرمی سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ علماء، داعیانِ دین اور طالب علموں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس اہم کام کو سرانجام دیں۔
اور نوجوانوں کے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ دمشق کی آزادی اور شامی انقلاب کی اس کے کچھ دشمنوں پر فتح، اہلِ علم و فقہ اور اہلِ دانش کے نزدیک، اسلام اور مسلمانوں کے لیے حال میں اور مستقبل میں بہت بڑی بھلائی شمار ہوتی ہے اور یہ وہ صورتِ حال ہے جس میں آج ہم شام کی سرزمین پر زندگی گزار رہے ہیں، اگرچہ یہ وہ کامل صورت نہیں ہے جس کی ہم نے تمنا کی تھی اور جس کا تصور ہمارے ذہنوں میں تھا، سوائے اس کے کہ شر اور برائی کا تھوڑا بہت خاتمہ ہوا ہے، ایک ایسی چیز جس سے مومن کے لیے کسی قدر آسانی ہوتی ہے اور اسے خوشی میسر آتی ہے۔ اس کے باوجود کہ ہم مستقبل میں جس چیز کی امید رکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ قدم، ان شاء اللہ، آنے والی خیر کا تعارف ہے اور عظیم دروازے کے کھولنے کا ذریعہ ہے۔
اور ان کے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ یہ فتوحات ان مجاہدین کے خون کی پیداوار ہیں جنہوں نے مدافعت، جہاد اور ظلم کے خلاف مزاحمت کے جذبے کو زندہ کر کے ان انقلابات کو قائم کرنے میں حصہ لیا، پس جو شخص شام میں فاتحین کی جڑوں کو نہیں دیکھتا اور جہاد کے بیج پر اور اس فتح میں مجاہدین کے خون سے حاصل شدہ ثمر پر توجہ نہیں دیتا، وہ خود کے سوا ہر چیز سے اندھا اور راستے سے بھٹکا ہوا ہے۔ اور نوجوانوں کو پلک جھپکنے کے بقدر بھی شک نہیں ہونا چاہیے کہ ان شاء اللہ ان تبدیلیوں اور فتوحات سے سب سے زیادہ مستفید ہونے والی تو امتِ مسلمہ ہی ہے اور پھر مخلص مجاہدین اور داعیانِ دین ہی ان فتوحات سے استفادہ حاصل کرنے کے اہل اور سب سے پہلے اس عام فائدے میں داخل ہونے والے ہیں۔
شیخ عطیۃ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہم نوجوانوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ معاملات کی اچھی سمجھ بوجھ رکھیں، تنگ نظری، تناؤ اور عجلت پسندی سے دور رہیں اور مختلف اسلام پسند جماعتوں کے کارکنان مثلاً تونس میں ’’النہضہ‘‘ یا دیگر بھائیوں کے ساتھ تنازعات میں نہ پڑیں بلکہ تعمیری کاموں کی تیاری کا آغاز کریں۔ اپنی دعوت میں نرمی و مہربانی، اچھے اخلاق کی پابندی، لوگوں کے لیے سینے کی کشادگی اور ان کی سمجھ بوجھ میں فرق ملحوظ رکھیں اور یاد رکھیں کہ ہماری امت مشکل اور پیچیدہ مراحل سے گزر رہی ہے اور اس نے ابھی اس زوال کی حالت سے اوپر اٹھنے اور باہر نکلنے کی کوشش شروع کی ہے جس میں وہ دہائیوں بلکہ صدیوں سے کھڑی ہے!
نوجوانوں کو شعور کی اس سطح پر ہونا چاہیے جس کی ضرورت ہے اور یہ سب صفات، دین کے لیے جدوجہد اور اس کے لیے غیرت و حمیت اور حق بات بیان کرنے اور منہج کو واضح کرنے سے متصادم نہیں ہیں۔‘‘
بلکہ انہوں نے اس میں ان خوبیوں کو بھی شامل کیا ہے جن کا ہم نے اوپر تذکرہ کیا ہے:
’’نرمی و مہربانی، کامل آداب و اخلاق اور تمام مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں ہمدردی، رحمت اور احسان جیسی صفات کو غالب رکھنا۔ یہ اپنا اصول بنا لیں: میں اچھائی اور نیکی کر سکتا ہوں، میں حق بات کر سکتا ہوں اور سچ بول سکتا ہوں، لیکن پورے ادب اور شائستگی کے ساتھ۔ اور میں فسادی و انتشاری مسائل سے بچ سکتا ہوں۔ اور جان لو ، اللہ تمہیں برکت دے، کہ حق کے درجے ہیں۔ جن میں سے بعض کو قول و فعل میں کسی بھی حالت میں چھوڑا نہیں جا سکتا جبکہ بعض کو مخالفت یا رکاوٹ پر چھوڑا جا سکتا ہے (جسے عذر کہتے ہیں)، پس اسے خوب سمجھ لو۔ اور اپنے دلوں کو نفع بخش علوم کو سمجھنے اور شعور و سمجھ کی سطح کو بلند کرنے کے لئے کھلا رکھو۔‘‘1عطية الله، ثورة الشعوب وسقوط النظام العربي الفاسد: كسر صنم الاستقرار والانطلاقة الجديدة، ضمن الأعمال الكاملة» (۸۳٨/٢).
دوسری نصیحت:
تنظیم القاعدہ حضرات نوجوانوں کو دعوت دیتے کہ وہ اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اللہ کے دین کی تبلیغ کریں، توحید و جہاد کی دعوت پھیلائیں اور ملک کی تعمیر و ترقی اور لوگوں کی خدمت کے لیے ریاستی اداروں میں شامل ہو جائیں اور اپنی انتظامی، سیاسی، میڈیائی، عسکری اور معاشی مہارتوں اور صلاحیتوں کو اس جہاد کا ایک اہم معاون بننے کے لیے تیار کریں جو ایک دن ان شاء اللہ بیت المقدس کو فتح کرے گا اور اس سرزمین کو ناپاک صہیونیوں سے پاک کرنا شروع کر دے گا اور اسی طرح جامع تیاری کے میدان میں کام کرنے والے اپنے تمام بھائیوں کو محفوظ بنائیں۔ ریاست کی بنیادوں میں منہجِ حق اور صحیح نظریات رکھنے والوں کی موجودگی پورے خطے میں اسلام کی حمایت کے لیے کام کرنے والے نوجوانوں کو تحفظ فراہم کرنے میں بہت اہمیت کی حامل ہے۔
شیخ عطیہ اللہ فرماتے ہیں:
’’آج امتِ مسلمہ کے مصلحین، مجاہدین اور داعیانِ دین کو اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اس انقلاب کے بعد کے حالات میں حاصل شدہ آزادیوں اور مواقع کی روشنی میں اور بہت سی رکاوٹوں کے خاتمے اور بہت سی پابندیوں کے ٹوٹنے کے بعد انتھک دعوتی، تعلیمی، تربیتی، اصلاحی اور احیائی کاموں کا آغاز کرنا چاہیے۔‘‘2عطية الله، ثورة الشعوب وسقوط النظام العربي الفاسد: كسر صنم الاستقرار والانطلاقة الجديدة، ضمن الأعمال الكاملة» (۸۳٨/٢)
تیسری نصیحت:
وہ مجاہد نوجوانوں پر زور دیتے کہ وہ موجودہ مرحلے کا صحیح فہم حاصل کریں اور موجودہ حالات کو باریک بینی سے سمجھیں، اس مرحلے کے فرائض، واجبات اور مستحبات کا ادراک کریں اور اس میں مطلوب عمومی تفقہ حاصل کریں، پس آج شام میں جو کچھ حاصل کیا گیا ہے وہ جزوی فتح اور آزادی ہے، مکمل نہیں، اور جو کچھ حاصل کیا گیا ہے وہ کچھ لازمی اہداف و مقاصد ہیں، مکمل یا اکثر نہیں، اس وجہ سے انقلابی سفر ابھی طویل ہے اور انقلاب ابھی ختم نہیں ہوا اور ابھی تو جہاد شروع ہوا ہے۔ اگر سوریہ کی نئی انتظامیہ، بین الاقوامی برادری اور مغربی تسلط کے تئیں ضعف اور منہج کی کمزوری سے دوچار ہے تو علماء، داعیانِ دین، تمام مجاہدین اور ان کے پیچھے موجود شامی عوام کو اس گھناؤنی کمزوری اور وہن کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ انہیں حق بات بیان کرنے میں سخت ہونا چاہیے اور صحیح منہج کو واضح کرنا چاہیے۔ اللہ رحم فرمائے شیخ عطیہ اللہ پر جنہوں نے فرمایا:
’’القاعدہ کسی بھی قسم کی تبدیلی کی خواہاں نہیں، سوائے اس کے کہ وہ جزوی، مرحلہ وار اور حکمت عملی پر مبنی ہو، اور وہ جانتی ہے کہ یہ تبدیلی جزوی اور مرحلہ وار ہے، کیونکہ مطلوبہ کامل تبدیلی ممکن نہیں، ’القاعدہ‘ ایک حقیقی، بنیادی اور انقلابی تبدیلی کی خواہاں ہے، جس کا نتیجہ ایک ایسی صورتحال ہو جہاں اللہ کا کلمہ سب سے بلند ہو اور اللہ کی شریعت واحد حاکم اور غالب ہو، جس میں امتِ مسلمہ کی آزادی، عزت اور وقار صرف اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے تحت حاصل کیا جائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ دین پورے کا پورا صرف اللہ کے لیے ہو اور حاکمیت بھی صرف اللہ ہی کے لیے ہو اور یہی اسلامی سلطنت کا وہ مفہوم ہےجو القاعدہ اور تمام مجاہدین کے یہاں مطلوب ہے۔ پس یہ تونس اور مصر کے انقلابات کا معاملہ ہے: اگر ان کی نیت اور ارادہ درست تھا تو انہوں نے وہ حاصل نہیں کیا جو وہ چاہتے تھے، نہ ہی وہ حاصل کیا جو القاعدہ چاہتی تھی۔لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ القاعدہ نے جو کچھ یہ چاہتے تھے اس کے حصول میں ان شاء اللہ مدد کی، اور اس راہ کی بنیاد رکھنے اور سہولت فراہم کرنے میں حصہ ڈالا۔ اسی طرح القاعدہ نے ان انقلابات کی بنیاد رکھنے اور ن کے لیے زمین تیار کرنے میں مدد کی، امت کے عوام میں خوف کی رکاوٹ کو توڑنے، مزاحمت کی روح پھونکنے اور ظلم اور ظالموں کے خلاف انکار اور عزت نفس کی قوت کو زندہ رکھنے کے ذریعے، اس کے علاوہ بھی کئی ذرائع اور وسائل کے ذریعے، جن پر اگر بات کی جائے تو بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ پھر ایک بہت اہم عامل کے ذریعے، یعنی: امریکہ کو غیر جانبدار کرنا اور اسے براہ راست اثر و رسوخ اور سامراجی تسلط کے دائرے سے نکالنا۔
اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کے اس گروہ کی برکت سے اس امت کو بہت کچھ عطا کیا ہے، اللہ انہیں جزائے خیر دے اور ان کی مدد فرمائے، اور یہ ان کے حق میں ایک بہتر آزمائش ثابت ہوئی کہ انہوں نے عراق، افغانستان اور باقی دنیا میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور اس پر اس قدر ذلت، رعب اور خوف مسلط کر دیا کہ وہ دیگر تکلیف دہ مسائل، جنگوں، تنازعات اور اضافی اخراجات میں مبتلا ہو گیا، ورنہ امریکہ، عرب بہار کے انقلابات کو پہلے دن سے کھڑا دیکھتا نہ رہتا بلکہ تیونس یا مصر میں فوجی طاقت کے ذریعے مداخلت ضرور کرتا۔
جب امریکہ کا تکبر، رعونت اور سامراجی عزائم عروج پر تھے عین اس وقت مجاہدین نے، اللہ کے فضل سے، پہلی بار اس کو ذلت و رسوائی کا مزہ چکھایا یہاں تک کہ وہ زبانِ حال ہے کہنے لگا: ’آنکھ بصیرت افروز ہے لیکن ہاتھ چھوٹا ہے‘ (یعنی خواہش و ادراک کے باوجود بے بس اور مقصد حاصل کرنے میں ناکام ہو چکا ہوں)، جیسا کہ کسی زمانے میں امتِ مسلمہ کا حال تھا۔ پس تمام تعریف اللہ ہی کے لیےہے۔ انصاف پسند لوگوں اور حق اور سچائی کو تسلیم کرنے والوں کے نزدیک یہ مجاہدین کی ایک بہت بڑی خوبی اور کامیابی ہے۔
میں واپس آتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ہم ان انقلابات کی حمایت اس وجہ سے کرتے ہیں کہ ان میں خیر کا پہلو ہے جس کا میں نے اوپر چند جملوں میں ذکر کیا ہے، اور اس لیے کہ یہ ایک ایسا مرحلہ ہے جس کی ہمیں امید ہے کہ اس کے بعد خیرِ کثیر پھیلے گی، اور اسی وجہ سے القاعدہ ان میں شامل ہے جو، اللہ کے فضل و کرم سے، ان انقلابات سے سب سے زیادہ خوش اور سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے ہیں۔ پس دشمنوں کو اپنے غصے میں مرنے دو۔
اور اسی وجہ سے میں نے اس کے ابتدائی لمحات سے ہی اس کی حمایت کی اور اس کے ساتھ چلا۔ اور اس میں موجود دھندلاہٹ اور ابہام کے باوجود امت کی خوشی میں شرکت کی، جس سے ہم بے خبر نہیں ہیں، البتہ غائب ہیں۔ کیونکہ القاعدہ امت کی بھلائی اور خیر چاہتی ہے اور جتنا ہو سکے اس سے چھوٹے بڑے نقصان کو دور کرنا چاہتی ہے، اسی لیے القاعدہ کو قائم کیا گیا ہے۔ اس امت کو حاصل ہونے والی کوئی بھی بھلائی ہو، القاعدہ اس کے ساتھ ہے اور اس سے خوش ہوتی ہے اور اس کی مخالفت نہیں کرتی۔ القاعدہ اس بات کی متقاضی نہیں ہے کہ اسی کے ہاتھوں خیر جاری ہو اور وہی نیکی کہلائی جائے اور اسے قبول بھی کیا جائے، بلکہ القاعدہ کا مقصد خیر، نیکی اور راستبازی کا حصول اور حق، عدل و انصاف، رحمت اور احسان کو غالب کرنا ہے اور یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی شریعت کی حاکمیت ہی کے تحت اپنی کامل شکل میں وقوع پذیر ہو سکتی ہے اور ایک حقیقی اسلامی سلطنت کے زیرِ سایہ ہی ممکن ہے جس کا قیام ہم اپنے تمام ممالک میں چاہتے ہیں، چاہے کافروں کو برا ہی کیوں نہ لگے! چونکہ زیادہ تر مطلوبہ بھلائی حاصل کرنا کسی خاص مرحلے پر ممکن نہیں ہوتا، لہذا ہم اس میں سے کچھ خیر کو مقدور حد تک حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ‘‘3عطية الله الثورات العربية وموسم الحصاد، ضمن الأعمال الكاملة».(۸۷۳-۸۷۱/۲)
مجھے ان نصائح کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ایسے حالات میں تنظیم القاعدہ کے سابق رہنما اپنے مجاہد بیٹوں کو ایسی ہی نصیحتیں کرتے۔ میں یہاں اپنے نوجوان بھائیوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ عرب بہار کے انقلابات کے آغاز میں جاری کیے گئے شیخ اسامہ بن لادن کے آخری بیان کی طرف رجوع کریں، نیز ان انقلابات کے بارے میں شیخ عطیہ اللہ اللیبی اور شیخ ابو یحیی اللیبی کا انٹرویو پڑھیں، اور شیخ ابراہیم الربیش کی ایک منفرد تقریر بھی ہے جس کا عنوان ہے ’الثورات وموسم الحصاد‘ (انقلابات اور فصل کی کٹائی کا موسم)۔ اور شیخ البلیدی کے بیانات بھی کم اہم نہیں ہیں۔ یہ سب بیانات و تقاریر بہت اہم اور مفید نصائح اور رہنما اصولوں پر مشتمل ہیں، والله تعالى أعلم۔
ادارہ النازعات: میرے محترم استاذ، جو لوگ شام کے جہاد کے واقعات اور انقلاب کے تیرہ سالوں میں اس کے اتار چڑھاؤ کا نقشہ دیکھتے ہیں، انہیں محسوس ہوتا ہے کہ یہ بہت ہی پیچ دار اور مسخ شدہ ہے، خاص طور پر تنظیم القاعدہ سے ’’فك الارتباط‘‘ (تعلق توڑنے) کے مرحلے کے بعد۔ آپ کی رائے میں، کیا ہم دمشق کی آزادی کے بعد بھی نئے تیز موڑ اور خم دیکھیں گے، اور مستقبل قریب میں شام میں جہاد کا مستقبل کیا ہے؟
استاذ عبدالعزیز الحلاق: میرے پیارے بھائی! آئیے ہم بصیرت سے کام لیں اور حق کی خاطر غیر جانبدار رہیں، تاکہ شام میں اپنے عوام کی فتح پر ہماری محبت اور خوشی، حق بات میں شام کی نئی انتظامیہ کے لیے ہماری حمایت، دین و منہج کے لیے ہماری غیرت و حمیت اور جدوجہد اور حق بات کو واضح کرنے اور صحیح منہج کو وضاحت کے ساتھ بیان کرنے میں کوئی تضاد نہ ہو۔ یہاں میں آپ کو پوری صراحت کے ساتھ بتانا چاہوں گا کہ ہماری معاصر دنیا میں تمام گروہ بندیوں، تشکیلات اور صف بندیوں کے درمیان ’’نئی صف سے تعلق جوڑنے کا معاہدہ‘‘ کیے بغیر ’’پرانی صف سے تعلق توڑنے‘‘ جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ اس لیے، جب کوئی ذہین شخص گلوبلائزیشن کے بعد کی دنیا میں کسی بھی فریق کے بارے میں ’’پرانی صف سے تعلق توڑنے‘‘ کی خبر سنے گا، تو وہ فوری طور پر ’’نئی صف سے تعلق جوڑنے والے معاہدے‘‘ کی تلاش کرے گا اور یہ کہ کس فریق نے اسے حاصل کیا۔
میں جانتا ہوں کہ نئی شناخت اور اس منصوبے کے بارے میں پہلے بہت کچھ کہا جا چکا ہے جس سے شام کی نئی انتظامیہ کی قیادت نے اپنا تعلق جوڑا، اور آج یہ بہت سے لوگوں کو معلوم ہے۔ لیکن سب سے خطرناک بات اس تعلق کو تیزی سے مستحکم کرنے اور اسے اس منصوبے اور اس کے علاقائی آلات کے ساتھ ایک اسٹریٹیجک اتحاد میں تبدیل کرنے کی حیرت انگیز رفتار ہے۔
لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ شام میں جہاد کا مستقبل طویل عرصے سے انتہائی مشکل اور پیچیدہ مراحل میں داخل ہو چکا ہے اور میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ شام میں جہاد کے مستقبل کا تعین اور منصوبہ بندی 2006 ء سے کی گئی ہے، یعنی شامی جہاد اور شامی انقلاب کے آغاز سے بہت پہلے۔ اور اگرچہ صہیونی – صلیبی مغرب نے ’معتدل جمہوری اسلام‘ کا اپنا تصور تیار کیا جسے وہ قبول کر سکتے ہیں اور اس کے ساتھ گزارہ سکتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے اس فریم ورک میں ’اعتدال پسند جمہوری جہاد‘ کا اپنا تصور بھی پیش کیا، جس کے ساتھ وہ گزارہ سکتے ہیں اور اسے قبول کر سکتے ہیں۔ رینڈ کارپوریشن کی جانب سے 2006ء میں اینجل رباسا (Angel Rabasa) کی نگرانی میں شائع ہونے والی ایک بڑی تحقیق کا عنوان تھا: ’’القاعدہ سے آگے‘‘ (Beyond Al-Qaeda)۔ اس مقالے پر غور کرنے سے ہمیں ان باتوں کی صداقت کا ادراک ہو گا جو میں نے اوپر بیان کی ہیں، کیونکہ دو بڑی جلدوں میں شائع ہونے والا یہ مقالہ ایک درست نقشہ کھینچتا ہے اور شام کے جہاد کے مستقبل کے لیے اس کے تمام واقعات اور موڑوں اور آج کے حالات کے بارے میں بہت اچھی طرح سے منصوبہ بندی کرتا ہے۔ میرے الفاظ کی صداقت پر شک کرنے والے کے لیے اس مقالے کا بغور مطالعہ کافی ہو گا جس میں شام کے مستقبل کے بارے میں ان کی منصوبہ بندی اور اس کے عملی نفاذ میں ہم آہنگی کی حد کا ادراک کیا جا سکتا ہے۔
صہیونی – صلیبی مغرب کے زیر تسلط عالمی نظام گزشتہ دو دہائیوں سے ’’اعتدال پسند مسلمانوں کے نیٹ ورکس‘‘ کی تعمیر اور ’’مہذب جمہوری اسلام‘‘ (Civil Democratic Islam) کو مستحکم کرنے میں کامیاب رہا اور موجودہ دہائی کے آغاز تک مغرب نے ’’مہذب اعتدال پسند جہادی تنظیموں‘‘ (Moderate Civil Jihadist Organizations) کی تشکیل میں بہت بڑی کامیابیاں حاصل کیں ہیں اور مغرب، بعض جہادی تحریکوں پر اپنے رجحانات اور خواہشات مسلط کرنے میں بھی کامیاب رہا ہے۔ انہیں اس منہج اور راستے سے، جسے مغرب پسند نہیں کرتا، ہٹا کر اس نہج پر ڈال دیا ہے جسے وہ قبول کر سکتا ہے اور اس کے ساتھ گزارہ کر سکتا ہے۔ نیز صہیونی – صلیبی مغرب ان تنظیموں پر اپنا یہ وژن اور نقطۂ نظر مسلط کرنے میں بھی کامیاب ہوا کہ وہ دشمن کون ہے جس سے ’’اعتدال پسند جہادی تحریک‘‘ کو لڑنا چاہیے اور وہ دشمن جسے اعتدال پسند مجاہدین کو بے اثر کرنا چاہیے۔ پس مغرب نے اعتدال پسند مجاہدین کے لیے، اپنے معیارات کے مطابق، قابض دشمنوں کی ایک فہرست مقرر کر رکھی ہے جن کے خلاف وہ جہاد کرنے کی اجازت دیتا ہے، ان میں بشار الاسد، ایرانی – لبنانی حزب اللہ، ایران اور روس شامل ہیں۔ اس کے برعکس جہاں تک صہیونی و امریکی قبضے کا تعلق ہے تو وہ ان کے خلاف زبان، مال، ہاتھ اور نیزوں (بندوقوں) سے جہاد سے منع کرتا ہے اور انہیں غاصب و قابض صہیونی اور غاصب و قابض امریکی کہنے سے بھی منع کرتا ہے۔ پس یہاں سے شام کی جہادی قیادت کے درمیان ایک نیا، انتہائی منحرف اور بہت ہی گمراہ کن سیاسی تصور ابھرا ہے، اور وہ ہے غاصب و قابض (امریکی) رہنماؤں کو صدارت میں کامیابی پر مبارکباد دینا اور قابض (امریکی) ریاست کے لیے طاقت اور خوشحالی کی خواہش کا اظہار کرنا۔
یہ در حقیقت جہادی تصورات میں ایک بہت بڑا انحراف ہے، اسی لیے ایک طرف مجھے ان نوجوانوں پر بہت ترس آتا ہے جو جہاد سے محبت کرتے ہیں اور انہیں ان کے علم کے بغیر کھائی میں دھکیلا جاتا ہے، انہیں جنگوں کے لیے ایندھن اور لکڑی طور پر استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ وہ اپنے خلاف اور شام کے مبارک جہاد کے خلاف ہونے والی اندرونی و بیرونی سازشوں اور صہیونی – صلیبی مغرب کے منصوبوں سے واقف نہیں ہیں۔
جبکہ دوسری طرف مجھے اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین ہے اور اس بات پر بھی یقین ہے کہ یہ مبارک جہاد ان شاء اللہ بیت المقدس کی طرف رواں دواں ہو گا، کیونکہ شام صدق و وفا کا مرکز اور اسلام کا گہوارہ ہے، یہ اللہ کی پسندیدہ اور اس کی زمین میں سے چنیدہ جگہ ہے، جہاں وہ اپنے بندوں میں سے اپنی پسندیدہ اور چنیدہ ہستیوں کو لاتا ہے ۔ اللہ نے شام اور اس کے لوگوں کی ذمہ داری لی ہے، اور فرشتے اس پر اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیں۔ شام اور اہل شام کے حق میں یہی کافی ہے کہ ہمارے رسول ﷺ نے شام کے لیے برکت کی دعا فرمائی اور ہمیں خبر دی کہ منافقوں کے لیے یہاں کے مومنوں پر غالب آ جانا حرام ہے۔ آج، بحمد اللہ، ہم شام کو خالص برائی سے اچھائی میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں، لیکن اس کی خیر میں ابھی دھندلاہٹ ہے اور ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ شام میں ہمارے بھائیوں کے معاملات میں آسانی کے اسباب فراہم کرے اور ان کے کاموں میں درستی کا سامان مہیا فرمائے۔
شام میں جہاد کے مستقبل کے بارے میں، میری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ مستقبل میں شام میں جہاد کی حقیقی نشاۃ ثانیہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب اہلِ جہاد ایک ایسے دھارے اور خط میں صف بندی کر کے جمع ہو جائیں جو آپس میں مربوط ہو کر ایک دوسرے کو تقویت دیتا ہو اور جب میں ’الشام‘ کی بات کرتا ہوں تو اس سے میری مراد ہماری عظیم تر شام کی سرزمین یعنی موجودہ شام سے فلسطین، لبنان اور اردن تک ہے، میری معمولی رائے میں شام کے لوگ صرف اور صرف اپنے اتحاد اور ایک دوسرے کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کر کے ہی اپنے عظیم تر شام کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ شامی عقاب صرف اور صرف اپنے دو مربوط بازوؤں کے ساتھ ہی پرواز کر سکتا ہے:یعنی ’طوفان الاقصیٰ کا بازو‘ اور ’ردع العدوان‘ کا بازو۔
اس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ ’طوفان الاقصیٰ‘ نے ’ردع العدوان‘ کی کامیابی کے لیے خطے میں سیاسی اور عسکری حالات پیدا کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے، جیسا کہ شامی انقلاب کے بہت سے رہنماؤں نے اس بات کا اقرار کیا ہے۔ انہی میں سے ایک کمانڈر احمد الدالاتی ہیں جنہوں نے حال ہی میں ایم بی سی چینل پر اپنے انٹرویو میں یہی بات کہی ہے۔ لہذا ’طوفان الاقصیٰ‘ کے معماروں اور ’ردع العدوان‘ کے تخلیق کاروں کے درمیان ہم آہنگی، یکجہتی اور باہمی ربط سے کوئی مفر نہیں۔ اب یا تو ان دونوں کی صف بندی ایک دوسرے کے لیے خدمت گار اور مددگار ثابت ہو گی یا یہ کہ مستقبل میں ’طوفان الاقصیٰ‘ ’ردع العدوان‘ کو نگل جائے گا یا معاملہ اس کے برعکس ہو گا، جیسا کہ ’طوفان الاقصیٰ‘ کے معماروں کی صف بندی اور ایرانی منصوبے کے ساتھ ان کا اتحاد، اس رجحان کی سمت کو ظاہر کرتا ہے، پس جس سمت میں وہ بڑھ رہے ہیں وہ ’ردع العدوان‘ کے تخلیق کاروں کی صف بندی اور اتحاد سے متصادم ہے۔
اگر اللہ ان دونوں گروہوں کے لیے آسانی پیدا کرے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی اور تعاون کریں، بغیر اس کے کہ وہ قوم کے عزائم کے خلاف اتحاد کریں یا منصوبوں کی گود میں جا گریں ، تو شام کے جہاد کا مستقبل اللہ کے اذن سے کامیابی اور توفیق کی طرف گامزن ہو گا اور اس سلسلے میں، میں نئی شامی انتظامیہ میں اپنے بھائیوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ لبنان میں اپنے سنی بھائیوں کا خیال کریں، ان کی مدد کریں اور ان کی جہادی ترقی پر کام کریں تاکہ وہ ان کے لیے خطے میں ایک جہادی سہارا اور مدد گار بن جائیں۔ انہیں لبنان اور غزہ میں کتائب القسام کے بھائیوں کے ساتھ رابطے اور برادرانہ تعلقات کے پل بنانے پر توجہ دینی چاہیے اور لبنان میں شیعہ محاذ کے بجائے ایک لبنانی سنی محاذ بلکہ سنی حملہ آور محاذ کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ والله تعالى أعلم۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭
- 1عطية الله، ثورة الشعوب وسقوط النظام العربي الفاسد: كسر صنم الاستقرار والانطلاقة الجديدة، ضمن الأعمال الكاملة» (۸۳٨/٢).
- 2عطية الله، ثورة الشعوب وسقوط النظام العربي الفاسد: كسر صنم الاستقرار والانطلاقة الجديدة، ضمن الأعمال الكاملة» (۸۳٨/٢)
- 3عطية الله الثورات العربية وموسم الحصاد، ضمن الأعمال الكاملة».(۸۷۳-۸۷۱/۲)