بابری مسجد ریاست اترپردیش کے علاقے فیض آباد1 میں (جسے ہندو ’ایودھیا‘ کہتے ہیں) ، مغل دور کی تعمیر شدہ ایک مسجد تھی۔ تقسیم ہِند کے ساتھ ہی ملک گیر سطح پر ’رام جنم بھومی‘ تحریک شروع ہوئی اور یہ مطالبہ پیش کیا گیا کہ بابری مسجد رام جنم استھن (رام کی پیدائش کی جگہ) پر بنائی گئی ہے اور یہاں رام مندر بنایا جانا چاہیے۔ ہندو قوم پرستوں نے ۶ دسمبر ۱۹۹۲ء کو اس مسجد کو (حکومتی سرپرستی میں )ایک بلوے میں شہید کر دیا۔ اس کے بعد معاملہ عدالت کے سپرد ہو گیا، ۲۷ سال تک یہ کیس لٹکا رہا اور سیاسی مفادات کی نظر ہوتا رہا۔ بالآخر ۲۰۱۹ء میں سپریم کورٹ نے فیصلہ ہندوؤں کے حق میں دیا اوربابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کا کام شروع ہو گیا، تعمیر مکمل ہونے کے بعد ۲۲ جنوری ۲۰۲۴ء کو اس کا افتتاح ہو گیا۔
بابری مسجد کی تعمیر
بابری مسجد پر موجود ایک کتبے کے مطابق ۹۳۵ھ بمطابق ۱۵۲۸ء میں مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر کے ایک کماندان میر باقی تاشقندی نے تعمیر کروائی، جو کہ اس وقت اوادھ (موجودہ ایودھیا) کا گورنر تھا۔بعض محققین کی رائے میں اس مسجد کا سنگ بنیاد ابراہیم لودھی نے رکھا تھا لیکن اسے مکمل مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے کروایا۔
ہندو قوم پرست بابری مسجد کے سنِ تعمیر کے حوالے سے بھی شبہات پیدا کرتے رہے ہیں اور مختلف دلائل اور من گھڑت شواہد سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ یہ مسجد بابر نے نہیں بلکہ اورنگزیب نے بنوائی تھی اور بابر سے اورنگزیب کے زمانے تک اس مسجد کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ چونکہ اورنگزیب کو ہندو پہلے سے ہی ایک متشدد، ہندوؤں کا دشمن اورمندروں کو مسمار کرنے والا کہتے آئے ہیں تو اگر اس مسجد کی تعمیر کو بھی اورنگزیب کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو ایک اور دلیل مل جائے گی کہ یہ مسجد مندر کو توڑ کر بنائی گئی ہے۔
تنازع کی ابتداء
مسجد کی تعمیر کے تین سو سال تک مسجد کے حوالے سے کوئی تنازع کھڑا نہیں ہوا اور نہ ہی ایسی کوئی بات سامنے آئی کہ مسجد کسی مندر کو منہدم کر کے بنائی گئی ہے ، کجا یہ کہ ہندوؤں کے اہم ترین دیوتا ’رام‘ کی جائے پیدائش پر بنائی گئی ہو۔
پہلی بار بابری مسجد پر تنازع ہندوستان میں برطانوی راج میں شروع ہوا جب ہندو قوم پرستی نے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں نیا نیا سر اٹھانا شروع کیا تھا۔
۱۸۵۳ء میں بعض مسلح ہندو شدت پسندوں نے بابری مسجد پر قبضہ کر لیا ، جس کے بعد یہ تنازع دو سال تک چلتا رہا۔ ان مسلح ہندو شدت پسندوں کا مطالبہ تھا کہ یہاں مندر تعمیر کیا جائے۔۱۸۵۵ء میں اسی حوالے سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جھڑپ ہوئی۔ برطانوی انتظامیہ نے مداخلت کی اور مزید تنازع سے بچنے کے لیے مسجد کے صحن کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ اندرونی صحن مسجد کے حصے میں رہا، جبکہ بیرونی صحن ہندوؤں کو پوجا کے لیے دے دیا گیا۔ ہندوؤں نے بیرونی صحن میں پوجا کے لیے ایک چبوترہ بنایا جسے ’’رام چبوترہ‘‘ کا نام دیا گیا 2۔
تقسیمِ ہند کے بعد تنازع میں شدت اور مسجد میں بتوں کی تنصیب
۱۸۵۳ء میں شروع ہونے والا یہ تنازع نزدیک ایک صدی تک ایک مقامی سطح کا تنازع ہی رہا اور اس نے ملکی سطح کی اہمیت اختیار نہیں کی۔ لیکن برطانوی راج کے اختتام پر جب ہندو قوم پرستوں نے اپنی پوری توجہ پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف دشمنی کو بھڑکانے پر لگا دی تھی وہ ڈھونڈ ڈھوند کر مقامی سطح کے ہندو مسلم تنازعات کو قومی سطح پر لانے کی کوشش کر رہے تھے۔
اسی سلسلے میں دسمبر ۱۹۴۹ء میں ہندو قوم پرست تنظیم اکھِل بھارتیہ رامائن مہاسبھا نے مسجد کے باہر ۹ دن تک بلا تعطل بھجن گانا شروع کیا۔ اس کے اختتام پر ۲۲ اور ۲۳ دسمبر ۱۹۴۹ء کی درمیانی رات پچاس ساٹھ کے قریب ہندو مسجد میں داخل ہو گئے اور اس میں ’رام‘ اور ’سیتا‘ کی مورتیاں رکھ دیں۔ جبکہ ۲۳ دسمبر ۱۹۴۹ء کی صبح تنظیم کے منتظمین نے لاؤڈ سپیکروں پر اعلان کروا دیا کہ رات مسجد میں رام اور سیتا کی مورتیوں کا کرشماتی طور پر ظہور ہو گیا ہے، اور ہندو یاتریوں کو دعوت دی کہ وہ مسجد میں ’درشن‘ کے لیے آنا شروع کریں۔ ہزاروں ہندوؤں نے مسجد میں آنا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں حکومت نے مسجد کو متنازع جگہ قرار دے کر اسے تالا لگا دیا۔
وزیر داخلہ ’والا بھائی پٹیل ‘ اور وزیر اعظم ’جواہر لال نہرو‘ نے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ ’گووند بالبھ پنت‘ اور اتر پردیش کے وزیر داخلہ ’لال بہادر شاستری‘ کو ان مورتیوں کو مسجد سے ہٹانے کا کہا۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ نے مورتیاں ہٹانے کا حکم دیا لیکن فیض آباد (موجودہ ایودھیا) کے ڈپٹی کمشنر نے ہندو قوم پرستوں کے ڈر سے یا شاید اپنی قوم پرستی ہی کی وجہ سے اس حکم کی تعمیل سے انکار کر دیا۔
اس کے بعد یہ تنازع عشروں تک عدالتی کاروائی کی نظر ہوگیا۔ نہ تو مسجد کا تالا کھولا گیا اور نہ ہی اندر سے مورتیاں ہٹائی گئیں۔ لیکن ایک ہندو پجاری کو مسجد میں مورتیوں کی سال میں ایک بار پوجا کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ بالفاظِ دیگر ڈاکوؤں نے گھر پر حملہ کیا، حکومت نے گھر کے مکینوں کو بے دخل کر کے گھر کو تالا لگا دیا اور ڈاکوؤں کو کہا کہ تم سال میں ایک بار گھر کا چکر لگا سکتے ہو۔
رام رتھ یاترا اور بابری مسجد کی شہادت
۱۹۸۴ء میں ’ویشوا ہندو پریشاد‘ (وی ایچ پی) نے بابری مسجد میں ہندوؤں کے داخلے کی اجازت کے لیے عوامی حمایت حاصل کرنے کی مہم کا آغاز کیا اور اس مقصد کے لیے رتھ یاتراؤں کا اہتمام کیا۔ ۱۹۸۶ء میں آخر ِ کار راجیو گاندھی کی حکومت نے بابری مسجد کے تالے کھولنے اور ہندوؤں کو اس میں داخلے کی اجازت دے دی، اس طرح بابری مسجد نے ایک طرح سے ہندو مندر کی شکل اختیار کر لی۔
نومبر ٍ۱۹۸۹ء میں چناؤ سے قبل وی ایچ پی نے مزید آگے بڑھتے ہوئے حکومتی آشیرباد کے ساتھ مسجد کی حدود میں شیلانیاس (بنیاد کا پتھر رکھنے کی رسم) کی تقریب منعقد کی۔ اور بابری مسجد کی حدود میں رام مندر کی علامتی بنیاد رکھ دی گئی۔
ستمبر ۱۹۹۰ء میں بی جے پی کے لیڈر ’ایل کے ایڈوانی‘ نے جنوبی ہند میں سومناتھ کے مندر سے ایودھیا تک دس ہزار کلومیٹر لمبی رتھ یاترا کا آغاز کیا، جس کا مقصد بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کے لیے حمایت اکٹھی کرنا تھا۔ اس رتھ یاترا میں ہزاروں کی تعداد میں سنگھ پریوار کے کار سیوکوں نے حصہ لیا۔
یہ رتھ یاترا جہاں جہاں سے گزر رہی تھی وہاں کار سیوک مسلمانوں کے خلاف فسادات مچاتے جا رہے تھے۔ خاص طور پر شمالی ہند میں داخل ہونے کے بعد کار سیوکوں نے مسلمانوں کے خلاف بہت دنگا فساد مچایا۔ جس جس ریاست سے یہ رتھ یاترا گزرتی رہی وہاں کی ریاستی حکومت اور سکیورٹی اداروں نے نہ صرف ان کار سیوکوں کا تحفظ کیا بلکہ دنگے فسادات میں بھی انہیں کھلی چھوٹ دیے رکھی۔ یہ رتھ یاترا کئی دنوں تک دہلی میں رکی رہی اور وہاں بھی کار سیوک مسلمانوں کے خلاف دنگے کرتے رہے لیکن حکومت نے ان کے خلاف کوئی خاص اقدام نہیں کیا۔ لیکن جب یہ بہار میں داخل ہوئی تو وہاں کے وزیر اعلیٰ ’لالو پرشاد یادو‘نے ایل کے ایڈوانی کو روک لیا اور اسے ایک حکومتی پر آسائش مہمان خانے میں نظر بند کر دیا۔
ایڈوانی کی نظر بندی کے بعد بھی بڑی تعداد میں کار سیوک اتر پردیش میں داخل ہو گئے جہاں بہت سوں کو اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادو کے حکم سے گرفتار کر لیا گیا۔ لیکن پھر بھی ہزاروں کی تعداد میں کار سیوک ایودھیا پہنچ گئے۔ اگرچہ بابری مسجد کی حفاظت کے لیے بیس ہزار سکیورٹی افراد تعینات تھے لیکن انہیں سکیورٹی افراد کی مدد سے ہی کار سیوک بغیر کسی مذاحمت کے بابری مسجد پہنچ گئے۔ بابری مسجد پہنچ کربلوائیوں نے مسجد کی چھت پر بھگوا جھنڈا لہرایا اور کلہاڑیوں اور ہتھوڑوں کی مدد سے مسجد کو مسمار کرنا شروع کر دیا۔ اتر پردیش کی حکومت کے حکم سے سکیورٹی اہلکاروں کو ان کار سیوکوں کے خلاف کاروائی کرنا پڑی جس سے سکیورٹی افراد اور کار سیوکوں کے درمیان جھڑپ شروع ہوئی جو تین دن تک جاری رہی جس میں وی ایچ پی کے بیس کار سیوک مارے گئے۔
اس رتھ یاترا کے دوران مسلمانوں کے خلاف ۱۶۶ فسادات ہوئے جس میں ۵۶۴ لوگ مارے گئےجن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ بابری مسجد کی جگہ پر سکیورٹی فورس کے ساتھ جھڑپ میں وی ایچ پی کار سیوکوں کے مارے جانے کے بعد سنگھ پریوار نے ان کی موت کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ۔ حالانکہ انہیں مارا سکیورٹی اہلکاروں نے تھا لیکن بدلہ مسلمانوں سے لیا گیا اور پورے ہندوستان بالخصوص اتر پردیش میں مسلمانوں کے خلاف فسادات شروع ہو گئے۔ جن میں سینکڑوں مسلمان شہید ہوئے۔
بابری مسجد میں سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ جھڑپ کی وجہ سے بی جے پی نے مرکزی حکومت کے اتحاد سے خود کو احتجاجاً علیحدہ کر لیا جس کی وجہ سے حکومت تحلیل ہو گئی اور دوبارہ چناؤ کروانے پڑے۔ ۱۹۹۱ء کے چناؤ میں بی جے پی نے ایودھیا واقعہ سے خوب سیاسی فائدہ اٹھایا جس کی وجہ سے مرکزی حکومت میں بھی بی جے پی کی سطح مضبوط ہوئی جبکہ اتر پردیش کی ریاست میں بی جے پی کی اپنی حکومت آگئی جس نے بابری مسجد کو شہید کرنے کا راستہ ہموار کر دیا۔
۶ دسمبر ۱۹۹۲ء کے دن سنگھ پریوار نے بابری مسجد کے باہر ایک ریلی کا اہتمام کیا جس میں سنگھ پریوار کے ڈیڑھ لاکھ کے قریب کار سیوکوں نے حصہ لیا۔ اس ریلی سے ایل کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی نے خطاب کیا۔ ان کی اشتعال انگیز تقریروں سے مشتعل ہجوم میں سے ایک شخص نے دوپہر کے وقت مسجد کی چھت پر چڑھ کر وہاں بھگوا جھنڈا لہرا دیا۔ بھگوا جھنڈا لہراتا دیکھ کر پورا ہجوم مسجد پر پل پڑا اور ہتھوڑوں اور کلہاڑیوں سے مسجد کو مسمار کرنا شروع کر دیا۔ مسجد کی حفاظت پر مامور تمام سکیورٹی اہلکار وہاں سے فرار ہو گئے اور انہوں نے کوئی مزاحمت نہیں دکھائی۔ چند ہی گھنٹوں میں ان بلوائیوں نے پوری مسجد کو زمین بوس کر دیا۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد اس دن ان بلوائیوں نے ایودھیا کی دیگر کئی مسجدوں کو بھی شہید کیا۔
اس سانحہ سے شہ پکڑ کر پورے ملک میں ہندو قوم پرستوں نے مسلمانوں پر حملے شروع کر دیے۔ بمبئی، سُرت، احمد آباد، کانپور، دہلی، بھوپال سمیت ملک کے کئی شہروں میں مسلمانوں پر حملے ہوئے اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۰۰ افراد ہلاک ہوئے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ شیو سینا نے بمبئی کے اندر مسلمانوں پر حملے کیے جس میں صرف بمبئی شہر میں ۹۰۰ مسلمان شہید ہوئے۔
انٹیلی جنس بیورو کے جوائنٹ ڈائریکٹر کے انکشافات
انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’انٹیلی جنس بیورو‘ کے اس وقت کے جوائنٹ ڈائریکٹر ’مالوئے کرشن دھر‘ نے ۲۰۰۵ ء میں اس حوالے سے اپنی کتاب3 میں انکشاف کیا کہ بابری مسجد کے انہدام کا واقع کسی ہجوم کے وقتی اشتعال کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس پوری کاروائی کی منصوبہ بندی سنگھ پریوار کی قیادت نے دس ماہ قبل کر لی تھی۔ کرشن دھر کے بقول اس نے سنگھ پریوار کی قیاد ت کی ایک اہم میٹنگ کی گفتگو ریکارڈ کی تھی جس میں بابری مسجد کے انہدام کا پورا منصوبہ ترتیب دیا گیا تھا۔ کرشن دھر نے اس ریکارڈنگ کی ٹیپ آئی بی کے ڈائریکٹر کو دی جس نے اس ٹیپ کی معلومات اس وقت کے وزیر اعظم نرسیما راؤ کو بھی بتائیں لیکن وزیر اعظم کی طرف سے اس پر کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ کرشن دھر کے بقول سنگھ پریوار اور شیو سینا کی ساری قیادت اس بات پر متفق تھی کہ ایودھیا کا یہ معاملہ ہندتوا کی لہر کو عروج پر لے جانے کے لیے ایک نادر موقع ہے جس سے بے پناہ سیاسی فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں4 ۔
لبرہن کمیشن رپورٹ
حکومتِ ہند نے بابری مسجد کے انہدام اور اس کے بعد ہونے والے فسادات کی تحقیات کرنے کے لیے آندھرا پردیش ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس ’منموہن سنگھ لبرہن‘ کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا۔ اس کمیشن کو تین ماہ میں اپنی رپورٹ جمع کروانے کا کہا گیا تھا۔ لیکن اس مدت میں اڑتالیس بار توسیع کی گئی۔ سترہ سال پر محیط ۳۹۹ نشستوں کے بعد اس کمیشن نے اپنی رپوٹ ۳۰ جون ۲۰۰۹ء کو اس وقت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ کے حوالے کی۔
رپورٹ میں ’ایل کے ایڈوانی‘، ’مرلی منوہر جوشی‘، اٹل بہاری واجپائی اور خاص طور پر اتر پردیش کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ ’کلیان سنگھ‘ سمیت ۶۸ افراد کو بابری مسجد کے انہدام اور اس کے ساتھ ہونے والے فسادات کا ذمہ دار قرار دیا، اور کہا کہ بابری مسجد کا انہدام کوئی اچانک اور حادثاتی طور پر نہیں ہوا بلکہ پہلے سے طے شدہ منصوبہ تھا جس کی بنیادی منصوبہ ساز آر ایس ایس تھی جو کہ پورے سنگھ پریوار کی قیادت کرتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اترپردیش میں کلیان سنگھ کی سربراہی میں قائم بی جے پی کی حکومت نے بابری مسجد کو منہدم کرنے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ کلیان سنگھ نے جان بوجھ کر ایسے بیوروکریٹ اور سکیورٹی اہلکار تعینات کیے جو کہ مسجد پر حملے کے وقت خاموشی اختیار کریں۔ اور ایسے تمام بیوروکریٹس کو پہلے سے ہی اہم منصبوں سے ہٹا دیا گیا جن کے متعلق احتمال تھا کہ وہ اس منصوبے کے راستے میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ اسی طرح سکیورٹی نظام میں بھی تبدیلیاں لائی گئیں اور اسے بھی اس منصوبے کے موافق کیا گیا۔
رپورٹ کے بقول کلیان سنگھ اور اس کی کابینہ نے اپنی حکومت کے مکمل اختیارات آر ایس ایس کے حوالے کر رکھے تھے اور آر ایس ایس اتر پردیش کی حکومت کو براہ راست چلا رہی تھی۔ کلیان سنگھ کی حکومت سنگھ پریوار کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک اہم عنصر تھی اور کلیان سنگھ ، پریوار کی توقعات پر پورا اترا۔
رپورٹ کے بقول کلیان سنگھ نے اس پورے فساد کے دوران مکمل خاموشی اختیار کیے رکھی، اور کوئی ایک بھی ایسا قدم اٹھانے سے انکار کیا جو کہ ایودھیا مہم کو دبا سکے، مسجد کو منہدم کرنے کے عمل کو روک سکے یا اس کے بعد صحافیوں اور معصوم لوگوں کے قتل عام کو روک سکے۔
اس نے جان بوجھ کر بابری مسجد پر حملہ آوروں کے خلاف پولیس کو طاقت استعمال کرنے کا حکم نہیں دیا۔ اور بابری مسجد کے مکمل تباہ ہونے کے بعد بھی جب بلوائی مسلمانوں کا قتلِ عام کر رہے تھے اور کلیان سنگھ اس بات سے بخوبی آگاہ بھی تھا تب بھی اس نے پولیس کو ان کے خلاف طاقت استعمال کرنے کا نہیں کہا۔
لبرہن کمیشن رپورٹ پر سنگھ پریوار کا ردّ عمل
لبرہن کمیشن رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد اس وقت کے آر ایس ایس کے سربراہ ’کے سی سدھرشن‘ نے بیان دیا کہ مسجد کو منہدم کار سیوکوں نے نہیں بلکہ حکومتی لوگوں نے کیا تھا۔ لیکن اس نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کون سی حکومت نے۔ کیونکہ وہاں کا سارا کنٹرول تو ریاستی حکومت کے پاس تھا اور ریاست میں ان کی اپنی جماعت بی جے پی کی حکومت تھی۔
اس نے مزید کہا کہ اس موقع پر وہ ایودھیا میں موجود تھا اور اس کی خواہش تھی کہ رام مندر کسی غیر متنازع جگہ پر تعمیر کیا جائے لیکن حکومتی افراد نے ایسا ہونے نہیں دیا اور مسجد کو منہدم کر دیا۔ اس کے بقول ویشوا ہندو پریشاد اور بجرنگ دل جیسی ہندو تنظیموں کو بلاوجہ مسجد کے انہدام کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔اس کے بقول یہ واقعہ پہلے سے طے شدہ نہیں تھا بلکہ حکومت کی لاپرواہی اور عدالت سے فیصلہ آنے میں تاخیر کی وجہ سے معاملات قابو سے باہر ہو گئے اور لاکھوں لوگ کار سیوا کے لیے اس جگہ پر جمع ہو گئے۔
اس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ وہ لوگ جو مسجد کی چھت پر چڑھے ہوئے تھے وہ مسجد کی چھت کو بھاری ہتھوڑوں اور سنبلوں سے توڑنے میں ناکام رہے تو وہاں موجود مسلح سکیورٹی اہلکاروں نے مسجد کی دیواروں کو بارود لگا کر پھاڑ دیا جس کی وجہ سے پوری عمارت منہدم ہو گئی۔
آر ایس ایس کے سربراہ سدھرشن کے اس بیان کے دو دن بعد آر ایس ایس کی طرف سے ایودھیا تحریک کی رسمی طور پر ذمہ داری قبول کر لی گئی لیکن ساتھ ہی مسجد کے انہدام اور اس کے ساتھ جو فسادات ہوئے اس پر معافی مانگنے سے صاف انکار کر دیا ۔ آر ایس ایس کے ایک رہنما اورسنگھ پریوار کے سابق ترجمان ’رام مادھو‘ نے ایک نجی ٹی وی چینل پر بیان دیتے ہوئے کہا :
’’ہم اس تحریک کی مکمل ذمہ داری لیتے ہیں۔ ہم ہی نے لوگوں کو متحرک کیا۔ سب کو کروڑوں لوگوں کے جذبات کا احترام کرنا چاہیے۔ ہم معافی نہیں مانگیں گے۔ ‘‘
اس رپورٹ پر ویشوا ہندو پریشاد (وی ایچ پی ) نے بیان دیا کہ بابری مسجد کا انہدام ہندوؤں کے لیے ایک فخریہ لمحہ تھا اور اسے اس جگہ رام مندر بنانے کے لیے ہی منہدم کیا گیا۔ وی ایچ پی کے سیکریٹری جنرل ’پرَوین توگاڈیا‘(Praveen Togadia) نے کہا:
’’لبرہن کمیشن جیسی رپورٹیں آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں۔ لیکن ہندو ثقافت جو اپنے ورثے پر فخر کرتی ہے اور اپنی عبادت گاہوں کی حفاظت کرتی ہے ، وہ اپنی جگہ پر ہمیشہ سے تھی اور ہمیشہ رہے گی۔ اکھنڈ بھارت میں حملہ آوروں کی چھوڑی ہوئی کوئی بھی علامتی تعمیر پوری قوم کے لیے شرم کا باعث ہے۔ بابری مسجد کا انہدام ہندوؤں کے لیے سب سے زیادہ فخریہ لمحہ تھا۔ اس مقام پر ایک عظیم الشان مندر تعمیر کیا جائے گا۔ یہ ہندوؤں کا معاشرتی، مذہبی، ثقافتی اور قانونی حق ہے۔‘‘ 5
لبرہن رپورٹ میں مجرمین کی واضح نشاندہی اور اس کے بعد سنگھ تنظیموں کی طرف سے اتنے واضح اعتراف کے باوجود ملوث افراد کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔ مارچ ۲۰۱۵ء میں سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ چونکہ بی جے پی حکومت میں ہے اس لیے ’سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن‘ (سی بی آئی) ایل کے ایڈوانی اور راج ناتھ سمیت دیگر بی جے پی رہنماؤں کے خلاف سازش کے الزامات کی پیروی نہیں کر رہی۔ عدالت نے سی بی آئی سے درخواست دائر کرنے میں تاخیر پر وضاحت طلب کر لی۔
اپریل ۲۰۱۷ء میں سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے ’ایل کے ایڈوانی‘، ’مرلی منوہر جوشی‘، ’اوما بھارتی‘ سمیت بتیس سنگھ پریوار کے رہنماؤں کے خلاف مجرمانہ سازش کے الزامات پر کاروائی شروع کی۔
۳۰ ستمبر ۲۰۲۰ء کو اس عدالت نے تمام بتیس ملزمان کو ’غیر قطعی شواہد‘ کی وجہ سے بری کر دیا۔ خصوصی عدالت کے جج ’سریندر کمار یادو‘ نے فیصلہ دیا کہ بابری مسجد کا انہدام پہلے سے طے شدہ منصوبہ نہیں تھا۔
بابری مسجد کی شہادت کے بعد ’’ویشنو ہری‘‘ کتبوں کی دریافت
بابری مسجد کی شہادت کے فوری بعد ہندو کارسیوکوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں بابری مسجد کی جگہ سے تین کتبے ملے ہیں جن میں سے ایک ویشنو ہری کتبہ آثار قدیمی کے ماہرین کے بقول دسویں اور گیارہویں صدی کے ویشنو مندر کا تھا۔
اس موقع پر شور مچ گیا کہ یہ ثبوت ہے کہ بابری مسجد مندر کی جگہ پر بنی تھی۔ لیکن کسی نے بھی اس بات کے بعید از قیاس ہونے پر سوال نہیں اٹھایا۔ کتبے کا بابری مسجد کی جگہ سے دریافت ہونے کا دعویٰ کئی طرح سے مضحکہ خیز ہے، مثلاً:
یہ کتبہ دریافت کرنے کا دعویٰ کار سیوکوں نے کیا کسی ماہر آثار قدیمہ نے نہیں، کسی نے ان سے یہ پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ انہیں یہ کہاں سے ملا اور کیسے ملا۔ جس طرح ۱۹۴۹ء میں ہندوؤں نے چھپ کر رام لَلَّا کی مورتی مسجد میں رکھنے کے بعد اس کے خود سے نمودار ہو جانے کا دعویٰ کر دیا تھا، ان کے لیے بعید تو نہیں کہ وہ یہ کتبے میں باہر سے لا کر رکھ دیں جب کہ ان سے کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔
کسی نے کتبہ دریافت کرنے والوں سے یہ بھی نہیں پوچھا کہ مسجد کی تو عمارت مسمار کی گئی ہے وہاں کسی ماہر آثار قدیمہ نے کھدائی تو نہیں کی کہ زمین کے نیچے سے یہ کتبہ دریافت ہو جائے۔ تو پھر کیا یہ کتبہ مسجد کے اندر ہی پڑا تھا؟ اگر مسجد کے اندر ہی پڑا تھا تو آج سے پہلے جب مسجد موجود تھی تب دریافت کیسے نہیں ہوا؟
جو کتبہ دریافت ہونے کا دعویٰ کیا گیا وہ ویشنو مندر کا کتبہ تھا۔ لیکن شروع سے اس جگہ کے حوالے سے دعویٰ تو یہ کیا جاتار ہا کہ یہ رام جنم بھومی ہے اور یہاں رام مندر تھا جسے مسمار کر کے مسجد بنائی گئی۔ تو اگر یہ رام جنم بھومی ہے تو اس پر ویشنو مندر کا کیا کام؟ تو یا تو یہ ویشنو مندر کا کتبہ بابری مسجد کی جگہ سے نہیں ملا یا پھر بابری مسجد کی جگہ رام جنم بھومی نہیں ہو سکتی۔
ویشنو مندر کے جس کتبے کی بابری مسجد کی جگہ سے دریافت کا دعویٰ کیا گیا ویسا ہی ایک کتبہ ۱۹۸۰ء سے لکھنؤ کے ریاستی عجائب گھر سے غائب تھا۔ اس واقعہ سے پہلے تک یہی بات معلوم تھی کہ لکھنو کے ریاستی عجائب گھر سے ویشنو مندر کا قدیم کتبہ غائب ہے اس پر سوال اٹھنا شروع ہوئے کہ یہ تو وہی کتبہ ہو گا۔ اس کے کچھ دن بعد لکھنو عجائب گھر کے منتظم نے بیان دیا کہ کتبہ سرے سے غائب ہوا ہی نہیں تھا بلکہ اسے عجائب گھر سے ہٹا دیا گیا تھا اور ثبوت کے لیے ایک کتبہ دکھا بھی دیا ۔ لیکن کسی نے تصدیق کرنے کی کوشش نہیں کی کہ کیا یہ واقعی قدیم ویشنو مندر کا اصلی کتبہ ہی ہے جو ۱۹۸۰ءتک عجائب گھر میں موجود تھا یا جعلی ہے۔
’’اے ایس آئی‘‘ کی طرف سے بابری مسجد کی جگہ کی کھدائی
۲۰۰۳ء میں الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ برانچ کے حکم پر ’’آرکائیلوجیکل سروے آف انڈیا (Archaeological Survey of India) (اے ایس آئی) نے بابری مسجد کی جگہ کی کھدائی شروع کی۔ اے ایس آئی نے اگست ۲۰۰۳ء میں ۵۷۴ صفحات پر مشتمل رپورٹ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ برانچ کو جمع کروائی۔ اس رپورٹ میں کیے گئے دعووں کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
بابری مسجد کے نیچے ایک بڑی تعمیر کے آثار ملے جس کا سن تعمیر بابری مسجد سے پرانا تھا۔
اس تعمیر کے آثار میں مشرق سے مغرب کی جانب اور شمال سے جنوب کی جانب کئی اینٹوں کی دیواریں ملیں، رنگین آراستہ فرش، کئی ستونوں کی بنیادیں، ایک ڈیڑھ میٹر اونچا ٹوٹا ہوا ستون جس کے چاروں کونوں پر مورتیاں بنی تھیں اور اس کے علاوہ پتھر پر تحریر شدہ قرآنی آیات۔
اے ایس آئی کی رپورٹ کے مطابق انہیں وہاں تاریخ کے مختلف ادوار کے آثار ملے ۔ مثلاً
دو سو قبل مسیح کی مٹی کی مورتیاں، برتن اور اینٹوں اور پتھروں سے بنی ایک تعمیر
۱۰۰ء سے ۳۰۰ء کے دور کی مٹی کی مورتیاں، چوڑیوں اور کڑوں کے ٹکڑے اور برتن
۳۲۰ء سے ۶۰۰ء کے دور کی مٹی کی مورتیاں چندر گپتا دور کا تانبے کا سکہ اور اس کے علاوہ ایک اینٹوں کا بنا گول مزار جس میں داخلے کا دروازہ مشرق کی جانب تھا جبکہ شمالی دیوار پر پانی کا راستہ تھا۔
گیارہویں اور بارہویں صدی کے دور کی ایک بڑی تعمیر جو شمالاً جنوباً بچاس میٹر لمبی تھی۔
ابتدائی کھدائی سے جانوروں کی ہڈیاں اور انسانی باقیات بھی ملیں۔
کھدائی کے دوران مسلمانوں کی دو قبریں بھی دریافت ہوئیں۔ اے ایس آئی کے سابق ماہر آثار قدیمہ کے بقول کھدائی کے دوران بعض قبریں، مٹی اور چونے کا بنا ہاون دستا اور سرخی بھی دریافت ہوئی جو کہ ایک مسلم جگہ کی نشاندہی کرتے ہیں۔
اے ایس آئی نے اپنی رپورٹ میں مسلمانوں کے آثار کا ذکر تو ضرورکیا لیکن ان پر کوئی تحقیق یا تفصیلی مطالعہ نہیں کیا گیا تاکہ ان کی اصل تاریخ اور آثار قدیمہ کے حوالے سے دیگر تفاصیل کا اندازہ لگایا جا سکے۔ آثار قدیمہ کی رپورٹ میں جو مسلم آثار نظر آئے ان سے چند سوال اٹھتے ہیں:
جس تعمیر کو یہ بڑے مندر کی تعمیر کہہ رہے تھے جس کے ستون اور فرش اور دیواریں دریافت ہوئیں اگر وہ مندر ہی تھا تو اس میں موجود پتھروں پر قرآنی آیات کیوں لکھی ہوئی تھیں؟
کھدائی کے دوران جو جانوروں کی ہڈیاں دریافت ہوئیں اس پر تاریخ دان عرفان حبیب نے کہا کہ ان کی موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ یہ کوئی رہائشی جگہ تھی جہاں گوشت کھانے والے لوگ رہتے تھے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسجد کو ایک مسلمان رہائشی زمین پر بنایا گیا۔ لیکن اے ایس آئی نے ان ہڈیوں کا رپورٹ میں صرف ذکر کیا لیکن اس سے زیادہ ان پر کوئی بات نہیں کی۔
مسلمانوں کی قبروں کی وہاں موجودگی وہاں مندر کی موجودگی کے دعوے کی تردید کرتی ہے۔ لیکن اے ایس آئی نے ان کا تفصیلی جائزہ تک نہیں لیا۔ وہاں جو ڈھانچے نکلے انہیں کاربن ڈیٹنگ کے لیے بھی نہیں بھیجا گیا تاکہ ان کے دور کا اندازہ لگایا جا سکے نہ ہی ان قبروں کا پوری طرح معائنہ کیا گیا۔ اے ایس آئی کی سابق ماہر آثار قدیمہ انیرودھا شریواستو (Anirudha Srivastava) کے بقول بعض مقامات سے جو مسلم آثار دریافت ہوئے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بابری مسجد ایک ایسی زمین پر بنائی گئی جہاں مسلمان آباد تھے اور ممکن ہے کہ یہ مسجد یہاں پہلے سے موجود ایک مسجد کی جگہ پر بنائی گئی ہو۔
شریواستو کے علاوہ بھی بہت سے ماہرین آثار قدیمہ نے اے ایس آئی کی دریافتوں اور کام کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ماہرین آثار قدیمہ سپریا ورما (Supriya Verma) اور جیا مینن (Jaya Menon) کے بقول اے ایس آئی پہلے سے طے شدہ مفروضے، کہ مسمار شدہ مسجد کے نیچے ایک مندر موجود ہے، کو ذہن میں رکھ کر کام کر رہی تھی اور اسی لیے انہوں نے بہت سے شواہد کو اپنے مفروضے کو ثابت کرنے کے لیے تبدیل بھی کیا۔
ایک اور ماہر آثار قدیمہ سورج بھان ،جس نے خود بھی اس جگہ کا جائز ہ لیا ، کے بقول اے ایس آئی نے گیارہویں صدی اور انیسویں صدی کے برتنوں میں کوئی فرق نہیں کیا اور انہیں ایک ساتھ ہی رکھا۔ اس نے اے ایس آئی کے اس نتیجے کو، کہ یہ وسیع اینٹوں کی تعمیر اصل میں رام مندر تھی، تنقید کا نشانہ بنایا اور پوچھا کہ یہ نتیجہ کس بنیاد پر نکالا گیا ہے۔ اس کے بقول بابری مسجد ایک منظم اور منصوبہ بندی سے کی گئی تعمیر ہے نویں سے بارہویں صدی کے جس مندر کے یہاں ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے اسے ستارے کی شکل میں ہونا چاہیے تھا جو کہ یہاں موجود نہیں۔
اے ایس آئی کی رپورٹ پر اس لیے بھی سوال اٹھتے ہیں کیونکہ اے ایس آئی براہ راست ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ کی وزارت کے تحت کام کرتی ہے اور اس وقت یہ وزارت مرلی منوہر جوشی کے پاس تھی جو کہ خود بابری مسجد کو شہید کرنے میں شریک تھا۔
ایک اور بات جو اس رپورٹ کی صداقت پر شدید شکوک و شبہات پیدا کر دیتی ہے وہ یہ کے رپورٹ کے جمع کروائے جانے کے چوبیس گھنٹے کے اندر اے ایس آئی نے اس رپورٹ کو بنانے میں استعمال ہونے والے تمام نوٹس اور ابتدائی ڈرافٹ ضائع کر دیے۔
بابری مسجد ، ایودھیا تنازع پر عدالتی کاروائی
’’اتر پردیش سنی مرکزی وقف بورڈ‘‘ بابری مسجد کی جگہ کے حق ملکیت کی خاطر عدالت میں درخواست دائر کی۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے تین رکنی بنچ نے اپریل ۲۰۰۲ء میں اس درخواست پر سماعت کا آغاز کیا اور یہ کیس ۲۰۱۰ء تک چلتا رہا۔ ۳۰ ستمبر ۲۰۱۰ء کو الہ آباد ہائی کورٹ کے اس تین رکنی بنچ نے فیصلہ دیا کہ 2.77 ایکڑ متنازع زمین کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ ایک تہائی حصہ جس میں وہ مقام شامل ہے جہاں ’رام للّا‘ (ننھے رام) کی مورتی رکھی گئی تھی اسے ’رام للّا وراجمان‘ کی نمائندگی کرنے والے فریق کے حوالے کر دیا گیا، نمروہی اکھاڑا کے حصے میں ’سیتا کی رسوئی‘ اور ’رام چبوترہ‘ کے علاقے پر مشتمل ایک تہائی حصہ آیا جبکہ باقی کا ایک تہائی علاقہ اتر پردیش سنی مرکزی وقف بورڈ کے حوالے کر دیا گیا۔ لیکن تینوں فریقوں نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی۔
سپریم کورٹ نے اس کیس پر حتمی سماعت ۶ اگست سے ۱۶ اکتوبر ۲۰۱۹ء تک کی۔ ۹ نومبر ۲۰۱۹ء کو سپریم کورٹ نے اپنا آخری فیصلہ ہندو فریق کے حق میں سنا دیا۔سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے یہ فیصلہ اکٹھے سنایا۔ مکمل فیصلے کا خلاصہ درج ذیل ہے:
سپریم کورٹ نے حکومت ہند کو حکم دیا کہ تین ماہ کے اندر رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک ٹرسٹ قائم کیا جائے اور ساتھ ایک بورڈ آف ٹرسٹیز بھی تشکیل دیا جائے۔ تمام متنازع علاقہ (بابری مسجد اور اس سے ملحقہ علاقہ) اس وقت تک حکومت ہند کی ملکیت ہو گا جبکہ ٹرسٹ کی تشکیل کے بعد اس کی ملکیت میں دے دیا جائے گا۔
عدالت نے حکم دیا کہ 2.77 ایکٹر کے رقبے پر مشتمل تمام متنازع زمین مندر کی تعمیر کے لیے الاٹ کر دی جائے جبکہ ۵ ایکڑ کے رقبے پر مشتمل ایک متبادل زمین ایودھیا کے اندر کسی مناسب مقام پر مسجد کی تعمیر کے لیے اتر پردیش سنی مرکزی وقف بورڈ کو الاٹ کی جائے۔
سپریم کورڈ نے ۲۰۱۰ء میں الہ آباد ہائی کورٹ کی طرف سے زمین کی تقسیم کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔
سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ بابری مسجد کا انہدام اور ۱۹۴۹ء میں کی جانے والی بابری مسجد کی بے حرمتی کا عمل قانون کی خلاف ورزی تھا۔6
سپریم کورٹ نے اعلان کیا کہ ’آرکائیلوجیکل سروے آف انڈیا‘ (اے ایس آئی) کی جانب سے پیش کیے جانے والے آرکائیلوجیکل شواہد سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بابری مسجد ایک ’عمارت‘ کے اوپر تعمیر کی گئی تھی جس کا طرز تعمیر واضح طور پر مقامی اور غیر اسلامی تھا۔
مسلمان فریق کی جانب سے ’اے ایس آئی‘ کے بہت سے سائنسی دعوؤں پر اعتراضات اٹھانے کے جواب میں سپریم کورٹ نے کہا کہ متعلقہ فریق یہ اعتراضات الہ آباد ہائی کورٹ کے سامنے بھی اٹھا سکتا تھا کیونکہ وہاں ان کے پاس اس مقصد کے لیے قانونی چارہ جوئی کا موقع موجود تھا۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ’اے ایس آئی‘ کی رپورٹ جو الہ آباد ہائی کورٹ کے واسطے سے جمع کروائی گئی ہے کوئی ’معمولی رائے‘ نہیں تھی۔اس کے برعکس جو رپورٹ “The Historians Report to the Nation” کے نام سے علی گڑھ کے تاریخ دانوں کی جانب سے بطور ثبوت جمع کروائی گئی تھی اس پر سپریم کورٹ نے جواب دیا کہ : ’’ زیادہ سے زیادہ اسے ایک رائے کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔‘‘
سپریم کورٹ نے ایودھیا تنازع فیصلے کے صفحہ نمبر ۱۰۴۵ پر یہ رائے بھی دی کہ : ’’کسی موجود عمارت کے نیچے کسی قدیم مذہبی عمارت کے کھنڈرات کے پائے جانے کا مطلب ضروری نہیں ہمیشہ یہی ہو کہ اسے کسی دشمن طاقت نے مسمار کیا ہو گا۔‘‘
سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ چاروں ’جنم ساکھیوں‘ (سکھوں کے پہلے گرو ’گرو نانک‘ کی سوانح حیات) میں پوری وضاحت اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ گرو نانک نے ۱۵۱۰ سے ۱۵۱۱ء میں ایودھیا کی یاترا کی اور رام مندر میں پوجا بھی کی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ۱۸۵۷ء میں نہانگ سکھوں کے ایک گروہ نے مسجد میں جا کر پوجا کی تھی۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ مسلم فریق ،بشمول اتر پردیش سنی مرکزی وقف بورڈ، متنازع زمین پر خاص اپنا حق ملکیت ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ ہندو فریق نے یہ ثابت کرنے کے لیے زیادہ بہتر شواہد پیش کیے کہ ہندو اس جگہ کو ہندو دیوتا رام کی جائے پیدائش کا اعتقاد رکھتے ہوئے مسجد میں مستقل عبادت کرتے رہے تھے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ۱۸۵۶،۵۷ء میں لگایا گیا آہنی جنگلا مسجد کے اندرونی صحن کو بیرونی صحن سے علیحدہ کرتا ہے، اور بیرونی صحن پر ہندو فریق کو واضح حق ملکیت حاصل تھا۔ عدالت نے مزید کہا کہ اس سے بھی قبل ہندو فریق کو مسجد کے اندرونی صحن تک رسائی بھی حاصل تھی۔
عدالت نے ’نمروہی اکھاڑہ‘ کی جانب سے دائر کیا گیا دعویٰ مسترد کر دیا اور کہا کہ اسے ’شی بیٹ‘(Shebait) 7حقوق حاصل نہیں۔ لیکن عدالت نے ساتھ میں یہ بھی حکم دیا کہ نمروہی اکھاڑہ کو بورڈ آف ٹرسٹیز میں مناسب نمائندگی دی جائے۔
عدالت نے بابری مسجد کی ملکیت کے حوالے سے شیعہ وقف بورڈ کا اتر پردیش سنی مرکزی وقف بورڈ کے خلاف دائر کیا گیا دعویٰ مسترد کر دیا۔
۱۲ دسمبر ۲۰۱۹ء کو سپریم کورٹ نے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی تمام ۱۸ درخواستیں مسترد کر دیں۔
رام مندر کی تعمیر
سپریم کورٹ کی ہدایات پر بھارتی حکومت نے فروری ۲۰۲۰ء میں ۱۵ ٹرسٹیز (trustees)پر مشتمل ’شری رام جنم بھومی تیرتھ کشیتر‘ نامی ٹرست قائم کیا۔ جس نے مارچ ۲۰۲۰ء میں رام مندر کی تعمیر کا کام شروع کیا۔ لیکن کووڈ ۱۹ کی وجہ سے کام روکنا پڑا۔ رام مندر کی تعمیر کا رسمی طور پر آغاز ۵ اگست ۲۰۲۰ء کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے ’بھومی پوجن‘ کی رسم کی ادائیگی سے ہوا۔ اس رسم میں ۴۰ کلوگرام وزنی چاندی کی اینٹ کو مندر کی بنیاد میں رکھا گیا۔
رام مندر کی تعمیر کے لیے بنائے گئے ٹرسٹ نے پورے ملک سے چندہ جمع کرنے کی مہم کا آغاز کیا۔ اس مہم میں ویشوا ہندو پریشاد کے ڈیڑھ لاکھ رضاکاروں نے حصہ لیا۔ کئی جگہوں پر ایسے واقعات بھی سامنے آئے کہ جہاں وی ایچ پی کے ’رضاکاروں‘ نے لوگوں سے زبردستی بھی چندہ وصول کیا۔ اپریل ۲۰۲۱ء تک اس چندے کے نتیجے میں رام مندر کی تعمیر کے لیے پانچ کھرب روپے جمع ہو چکے تھے۔رام مندر کی تعمیر مکمل ہونے پر افتتاحی تقریب ۲۲ جنوری ۲۰۲۴ء کو منعقد ہوئی جس کے بعد رام مندر کو عام لوگوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭
2 Anatomy of a Confrontation: Ayodhya and the Rise of Communal Politics in India by Gopal Sarvepalli. (1993). pp. 64–77
3 Open Secrets: India’s Intelligence unveiled by Maloy Krishna Dhar (2005)
4 Babri Masjid demolition was planned 10 months in advance: Book”. Outlook India News. January 30, 2005
5 Mosque demolition proudest moment for Hindus: Togadia, India News – India Today. 24 November 2009
6 اگرچہ سپریم کورٹ نے بابری مسجد کو شہید کرنے اور ۱۹۴۹ء میں مسجد کی بے حرمتی کرنے کو قانون کی خلاف ورزی قرار دیا لیکن قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کی ساری معلومات ہونے کے باوجود ان کے خلاف کسی بھی قسم کی قانونی کاروائی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ ان کے خلاف پہلے سے چلنے والے مقدمات میں چند ماہ بعد انہیں باعزت بری کر دیا گیا۔
7 شی بیٹ شپ (Shebaitship) ہندوستانی قانون میں ایسی اراضی کو کہتے ہیں جو کسی ہندو دیوتا کی بطور ’قانونی فرد‘ ملکیت ہو۔ وہ انسان جو اس دیوتا کے نگہبان یا والی کے طور پر مقرر کیا گیاہو اسے شی بیٹ (shebait) کہتے ہیں۔