نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home ناول و افسانے

کتابِ عظیم | تیسری (و آخری) قسط

سبیل سالک by سبیل سالک
30 مارچ 2024
in ناول و افسانے, مارچ 2024
0

جرمنی روانہ کرنے کے لیے اس کے تمام گھر والے ائیر پورٹ پر آئے تھے۔ حسینہ خاتون اور دادو تو اس کو الوداع کہتے ہوئے زار و قطار رو رہی تھیں۔ حماد عمر نے بھی انہیں نم آنکھوں سے الوداع کہا۔ وہ سب جانتے تھے… وہ جس دنیا میں جارہا تھا… وہاں کی چکا چوند دیکھ کر کم لوگ ہی واپس آپاتے تھے۔ وہ ا س کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روشن مستقبل کے حوالے کرر ہے تھے۔

وہ سب اداس تو تھے… مگر خوش اور مطمئن بھی تھے۔ اگر ان میں سے کوئی خوش اور مطمئن نہ تھا تو وہ عماد عمر کی دادو اور عماد عمر خود تھا۔ کچھ دن پہلے والا جوش و خروش اب عماد عمر میں ناپید تھا۔ اس کا دل یورپ اور خصوصاً جرمنی سے بہت برا ہوگیا تھا۔

جہاز میں بھی سارا وقت وہ بجائے اپنی نئی زندگی کے بارے میں سوچنے کے کچھ اور ہی سوچتا رہا تھا۔ پورے دن کے سفر کے بعد جب وہ ہیمبرگ کے ائیر پورٹ پر اترا تو بہت تھکا ہوا تھا۔ ایک تو شاید اس کا جرمنی سے کچھ خاص ہی دل کھٹا تھا یا پھر جرمن اصل میں ہی بہت اکھڑ قوم تھی۔ ائیر پورٹ سے باہر نکل کر اپنے ہوٹل تک پہنچنے میں وہ جرمن لوگوں سے مزید بے زار ہوچکا تھا۔

یہ حالت چند دن ہی برقرار رہی۔ وہ جلد ہی جرمنی اور یونیورسٹی لائف میں سیٹل ہوگیا۔ چند ماہ میں ہی وہ یہاں کے کلچر اور یہاں رہنے سہنے کے رواج سے بھی واقف اور اس کا عادی ہوگیا۔ ویسے بھی یہاں زندگی پاکستان کی نسبت بہت آسان اور پر کشش تھی۔ دنیا اپنے ہاتھ پھیلائے ہر ایک کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے بے چین کھڑی تھی۔

دن یوں ہی گزرتے رہے۔ دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدلتے رہے۔ چار سال کا عرصہ پلک جھپکتے ہی گزر گیا۔ عماد عمر اس دوران ہر سال پاکستان کے چکر لگاتا رہا۔ دادو اس کو دیکھ کر مطمئن ہوگئی تھیں۔ جرمنی جاکر وہ دین سے دور ہونے کی بجائے گناہ اور دنیا کی دوڑ میں کھوکھلا معاشرہ دیکھ کر اپنے دین کے مزید قریب ہوگیا تھا۔ نمازیں تو وہ پاکستان میں بھی باقاعدگی سے پڑھتا تھا مگر جرمنی جاکر تو اس نے داڑھی بھی رکھ لی تھی اور ہمبرگ کے ایک اسلامک سینٹر سے مستقل طور پر وابستہ ہوگیا تھا۔ وہاں پر ہونے والے دروس اور سٹڈی سرکلز میں وہ باقاعدگی سے شریک ہوتا تھا۔ اس کا نتیجہ تھا کہ اس کے ساتھ جرمنی جانے والے دیگر نوجوانوں کی برعکس اس نے اپنا دینی و ملی تشخص ہاتھ سے جانے نہ دیا تھا۔

٭٭٭٭٭

فروری کی اس ٹھنڈی صبح عماد عمر کو اپنے ہاسٹل سے باہر نکلنا پڑگیا تھا۔ اس کا روم میٹ ایک پاکستانی تھا جس کو گزشتہ رات سے بہت سخت بخار ہورہا تھا۔ فجر کی نماز کا وقت داخل ہونے ہی والا تھا کہ یکایک اس کی حالت مزید بگڑ گئی تھی۔ عماد عمر کی طرح جرمنی میں علی کا بھی کوئی رشتہ دار نہیں تھا اس لیے اس کا دینی اور ملی فرض تھا کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو ہسپتال لے کر جائے۔

آج وہ یونیورسٹی بھی نہ جاسکا تھا۔ ہسپتال پہنچے تو علی کو ایڈمیٹ کرلیا گیا۔ اس کی حالت کافی خراب تھی۔ عماد عمر کو دوا لینے بھیج دیا گیا۔

ہسپتال کی فارمیسی میں دوا ختم تھی یا پھر فارمیسی والے نے پاکستانی مسلمان دیکھ کر جھوٹ بول دیا تھا کہ دوا ختم ہے… عماد جان نہ سکا۔ وہ وہاں سے نکل کر قریبی بازار کی جانب بڑھ گیا۔ جرمنی میں ایسے واقعات ہوجانا ایک عمومی بات تھی۔ وہ جب سے آیا تھا نجانے کتنی بار مسلمانوں سے نفرت کرنے والے لوگوں کا نشانہ بنا تھا۔ کئی دفعہ دکاندار جان بوجھ کر اس کو انتظار کروائے رکھتے جبکہ وہ بہت سے لوگوں سے پہلے کا وہاں کھڑا ہوتا۔ کئی دفعہ راہگیر اس کا اسلامی حلیہ دیکھ کر اسلام کے خلاف کوئی سخت جملہ بول کر جاتے۔ نفرت بھری نگاہیں اور مسلمانوں کو گالیاں بک کر جانا تو اب گویا ان کے لیے ایک عمومی چیز بن چکا تھا۔ کئی دفعہ تو یونیورسٹی کیمپس میں بھی مسلمانوں پر اسلام دشمن گینگز حملہ چکے تھے۔

مگر ان سب چیزوں کا اب وہ عادی ہوگیا تھا۔ شروع میں عماد عمر کو بہت غصہ آتا تھا، بہت سخت توہین کا احساس ہوتا تھا مگر آہستہ آہستہ اس کو اس رویے کی عادت ہوتی چلی گئی تھی۔

یخ بستہ اس صبح سڑکوں پر بہت کم لوگ نظر آرہے تھے۔ دکانیں بھی ابھی کھلنا شروع ہی ہوئی تھیں۔ اچانک عماد عمر بری طرح چونکا۔ ہسپتال کے دائیں جانب کو بنے فٹ پاتھ پر ایک برقعہ پوش خاتون دس سالہ بچے کا ہاتھ پکڑے بس سٹاپ کی جانب بڑھتی نظر آرہی تھیں۔ ان دونوں ماں اور بیٹے میں کوئی عجیب بات تو نہ تھی مگر ان دونوں کے تعاقب میں آتے ایک دیوہیکل جرمن نے اس کو رکنے پر مجبور کردیا تھا۔ وہ گورا چٹا جرمن سر پر گرم ٹوپی اور چہرے کے گرد مضبوطی سے مفلر باندھے ہوئے تھا جس کی وجہ سے اس کا چہرہ واضح نہ تھا۔ مگر اس کے چلنے کا انداز صاف بتا رہا تھا کہ وہ ان دونوں مسلمان ماں بیٹے کی جانب کسی اچھی نیت سے نہیں بڑھ رہا۔

اس سے پہلے کہ عماد عمر کچھ سمجھتا جرمن مردبرقعہ پوش خاتون کے سر پر پہنچ گیا اور پوری قوت سے ان کو ایک بھرپور لات سر پر رسید کی جس سے وہ کسی کٹے ہوئے تنے کی طرح سڑک پر دور جاگریں۔ ایک آدھ راہگیر نے اچٹی سی نگاہ اس حادثے پر ڈالی اور آگے روانہ ہوگیا۔

یہ منظر دیکھ کر عماد عمر کا دماغ غصے کی شدت سے کھول گیا۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، دوائی لینا تک بھول گیا اور اس جرمن کی طرف اندھا دھند دوڑ پڑا۔ جرمن اب اس مسلمان بچے کی جانب متوجہ تھا۔ آندھی طوفان کی طرح اردگر دکی پروا کیے بغیر دوڑتا اور چیزوں کو پھلانگتا عماد عمر اس جرمن کے سر پر پہنچ گیا اور اس سے پہلے کہ وہ متنبہ ہوتا ایک زور دار ہاتھ اس کے سر اور گردن پر جڑ دیا۔ وہ اس کے لیے قطعاً تیار نہ تھا۔ لڑکھڑا کر پیچھے ہٹا۔ جیسے ہی اس کی نظر عماد عمر پرپڑی اس کا چہرہ پیلا پڑگیا اور اس نے وہاں سے دوڑ لگادی۔

’’ہماری عورتوں بچوں کے سامنے ہی بہادری دکھا سکتے ہو؟‘‘ عماد عمر اس کے پیچھے لپکا۔

مگر تب تک وہ شخص دوڑتا ہوا ایک گاڑی میں بیٹھ گیا تھا۔ راہگیر بھی ایک مسلمان کو جرمن کے پیچھے بھاگتا دیکھ کر اس جانب متوجہ ہوگئے اور ہر کوئی عماد عمر کو روکنے لگا۔

عماد عمر نے بھی جرمن کا پیچھا چھوڑا اور ان مسلمان خاتون کی طرف لپکا۔ ان کو شاید اتنی بری چوٹ آئی تھی کہ ان کے حواس ہی باقی نہ رہ سکے تھے۔ وہ زمین پر بے ہوش پڑی تھیں۔ ان کو اٹھا کر وہ جلدی سے ہسپتال کی طرف دوڑا۔ ان کا بیٹا بھی حیران و پریشان عماد عمر کے پیچھے چلا آیا۔

وہ مسلمان خاتون کو فوراً طبی امداد کے لیے ہسپتال لمحوں میں پہنچ گئے تھے مگر شاید ان کو چوٹ ایسی حساس جگہ پر لگی تھی کہ وہ لمحوں میں ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ عماد عمر جب ان کو لے کر ہسپتال پہنچا تو نرس نے افسوس سے بتایا کہ یہ تو شاید پہلی ضرب کے ساتھ ہی فوت ہوگئی تھیں۔

ایسی سفاکیت بڑے بڑے کا دل توڑ سکتی ہے۔ اور یہ تو اس کی مسلمان بہن کا معاملہ تھا۔ اشتعال اور نفرت کا عماد عمر کے اندر طوفان اٹھا تھا۔ اس کا بس نہ چلتا تھا کہ اس جرمن کا گلا مروڑ دیتا۔

وہ خاتون شاید کہیں قریب ہی گھروں میں رہتی تھیں۔ عماد عمر نے ان کے بیٹے کو اپنی ماں کی وفات کا نہ بتایا تھا بلکہ اس کے والد کا نمبر پوچھ کر ان سے رابطہ کیا۔ اس کے والد فوراً پہنچ گئے۔ مسلمان خاتون کی میت اور ان کے بچے کو ان کے رشتے دار آکر لے گئے تو عماد ہسپتال کے ویٹنگ روم میں ہی آکر بیٹھ گیا۔

ہسپتال میں اس وقت ایک عجیب سی فضا تھی۔ سوگواری ، خوف، نفرت اور وحشت نے عماد عمر کو اپنے گھیرے میں لے لیا تھا۔ وہ اپنا سر ہاتھوں میں تھامے سر جھکائے بیٹھا رہا۔

نجانے کتنی دیر وہ یوں ہی بیٹھا رہا…

آج اس نے ایک فیصلہ کرلیا تھا… اپنی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ…

وہ اپنا فیوچر دیار ِ کفر میں نہیں بنانا چاہتا تھا!… وہ اپنی آئندہ نسل یہاں پروان نہیں چڑھانا چاہتا تھا… اس کو اپنے مسلمان ملک واپس جانا تھا!… اس کو اپنے دین کے لیے کچھ کرنا تھا!… اس کواپنے دین اور اس کے پیروکاروں کو اس کمزوری کی حالت سے نکالنا تھا!

٭٭٭٭٭

اس واقعے نے ہیمبرگ میں موجود مسلمان کمیونٹی میں آگ لگا دی تھی۔ غم، غصہ اور خوف ہر سو پھیل گیا تھا۔ عورتیں اور بچے گھر سے نکلنے سے ڈر محسوس کرنے لگے تھے۔

اگلا دن جمعہ کا تھا اور امام صاحب نے جمعے کے خطبہ کے بعداسی واقعے کی مناسبت سے چند باتیں کی تھیں۔ عماد کو ان کی سب باتوں سے اتفاق تو نہ تھا مگر کچھ باتوں نے اس کے دل پر اثر کیا تھا۔

’’میرے مسلمان بھائیو! ہمیں اس قسم کے واقعات سے خوفزدہ اور پریشان نہیں ہونا چاہیے!… یہ واقعات ہمارا امتحان لینے کے لیے ہوتے ہیں… ہمیں چاہیے کہ ہم حلم اور تدبر کو ہاتھ سے جانے نہ دیں… کہ ہم سے کوئی غیر مناسب فعل سر زد ہوجائے… ہمیں چاہیے کہ ہم مسلمان ان کفار کے لیے ایسا نمونہ بن جائیں کہ یہ ہمیں دیکھ کر مسلمانوں سے نفرت کی بجائے ان سے محبت کرنے لگیں!…‘‘

عماد عمر خاموشی سے ان کی بات سنتا رہا۔وہ ایسا حلم و تدبر نہ رکھتا تھا اور نہ ہی رکھنے کا قائل تھا جیسا کہ مسجد کے امام صاحب کہہ رہے تھے ۔ اس کو تو بچپن سے یہی سکھایا گیا تھا کہ وہ ایک غیرت مند مسلمان ہے اور غیرت مند مسلمان کے ہوتے ہوئے دوسرے مسلمانوں کی عزت، ناموس اور ان کا مال محفوظ ہوتا ہے۔

’’ہم نے اپنے دین کو بھلادیا ہے… اسی کا نتیجہ ہے کہ یہ کفار ہم پر جری ہوگئے ہیں… ہم نے اپنے قرآن کو بھلا دیا ہے… ہم میں سے کتنے ہیں جو مہینوں قرآن کو کھول کر بھی نہیں دیکھتے!… قیامت والے دن یہ قرآن ہمارے لیے حجت بنے گا!… ہمارے نبی ہمارے خلاف گواہ ہوں گے!… اے میرے مسلمان بھائیو! اپنے دین کی طرف پلٹ آؤ!‘‘

وہ چونکا۔ واقعی اس کو خود بھی تو کئی کئی دن گزر جاتے تھے قرآن کو کھولے ہوئے۔ گو کہ وہ بہت کوشش کرتا تھا کہ روزانہ ایک سپارہ ضرور تلاوت کرے مگر مصروفیات کی وجہ سے وہ اکثر اس سے قاصر رہ جاتا تھا۔

نماز ادا ہوگئی تو وہ بھی دیگر نمازیوں کے ساتھ مسجد سے باہر نکل آیا۔ مسجد کے اکثر نمازیوں کو معلوم تھا کہ ان خاتون تک پہنچنے والا سب سے پہلا عماد عمر ہی تھا اس لیے اکثر لوگ اس سے اس واقعے کی تفصیلات پوچھتے رہے اور اس پر مختلف قسم کے تبصرے کرتے رہے۔

’’ہوں!… ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی خواتین کو اکیلے گھر سے باہر نہ بھیجیں!‘‘ کوئی کہہ رہا تھا۔

’’میرے خیال میں تو ہمیں مسلمانوں کو اپنے آپ کو معاشرے میں اتنا واضح ہی نہیں کرنا چاہیے کہ ہمیں دیکھ کر کوئی اسلام دشمن نشانہ بناسکے!‘‘ کوئی دوسرا کہہ رہا تھا۔

’’ہاں! اور ہمیں چاہیے کہ ایسے واقعات کے بدلے میں ہم تحمل کا مظاہرہ کریں… کسی قسم کا کوئی violent response مت دیں!… کیونکہ وہ یہی تو چاہتے ہیں… کہ اسلام بدنام ہوجائے!‘‘

عماد عمر کا دماغ چکرا رہا تھا۔ اس کا دم گھٹ رہا تھا۔ اس کو کسی کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی ۔ وہ چکراتے اور گھومتے سر کے ساتھ مسجد سے باہر نکل آیا۔

اس کو اس وقت ذہنی سکون کی ضرورت تھی۔ وہ مسجد سے سیدھا ہاسٹل جانے کی بجائے ہیمبرگ کی سڑکیں ناپنے لگا۔ مگر آج کچھ بھی تو اچھا نہ لگ رہا تھا۔ بس ایک ہی بات اس کے کان میں بھنور کی طرح گھومے جارہا تھا۔

وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى يَدَيْهِ يَقُولُ يٰلَيْتَنِى اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا (۲۷)يٰوَيْلَتٰى لَيْتَنِى لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا(۲۸) لَّقَدْ أَضَلَّنِى عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَآءَنِى ۗ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِلْإِنسٰنِ خَذُولًا(۲۹) وَقَالَ الرَّسُولُ يٰرَبِّ إِنَّ قَوْمِى اتَّخَذُوا هٰذَا الْقُرْءَانَ مَهْجُورًا(۳۰)

’’اور اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول کی راه اختیار کی ہوتی۔ ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراه کردیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی اور شیطان تو انسان کو (وقت پر) دغا دینے والا ہے۔ اور رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بےشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔‘‘

آج جمعہ کے خطبے میں امام صاحب نے ان آیات پر درس دیا تھا۔ ان آیات میں سے آخری آیت عماد عمر کے دماغ کو گھمائے دے رہی تھی۔

وَقَالَ الرَّسُولُ يٰرَبِّ إِنَّ قَوْمِى اتَّخَذُوا هٰذَا الْقُرْءَانَ مَهْجُورًا(۳۰)

اس نے بھی تو قرآن کو چھوڑ دیا تھا۔ تبھی تو یہ کفار اتنے مزے سے دندناتے ہوئے جو چاہتے تھے مسلمانوں سے سلوک روا رکھتے تھے جبکہ مسلمانوں کی حالت یہ تھی کہ اگر کوئی کافر مسکرا کر بھی ان سے بات کرلیتا تو اسی پر خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔

اس کادل گویا انگاروں پر پلٹ رہا تھا۔ اس کا دل کیا کہ وہ واپس ہاسٹل نہ جائے۔ وہاں پر کسی بھی جرمن سے اس کا سامنا نہ ہو۔ مگر اتنی ٹھنڈ میں وہ گھوم بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اپنے ہاسٹل کی جانب بڑھنے لگا۔

وہ ہاسٹل گراؤنڈ میں ابھی پہنچا ہی تھا کہ ایک عجیب منظر دکھائی دیا۔ گراؤنڈ میں اس کے اپنے کلاس فیلوز کھڑے ایک عجیب سا کرتب دکھا رہے تھے۔ یونیورسٹی کے بہت سے لڑکے اور لڑکیاں اردگرد کھڑے تالیاں بجا رہے تھے۔ اس مجمعے کے عین وسط میں سرخ بالوں اورگہری سبز آنکھوں والا رابرٹ فورڈ نامی ایک جرمن لڑکا کھڑا تھا اور اس کے ہاتھ میں کوئی کتاب تھی جو وہ لہرا لہرا کر سب کو دکھا رہا تھا۔

رابرٹ فورڈ کا تعلق یونیورسٹی کے ایک Islamophobic کلب سے تھا۔ یہ کلب یونیورسٹی میں اسلام اور مسلمانوں سے نفرت رکھنے میں مشہور تھے۔ اس کلب کا اول مقصد پوری یونیورسٹی میں مسلمانوں کے خلاف محاذ آرائی اور ان کے خلاف اشتعال انگیزی تھا۔ مسلمانوں کے علاوہ وہ یونیورسٹی میں فساد پھیلانے میں بھی بہت ماہر تھے۔ لوگوں میں نفرتیں پھیلانا ان کے دائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ اور اسی وجہ سے اکثر یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس اس کلب اور اس سے منسلک افراد کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ عماد عمر نے تو اس گروپ کے Satanist church سے منسلک ہونے کے بارے میں افواہیں بھی سن رکھی تھیں۔

مجمع کو دیکھ کر عماد عمر بھی رک گیا۔ جمعہ کی نماز ادا کر کے واپس پہنچنے والے چند دیگر مسلمان طلباء بھی وہاں آکر رکتے گئے ۔ یہاں تک کہ اچھا خاصہ مجمع اکٹھا ہوگیا۔

عماد عمر ابھی تک سمجھ نہ سکا تھا کہ رابرٹ فورڈ اور اس کے دیگر ساتھی کیا کرنا چاہتے ہیں۔

اچانک عماد عمر کی نظر رابرٹ کے ہاتھ میں پکڑی اس کتاب کی طرف گئی۔ سنسنی کی ایک لہر اس کے پورے جسم میں پھیل گئی۔ وہ جان گیا کہ رابرٹ کیا کرنا چاہتا تھا۔

’’ محمود!یہ رابرٹ کیا کررہا ہے؟‘‘ دفعتاً اس کے برابر میں ایک فلسطینی عرب آکر رکا تھا۔ اسی کے پیچھے ایک ترک مسلمان بھی آکر کھڑا ہوگیا۔

’’پتہ نہیں… کچھ نظر نہیں آرہا عبود!‘‘ اس ترک نے جواب دیا۔

عماد عمر ان کو بتانا چاہتا تھا کہ رابرٹ کا کیا ارادہ ہے مگر وہ کچھ بول نہ سکا۔

اچانک رابرٹ کے اردگرد کھڑے مجمع میں سے لڑکوں نے سیٹیاں بجائیں اور لڑکیاں تالیاں پیٹنے لگیں۔ رابرٹ فورڈ ہاتھ میں کتاب کو پکڑے خوفزدہ نگاہوں سے اردرگرد کا جائزہ لے رہا تھا۔ اس کے قریب ہی کھڑے اس کے کلب کے ممبر نے اس کا کندھا تھپتھپا کر اس کو حوصلہ دلاتے ہوئے کچھ کہا تھا جس پر رابرٹ نے ایک گہرا سا سانس کھینچا اور…

…اگلے ہی پل وہ ہوا جو عماد عمر کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ اس کا دماغ چکرایا اور قریب تھا کہ وہ دھڑام سے گر جاتا کہ ساتھ کھڑے اس عرب اور ترک نے اس کو سہارا دیا۔

رابرٹ فورڈ نےا ن سب کی آنکھوں کے سامنے قرآن کے ایک نسخے کو نظر آتش کردیا تھا!!!

لڑکے سیٹیاں بجا رہے تھے۔ لڑکیاں تالیاں پیٹ رہی تھیں۔ اور اردگرد کھڑے مسلمان صرف چیخ چلا رہے تھے۔ ان میں سے چند آگے بڑھ کر رابرٹ کو روکنا چاہتے تھے مگر رابرٹ کے ساتھی ان کو روکے ہوئے تھے۔ مسلمان لڑکے مشتعل ہوکر رابرٹ کے ساتھیوں پر حملہ آوار ہوگئے۔ لمحوں میں یونیورسٹی گراؤنڈ میدان جنگ کا منظر پیش کررہا تھا۔ چند ثانیہ پہلے خوشی سے تالیاں بجاتے اور سیٹیاں بجاتے لڑکے اور لڑکیوں کا مجمع فوراً چھٹ گیا اور ہر کوئی اپنی جان بچا تاادھر اُدھر بھاگنے لگا۔

عماد عمر سیدھا ہوکر کھڑا ہوگیا اور وہاں سے واپس پلٹا۔

’’کہاں جارہے ہو؟‘‘ محمود نامی اس ترک لڑکے نے پوچھا۔ ’’آؤ آگے چل کر رابرٹ کو مزہ چکھائیں!‘‘

’’نہیں! اس مجمع میں ہم اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتے!‘‘ وہ بولا اور مجمع کو چیرتا یونیورسٹی کے ہاسٹل کی جانب دوڑا۔ جبکہ وہ فلسطینی اور ترکی رابرٹ پر جھپٹ پڑے تھے۔

دوسری طرف عماد عمر اتنا تیز دوڑا تھا کہ آج تک کبھی اتنی رفتار سے نہ دوڑا ہوگا۔ وہ سیدھا اپنے کمرے میں پہنچا۔ اور الماری میں سے اپنی تمام چیزیں نکال نکال کر باہر پھینکنے لگا۔ اس کو ایک چیز کی تلاش تھی جو اس نے آج سے چار سال پہلے جرمنی پہنچتے ہی خریدی تھی… اور اسی کام کے لیے خریدی تھی مگر اس کو کوئی موقع نہ مل سکا تھا۔ وہ پاگلوں کی طرح اپنے کمرے کی چیزوں کو الٹتا پلتا رہا۔ کمرےمیں ہر چیز چوپٹ ہوگئی مگر اس کو مطلوبہ چیز نہ مل سکی۔ اس نے اپنے روم میٹس سے چھپا کر رکھنے کے چکر میں وہ چیز نجانے کہاں چھپا دی تھی۔

آخر اس نے جب بیڈ کے نیچے جھانکا تو بیڈ کے نیچے بالکل آخری کونے میں اس کو لوہے کی ایک چیز نظر آئی۔ وہ جلدی سے بیڈ کے نیچے گھس گیا۔

اسی چیز کی اس کو تلاش تھی!… اس کی باچھیں کھل گئیں!

اس نے وہ چیز اٹھائی اور اپنی جیب میں ڈال کر کمرے سے نکل کر گراؤنڈ کی طرف دوڑ پڑا۔ مگر جتنی دیر میں وہ وہاں پہنچا ہاسٹل کی انتظامیہ مجمع چھٹوانے میں کامیاب ہوچکی تھی۔ اب وہاں کوئی بھی نہ تھا۔

عماد عمر بھی رابرٹ کو نہ پاکر پیچ وتاب کھاتا واپس اپنے کمرے میں آگیا۔

٭٭٭٭٭

’’بالکل ٹھیک! ہم دونوں تمہاری ہر طرح سے مدد کریں گے!‘‘

رات کی تاریکی میں ہاسٹل گراؤنڈ میں مدھم سی لائٹ کے نیچے تین سائے کھڑے تھے۔

’’ٹھیک ہے… عبود اور محمود! آپ دونوں کا بہت شکریہ!‘‘ یہ عماد عمر کی آواز تھی۔

’’اس میں شکریہ کی بات نہیں عماد!… یہ ہم سب کا دینی فرض ہے… مجھے تو ابھی تک یقین نہیں آرہا کہ رابرٹ ایسی حرکت اتنی دلیری سے کیسے کرسکتا ہے؟‘‘ محمود غصے سے مٹھیاں بھینچ کر بولا تھا۔ اس کے چہرے کے تمام نقوش اس وقت تناؤ کا شکار لگ رہے تھے۔

’’ٹھیک ہے عماد!… مجھے جیسے ہی لگا کہ رابرٹ اکیلا ہے… میں تمہیں اور محمود کو اشارہ دے دوں گا… پھر میں اور محمود پہرہ دیں گے اور تم اس کے کمرے میں گھس جانا!‘‘ عبود سرگوشی میں بولا۔

’’بالکل ٹھیک!‘‘

اچانک رات کے سناٹے میں کسی کے برف پر چلنے کی آواز سنائی دی تھی۔ وہ تینوں چونکے۔ ان کا توخیال تھا کہ اتنی سخت ٹھنڈ میں باہر آنے کا کوئی بھی نہیں سوچے گا۔

’’سائڈ پر ہوجاؤ!‘‘

’’اپنے اپنے کمرے میں پہنچو!‘‘

وہ تینوں جلدی سے ادھر اُدھر بکھر گئے۔

عماد عمر بھی تیزی سے ہاسٹل کی بلڈنگ کی طرف بڑھا مگر بیچ میدان میں ٹھٹک کر رک گیا۔ دو لڑکے آپس میں باتیں کرتے ان کی طرف آتے نظر آئے تھے۔ ان میں سے ایک کوئی اور نہیں ان کا شکار رابرٹ فورڈ تھا۔

’’محمود! عبود!‘‘ اس نے جلدی سے دونوں کو پکارا۔ ’’وہ دیکھو رابرٹ اور میلن آرہے ہیں!‘‘

یہ کہتے ہوئے اس کا ہاتھ جیب میں رینگ گیا۔ محمود اور عبود تب تک دور ہوچکے تھے اور شاید ان تک اس کی آواز نہ پہنچی تھی۔ عمادعمر نےان کا انتظار کرنا مناسب نہ سمجھا بلکہ دھیرے دھیرے رابرٹ کی طرف بڑھنے لگا۔ وہ چاہتا تھا کہ چاپ پیدا کیے بغیر چلے مگر پورے گراؤنڈ میں پڑی سخت اور پرانی برف پر یہ ناممکن تھا۔ وہ جیسے ہی رابرٹ کے قریب پہنچا دونوں لڑکے خوفزدہ ہو کر اس کو دیکھنے لگے۔

’’اوہ …عماد تم؟‘‘ عماد کو دیکھ کر دونوں نے سکون کا سانس لیا۔

’’کیوں؟ کیا ہوا؟ کیا ڈر گئے تھے؟‘‘ عماد عمر نے انتہائی معصومیت سے پوچھا۔

’’ن…ن…نہیں!‘‘ رابرٹ ہکلایا۔ اس کے چہرے کارنگ بالکل پیلا ہوگیا تھا۔

’’تمہیں کیا ہوا ہے رابرٹ ؟ خیریت ہے؟‘‘ عماد عمر نے پھر بڑی ہمدردی سے پوچھا۔

’’ک…ک…کچھ …ن…نہیں!‘‘

’’تو اتنی ٹھنڈ میں باہر کیا کررہے ہو؟‘‘ کہتے ہوئے وہ دو قدم اس کے قریب آگیا۔

عماد عمر کا انداز اتنا جارحانہ تھا کہ رابرٹ بے ساختہ دو قدم پیچھے ہٹا۔

’’وہ…رابرٹ اپنے گھر جارہا ہے…آج ہماری پارٹی تھی …اس کو چند مسلمانوں نے خراب کردیا…انہوں نے ہم سب کو خوب مارا پیٹا ہے …دراصل آج صبح……‘‘ رابرٹ کے ساتھ کھڑے لڑکے نے صبح کا واقعہ دوہرانا چاہا مگر رابرٹ نے اس کے ہاتھ کو زور سے دبا کر اس کو خاموش کروادیا۔ وہ کیوں بھول گیا تھا کہ عماد عمر بھی تو مسلمان تھا۔ وہ اس کو قرآن کی توہین کا واقعہ فخر سے کیسے بتا سکتا تھا۔

’’ہاں ہاں! مجھے پتہ ہے کہ آج صبح کیا ہوا تھا…میں اسی سلسلے میں تم سے ملنے آنا چاہتا تھا …‘‘ عماد عمر بولا ’’تم فکر کیوں کرتے ہو…تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکےگا!‘‘

’’آں…شکریہ‘‘ رابرٹ نے اس کے مبہم سے جملے پر دھیان نہ دیا۔

’’کیونکہ…تمہیں تو میں نقصان پہنچا دوں گا!‘‘ عماد عمر کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ اس نے بجلی کی سرعت سے اپنی پینٹ کی جیب سے چاقو نکال لیا اور رابرٹ پر پے درپے وار کرنے لگا۔

اس اچانک افتاد کے لیے وہ دونوں لڑکے تیار نہ تھے۔ دونوں ہی بوکھلا کر برف پر گر گئے۔

عماد عمر دیوانوں کی طرح رابرٹ پر چاقو کے وار کرتا رہا۔

رابرٹ کے ساتھ والا لڑکا اپنی جان بچا کر ’’مدد! مدد!‘‘ پکارتا بلڈنگ کی طرف بھاگا۔

عماد عمر نے یہ چاقو اسی نیت سے خریدا تھا کہ وہ کسی اسلام دشمن کو اس سے قتل کرے گا۔ وہ کئی سالوں سے اس موقع کا منتظر تھا۔ وہ چاقو چلانے کی تربیت خفیہ طور لیتا رہا تھا۔

ملعون رابرٹ نے اپنے آپ کو چاقو کے وار سے بچانے کی کوشش کی مگر لڑکھڑا کر برف پر گر گیا۔ عماد عمر اس کے اوپر چڑھ کر بیٹھ گیا اور چاقو کے وار تب تک کرتا رہا جب تک رابرٹ نے مزاحمت چھوڑ نہ دی۔ رابرٹ جب بے حس و حرکت ہوگیا تو عماد عمر اس کو چھوڑ کر خونخوار نگاہوں سے دیکھنے لگا۔

اس کو بھیانک انجام تک پہنچانے کے بعد عماد عمر کا دل ٹھنڈا ہوگیا تھا!

رابرٹ خون میں تر بتر برف پر پڑا تھا۔ اس کے اردگر برف بالکل سرخ ہوچکی تھی اور عماد عمر کے کپڑے بھی خون سے رنگین ہوچکے تھے۔

’’خبردار! تم نرغے میں ہو!…ہاتھ اوپر اٹھادو!‘‘

اچانک ایک چلاتی ہوئی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ عماد عمرنے مڑ کر بولنے والے کی جانب دیکھا۔ وہ جرمن پولیس تھی۔

عماد عمر کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ دوڑ گئی۔ مگر اس نے ہاتھ اوپر نہیں اٹھائے ۔

’’میں کہہ رہا ہوں ہاتھ اوپر اٹھاؤ!‘‘ پولیس والا دوبارہ چلایا تھا اور عماد عمر روشنی میں نہا گیا۔

’’میں نے کوئی جرم نہیں کیا!‘‘ عماد عمر پوری قوت لگا کر چلایا، ’’جرم تم نے کیا ہے ہماری کتاب کو جلا کر!…میں پوری دنیا کے کفار کو بتانا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کو مردہ مت سمجھو!‘‘

’’میں کہہ رہا ہوں ہاتھ اٹھاؤ…ورنہ گولی ماردوں گا!‘‘

’’اے کافرو!جب تک مسلمان اس زمین پر بستے ہیں قرآن کی بے حرمتی کرنے کا نہ سوچنا!…‘‘ عماد عمر گلا پھاڑ کر چلایا۔

ہاسٹل کی بلڈنگ کی کھڑکیاں کھلنے لگی تھیں۔ اس یخ بستہ رات میں بھی لوگ کھڑکیاں کھول کر باہر جھانکنے لگے تھے۔ باہر کا منظر دیکھ کرہر آنکھ دہشت زدہ رہ گئی تھی۔ کسی کو بھی اپنی بصارت پر یقین نہ آیا تھا۔ سامنے گراؤنڈ میں پولیس کھڑی تھی اور زمین پر رابرٹ اپنے ہی خون میں لتھڑا پڑا تھا اور اس کے پہلو میں عماد عمر ہذیانی سی کیفیت میں چیخ رہا تھا۔

’’مسلمانوں کے زندہ ہوتے ہوئے آئندہ ہمارے مقدسات کو پامال نہ کرنا!…‘‘ وہ چیخا، ’’عماد عمر کے زندہ ہوتے ہوئے کبھی قرآن کو نجس ہاتھ لگانے کی ہمت نہ کرنا!‘‘

اسی لمحے پولیس والے کی بندوق سے ایک گولی نکلی اور عماد عمر کا سینہ چیرتی ہوئی پار ہوگئی۔ عماد عمر کو جھٹکا لگا اور وہ الٹ کر پیچھے جاگرا۔ پولیس والے اس کو گرتا دیکھ کر رابرٹ کی طرف بھاگے۔ وہ شاید ابھی تک اس کے زندہ ہونے کی امید کر رہے تھے۔

’’بد بختو! میں نے اس کو مار دیا ہے!…‘‘ وہ کراہتے ہوئے ہنسا ’’اور آئندہ بھی کسی نے یہ ناپاک کوشش کی تو اس کا یہی انجام ہوگا!…آج میں نے یہ کام کردیا …کل کو کوئی اور عماد عمر ہوگا! …ہم مسلمانوں کی غیرت جب تک زندہ ہے ہم اپنے نبی ، اپنے دین اور اپنی کتاب کا دفاع کرتے رہیں گے!‘‘

اس کو بولتے ہوئے سخت دقت ہورہی تھی۔ کسی کو اس کی آواز سنائی بھی نہ دے رہی تھی مگر اس کو اکھڑتے سانس کے ساتھ بھی یہ بولنے میں لطف آرہا تھا۔ ایسا لطف…کہ لفظوں میں اس کو بیان ہی نہیں کیا جاسکتا۔

پولیس والے جب عماد عمر تک پہنچے اس کی آنکھیں بند ہوچکی تھیں۔ اور اس کے جسم سے مسحور کن خوشبو اٹھ رہی تھی۔

’’اٹھاؤ اس کو اور چلو!…شکر ہے مر گیا!…کم بخت کتنے متعصب ہوتے ہیں یہ مسلمان!‘‘ ایک عورت غصے سے بولتی اپنے پولیس اہلکاروں کو ہدیات دینے لگی۔

٭٭٭٭٭

حسینہ خاتون اور حماد عمر دونوں سکتے کی سی کیفیت میں تھے۔ ان کو یقین ہی نہ آتا تھا کہ یہ سب ہوگیا تھا۔ عماد عمر نے یہ کردیا تھا۔ سب کچھ کتنا ناقابل یقین تھا!

دوسری طرف اپنے اس کمرے میں جہاں عمادعمر ان کے ساتھ گدا بچھا کر زمین پر سویا کرتا تھا …دادو آنکھوں میں آئے آنسؤوں کے ساتھ اپنی محبوب ترین شے کو ہاتھ میں لیے بیٹھی تھیں۔ انہوں نے قرآن پاک کے مصحف کو چوما اور اپنی آنکھوں سے لگا کر آنسو بہانے لگیں۔

’’عماد عمر! مجھے تم پر فخر ہے!…اسی دن کے لیے تو تجھے ہم نے پالا تھا…جب مجھے یہ خبر ملی کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم عماد عمر نے قرآن کی گستاخی کرنے والے کو موت کے گھاٹ اتار کر خود بھی جام شہادت نوش کرلی ہے… تو میرا انگ انگ خوشی سے سرشار ہوگیا۔ فخر سے میرا سر بلند ہوگیا!…مسلمان مائیں اپنے بچے اسی لیے جنتی ہیں کہ وہ اسلام کا دفاع کرسکیں! یہی اصل کامیابی ہے عماد عمر!… مجھے بہت خوشی ہے کہ میں نے جیسی امید تم سے لگائی تم نے پوری کردی!… عماد عمر! تم نے قرآن سے اپنی محبت کا ثبوت دے دیا !…اور یہ ثابت کردیا کہ ابھی مسلمان زندہ ہیں!‘‘

٭٭٭٭٭

’’میں نے تمہیں پہلے ہی کہا تھا راحول …کوئی فائدہ نہیں!…اس قوم کی غیرت مرنے والی نہیں ہے!‘‘ میخائل برائٹ افسردگی سے اپنا سر ہلارہا تھا۔

راحول برائٹ بھی غم اور غصے کی داستان بنا سر جھکائے بیٹھا تھا۔ رات کا وقت تھا اور موم بتی کی موم پگھل پگھل کر اپنے اختتام کو پہنچنے والی تھی۔ آخری ہچکیاں لیتی موم بتی کمرے کو روشن کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی تھی۔

’’ابا یہی تو وہ چاہتے ہیں کہ…لوگ ان سے ڈر جائیں…دوبارہ ایسے کام کرنے کی ہمت نہ کریں‘‘ راحول غصے سے بول رہا تھا۔

’’راحول! …لوگ ان سے خوفزدہ ہوگئےہیں …اور ہم کچھ نہیں کرسکتے!‘‘

’’یہ نہیں ہوسکتا ابا!…اس طرح تو وہ کامیاب ہوجائیں گے!‘‘

’’راحول! مسلمان تب تک کامیاب ہوتے رہیں گے جب تک ان کے اندر دینی غیرت زند ہ رہے گی‘‘ بوڑھا یہودی مایوس لگ رہا تھا۔ ’’اور ہمیں نہیں پتہ کہ وہ کب اتنے بے غیرت ہوجائیں گے کہ اپنے دین کی توہین کو برداشت کرسکیں‘‘۔

’’ہوں! …تم صحیح کہہ رہے ہو ا ابا…مسلمان اپنے دین سے بہت محبت کرتے ہیں‘‘ راحول نے بھی مایوسی سے سرکو ہلایا۔

کمرے میں جلتی موم بتی ایک ہوا کے جھونکے کے ساتھ بجھ گئی اور کمرے میں تاریکی پھیل گئی۔

٭٭٭٭٭

Previous Post

اِک نظر اِدھر بھی | مارچ 2024

Next Post

اسلام کا مسافر! | دوسری قسط

Related Posts

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | ساتویں قسط

12 اگست 2025
الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط

14 جولائی 2025
الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | پانچویں قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | پانچویں قسط

9 جون 2025
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چوتھی قسط

27 مئی 2025
مسلم روح
ناول و افسانے

مسلم روح

27 مئی 2025
ناول و افسانے

خواب سے حقیقت تک

31 مارچ 2025
Next Post
اسلام کا مسافر! | دوسری قسط

اسلام کا مسافر! | دوسری قسط

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version