’’اُٹھو بیٹا، فجر کا وقت ہو چکا ہے!‘‘
یوسف کی ماں نے اسے ہلایا تو وہ چونک کر جاگا۔ خواب ابھی بھی اس کی آنکھوں میں تازہ تھا۔ اس نے خود کو ایک میدانِ جنگ میں دیکھا تھا، جہاں مسلمان نہتے تھے، اور دشمن جدید ہتھیاروں سے لیس، ہر طرف خاک اور خون کا منظر تھا۔ اس نے گھبرا کر کہا،
’’ہم کمزور کیوں ہیں؟‘‘ اور ایک گرجتی آواز آئی، ’’کیونکہ تم نے طاقت کا راز بھلا دیا!‘‘
یوسف ہڑبڑا کر اٹھا، وضو کیا اور مسجد کی طرف روانہ ہوا، مگر اس کے ذہن میں خیالات کا طوفان تھا۔ پچھلے کئی سالوں سے اس نے تبلیغی جماعت کے ساتھ چِلّے لگائے تھے، مختلف شہروں میں جا کر لوگوں کو دین کی طرف بلایا تھا، ساتھ ہی وہ ایک مذہبی سیاسی جماعت کا کارکن بھی تھا، وہ دسیوں مظاہروں اور دھرنوں میں بھی شریک ہو چکا تھا۔ مگر اب وہ دیکھ رہا تھا کہ دنیا میں مسلمانوں پر ظلم بڑھتا جا رہا ہے۔ فلسطین، کشمیر، برما، شام اور خاص طور پر افغانستان — جہاں کفری طاقتوں نے اسلام کی سرزمین کو اپنے پنجوں میں جکڑ رکھا تھا۔
’’کیا محض زبانی دعوت و تبلیغ اور یہ مظاہرے اور دھرنےکافی ہیں؟‘‘ وہ خود سے سوال کر رہا تھا۔ ’’اگر اسلام کو بچانے کے لیے صرف باتیں کرنی ہوتیں، تو نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کے بعد مدینہ میں ایک اسلامی حکومت کیوں قائم کرتے؟ اگر طاقت ضروری نہ ہوتی، تو کیا بدر، احد، اور خندق کے معرکے ہوتے؟ کیا خیبر، مکہ اور طائف بنا جنگوں کے فتح ہوئے تھے؟‘‘
فجر کے بعد، وہ سیدھا اپنے استاد، مولانا عبد الرحمٰن صاحب کے پاس پہنچا اور سوال کیا: ’’مولانا! مجھے بتائیں، کیا اسلام صرف وعظ و نصیحت کا دین ہے، بس مظاہرے کرنا اور حکمرانوں کے سامنے اپنے مطالبات رکھنا اس دین کا تقاضا ہے، یا ہمیں اپنی حفاظت کے لیے کچھ اور بھی کرنا ہوگا؟‘‘
مولانا مسکرا دیے، ’’بیٹا، تمہارا سوال بتا رہا ہے کہ تم جاگ چکے ہو! اسلام صرف الفاظ کا دین نہیں، یہ عمل اور طاقت کا بھی دین ہے۔ نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ میں تیرہ سال تبلیغ کی، مگر جب طاقتور دشمنوں نے ظلم کی انتہا کر دی، تو میدانِ جہاد میں اترے اور مدینہ میں ایک مضبوط اسلامی حکومت قائم کی، جہاں اللہ کا حکم نافذ ہوا اور اسلام کی قوت پروان چڑھی‘‘۔
یوسف کے دل میں آگ سی بھر ی ہوئی تھی۔ ’’مگر مولانا! آج افغانستان میں مسلمانوں کو قتل کیا جا رہا ہے، مساجد کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیں، عالمی طاقتیں اسلام کے خلاف برسرِپیکار ہیں، اور ہم صرف زبانی جمع خرچ میں لگے ہیں؟‘‘
مولانا کی آواز رندھ گئی۔ ’’یہی تو مسئلہ ہے بیٹا! ہم نے امت کو کمزور کر دیا ہے۔ ہمیں نہ صرف دین سکھانا ہے، بلکہ امت کو طاقتور بھی بنانا ہے، جیسے محمد بن قاسم، صلاح الدین ایوبی، اور نورالدین زنگی نے کیا تھا‘‘۔
یوسف کو یہ الفاظ دل میں اترتے ہوئے محسوس ہوئے۔ یہ گفتگو یوسف کے لیے ایک نئے سفر کا آغاز تھی۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ صرف گفتار کا غازی نہیں بنے گا، بلکہ ایک ایسا نوجوان بنے گا جو اپنے دین کی حفاظت کے لیے بھی تیار ہو، کردار کا غازی!
وہ افغانستان چلا گیا، جہاں اس نے مجاہدین کی کوششوں اور جہاد کو قریب سے دیکھا۔ بچے یتیم ہو چکے تھے، بوڑھے بےگھر تھے، مائیں اپنے پیاروں کی لاشوں پر رو رہی تھیں۔ مگر کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو ہمت نہیں ہار رہے تھے، جو اپنی سرزمین پر اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے لڑ رہے تھے۔
’’یہی وہ لوگ ہیں جو تاریخ بدلیں گے!‘‘ یوسف نے خود سے کہا۔
اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ صرف جذباتی تقریریں نہیں کرے گا، بلکہ عملی قدم اٹھائے گا، اور پہلا کام یہ تھا کہ وہ خود مجاہدین کے ایک معسکر میں پہنچا، اللہ کے دین میں جہاد و قتال کا پہلا قدم اعداد و تیاری ہی تو تھا۔
اگلا مرحلہ اپنے ہم فکر نوجوانوں کو اپنے وطن سے مسلمانوں کی اس سرزمین پر لانا تھا جہاں ایمان و مادیت کی جنگ اپنے عروج پر تھی۔ اس کے ساتھی دوستوں یاروں نے اس کی دعوت کو قبول کیا، ان ساتھیوں کی کئی، کئی کئی فنون کے ماہر تھے۔ انہوں نے تورہ بورہ کے پہاڑوں اور غاروں میں امت کے مجاہد نوجوانوں کے لیے ایک تعلیمی اور دفاعی تربیتی مرکز بنایا۔
یہاں وہ جدید ٹیکنالوجی، جنگی حکمت عملی، اور خود دفاع کی تربیت دینے لگے۔
اس نئے معسکر میں کچھ نے ڈاکٹری سیکھی، تاکہ زخمیوں کی مدد کر سکیں۔ کچھ نے سائبر سکیورٹی سیکھی، تاکہ دشمن کی جاسوسی اور سائبر جنگ کو ناکام بنا سکیں۔ کچھ نے فضائی دفاعی تربیت کے دورہ جات کیے ، تاکہ وہ اس مسلم سرزمین کی حفاظت کر سکیں۔
وقت گزرتا گیا۔ یوسف جیسے جوانوں کی محنت رنگ لائی۔
٭٭٭٭٭
امارتِ اسلامیہ افغانستان نے اپنی سرزمین پر قابض افواج کے خلاف فیصلہ کن جنگ کا آغاز کیا، تو ان کے ساتھ یوسف جیسے جری نوجوان بھی تھے، جو نہ صرف ایمانی قوت رکھتے تھے بلکہ جدید ترین جنگی مہارتوں سے بھی لیس تھے۔
’’یہ اسی امت کے نوجوان تھے جو کبھی بدر میں مٹھی بھر تھے، مگر ایمان اور مقدور بھر طاقت و قوت کے ساتھ میدان میں لڑنے کے سبب غالب آ گئے!‘‘ یوسف نے کہا۔
بالآخر افغانستان مکمل آزاد ہوا اور امارتِ اسلامیہ نے شریعت کا نفاذ کیا۔ چاروں طرف خوشیوں کے شادیانے بجنے لگے۔ شریعت کے نفاذ کے ساتھ ہی سود کا خاتمہ ہوا، اسلامی عدالتیں بحال ہوئیں، خواتین کو شرعی پردہ دیا گیا ۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور حدود اللہ کے نفاذ کے باعث جرائم کی شرح گھٹ گئی، اور امن و انصاف کی فضا قائم ہو گئی۔ تجارت اور زراعت کو اسلامی اصولوں پر استوار کیا گیا، معیشت مضبوط ہوئی، اور عوام خوشحال ہونے لگے۔
بازاروں میں برکت نظر آنے لگی، اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم ہو گئیں، زکوٰۃ اور بیت المال کے نظام سے غریبوں کی مدد ہونے لگی۔ تعلیمی اداروں میں جہاں کل تک محض سائنس ہی اول و آخر تھا وہ دینی تعلیم کو یکجا کیا گیا تاکہ ایک مضبوط اور باعمل نسل پروان چڑھے۔
یوسف ایک پہاڑی پر کھڑا تھا، اس کی نظریں کابل میں قبۃ الصخراء کی طرز پر تعمیر کردہ اس مسجد پر تھیں، جہاں اذان کی صدا گونج رہی تھی۔ نمازی جوق در جوق مسجد میں داخل ہو رہے تھے، اسلامی پرچم ہوا میں لہرا رہا تھا۔
یہ وہی خواب تھا جو اس نے برسوں پہلے دیکھا تھا، اور آج وہ حقیقت میں بدل چکا تھا۔
اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، مگر یہ آنسو غم کے نہیں، خوشی کے تھے۔ اور ماضی کا وہ خواب جھلملانے لگا جو بیداری کا سبب بنا اور ’’یہی وہ دن ہے جس کے لیے میں نے خود کو بدلا تھا، جس کے لیے میں نے علم حاصل کیا، فی سبیل اللہ اعداد و تیاری کی، اور اپنی امت کو بیدار کیا!‘‘
اس نے آسمان کی طرف دیکھا، جیسے اپنے رب کا شکر ادا کر رہا ہو، جس نے اسے وہ دن دکھایا جس میں اسلام کا پرچم سربلند ہے ، مکمل شریعت نافذ ہے۔
وہ بھی باقی نمازیوں کے ساتھ شامل ہو کر مسجد کی طرف قدم بڑھانے لگا۔ لیکن وہ جانتا تھا کہ یہ تو اس کے خواب کے پہلے حصے کی تعبیر تھی۔ ابھی اس کے اپنے وطن، کشمیر و ہند، برما و فلپین اور اندلس و اقصیٰ کو بھی آزاد کروانا تھا…… خواب کی مکمل تعبیر ابھی باقی ہے!
وقتِ فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
٭٭٭٭٭