﴿عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يَّرْحَمَكُمْ ۚ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا ۘ وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِيْنَ حَصِيْرًا﴾
الحمد لله معزّ الإسلام بنصره، ومذل الشرك بقهره، ومصرّف الأمور بأمره، ومديم النعم بشكره ومستدرج الكفار بمكره،
الذي قدر الأيام دولا بعدله، وجعل العاقبة للمتقين بفضله والصلاة والسلام على من أعلى الله منار الإسلام بسيفه.
اما بعد:
یہ اللہ کی عظیم نعمت ہے جو اس نے بالعموم اہلِ اسلام پر اور بالخصوص اہلِ شام کو مرحمت فرمائی ہے کہ اللہ نے انہیں بشار الاسد جیسے طاغوت کے زوال سے نوازا۔ اللہ کا شکر اور فضل ہے، اور ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ اس فتح اور کامیابی کو اہلِ اسلام کے لیے عزت، کامرانی اور قوت کا سبب بنائے۔
اس عظیم واقعہ کے بعد بہت سے اختلافات اور بحث و مباحثے کا سلسلہ شروع ہو گیا، اس کامیابی کی وجوہات واسباب پر بحث کی جانے لگی، اور سوالات اٹھائے گئے کہ کیا کوئی عالمی سازش اور خارجی ہاتھ اس میں شامل تھے جو بشاری نظام کے زوال کا سبب بنے؟ اس طرح کے بہت سی باتیں کی جانے لگیں۔
لہذا اس فتح سے متعلق چند گزارشات پیش کرنے جا رہا ہوں، جو درج ذیل نکات پر مشتمل ہوں گی۔
اول:
یہ بات ہر مسلمان کے عقیدے میں شامل ہے کہ ہر چیز اللہ کی تقدیر اور مشیئت سے ہوتی ہے، اور کائنات میں صرف وہی کچھ ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے۔ اللہ کے ہاتھ میں ہر چیز کا اختیار ہے، وہ جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ ۡ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۭبِيَدِكَ الْخَيْرُ ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ تُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ ۡ وَتُخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْـحَيِّ ۡ وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاۗءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ (سورۃ آل عمران: ۲۶، ۲۷)
’’ کہو کہ : اے اللہ ! اے اقتدار کے مالک ! تو جس کو چاہتا ہے اقتدار بخشتا ہے، اور جس سے چاہتا ہے اقتدار چھین لیتا ہے، اور جس کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہے اور جس کو چاہتا ہے رسوا کردیتا ہے، تمام تر بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے۔ تو ہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔ اور تو ہی بےجان چیز میں سے جاندار کو برآمد کرلیتا ہے اور جاندار میں سے بےجان چیز نکال لاتا ہے، اور جس کو چاہتا ہے بےحساب رزق عطا فرماتا ہے۔‘‘
وہ ذات پاک تو ﴿كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ﴾ ہر روز نئی شان میں ہے، جیسا کہ تفسیرِ بغوی میں ہے:مفسرین نے فرمایا:
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جِسے چاہے زندہ کرتا ہے، جِسے چاہے مارتا ہے، جِسے چاہے رزق دیتا ہے، جِسے چاہے عزت دیتا ہے، جِسے چاہے ذلیل کرتا ہے، جِسے چاہے بیماری سے شفا دیتا ہے، جِسے چاہے قید سے آزاد کرتا ہے، جِسے چاہے غم سے نجات دیتا ہے، جِس کی چاہے دعا قبول کرتا ہے، جِسے چاہے عطا کرتا ہے، جِسے چاہے گناہوں کی معافی دیتا ہے اور اس کی بے شمار تخلیقی افعال اور واقعات میں سے، وہ جو چاہے کرتا ہے۔‘‘
لہذا جو کچھ بھی ہوا، وہ اللہ کی مشیئت اور تقدیر کے مطابق تھا، یہ ایک نعمت بھی ہے اور اللہ کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے ایک آزمائش اور امتحان بھی۔ ہم اس واقعہ کے اسباب کو سمجھتے ہوئے، اللہ کے فضل اور تقدیر پر شکر گزار ہیں۔
دوم:
یقیناً ان بڑی وجوہات میں سے جو بشار جیسے جابر حکمران کے زوال کا سبب بنی ہیں، وہ اللہ تعالی کا خصوصی انعام و احسان ہے جو اس نے اہل شام پر فرمائے اور ان کے درمیان ایمان و صبر سے لبریز ایک جماعت کا اٹھنا ہے، جو دہائیوں سے اس ظالم نظام کے خلاف کھڑی تھی۔ انہوں نے اس کے خلاف اپنی زبان، مال اور جانوں کے ذریعے جہاد کیا۔ یہ عظیم واقعہ صرف چند دنوں یا مہینوں یا پچھلے چند سالوں کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ یہ حق اور باطل کے درمیان ایک طویل جنگ کا نتیجہ ہے جو کئی دہائیوں سے جاری ہے۔
یہ بہت بڑا ظلم ہوگا کہ ہم ان عظیم لوگوں کی محنت کو بھول جائیں جنہوں نے اس جابر نظام کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے تمام وسائل اور صلاحیتوں کو پیش کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں میں برکت ڈالے اور ان کے جہاد کو محفوظ رکھے اور ان کی قربانیوں کو قبول فرمائے، تاکہ اہل شام کے درمیان ایسے افراد موجود رہیں جو ان کا سفر مکمل کریں اور اس جابر نظام کو ان دنوں میں اللہ کی مدد اور رحمت سے گرا دیں۔ اللہ کی سنت کے مطابق عظیم واقعات کے لیے پہلے سے کچھ ایسی تدابیر اور تیاری ضروری ہوتی ہے، کیونکہ عظیم واقعات اچانک نہیں ہوتے، فتح مکہ بھی کئی آزمائشوں، تربیت، دعوت، ہجرت اور غزوات کے بعد نصیب ہوئی تھی۔
اسی طرح، ہمیشہ سے عظیم واقعات کے لیے بہت محنت، قربانیاں اور مسلسل کام کی ضرورت ہوتی ہے، جنہیں بعض لوگ شاید چھوٹا سمجھیں یا یہ سمجھیں کہ ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا، لیکن یہ چھوٹی محنتیں اور جدوجہد ہی ایک بڑی کامیابی اور فتح کی بنیاد بنتے ہیں۔
سوم:
اللہ کی مشیئت کے مطابق حق اور باطل کے درمیان جنگ کا سلسلہ جاری رہنا ہے۔ اللہ کی سنت یہی ہے کہ اہلِ باطل اہل حق کے خلاف اپنی دشمنی، مکر اور سازشوں کو جاری رکھتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَلَا يَزَالُوْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى يَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِيْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا (سورۃ البقرة: ۲۱۷)
’’اور یہ (کافر) تم لوگوں سے برابر جنگ کرتے رہیں گے، یہاں تک کہ اگر ان کا بس چلے تو یہ تم کو تمہارا دین چھوڑنے پر آمادہ کردیں۔‘‘
اور فرمایا:
وَاِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِيُثْبِتُوْكَ اَوْ يَقْتُلُوْكَ اَوْ يُخْرِجُوْكَ ۭ وَيَمْكُرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللّٰهُ ۭوَاللّٰهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ (سورۃ الأنفال: ۳۰)
’’اور (اے پیغمبر) وہ وقت یاد کرو جب کافر لوگ تمہارے خلاف منصوبے بنا رہے تھے کہ تمہیں گرفتار کرلیں، یا تمہیں قتل کردیں، یا تمہیں (وطن سے) نکال دیں، وہ اپنے منصوبے بنا رہے تھے اور اللہ اپنا منصوبہ بنا رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر منصوبہ بنانے والا ہے۔‘‘
اور فرمایا:
وَقَدْ مَكَرُوْا مَكْرَهُمْ وَعِنْدَ اللّٰهِ مَكْرُهُمْ ۭ وَاِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُوْلَ مِنْهُ الْجِبَالُ (سورۃ ابراہیم: ۴۶)
’’ اور وہ لوگ اپنی ساری چالیں چل چکے تھے، اور ان کی ساری چالوں کا توڑ اللہ کے پاس تھا، چاہے ان کی چالیں ایسی کیوں نہ ہوں جن سے پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہل جائیں۔ ‘‘
اور فرمایا:
اِنَّهُمْ يَكِيْدُوْنَ كَيْدًاوَّاَكِيْدُ كَيْدًا فَمَــهِّلِ الْكٰفِرِيْنَ اَمْهِلْهُمْ رُوَيْدًا (سورۃ الطارق: ۱۵–۱۷)
’’ بیشک یہ (کافر لوگ) چالیں چل رہے ہیں۔ اور میں بھی اپنی چال چل رہا ہوں۔ لہٰذا تم ان کافروں کو ڈھیل دو ، انھیں تھوڑے دنوں اپنے حال پر چھوڑ دو ۔‘‘
اس وقت اس مجرم نظام کے زوال کا جو واقعہ پیش آیا ہے، وہ اسی ربّانی سنت کے تحت ہے۔ شام میں اہل حق اور اہل باطل کے درمیان ہونے والے اس عظیم معرکے میں جو سازشیں کی گئیں، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ پہلے اہلِ باطل نے اس جابر نظام کو اہل اسلام کے خلاف لڑنے کے لیے مدد فراہم کی اور مختلف انداز میں اپنے کردار کو تبدیل کیا۔ تاہم، جب انہیں یہ محسوس ہوا کہ اس مرحلے میں اس نظام کا خاتمہ ان کے مفادات کے لیے بہتر ہے، تو انہوں نے اس نظام کی حمایت سے دستبردار ہوکر اسے گرا دینے کی سازش شروع کی، تاکہ اپنے مفادات اور منصوبوں کو آگے بڑھا سکیں۔ ان لوگوں کی جانب سے اس تبدیلی پر ساری دنیا شاہد ہے۔
ان مجرموں کے اس اقدام کے پیچھے سب سے بڑی وجہ اہل شام کا صبر، استقامت اور جہاد ہے جو اللہ نے اہل سنت کو عطا کیا، اور اسی طرح ان اسباب کے جمع ہونے سے اللہ کی سنت پوری ہوئی، جس کے مطابق دنیا میں حق و باطل کے درمیان تصادم کا سلسلہ جاری رہتا ہے، جیسے اللہ تعالی نے فرمایا:
وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ (سورۃ البقرۃ: ۲۵۱)
’’ اگر اللہ لوگوں کا ایک دوسرے کے ذریعے دفاع نہ کرے تو زمین میں فساد پھیل جائے، لیکن اللہ تمام جہانوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے۔‘‘
اور فرمایا:
وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ يُذْكَرُ فِيْهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِيْرًا ۭوَلَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ (سورۃ الحج: ۴۰)
’’ اور اگر اللہ لوگوں کے ایک گروہ (کے شر) کو دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہتا تو خانقاہیں اور کلیسا اور عبادت گا ہیں اور مسجدیں جن میں اللہ کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے، سب مسمار کردی جاتیں۔ اور اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس (کے دین) کی مدد کریں گے۔ بلاشبہ اللہ بڑی قوت والا، بڑے اقتدار والا ہے۔‘‘
چہارم:
جب اللہ کی طرف سے اہل شام کے لیے بشاری نظام کے زوال اور حق و باطل کے درمیان کشمکش کی سنت پوری ہونا ایک فضل واحسان ہے، اب اس کے بعد اللہ کے بندوں کے لیے آزمائش اور امتحان کا مرحلہ آیا ہے تاکہ یہ اللہ تعالیٰ دیکھیں کہ وہ اس نعمت کے بعد کیا عمل کرتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
قَالَ مُوْسٰي لِقَوْمِهِ اسْتَعِيْنُوْا بِاللّٰهِ وَاصْبِرُوْا ۚ اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ ڐ يُوْرِثُهَا مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ ۭوَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ قَالُوْٓا اُوْذِيْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِيَنَا وَمِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ۭ قَالَ عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ
’’ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : اللہ سے مدد مانگو اور صبر سے کام لو۔ یقین رکھو کہ زمین اللہ کی ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے۔ اور آخری انجام پرہیزگاروں ہی کے حق میں ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ : ہمیں تو آپ کے آنے سے پہلے بھی ستایا گیا تھا، اور آپ کے آنے کے بعد بھی (ستایا جارہا ہے) موسیٰ نے کہا : امید رکھو کہ اللہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے گا، اور تمہیں زمین میں اس کا جانشین بنا دے گا، پھر دیکھے گا کہ تم کیسا کام کرتے ہو۔‘‘
یہ مرحلہ بہت اہم ہے اور اس کے بعد کا وقت بھی فیصلہ کن ہوگا۔ ہمیں اللہ کو وہ عمل دکھانا ہے جو اسے پسند ہے اور اس کی رضا کا سبب ہے تاکہ اس کی نعمت، فضل، اور مدد ہمیں مکمل طور پر حاصل ہو۔
اللهم أتمم علينا نعمتك وعافيتك ونصرك وسترك، واختم لنا بخير الشهادة في سبيلك۔
٭٭٭٭٭