نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

تحریکِ ختم نبوت سے ڈی چوک گرینڈ آپریشن تک

معین الدین شامی by معین الدین شامی
14 مارچ 2025
in پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!, جنوری و فروری 2025
0

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره ونتوكل عليه ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلله فلا هادي له، ونشهد أن لا إله إلا الله ونشهد أن محمدًا عبده و رسوله. ربِّ اشرح لي صدري، ويسّر لي أمري، واحلل عقدة من لساني، يفقھوا قولي، واجعلي وزيرا من أهلي، أما بعد!

یہ جملہ اب کہاوت کی صورت اختیار کر گیا ہے کہ ’ہر ملک کے پاس ایک فوج ہوتی ہے اور پاکستان فوج کے پاس ایک ملک ہے‘۔ پاکستان میں بسنے والے سیاسی شعور کے ابتدائی درجے کے حامل سے لے کر پاکستان کی سیاست و حکومت کو جاننے والے دنیا کے کسی بھی خطے میں موجود فرد تک، ہر ایک بخوبی جانتا ہے کہ پاکستان فوج بلا شرکتِ غیرے پاکستان کی حکمران نہیں، بلکہ اس ملک کی مالک ہے۔ ہر ملک کو ایک خاص اسٹیبلشمنٹ چلاتی ہے۔ کہیں اس کو ڈیپ سٹیٹ کہتے ہیں جس کی مرضی کے بغیر کوئی اوبامہ اور کوئی ٹرمپ کوئی کلیدی فیصلہ نہیں کر سکتے۔ کہیں کسی پارٹی کا اقتدار ہوتا ہے اور پارٹی چیئر مین اس قدر طاقت ور ہو سکتا ہے کہ وہ مؤسس چیئر مین ماؤ کے فیصلوں کو بھی حرفِ غلط قرار دے دے۔ کہیں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں اقتدار گھوم پھر کر اسی برہمن کے پاس آ رہتا ہے جو بقول ویدوں کے بھگوان کے سر سے پیدا کیے گئے ہیں (نعوذ باللہ)۔پاکستان کے قیام کے کچھ عرصے بعد ہی یہاں کی ڈیپ سٹیٹ، کمیونسٹ پارٹی، برہمن، اسٹیبلشمنٹ ، پاکستان فوج بن گئی۔

اس اسٹیبلشمنٹ نے روزِ اول سے اپنے آپ کو اس ملک کا بے تاج بادشاہ جانا اور پھر اپنے افسروں کی تربیت بھی اسی بادشاہی کے لیے کی، پھر یہی افسر کبھی بے تاج بادشاہ رہے اور کبھی تاج ور بھی۔ ماضی کے چند چیدہ چیدہ واقعات کا ذکر لازمی ہے، لیکن اس سے قبل آج کے پاکستان کی صورتِ حال ، جدید ریاست کے پانچ ستونوں کے ساتھ موازنے کی شکل میں دیکھ لیجیے۔

پاکستان میں جدید ریاست کے پانچ میں سے چار ستون مکمل طور پر اسی فوج کے باج گزار ہیں، بلکہ ایک ستون تو یہاں دراصل خود یہ فوج ہی ہے۔

  1. پہلا ستون: مقننہ۔ یعنی پارلیمان۔ کیا سیاست کی ابتدائی درجے کی سمجھ بوجھ رکھنے والا کوئی بھی شخص یہ دعویٰ کر سکتا ہے پاکستان کی حالیہ پارلیمان آزاد ہے اور اس پارلیمان کے ارکان جمہوری لحاظ سے بنا ووٹوں، بیلٹ بکسوں یا فارم ۴۵ و ۴۷ کی دھاندلی کے ایوانِ اقتدار میں پہنچے ہیں؟ پاکستان کے آئین میں ہونے والی حالیہ چھبیسویں ترمیم، پاکستان ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہی کے حکم پر ہوئی۔ بلکہ کتنے سیاست دان آن ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ اس کا ابتدائی مسودہ تک ’کہیں‘ سے آیا۔ ہارس ٹریڈنگ اور لوٹوں کی اصطلاح سے کون پاکستانی واقف نہیں؟

  2. دوسرا ستون: انتظامیہ یا ایگزیکٹیو۔ یعنی قانون نافذ کرنے والے ادارے اور بیوروکریسی۔ اول الذکر تو عملاً خود یہی فوج ہے اور مؤخر الذکر بیوروکریسی اور پولیس سِول سطح پر اسی فوج کی خدمت گار، سہولت کار، معاون اور اسی فوج کے ساتھ پارٹیز سے لے کر مراعات تک سے محظوظ ہونے والا طبقہ ہے۔

  3. تیسرا ستون: عدلیہ۔ اس ستون کا کام آئین و قانون کی تشریح اور عدل و انصاف کی فراہمی ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک پاکستان کے عدالتی سسٹم ہی کے تحت میرٹ پر آنے والے ججوں میں بھی اکثر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے لیے مثلِ بیوروکریسی خدمت گار، سہولت کار، معاون اور اسی فوج کے ساتھ پارٹیز سے لے کر مراعات تک سب کچھ سے محظوظ ہونے والا ایک طبقہ تھا۔ چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد اب یہ مکمل طور پر فوج کا باج گزار ستون و ادارہ بن گیا ہے۔ اب انصاف کی فراہمی ان ججوں کی ذمہ داری ہے جنہیں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے منظورِ نظر درجن ڈیڑھ درجن پارلیمان میں بیٹھے سیاست دان چنیں گے۔

  4. چوتھا ستون: میڈیا۔ اس کا کام شفاف رپورٹنگ کے ذریعے نظام کی نگرانی اور تعمیری تنقید کے ذریعے معاشرے اور حکومت کے مابین توازن قائم رکھنا ہے، تاکہ عوام میڈیا کے ذریعے حقائق جان کر، صحیح لوگوں کو چن کر، پارلیمان میں بھیج سکیں اور ریاستی مشینری آزادی، مساوات اور ترقی کی جانب گامزن محنت و خدمت کر سکے۔ لیکن اس میڈیا کی حالت کون نہیں جانتا۔ لفافوں، دھمکیوں اور تعذیب و قتل جیسے ہتھکنڈوں سے یہاں کا میڈیا مکمل کنٹرولڈ ہے۔ ۲۶ نومبر ۲۰۲۴ء کو ڈی چوک میں ہونے والی فوجی کارروائی کو دکھانے یا بتانے کی میڈیا کو اجازت نہیں تھی۔ اس ستون کی حقیقت کو جاننا ہو تو سلیم شہزاد سے ارشد شریف اور مطیع اللہ جان اسی صحافت کا نام ہے۔

  5. پانچواں ستون: عوام۔ یہ قوت کا سرچشمہ ہیں، ریاست کی اتھارٹی کی بنیاد اور اس کا جواز۔ اس ستون کودوسرے الفاظ میں ’بلڈی سویلین‘ کہتے ہیں۔ اگرچہ باقی تین ساڑھے تین ستون بھی ستون نمبر دو کے مقابل آ جائیں اور ریاست کے آئین و دستور کی ’بالادستی‘ کی بات غلطی سے کر دیں تو بلڈی سویلین ہی کے زمرے میں مثلِ شودر و دلت قرار پاتے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے، افتخار چودھری کو نکالنے کی کوشش اور نواز شریف ثم عمران خان کا بیانیہ ’مجھے کیوں نکالا ‘ تک اسی کی ایک جھلک ہے۔

نظامِ پاکستان میں قوت کا حقیقی سرچشمہ یا اسی نظامِ پاکستان کا مساوی نام ملٹری اسٹیبلشمنٹ یا پاکستان فوج ہے۔ یہ اسٹیبلشمنٹ یہاں کا ریاستی کلٹ (Cult) ہے، جس کو سات قتل معاف ہیں اگرچہ کچھ تحقیق کی جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ ریاستی کلٹ شاید آج تک سات نہیں، سات لاکھ قتل اپنے ہی عوام کے کر چکا ہے۔ ماضی کے چند واقعات کو دیکھتے ہیں، اگرچہ ان واقعات کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان فوج نے ردِ عمل میں جو کارروائی کی اس کے نتیجے میں ایسا ہوا اور دیگر فریق بھی اس کا سبب تھے، لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ نظامِ پاکستان کا دوسرا نام یہی فوج ہے ، یہی فوج اس ملک کی ’مائی باپ‘ ہے، جب بھی لفظِ ریاست یا ریاستی ادارے آتا ہے تو یہی ملٹری اسٹیبلشمنٹ مراد ہوتی ہے، تو بھلا کیا کبھی کوئی ریاست اپنے ہی لوگوں کے خلاف ایسے ’ایکشن‘ لیتی ہے؟

  • قیامِ پاکستان کے صرف چھ سال بعد ختمِ نبوت تحریک کو کچلنے کے لیے پاکستان بھر میں پاکستان فوج عاشقانِ ناموسِ رسالت کے خلاف صف آرا ہو گئی۔ straight fireکا حکم جاری کیا گیا اور عوام و خواص میں سے پچاسیوں عینی شاہدین ہیں جن کی گواہیاں دستاویزاتِ تاریخ میں موجود ہیں کہ سیدھی گولی چلانے کے نتیجے میں محتاط اندازوں کے مطابق کم از کم ایک ہزار لوگ شہید کیے گئے۔

  • مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا اس کو بھلانا بڑا ظلم ہو گا۔ تاریخی حقائق پر مبنی کتب و تحقیقات درجنوں کی تعداد میں شائع ہو چکی ہیں۔ سنہ ۱۹۷۱ء میں پاکستان فوج سے منسوب ذرائع کے مطابق پچاس ہزار سے ایک لاکھ بنگالیوں کا قتل کیا گیا اور دیگر آزاد ذرائع اس تعداد کو دو لاکھ سے تین لاکھ بتاتے ہیں، جنرل ٹکا خان اپنی گفتگوؤں میں مخالف بنگالیوں کے قتلِ عام کا عندیہ دیا کرتا تھا، یہ بنگالی کسی اور ملک کے باسی یا مغربی بنگال کے بنگالی نہیں تھے بلکہ یہ مشرقی بنگال یعنی مشرقی پاکستان، جو اس وقت متحدہ پاکستان کا حصہ تھا، کے شہری تھے، مملکتِ خدا داد کے کلمہ گو شہری۔ اس زمانے میں دو لاکھ سے چار لاکھ بنگالی عورتوں کی عصمت دری کی گئی، جنرل نیازی اور اس کی ماتحت فوج کی اس جرم میں شرکت کی پچاسیوں گواہیاں موجود ہیں، بلکہ یہ فوجی اس کا اظہار اعلانیہ اور فخریہ کیا کرتے تھے، بلکہ جتنی عورتوں کی عصمت دری کرتے تو ان کی تعداد کو اپنا ’سکور‘ کہا کرتے تھے، جنرل نیازی سے منسوب ایک جملہ مشہور ہے کہ وہ جوانوں سے پوچھا کرتا تھا کہ ’آج تیرا کتنا سکور رہا شیرا؟‘۔ پاکستان فوج کے افسران بنگالیوں کو کم ذات سمجھتے تھے، ان کے رنگ اور قد کاٹھ کا کھلے عام مذاق اڑاتے تھے، چٹاگانگ کلب میں ’بنگالیوں اور کتوں‘ کے داخلے پر پابندی تھی۔1

  • پاکستان فوج میں ڈیڑھ دہائی سے زیادہ خدمات سرانجام دینے والے راقم السطور کے قریبی عزیز میجر ڈاکٹر مجاہد عظیم طارق2 نے کئی سال سی ایم ایچ کوئٹہ میں کام کیا۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ ان کی سروس کے زمانے میں بلوچستان میں تعینات پاکستان فوج کے افسروں میں یہ بات عام تھی کہ پاکستان فوج کے سپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) کا مشہور کمانڈر بریگیڈئیر ٹی ایم (طارق محمود) سنہ ۷۰ء کی دہائی میں جب بلوچستان میں تعینات تھا، تو وہ بلوچ نوجوانوں کو ہیلی کاپٹر میں بٹھا کر بلوچستان کے پہاڑی علاقوں کی طرف لے جاتا تھا اور پھر ان بلوچ نوجوانوں کو ہیلی کاپٹر سے دھکا دے کر نیچے گرا دیتا تھا جو ان کی موت کا سبب بنتا تھا۔ اس لیے جب ۱۹۸۹ء میں بریگیڈیئر ٹی ایم گوجرانوالہ کے علاقے راہ والی میں پاکستان آرمی ایوی ایشن سکول کے ایک فوجی شو میں اپنا پیراشوٹ نہ کھلنے کے سبب فضا سے زمین پر ٹکرا کر مرا، تو ٹی ایم کے ساتھ بلوچستان میں تعینات رہنے والے فوجی افسران کو حیرت نہ ہوئی۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے، مظلوم کی آہ عرش تک پہنچتی ہے۔ اس واقعے کا ذریعہ ایک ذاتی نوعیت کی یادداشت ہے، لیکن بلوچستان میں پاکستان فوج کا کردار مشرقی پاکستان سے کچھ مختلف نہیں رہا۔ نواب اکبر خان بگٹی نے تحریکِ پاکستان میں بانیٔ پاکستان محمد علی جناح صاحب کے ساتھ شمولیت اختیار کی۔ پاکستان فوج کی پالیسیوں نے اس محبِ وطن شخص کو بلوچ مکتی باہنی کے سردار میں بدلا اور قتل کیا اور پھر اس کی لاش کو مقفل تابوت میں لا کر دفنا دیا، بگٹی خود بھی کوئی پارسا آدمی نہ تھا اس نے ایک ظالم (یعنی پاکستان فوج)کے خلاف دوسرے ظالموں کی حمایت کرنے اور حمایت حاصل کرنے کی راہ چنی، پھر خود بھی اور اپنی قوم کے جوانوں کو بھی ’تاریک راہ‘ کی طرف دھکیل دیا۔ اختر مینگل خاندان کے کم سن بچوں کو ایم آئی کے اہلکاروں نے کراچی کے ایک نجی سکول سے اغوا کرنے کی کوشش کی۔ بگٹی اور مینگل بلوچ قوم کے سردار تھے، سوچیے عام بلوچوں کے ساتھ پاکستان فوج نے کیا سلوک روا رکھا؟ ’ریاست ہو گی ماں کے جیسی، ہر شہری سے پیار کرے گی‘ کے ٹھیکے دار ریاستی اداروں پر چیف بلکہ ریاست کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے اپنےہی ملک کے بلوچ باشندوں کو کہا کہ ’ہم تمہیں وہاں سے ہِٹ کریں گے کہ تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا‘، کیا ریاست ماں کا اندازِ تخاطب ایسا ہی ہوتا ہے اور ماں بالفرض اپنی اولاد کو کچھ ایسا ویسا کہہ بھی دے تو کیا واقعی ’وہاں سے ہِٹ کرتی ہے جہاں سے پتہ بھی نہ چلے‘ اور ختم کر دیتی ہے؟

  • ۱۹۹۹ء میں سیاچن کی جنگ میں پاکستان فوج نے مجاہدین اور اپنی پیادہ سپاہ کو قربانی کا بکرا بنایا۔ ہندو فوج کے سامنے ہتھیار ڈالے، اپنے سپاہیوں کو چھوڑ کر بھاگے اور مجاہدین سے وعدے کرنے کے بعد غداری و جفا کی اور انہیں تنہا چھوڑ دیا۔

  • جہادِ کشمیر میں پاکستان فوج کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ پاکستان فوج نے مجاہدین کو کشمیر میں تنہا کیا اور جنرل کیانی کا آن ریکارڈ بیان موجود ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ ہم نے جد و جہدِ آزادیٔ کشمیر کو ’Abandon‘ کیا کیونکہ یہ ہمارے مفاد میں نہیں تھی۔3

  • ۲۰۰۱ء میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی بن کر پاکستان فوج کی براہِ راست باوردی حکومت نے دنیا کی واحد اسلامی حکومت ’امارتِ اسلامیہ افغانستان‘ کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور اپنے ملک کی اہم ائیر بیسز کو امریکی بیسوں میں بدل دیا اور ستاون ہزار بار پاکستانی فضا سے امریکی جہازوں نے اڑ کر افغانستان پر بمباری کی۔ امارتِ اسلامیہ کے سفیر کو قدیم و جدید تمام آدابِ سفارت پاؤں تلے روند کر، بد ترین تاریخی و تہذیبی جرم و خیانت کا ارتکاب کیا اور برہنہ کر کے امریکہ کے حوالے کرتے ہوئے گوانتانامو کے زندان میں بھیج دیا۔ اسی فوج نے امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد (نوّر اللہ مرقدہ) کے نائب ملا عبید اللہ اخوند کو گرفتار کیا اور پاکستان فوج کے زندان ہی میں ان کی شہادت ہوئی۔ اسی فوج نے امارتِ اسلامیہ افغانستان کے سرکردہ رہنما اور عظیم داعی و مربی شیخ استاذ محمد یاسر کو دو بار گرفتار کیا اور دوسری بار ان کو اپنی ہی جیل میں شہید کر کے غائب کر دیا۔

  • ۲۰۰۱ء ہی میں سیکڑوں عرب مہاجر مجاہدوں کو پاکستان فوج نے امریکہ کے حوالے کیا۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں اس تعداد کو چھ سو نواسی (۶۸۹) درج کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس نے یہ کام “financial rewards provided by the US”کی خاطر کیا۔4

  • عافیہ صدیقی۔ اس مظلوم روح سے کون واقف نہیں؟ ۲۸ مارچ ۲۰۰۳ء کوپاکستان ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے سر غنہ ادارے آئی ایس آئی نے عافیہ صدیقی کو ان کے تین بچوں سمیت کراچی سے اغوا کر کے امریکیوں کے حوالے کر دیا اور اب عافیہ کو قید ہوئے ربع صدی ہونے کو آئی ہے۔

  • پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ اسی اسلام کے نام پر غیرت مند قبائلِ وزیرستان، اورکزئی، کرم، باجوڑ، مہمند اور خیبر وغیرہ نے ریاستِ پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔ ان قبائل کی غیرت کا منبع حمیت و غیرتِ اسلام ہے۔ اسی حمیت و غیرتِ اسلام میں ان قبائل نے سنہ ۴۸ء میں پاکستان فوج کے ساتھ مل کر میرپور تا مظفرآباد جموں و کشمیر کے علاقے ہندوستانی فوج سے آزاد کروائے، در حقیقت یہی مجاہدینِ قبائل کشمیر کے قلب اور موسمِ گرما کے دار الحکومت سری نگر تک فاتح بن کر پہنچے اور سری نگر کے ہوائی اڈے کا کنٹرول سنبھال لیا (بعداً پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے یہ سارا علاقہ ہندوستان کو واپس کر دیا)۔ انہی مجاہدینِ قبائل نے سرحداتِ اسلامی کی حفاظت کی خاطر اپنے علاقے جہادِ افغانستان ضدِ روس میں خطِ اول کے طور پر بنا دیے اور جہادِ افغانستان میں دامے، درمے، قدمے، سخنے شریک رہے۔ پھر جب ۲۰۰۱ء میں امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوا تو ایک بار پھر انہی مجاہدینِ قبائل نے اپنے گھروں اور مہمان خانوں کے دروازے سرحد پار سے آنے والے عرب و عجم کے مہاجروں کے لیے کھول دیے اور اخوتِ ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خوست تا مراکش کے مہاجر مجاہدوں کے انصار بن گئے۔ اس حمیت و غیرتِ اسلامی اور نظامِ اسلامی کا مطالبہ کرنے کے جرم میں ۱۹۴۸ء میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی ہوائی کمان جس کانام اس وقت ’رائل پاکستان ائیر فورس‘ تھا، نے وزیرستان کے علاقوں میں فضائی بمباری کی۔مارچ ۲۰۰۴ء ، جب پاکستان فوج امریکہ کی فرنٹ لائن اتحادی بن چکی تھی تو انہی مجاہدینِ قبائل جن کی کمان اس وقت ملا نیک محمد وزیر شہید اور ملا عبد اللہ محسود شہید کر رہے تھے کے خلاف فوجی آپریشن کا آغاز کیا۔ حمیت و غیرت کے پہاڑ قبائلی مسلمانوں کی چادر و چاردیواری پامال کی گئی اور ان کے سفید ریش مشران (قومی سرداروں)کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر فوجی ٹرکوں میں مال مویشی کی طرح ڈالا گیا۔ گزشتہ بیس سالوں میں ہزاروں شہید، ہزاروں زخمی و اپاہج، اور لاکھوں قبائلیوں کو بے گھر کیا جا چکا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

  • ۲۰۰۷ء میں نفاذِ اسلام کی خاطر آواز بلند کرنے کے ’جرم‘ میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کو لہو رنگ کرنا اور ہزاروں عفیفہ مسلمان طالبات کو فاسفورس سے جلا ڈالنا، یہ قتلِ عام تاریخ کے ان واقعات میں سے ہے جنہیں televised genocideکہا جا سکتا ہے، یعنی وہ قتلِ عام جسے ٹیلی وژن پر براہِ راست نشر کیا گیا۔ ریاست کے ایک ستون نے ’دعوے کے مطابق مضبوط ترین ستون یعنی عوام‘ میں سے نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرنے والوں کو مخاطب کر کے کہا کہ ’باہر نکل آئیں ورنہ مارے جائیں گے‘، پھر ریاست نے جو کہا، وہ کر دکھایا۔ مسجد کوپامال کیا، قرآنِ شریف اور احادیث کی کتب کو آگ لگائی اور پھر ان سب کو اسلام آباد کے گندے نالوں میں پھینک دیا۔

  • لال مسجد آپریشن کے کچھ ہی عرصہ بعد ۲۰۰۹ء میں پاکستان فوج نے دنیا کی عسکری تاریخ میں ایک نمایاں فوجی آپریشن سوات میں شروع کیا5۔ لاکھوں لوگوں کو بے گھر کیا گیا، ہزاروں شہید کیے گئے اور کتنے ہی آج تک بے گھر ہیں۔ سوات بھی قیامِ پاکستان کے وقت ایک آزاد ریاست تھی۔ سوات کے میاں گل خاندان نے ۱۹۴۹ء میں پاکستان سے الحاق اور ۱۹۶۹ء میں ریاستِ پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ جن کلیدی وجوہات کی بنا پر کیا ان میں ایک دینی و مذہبی عنصر تھا، سوات کے آخری حکمران میاں گل جہاں زیب نے ایک ایسی ’مسلم اکثریت والی ریاست سے الحاق کیا تھا جہاں اسلامی اقدار ہم آہنگ ہوں‘۔ اسی سوات میں جب تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی (علی صاحبہا ألف صلاۃ وسلام) اور تحریکِ طالبان پاکستان کے مجاہدین نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرتے ہیں تو ان کے خلاف ایک وسیع آپریشن کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔

  • دس سال قبل ۲۰۱۴ء میں وزیرستان میں شروع کیا جانے والا آپریشن ضربِ عضب اسی طویل تاریخ کا حصہ ہے جو پہلے بیان ہو چکی ہے۔

  • جس طرح بلوچوں پر تشدد و ظلم، مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کی مانند تیسرے درجے کے شہری کے طور پر، بلوچستان کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور بلوچوں کو ان وسائل میں سب سے کم حصہ دینا حالانکہ وہ ان وسائل سے متمتع ہونے کے سب سے زیادہ حق دار ہیں، اسی طرح پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے پشتونوں کے خلاف ’غیرت و حمیتِ اسلامی‘ اور ’نصرتِ دین‘ کے جرائم کے سبب تیسرے اور ادنیٰ درجے کے شہری کا رویہ رکھا۔ پشتون علاقوں خاص کر قبائلی پٹی میں ہر قسم کا ظلم و ستم روا رکھا۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ اپنی غلط اور ظلم پر مبنی پالیسیوں کے سبب اپنے ہی شہریوں کو موقع فراہم کیا اور مجبور کیا کہ وہ ریاستِ پاکستان کے مخالفوں کے ساتھ راہ و رسم بڑھائیں(اگرچہ یہ راہ و رسم خود سمِ قاتل ہے اور آئندہ سطور میں اس کی وضاحت ہو جائے گی)۔ پاکستان فوج کے ظلم سے خلاصی کی ایسی ہی تحریکات جب پشتون علاقوں میں اٹھیں تو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے ان مظاہرین کے خلاف (سیدھا فائر کھول کر)وزیرستان کے میران شاہ اور خڑ کمر کو مشرقی پاکستان کے کھُلنہ و ڈھاکہ اور بلوچستان کے تربت و لورالائی میں بدلا ۔

یہاں کچھ دیگر نکات بیان کرنا از حد ضروری ہے اور ہماری پچھلی بات ان نکات کے بنا بالکل ادھوری ہے:

  1. پشتون علاقوں میں پاکستان فوج نے پشتونوں کے خلاف جنگ کو اس لیے روا نہیں رکھا کہ وہ صرف ’پشتون‘ ہیں، بلکہ پشتونوں کے کے خلاف جنگ کا اصل سبب پشتون اور قبائلی علاقوں کے باسیوں کی اسلام سے وابستگی ہے (جیسا کہ پچھلی سطور میں بھی بیان ہو چکا ہے)۔ یہ جنگ پنجابی اور پشتون کے درمیان جنگ نہیں بلکہ امریکی غلام فوج اور اہلِ اسلام کے مابین جنگ ہے۔ دراصل اس جنگ میں پشتون کے خلاف پشتونوں نے ہی جنگ لڑی ہے، اور دشمن کی طرف سے جنگ لڑنے والے یہ فوجی پشتون نہیں بلکہ ’ملٹری اسٹیبلشمنٹ‘ کے چہرے مہرے تھے۔

  2. نہایت قلیل تحقیق سے جن اعلیٰ پشتون جرنیلوں (تھری سٹار و فور سٹار)کے نام معلوم ہو سکے ان میں جنرل رحیم الدین خان آفریدی، جنرل اختر عبد الرحمن خان ککے زئی، جنرل فاروق فیروز خان برکی، جنرل جہانگیر کرامت ککے زئی، جنرل احسان الحق خان(مردان)، جنرل اسد درانی، جنرل یحییٰ خان، جنرل گل حسن خان، جنرل فاروق شوکت خان لودھی، جنرل علی قلی خان خٹک، جنرل عبد الوحید کاکڑ، جنرل طارق خان شامل ہیں۔ ان مذکورہ جرنیلوں میں لیفٹیننٹ جنرل طارق خان، آئی جی ایف سی بھی رہا، اس نے ۲۰۰۴ تا ۲۰۰۵ء امریکی سینٹ کام (CENTCOM) میں پاکستان کی نمائندگی کی جہاں اس کی خدمات کے اعزاز میں اسے امریکی فوجی اعزاز Legion of Merit دیا گیا، ۲۰۰۶ء میں جنوبی وزیرستان میں آپریشن کی کمان کی اور اس کے سر آئی جی ایف سی ہونے کے زمانے میں ایف سی کو دہشت گردوں کے خلاف وزیرستان اور خیبر پختون خوا میں پیشہ ور فورس بنا نے کا اعزاز بھی ہے، سب سے بڑھ کر طارق خان کا تعلق وزیرستان کی سرحد سے جڑے نیم قبائلی علاقے ٹانک سے ہے۔ علاوہ ازیں وزیرستان، سوات اور باقی خیبر پختون خوا میں ہونے والے قریباً تمام ہی آپریشنز میں ایف سی صفِ اول میں لڑی اور یہ بتانے کی شاید ضرورت نہیں کہ ایف سی میں اکثریت پشتونوں کی ہوتی ہے اور اس کے اکثر (پچانوے فیصد) سربراہان پشتون رہے ہیں۔

  3. جس طرح پاکستان فوج نے پشتونوں یا بلوچوں پر ظلم کیا ہے تو اسی طرح (جیسا کہ اولاً مذکور دو نکات میں ذکر آیا) پاکستان فوج نے ایسا ہی ظلم خود پنجابیوں کے ساتھ بھی روا رکھا ہے، بلکہ تحریرِ ہٰذا میں بیان ہونے والے اکثر ظلم کے واقعات و سانحات خود اس فوج کی جانب سے پنجابیوں کے ساتھ کیے گئے ہیں۔ مکرر، یہاں اصل مسئلہ کسی قوم کے خلاف جنگ نہیں بلکہ اسلام کے خلاف جنگ ہے۔

  4. پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ظلم اور بے دین و لادین پالیسیوں کے نتیجے میں، للاسف ، ایسے بد نصیب لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے قوم پرستی (بلوچ و پشتون) کے نام پر ایک ایسا علاج قوم و ملت کے سامنے پیش کیا جو بجائے خود ’دواء‘ نہیں ’داء‘ ہے، مرض کا علاج نہیں بلکہ سرطان ہے۔ ماضی میں یہی کھیل مشرقی پاکستان میں کھیلا گیا، بنگالی قومیت کے نام پر بنگ بندھو (دوستِ بنگال) شیخ مجیب کی تحریک پر مکتی باہنی نے ایک ایسا حل تجویز کیا جس کے نتیجے میں اسلام کی خاطر لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر حاصل ہونے والا ملکِ پاکستان دو لخت ہو گیا، اہلِ بنگال کو پاکستان کی ظالم ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے تو نجات حاصل ہو گئی لیکن وہ پانچ دہائیوں تک کے لیے سیکولر ہندو کے غلام ہوگئے ، جن حقوق کے حصول کی خاطر بنگالیوں میں بنگالی قوم پرستی کو جگا کر مکتی باہنی نے تخریب کی تھی، وہ بنگالی اسی مکتی باہنی کے اقتدار میں آ جانے کے بعد بھی حقوق سے محروم رہے۔ جیسے انگریز کے جانے کے بعد ہندوستان پر کالے انگریز مسلط ہو گئے اور یہی مقامی کالے انگریز برِّ صغیر کی عوام کا خون چوسنے لگے ، اسی طرح مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد وہاں کے مقامی حکمران اہلِ بنگال کے حق میں ثابت ہوئے۔

  5. پس پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے جو آگ آج پاکستان کے جس بھی علاقے میں بھڑکائی ہے اس کا حل بلوچ، پشتون، سندھی، کشمیری، سرائیکی اور اب نہایت ابتدائی درجے میں پنجابی قوم پرست تحریکات نہیں۔ آگ کو آگ سے بجھایا نہیں جا سکتا۔ برائی کو برائی نہیں مٹایا کرتی۔ بلکہ اس ظلم کا علاج اسلام کی عادلانہ آغوش میں ہے جو رنگ، نسل، قوم کی تفریق کے بنا صرف اسلام کی بنیاد پر تمام انسانیت کے ساتھ رویہ رکھتا ہے۔

  6. پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ظلم سے نجات کا طریقہ قوم پرست تحریکات، قوم پرست نعروں، امریکہ و سوئٹرز لینڈ یا روس و بھارت کے ’سپانسرڈ ‘رویوں اور حل میں نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ قوم پرست ہوں یا ان کے سہولت کار یا کئی صورتوں میں ان قوم پرستوں کے غیر ملکی آقا یہ سبھی ان اقوام کے مسیحا نہیں قاتل ہیں۔

  • سیاسی نظریات سے اتفاق کیے بغیر، اسی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے جس انداز میں ۲۶ نومبر ۲۰۲۴ء کو پاکستان تحریک انصاف کے ہزاروں مظاہرین کے خلاف اسلام آباد کے قلب ڈی چوک میں ’گرینڈ آپریشن‘ کیا ، یہ اس فوج کی ذہنیت اور ظلم پر مبنی تربیت کا نتیجہ ہے۔ اپنے ہی ملک کے شہریوں (اگرچہ وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ اور قائم کردہ حکومت کے خلاف بر سرِ احتجاج تھے )پر یوں سیدھی گولی چلانا تاریخ کے سیاہ ابواب میں سے ہے۔ پاکستان فوج اور رینجرز نے پہلے مظاہرین کو ڈی چوک تک پہنچنے دیا، پھر خود ان کو کنٹینروں پر چڑھایا اور اپنے پلان کے مطابق ان کو گھیر کر یوں سیدھا فائر کھول دیا۔ غیر جانبدار صحافتی ذرائع کے مطابق اس قدر فائرنگ کی گئی کہ معلوم ہوتا تھا گویا اسلام آباد کا ڈی چوک نہ ہو کوئی میدانِ جنگ ہو۔ درجنوں زخمی اسلام آباد کے پولی کلینک اور پمز ہسپتال میں داخل کروائے گئے، کئی لاشیں اسی روز (گولیوں کے زخموں کے سبب) مقتولین کی ان ہسپتالوں میں لائی گئیں اور حکومتِ پاکستان ایسے کسی بھی واقعے کی تردید کرتی ہے، پمز ہسپتال کی انتظامیہ حکومتی دباؤ کے سبب ہسپتال کے رجسٹر میڈیا کے ساتھ شریک کرنے سے انکاری ہے اور پولی کلینک کے ریکارڈ میں موجود زخمیوں اور مقتولین کے ریکارڈ کو حکومت تسلیم نہیں کرتی۔ پمز اور پولی کلینک کے میڈیکل سٹاف نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے کبھی اتنے زیادہ لوگوں کی سرجری ایک رات میں نہیں کی جتنی کہ اس رات میں کی، بلکہ کئی زخمیوں کی حالت اتنی نازک تھی کہ ان کا آپریشن ’انیستھیزیا‘ کے بغیر ہی کرنا پڑا، اگر زخمیوں کو بے ہوش کرنے کا انتظار کرتے تو مریض جان ہی سے گزر جاتے۔

  • ان سب درج بالا واقعات کے ساتھ پاکستان میں ایک اور بہت بڑا المیہ جڑا ہوا ہے۔ وہ ہے لاپتہ افراد کا المیہ۔ رسمی ذرائع کے مطابق وطنِ عزیز میں صرف سال ۲۰۱۱ء سے ۲۰۲۲ء تک آٹھ ہزار چار سو تریسٹھ (۸۴۶۳) افراد کے ریاستی اداروں کی جانب سے جبراً لا پتہ ہونے کے کیس رپورٹ کیے گئے، جبکہ پاکستان میں جرائم رپورٹ نہ کرنے کی شرح، ریاستی اداروں کی دھونس اور بدمعاشی جیسے عوامل کے پیشِ نظر کئی معروف و مشہور اداروں کا خیال ہے کہ یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ International ranking یعنی بین الاقوامی اعداد و شمار کے حساب سے پاکستان دنیا کا دوسرے نمبر کا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ لوگ لا پتہ ہیں۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور اس میں اس کا سرغنہ منہ زور ادارہ، آئی ایس آئی ہر مخالف کو اٹھانے، غائب کرنے، تعذیب دینے اور پھر قتل کر کے پھینک دینے میں دنیا کی بدترین مثالوں میں سے ہے۔یہ ادارہ بغیر کسی تفریق کے اپنے مخالفین کے ساتھ از حد دشمنی کا رویہ رکھتا ہے۔

فرازؔ نے جس فوج کی مدحت میں کسی زمانے میں قصیدے لکھے تھے، وہی بنگال کے بعد مہران و بولان میں ہونے والے ظلم و ستم پر نوحہ کناں تھا:

اب مرے دوسرے بازو پہ وہ شمشیر ہے جو
اس سے پہلے بھی مرا نصف بدن کاٹ چکی
اسی بندوق کی نالی ہے مری سمت کہ جو
اس سے پہلے مری شہہ رگ کا لہو چاٹ چکی

پھر وہی آگ در آئی ہے مری گلیوں میں
پھر مرے شہر میں بارود کی بو پھیلی ہے
پھر سے ’’تُو کون ہے‘‘ ’’میں کون ہوں‘‘ آپس میں سوال
پھر وہی سوچ میانِ من و تُو پھیلی ہے

مری بستی سے پرے بھی مرے دشمن ہوں گے
پر یہاں کب کوئی اغیار کا لشکر اترا
آشنا ہاتھ ہی اکثر مری جانب لپکے
مرے سینے میں سدا اپنا ہی خنجر اترا

اس سے پہلے بھی تو ایسی ہی گھڑی آئی تھی
صبحِ وحشت کی طرح شامِ غریباں کی طرح
اس سے پہلے بھی تو پیمانِ وفا ٹوٹے تھے
شیشۂ دل کی طرح، آئینۂ جاں کی طرح

اپنے ہی لوگوں کے خلاف لڑنے اور انہیں قتل کرنے کی، یہ ڈیپ سٹیٹ کی وہ برہمنی ذہنیت ہے جو اپنے مقابل آنے والے اور اپنے سے اختلاف کرنے والے ہر فرد کے خلاف فرعون سے بدتر ثابت ہوتی ہے۔ ہم نے اس تحریر میں نہایت اختصار کے ساتھ پاکستان فوج کے ظلم و سَربِیَّت کے چند نمایاں واقعات کا ذکر کیا ہے۔ یہ فوج اس ملک پر کیسے قابض ہے کہ یہی ریاستی کلٹ آج اس ملک کا بطورِ گروہ سب سے بڑا سرمایہ دار کاروباری ادارہ ہے، کیسے یہ اس ملک کا سب سے بڑا جاگیر دار گروہ ہے اور کیسے یہ اس ملک کی سب سے بڑی پس پردہ سیاسی جماعت ہے کہ فوجی فاؤنڈیشنز، فوجی دلیہ، ڈیری فارمز، عسکری سیمنٹ، عسکری بینک، ڈیفنس و عسکری ہاؤسنگ سکیمیں اور اتھارٹیاں، ملک بھر میں کینٹ ایریاز، آئی جے آئی سے مسلم لیگ ق اور پی ڈی ایم تک، ابھی ہمارا موضوع نہیں۔ پاکستان فوج کے خلاف جرائم کی چارج شیٹ ہزاروں صفحات پر مشتمل ہے یا شاید اس کی تعداد لاکھوں میں ہو، اس لیے کہ صرف ۲۰۱۱ء تا ۲۰۲۲ء ساڑھے آٹھ ہزار افراد کی جبری گمشدگیوں ہی کی چارج شیٹ کم از کم ساڑھے آٹھ ہزارصفحات پر مشتمل ہے۔ اس فوج کے جرائم پر سیکڑوں کتابیں موجود ہیں اور اتنی ہی مزید لکھی جا سکتی ہیں۔

ضرورت اس امرکی ہے کہ وطنِ عزیز پاکستان کے اہلِ دین و دانش، فہیم سیاست دان و اہلِ صحافت، خصوصاً علمائے کرام، دینی جماعتوں کے قائدین و کارکنان اس حقیقت کا ادراک کریں کہ اس ملک میں نفاذِ اسلام سے لے کر عام آدمی کو انصاف اور روٹی نہ ملنے میں سب سے بڑا کردار اسی ’ریاستی کلٹ‘ یعنی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا ہے اور اس فوج سے چھٹکارا ایک منظم تحریک کے بِنا، ناممکن ہے۔ ایک ایسی منظم تحریک جس کی پشت پر حقیقی مسلح قوت اور مضبوط شرعی و سیاسی فکر موجود ہو۔ یہ تحریک دنیا کے ہر انقلاب کی طرح خون اور قربانی مانگتی ہے۔ جو قوم قربانی دینے سے دریغ کرے اور اپنے گھروں، دو وقت کی روٹی اور ظلم کی چکی میں پسنے پر قناعت اختیار کر لے، وہ کبھی تبدیلی نہیں دیکھ سکتی۔ آج کسی ایک جرنیل کی جگہ کسی دوسرے کو لا بٹھانا حل نہیں، بلکہ یہ تو وہی musical chair کا کھیل ہے جو یہاں آٹھ دہائیوں سے جاری ہے(سیاست دانوں اور وزیرِ اعظموں اور صدورِ مملکت کا تو ذکر ہی کیا کہ وہ یا تو کٹھ پتلی ہوتے ہیں یا بے اختیار حکمران)۔ چہرے نہیں نظام بدلنے کی ضرورت ہے۔ اپنے دین و ایمان کی خاطر، اپنی عزت و ناموس کی خاطر، اپنے قوم و وطن کی آزادی اور بہبود کی خاطر، دنیا میں اسلامی حلال باعزت روٹی و معاشرتی زندگی اور آخرت میں کامیابی کی خاطر، نظام بدلنے کی ضرورت ہے۔ نظام کا دوسرا نام ملٹری اسٹیبلشمنٹ، کور کمانڈر جرنیل اور ان کے پالے ہوئے فرعون صفت برہمن افسروں کا طبقہ ہے، جس نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف اپنی بندوق کی نالی سیدھی کر رکھی ہے۔

پاکستان کے دین پسند عوام سے، اسلام سے لے کر ان کی روزی روٹی تک قوت سے چھینی گئی ہے اور پھر انہیں ایسے جھنجھنے تھما کر اول الذکر جدید جمہوری ریاست کے ستونوں کے درمیان گھری ایسی ’گھمن گھیریوں‘ میں بھٹکا دیا گیا ہے، جہاں سے نکلنے کا طریقہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی حقیقت کو جاننا اور پھر ان کے خلاف بغاوت کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ جو چیز قوت سے چھینی جاتی ہے وہ قوت سے ہی واپس لی جا سکتی ہے۔ تقدیر بدلنے کے لیے عزم و ارادہ اور قوت و تحریک کی ضرورت ہوتی ہے، یہ آفاقی قانون ہے کہ

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

اور شاعر نے شاید انہی حالات کے پیشِ نظر کسی وقت کہا تھا:

اپنی رفتار کو اب اور ذرا تیز کرو
اپنے جذبات کو اب اور جنوں خیز کرو
ایک دو گام پہ اب منزلِ آزادی ہے
آگ اور خوں کے ادھر امن کی آبادی ہے
خود بخود ٹوٹ کے گرتی نہیں زنجیر کبھی
بدلی جاتی ہے، بدلتی نہیں تقدیر کبھی……

اللھم وفقنا لما تحب وترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وأرضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!

[۲۹ جمادی الاولیٰ ۱۴۴۶ ھ ؍یکم دسمبر ۲۰۲۴ء]

٭٭٭٭٭


1 اوریجنز (www.origins.osu.edu)، ساؤتھ ایشیا جرنل، ورکرز لبرٹی (www.workersliberty.org)، آزاد دائرۃ المعارف وکی پیڈیا، وغیرہ۔

2 جنہیں بعد میں پاکستان فوج کی دین دشمن پالیسیوں پر آواز بلند کرنے کے سبب ان کے اپنے ہی ادارے ’پاکستان فوج‘ کے امریکی مفادات کے لیے کام کرنے والے افسروں نے دین و ملک کے ساتھ ساتھ ادارے کی وفا کو بھی پامال کرتے ہوئے اغوا ثم شہید کر دیا، رحمہ اللہ۔

3 افشا و نشر کردہ: ادارہ السحاب برِّ صغیر

4 In the Line of Fire, Pervez Musharraf

5 جنرل کیانی کا آن ریکارڈ ویڈیو بیان موجود ہے جس میں وہ اس بات کا اظہار و اقرار کرتا ہے۔

Previous Post

بشار الاسد کے ظالمانہ نظام کے زوال پر چند گزارشات

Next Post

رمضان المبارک کا استقبال،قرنِ اول میں!

Related Posts

اٹھو پاکستان! بیٹی پکار رہی ہے
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

اٹھو پاکستان! بیٹی پکار رہی ہے

13 اگست 2025
کلمے کے نام پر بنے ملک کے دارالامان میں بے آبرو ہوتی قوم کی بیٹیاں
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

کلمے کے نام پر بنے ملک کے دارالامان میں بے آبرو ہوتی قوم کی بیٹیاں

13 اگست 2025
فوجی اشرافیہ کی صہیونیت: پاکستانی فوج غزہ کا دفاع کیوں نہیں کرتی؟
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

فوجی اشرافیہ کی صہیونیت: پاکستانی فوج غزہ کا دفاع کیوں نہیں کرتی؟

13 اگست 2025
سوات سانحے کا ذمہ دار کون؟
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

سوات سانحے کا ذمہ دار کون؟

10 جولائی 2025
سیکولر مزاحمت اور نظام مسائل کا حل نہیں
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

سیکولر مزاحمت اور نظام مسائل کا حل نہیں

7 جون 2025
عالمی شپنگ کمپنی سے معاہدہ: پس پردہ محرکات کیا ہیں؟
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

عالمی شپنگ کمپنی سے معاہدہ: پس پردہ محرکات کیا ہیں؟

26 مئی 2025
Next Post
رمضان المبارک کا استقبال،قرنِ اول میں!

رمضان المبارک کا استقبال،قرنِ اول میں!

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version