اکیسویں صدی اور اس سے پہلی صدی میں پیدا ہونےوالے ہر مسلمان نےایک ایسے دور میں آنکھ کھولی ،جہاں اس کا دین مظلومیت کی حالت میں اور اس کا دینی تشخص پامال تھا۔جس طرف بھی نظر اٹھتی ، اس کے مسلمان بھائی ظلم کی چکی میں پس رہے تھے۔کفر پوری دنیا پر حکمران بنا بیٹھا تھا۔مسلمانوں کی حکومتیں چھن گئیں۔ان کے وسائل ہڑپ کر لیے گئے ۔ ان کو اپنے دین پر آزادی سے عمل کرنے کی آزادی نہیں تھی ۔ان کی جان ، مال و آبرو محفوظ نہ تھے۔مسلمان کی جان اتنی ہلکی تھی گویا مسلمان پیدا ہی مرنے اور ذلت کی چکی میں پسنے کے لیے ہوئے ہیں۔غلامی کی گھنگھورگھٹاؤں میں کسی کو سورج نکلنے کی امید ہی نہ تھی۔ حالت ایسی تھی کہ مسلمانوں نے اس ا ٓفت سے نجات پانے کا ذریعہ ڈھونڈنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ہر طرف مایوسی چھائی ہوئی تھی۔
مگر جیسا کہ یہ اصول ہے کہ : خون صدہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا!
مسلمانوں کے بہتے خون نے اثر دکھایا اور بیسویں صدی کے نصفِ آخر میں مسلمانوں میں بیداری کی لہریں اٹھنے لگیں۔مسلمان اس ذلت بھری زندگی سے باہر نکلنے کے لیےلیے راستہ تلاشنے لگے۔اللہ نے مسلمانوں کو توفیق دی اور پوری امت مسلمہ میں اس وقت اپنا حق واپس لینے کی جو تحریکیں شروع ہوگئی ہیں ان سے دنیا کفر کانپ رہی ہے۔
اے اللہ تیرا شکر ہے کہ زخموں سے چور اپنے بندوں کو اس دور میں بھی دوبارہ اسلام کی عظمت کے مناظر دکھا دیےدیے ۔ اجنبیت کی حالت میں گزرنے والے دن بدل کر پوری دنیا میں اسلام کا نام دوبارہ روشن کردیا ہے۔اے رب تیرا احسان ہے کہ تو نے اس امت کو پہلے طالبان کی فتح، اسلام کو متمکن ہوتا اور پھر فلسطین میں اس امت کے سب سے بڑے اور خبیث دشمن کو ذلیل و رسوا ہوتا دکھادیا۔
طوفان الاقصی نے نہ صرف فلسطین میں ، بلکہ پوری دنیا میں ایک عجیب طوفان برپا کردیا ہے۔مسلمان ہوں یا کافر کوئی بھی اس طوفان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔اللہ فلسطین کی مقاومہ( مزاحمتی تحریک)جہادی تحریکوں کو جزائے خیر عطا فرمائے۔اللہ غزہ کے مسلمانوں کو بہترین اجر عظیم عطا فرمائے کہ جن کے خون سے پوری دنیا میں اسلام کے احیاء کی صدائیں بلند ہونے لگی ہیں۔جنہوں نے اپنی جانوں، اپنے پیاروں اور اپنے گھروں کی قربانی دینا قبول کر لی مگراپنے دین اور اپنے شرعی حق اور فرض سے تنزل اختیار نہ کیا۔سلام ہے فلسطین کے خصوصاً غزہ کے مسلمانوں پر جنہوں نے اپنے خون کی لو سےاس امت کے کتنے گھروں میں دوبارہ سے خوشیوں کے چراغ جلا دیے۔ سلام ہے ان مرابطین اور مجاہدین کوجنہوں نے اپنی امت سے کئے وعدے نبھائے اور دہائیوں سےجیلوں کے پیچھے سے چیختی اور بلکتی بہنوں کے آنسو آخر پونچھ دیے۔سلام ہے غزہ کے ان باسیوں پر جوسب کچھ لٹ جانے کے بعد بھی کہتے ہیں کہ ’’سب کچھ مسجد اقصی کے لیے فدا ہے‘‘ اور ’’اے اللہ جتنی قربانی تو ہم سے مانگنا چاہتا ہے مانگ لے‘‘ عظیم ہے وہ باپ کہ جس کے گھر ۱۴ سال کے بعد بچی پیدا ہوئی اور پھر اس کی آنکھوں کے سامنے اسرائیلی طیاروں نے اس کو ایک لاش میں تبدیل کردیا۔مگر وہ باپ کس حوصلے سے کہہ رہا تھا کہ’’سب کچھ اقصی کے لیے فدا ہے‘‘……سلام ہے اس صنف نازک پر جو اپنا گھر بار لٹا کر بھی کہتی ہے کہ’’الحمدللہ! الحمدللہ علیٰ کل حال…… ! ‘‘
جدیدتاریخ نے شاید ہی کسی قوم کو اتنا باہمت اور باعزم دیکھا ہوگا۔کیا ایمان ہو گا ان لوگوں کا جودن اور رات زمین اور آسمان کی تھرتھراہٹ، جنگ کی گھن گرج اور بمباریوں کے کان پھاڑدینے والے دھماکوں میں کھڑےبھی کہہ رہے ہوں کہ’’اے اللہ اگر تو ہمارے ساتھ ہے تو ہمیں کسی چیزی کی پرواہ نہیں ہے‘‘۔بمباریوں سے زخمی ہوکر نکلنے والے ،اپنے پورے گھر والوں کی شہادت کی خبر پاکر بھی ’’الحمدللہ !……اے اللہ ہم تیری رضا میں راضی ہیں‘‘ کہنے والے صبر کے کیسےمظاہر اس امت کو دکھا رہے ہیں۔بچے بھوک سے بلک رہے ہیں۔پینے کو پانی نہیں ہے …مگر پھر بھی یہی دوہرا رہے ہیں کہ’’ہم یہاں سے نہیں ہٹیں گے!…ہم یہاں سے نہیں جائیں گے!‘‘بمباری سے زخمی حالت میں نکلنے والے بچے بھی یہی دہرا رہے ہیں کہ’’مجھے بتاؤ ابو عبیدہ کیسے ہیں؟اگر وہ ٹھیک ہیں تو ہم بھی ٹھیک ہیں‘‘ ہسپتالوں میں زخمیوں کے علاج کرتے اور دنیا کی رذیل ترین قوم کی دھمکیوں کے باوجود انسانیت کے مسیحا ڈاکٹرز اور ہسپتا ل کا عملہ یہ کہتا ہوا ڈٹا رہا کہ ’’ہم اپنے مریضوں کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے……ہم آخری سانس تک یہیں رہیں گے……ہم ان کے ساتھ ہی جئیں گے اور مریں گے‘‘۔
اللہ کی قسم غزہ کے مسلمانوں کا ایمان اور استقامت پوری دنیا میں بسنے والے ہم سب مسلمانوں کو بھی قوت دیتا ہے ۔بھوک پیاس برداشت کرکے اللہ کا شکر ادا کرنا نہ صرف ہمیں بلکہ یورپ اور امریکہ میں بسنے والے غیر مسلموں کو بھی حیران کررہا ہے۔نجانے کتنے لوگوں نے صرف غزہ کے مسلمانوں کے صبر کا راز جاننے کی خاطر پہلی دفعہ قرآن کھول کر پڑھا ۔اور کتنے ہی ایسے ہیں جنھوں نے طوفان الاقصی کے بعد اسلام بھی قبول کرلیا۔آج ہی ایک مغربی کنارے کی ایک عظیم ماں کا کلپ دیکھا جن کو ان کے بیٹے کی شہادت کی اطلاع ملتی ہے۔ ماں کے دل نے نجانے کیسے صبر کیا ہوگا۔ لیکن ان کی بات نے مجھے اندر تک جھنجوڑ دیا۔ ’’کہا کہ میرا بیٹا ’بطل‘ ہے…یقیناً بطل ہے اور مجھے اس پر فخر ہے ۔ لیکن غزہ کے شہداء بھی سب ابطال ہیں۔ میں غزہ کے مسلمانوں کو کیا منہ دکھاؤں کے ان کے پورے کے پورے خاندان اس راہ میں کام آگئے اور میرا صرف ایک بیٹا قربان ہوا ہے۔ اس پر بھی میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں۔ اے لوگو! جان لو کہ میں خوش ہوں مجھے مبارک باد دو۔‘‘سبحان اللہ اے غزہ کے شہیدو! تمہاری داستانوں نے پوری امت کو صبر سکھا دیا!
حقیقت یہ ہے کہ جب غزہ کی کوئی مظلوم عورت ہمیں چیخ چیخ کر پکارتی ہے اور پھر آخر میں کہتی ہے کہ’’حسبنا اللہ علی کل من خذلنا!‘‘ تو دل کانپ کر رہ جاتا ہے۔ گود میں اپنے بچے کا بے جان لاشہ اٹھائے جب جوان جہان مرد بھی روپڑتا ہے اور کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے ’’اے مسلمانو! ہم قیامت والے دن تمہارے گریبان پکڑیں گے!‘‘ تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔مسلمانوں کی طرف سے مایوسی در مایوسی دیکھ کر یہ مظلوم شخص کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ’’ہمیں باہر سے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے…ہم اپنی آزادی خود ہی حاصل کرلیں گے!…ہم مسجد اقصی کو خود چھڑوالیں گے! مگر…بس ایک بات سن لو…کہ جب ہم مسجد اقصی کو آزاد کروالیں تویہاں نماز پڑھنے نہ آنا!‘‘ ، یہ سن کر تو الفاظ زبان کا ساتھ ہی نہیں دیتے۔پوری دنیا کی بے بسی دیکھ کر وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ’’آج ہمیں پتہ چلا ہےکہ مسلمان ہمارے ہیں ہی نہیں! …حسبنا اللہ ونعم الوکیل!‘‘
وہ ہم سے شکوہ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔اربوں کی تعداد میں موجود ہم نے بحیثیت مسلم امت ان کو مایوس کردیا ہے۔بے وفائی اور جفا کی بھی حد ہوتی ہے۔ہم سب اپنے آرام دہ کمروں میں سکرینوں کے پیچھے سے ان کو ذبح ہوتے دیکھ کر بس روتے ہی رہتے ہیں۔اور ان کا دشمن مسلمانوں کی خاموشی دیکھ کر مزید شیر ہوتا جاتا ہے۔یہ مسلمان کا خذلان ہی ہے کہ ہمارے عین قلب میں اسرائیل جیسی ذلیل ریاست مزے سے حکومت کررہی ہے۔یہ کیسی بے بسی ہے کہ ۲۴ گھنٹے ٹی وی، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر خبریں دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں کہ غزہ کے اندر کھانا پانی بند ہے، ان کے بچے مر رہے ہیں، ان کی عورتیں بیوہ ہورہی ہیں، اور حد تو یہ کہ ان کے ہسپتال محصور ہیں…ان کے ڈاکٹروں کو نشان عبرت بنایا جارہا ہے۔
درحقیقت ہم مسلمان خوفزدہ ہیں کہ اگر ہم بھی جنگ کا حصہ بن گئے تو جو حالت اس غزہ کی ہے وہی ہماری ہوجائے گی۔ہم فلسطین کی حالت دیکھ کر مطمئن ہیں کہ ہم محفوظ ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ آزمائش صرف ایک خطے کے مسلمانوں تک محدود رہے۔اور یہی کفر بھی چاہتا ہے۔وہ جہاد اور مجاہدین سے وابستہ ہر علاقے کو نشان عبرت بنانا چاہتا ہے۔ا س سے پہلے وہ افغانستان، عراق، شام اور یمن کے ذریعے ہم مسلمانوں کو یہ سبق اچھی طرح ازبر کروا چکے ہیں کہ ’اے مسلمانو! اگر تم نے طاغوت کے خلاف اٹھنے کی کوشش کی تو تمہارا بھی وہی حشر ہوگا جو افغانستان کا ہوا تھا…جو یمن کا ہورہا ہے…جو آج شام کا حال ہے…جو عراق کا ہوا تھا…اور جو اب غزہ کا ہورہا ہے!…اس لیے اگر تم امن سے رہ رہے ہو تو اس کو غنیمت جانو اور طاغوت کے خلاف اٹھنے کی ہمت نہ کرنا!‘ اور ہم یہ سبق نجانے کتنی دہائیوں سے یاد کررہے ہیں اور بار بار دوہرارہے ہیں۔ہم بار بار اپنے حکمرانوں کو پکارتے ہیں کہ ’تم بارڈر کھولو تاکہ ہم فلسطین میں مسلمانوں کے شانہ بشانہ لڑسکیں!‘ مگر آخر ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ حکمران تو اسرائیل کی حفاظت کے لیے ہی تو ہم مسلمانوں پر مسلط کیے گئے ہیں۔کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ یہ ہمارے لیے اسرائیل کے خلاف لڑنا آسان بنائیں؟!واللہ جب تک ہم اس سوچ میں رہیں گے اپنا اور اپنی امت کا برابر نقصان ہی کرتے رہیں گے۔ ہمیں سوچنا ہوگا… سمجھنا ہوگا!مصر میں اخوان کی حکومت کے حشر کو دیکھنا ہوگا۔الجزائر میں اسلام پسندوں کے ساتھ فوج نے کیا کیا؟پاکستان میں ان بیس سالوں میں کیا ہوا بلکہ ستر سال سے کیا ہوتا رہا ہے؟کیا یہ سب کچھ کافی نہیں کہ ہم یہ بنیادی بات سمجھ جائیں کہ یہ فوجیں اور حکومتیں ہماری نہیں ۔ بلکہ ہمارے قتل کے لیے تشکیل دی گئی ہیں۔ واللہ ان کی اسلام سے ادنیٰ سی وفا بھی نہیں ہے۔ یہ امریکہ اور عالمی نظامِ کفر کے نوکر چاکر ہیں۔ جو حکم ان کو ان کا آقا دے گا یہ اسی کی تعمیل کریں گے۔
اے اللہ تو ہم مسلمانوں کی بے چارگی، بے بسی اور بے وفائی کو معاف کردے! اے اللہ تو ہمیں اپنے عذاب سے بچا !…اے غزہ ! تو ہمیں معاف کردے! اے مسجد اقصی! ہم تجھ سے شرمندہ ہیں! ہم اربوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود کمزور ہیں!ہم اپنے اپنے ملکوں میں آرام سے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں! ہم پر مسلط طواغیت نہیں چاہتے کہ ہم تجھے آزاد کروائیں! اس لیے ہم بے بس اور مجبور ہیں! اے غزہ کی ماں! تیرا بیٹا شہید ہوگیا مگر تو ہمیں معاف کردے! قیامت والے دن تو ہمیں گریبان سے پکڑ کر اللہ کے سامنے نہ لے جانا! بس تو ہمیں معاف کردے!’’فلسطین کے اے بوڑھے باپ!جس کو اپنے پوتے پوتیوں کے جنازے اٹھانے پڑ رہے ہوں…ہمیں معاف کردو! ہم تو تجھ سے بھی زیادہ بے کس ہیں!تم تو پھر بھی آزاد ہو …ہم تو اپنے ملکوں میں قید ہیں!…اے ننھے سے بچے جس کے ماں باپ اس کے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی اس کو چھوڑ کرچلے گئے ہیں…ہمیں معاف کردو! ہم تم تک پہنچنے کی استطاعت نہیں رکھتے!…ہم تیری آنکھوں میں آئے آنسو نہیں پونچھ سکتے کیونکہ ہمارے بھی تمہارے جیسے بچے ہیں اور ہم ڈرتے ہیں کہ ہمارے بچوں کا بھی وہی حشر نہ ہوجائے جو تیرا ہو رہا ہے!غزہ کے بھوکے پیاسے باسیو! ہمیں معاف کردینا!…ہم تجھ تک کھانا نہیں پہنچا سکے کیوں کہ ہم پرسرحدیں بند تھیں! …غزہ کے ڈاکٹرو اور مریضو! ہمارا عذر قبول کرلو!…ہمیں قیامت والے دن رسوا نہ کرنا…مگر یقین کرو… لاکھوں کی تعداد میں ہنر مند ترین ڈاکٹر رکھنے کے باوجود بھی یہ امت تمہیں انستھیزیا تک نہ بھجواسکی!…ہم تمہیں کفن تو بھیج سکتے تھے مگر دوائیں نہ بھجواسکے!
مگر یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ ان سب حالات میں ہم مسلمان جتنے بھی کمزور ہوجائیں مگر ہر دور میں ایسے سر پھرے پھر بھی پیدا ہوتے رہیں گے جو اپنی امت کا حق ادا کرنے والے بنیں گے۔جو اپنی ماؤں،بہنوں اور اپنے باپوں کو روتا دیکھ کر چین سے گھر میں نہیں بیٹھ سکیں گے۔جن کے لیے امت کے کسی بھی کونے میں روتا بچہ ان کا اپنا ہی بچہ ہوگا ۔
اور دوسری جانب دنیا کے طواغیت ، چاہے وہ امریکہ ، یورپ اور اسرائیل ہوں یا ہمارے اپنے ملکوں پرمسلط حکمران ہوں…جہاد کو نشان عبرت بناتے ہی رہیں گے۔دجال کے پیروکار بھوک اور پیاس کے ذریعے مسلمانوں کو ڈراتے رہیں گے۔زخموں اور پیاروں کے بچھڑنے سے ڈراتے رہیں گے مگر مسلمانوں کی ایک جماعت دجال کے ان پیروکاروں کے خلاف اللہ کے دین پر ڈٹی رہے گی۔جس کو کسی چیز کی پرواہ نہ ہوگی سوائے اللہ کی رضا کے۔جو اللہ کے راستے پر ڈٹی رہے گی۔اور آخر کار انجام ان شاء اللہ انہی مسلمانوں کے حق میں ہوگا۔
منافقین اور کفر سے مرعوب لوگوں کا صدیوں سے ایک ہی وطیرہ ہے،
الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمٰنًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ
وہ ہمیشہ ایمان والوں کو ڈراتے ہی ہیں۔ کفر کے ہتھیاروں سے، موت سے، قید سے، تعذیب سے ، بھوک اور پیاس سے ۔مگر مومنین کا جواب بھی ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے، وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ۔
اللہ فلسطین کے مسلمانوں کو ثابت قدم رکھے، ان کے زخمیوں کو شفائے کاملہ عاجلہ عطا فرمائے اورہمیں بھی توفیق عطا فرمائے کہ اس عظیم الشان معرکےمیں حصہ ڈالنے والے بنیں۔اللہ کا مسلمانوں سے نصرت کا وعدہ ہے۔فتح کا وعدہ ہے۔اللہ اور اس کے دین کو ہماری ضرورت نہیں ہے۔اللہ اپنے دین کو غالب کرے گا۔چاہے ہم اس میں اپنا حصہ ڈالیں یا نہ ڈالیں۔اللہ بیت المقدس کومسلمانوں کے ہاتھوں فتح کروائے گا چاہے کفار اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں۔سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس جہاد میں شریک ہوکر مسجد اقصی کو آزاد کروانے والوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں تاکہ ایک دن ہم بھی مسجد اقصی میں نماز ادا کرسکیں؟…یا پھر ہم سکرینوں کے پیچھے بیٹھے صرف آنسو ہی بہانا چاہتے ہیں؟
جنگ دو دن کا کھیل نہیں ہوتی۔یہ پوری دنیا جانتی ہے۔اس لیے اس وقت پوری دنیا میں جو جہاد کی لہریں زندہ ہوئی ہیں، دنیا کے ہر ہر کونے میں مسلمان اور مجاہدین اپنا خون اللہ کے سامنے پیش کررہے ہیں، اس محاذ جنگ کا مرکز مجد اقصی اور فلسطین ہی ہے۔فلسطین کی آزادی تک یہ جنگ مسلسل جاری رہے گی۔یہ معرکہ چاہے جتنا بھی طول پکڑ لے اور چاہے جتنی بھی قربانی ہم سے مانگ لے مسلمان اب اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
یہ سوال اس وقت زندہ ہر مسلمان سے کیا جائے گاکہ اے مسلمانو! جب غزہ کے مسلمان اپنے دین کی خاطر قربانیاں دے رہے تھے ،تم نے اس وقت کیا کیا؟ کیا تم اتنے مجبور تھے کہ تمہارےملکوں میں یہودی اور ان کے پشتی بان امریکی اور یورپی دندناتےپھر رہے ہوں اور تم میں سے کوئی بھی ایسا باغیرت انسان نہ ہو جو ان کو نشانہ بنا سکے۔اگر تم غزہ نہیں پہنچ سکتے تھے توکیا اپنے ملکوں کو یہودیوں ، امریکیوں اور یورپیوں کے لیے جہنم نہیں بنا سکتے تھے ؟ تم دوسروں کا انتظار کیوں کرتے رہے؟ تم قیادت کے انتظار میں کیوں رہے؟تم موت سے ڈر گئے جبکہ وہاں چھوٹے چھوٹے بچے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے تھے۔تم گھر بار لٹنے سے خوفزدہ تھے جبکہ وہاں ملبے کے ڈھیروں پر شہداء اپنے خون سے رقم کرگئے کہ ’’ہم اپنےمقصد سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے!‘‘
اس وقت امت ایک دوراہے پر کھڑی ہے۔مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم پر بہت بھاری ذمہ داریاں آپڑی ہیں۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو بحیثیت ایک امت کے اس آزمائش میں کامیابی عطا فرمائے۔ہم سے اپنے دین کا کما حقہ کام لے۔ہماری ناقص کوششوں میں برکت عطا فرمائے۔اللہ تعالی ہماری امت کے نوجوانوں کو مسجد اقصی کو رہا کروانے کا شرف عطا فرمائے۔ ہمارابھی اس جد جہد میں حصہ لکھ دے!اللہ ہماری امت کی ماؤں کو توفیق عطا فرمائے کہ ان کی گودوں میں پلنے والے بچے باغیرت و باہمیت مسلمان بنیں۔ اللہ ہمیں بھی غزہ اور فلسطین میں اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے جہاد میں ہاتھ بٹانے کی توفیق عطا فرمائے۔اور ہمیں ایک دن مسجد اقصی میں ہمارے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں سے جاملائے!جہاں ہم ایک صف میں کھڑے ہوکر مسجد اقصی میں نماز ادا کرسکیں! آمین
٭٭٭٭٭