نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home طوفان الأقصی

جو باقی کام ہے وہ قرض تم پر!

معین الدین شامی by معین الدین شامی
10 نومبر 2023
in طوفان الأقصی, اکتوبر و نومبر 2023
0

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره ونتوكل عليه ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلله فلا هادي له، ونشهد أن لا إله إلا الله ونشهد أن محمدًا عبده و رسوله. ربِّ اشرح لي صدري ويسّر لي أمري واحلل عقدة من لساني يفقھوا قولي، أما بعد!

یہ سطور شدتِ غم و الم میں سپردِ قرطاس کر رہا ہوں، ان سطور میں خونِ جگر بھی شامل ہے اور آنکھوں کے اشک بھی ۔ غم ہر ہر لحظے کے ساتھ سوا ہوا جا رہا ہے۔ غم ایسا ہے کہ کبھی کبھی سرکو زانوؤں کے بیچ دبا کر سوچتا ہوں کہ اگر یونہی سوچتا رہا اور اس غم و الم کے حل کا کوئی طریقہ نہ سوچا، تو نجانے قلب و ذہن کی حالت کیسی ہو جائے؟ پس، یہی سوچ کر یہ چند سطریں لکھنے کا ارادہ کر لیا۔ خیال آیا کہ وقت کا تقاضا ہوش و حواس میں رہ کر کچھ راہِ عمل سوچنے لکھنے کا ہے، لیکن مجھ پر جذبات غالب ہیں۔ پھر سوچا کہ راہِ عمل جذباتی نہیں ہونی چاہیے، باقی جس میں جذبات نہ ہوں وہ تو بے حس ہوتا ہے اور اسی بے حسی کا ایک بڑا درجہ بے غیرتی ہوا کرتا ہے، اس کے سامنے اس کے پیارے کٹتے ہیں لیکن اٹھتا نہیں تو اس کی مثال تو عالَمِ حیوان میں بھی نہیں ملتی!

آج کے ان حالات میں کوئی نادان ہی ہو گا جسے میرے غم و الم کا سبب معلوم نہ ہو۔ یہ غم و الم میرا نہیں، ساری امت کا غم و الم ہے۔ آج امتِ مسلمہ کے ہر ہر فرد، حتیٰ کے نونہالوں کا بھی یہ عالَم ہے، ابھی کل شب کی بات ہے کہ رات گئے دو کم سِن بچیوں کو فلسطین کے غم میں اپنے ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگتا اور روتا دیکھا، سبھی جوان و نونہال اس شعر کی تجسیم بنے ہوئے ہیں:

خنجر چلے کسی پہ، تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

میں کسی بوڑھے و جوان، بچے و بڑے، مرد و عورت کو نہیں جانتا جس کا کلیجہ اسرائیل کی جارحیت پر چِرا نہ جاتا ہو۔ سوچتا رہا کرتا تھا کہ وہ کیسے عیسائی ہوں گے جو عیسیٰ ابنِ مریم علیہ السلام کو دیکھ کر ایمان لے آئیں گے، کمپیوٹر و ٹی وی کی سکرینوں پر فلسطین میں ہوتی جارحیت کو دیکھ کر جو چند عیسائی مجاہدینِ فلسطین کے حق میں بولے تو سوچا شاید ایسے ہی کچھ لوگ ہوں گے جو مشرف بہ اسلام ہوں گے۔ مقصود یہ تھا کہ سبھی اہلِ عقل آج فلسطین کے ساتھ، اسرائیل کے مقابلے میں کھڑے ہیں۔

مجاہدینِ ’کتائب القسام‘اور ان جیسے دیگر فلسطینی مجاہدین کی بہادری، جاں نثاری، شہادت فی سبیل اللہ سے محبت، جہاد و قتال فی سبیل اللہ کا شوق اور فدائیت و جواں مردی کی جس قدر تعریف کی جائے کم ہے۔ انہوں نے کتابِ تاریخ میں ایسے فدائی معرکے کی داستان رقم کی ہے جس کی نظیر تاریخ میں کم کم ملتی ہے۔ ہزاروں فدائی مجاہد، ہوا و پانی کی لہروں کے دوش پر غاصب یہودیوں کی سرحدیں عبور کر کے ان کے آرام محلوں اور ایسے قلعوں میں داخل ہو گئے، جہاں ان دشمنوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ان کو کوئی گزند پہنچے گی۔ گنبدِ آہنی (Iron Dome) کے تحت، مخلوق میں زندگی سے سب سے زیادہ محبت رکھنے والے یہودیوں کو عذابِ الٰہی ’طوفان الأقصیٰ‘ نے یوں دبوچا جیسے عاد و ثمود کو عذابِ الٰہی نے دبوچا تھا۔ گنبدِ آہنی کے تحت جینے والے، آرام سے سو رہے تھے، انہیں اپنے اسلحے اور قوت پر، اپنے گنبدِ آہنی پر بڑا بھروسہ تھا اور وہ زبانِ حال سے کہہ رہے تھے کہ یہاں موت کا کیا کام، ہمارے پاس دنیا کی بہترین گنبدِ آہنی کی ٹیکنالوجی ہے ’مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ‘، بھلا ہم سے بھی زیادہ کوئی قوت والا ہے؟ عاد و ثمود کی مانند وہ بھی بھول گئے تھے ’ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً ‘ وہ اللہ جس نے انہیں پیدا کیا وہ ان سے قوت میں کہیں زیادہ ہے، بلکہ قوت تو اسی کے لیے ہے اور اس کا عذاب بہت ہی شدید ہے، فرمایا: ’ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلهِ جَمِيعاً وَأَنَّ اللهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ ‘۔ پھر عذابِ الٰہی کو بھی بیان کر دیا کہ میرے مجاہد بندو! قتال میں نے تم پر فرض کر دیا ہے، پس ان سے لڑو، ’ قَاتِلُوهُمْ ‘، اب کی باری اللہ ان کو عذاب تمہارے ہاتھوں دے گا، اور انہیں ذلیل و رسوا کرے گا، اور تمہاری ان کے مقابلے میں مدد کرے گا، ’يُعَذِّبْهُمُ اللّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ ‘ اور ان کافروں کے ظلم و ستم کے سبب تمہارے دل جس آگ میں جل رہے تھے، وہ اللہ اس کڑھن کو بھی ختم کر دے گا، فرحت و شادمانی تمہارا مقدر ہو گی، ’وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ‘۔ بے شک ان احکامِ الٰہی کی روشنی میں ان مجاہدینِ سرفروش کی ستائش جس قدر کی جائے کم ہے۔ لیکن ان کی ستائش کا ایک پہلو اس سے بھی بڑھ کر ہے۔

ان مجاہدین نے اپنی قلتِ سامانی کے باوجود ایک حجت دنیا بھر کے اہلِ ایمان پر قائم کر دی ہے۔ انہوں نے زبانِ حال سے بھی کہا اور زبانِ قال سے بھی:

ہے تم سے قومِ مسلم اک گزارش
ہمارے خون سے لکھی نگارش
ادا کر آئے جو تھا فرض ہم پر
جو باقی کام ہے وہ قرض تم پر

دیکھو مسلمانو! بے سر و سامانی کے عالَم میں ہم ابابیلوں نے ابرہۂ زماں پر برسانے کے لیے کنکر و پتھر جمع کیے۔ اب جب تیاری استطاعت بھر ہو گئی، تو ہم ابابیلوں کی مانند کائنات کی ذلیل و خبیث ترین مخلوق پر حملہ آور ہو گئے۔ پیراشوٹوں سے لٹکتے اور اسرائیلیوں پر گرتے تم نے ہمیں دیکھا ہو گا۔ ہمیں ہمارے مالک اللہ نے، گنبدِ آہنی کے مقابل گنبدِ آہنی بنانے کا حکم نہیں دیا تھا، کہا تھا ان سے لڑنے کی تیاری میں قوت جمع کرو جس قدر تم میں استطاعت ہے ’وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ ‘۔ پس، ہم نے وہ تیاری کی۔ اس استطاعت بھر تیاری کا ثمر دیکھو کہ دنیا کی شاطر ترین انٹیلی جنس ایجنسیاں موساد و شاباک کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی، چند دنوں میں محدود وسائل کے ساتھ (دمِ تحریر) ڈیڑھ ہزار یہودیوں کا ان کے گنبدِ آہنی کے نیچے، ان کے آرام کدوں میں قتل کسی معجزے سے کم نہیں!

مجاہدینِ فلسطین کی مدح مطلوب، مسلمانانِ فلسطین کے غم میں صفِ ماتم بچھانا مطلوب، ان کے حق میں مظاہرے کرنا مطلوب، لیکن یہ سب اصلی مطلوب نہیں۔ اصلی مطلوب تو پچھلی دس دہائیوں سے، جب برطانوی صلیبی جرنیل ایلن بی بیت المقدس میں داخل ہوا تھا اس روز سے آج تک یہ تھا اور ہے کہ مثلِ صلاح الدین ایوبی صلیب و صہیون کے بیٹوں کو انہی کے خون میں نہلا کر ارضِ قدس کو آزاد کروایا جائے۔ اگر ہم نے بطورِ امت یہ کام کیا ہوتا، اس کام کی تیاری کی ہوتی تو دنیا کا نقشہ آج اس قدر بھیانک نہ ہوتا۔ دنیا کے نقشے پر اسرائیل کی نجس ’ریاست‘ موجود نہ ہوتی۔

بے شک امتِ مسلمہ پر سقوطِ اندلس کے بعد سے جہاد فرضِ عین ہے1۔ پس، اس جہاد کی فرضیت میں ہر ہر دن، بلکہ ہر ہر لحظے کے ساتھ ’فرضیت‘ کا درجہ بڑھ رہا ہے۔ اندلس کے سقوط کے بعد خلافتِ عثمانیہ کا بھی سقوط ہوا، اس سے پہلے اور اس کے بعد پوری امتِ مسلمہ کی تاریخ و جغرافیہ، حتیٰ کہ اہلِ اسلام کا دین بھی (اقامتِ دین و نفاذِ شریعت کے معنیٰ میں)استعمار کی نو آبادی میں بدل گیا۔ مراکش تا انڈونیشیا و فلپائن ہر خطے پر کہیں پرتگالی قابض ہوئے، کہیں، فرانسیسی، کہیں برطانوی، کہیں ڈچ، تو کہیں جرمن و اطالوی۔ ارضِ قدس پر صلیب و صہیون کے بیٹے قابض ہوئے اور پھر ایک انگریز جرنیل ارضِ شام میں صلاح الدین ایوبیؒ کی قبر پر ٹھوکر مار کر یہ کہتا سنائی دیا کہ ’صلاح الدین ہم پھر آ گئے‘۔ ارضِ حرمین پر صلیبی و صہیونی گھیرا تنگ ہوا، مسجد الحرام سے چند کلومیٹر دور امریکی فوجوں نے اڈے بنائے۔ پھر یہودِ نا مسعود مسجدِ نبوی (علی صاحبہاألف صلاۃ وسلام) میں دندناتے نظر آئے۔ ارضِ حرم میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ ’حرم رسوا ہوا پیرِ حرم کی کم نگاہی سے‘ کی مانند خود کو حرمین شریفین کا متولی کہنے والوں نے ایک لادین فاحشہ کو بلایا اور اس نے کھلم کھلا ابھی اگست ۲۰۲۳ء کی آخری تاریخوں میں شرک کے قیام کی دعوت دی، اللہ کے بجائے دیویوں کی پُوجا کی دعوت، خدا کو چیلنج کرتے ہوئے، انبیاء علیہم السلام کی دعوت کو بے وقعت قرار دیتی بکواس و ہذیان بکی۔ پھر آج اسرائیل کے خلاف اہلِ غزہ کا معرکہ اور اس کے بعد اہلِ غزہ پر اسرائیل کی شدید ترین بمباری، ایٹم بم برسائے بغیر غزہ ہیروشیما و ناگاساکی کا منظر پیش کر رہا ہے۔

ہر واقعے کے ساتھ جہاد کے واجبِ شرعی ہونے میں، اس کی فرضیتِ عینیہ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پس آج امتِ مسلمہ کے ہر ہر فرد پر وہ مرد ہو یا عورت جہاد ماضی کی نسبت زیادہ شدت کے ساتھ فرضِ عین ہے۔ اس فرضِ عین کی ادائیگی کا مقصد صرف مقدسات کی حفاظت، ارضِ اسلامی کی بازیابی، مسلمانوں کی نصرت و اعانت اور دنیا میں اللہ کے دین کا کلمہ بلند ہو جانا نہیں، بلکہ اس سب سے قبل اپنی گردنیں اللہ کے دربار میں آزاد کروانا ہے کہ اے مالک ہم سے جو بن پڑا، ہم نے کیا اور یہ کر کے ہم حاضر ہیں، اب ہمیں دوزخ کا ایندھن بننے سے بچا لے اور اپنی رحمت کی چادر سے ہمیں ڈھانپ لے۔

آج فلسطین (نام نہاد اسرائیل) میں جاری جنگ اور غزہ کی زمینی، فضائی اور بحری ناکہ بندی ، اشیائے خورد و نوش کی غزہ میں داخلے پر پابندی، بجلی و پانی کی بندش ثم آتش و آہن، بارود و فاسفورس کی زہریلی بارش اور اس کے نتیجے میں ڈھائی ہزار اہلِ ایمان کی شہادتیں اور نو ہزار زخمی (ولا حول ولاقوۃ إلا باللہ) کے سبب، آج دنیا بھر کے اہلِ اسلام (جن میں عوام المسلمین بھی شامل ہیں، علمائے مسلمین بھی اور مجاہدینِ اسلام بھی) پر ماضی سے زیادہ بھاری ذمہ داری پڑ چکی ہے۔ اور اگر مسلم ممالک کے حکمرانوں میں واقعی ایمان موجود ہے تو آج مسئلۂ فلسطین ان کے ایمان کے دعوے کی دلیل طلب کر رہا ہے، آج ایمان و نفاق کے خیموں کے جدا ہونے کا وقت قریب آ گیا ہے۔ بائیس سال قبل ایک یومِ تفریق نائن الیون کی صورت میں ایمان و کفر کے خیمے واضح کرنے کا سبب بنا تھا اور اہلِ اسلام ایک واضح جنگ میں اہلِ کفر کے سرغنہ امریکہ کے خلاف جنگ میں اترے تھے۔ بعینہٖ اسی طرح ، آج کا یومِ تفریق ’طوفان الأقصیٰ‘ کا معرکہ ہے۔ یہ معرکہ ایمان و نفاق کے خیموں کی تقسیم کا سبب بنے گا (ان شاء اللہ)۔ آج کے اس معرکے کے سبب اندر کا ایمان ظاہر ہو گا یا اندر کا کفر۔

فلسفۂ ’ٹیررازم‘ کی قلعی کھلتی ہے

مسئلۂ فلسطین دنیا کے ان چند واضح مسائل یا ان چند واضح جنگوں میں سے ایک ہے جہاں کے جہاد کو سیکولر لوگ بھی جنگِ آزادی ’فریڈم فائٹ‘،کے نام سے جانتے اور بیان کرتے ہیں۔ ساری دنیا (شرعی پیمانوں سے نہیں) لیکن فلسطین کے قضیے کو کم سے کم دو ریاستی حل ’ٹو سٹیٹ سولیوشن‘ کی صورت میں حل ہوتا دیکھنا چاہتی ہے۔ پھر دنیا کے اکثر لوگ فلسطین کی مقاومتی تحریکات کو برحق سمجھتے ہیں۔

لیکن اپنے شرعی واجب کی ادائیگی، شرعی، عقلی اور اخلاقی حق کے حصول کی خاطر مجاہدینِ فلسطین نے جب معرکۂ ’طوفان الأقصیٰ‘ کا آغاز کیا تو امریکہ اور ساری یورپی اقوام نے اس معرکے کو ’ٹیرر ازم‘ کا نام دیا۔ اس لیے کہ اس میں اسرائیلی عورتوں کو بھی پورے ’اسرائیل‘ میں نشانہ بنایا گیا، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جن عورتوں کو اس معرکے میں قتل یا گرفتار کیا گیا وہ سبھی اسرائیلی فوج میں ملازم ہیں یا رہ چکی ہیں۔ اسرائیل میں ہر مرد بتیس ماہ (ڈھائی سال) اور عورت چوبیس ماہ (دو سال) تک اسرائیلی سکیورٹی فورسز میں ’خدمات‘ ادا کرتے ہیں۔ شریعتِ مطہرہ فوجی و سویلین کی جدید تفریق کی قائل نہیں۔ شریعتِ مطہرہ کے یہاں ہر وہ شخص جو لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہو ’حربی‘ کہلاتا ہے، مقاتل یا combatant، البتہ اس میں ایسے بوڑھے جو جنگ لڑنے کی صلاحیت ہی نہ رکھتے ہوں (بشمول مسلمانوں کے خلاف مشورے دینے کی صلاحیت کے)، ایسے راہب و عابد و پادری جن کا جنگ سے کوئی تعلق نہ ہو اور عورتیں بچے وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن اسرائیلی فوج میں تو اسرائیل کی عام عورتیں بھی ’خدمات‘ فراہم کرتی ہیں۔ یہودیوں کے چھوٹے بچے حربی نہیں، لیکن یہ نقطہ یاد رہے کہ وہ سبھی جدید ہتھیاروں کی ٹریننگ سکولوں میں حاصل کرتے ہیں، انٹرنیٹ پر بکھری تصویریں اس کی گواہ ہیں۔ جس ملک میں چھوٹے چھوٹے بچے خودکار اسلحے کی ٹریننگ رکھتے ہوں وہاں کی عورتیں بھی بالیقین اسلحہ چلانا جانتی ہوں گی، اس کے باوجود مجاہدینِ اسلام نے ان پر ہاتھ نہیں اٹھایا بلکہ ان یہودی عورتوں کی عزت و ناموس کی بھی حفاظت کی۔ دسیوں ایسی ویڈیوز منظرِ عام پر آ چکی ہیں جہاں مجاہدینِ اسلام کا ترحم ان عورتوں اور بچوں کے ساتھ لائقِ دید ہے جہاں وہ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دورانِ جنگ عورتوں اور بچوں کو مارنے سے منع کیا ہے بلکہ خود یہودی عورتوں کے بیانات و انٹرویوز آ رہے ہیں جہاں وہ مجاہدین کے اچھے اخلاق و برتاؤ کی تعریف کر رہی ہیں۔ دوسری طرف اسرائیلی بوڑھوں کی ویڈیوز خبر رساں ادارے نشر کر رہے ہیں جہاں پچانوے سال سے بھی زیادہ بوڑھے اسرائیلی آج کی جنگ میں شریک ہیں اور کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو جہاں پاؤ وہاں مارو۔ اسرائیل دنیا کی وہ نظریاتی و مذہبی ریاست ہے جس میں بسنے والا ایک ایک یہودی قابض و غاصب ہے۔ قابض و غاصب کے خلاف جنگِ حریت کی اجازت تو امریکی غلام ادارہ ’اقوامِ متحدہ‘ بھی دیتا ہے۔ مشرقی تیمور، جنوبی سوڈان اس کی مثالیں ہیں۔

مجاہدینِ فلسطین نے اپنی مظلوم مسلمان ملت کا بدلہ لیا، اور اپنے معصومین کی جان بچانے والی ادویہ تک پر پابندی لگانے والے اسرائیل پر جوابی حملہ کیا۔ اس حملے کو اسرائیل سمیت امریکہ، برطانیہ، فرانس اور دیگر یورپی ممالک نے ’دہشت گردی‘ قرار دیا۔ دہشت گردی کی تعریف و تعبیر میں ہم مسلمانوں کے یہاں اہلِ مغرب کی ہی محنتوں کے صلے میں اختلاف پیدا ہوا ہے، لیکن یورپ و امریکہ میں ’دہشت گردی‘ کی تعریف و تعبیر بہت واضح ہے۔ نائن الیون کے حملے دہشت گردی ہیں، ملا عمر، اسامہ بن لادن، ایمن الظواہری، احمد یاسین، عبد العزیز رنتیسی سب دہشت گرد ہیں اور ان کے افعال دہشت گردی۔

اسرائیل کے خلاف فلسطینی مزاحمت بھی دہشت گردی یا ٹیرر ازم ہے۔

آج کے معرکۂ ’طوفان الأقصیٰ‘ نے ٹیرر ازم کے فلسفے کی قلعی کھول دی ہے۔

امریکہ فساد کی جڑ ہے

طوفان الأقصیٰ کے معرکے کے بعد جس طرح امریکہ اپنے اتحادیوں (خصوصاً فرانس و برطانیہ)سمیت اسرائیل کی حفاظت کو لپکا اور دوڑا، یہ واضح کرتا ہے کہ اسرائیل خود اپنی حفاظت و دفاع سے قاصر ہے۔گنبدِ آہنی بھی امریکہ ہی کا عطا کردہ ہے، فروری ۲۰۲۲ء تک امریکہ اسرائیل کو ایک سو پچاس کھرب ڈالر (150 Billion USD)کی امداد دے چکا ہے، ۱۹۹۹ء میں ایک یادداشت (memorandum) کے مطابق امریکہ ۲۰۰۹ء تک سالانہ بنیادوں پر دو اعشاریہ چھ سات کھرب ڈالر (2.67 Billion USD) صرف عسکری امداد کے طور پر اسرائیل کو دیتا تھا۔ ۲۰۰۹ء تا ۲۰۱۹ء کے لیے اس سالانہ امداد کو بڑھا کر تین کھرب ڈالر ( 3 Billion USD) کر دیا گیا اور پھر ۲۰۱۹ء میں سہ بارہ اس امداد کو سالانہ بنیادوں پر بڑھایا گیا اور اب امریکہ اسرائیل کو ہر سال تین اعشاریہ آٹھ کھرب ڈالر (3.8 Billion USD) عسکری امداد کے طور پر دیتا ہے۔ یعنی ۱۹۹۹ء سے ۲۰۲۳ء تک صرف عسکری مد میں امریکہ اسرائیل کو اکہتر اعشاریہ نو کھرب ڈالر (71.9 Billion USD) کی امداد دے چکا ہے۔2

امریکی صدر ٹرمپ بیت المقدس گیا اور بعد میں اس نےالقدس (یروشلم) کو اسرائیل کا دار الحکومت قرار دیا؍ تسلیم کیا اور اسرائیل کے لیے امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا۔

امریکی صدر جو بائیڈن کا وہ قول تو آج بہت معروف ہے جس میں اس نے کہا کہ ’اگر اسرائیل نہ ہوتا تو ہمیں خود ایک اسرائیل بنانا پڑتا‘، (If there was no Israel we’d have to invent one.)۔3

یہ امریکہ ہی اسرائیل کا سب سے بڑا حامی ہے۔ سوچیے ایک ہزار فدائی مجاہدین کے ’اسرائیلی‘ حدود میں داخلے اور حملوں کے سبب امریکہ اپنا بحری بیڑا، برطانیہ اپنے دو بحری جنگی جہاز اور فضائی نگرانی کے سسٹم اسرائیل کے لیے وقف کر دیتا ہے، وہ برطانیہ جو اپنی تاریخ کے عمیق سیاسی و اقتصادی بحران کا سامنا کر رہا ہے اور وہ امریکہ جس کا حالیہ صدر امریکی تاریخ کی کمزور ترین سیاسی شخصیات میں شامل ہوتا ہے۔ امریکہ اپنے عوام کے ٹیکسوں سے ان کے لیے طبی سہولیات اور ملازمتیں پیدا نہیں کر رہا بلکہ غاصب اسرائیل کی حفاظت پر اپنے ٹیکس دہندگان کا پیسہ خرچ کر رہا ہے۔

اہلِ فلسطین کی مدد کیسے کی جائے؟

اہلِ فلسطین کی مدد دراصل اہلِ اسلام اور اسلام کی مدد ہے، قبلۂ اول کی نصرت اور آخرت کا توشہ ہے۔ بے شک اہلِ فلسطین کی مدد کئی طریقوں سے کی جا سکتی ہے ۔ ان میں سے چند یہ ہو سکتے ہیں:

سب سے بڑا جو دشمن اس سے سب سے پہلے جنگ!

اسرائیلی جارحیت کے خلاف براہِ راست مقاومت و مزاحمت یا قتال فی سبیل اللہ زمینی اعتبار سے ایک مشکل امر ہے کہ نام نہاد ’اسرائیل‘ کے ایک طرف سمندر اور تین طرف ان عرب ممالک کی سرحدیں واقع ہیں جہاں کے حکمران امریکی کٹھ پتلی اور بے دام کے غلام ہیں۔ اسرائیل کے خلاف اہلِ اسلام وہی کر سکتے ہیں جو ’طوفان الأقصیٰ‘ کی صورت میں ’کتائب القسام‘ کے مجاہدین نے کیا ہے۔ کتائب القسام کے مجاہدوں کی ہزار بار تحسین لیکن ہم جانتے ہیں کہ غاصب اسرائیل کے خاتمے کے لیے جن معرکوں کی ضرورت ہے ان میں ’طوفان الأقصیٰ‘ پہلا فیصلہ کن اور بڑا معرکہ ہے لیکن اس نوعیت کے معرکے اسرائیل (جس کی پشت پر طاغوتِ اکبر امریکہ کھڑا ہے) کو یقیناً کمزور کرتے ہیں لیکن پچھاڑ نہیں سکتے۔

  • اس کے باوجود جو جو اہلِ ایمان اہلِ فلسطین کے ساتھ جانی و مالی مدد میں براہِ راست شریک ہونے کا طریق پائیں تو وہ اپنی جانوں اور اپنے مالوں سے ان کی نصرت و حمایت کریں۔
  • مجاہدینِ اسلام جہاں جہاں برسرِ جہاد ہیں، مثلاً پاکستان، کشمیر و بنگلہ دیش ، یمن، مالی، الجزائر، شام، صومالیہ وغیرہ تو وہ وہاں وہاں اپنی جہادی قوت میں اضافہ کریں اور اپنے جہاد میں مزید تیزی و قوت لائیں۔ اپنی اپنی سرزمینوں اور اپنے زیرِ قبضہ علاقوں کو جہادی مراکز میں تبدیل کیا جائے اور امریکہ واسرائیل کے نیو ورلڈ آرڈر کے تحت کفر یہ عالمی حکومت کو گرانے کے لیے مقامی جہاد عالمی جہاد کی نصرت میں سرگرمِ عمل ہو جائے۔
  • آج عالَمِ اسلام کے حکمرانوں کی روش سبھی کے سامنے ہے۔ یہی حکمران اور ان کی افواج ہیں جو آج غیور و جسور مسلمانوں کو یہود پر حملہ آور ہونے سے روکے ہوئے ہیں، یہی نام نہاد حکمران ہیں جو یہود کے سب سے بڑے موئید و حامی امریکہ کے کہیں فرنٹ لائن اتحادی ہیں، کہیں اپنی سرزمینوں پرشاہ عبد العزیز ائیر بیس، شاہ فہد ائیر بیس ، شاہ خالد ائیر بیس اور کہیں العدید ائیر بیس فراہم کرتے ہیں، پھر ان ائیر بیسوں میں پلنے والوں کا خرچہ مسلمانوں کی دولت ’خام تیل اور قدرتی گیس‘ سے پورا کرتے ہیں اور پھر انہی فوجوں کو اور کہیں انہی ائیر بیسوں سے طیارے اڑوا کر اخیارِ امت پر بم برسانے میں سہولت کاری کرتے ہیں۔ پس سارے عالمِ اسلام کے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور مؤثر عوامی تحریکوں کے ذریعے اپنے ممالک کے حکمرانوں کو مجبور کریں کہ وہ امریکہ و اسرائیل کی حمایت سے باز آ جائیں۔
  • آخری لیکن اہم ترین نقطہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے اسرائیل تک پہنچنا مشکل ہے، لیکن اسرائیل کے سب سے بڑے پشت پناہ امریکہ ثم برطانیہ و فرانس اور دیگر یورپی ممالک کے مفادات امریکہ و یورپ سمیت پوری دنیا میں بکھرے ہوئے ہیں۔ پس دنیا کے جس بھی کونے میں جہاں کوئی اسرائیلی ، امریکی، برطانوی و فرانسیسی یا دیگر اسرائیل کے حامی یورپی ملیں تو ان کو وہیں قتل کیا جائے۔ آج کی دنیا گلوبل ویلیج ہے جہاں سبھی کے مفادات پوری دنیا میں بکھرے ہوئے ہیں، بے شک یہود ایک مقدس زمین کا نظریہ و عقیدہ رکھتے ہیں اس لیے دریائے نیل و فرات کے درمیان رہناچاہتے ہیں، لیکن اسرائیل کے حامیوں کا ایسا کوئی مقدس نظریہ و عقیدہ نہیں، وہ پوری دنیا میں موجود ہیں۔ اگر امریکہ، یورپ و آسٹریلیا سے یہودی جہاز بھر بھر کے اسرائیل کی فوجی حمایت کے لیے آ سکتے ہیں تو انہی مرد و زن فوجیوں کو امریکہ، یورپ و آسٹریلیا میں کیوں نشانہ بنا کر جہنم واصل نہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ امریکیوں پر ایک ایسی ضرب اور ایک ایسی جنگ مسلط کی جائے جو امریکیوں کو اسرائیل کی حمایت و حفاظت کا خیال بھلا دے۔

نبیؐ کے سپاہی بنو!……دنیا بھر کی افواج میں موجود غیرت مند مسلمان فوجیوں اور افسروں کے نام

۴ جون ۲۰۲۳ء کو ایک مصری فوجی محمد صلاح ابراہیم نے اسرائیل مصر سرحد پر تین اسرائیلی فوجیوں کو قتل کیا اور پھر شہادت کا جام پی کر جناتِ عدن کو روانہ ہوا۔ پھر ۸ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو جب معرکۂ طوفان الأقصیٰ کو شروع ہوئے دوسرا دن تھا تو ایک مصری پولیس افسر نے مصر کے شہر اسکندریہ میں تین اسرائیلی یہودی مردوں کو اپنی ذاتی پستول سے نشانہ بنایا، دو یہودی موقع پر ہلاک ہو گئے، ایک زخمی حالت میں مدد کو پکارتا رہا جبکہ ان یہودیوں کے ساتھ آئی عورت کو اس مردِ مجاہد نے کچھ نہ کہا۔

یہ دو واقعات تو حال ہی میں پیش آئے، جبکہ امریکی فوج میں فلسطینی نژاد میجر نضال حسن نے پچاس کے قریب امریکی فوجیوں کو امریکی فوجی اڈے فورٹ ہوڈ، ٹیکساس میں محض اپنی گلاک پستول سے نشانہ بنایا جن میں تیرہ فوجی ہلاک ہوئے۔ سعودی جنگی ہوا باز محمد سعید شمرانی نے پینساکولا کی امریکی نیول بیس میں تین امریکی فوجیوں کو قتل کیا اور پھر خود بھی شہادت کا جام پی کر جنت کو روانہ ہوئے۔ پاکستان میں پنجاب پولیس کے سپاہی غازی ممتاز حسین قادری نے ۴جنوری ۲۰۱۱ء کو پنجاب کے گورنر گستاخِ رسول سلمان تاثیر پر سرکار کی جانب سے الاٹ کردہ کلاشن کوف سے ستائیس گولیاں چلا کر اس گستاخِ رسول کو جہنم واصل کیا۔ سمندروں میں امریکی کمانڈ کے تحت سی ٹی ایف کی مہم میں شامل ذیشان رفیق اور اویس جاکھرانی نے بحر ہند میں امریکی بحری بیڑوں پر حملہ کرنے کی کوشش میں کئی امریکی غلام فوجیوں کو جہنم واصل کیا۔ یہ بھی چند واقعات صرف مثالیں ہیں ورنہ ایسی کئی دیگر مثالیں تاریخ میں مل سکتی ہیں۔

پس ان سبھی مسلمان فوجیوں کے دشمن پر حملہ کرنے میں بہترین نمونہ ہے، ان مسلمان فوجیوں اور افسروں کے نام کہ جن کے دلوں میں ایمان کی چنگاری جلتی ہے۔ اللہ ﷻ نے ان فوجیوں کو ہتھیار چلانے کی صلاحیت دی ہے، ہتھیار ان کے ہاتھوں میں ہیں یا چند میٹر دور اور دشمنانِ دین خاص کر امریکیوں اور یہودیوں تک آسان رسائی ان کو حاصل ہے۔

ایسے میں اسلام کے خلاف جاری عالم گیر جنگ میں اہلِ اسلام کا ساتھ دیں، امریکیوں اور یہودیوں کے لیے ان کی محفوظ فوجی بیرکوں میں بھی جینا حرام کر دیں، اسی میں دنیا کی عزت بھی ہے اور آخرت کی فوز و فلاح بھی!

اہلِ قلم و اصحابِ اعلام (میڈیا)کے نام

درد مند اہلِ قلم اور اصحابِ اعلام (میڈیا؍سوشل میڈیا پر اثر ارکھنے والے حضرات و خواتین) سے زیادہ کون اعلامی و فکری جنگ کی اہمیت اور قلم کی طاقت سے واقف ہے۔ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے :

’’جَاهِدُوا الْمُشْرِكِينَ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَأَلْسِنَتِكُمْ.‘‘ (رواه أبو داود والدارمي والنسائي وأحمد)

’’مشرکین (کفار) کے خلاف اپنے مالوں، جانوں اور زبانوں سے جہاد کرو!‘‘

معاشی بائیکاٹ

جس قدر ممکن ہو سکے تو مسلمان اپنی بنائی ہوئی اشیاء کا استعمال کریں، چاہے وہ اشیائے خورد و نوش ہو، پہننے کے کپڑے ہوں، سہولیاتِ سفر ہوں یا کمیونیکیشن کے آلات (موبائل و کمپویٹر)، اور اگر اپنی بنائی اشیاء موجود نہ ہوں تو امریکہ کے مقابلے میں کم مضر دشمن کی بنائی اشیاء استعمال کرنے کی کوشش کی جائے۔ بے شک اپنی خواہشات کو دشمن کو نقصان پہنچانے کے لیے کنٹرول کرنا ہم میں سے ہر ایک کے بس میں ہے۔ ہم کوکا کولا کی جگہ مقامی برانڈ کا مشروب بھی پی سکتے ہیں۔ امریکی ایپل کی جگہ کم مضر جاپانی و کوریائی سیم سنگ استعمال کر سکتے ہیں۔ گوچی، ارمانی، لیوائز، پولو، ایڈیڈاس و نائیکی کی جگہ مقامی برانڈز اور مقامی درزیوں کے بنائے کپڑے پہن سکتے ہیں۔ میک ڈونلڈز جو آج اہلِ غزہ کے خلاف جاری اسرائیلی جنگ میں اسرئیلی یہودی فوجیوں کو مفت کھانا فراہم کر رہا ہے کی جگہ اپنے شہر کی کسی فاسٹ فوڈ کی دکان یا اپنے ملک کی مقامی فاسٹ فوڈ چین سے برگر و چپس کھا سکتے ہیں۔

اپنی اپنی ضرورت و استطاعت کے بقدر امریکی و یورپی و اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ نتیجتاً کفر کی معیشت کو کمزور کرے گا، البتہ جو مسلمان اس بائیکاٹ کی استطاعت نہ رکھتا ہو یا جس کی ضروریات دشمن ہی کے برانڈز سے وابستہ ہوں تو ہم اہلِ ایمان کو اپنے اس مسلمان بھائی کے لیے عذر کا فائدہ ضرور دینا چاہیے۔

دعائیں

حدیث شریف میں وارد ہے کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے، ’الدعاء سلاح المؤمن‘4۔ آج کے بے عملی کے زمانے میں ٹی وی سکرینوں کے سامنے آرام صوفوں اور آرام تکیوں سے ٹیک لگا کر ہم کبھی کبھی اپنی بے عملی کے سبب بس دعا ہی کو اصل قرار دیتے ہیں، یہ رویہ شرعاً و عقلاً درست نہیں۔ لیکن جو واقعتاً کوئی اور راہ نہ پاتا ہو تو گڑ گڑا گڑ گڑا کر اہلِ فلسطین سمت دنیا بھر کے مسلمانوں اور مظلوموں کے لیے دعائیں کرنا ، قنوتِ نازلہ کا اہتمام کرنا بہت بڑی عبادت ہے اور حقیقتاً بہت بڑا ہتھیار ہے۔ پس ان دعاؤں کا اپنی ذاتی و اجتماعی محفلوں میں انعقاد لازمی ہے۔ خود بھی دعائیں کیجیے، اپنے اہل و اولاد سے بھی کروائیے اور اپنی مساجد کو بھی ان دعاؤں سے آباد کیجیے، بے شک اللہ ﷻ کوئی دعا رد نہیں فرماتے، کہا تمہارے رب نے کہ مجھ سے (دعا) مانگو، میں تمہیں عطا کروں گا ’ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ‘۔ خاص کر تہجد اور جمعے کی خاص قبولیت کی گھڑیوں میں دعائیں ضرور مانگیئے۔

«اللَّهُمَّ اهْدِنِا فِيمَنْ هَدَيْتَ وَعَافِنِا فِيمَنْ عَافَيْتَ وَتَوَلَّنَا فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ وَبَارِكْ لَنَا فِيمَا أَعْطَيْتَ وَقِنَا شَرَّ مَا قَضَيْتَ إِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَی عَلَيْكَ وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ وَلَا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ. »5

«اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ، وَمُجْرِيَ السَّحَابِ، وَهَازِمَ الْأَحْزَابِ، اهْزِمْهُمْ وَانْصُرْنَا عَلَيْهِمْ.»6

علمائے کرام سے گزارش

مخلوق کی ترشید و ہدایت کارِ پیغمبری ہے۔ پیغمبروں کے وارث علمائے کرام ہیں، کما جاء في الحدیث: إنّ العلماء ورثة الأنبياء7۔ یہی علمائے کرام امتِ مسلمہ کے حقیقی رہبر ہیں۔ آج عالمِ کفر، خصوصاً یہودِ نامسعود کے خلاف امت کو منظم کر کے کھڑا کرنا، یہود اور ان کے حامیوں خاص کر امریکہ کی حقیقت امتِ مسلمہ کے سامنے بیان کرنا، اپنے فتاویٰ اور خطبات سے امت کو اس کے فرض کی طرف بلانا، ایک بہترین کاوش ہو سکتی ہے۔

’مسلمان‘حکمرانوں کے نام

دنیا بھر کے مسلمان ممالک کے حکمرانوں کی روش سب کو اچھی طرح سے معلوم ہے۔ ان کے جرائم اگر امریکہ و اسرائیل سے زیادہ نہیں تو ان سے کم بھی نہیں بلکہ کم از کم مساوی ہیں۔ پاکستان تا سعودی عرب و قطر و کویت، ترکی، عرب امارات ومصر و سوڈان سبھی کے حکمران امریکہ کے براہِ راست تابع اور دوست ہیں اور ان میں سے کئی آج اسرائیل کے ساتھ بھی براہِ راست بڑے گہرے اور شیریں تعلقات کے حامل ہیں۔ اگر ان میں کچھ حمیتِ اسلامی اور غیرتِ ایمانی بلکہ ایمان و اسلام کا رائی کے دانے کے برابر بھی کچھ حصہ باقی رہ گیا ہے تو ان کے لیے ان احادیث میں بڑی عبرت ہے:

جَاءَ عُبَادَةُ بْنُ الصامت من بني الحارث بن الْخَزْرَجِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي مَوَالِي مَنْ يَهُودٍ كَثِيرٌ عَدَدُهُمْ، وَإِنِّي أَبْرَأُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ مِنْ وَلَايَةِ يَهُودٍ، وَأَتَوَلَّى الله ورسوله، فقال عبد الله بن أبي: إِنِّي رَجُلٌ أَخَافُ الدَّوَائِرَ لَا أَبْرَأُ مِنْ وِلَايَةِ مَوَالِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ «يَا أَبَا الْحُبَابِ، مَا بَخِلْتَ بِهِ مِنْ وَلَايَةِ يَهُودَ عَلَى عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، فَهُوَ لَكَ دُونَهُ» قَالَ: قَدْ قَبِلْتُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ۝ فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَى أَنْ تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِنْ عِنْدِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَى مَا أَسَرُّوا فِي أَنْفُسِهِمْ نَادِمِينَ ۝ (تفسير ابن كثير)

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ جو قبیلۂ خزرج سے تعلق رکھتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا: ’یا رسول اللہؐ بہت سے یہودیوں سے میری دوستی ہے مگر میں ان سب کی دوستیاں توڑتا ہوں، مجھے اللہ اور اس کے رسول ؐکی دوستی کافی ہے‘۔ اس پر عبد اللہ ابن ابی (یہ بھی خزرج سے تھا) نے کہا ’میں دور اندیش ہوں، دور کی سوچنے کا عادی ہوں، مجھ سے یہ نہ ہو سکے گا، نجانے کس وقت کیا موقع پڑجائے ؟ ‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’اے عبداللہ! تُو عبادہ کے مقابلے میں بہت ہی گھاٹے میں رہا، اس پر یہ آیتیں اتریں: ’ اے ایمان والو ! یہودیوں اور نصرانیوں کو یارومددگار نہ بناؤ ، یہ خود ہی ایک دوسرے کے یارومددگار ہیں اور تم میں سے جو شخص ان کی دوستی کا دم بھرے گا تو پھر وہ انہی میں سے ہوگا۔ یقیناً اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ چنانچہ جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا) روگ ہے، تم انہیں دیکھتے ہو کہ وہ لپک لپک کر ان میں گھستے ہیں، کہتے ہیں : ہمیں ڈر ہے کہ ہم پر کوئی مصیبت کا چکر آپڑے گا لیکن کچھ بعید نہیں کہ اللہ (مسلمانوں کو) فتح عطا فرمائے یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کردے اور اس وقت یہ لوگ اس بات پر پچھتائیں جو انہوں نے اپنے دلوں میں چھپا رکھی تھی‘۔

اسی طرح تفسیر ابنِ کثیر اور تفسیرِ طبری میں وارد ہے کہ8:

جب یہودیوں کے اس قبیلہ (بنو قینقاع) سے مسلمانوں کی جنگ ہوئی اور بفضل رب یہ غالب آگئے تو اب عبداللہ بن ابی آپ سے کہنے لگا، اے محمدؐ میرے دوستوں کے معاملے میں مجھ پر احسان کیجیے، یہ لوگ خزرج کے ساتھی تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا، اس نے پھر کہا، آپ نے منہ موڑ لیا، یہ آپ کے دامن سے چپک گیا(دوسری روایت میں ہے کہ حضورِ انور صلی اللہ علیہ وسلم کا گریبانِ مبارک پکڑ لیا)، آپ نے غصہ سے فرمایا کہ چھوڑ دے، اس نے کہا نہیں! میں نہ چھوڑوں گا، یہاں تک کہ آپ ان کے بارے میں احسان کریں، ان کی بڑی پوری جماعت ہے اور آج تک یہ لوگ میرے طرفدار رہے اور ایک ہی دن میں یہ سب فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے۔ مجھے تو آنے والی مصیبتوں کا کھٹکا ہے۔ آخر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’جا وہ سب تیرے لیے ہیں ‘۔ ایک روایت میں ہے کہ ’’جب بنو قینقاع کے یہودیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کی اور اللہ نے انہیں نیچا دکھایا تو عبداللہ بن ابی ان کی حمایت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کرنے لگا اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے باوجودیکہ یہ بھی ان کے حلیف تھے لیکن انہوں نے ان سے صاف برأت ظاہر کی ‘‘۔

اسی طرح سنن أبي داود اور دیگر کتبِ تفسیر و حدیث کی روایات میں ہے (مفہوم عرض ہے)کہ جب عبد اللہ ابن ابی کا آخری وقت آیا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریف لانے کو کہا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے آخری وقت میں بھی اس سے فرمایا: «قَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ حُبِّ يَهُودَ» ’بے شک میں تجھے یہود سے دوستی رکھنے سے منع کیا کرتا تھا!‘۔

علمائے کرام فرماتے ہیں کہ یہود سے دوستی و محبت ہی عبد اللہ ابن ابی منافق کے کفر پر مرنے کا سبب بنی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے استغفار کی اور اس کا جنازہ پڑھایا، لیکن آپؐ کی استغفار بھی اس کے کام نہ آئی، اس کو سُوئے خاتمہ نصیب ہوا اور اللہ ﷻ نے فرمایا کہ آپؐ چاہے ان کے لیے ستّر مرتبہ بھی استغفار فرمائیں تب بھی اللہ اسے معاف نہ کرے گا، ’ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ اللّهُ لَهُمْ‘۔

پس اگر آج مسلم ممالک کے ان حکمرانوں جن میں سرِ فہرست ابنِ سلمان، ابنِ زاید، سیسی، تمیم اور ان کے واسطے سے عاصم منیر 9شامل ہیں ،میں واقعی ایمان موجود ہے تو وہ یہود و نصاریٰ سے ترکِ موالات کی شرعی روش اپنائیں کہ یہود سے دوستی بڑے گھاٹے کا سودا ہے اور اس کا انجام سُوئے خاتمہ ہے۔

اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے

یہودی نیتن یاہو نے نام نہاد ریاست ’اسرائیل‘ پر ہونے والے حملوں کے بعد کہا تھا کہ ہم مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ بدل دیں گے۔ لیکن اس یہودی فتنہ گر کو خبر ہو کہ مشرقِ وسطیٰ نہیں صفحۂ ہستی کا سارا ہی نقشہ بدلنے کا وقت آ گیا ہے۔ آج امت کی سربلندی کے خوابوں کی تعبیریں بتانے والا اقبالؒ موجود نہیں، لیکن اقبالؒ نے صد سال قبل جس منظر کی پیش گوئی کی تھی، ہم آج وہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں:

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا

بے شک وہ شیر ہوشیار ہو گیا ہے اور باذن اللہ اس شیر کی چنگھاڑ سے پوری ملتِ اسلامیہ بیدار ہو جائے گی! اہلِ اسلام کی فتح و ظفر کا زمانہ اور خلافۃ علی منہاج النبوۃ کے قیام کا وقت بہت قریب آ لگا ہے۔ کس نے سوچا تھا کہ مٹھی بھر مجاہدین غزہ کی پٹی سے نکلیں گے اور یہ چند مجاہدین، شاید ایک ہزار یا اس سے کچھ زیادہ یا کم دنیا کی سبھی سپر طاقتوں کو ’طوفان الأقصیٰ‘ کی لپیٹ میں لا کر ناکوں چنے چبوا دیں گے۔ دنیا کے شرق و غرب سے آواز آ رہی ہے:

اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے، جب تاج اچھالے جائیں گے

اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں، اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو، بازو بھی بہت ہیں، سر بھی بہت
چلتے بھی چلو، کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے

اے قدس! تجھے تیری عظمت لوٹانے کے لیے تیرے پاسبان، کاشغر تا ساحلِ نیل لڑ رہے ہیں اور عنقریب تیرے یہ فدائی پاسبان تیرے شہر کی مسجد میں، جس مسجد میں بعد از خدا بزرگ و بر تر، حبیبِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے سبھی انبیاء علیہم السلام کی امامت کی تھی، اسی مسجدِ اقصیٰ کے صحن میں جمع ہوں گے، ان شاء اللہ!

اللھم وفقنا لما تحب و ترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وأرضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!

[قبل از ظہر، یکم ربیع الثانی ۱۴۴۵ ھ؍ ۱۶ اکتوبر ۲۰۲۳ء]


1 ملاحظہ ہو فضیلۃ الشیخ عبد اللہ عزام شہید رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’ایمان کے بعد اہم ترین فرضِ عین‘، مطبوعہ مبشرات ،اسلام آباد۔

2 US Foreign Aid to Israel (https://fas.org/sgp/crs/mideast/RL33222.pdf)

3 The New Arab

4 المستدرک الحاکم

5 سنن أبي داود، ونسائي وابن ماجۃ وغیرھم

6 (متفق عليه)

7رواہ أبو داود والترمذي

8 اصل عبارت تفسیرِ ابن کثیر (مترجم) کی ہے البتہ راقم نے یہاں قوسین میں تفسیرِ طبری کے بعض الفاظ کا اضافہ نقل کر دیا ہے۔

9 چند ہفتے قبل پاکستان فوج کے چیف عاصم منیر نے ابنِ سلمان سے عرب کے صحرا میں ایک خیمے میں ملاقات کی۔ کہتے ہیں کہ عرب جب کسی سے خاص ملاقات کرنا چاہتے ہیں تو اس کو صحرا میں خیمے میں مدعو کرتے ہیں۔ عرب صحافی سامی حمدی کے بقول (راقم کے الفاظ میں) ’جس طرح اسرائیل سے تعلقات کی ’نارملائزیشن‘ کے دوران ابنِ زاید بحرین اور سوڈان کے حکمرانوں کو اسرائیل کی خدمت میں لے کر گیا، ابنِ سلمان پاکستان کے حکمرانوں (جو دراصل فوج ہی ہے) کو اسرائیل کے چرنوں میں لے کر جائے گا اور صحرا میں نصب خیمے میں ابنِ سلمان اور عاصم منیر کی یہی بات چیت ہوئی‘۔وللہ الحمد! اللہ پاک مجاہدینِ فلسطین کو جزائے خیر سے دنیا و آخرت میں نوازے، ان کی حفاظت فرمائے اور انہیں فتح و ظفر سے ہم کنار کرے کہ انہوں نے ابنِ سلمان کی اسرائیل سے ’نارملائزیشن‘ کی سیاست کو بیخ سے ہی اکھاڑ پھینکا!

Previous Post

دشمن کے شدید ردِ عمل سے واقفیت کے باوجود مجاہدین نے دشمن پر حملے کا فیصلہ کیوں کیا؟

Next Post

فلسطین پکار رہا ہے!

Related Posts

قبلۂ اوّل سے خیانت کی داستان: مصر
طوفان الأقصی

قبلۂ اوّل سے خیانت کی داستان: مصر

24 ستمبر 2025
یہ غزہ ہے: اپنوں کی خیانتوں سے چور پیکرِ صبر
طوفان الأقصی

یہ غزہ ہے: اپنوں کی خیانتوں سے چور پیکرِ صبر

24 ستمبر 2025
مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!
طوفان الأقصی

کوئی غنڈہ اپنے بل پر غنڈہ نہیں ہوتا

13 اگست 2025
غزہ: خاموشی جرم میں شرکت ہے!
طوفان الأقصی

غزہ: خاموشی جرم میں شرکت ہے!

13 اگست 2025
مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!
طوفان الأقصی

مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!

13 اگست 2025
فلسطینی صحافی انس الشریف کی وصیت
طوفان الأقصی

فلسطینی صحافی انس الشریف کی وصیت

13 اگست 2025
Next Post
فلسطین پکار رہا ہے!

فلسطین پکار رہا ہے!

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version