حماس! تم نے غزہ میں یہودیوں سے کیوں جنگ کی اور انہیں غزہ کے خلاف کیوں بھڑکایا کہ وہ اسے نیست و نابود کر دیں؟
حماس! کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ تم محاصرے میں اور یہودیوں کے تابع رہتے تاکہ غزہ کے عام لوگ بمباری سے بچ جاتے؟
کیا یہ تمہارے لیے بہتر نہیں تھا کہ تم یہودیوں کو اپنی سرزمین پر حکومت کرنے دیتے اور انہیں اپنی عزت پامال کرنے دیتے، تا کہ وہ ملک اور عوام پر بمباری نہ کریں؟
یہ ان چند مسلمانوں کا سوال ہے جو فلسطین کے تنازع کی حقیقت کو نہیں سمجھتے اور جو یہ نہیں جانتے کہ یہودی چاہتے ہیں کہ مسلمان ہتھیار ڈال دیں، یہودی ان پر حکومت کریں اور ان کی تذلیل کریں جیسا کہ انہوں نے فلسطین کے دوسرے خطوں میں کیا۔ اور اگر مجاہدین نے ہماری سرزمین کو یہودیوں سے آزاد کروانے کیلیے جہاد شروع نہ کیا ہوتا تو یہود کی سرکشی میں اور اضافہ ہو جاتا۔
یہ نادان آپ کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ جنگ حماس اور اسرائیل کے درمیان ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ آپ کو یقین دلایا جائے کہ یہ ان کا زمین کے ایک ٹکڑے پر آپسی جھگڑا ہے، اور دونوں فریقوں کا اس میں حق ہے۔
جیسا کہ انہوں نے اس سے قبل آپ کو قائل کیا، کہ شام کا مسئلہ ان کے حکمران اور اس کے لوگوں کے درمیان تنازع ہے، جس سےآپ کا کوئی تعلق نہیں۔جیسا کہ انہوں نے عراق کے حوالے سے آپ کو پہلے باور کرایا کہ یہ عراق کا ایک داخلی فرقہ وارانہ مسئلہ ہے، کفار کا وحشیانہ حملہ نہیں۔ جیسا کہ وہ آپ کو لیبیا کے حوالے سے پہلے بھی قائل کر چکے ہیں کہ یہ لیبیا کے قبائل کے درمیان ایک مسئلہ ہے۔ انہوں نے آپ کو تیونس کے حوالے سے باور کرایا کہ یہ تیونس کا مسئلہ ہے، اس لیے اس میں مداخلت نہ کریں۔ اور وہ اس ایجنڈے پر لگے ہیں کہ مسلم معاشرے اور جماعتیں اسی طرح ملک در ملک تقسیم ہو جائیں۔
آپ اپنے ملک میں رہنے اور دوسروں سے کوئی تعلق نہ رکھنے کی دلیل کے تحت کچھ بھی کرنے کے قابل نہ رہیں گے۔ وہ نہیں چاہتے کہ آپ یہ سمجھیں کہ یہ ایک نظریاتی اور بقا کی جنگ ہے۔
مغرب اس جنگ میں صہیونیوں کے ساتھ کھڑا ہے، امت مسلمہ فلسطین کے ساتھ متحد ہو گئی ہے، وحشی درندے غزہ پر حملہ آور ہیں۔ یہاں تک کہ امریکہ کے درندے بائیڈن نے کہا: ’اگر اسرائیل نہ ہوتا تو ہم اسے بناتے اور قائم رکھتے‘۔ اس نے انہیں تباہ کن ہتھیاروں کی کھیپ بھیجی۔ اس نے اسرائیل کی حمایت کے لیے ایک ہزار فوجی بھیجنے کی تیاری کی ہے۔
اسی طرح مغربی ممالک برطانیہ، جرمنی اور فرانس اسرائیل کی عسکری، سیاسی، معاشی اور ابلاغی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں، انہوں نے متاثرین یعنی بچوں، عورتوں اور بیماروں کی بھی پروا نہیں کی اور معمدانی ہسپتال کا حادثہ دور کی بات نہیں ہے۔ انہوں نے انسانیت کی پروا بھی نہیں کی، جس کا وہ ڈھول پیٹتے چلے آ رہے ہیں ،اور تمام مغربی درندے اکٹھے ہوکر تل ابیب میں جمع ہو گئے۔ یورپی حکومتیں تصادم کی حقیقت کو جان گئی ہیں اور تصادم کے لیے تیار ہیں۔ یہ تو ان مغربی ملکوں کی حکومتیں ہیں اور یہ ان کے حکمرانوں کے کرتوت ہیں۔
ہماری ریاستوں، حکمرانوں، لیڈروں اور ہماری ملکی افواج نے اس تصادم میں کیا کردار کیا؟ ان میں سب سے دلیر وہ ہیں جو اسرائیل کی مذمت کرتے ہوئے ایک بیان میں سامنے آئے بس۔ اس بہادر نے بیان جاری کر دیا،اس کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملے پر بات کرنے کے لیے ایک کانفرنس منعقد کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
کس کانفرنس کی بات کر تے ہو؟
اس کانفرنس کی جس نے بشار کو عرب لیگ میں واپس شامل کر دیا؟ یا اس کانفرنس کی جس نے شمالی شام اور خاص طور پر ادلب میں ہمارے لوگوں کا محاصرہ کیا؟
غزہ اور اس سے پہلے شام میں مسلمانوں کو بے یار و مددگار چھوڑنے والوں کو صرف اپنے مفادات کی فکر ہے۔ آئندہ بھی مسلمانوں پر حادثات کی چکی گھومتی رہے گی اور انہیں مصیبت کے وقت (ان کانفرنسوں سے) کوئی سہارا نہیں ملے گا۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
’’ما من امرئ مسلم يخذل امرأ مسلما في موضع ينتهك فيه حرمته وينتقص فيه من عرضه إلا خذله الله تعالى في موطن يحب فيه نصرته.‘‘ (مشکوٰۃ)
’’جو مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی اس موقع پر مدد کرے اور غیبت کرنے والے کو غیبت سے نہ روکے جہاں اس کی بےحرمتی کی جاتی ہو اور اس کی عزت و آبرو کو نقصان پہنچایا جاتا ہو تو اللہ بھی اس موقع پر اس شخص کی مدد نہیں کرے گا جہاں وہ اللہ کی مدد کو پسند کرتا ہے۔‘‘
جب تم ڈرتے ہو اور غزہ کے بھائیوں کی مدد نہیں کر سکتے، تو پھر ان لوگوں کے لیے راہ ہموار کر دو جو ان کی حمایت کرنا چاہتے ہیں، اگر تمہاری طاقت ناکام ہو چکی ہے اور تمہیں اپنے حکومتی مناصب کے ضیاع کا خوف ہے، تو امت مسلمہ میں ایسے لوگ ہیں جو اپنی جان ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں، انہیں جانے دو۔ یہ ہماری اسلامی، انسانی اور فکری جنگ ہے۔ یہ امت مسلمہ کی جنگ ہے۔ کسی کو حق نہیں کہ وہ ہمیں اس معرکے سے الگ کر دے۔ کسی کے لیے جائز نہیں کہ امت مسلمہ سے کہے کہ میں تمہیں اجازت دیتا ہوں یا تمہیں روکتا ہوں۔
ہم مردوں اور عورتوں کو دیکھتے ہیں، جو مدد کے لیے ہمیں پکار رہے ہیں۔ ہم ہسپتالوں کو بمباری کا نشانہ بنتا دیکھتے ہیں، اور ہم ایک بچے کے جسم کے کٹے اعضاء دیکھتے ہیں۔
آج کا دن خون بہانے کا دن ہے جس میں مجرموں پر کوئی رحم یا ترس نہیں۔
ہم اس رب کائنات کی قسم کھاتے ہیں جس نے انسانیت پیدا کی، کہ ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے اور سستی نہیں دکھائیں گے، جب تک کہ ہم بدلہ نہ لے لیں۔
جنگوں کی آگ نے ہمارے دلوں کو بھڑکایا اور دہلا کے رکھ دیا ہے۔ منافق ممالک ہمارے خلاف جنگ میں جمع ہوئے، اور ان کی زبان کہتی ہے: ’’ہماری قوت کو دبایا نہیں جاسکتا‘‘۔ انہوں نے تمام متکبر کافروں سے اپنا اسلحہ اور سامان حرب اکٹھا کیا۔ انہوں نے عورتوں کی حرمت کا احترام کیے بغیر انہیں قتل کیا۔ انہوں نے بچوں کو قتل کیا، اور یہ قابل مذمت کام ہے۔
اے اربوں افراد پر مشتمل امت ! اے اربوں کی امت! ہم پر کتنے مصائب آئے؟ ان میں ہمارے لیے سامان نصرت کی عملاً منصوبہ سازی کرو۔ ہتھیار لے آؤ، متکبرین کے سامنے کوئی بیان یا تقریر کام نہیں آئے گی۔
جَناتِ عدن کے باغوں میں میدان جہاد کے راستے سے ہو کر جاؤ، کیونکہ وہ کھولے گئے ہیں اور عنبر سے مزین ہیں۔ کیا تم اللہ تعالی کی نازل شدہ آیات کی معانی نہیں جانتے؟ جس نے اللہ کے ساتھ اپنی جان کا سودا کیا اللہ نے اسے خرید لیا۔
ہم وہ ہیں جنہوں نے خاک اڑاتی زمین پر جہاد کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ ہم نے روحیں بیچ دیں۔ ہم نے اپنے دین کی حمایت کے لیے اپنی جانیں بیچ دیں۔
جن لوگوں نے میدانِ جنگ میں اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا وہ کبھی ناکام نہیں ہوئے۔
آج صہیونیوں کے درمیان داخلی کشمکش بہت زیادہ ہے۔ ان کے درمیان اختلاف بہت بڑا ہے۔ آپ کو لگتا ہے کہ وہ سب اکٹھے ہیں حالانکہ ان کے دل بکھرے ہوئے ہیں۔ یہاں سڑکوں پر ان کے مرنے والوں کی لاشیں بھری ہوئی ہیں۔ یہاں ان کے زخمی ہیں، جو عورتوں کی طرح رو رہے ہیں، یہاں ان کے سپاہی ہیں، جو جانوروں کی طرح ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
وَلَا تَهِنُوْا فِي ابْتِغَاۗءِ الْقَوْمِۭ اِنْ تَكُوْنُوْا تَاْ لَمُوْنَ فَاِنَّھُمْ يَاْ لَمُوْنَ كَمَا تَاْ لَمُوْنَ وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا يَرْجُوْنَ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِــيْمًا حَكِــيْمًا
’’ اور تم ان لوگوں (یعنی کافر دشمن) کا پیچھا کرنے میں کمزوری نہ دکھاؤ، اگر تمہیں تکلیف پہنچی ہے تو ان کو بھی اسی طرح تکلیف پہنچی ہے جیسے تمہیں پہنچی ہے۔ اور تم اللہ سے اس بات کے امیدوار ہو جس کے وہ امیدوار نہیں۔ اور اللہ علم کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔‘‘
آج اہل فلسطین میں ہر صاحب استطاعت پر خاص طور پر فرض ہے کہ وہ خدا کے لیے راہ جہاد میں نکلے، اور غاصب دشمن کو پسپا کرے۔ فلسطین سے باہر ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کی جس قدر ہو سکے مدد کرے، اور ان کو تنہا نہ چھوڑے ان کی داد رسی کرے، خود ان کی حمایت کرے، اگر وہ اپنے مال سے ایسا نہ کر سکے تواپنی زبان سے کرے، اگر نہیں کر سکتے تو اپنے قلم اور بیان سے، اگر وہ نہ کر سکے تو دعا کرے اور مسئلۂ فلسطین کواجاگر کرے۔
مظاہروں کو بھی ہلکا مت جانیں۔ بڑی مجرمانہ طاقتوں اور کمزور مسلم ممالک، جو نصرت سے پیچھے ہٹے ہیں، کے لیے یہ مظاہرے ایک پیغام ہیں کہ امت مسلمہ کے عوام معزز و مکرم ہیں ذلت قبول نہیں کرتے۔
٭٭٭٭٭