نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے

بنگلہ دیش کے موجودہ منظر نامے کا جائزہ: مواقع اور ذمہ داریاں

صابر احمد بنگالی by صابر احمد بنگالی
10 جولائی 2025
in حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے, جولائی 2025
0

اللہ تعالیٰ کا شکر و احسان ہے کہ بنگلہ دیش کی عوام نے گزشتہ سال ایک عوامی طلبہ تحریک کے ذریعے شیخ حسینہ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اس تحریک میں دو ہزار مظاہرین شہید ہوئے، جبکہ پچاس ہزار سے زائد زخمی ہوئے، جن میں سے بعض افراد مستقل طور پر معذور ہو گئے۔

ان عظیم قربانیوں کے نتیجے میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ یہ واقعات اور تبدیلیاں مکمل انقلابی نوعیت کی نہیں تھیں، کیونکہ نہ تو دستور میں کوئی بنیادی تبدیلی آئی، نہ فوج میں، اور نہ ہی ریاست کے بنیادی ڈھانچے میں کوئی مثبت تبدیلی آئی۔ یہ کوئی اسلامی انقلاب نہیں، بلکہ ایک عوامی بغاوت تھی، جس میں تمام جماعتوں، طبقات اور تحریکوں نے حصہ لیا۔ اس تحریک میں سیکولر، قوم پرست، بائیں بازو کے افراد، اور مختلف رجحانات رکھنے والے اسلامی گروہوں نے حصہ لیا۔ ان سب کا ایک مشترکہ ہدف تھا: شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ۔

اس لیے کہ شیخ حسینہ کے پندرہ سالہ آمرانہ دور حکومت میں ظلم، جبر، استبداد، محرومی، انتخابی دھاندلی، اقتدار پر قبضہ، قتل و غارت، تشدد، گرفتاریوں، جبری گمشدگیوں، لوٹ مار اور انسانی حقوق کی پامالیوں نے سب کو متاثر کیا تھا۔ یہاں تک کہ بہت سے لوگ مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہو چکے تھے۔ تب اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ راحت اور سہولت عطا فرمائی، اور پانچ اگست ۲۰۲۴ء کو وہ لمحہ آیا جو اللہ تعالیٰ کے اس سچے فرمان کی عملی تفسیر بن گیا:

قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ ۡ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۭبِيَدِكَ الْخَيْرُ ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ؀ (سورۃ آل عمران: ۲۶)

’’کہو کہ اے اللہ ! اے اقتدار کے مالک ! تو جس کو چاہتا ہے اقتدار بخشتا ہے، اور جس سے چاہتا ہے اقتدار چھین لیتا ہے، اور جس کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہے اور جس کو چاہتا ہے رسوا کردیتا ہے، تمام تر بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘

جی ہاں، یہ عوامی بغاوت واقعی بنگلہ دیش کے مسلمانوں اور اسلام پسندوں کے لیے راحت اور آسانی کا باعث بنی، کیونکہ شیخ حسینہ کی حکومت، جو عوامی لیگ اور اس کی اتحادی بائیں بازو کی جماعتوں پر مشتمل تھی، چار بنیادوں پر قائم تھی۔

بھارت کے لیے سستی غلامی

عوامی لیگ اور اکثر بائیں بازو کی جماعتیں بھارت کی سب سے بڑی اتحادی اور محبوب ترین دوست تھیں، بلکہ بھارت کا سیاسی بازو بن چکی تھیں، جس کے ذریعے وہ پورے ملک پر حکمرانی کرتا، عوام کو کنٹرول کرتا، اور اپنا سیاسی، ثقافتی، اور اقتصادی اثر و رسوخ پھیلاتا۔ وہ ہر اُس شخص یا تحریک کو کچلنے کے لیے استعمال کی جاتی تھیں جو بھارت کے توسیع پسندانہ اور دہشت گردانہ منصوبے کی مخالفت کرتا۔

شیخ حسینہ کے دورِ حکومت میں بھارت کی ہندو انتہا پسند تنظیمیں پورے بنگلہ دیش میں پھیل گئیں۔ ان تنظیموں کا مقصد بنگلہ دیش اور پاکستان کو بھارت میں ضم کر کے ایک ’’اکھنڈ بھارت‘‘ یا ’’رام راج‘‘ قائم کرنا تھا، اور یہ تنظیمیں بنگلہ دیش میں بھارت کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے سرگرم تھیں۔

شیخ حسینہ نے بھارت کے ساتھ ایسے معاہدے اور وعدے کیے جو سراسر بھارت کے مفاد میں اور بنگلہ دیشی مسلمانوں کے مفادات کے یکسر خلاف تھے۔

عوام کے درمیان یہ بات عام ہو چکی تھی کہ شیخ حسینہ ہمارے ملک کو سکم، حیدرآباد، یا کم از کم بھوٹان جیسے انجام کی طرف لے جا رہی ہے۔1

متشدد سیکولرازم کی حمایت

شیخ حسینہ نے انتخابات میں ان بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کیا تھا جو اسلاموفوبیا کو اپنا نظریہ مانتی ہیں۔ جو شخص بھارت کی بنگلہ دیش سے متعلق پالیسی اور حکمت عملی پر غور کرتا ہے، وہ یہ بات صاف سمجھ سکتا ہے کہ بھارت ہمیشہ چاہتا ہے کہ بنگلہ دیش پر ایسا سیاسی گروہ قابض ہو جو نئی دہلی کے مفادات کا خیال رکھے اور شدت پسند سیکولرازم کو اپنا نصب العین بنائے۔ اسی وجہ سے بھارت نے عوامی لیگ کی آمرانہ پالیسیوں اور زیادتیوں کی بھی حمایت کی، حتیٰ کہ دیگر سیکولر جماعتوں پر کیے جانے والے مظالم پر بھی خاموشی اختیار کیے رکھی، جیسے بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (BNP)جو نسبتاً معتدل سیکولر پالیسی رکھتی تھی۔

اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ شیخ حسینہ کے سکیورٹی اہلکاروں نے BNP کے ایک بڑے رہنما صلاح الدین احمد،جو سابق وزیرِ مملکت اور BNP کے مشترکہ سیکریٹری جنرل تھے، کو زبردستی غائب کیا اور انہیں بھارتی سرزمین پر چھوڑ دیا (بلکہ سیدھے بھارتی سکیورٹی اداروں کے حوالے کیا)، جہاں انہیں غیر قانونی داخلے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ وہ نو سال تک بھارت کی جیل میں قید رہے اور تب ہی رہا ہوئے جب شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔

ایسی اور بھی کئی مثالیں موجود ہیں، لیکن طوالت کے باعث ہم ان سب کا ذکر نہیں کر رہے۔

اس پورے دور میں بھارت کسی بھی دوسری جماعت کے سیکولرازم یا جمہوریت کو تسلیم نہیں کرتا تھا، حالانکہ وہ بھی سیکولر جماعتیں تھیں، سوائے عوامی لیگ اور اس کے اتحادیوں کے۔ بھارت جماعتِ اسلامی کو تو دہشت گرد تنظیم سمجھتا تھا، اور BNP پر بنیاد پرستی اور دہشت گردوں سے اتحاد کے الزامات لگاتا رہا۔

اس حیران کن حکمت عملی کے پیچھے مقصد یہ تھا کہ معتدل سیکولر جماعتوں پر دباؤ ڈال کر انہیں مزید سخت گیر سیکولرازم کی طرف دھکیلا جائے، تاکہ وہ اسلام اور اسلامی جماعتوں سے مزید دور ہو جائیں، خواہ وہ جماعتیں پہلے ہی جمہوری عمل میں شامل ہو کر بہت سے اصولوں سے پیچھے ہٹ چکی ہوں۔ ان جماعتوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ بھارت کو خوش کرنے کے لیے زیادہ غلامانہ رویہ اور وفاداری اختیار کریں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت ان مقاصد میں کچھ حد تک کامیاب بھی رہا۔ چنانچہBNP نے جماعتِ اسلامی سے اپنا اتحاد توڑ دیا، اس سے لاتعلقی اختیار کی اور بائیں بازو کی جماعتوں کے قریب ہو گئی۔ اس نے اپنی قومی حمیت سے بڑی حد تک دستبرداری اختیار کی، بھارت اور اس کے انتہا پسند رہنماؤں کی خوشنودی کے لیے کوشاں رہی اور ان کے ساتھ خوشامدانہ رویہ اپنایا۔

یہ نتیجہ دیکھ کر ایک حساس شخص حیران رہ جاتا ہے اور خود سے سوال کرتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی مظلوم اپنے ظالم سے محبت کرنے لگے اور اسے خوش کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرے؟

لیکن جو شخص سیکولر ازم کی حقیقت پر گہری نظر ڈالے گا، اسے جواب فوراً سمجھ آ جائے گا کہ سیکولرازم انسان سے غیرت اور جرات چھین لیتی ہے، وہ حمیت، شجاعت، دیانت اور ایمان داری کو قتل کر دیتی ہے، اور انسان کو بزدلی، کمزوری اور ذلت آمیز غلامی کی طرف لے جاتی ہے۔

سیکولر شخص کے نزدیک اصول و اقدار کپڑوں کی مانند ہوتے ہیں، بلکہ ان سے بھی کمتر، وہ جب چاہے انہیں پہن لیتا ہے، اور جب یہ اس کے مفادات، خواہشات یا نفسانی لذتوں سے ٹکرا جائیں، تو فوراً اتار پھینکتا ہے۔

پوری ریاستی مشینری پر قابض ایک آمرانہ جابرانہ نظام

تمام ریاستی اداروں بالخصوص انتظامیہ اور عدلیہ کو حکمران جماعت کے تابع بنا دیا گیا تھا، ایک ایسا نظام تھا جو ہر مخالف کو خاموش کرنے، ہر معترض کو قتل کرنے اور حق گوئی، عدل و انصاف کی دعوت اور حق کو دبانے پر مامور تھا۔

یہ طرزِ حکمرانی نہ صرف اسلامی دعوت اور اسلامی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بنا، بلکہ معاشرے کو الحاد، اخلاقی انحطاط، اور تباہی کی طرف دھکیلتا رہا، قوم کو ذلت، غلامی اور پستی کے گہرے گڑھوں میں دھکیلتا رہا، اور ساتھ ہی ساتھ بھارت کے تسلط کو دن بدن بڑھاتا رہا جب کہ مسلمانوں کی آزادی کو لمحہ بہ لمحہ گھٹاتا رہا۔

اسلام پسندوں پر ظلم وستم اور ان کا قلع قمع

اسلام پسندوں کا قلع قمع، ان پر ظلم، ان کے ابھرنے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا، ان کے فکر و نظریہ کے پھیلاؤ کو روکنا، اور ریاست و معاشرے پر ان کے اثر کو محدود کرنا، شیخ حسینہ اس پالیسی کو مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے ایک سیاسی جواز کے طور پر استعمال کرتی تھی، تاکہ اس کے استبدادی اقتدار کو بیرونی دنیا میں تسلیم کیا جائے۔

اس نے اسلام پسندوں پر کئی خونی مظالم ڈھائے، جن میں سب سے زیادہ مشہور اور سنگین سانحہ ’’شاہ باغ چوک (مربع شاپلا) کا قتل عام‘‘ تھا، جو پانچ مئی ۲۰۱۳ء کو پیش آیا۔

اسلام پسند ہی ان کے استبدادی دورِ حکومت میں پہلا نشانہ اور سب سے بڑی قربانی بنے، کیونکہ وہی لوگ تھے جو طاغوتی حکومت اور بھارتی تسلط کے خلاف پہلی دفاعی دیوار اور سب سے بڑی مزاحم قوت تھے۔

جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا، اُس کے دورِ حکومت میں ہر اسلامی تحریک کو نشانہ بنایا گیا، لیکن ان تحریکوں اور جماعتوں پر مظالم ڈھانے کی کچھ حدود اور قیود تھیں۔ البتہ جہادی تحریک یا جو لوگ جہادی ہونے کے الزام میں گرفتار کیے جاتے، وہ بدترین اور ہولناک ترین تشدد کا نشانہ بنائے جاتے۔ ان پر مظالم ڈھانے میں کوئی حد یا ضابطہ نہیں تھا، ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا تھا گویا وہ انسان ہی نہ ہوں۔ ان پر کیے گئے ظلم و ستم کا بیان بہت طویل ہے جو اس تحریر میں سما نہیں سکتا۔

اور جب طاغوت حسینہ کا اقتدار ختم ہوا، تو ان بنیادوں میں سے کچھ ختم ہوئیں یا وہ کمزور ہو گئیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بھارتی اثر و رسوخ میں کمی آئی، آمریت کا خاتمہ ہو گیا، اور اس کی جگہ جمہوری، لبرل نظام آ گیا۔ شدت پسند سیکولرازم کو اگرچہ کچھ حد تک نقصان پہنچا، لیکن اس کے برعکس معتدل اور لچکدار سیکولر طرزِ فکر مضبوط ہو گئی۔

ظلم و ستم کے خلاف عوامی بیداری، اور جبر و آمریت کے خلاف ان کی مزاحمت کی برکت سے اسلامی جدوجہد کے لیے نئے افق ظاہر ہوئے، خیر کے عظیم دروازے کھلے اور مثبت تبدیلیاں رونما ہوئیں جنہیں اسلام پسند عناصر اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں استعمال کر سکتے ہیں۔

ذیل میں اس کی کچھ تفصیل پیش کی جاتی ہے:

عوام کی اکثریت میں ظلم و جبر کے خلاف بیداری

عوام کی اکثریت میں ظلم و جبر کے خلاف ایک اچھی سطح کی بیداری اور شدید حساسیت پیدا ہو گئی۔ انہوں نے شیخ حسینہ کی حکومت کو اس وقت گرایا جب اُس نے مظاہرین کا قتلِ عام کیا، حالانکہ وہ مظاہرین صرف سرکاری ملازمتوں میں کوٹے کے نظام میں اصلاح کا مطالبہ کر رہے تھے۔ مگر جب سکیورٹی اہلکاروں نے ان پر فائرنگ کر کے کئی افراد کو شہید کر دیا، تو مظاہرین کا مطالبہ کوٹے کے نظام کی اصلاح سے بدل کر حکومت کے خاتمے میں تبدیل ہو گیا۔

جب سکیورٹی اہلکاروں نے مظاہرین کے قتلِ عام کا سلسلہ جاری رکھا، تو عوام نے ان کا مقابلہ اُس طریقے سے کیا جسے ’’انقلابی تشدد‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس دوران انہوں نے ۴۴ پولیس اہلکاروں کو قتل کیا اور ان کی لاشیں پلوں اور سڑکوں پر لٹکا دیں۔ اس سے سکیورٹی فورسز اور عوامی لیگ پارٹی کے حامیوں میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔ عوام اور حکومت کے درمیان یہ جھڑپیں جاری رہیں، اور عوام نے بے مثال بہادری سے گولیوں کا مقابلہ کیا، یہاں تک کہ آخر کار ان کی آنکھیں اس وقت ٹھنڈی ہوئیں جب حکومت کا خاتمہ ہوا اور شیخ حسینہ فرار ہو گئی۔

اس انقلابی بغاوت کے بعد سکیورٹی فورسز اس بات پر مجبور ہو گئیں کہ وہ کچھ ضابطوں کی پابندی کریں، عوام کے جذبات کا لحاظ رکھیں، بے گناہوں کے قتل، ان کا تعاقب، گرفتاری، تشدد اور جبری گمشدگی جیسے جرائم سے باز رہیں۔

اب داعیوں اور سرگرم کارکنوں پر فرض ہے کہ وہ اس عوامی بیداری اور جذبے کو زندہ رکھیں، اور انقلابی روح کو عوام کے دلوں میں روشن رکھیں، تاکہ ریاست دوبارہ اپنے پرانے ظالمانہ طرزِ عمل کی طرف پلٹ نہ سکے۔ ریاست یقیناً ایسی کوشش کرے گی، کیونکہ جدید ریاستیں ظلم و ستم اور انسانی حقوق کی پامالی سے شاذ و نادر ہی بچی رہتی ہیں۔ لہٰذا عوام پر لازم ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق ریاست کو ایسے اقدامات سے روکیں۔ اور یہ، واللہ! سب سے اہم فرض اور اولین ذمہ داریوں میں سے ہے۔

اسی طرح علماء، داعیوں اور سرگرم کارکنوں پر لازم ہے کہ وہ اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کی اکثریت کے درمیان ایک اجتماعی اسلامی بیداری پیدا کریں۔ جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ سیکولر نظام اب تک محفوظ ہے، لہٰذا ایک ہمہ گیر دینی بیداری ناگزیر ہے جو لوگوں میں اس نظام کو رد کرنے کا شعور پیدا کرے اور وہ اسلامی نظام کے قیام کا مطالبہ کریں۔

میں یہاں اُن تمام بھائیوں کو ایک پیغام دینا چاہتا ہوں جو انتخابی سیاست کے راستے پر چل رہے ہیں۔ میرے بھائیو! اپنے طریقۂ کار پر نظر ثانی کرو، ان انتخابات کو چھوڑ دو جن کے جواز پر شریعت کی کوئی مہر نہیں اور نہ ہی عقل یہ مانتی ہے کہ یہ راستہ کامیابی تک پہنچا سکتا ہے۔ اگر تم اس راستے سے پلٹ آؤ گے تو عوام تمہاری پیروی کریں گے اور تم دعوتِ توحید کی فتح اور جمہوریت کے زوال کے سب سے بڑے اسباب میں سے بن جاؤ گے۔ پس لوٹ آؤ، اور جلدی کرو قبل اس کے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے۔

شیخ حسینہ کے دورِ حکومت میں علماء، داعیانِ دین اور اسلامی جماعتوں کے کارکنان اکثر جبری گمشدگی اور سخت ترین تشدد کا شکار ہوتے تھے، جس سے دعوت، اصلاح، سماجی اور جہادی سرگرمیوں کی راہ میں شدید رکاوٹیں پیدا ہوتی تھیں، اور ان کا دائرہ کار نہایت محدود ہو گیا تھا۔

لیکن اب کچھ رکاوٹیں اور پابندیاں ختم ہو گئی ہیں، لہٰذا اب وقت آ گیا ہے کہ صفیں دوبارہ منظم کی جائیں، اپنی اندرونی کمزوریوں کی اصلاح کی جائے، صلاحیتوں کو بہتر بنایا جائے، ماہر اور با صلاحیت افراد کو منظم کیا جائے، سرگرمیوں اور کوششوں کو بڑھایا اور پھیلایا جائے، تاکہ معاشرے میں ایک عظیم اسلامی بیداری رونما ہو اور اسلامی نظام عوام کا پہلا مطالبہ بن جائے۔

عوام غفلت، فریب اور خیالی خوابوں سے بیدار ہو اور اس یقینی اور فیصلہ کن معرکے کے لیے اپنی تیاری مکمل کرے جو بھارتی ریاست کی بالادستی اور دہشت گرد ہندوتوا نظریے کے خلاف عنقریب برپا ہونے والا ہے۔

عوام میں بھارتی اثرو رسوخ کے خلاف جذبات میں اضافہ

عوام میں بھارتی اثر و رسوخ، اس کے توسیع پسند منصوبے، دہشت گردانہ رویے، اور ہندو مذہب کے خلاف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ بنگلہ دیش کے مسلمان فطری طور پر بھارتی ریاست اور ہندو دھرم سے نفرت کرتے ہیں، لیکن شیخ حسینہ کے دورِ حکومت میں وہ ان جذبات کا اظہار آزادی سے نہیں کر سکتے تھے، کیونکہ وہ ہر اس شخص کو قتل یا قید کر دیتی تھی جو بھارت کے خلاف کوئی سرگرمی انجام دیتا۔

اس کی سب سے نمایاں مثال طالب علم ’’ابرار فہد‘‘ کا قتل ہے، جو بنگلہ دیش یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (BUET) کا طالب علم تھا۔ اُسے اس کے ساتھیوں نے، جو عوامی لیگ کے حامی تھے، صرف اس وجہ سے بے دردی سے قتل کر دیا کہ اُس نے مشترکہ دریاؤں کے پانی کے معاملے میں بھارت کی ظالمانہ پالیسی پر تنقیدی فیس بک پوسٹ لکھی تھی۔

پس دیکھیں! بھارت کے اثر و رسوخ اور اس کے کارندوں کی ڈھٹائی کس حد تک پہنچ چکی تھی۔

لیکن اب بحمد اللہ، بھارتی اثر و رسوخ میں کافی کمی آئی ہے اور بنگلہ دیش کی عوام پر لازم ہے کہ اس نعمت کا شکر ادا کریں، اور اپنی عظیم ذمہ داریاں پوری کریں۔

اگر ہم برصغیر کے دیگر حصوں میں مسلمانوں کی حالت پر غور کریں تو بنگلہ دیش اور پاکستان کے مسلمان نسبتاً زیادہ خوشحال، آزاد اور فارغ البال نظر آتے ہیں، جبکہ ان کے بھائی کشمیر، اراکان (برما)، اور بھارت کے مختلف علاقوں میں شدید آزمائش اور خطرات سے دوچار ہیں۔

جہاں تک اراکان کے مسلمانوں کا تعلق ہے، تو ان پر قیامت ٹوٹ پڑی، اُنہیں جبراً ہجرت پر مجبور کیا گیا، ان کی زمینیں غصب کر لی گئیں، ان کی عزتیں پامال ہوئیں اور ان کے خلاف بڑے پیمانے پر قتلِ عام کیے گئے۔ آج وہ ہمارے پاس مہمان ہیں اور ہم پر فرض ہے کہ ان کی عزت کریں، ان کی مدد کریں، اور انہیں دوبارہ دشمنوں کے خلاف مزاحمت اور اپنی غصب شدہ زمینوں کی بازیابی کے لیے تیار کریں۔

جبکہ بھارت کے مسلمانوں کو روئے زمین کے سب سے نیچ اور بدترین ہندوتوا کے پیروکاروں کا سامنا ہے، جو کسی مسلمان کے حق کو تسلیم نہیں کرتے۔ یہ لوگ قدم بہ قدم ’’رام راج‘‘ کے قیام کی طرف بڑھ رہے ہیں، جس کا مقصد بھارت کو مسلمانوں سے مکمل پاک کرنا اور ان کی نسل کشی کرنا ہے۔ انہوں نے اس مقصد کی جانب کئی مراحل طے کر لیے ہیں، اور اس کے لیے کالے قوانین بنائے ہیں جیسے ’’ترمیم شدہ شہریت کا قانون‘‘ اور ’’وقف کی نگرانی کا قانون‘‘۔

اسی طرح مسلمانوں کے گھروں، مساجد، مدارس کو مسمار کرنے، انہیں قتل کرنے، ذلیل کرنے، مارنے اور زبردستی شرکیہ نعرے لگوانے کے واقعات دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں۔

ایسے حالات میں ضروری ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام اور وہ سب لوگ جو کسی بھی قسم کی آسانی یا سکون میں ہیں، جاگ جائیں اور اپنی عظیم ذمہ داریاں ادا کریں۔

ہاں! ان پر بہت بھاری ذمہ داریاں ہیں، جو ان کے کندھوں پر بھاری بوجھ کی طرح ہیں، اور ان سے بھرپور قوت، قربانی، اور سنجیدگی کا تقاضا کرتی ہیں۔

یہ عظیم، بھاری، اور کٹھن ذمہ داری ہے، جسے وہی سچے اور اللہ پر بھروسا رکھنے والے لوگ نبھا سکتے ہیں جو کثیر تعداد میں ہوں اور ہر لحاظ سے تیار ہوں۔ کیونکہ آج مسائل بہت زیادہ ہیں، محاذ کئی ہیں، لیکن ان کا ساتھ دینے والے اتنے نہیں جو ان کی ضرورت پوری کر سکیں یا ان کے حقوق ادا کر سکیں۔

اگرچہ بنگلہ دیش میں مسلمانوں کی تعداد یا جسے انسانی سرمایہ کہا جاتا ہے کم نہیں، اور ان کے پاس موجود وسائل بھی معمولی نہیں ہیں۔ ان میں تعلیم یافتہ افراد، ماہرین اور مختلف شعبوں میں تجربہ و قابلیت رکھنے والے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

اگر ان تمام افراد کو اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے لیے منظم طریقے سے کام میں لایا جائے تو ان کے ذریعے اللہ کے حکم سے نصرت و خیر کے دروازے کھل سکتے ہیں۔

اس حوالے سے شہید محمد زواریؒ کی مثال ہمارے سامنے ہے، جنہوں نے فلسطینی تنظیم ’’کتائب القسام‘‘ کے لیے ڈرون طیارے تیار کیے۔ وہ تیونس کے رہنے والے تھے، فلسطینی نہ تھے اور نہ وہاں مقیم تھے، پھر بھی انہوں نے فلسطینی جہاد میں وہ کردار ادا کیا جو بہت سے فلسطینی ادا نہ کر سکے۔

تو کیا بنگلہ دیش کی سرزمین ایسے سینکڑوں، ہزاروں افراد پیدا نہیں کر سکتی؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ یہاں کے ماہرین، ہنرمند اور تربیت یافتہ مسلمان دنیا بھر کے اسلامی و جہادی محاذوں بالخصوص برصغیر کے اندر، علم، ہنر، میڈیا، مالیات، لوجسٹکس اور دیگر تمام پہلوؤں سے مضبوط سہارا فراہم کریں؟ اور اسی راہ میں وہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ آسانیوں اور رحمتوں کا حقیقی شکر ادا کریں۔

اگر بنگلہ دیش کے مسلمان اپنے دشمنوں پر نظر ڈالیں تو ان کی تعداد، ان کی تیاری اور ان کے اہداف کو دیکھیں تو وہ ضرور اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اب ان کے لیے آرام کا کوئی وقت نہیں بچا۔

ان پر لازم ہے کہ وہ جلد از جلد اپنے عوام کو دین کے لیے منظم کریں اور اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد، پشت پناہی اور نصرت میں لگ جائیں۔

لیکن اگر وہ اپنے مظلوم بھائیوں کو تنہا چھوڑ کر خاموش تماشائی بنے رہے، یا صرف آنسو بہاتے رہے اور کچھ نہ کر سکے، جبکہ وہ دیکھ رہے ہوں کہ ان کے بھائی نسل کشی، جبری ہجرت اور ظلم کا شکار ہیں، تو پھر وہ خود اگلے نشانے پر ہوں گے!

اور وہ دن دور نہیں ہو گا جب بھارتی ہندتوا کی طوفانی لہر انہیں بھی بہا لے جائے گی، اور وہ بھی اپنے بھائیوں کی طرح تباہی، قتل، بے دخلی، اور ذلت کا شکار ہوں گے، و لا حول و لا قوة إلا بالله العلي العظيم۔

ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنے دین کی خدمت میں استعمال کرے، ہمیں استقامت اور ثابت قدمی مرحمت فرمائے۔ اور ہمیں اسلام اور مسلمانوں کی نصرت کے لیے توفیق عطا فرمائے، آمین۔

٭٭٭٭٭

1 سکم :برطانوی راج میں ایک نیم خودمختار ریاست تھی جس نے ۱۹۴۷ ء میں اپنی حیثیت برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا اور پاکستان یا بھارت دونوں میں سے کسی سے بھی الحاق سے انکار کیا۔ ۱۹۵۰ء میں بھارت نے سکم کے بادشاہ سے ایک معاہدہ طے کیا جس کے تحت سکم کا دفاع، امور خارجہ اور مواصلات بھارت کے کنٹرول میں چلی گئیں۔ ۱۹۶۰ میں بھارت نے سکم میں جمہوری سیاسی پارٹی سکم نیشنل کانگرس متعارف کروائی۔ اس پارٹی نے بادشاہت کے خلاف تحریک شروع کر دی۔ ۱۹۷۳ء میں سکم نیشنل کانگرس کی درخواست پر بھارتی فوج سکم میں داخل ہوئی اور دار الحکومت کا نظم و نسق سنبھال لیا۔ مذاکرات ہوئے اور یہ طے پایا کہ سکم میں ایک جمہوری نظام رائج ہو گا۔ اس طرح بھارتی وفادار سکم نیشنل کانگرس حکومت میں آ گئی۔ اس کے دو سال بعد ۱۹۷۵ میں سکم نیشنل کانگرس نے بھارت سے الحاق کی کمپین چلائی جس کے بعد ریفرنڈم کروایا گیا اور پھر بھارت سے الحاق کا اعلان کر دیا گیا۔

حیدرآباد:تقسیم کے وقت حیدر آباد ایک خود مختار نوابی ریاست تھا اور اس کے نواب نے بھارت سے الحاق سے انکار کر دیا۔ بھارت اور نواب کے درمیان مذاکرات ہوئے جس کے بعد بھارت نے یہاں بھی دفاع، خارجہ امور اور مواصلات اپنے کنٹرول میں لے لیں اور اسے خودمختار رہنے دیا۔ حیدر آباد میں ہندو اکثریتی آبادی تھی، بھارت نے اس کے ذریعے حیدر آباد میں بغاوت کھڑی کر دی۔ جس کے بعد کشیدہ حالات کا بہانہ اور پاکستان سے خفیہ تعلقات کا الزام لگا کر بھارت نے ۱۳ ستمبر ۱۹۴۸ء کو حیدر آباد پر فوج کشی کر دی۔ پانچ دن کی جنگ کے بعد یعنی ۱۷ ستمبر ۱۹۴۸ء کو حیدر آباد کی فوج نے ہتھیار پھینک دیے اور نواب نے بھارت سے الحاق کا اعلان کر دیا۔

بھوٹان: چین اور بھارت کے درمیان ایک چھوٹا سا خودمختار ملک ہے۔ ۱۹۴۹ء میں بھارت نے بھوٹان سے معاہدہ کر کے اس کے تمام خارجہ امور اپنے کنٹرول میں کر لیے۔ اس کے بعد سے بھوٹان کی حکومت کے ہر شعبے میں بھارت کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے۔بھوٹان کی درآمدات اور برآمدات دونوں کا ۸۰ فیصد بھارت سے منسلک ہے جبکہ بھارتی فوج کی ایک محدود تعداد مستقل طور پر بھوٹان میں تعینات ہے جس کا مقصد بھوٹانی فوج کی تربیت اور بھوٹان کی چین کے ساتھ سرحد کی حفاظت میں بھوٹان کے ساتھ تعاون بتایا جاتا ہے۔

Previous Post

سوات سانحے کا ذمہ دار کون؟

Next Post

شام میں جہاد کا مستقبل | حصہ دوم – پہلی قسط

Related Posts

اِک نظر اِدھر بھی! | جولائی 2025
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | اگست 2025

17 اگست 2025
احکامِ الٰہی
گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال

احکامِ الٰہی

15 جولائی 2025
ٹیلی گرام: پرائیویسی کا فریب
اوپن سورس جہاد

ٹیلی گرام: پرائیویسی کا فریب

14 جولائی 2025
امنیت (سکیورٹی) | پہلی قسط
الدراسات العسکریۃ

امنیت (سکیورٹی) | پہلی قسط

14 جولائی 2025
سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | چودھواں درس

14 جولائی 2025
عمر ِثالث | ساتویں قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | آٹھویں قسط

14 جولائی 2025
Next Post
شام میں جہاد کا مستقبل | حصہ دوم – پہلی قسط

شام میں جہاد کا مستقبل | حصہ دوم - پہلی قسط

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version