پیش لفظ
غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے پر حالیہ اسرائیلی جارحیت کے تناظر میں ، فلسطینی مسلمان خود مختاری، وقار، اور طویل ترین قبضے سے آزادی کے حصول کے لیے جو جنگ لڑ رہے ہیں اس میں انہوں نے اسرائیلی جارحیت و بربریت کے مقابلے میں بے مثال بہادری اور جوانمردی کا مظاہرہ کیا ہے۔
کچھ عرصہ قبل حماس کی جانب سے ۷ اکتوبر کو شروع ہونے والی کارروائیوں کی حقیقت، اس کے مقاصد اور اس کا فلسطینی تحریک سے تعلق واضح کرنے کے لیے اور اس کے ساتھ ساتھ اسرائیلی الزامات کا رد کرتے ہوئے، اصل حقائق سامنے لانے کے لیے ایک بیانیہ جاری کیا گیا (هذه روايتنا،لماذا طوفان الأقصى)۔ یہاں اس بیانیے کے دو حصے طوفان الاقصیٰ کی وجوہات اور اسرائیلی الزامات کے رد کا اردو میں خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔
طوفان الاقصیٰ آپریشن کی وجوہات
استعمار اور قبضے کے خلاف فلسطینی مسلمانوں کی جنگ ۷ اکتوبر سے شروع نہیں ہوئی، بلکہ ۱۰۵ سال قبل شروع ہو چکی تھی، جس میں برطانوی استعمار کے ۳۰ سال اور صہیونی قبضے کے ۷۵ سال شامل ہیں۔ ۱۹۱۸ء تک ۹۸ فیصد اراضی کے مالک فلسطینی تھے جبکہ ان کی آبادی کا تناسب ۹۲ فیصد تھا۔ برطانوی استعمار اور صہیونی تحریک کے باہمی اشتراک سے جب یہودیوں کو بڑے پیمانے پر فلسطین لایا گیا تو ۱۹۴۸ء میں صہیونی وجود کے اعلان تک یہودیوں کے پاس صرف ۶ فیصد اراضی کی ملکیت تھی اور ان کی آبادی کا تناسب ۳۱ فیصد تھا۔ اس کے بعد فلسطینیوں سے ان کا حق خود ارادیت چھین لیا گیا اور صہیونی جتھے فلسطینیوں کی نسل کشی میں مشغول ہو گئے تاکہ انہیں ان کے علاقوں سے جلا وطن کر ڈالا جائے۔ اس کے نتیجے میں صہیونیوں نے فلسطین کے ۷۷ فیصد علاقے پر قبضہ کر لیا، ۵۷ فیصد فلسطینیوں کو جلا وطن کر ڈالا، ۵۰۰ کے قریب فلسطینی گاؤں اور قصبے تباہ و برباد کر ڈالے اور درجنوں مقامات پر فلسطینیوں کا قتل عام کیا گیا جس کے نتیجے میں ۱۹۴۸ء میں اس سر زمین پر صہیونی وجود قائم ہوا۔ اپنی جارحیت کو دوام دیتے ہوئے اسرائیلی افواج نے ۱۹۶۷ء میں مغربی کنارے، غزہ اور بیت المقدس سمیت باقی ماندہ فلسطینی علاقوں پر اور فلسطین کے اطراف کے عرب علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا۔
- اس طویل عرصے کے دوران فلسطینی ہر طرح کے ظلم، ناانصافی، حق تلفی اور نسل پرستانہ پالیسیوں کا شکار ہوئے۔ مثال کے طور پر، غزہ کی پٹی ۲۰۰۷ء سے شروع ہونے والی اور پچھلے ۱۷ سال سے جاری ناکہ بندی کا شکار ہے، جس نے اسے دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل بنا ڈالا ہے۔ غزہ میں فلسطینی عوام نے پانچ تباہ کن جنگیں برداشت کی ہیں، جن سب میں جارح فریق ’اسرائیل‘ ہی تھا۔ ۲۰۱۸ء میں غزہ کی عوام نے ’مسیرۃ العودۃ الکبری‘ (عظیم واپسی کا سفر) کے نام سے اسرائیلی ناکہ بندی اور المناک انسانی صورتحال کے خلاف اور واپسی کے حق کا مطالبہ کرنے کے لیے پر امن مظاہرے شروع کیے۔ لیکن اسرائیلی غاصب افواج نے ان مظاہروں کا وحشیانہ انداز میں جواب دیا، جس کے نتیجے میں چند ماہ کے اندر ۳۶۰ فلسطینی شہید جبکہ انیس ہزار زخمی ہوئے جس میں پانچ ہزار بچے بھی شامل ہیں۔
- رسمی اعداد و شمار کے مطابق جنوری ۲۰۰۰ء سے ستمبر ۲۰۲۳ء کے درمیانی عرصے میں اسرائیلی غاصبین نے گیارہ ہزار دو سو نناوے ( ۱۱،۲۹۹) فلسطینی شہید جبکہ ایک لاکھ چھپن ہزار سات سو سڑسٹھ (۱۵۶،۷۶۸) دیگر زخمی کیے، جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ بد قسمتی سے، امریکی انتظامیہ اور اس کے اتحادیوں نے گزشتہ برسوں میں فلسطینیوں کے مصائب پر کوئی توجہ نہیں دی اور اس کی بجائے ہمیشہ اسرائیلی جارحیت پر ہی پردہ ڈالا۔ انہوں نے صرف ان اسرائیلی فوجیوں پر اظہارِ افسوس کیا جو ۷ اکتوبر کی کارروائی میں مارے گئے تھے، اور یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کی کہ اصل میں ہوا کیا تھا۔ امریکی انتظامیہ نے اسرائیلی غاصبین کو فلسطینیوں کا قتل عام کرنے اور غزہ کی پٹی پر جاری وحشیانہ جارحیت کے لیے مالی و عسکری امدام فراہم کی اور اب بھی امریکی حکام اسرائیلی غاصب افواج کی طرف سے غزہ میں جاری قتل عام کو مکمل طور پر نظر انداز کر رہے ہیں۔
- اسرائیلی خلاف ورزیوں اور جارحیت کو اقوام متحدہ کے متعدد اداروں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے دستاویزی شکل دی ہے جس میں امنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ ، حتیٰ کہ بعض اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔لیکن ان رپورٹس اور شہادتوں کو نظر انداز کر دیا گیا اور اسرائیلی غاصبین کو اب تک ان پر جوابدہ نہیں ٹھہرایا گیا۔ مثلاً ۲۹ اکتوبر ۲۰۲۱ء کو اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر گیلاد اردان(Gelad Erdan) نے جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کی رپورٹ کو پھاڑا اور اسے کچرے کی ٹوکری میں پھینک کر اقوام متحدہ کے نظام کی توہین کی ۔لیکن اس کے باوجود اگلے سال ۲۰۲۲ء میں اسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا نائب صدر بنا دیا گیا۔
- امریکی انتظامیہ اور اس کے مغربی اتحادی ہمیشہ اسرائیل کو قانون سے بالاتر ریاست سمجھتے ہیں، اس کے قبضے کو طول دینے اور فلسطینی عوام کو کچلنے کے لیے مناسب کور فراہم کرتے ہیں، اوراسرائیل کو صورتحال کا فائدہ اٹھانے کا پورا موقع دیتے ہیں تاکہ وہ مزید فلسطینی اراضی پر قبضہ کر سکے اور مقدسات اور مقدس مقامات کو یہودی بنا سکے۔ اگرچہ اقوام متحدہ نے پچھلے ۷۵ سال میں فلسطینی عوام کے حق میں ۹۰۰ سے زائد قراردادیں منظور کیں، لیکن اسرائیل ہمیشہ ان قراردادوں کی پابندی کرنے سے انکاری رہا اور امریکی ’ویٹو‘ ہمیشہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کی پالیسیوں اور خلاف ورزیوں کی مذمت کو روکنے کے لیے موجود رہا۔ اسی لیے امریکہ اور مغربی طاقتیں اسرائیلی قبضے، اس کے جرائم اور فلسطینی عوام پرجاری مظالم میں برابر کےشریک ہیں۔
- جہاں تک بات ’’پر امن تصفیہ کے عمل‘‘ کی ہے،باوجودیکہ ۱۹۹۳ء میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کے ساتھ اوسلو معاہدے میں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر مشتمل ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام طے پایا تھا، اسرائیل بیت المقدس اور مقبوضہ مغربی کنارے کے فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاریاں اور تعمیرات کر کے فلسطینی ریاست کے قیام کے ہر امکان کو تباہ کرتا آیا ہے۔ امن عمل کی حمایت کرنے والوں کو تیس سال بعد جا کر یہ احساس ہوا ہے کہ وہ اب ایک بند گلی میں پہنچ چکے ہیں اور ایسا عمل فلسطینی عوام کے لیے تباہ کن نتائج کا حامل ہو گا۔
اسرائیلی حکام متعدد مواقع پر دہرا چکے ہیں کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام کو قطعی طور پر مسترد کر تے ہیں۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن سے صرف ایک ماہ قبل اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے دنیا کے سامنے نام نہاد ’نئے مشرق وسطیٰ‘ کا نقشہ پیش کیا، جس میں اسرائیل کی حدود کو مغربی کنارے اور غزہ سمیت دریائے اردن سے بحیرۂ روم تک مکمل علاقے تک پھیلا دکھایا گیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اس متکبرانہ تقریر کے جواب میں ساری دنیا خاموش اور فلسطینیوں کے حقوق سے لاتعلق بیٹھی رہی۔
۷۵ سالہ بے رحم قبضے اور سختیوں، فلسطینی عوام کی آزادی اور واپسی کی تمام کوششوں میں ناکامی اور نام نہاد امن عمل کے تباہ کن نتائج دیکھنے کے بعد دنیا فلسطینی عوام سےدرج ذیل کے جواب میں کیا توقع رکھتی تھی؟
- مسجد الاقصیٰ کو یہودی مقام بنانے کا اسرائیلی منصوبہ، اس کی تقسیم کی کوششیں، اس کے ساتھ ساتھ اسرائیلی آبادکاروں کی مسجدِ مقدس میں در اندازیوں میں تیزی۔
- انتہا پسند اور دائیں بازو کی اسرائیلی حکومت جو مکمل مغربی کنارے اور بیت المقدس کو نام نہاد ’اسرائیلی ریاست‘ میں ضم کرنے کے لیے عملی اقدامات کر رہی ہے ، اور اس کے ساتھ فلسطینیوں کو ان کے گھروں اور علاقوں سے بے دخل کرنے کے منصوبے بھی اسرائیلی حکام کی میز پر موجود ہیں۔
- اسرائیلی جیلوں میں موجود ہزاروں قیدیوں کو اپنے بنیادی حقوق سے محرومی اور فسطائی اسرائیلی وزیر اتامر بن گویر کی زیر نگرانی حملوں اور تذلیل کا سامنا ہے۔
- ۱۷ سال سے غزہ پر مسلط ناانصافی پر مبنی فضائی، بحری اور بری ناکہ بندی۔
- مغربی کنارے میں اسرائیلی نو آبادیوں میں غیر معمولی وسعت اور آبادکاروں کی جانب سے فلسطینیوں اور ان کے املاک پر روزانہ کی بنیاد پر حملے۔
- سخت ترین حالات میں مہاجر کیمپوں اور دیگر جگہوں پر رہنے والے ۷۰ لاکھ فلسطینی جو اپنی سرزمین پر واپسی چاہتے ہیں اور جنہیں ۷۵ سال پہلے جلا وطن کر دیا گیا تھا۔
- فلسطینی ریاست کے قیام میں عالمی برادری کی ناکامی اور اس کو روکنے میں عالمی طاقتوں کا کردار۔
اس سب کے جواب میں فلسطینی عوام سے کیا توقع کی جا رہی تھی؟ کہ وہ انتظار کریں اور بے بس اقوام متحدہ پر انحصار کیے رکھیں؟ یا فلسطینی عوام، زمین ، حقوق اور مقدسات کے دفاع کے لیے قدم بڑھائیں، یہ جانتے ہوئے کہ دفاع کرنے کا حق عالمی قوانین، روایات اور قراردادوں میں ثبت ہے۔
مندرجہ بالا امور کو دیکھتے ہوئے، ۷ اکتوبر کا آپریشن طوفان الاقصیٰ فلسطینی عوام اور ان کی تحریک کے خلاف اسرائیلی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ضروری اقدام اور فطری رد عمل تھا۔ یہ اسرائیلی قبضے سے نجات، فلسطینیوں کے حقوق کے حصول اور دنیا کے تمام دیگر لوگوں کی طرح آزادی و خودمختاری کے حصول کی خاطر ایک دفاعی اقدام تھا۔
۷ اکتوبر کے واقعات اور اسرائیلی الزامات کا رد
۷ اکتوبر کو آپریشن طوفان الاقصیٰ نے اسرائیلی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا اور دشمن کے سپاہیوں کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تاکہ اسرائیلی حکام پر دباؤ ڈالا جا سکے کہ وہ قیدیوں کے تبادلے کے عمل کے ذریعے اسرائیلی جیلوں میں بند ہزاروں فلسطینیوں کو رہا کرے۔ اس لیے اس آپریشن میں پوری توجہ اسرائیلی فوج کے غزہ ڈویژن اور غزہ کے نواح کی اسرائیلی آبادیوں میں اسرائیلی فوجی تنصیبات کو تباہ کرنے پر مرکوز تھی۔
عام شہریوں بالخصوص بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو نقصان پہنچانے سے اجتناب کرنا مجاہدین کا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ آپریشن کے دوران فلسطینی مجاہدین مکمل طور پر منظم اور دینی اقدار کے پابند رہے اور انہوں نے صرف قابض فوجیوں کو اور ان کو نشانہ بنایا جنہوں نے فلسطینیوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔ اس دوران فلسطینی مجاہدین عام شہریوں کو نقصان پہنچانے سے بچنے کی پوری کوشش کر رہے تھے حالانکہ ان کے پاس اس مقصد کے لیے مناسب ہتھیار بھی نہیں تھے۔ مزید برآں اگر عام شہریوں کو نشانہ بنانے کا کوئی واقعہ ہوا بھی تو وہ حادثاتی طور پر ہوا اور قابض فوجیوں کے ساتھ تصادم کے دوران ہوا۔
۱۹۹۴ء میں مقبوضہ الخلیل کی الابراہیمی مسجد میں صہیونی مجرم بروچ گولڈ سٹین کی جانب سے فلسطینی نمازیوں کے قتل عام کے بعد، فلسطینی مجاہدین نے یک طرفہ طور پر اعلان کیا کہ تمام فریق عام شہریوں کو نشانہ بنانے سے گریز کریں۔ لیکن اسرائیلی غاصبین نے اسے مسترد کر دیا اور اس پر کوئی تبصرہ کرنا تک گوارا نہیں کیا۔ فلسطینی مزاحمتی تحریک نے بارہا اس مطالبے کا اعادہ کیا لیکن اسرائیلی غاصبین ہمیشہ اسے سنی ان سنی کرتے رہے اور انہوں نے فلسطینی عوام کو نشانہ بنانے اور انہیں شہید کرنے کا عمل جاری رکھا۔
طوفان الاقصیٰ پر عمل درآمد کے دوران اسرائیلی سکیورٹی اور فوجی نظام کی فوری ناکامی اور غزہ کی سرحد پر افراتفری مچ جانے کے نتیجے میں ممکن ہے کچھ غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہوں۔
لیکن جیسا کہ بہت سے لوگوں نے گواہی دی ہے کہ مجاہدین نے غزہ میں رکھے جانے والے تمام قیدیوں کے ساتھ مثبت اور نرمی والا رویہ رکھا اور جارحیت کے ابتدائی ایام سے ہی ان کی رہائی کے لیے کوششیں کرتے رہے اور ایک ہفتہ پر محیط انسانی بنیادوں پر کی گئی جنگ بندی کے دوران ہوا بھی یہی، جب اسرائیلی جیلوں سے فلسطینی عورتوں اور بچوں کی رہائی کے بدلے ان عام شہریوں کو رہا کیا گیا۔
اسرائیلی غاصبین جو الزامات کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کہ مجاہدین نے ۷ اکتوبر کو اسرائیلی عام شہریوں کو نشانہ بنایایہ مکمل طور پر جھوٹ اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ ایسے الزامات اسرائیلی حکام کی طرف سے لگائے جا رہے ہیں اور انہیں کسی آزاد ذرائع سے ثابت نہیں کیا جا سکا۔ یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ اسرائیلی بیانیہ ہمیشہ فلسطینی مزاحمتی تحریک کو شیطانی روپ دینے اور غزہ پر اپنی وحشیانہ جارحیت کو قانونی روپ دینے کی کوشش کرتا ہے۔
درج ذیل تفاصیل اسرائیلی الزامات کا رد کرتی ہیں:
۷ اکتوبر کو خود اسرائیلیوں کی بنائی گئی ویڈیوز اور ان کی شہادتیں جنہیں بعد میں نشر کیا گیا، ظاہر کرتی ہیں کہ مجاہدین نے عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا، اور ابہام کی وجہ سے بہت سے اسرائیلی خود اسرائیلی فوج اور پولیس کے ہاتھوں مارے گئے۔
فلسطینی مجاہدین کے ہاتھوں چالیس بچوں کے سر قلم کرنے کے الزام کی بھی سختی سے تردید کی جا چکی ہے اور خود اسرائیلی میڈیا بھی اس جھوٹ کی تردید کر چکا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے بہت سے مغربی میڈیا اداروں نے اس الزام کو اٹھایا اور اس کو بہت اچھالا ہے۔
یہ الزام کہ فلسطینی مجاہدین نے اسرائیلی عورتوں کی عصمت دری کی اس کی مکمل طور پر تردید کی گئی ہے۔یکم دسمبر ۲۰۲۳ء کو Mondoweiss نیوز ویب سائٹ کی ایک رپورٹ اور اس طرح کی دیگر رپورٹس میں کہا گیا کہ ۷ اکتوبر کو فلسطینی مجاہدین کے ہاتھوں اجتماعی زیادتیوں کے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں اور یہ کہ اسرائیل ایسے الزامات کو غزہ میں نسل کشی کو بھڑکانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ [(بے شک مجاہدینِ اسلام ایسے خسیس اعمال سے بری ہیں!(ادارہ)]
۱۰ اکتوبر کو اسرائیلی اخبار Yedioth Ahronoth اور ۱۸ اکتوبر کو Haaretz اخبار کی رپورٹس کے مطابق بہت سے اسرائیلی شہری اسرائیلی فوجی ہیلی کاپٹر سے مارے گئے بالخصوص وہ جو غزہ کے قریب Nova میوزیکل فیسٹویل میں شریک تھے، جہاں ۳۶۴ اسرائیلی شہری مارے گئے۔ رپورٹ کے مطابق فلسطینی مجاہدین جب فیسٹول کے مقام پر پہنچے تو انہیں اس فیسٹول کا پہلے سے علم نہیں تھا، جبکہ اسرائیلی ہیلی کاپٹر نے مجاہدین اور فیسٹویل کے شرکاء دونوں پر فائر کھول دیا۔Yedioth Ahronoth اخبار نے مزید کہا کہ اسرائیلی فوج نے غزہ سے مزید در اندازی اور فلسطینی مجاہدین کے ہاتھوں اسرائیلیوں کی گرفتاری کو روکنے کے لیے غزہ کی پٹی سے ملحقہ علاقے میں تین سو اہداف کو نشانہ بنایا۔
دیگر اسرائیلی شہادتوں سے تصدیق ہو گئی کہ اسرائیلی فوج کے حملوں اور سپاہیوں کی کارروائیوں کے نتیجے میں کئی اسرائیلی قیدی مارے گئے اور ان کو قید کرنے والے بھی شہید ہوئے۔ اسرائیلی غاصب فوج نے اسرائیلی آبادیوں کے ان گھروں پر بھی بمباری کی جہاں فلسطینی مجاہدین اور اسرائیلی شہری دونوں موجود تھے جو کہ اسرائیلی فوج کے بدنام زمانہ ’’ہینی بال ڈائریکٹو‘‘ (Hannibal Directive) کا واضح استعمال تھا، جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’’کسی شہری یا سپاہی کے قیدی بننے سے بہتر ہے کہ اسے مار ڈالا جائے ‘‘ تاکہ فلسطینی مزاحمتی تحریک سے قیدیوں کے تبادلے کے عمل میں پھنسنے سے بچا جاسکے۔
مزید برآں قابض حکام نے مارے جانے والے فوجیوں اور شہریوں کی تعداد ۱۴۰۰ سے گھٹا کر ۱۲۰۰ کردی، جب انہیں علم ہوا کہ ۲۰۰ جلی ہوئی لاشیں فلسطینی مجاہدین کی تھیں جو وہاں شہید ہوئے اور اسرائیلیوں کی لاشوں میں ان کی لاشیں شامل ہو گئیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس نے مجاہدین کو شہید کیا اسی نے اسرائیلی شہریوں کو بھی قتل کیا اور یہ بات معلوم ہے کہ یہ کام اسرائیلی جنگی جہازوں کا تھا۔
پورے غزہ میں شدید اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں ساٹھ اسرائیلی قیدی ہلاک ہو گئے ، یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ اسرائیلی غاصبین کو غزہ میں اپنے قیدیوں کی جانوں کی کوئی پروا نہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ غزہ کے نواح کی بستیوں میں متعدد اسرائیلی آبادکار مسلح تھے اور ۷ اکتوبر کو ان کی فلسطینی مجاہدین سے جھڑپیں ہوئیں۔ یہ لوگ عام شہریوں کے طور پر رجسٹر ہیں حالانکہ اصل میں یہ اسرائیلی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے والے مسلح لوگ ہیں۔
جب اسرائیلی شہریوں کی بات کی جاتی ہے تو یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اسرائیلی فوج میں لازمی بھرتی کا اطلاق اٹھارہ سال سے زیادہ عمر کے تمام اسرائیلیوں پر ہوتا ہے، جن میں مردوں کے لیے ۳۲ ماہ تک فوج میں خدمات سرانجام دینا جبکہ عورتوں کے لیے ۲۴ ماہ تک خدمات سرانجا دینا ضروری ہے، جہاں سب اسلحہ رکھ سکتے ہیں اور استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ ’’مسلح لوگوں‘‘ کے اسرائیلی سکیورٹی نظریے کے تحت ہے جس نے اسرائیل کو ایک’ فوج رکھنے والے ملک‘ کی بجائے ایک ’ملک رکھنے والی فوج‘ بنا دیا ہے۔
عام شہریوں کا وحشیانہ قتل اسرائیلی ادارے کا ایک منظم طریقہ کار اور فلسطینی عوام کو ذلیل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ غزہ میں فلسطینیوں کا قتلِ عام اس طریقہ کار کا واضح ثبوت ہے۔
الجزیرہ نیوز چینل کی ایک دستاویزی فلم میں کہا گیا کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے ایک ماہ کے دوران اوسطاً ۱۳۶ فلسطینی بچے غزہ میں شہید ہو رہے تھے، جبکہ یوکرین روس جنگ کے دوران، یوکرین میں مارے جانے والے بچوں کی اوسط تعداد یومیہ ایک بچہ تھی۔
جو لوگ اسرائیلی جارحیت کا دفاع کرتے ہیں وہ واقعات کو معروضی انداز میں نہیں دیکھتے بلکہ یہ کہہ کر اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے قتل عام کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حماس کے جنگجوؤں کو نشانہ بناتے وقت عام شہریوں کی ہلاکتیں ہو جاتی ہیں۔ لیکن وہ یہ مفروضہ تب استعمال نہیں کرتے جب بات ۷ اکتوبر کے طوفان الاقصیٰ کی آتی ہے۔
کوئی بھی آزاد اور منصفانہ تحقیقات اس بیانیے کی سچائی کو ثابت کر دے گی اور اسرائیل کے جھوٹ اور گمراہ کن معلومات کی حقیقت بھی کھول دے گی۔ اس میں اسرائیل کی جانب سے غزہ میں ہسپتالوں کے حوالے سے الزام بھی شامل ہے کہ فلسطینی مجاہدین انہیں بطور کمانڈ سینٹر کے استعمال کر رہے تھے، یہ ایک ایسا الزام ہے جو ثابت نہیں ہو سکا اور جسے بہت سی مغربی پریس ایجنسیز کی رپورٹس میں بھی مسترد کیا جا چکا ہے۔
٭٭٭٭٭