بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے فریضۂ جہاد کو عزت و شرف کا ذریعہ بنایا، اسے کفار اور مفسدین کو کچلنے اور مخالفین پر اسلام کی عزت و عظمت قائم کرنے کا وسیلہ قرار دیا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، جس نے اپنی محکم کتاب میں فرمایا:
اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ۭ (سورۃ الحج: ۳۹، ۴۰)
’’جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے، انھیں اجازت دی جاتی ہے ( کہ وہ اپنے دفاع میں لڑیں) کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے، اور یقین رکھو کہ اللہ ان کو فتح دلانے پر پوری طرح قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں صرف اتنی بات پر اپنے گھروں سے ناحق نکالا گیا ہے کہ انھوں نے یہ کہا تھا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے۔ ‘‘
اور فرمایا:
وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَاۗءِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ اَهْلُھَا ۚ وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّـۢا وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِيْرًا (سورۃ النساء: ۷۵)
’’ اور (اے مسلمانو) تمہارے پاس کیا جواز ہے کہ اللہ کے راستے میں اور ان بےبس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو یہ دعا کر رہے ہیں کہ : اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اس بستی سے نکال لایئے جس کے باشندے ظلم توڑ رہے ہیں، اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی حامی پیدا کردیجیے، اور ہمار لیے اپنی طرف سے کوئی مددگار کھڑا کردیجیے۔ ‘‘
اور درود و سلام ہوں رسول اللہ ﷺ پر جنہوں نے فرمایا:
إن الله بعثني بالسيف بين يدي الساعة حتى يعبد الله لا يشرك به، وجعل رزقي تحت ظل رمحي وجعل الذل والصغار على من خالف أمري ومن تشبه بقوم فهو منهم.
’’اللہ تعالیٰ نے مجھے قیامت سے پہلے تلوار دے کر مبعوث کیا ہے تاکہ خالص اللہ ہی کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے اور میرا رزق میرے نیزے کے سائے تلے رکھ دیا گیا ہے اور جو کوئی میرے حکم کی نافرمانی کرے گا، ذلت و رسوائی اس کا مقدر ہے، اور جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں شمار ہوگا۔‘‘
اور آپ ﷺ نے فرمایا:
المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضا ثم شبك بين أصابعه
’’ایک مومن دوسرے مومن کے لیے ایک ایسی عمارت کی مانند ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے اور آپؐ نے اپنی انگلیوں کو آپس میں جوڑ لیا ہے۔‘‘
اور آپ ﷺ نے فرمایا:
ترى المؤمنين في تراحمهم وتوادهم وتعاطفهم كمثل الجسد إذا اشتكى عضو تداعى له سائر جسده بالسهر والحمى.
’’تم مومنوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رحمت و محبت کا معاملہ کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ لطف و نرم خوئی میں ایک جسم جیسا پاؤ گے کہ اگر کسی عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو باقی جسم کی نیند اڑ جاتی ہے اور وہ بخار زدہ ہو جاتا ہے۔‘‘
اما بعد:
مشرق و مغرب میں موجود امتِ مسلمہ اور روئے زمین پر بسنے والے دو ارب سے زیادہ میرے مسلمان بھائیو اور بہنو!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میری محبوب امت! آپ کے سامنے گزشتہ ڈیڑھ سال سے غزہ جیسی جہاد، قربانی، رباط، صبر و ثبات اور استقامت کی سرزمین پر ایک ایسی شدید ترین، سفاکانہ، ظالمانہ، اور ناپاک عالمی صہیونی – صلیبی جنگ مسلط کی گئی ہے، جس کی مثال معاصر تاریخ نے کبھی نہیں دیکھی۔ ایک ایسی جنگ جس میں ان تمام قوانین، مقدسات، ممنوعات، روایات، اقدار اور اخلاقیات کو پامال کیا گیا ہے، جو جنگوں میں تسلیم شدہ ہیں اور عموماً ان کا لحاظ رکھا جاتا ہے، حتی کہ زمانۂ جاہلیت کی جنگوں میں بھی ان قوانین و روایات کی خلاف ورزی نہیں کی جاتی تھی۔ لیکن غزہ کی اس جنگ میں بے گناہ بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو بے دریغ قتل کیا گیا اور پانی، خوراک اور ادویات تک پر پابندی لگا دی گئی۔
درحقیقت آج غزہ میں جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ اس تباہی و بربادی سے تین گنا زیادہ ہے جو جاپانی شہر ہیروشیما پر امریکہ کے ایٹم بم گرانے سے پیدا ہوئی تھی۔ پس غزہ میں ڈھائے جانے والے مظالم، عالمی صہیونی – صلیبی جنگ کے سوا کچھ نہیں ہیں جو اپنی انتہا پر ہیں۔ اس جنگ میں ہر طرف موت، تباہی اور تخریب ہے۔ فضا اور سمندر سے جنگی طیاروں اور ڈرونز کے ذریعے بمباری کی جا رہی ہے اور توپوں، ٹینکوں، ہر قسم کے ہتھیاروں اور گولہ بارود سے آتش و آہن برسایا جا رہا ہے، غرض تباہی و بربادی کی تمام مشینیں اور آلات اس جنگ میں آزمائے جا رہے ہیں۔
اے لوگو! غزہ میں ہر جگہ شہداء کی کٹی پھٹی لاشیں نظر آتی ہیں، کچھ کے سر اور دیگر اعضاء نہیں ہوتے۔ اہلِ غزہ کے گھر، ان کے سروں پر گرائے جا رہے ہیں، ہر روز بیسیوں، بعض اوقات سینکڑوں افراد تک شہید ہو رہے ہیں۔ غزہ کے لوگ جب اپنے خستہ حال خیموں میں سو رہے ہوتے ہیں تو انہیں بمباری سے زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ ان کے گھروں کو بارودی سرنگوں اور دھماکہ خیز مواد سے بھر کر اڑا دیا جاتا ہے تاکہ ان کے مکین دوبارہ ان میں واپس نہ آ سکیں۔
غزہ کے علاقوں میں دراندازی کر کے ان پر قبضہ کر لیا گیا ہے، جس کا آغاز رفح اور شجاعیہ سے ہوا، اس کے بعد بیت حانون، لاہیا، جبالیا اور خان یونس کی باری آئی اور پھر آہستہ آہستہ پورے غزہ کو خالی کرا کے اس پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔ وحسبنا الله ونعم الوكيل۔
غزہ میں ہزاروں افراد بغیر کسی پناہ کے سڑکوں پر سو رہے ہیں۔ بھوک سے موت اور بمباری سے موت، ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں بچوں، جوانوں اور بوڑھوں کی لاشوں کا تعاقب کرتی ہے، جبکہ وہ ایسی حالت میں ہیں کہ انہیں روٹی، کھانا یا دوا تک میسر نہیں ۔ غذا و دوا تو چھوڑیے، ان کے پاس تو شہداء کے لیے کفن اور تدفین کے لیے کوئی جگہ بھی مختص نہیں، قبرستان شہداء سے پُر ہیں اور زمین ملبے، کھنڈرات اور بڑے بڑے گڑھوں سے بھری ہوئی ہے۔
غزہ میں یہ سب تباہی و بربادی امریکی ساختہ میزائلوں اور گولہ بارود کے ذریعے کی جا رہی ہے، جو بچ جانے والے انسانوں اور شجر و حجر کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے تخلیق کیے گئے ہیں۔
میری محبوب امت! میں غزہ کی جنگ کے روزمرہ مصائب و تکالیف اور مظالم کو مزید بیان نہیں کروں گا کیونکہ یہ سب آپ کو اچھی طرح معلوم ہیں۔ جنگ سے غفلت و لاپرواہی، تاخیر کی وجہ سے ہونے والی تباہی اور پہلے سے جنگ کی شدت کے بقدر استعداد نہ ہونے کو سمجھ لینے اور دیکھ لینے کے بعد، جو کچھ میں نے بیان کیا وہ ایک یاد دہانی، ایک تمہید اور ہمارے نقطۂ نظر سے حل کے بارے میں بات کرنے کا پیش خیمہ ہے۔ یہاں ’’ہم‘‘ سے میری مراد، رحمتِ دو عالم اور جنگوں والے نبی حضرت محمد ﷺ کی، پوری امتِ مسلمہ ہے۔
میرے اس بیان کا مقصد دکھوں کی تجدید یا آپ کے سامنے مصائب و آلام کا تذکرہ کرنا نہیں ہے، کیونکہ جو کچھ آپ ہر لمحہ دیکھ اور سن رہے ہیں اس کا ایک ایک منظر، ہر ہر فرد، ہر جماعت اور ہر گروہ کے لیے، چاہے وہ ہلکے ہیں یا بوجھل، ہماری مسجد الاقصیٰ اور بیت المقدس کے لیے، ہمارے مسلمان بھائیوں کے لیے جو مسلسل نسل کشی کی جنگ کا شکار ہیں اور اسلام کے باوقار قلعے، قربانیوں کی سرزمین غزہ کے لیے، نفیرِ عام کی یاد دہانی کے لیے کافی ہے۔
حالانکہ ہم تک پہنچنے والے صوتی و بصری دستاویزی مناظر (ویڈیوز)، سانحات کی وسعت، سنگینی اور سفاکی کی ایک جھلک ضرور دکھاتے ہیں مگر ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو کچھ وہاں سے منتقل ہو رہا ہے وہ وہاں کے سنگین زمینی حقائق کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے جبکہ مکمل حالات کیمرے کی پہنچ سے دور ہیں۔
لہذا، اگر ہم معاملات کو فوری طور پر درست نہیں کرتے، ایک امت، ایک مومن روح اور ایک جسم کی حیثیت سے اکٹھے ہو کر آگے نہیں بڑھتے تو ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ غزہ اور دوسری جگہوں پر جاری یہ ہولناک جنگ آئندہ مزید شدت اختیار کر جائے گی۔ چنانچہ ہمیں اپنے رب کی نصرت پر اور اپنے معبودِ برحق کے وعدوں پر کامل یقین رکھنا چاہیے، جو وعدہ خلافی نہیں کرتا اور کوئی چیز اسے کبھی عاجز نہیں کر سکتی۔
جو فرماتا ہے:
اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ (سورۃ غافر: ۵۱)
’’ یقین رکھو کہ ہم اپنے پیغمبروں اور ایمان لانے والوں کی دنیوی زندگی میں بھی مدد کرتے ہی، اور اس دن بھی کریں گے جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے۔‘‘
اور فرماتا ہے:
وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِيْنَ اِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ وَاِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغٰلِبُوْنَ (سورۃ الصافات: ۱۷۱–۱۷۳)
’’ اور ہم پہلے ہی اپنے پیغمبر بندوں کے بارے میں یہ بات طے کرچکے ہیں۔ کہ یقینی طور پر ان کی مدد کی جائے گی۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے لشکر کے لوگ ہی غالب رہتے ہیں۔ ‘‘
اور اسی طرح کی متعدد آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کی مدد کا وعدہ فرمایا ہے۔
اے میری محبوب، زخمی اور بے بس امت! خدا کی قسم، تنظیم القاعدہ کی معزز قیادت نے آپ کو کتنا پکارا؟ اللہ انہیں قبول فرمائے۔ انہوں نے آپ کے سامنے کتنی تدابیر اور کتنے حل پیش کیے، آپ کو ایک کے بعد ایک نصیحت کی، جس بھنور میں ہم اُس وقت تھے اور جس گرداب میں آج ہم پھنس چکے ہیں اس سے نکلنے کا ایک کے بعد ایک راستہ تیار کر آپ کے سامنے رکھا۔ اب بھی اگر آپ چاہیں تو مشائخِ جہاد کے اُن پیغامات کی طرف لوٹ کر ہم اِن مصائب سے نکلنے کی راہ تلاش کر سکتے ہیں۔ خصوصاً مجددِ جہاد شیخ عبداللہ عزام، شیخ المجدد اسامہ بن لادن، حکیم الامت شیخ ایمن الظواہری اور جزیرۃ العرب اور دوسری جگہوں پر القاعدہ کے رہنماؤں کے پیغامات و رسائل کی طرف متوجہ ہونا از بس ضروری ہے۔
جیسا کہ شیخ ایمن الظواہری نے فرمایا:
’’امریکہ اپنے جرائم، جبر، ظلم اور جارحیت سے، اس بین الاقوامی قانونی جواز کے سامنے، کسی صورت پیچھے نہیں ہٹے گا جسے اس نے خود پیدا کیا ہے اور اس کی مالی امداد کی ہے (یعنی اقوامِ متحدہ اور نام نہاد عالمی انسانی حقوق کے ادارے)، نہ ہی ان کٹھ پتلی ایجنٹ حکمرانوں کے سامنے جنہیں اس نے خود نصب کر کے مستحکم کیا ہے اور نہ ہی ان لوگوں کے سامنے جو اس کی طاقت اور درجہ بندی (Designation) سے خوف زدہ ہیں (یعنی دہشت گرد قرار دیے جانے سے ڈرتے ہیں)۔ اسے تو صرف اور صرف جہاد فی سبیل اللہ، ہتھیاروں، نیزوں، دلائل و براہین، دعوت، تبلیغ، صدقہ و خیرات، توکل، زہد و تقویٰ، اسلام کے عقائد و نظریات اور احکامِ شریعت پر ثابت قدمی و استقامت کے ساتھ ہی شکست دی جائے گی۔ مجاہدین فی سبیل اللہ، باعمل علمائے کرام، مخلص داعیانِ دین اور توحید کے جھنڈے تلے متحد امتِ مسلمہ کے ہاتھوں ہی ان شاء اللہ امریکہ ہزیمت اٹھائے گا۔
پس اے ہماری محبوب امتِ مسلمہ! آئیے ہم ہر جگہ امریکہ سے لڑیں جس طرح وہ ہر جگہ ہم پر حملہ آور ہے، آئیے ہم اس کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہو جائیں، فرقوں میں نہ بٹیں، مجتمع ہوں، منتشر نہ ہوں، اور متفق ہوں، منقسم نہ ہوں۔‘‘
ان قائدینِ جہاد نے امت کی خاطر اپنی عمریں خرچ کر ڈالیں تاکہ ہمیں اس ذلت و رسوائی سے بچایا جا سکے جس تک آج ہم بدقسمتی سے پہنچ چکے ہیں۔ چنانچہ یہ حضرات تقریباً تیس سالوں سے امریکہ کو کفر کا سرغنہ اور برائیوں کا منبع قرار دے رہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ امریکہ، دنیا کی ان تمام مصیبتوں کا سبب ہے جو خاص طور پر امتِ مسلمہ پر آ پڑی ہیں یا پڑیں گی۔ انہوں نے اپنے اکثر بیانات و تقاریر میں امریکہ کو اس امت کا فرعون، صلیب کا علمبردار اور انبیاء و رسل کے قاتل یہودیوں کا محافظ قرار دیا ہے اور انہوں نے اسے ہمارے زمانے کا سب سے بڑا بت ’ھُبُل‘ قرار دیا ہے۔ لیکن افسوس! کہ صرف چند ہی لوگوں نے اس بات کو سمجھا، والحمد لله على كل حال۔
اے امت مسلمہ! یہ وقت ملامت، گلے شکوے، لعن طعن، سستی اور تاخیر کرنے والوں کی سرزنش اور امت کے علمبرداروں اور قافلۂ جہاد کے قائدین کی پکار پر لبیک کہنے میں ناکامی پر افسوس کرنے کا نہیں ہے جنہوں نے اس لیے اپنی دنیا قربان کر دی اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تاکہ ان کی امت باوقار، باعزت اور فاتح بن کر زندگی بسر کر سکے۔
آج عمل کا دن ہے، آئیے ہم بغیر کسی تردد اور ہچکچاہٹ کے آگے بڑھیں اور جو کچھ ہو چکا، اس کی تلافی کریں، لہذا براہ کرم ہماری بات غور سے سنیں، ممکن ہے کہ جس مصیبت میں ہم ہیں اس سے نکلنے کا کوئی راستہ مل جائے۔
میری محبوب امت! آج فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ردِعمل نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ دعویٰ کرتے ہیں، بلکہ یہ ان کفار کی دینِ اسلام سے دشمنی اور اسلام اور پیغمبرِ اسلام ﷺ سے ان کے کفر کی توسیع ہے۔ ان کے اس یقین کے باوجود کہ حضرت محمد ﷺ وہی نبی ہیں جن کا اسم گرامی، حلیہ مبارک اور عمدہ صفات ان کی کتاب تورات میں بیان کی گئی ہیں اور یہ کہ وہ اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں، جن کے ظہور کی خوش خبری ان یہودیوں کے علماء سنایا کرتے تھے۔ لیکن جب آپ ﷺ ان میں سے نہ ہوئے (اور بنو اسرائیل کے بجائے بنو اسماعیل میں مبعوث ہوئے) تو انہوں نے آپؐ سے کفر کیا، آپؐ سے دشمنی کی، آپؐ کو شہید کرنے اور آپؐ کے ساتھ غداری کرنے کی کوشش کی، پھر آپؐ سے جنگ کی اور لوگوں کو آپؐ سے لڑنے کے لیے راضی کیا اور آپؐ کے خلاف اور ہر اس شخص کے خلاف جو آپؐ پر ایمان لایا، جنگ لڑنے کے لیے جماعتیں بنائیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں ذلیل و خوار کیا اور انہیں شکست دے کر واپس پلٹا دیا اور جب ان کے قبیلہ بنو نضیر نے عہد و میثاق کی خلاف ورزی کی تو رسول اللہ ﷺ نے اللہ کے حکم اور اس کے عادلانہ فیصلے کے مطابق انہیں جلا وطن کر دیا۔ قرآن مجید نے ہمیں ان کی خیانت، کفر اور امتِ محمدیہ (علی صاحبہا الصلاۃ والسلام) سے نفرت کے بارے میں بتایا ہے۔ اور ان کے عیسائی بھائیوں کا بھی یہی حال ہے، اللہ ان سب کو رسوا کرے۔
چنانچہ امتِ مسلمہ سے یہودیوں، عیسائیوں، مجوسیوں اور بت پرستوں کی دشمنی ایک ایسے دین اور عقیدے سے جنم لیتی ہے جس کی جڑیں ان کے دلوں میں پیوست ہیں جسے آپ دور نہیں کر سکتے، سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ کی رحمت نے ڈھانپ لیا اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ بالکل اسی طرح جیسے قیامت تک بنی آدم سے شیطان کی دشمنی، عداوت اور سازشوں کو دور نہیں کیا جا سکتا، پس ان سب کفار کی مثال ابلیس کی طرح ہیں جس کے نفس نے اسے گمراہ کیا، جس کے تکبر نے اسے دھوکے میں ڈالا اور جس کے حسد نے اسے اندھا کر دیا۔ آپ ایک لمحے کے لئے بھی شیطان کو دوست نہیں سمجھ سکتے، نہ اس کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لا سکتے ہیں اور نہ ہی باہمی احترام کی بنیاد پر اس کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو آپ شیطان کے دھوکے میں آ گئے، اس کے ہاتھوں گمراہ ہو گئے اور اس نے اپنے ساتھ آپ کو بھی ایک بھڑکتی ہوئی آگ میں گھسیٹ لیا۔
پس ان کفار کے ساتھ جنگ کے سوا کچھ بھی جائز نہیں، یعنی جنگ، پھر جنگ اور پھر جنگ، یہاں تک کہ قیامت آ جائے، اور یہ بات اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق ہے جس میں ہمارے رب نے ان کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت کو بیان فرمایا ہے۔
اللہ تعالیٰ ان کفار کے بارے میں فرماتا ہے:
وَلَا يَزَالُوْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى يَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِيْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا ۭ وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَيَمُتْ وَھُوَ كَافِرٌ فَاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ (سورۃ البقرۃ: ۲۱۷)
’’اور یہ کافر ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان کا بس چلے تو تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں اور تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر کر کافر ہو جائے گا اور کافر ہی مرے گا تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہو جائیں گے اور یہی لوگ دوزخی ہیں، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ‘‘
لہٰذا اے ملتِ اسلامیہ! غزہ اور فلسطین کے حوالے سے بالخصوص اور خطے (مشرقِ وسطیٰ)میں ہمارے حالات کے حوالے سے بالعموم مؤثر ترین حل کو یہاں بیان کیا جاتا ہے:
- جہاں تک خطے (مشرقِ وسطیٰ)کے مسلمان عوام کا تعلق ہے تو ان کا ادنیٰ ترین فریضہ یہ ہے کہ وہ غزہ میں جاری مظالم کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک شروع کریں اور مرکزی شاہراہوں کو مستقل قیام اور رہائش کے ذریعے بند کر دیں، یعنی ملک کے لیڈروں اور اعلیٰ ریاستی حکام کی رہائش گاہوں کو جانے والی اہم شاہراہوں اور ریاست کی وزارتوں، ہوائی اڈوں، سمندری و زمینی بندر گاہوں کی طرف جانے والی اہم سڑکوں کو بند کر دیں۔ اس طرح کے اقدامات فوری طور پر تمام مسلم ممالک میں عموماً جبکہ مصر اور اردن میں خصوصاً شروع کیے جائیں۔
- خطے کے تمام ممالک اور بالخصوص حرمین شریفین کی سرزمین، جسے آج کل سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، عراق اور کویت کہا جاتا ہے، میں موجود تیل اور معدنیات کی وزارتوں اور ان کی برآمدات کے شعبے میں کام کرنے والے ہر مسلمان یا بینکوں، کمپنیوں، مالیاتی اداروں اور دیگر وزارتوں یا سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے ہر مسلمان کو اجتماعی طور پر ہڑتال کرنی چاہیے اور اللہ کی توفیق سے بہترین نتائج حاصل کرنے کے لیے، اجتماعی و انفرادی طور پر، سوشل میڈیا اور دیگر ممکنہ اعلامی ذرائع سے اس عمل کی تحریض و تشہیر کی جائے۔
- خلیجی ریاستوں، عراق اور شام کے قبائل اور قبائلی عمائدین کو، ہر قسم کے ہتھیار حاصل کرنے کے لیے اور آنے والے ناگزیر دنوں کی تیاری کے لیے وسائل و اسباب مہیا کرنے میں جلدی کرنی چاہیے۔ انہیں آپس میں اتحاد، یکجہتی اور ہم آہنگی پیدا کرنی چاہیے اور ان قبائل کے فرزندوں اور نوجوانوں کو نفیرِ عام کی تیاری کے لیے وسائل کے حصول کو بڑھانا چاہیے تاکہ جب بھی فلسطین یا دشمن کے حملے کا سامنا کرنے والے کسی بھی ملک میں اپنے بے بس مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے پکارا جائے تو وہ پہلے سے تیار ہوں۔
- علماء، مبلغین، داعیانِ دین اور قبائلی عمائدین کو چاہیے کہ وہ امت بالخصوص اس کے نوجوانوں کو متحرک کریں، ان کے عزم و ہمت کو بڑھائیں اور انہیں اعداد و جہاد کے میدانوں کی طرف راغب کریں جن کا ذکر آگے آئے گا۔
- امت کے تاجروں کو بالخصوص اور ہر مقتدر و مال دار مسلمان کو بالعموم، جس قدر بھی ہو سکے، خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ، بغیر کسی خوف اور ہچکچاہٹ کے، اعداد و جہاد کے میدانوں میں اپنا مالی حصہ ضرور ڈالنا چاہیے۔
- امت کے نوجوانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے گھروں سے نکلیں اور سچے مجاہدین کی صفوں میں شامل ہو جائیں، خصوصاً تنظیم القاعدہ کے اپنے ان بھائیوں کے ساتھ جنہوں نے دہائیوں قبل امریکی صلیبیوں کے خلاف مقدس جہاد کا اعلان کیا تھا اور ان کے قائدین اور مشائخ نے اپنی اِس مبارک دعوت کو اپنے پاکیزہ خون اور مقدس لہو سے سیراب کیا ہے۔ لہذا آپ بھی ان سے جا ملیں، جہاد کی تیاری کریں، تربیت حاصل کریں اور خود کو ذہنی و جسمانی اور معاشرتی طور پر تیار کریں، اسلحے کے استعمال اور قتال کے طریقوں میں مہارت حاصل کریں، راہِ خدا میں نکلنے اور پیش قدمی کرنے کی خاطر ہر دم تیار رہیں، تاکہ اپنی امت کو ظلم و جبر اور بے بسی و پستی کے طویل دورانیے سے نکال پائیں اور اس کے مقدسات کو کفار و سرکش حکمرانوں سے بازیاب کرا سکیں۔ البتہ ان صفوں میں شامل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آپ پہلے سے مجاہدین کے ساتھ رابطہ کر کے ہجرت کا انتظام کریں اور مجاہدین کے اس محاذ سے اجازت حاصل کریں جو مقاتلین کے استقبال و سہولت کاری کا ذمہ دار ہے۔
- جزیرۃ العرب کے تمام نوجوانوں، اس کے معزز اور قابلِ فخر قبائل کو بالعموم اور یمن کے قبائل اور اس کے نوجوانوں کو بالخصوص، یمن کی مسلم سرزمین پر اترنے والے امریکیوں اور ان کی صف میں شامل ہونے والے ہر شخص سے لڑنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اور ہم یمنی مسلمانوں سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایمان و حکمت کی سرزمین یمن میں ’انصار الشریعہ‘ کے اپنے مجاہد بھائیوں کی حمایت کریں، زمین کو کفار اور ان کے ایجنٹوں کی غلاظت سے پاک کرنے کے لیے آدمیوں، سازوسامان، مالی امداد اور مؤثر شرکت کے ذریعے ان کے مددگار بنیں اور زمین پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی شریعت کے نفاذ کی جدوجہد میں ان کا ساتھ دیں۔
- ہر وہ شخص جو مرتد حکمرانوں کے قتل کی سنت کو زندہ کر سکتا ہے اور وہ مصر، اردن اور پورے جزیرۃ العرب کے حکمرانوں کے قریب ہے اسے چاہیے کہ انہیں قتل کرنے میں ایک لمحے کے لیے بھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے، کیونکہ واللہ! یہ اس وقت کا سب سے بڑا جہاد ہے۔ مسلم ممالک خصوصاً جزیرۃ العرب کے حکمران، مسلمانوں اور عربوں کی شکل میں یہودی ہیں جو پیسے، رسد اور لاجسٹک سپورٹ کے ساتھ غزہ کی جنگ میں صہیونیوں کو ہر ممکن مدد فراہم کر رہے ہیں۔ جو کچھ یہ حکمران اور ان کے کاسہ لیس منافق حامی، ٹی وی اسکرینوں پر کہتے ہیں اور فاسد میڈیا چینلوں کے ذریعے پھیلاتے ہیں، اس سے دھوکہ نہ کھائیں، کیونکہ اگر یہ نہ ہوتے تو غزہ کا محاصرہ نہ کیا جاتا، ہزاروں لوگ شہید نہ ہوتے اور لاکھوں بے گھر نہ ہوتے۔
تو جو کوئی ان کی افواج میں ہے اور اس کے دل میں ایمان ہے اور وہ اللہ کے عذاب سے ڈرتا ہے، اس لیے کہ اس نے اپنے فلسطینی بھائیوں کا ساتھ نہیں دیا، تو اب اس پر لازم ہے کہ وہ حرکت میں آئے اور ان ذلیل غلام افواج کے اندر کچھ کرے، جو یہودیوں اور مرتد حکمرانوں کی حفاظت پر مامور ہیں۔ خاص طور پر پائلٹوں پر فرض ہے کہ وہ یہودیوں پر حملہ کریں، علاقے میں پھیلے ہوئے امریکی اڈوں کو نشانہ بنائیں، اور سمندر میں موجود طیارہ بردار بحری جہازوں پر وار کریں۔ اور اگر اتنا بھی نہ کر سکیں، تو کم از کم ان غدار ایجنٹ عرب حکمرانوں کے محلات کو نشانہ بنائیں، کیونکہ نجاست کے حکم میں کتے کی دُم اور اُس کا سر، برابر ہیں۔ - عراق اور شام میں ہمارے غیرت مند، دلیر اور نڈر اہل سنت مجاہدین بھائیوں کو چاہیے کہ وہ اس فریضے کو ادا کریں جو اپنے فلسطینی بھائیوں کے تئیں ان پر عائد ہوتا ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ اللہ سے ڈریں اور اپنے فلسطینی بھائیوں کو، باطل، مردود اور غیر شرعی دلائل اور حیلے بہانوں سے مایوس نہ کریں، کیونکہ آپ کے آس پاس کے مسلمان ہر لمحہ قتل و غارت، خون، بیماری، بھوک اور پیاس میں جی رہے ہیں۔ وإلى الله المشتكى ولا حول ولا قوة إلا بالله۔
مزید برآں، ہم یہاں سے ایک بنیادی عملی پیغام ان تمام مسلمانوں کو دیتے ہیں جو امریکہ کی کافر، مجرم اور متکبر سرزمین پر رہائش پذیر ہیں، خواہ وہ عربی ہوں، امریکی ہوں یا کسی اور قوم سے تعلق رکھتے ہوں، شرط صرف یہ ہے کہ ان کا دین اسلام ہو اور ان کے نبی حضرت محمد ﷺ ہوں، جن کی تعداد صرف امریکہ میں پینتالیس لاکھ ہے۔ اُن سب سے ہم کہتے ہیں:
انتقام! انتقام! میرے بھائیو! بدلہ لو! امریکی کافروں کو قتل کرنے کے لیے کسی سے مشورہ مت کرو۔ آپ کا حوصلہ بلند ہونا چاہیے اور آپ کے مقرر کردہ اہداف کی فہرست مؤثر ہونی چاہیے، کیونکہ دنیا کے سب سے سخت اور سب سے بڑے مجرم آپ کے سامنے ہیں۔ یہ ’ٹرمپ‘ اور اس کا نائب ’وینس‘ ہے، یہ ’ٹرمپ‘ کا مشیر اور مالی، انتظامی اور تکنیکی معاون ’ایلون مسک‘ ہے، یہ اس کے وزرائے خارجہ و دفاع اور ان سب کے خاندان ہیں اور ہر وہ شخص جو وائٹ ہاؤس کے سیاست دانوں یا رشتہ داروں سے تعلق رکھتا ہے۔
غزہ میں ہمارے لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہو چکا ہے اور ہو رہا ہے اس کے بعد کوئی سرخ لکیریں نہیں رہتیں، یہ ایک نسل کشی کی جنگ ہے جس میں عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کا منظم، سوچا سمجھا، دیدہ و دانستہ قتل عام کیا گیا ہے۔ پس ’معاملہ بامثل‘ بالکل جائز ہے، خاص طور پر جب وہ فلسطین، شام، صومالیہ اور یمن میں ہماری عورتوں اور بچوں کو مسلسل قتل کر رہے ہیں۔ پس جب وہ رک جائیں گے تو ہم بھی رک جائیں گے!
اور آپ کے سامنے حقیقی صہیونیوں کا ایوان یعنی امریکی کانگریس اور سینیٹ ہے، جو برائی کا اڈہ اور بغض و بددیانتی کا گڑھ ہے۔ اور آپ کے سامنے وہ ادارے ہیں جو یہودیوں اور امریکی حکومت کی مدد کرتے ہیں، جیسا کہ مائیکروسافٹ اور ہر وہ کمپنی جو امریکہ کی زمینی، فضائی، یا بحری افواج کے لیے گولہ بارود تیار کرتی ہے یا انہیں کسی بھی قسم کی امدا دیتی ہے، اور آپ کے سامنے ’ایلان مسک‘ کے ادارے ہیں، جو ایک جائز ہدف ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان جیسا ہر وہ شخص جو مسلمانوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیتا ہے۔
ایک پیغام سائبر ہیکنگ کے شہسوار، مسلمان ہیکرز کے نام اور روئے زمین پر ہر اس آزاد شخص کے نام ہے جو قتل و غارت گری اور جرائم کو مسترد کرتا ہے: آپ کے سامنے امریکہ اور خلیجی ریاستوں کی معیشت ہے جو یہودیوں اور امریکیوں کی حمایت اور مالی معاونت کرتی ہیں۔ اپنے ہاتھوں کو ان کے خلاف کام کرنے سے نہ روکیں، اور مایوس نہ ہوں کیونکہ ہم میں سے ہر ایک وہی کچھ کرتا ہے جو وہ کرنا جانتا ہے اور اسے اچھی طرح سے کرتا ہے۔ اللہ آپ کو برکت دے، آپ کے ہاتھوں کو سلامت رکھے اور امت کے جان و مال اور مسلمانوں کی عزت و عصمت کی حفاظت کی خاطر اللہ تعالیٰ آپ کی ذہانت، چالاکی اور غیرت میں برکت عطا فرمائے۔
یہ ایک متنوع اور کثیر الجہتی جنگ ہے جسے امت کی طاقت و توانائیوں کی ضرورت ہے، لہذا دنیا بھر میں اپنے دین اور اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد و نصرت کریں، آج امتِ مسلمہ کے خلاف جنگ واضح طور پر ایک صیہونی – صلیبی جنگ ہے جس نے اپنے نوک دار دانت کھولے ہوئے ہیں۔ اس لیے ہمیں پورے عزم اور ہمت سے کام لینا چاہیے، آئیے ہم سب اٹھ کھڑے ہوں، کیونکہ فتح صرف ایک ساعت صبر کی دوری پر ہے اور صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔
ہائے افسوس! اے امریکہ میں بسنے والے میرے مسلمان بھائیو! امریکی کافر اسنائپر ’تھامس کروکس‘ جب ظالم ٹرمپ کو اپنی اسنائپر بندوق سے مارنا چاہتا تھا تو قربانی دینے اور مرنے کے لیے آپ سے زیادہ ہمت نہیں رکھتا تھا۔ نہ وہ عیسائی الیاس روڈریگز آپ سے زیادہ جرأت مند تھا جس نے حال ہی میں واشنگٹن میں صہیونی سفارت خانے کے دو ملازمین کو قتل کر دیا ہے اور نہ ہی وہ امریکی فوجی ’بوش نِل‘ آپ سے زیادہ باہمت تھا جس نے مسلمانوں کے قتل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے امریکہ میں یہودی سفارت خانے کے سامنے خود کو آگ لگا لی تھی۔ تو ایسی قربانیوں کے سلسلے میں آپ کہاں ہیں؟ والله المستعان۔
موت نے اُن لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جو نہ جنت پر ایمان رکھتے تھے اور نہ ہی اللہ سے ملاقات کا یقین رکھتے تھے۔ تو تمہارا کیا حال ہے جو اللہ کے وعدوں پر ایمان رکھتے ہو؟ اگر آپ اپنے رب کے لیے اپنے ارادے میں پختہ اور نیت میں مخلص ہیں تو اللہ کی قسم! شہادت کی موت کیسی بہترین موت ہے اور آپ کی طرف سے اپنے مظلوم بھائیوں کی کتنی اچھی مدد ہے اور یہ کتنا اچھا جہاد ہے اگر آپ اس کی اچھی طرح منصوبہ بندی کریں۔ پس اپنی روح کو جنت کی خوشبودار ہواؤں میں جانے دیں۔ تو آئیے ہم آپ کی طاقت اور امتِ محمدیہ (علی صاحبہا الصلاۃ والسلام) سے آپ کی وابستگی کا نظارہ کریں۔
میرا مشورہ ہے کہ آپ انگریزی زبان میں شائع کردہ میگزین ‘انسپائر‘ (Inspire) کے شماروں اور اس کے ’رہنما کتابچے‘ (Inspire Guide) کا مطالعہ کریں، کیونکہ اس میں بہت سے رہنما اصول ہیں جو ہر اُس آزاد شخص کو فائدہ پہنچائیں گے جو اپنے دین کے لیے غیرت و حمیت رکھتا ہے۔
ہم آپ کو یاد دلاتے ہیں کہ امریکہ میں یہودیوں کی تعداد کم نہیں ہے، وہ تقریباً ساٹھ لاکھ ہیں، جو فلسطین میں رہنے والے قابض یہودیوں کی تعداد کے تقریباً برابر ہیں۔ درحقیقت مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں رہنے والے قابض یہودیوں میں سے ایک تہائی امریکی شہریت کے حامل ہیں۔
اور اے یورپ میں رہنے والے ہمارے بھائیو! آپ کی تعداد تقریبا ایک کروڑ ساٹھ لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ آپ پر لازم ہے کہ یورپ میں یہودیوں کے امن و سکون اور آرام برباد کر دیں جس طرح انہوں نے ہمارے فلسطینی بھائیوں کے لیے کوئی گھر اور پناہ گاہ پُر امن نہیں چھوڑی، جہاں عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر بھی پر بمباری کی جا رہی ہے حتی کہ یہودیوں نے بیماروں اور زخمیوں سے بھرے ہسپتالوں کو بھی نہیں بخشا۔ لہذا یورپ میں رہنے والے میرے بھائیو! یہ انتقام اور بدلہ لینے کا وقت ہے، ہر شخص کے لیے جو اپنے کام کو بہتر جانتا ہے اور اس میں ماہر ہے۔ اللہ آپ کو فتح یاب فرمائے، اللہ آپ کی مدد کرے، اللہ آپ کی رہنمائی کرے اور اللہ آپ کو کامیاب فرمائے۔
جہاں تک بات ہے وائٹ ہاؤس کے سیاست دانوں کی جن سے ہم نے ساری عمر ظلم، جبر، قتل و غارت، تباہی، اقوامِ عالم کی نسل کشی اور نسلی و وجودی تطہیر کی جنگوں کے سوا کچھ نہیں دیکھا اور نہ ہی سنا ہے۔ جہاں بھی وہ اپنے مفادات دیکھتے ہیں، وہ جنگی مشین کے ساتھ اپنے سامنے موجود ہر رکاوٹ کو ختم کرنے کے لیے کام کرتے ہیں، خواہ وہ اس سرزمین کے تمام اصل مالکوں اور سب مقامی باشندوں کی جانیں لے کر ہی کیوں نہ ہو۔ اپنے مفادات کے حصول کے لیے اگر انہیں لاکھوں جانیں لینی پڑیں تب بھی انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، جب تک دوسرا فریق کمزور ہے، یہ لوگ اس کی کسی بھی انسانی قدر یا حساسیت کو خاطر میں لائے بغیر پوری خود غرضی اور ڈھٹائی کے ساتھ اپنے مفادات حاصل کر لیتے ہیں، چاہے اس کے لیے تمام ممالک کو بچوں، عورتوں اور ان میں موجود ہر مخلوق سمیت فنا کر دیا جائے۔ انہیں اس میں کوئی عار نظر نہیں آتی، کیونکہ یہ معاملہ پوری سرد مہری کے ساتھ ان کی خونی لغت میں بہت سادہ ہے۔ یہی امریکی ذہنیت ہے، جب تک کہ مقصد امریکہ کے مفادات کا حصول ہو یا امریکہ کی اکاون ویں ریاست ’اسرائیل‘ کا قیام ہو، جسے وہ عرب اسلامی سرزمین پر قائم کرنا چاہتے ہیں جسے وہ ان شاء اللہ کبھی حاصل نہیں کر سکیں گے۔
اور متکبر، ذلیل یہودی ٹرمپ کے لیے میرا پیغام ہے: تمہارے پیشرو بائیڈن نے صہیونی وجود (اسرائیل) کی ہر طرح کی عسکری، مالی اور سیاسی امداد جاری رکھی اس کے باوجود تم نے اس مردود، بڈھے، لعین بائیڈن کو طعنہ دیا اور اسے فلسطینی کہا۔ اے مغرور و متکبر ٹرمپ! اپنے بوڑھے پیشرو کو اس وصف کے ساتھ بیان کر کے، تم نے خود کو ثابت کر دیا کہ تم اس وقت، اثرات و نتائج کا حساب لگائے بغیر، صہیونیت کا دفاع کرنے والے شدید اور پُرجوش صہیونی یہودی ہو۔ اور یہ وہی ہے جو تم نے اپنے اقتدار کے پہلے دن سے ہی ثابت کیا ہے۔ پس ہلاکت ہو تم پر اور بربادی ہو امریکہ اور اس کی پوری تاریخ میں گزرے مجرم، قاتل امریکی سیاست دانوں پر، کیونکہ تم ایسے ہی ہو اور ہم نے اور آزاد دنیا نے تمہیں ایسا ہی پایا ہے۔
جہاں تک یہودیوں اور ان کے حوالے سے امریکی سیاست دانوں کے موقف کا تعلق ہے تو یہ ہمیشہ ان کے شانہ بشانہ اور کندھے سے کندھا ملا کر ان کی حمایت اور معاونت کا موقف رہا ہے، ماضی اور حال کے جن امریکی حکمرانوں کو ہم جانتے ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس نے یہودیوں کی مخالفت کی ہو، سوائے ان کے ایک صدر کے۔ تقریباً دو سو سال قبل آنے والا یہ صدر تھامس جیفرسن تھا۔
امریکی حکمرانوں میں سے شاید یہ واحد شخص ہے جس نے یہودیوں کے بدنیتی پر مبنی شیطانی پودے کو سمجھا اور اپنے عوام کو خبردار کرنے اور انہیں ایک مخلصانہ مشورہ دینے کی کوشش کی۔ پھر وقت نے اس کی بات کو سچ ثابت کر دیاجس سے اس نے انہیں خبردار کیا تھا۔ اس نے اپنے عوام سے کہا تھا:
’’اس وقت اگر تم یہودیوں کو اپنے ملک سے نہ نکالو گے تو وہ تمہیں غلام بنا لیں گے اور تم اپنی ہی سرزمین میں ان کے غلام بن جاؤ گے۔‘‘
خدا کی قسم! وہ اپنی بات میں درست تھا۔ پس جو کوئی بھی اس کے بعد آنے والے امریکی حکمرانوں کی تاریخ پر نظر ڈالے گا، حتی کہ آج کے اس متکبر، ظالم امریکی صدر ٹرمپ تک، وہ اس سچائی سے بے خبر نہیں ہو گا جو ان حکمرانوں کی خاصیت تھی۔ یہ سب کے سب یہودیوں کے تابعدار غلام بن گئے اور عالمی صلیبی – صہیونیت کے آقاؤں کے مطیع و فرماں بردار بن کر، بلا استثناء، ان کی ہر خواہش پوری کرتے رہے۔
اے امریکیو! اگر تم نے اپنے دوست جیفرسن کی باتوں پر عمل کیا ہوتا اور اس کی نصیحت کو قبول کیا ہوتا تو تم اپنے ملک کے آسمان پر گیارہ ستمبر کا ’سیاہ منگل کا دن‘ نہ دیکھتے، جس کی وجہ سے اور جس کے نتائج و اثرات سے تم پر یکے بعد دیگرے ایسے حالات آئے کہ تم معاشی دیوالیہ پن اور قوموں کے درمیان زبردست زوال کے دہانے پر پہنچ گئے، اور آج تم وہی غلطی دہرا رہے ہو، لیکن اس سے بھی زیادہ سنگین، گھناؤنے اور خوفناک انداز میں۔ او خدایا! کیا تم سمجھتے نہیں اور ہر بار وہی غلطی دہراتے ہو؟ پوری بے شرمی، بے حیائی اور ڈھٹائی کے ساتھ تم اپنے آپ کو یہ حق دیتے ہو کہ ہماری زمینوں اور ہمارے مقدس مقامات کی خرید و فروخت کرو، وہاں کے اصلی مقامی باشندوں کو بے گھر کرو اور پھر اپنی مرضی کے لوگوں کو وہاں لا کر آباد کرو، گویا ہم، تمہارے سامنے گوشت پوست اور خون سے بنے انسان نہیں ہیں، ہمارے پاس شعور، جذبات، غیرت و جلال اور وقار نہیں ہے۔
مگر ہاں! یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ یہ تمہاری طرف سے آیا ہے، کیونکہ تمہاری تاریخ اور طرزِ عمل سب کو معلوم ہے، اور تمہارے آبا و اجداد کے زمانے سے سرخ ہندیوں (ریڈ انڈینز) کے ساتھ تمہارا معاملہ یہی چلا آ رہا ہے، جو اُس سرزمین (امریکہ) کے اصل باشندے ہیں جس پر تمہارا ناحق، جارحانہ اور غاصبانہ قبضہ ہے، جسے ہر کوئی جانتا ہے۔
لیکن ایسا لگتا ہے کہ اے امریکیو! کچھ ایسا ہے کہ جو تم نے کھو دیا ہے۔اور یہ وہ ’فرق‘ ہے جو ہم مسلمانوں میں اور دوسروں میں ہے۔ سنو! ہم اہلِ اسلام ہیں، ایمان، قربانی، بہادری اور جرأت کے امین ہیں۔ خدا کی قسم! ہمارے مجاہد سپاہی اللہ کی راہ میں موت و شہادت کو اسی طرح پسند کرتے ہیں جس طرح تم شراب کو پسند کرتے ہو۔ لہذا جو شخص اللہ کے ساتھ ہے، اس کے حقوق کا پابند ہے، اس کے احکام کی پیروی کرتا ہے اور اس کی ممانعتوں سے بچتا ہے، خدا کے اس وعدے پر یقین رکھتا ہے کہ، اے کافرو، فاجرو! اگر وہ تم سے لڑے گا تو رب العالمین اسے انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ بلند ترین جنتوں میں بسائے گا، وہ اس شخص کی طرح نہیں ہے جو اپنی معشوقہ کا انتظار کرتا ہے، اس سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ زیادہ دیر تک اس سے دور نہیں رہے گا، اور پھر ہم سے لڑنے آ جاتا ہے، پس یہ دونوں برابر نہیں ہیں۔ تم ہمیں افغانستان، عراق اور صومالیہ میں آزما چکے ہو، تو تم نے ہمیں کیسا پایا؟
تم نے میڈیا کی پروپیگنڈا جنگ کے ذریعے ہمارے عادلانہ موقف اور حق بات کو دہائیوں تک چُھپائے رکھا، ہم امید کرتے ہیں کہ شیخ اسامہ بن لادن کے امریکیوں کے نام پیغام کا دو دہائیوں بعد امریکہ میں دوبارہ پھیلنا، اس حکمت کی طرف اشارہ ہے کہ نئی امریکی نسل اسے پڑھے، اس سے سبق حاصل کرے اور ہمارے مبنی بر انصاف قضیے کو پہچانے۔
اے اللہ! اے حاجتوں کے پورا کرنے والے، اے دعاؤں کے قبول کرنے والے، اے مصیبتوں کو دور کرنے والے، ہمیں اور غزہ کے ہمارے مظلوم مسلمان بھائیوں کو اور زمین کے ہر گوشے میں رہنے والے مسلمانوں کو ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ اور ہر پریشانی سے نجات عطا فرما، اے اللہ! تو ہمارا اور ان کا نگہبان اور حامی و ناصر ہوجا، آمین، یا رب العالمین۔
اے اللہ! امریکہ، اس کے اتحادیوں اور یہودیوں، ان کے حامیوں اور مددگاروں سے اپنی شان کے مطابق معاملہ فرما۔ اے اللہ! انہیں شمار کر اور انہیں ایک ایک کر کے قتل کر دے اور ان کو برباد فرما اور ان میں سے کسی ایک کو بھی نہ چھوڑ۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
٭٭٭٭٭