نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home طوفان الأقصی

ہنی بَل ڈائریکٹوْ(Hannibal Directive)

عامر سلیم خان by عامر سلیم خان
30 مارچ 2024
in طوفان الأقصی, مارچ 2024
0

سات اکتوبر کے دن جب فلسطین کے غیور مجاہدین نے ظالم، قابض اور جابر اسرائیلی انتظامیہ پر حملہ کیا تب صہیونی ظالمین غافل تھے اور ان کو بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ ٹائمز آف اسرائیل، جو کہ اسرائیل کا اپنا اخبار ہے، کے مطابق سات اکتوبر کو 1269 سرائیلی مارے گئے۔ ان مارے جانے والوں میں 274 اسرائیلی فوج کے حاضر سروس مسلح افراد تھے اور 38 پولیس کے مسلح افراد۔ اس کے علاوہ مجاہدین نے 253 صہیونیوں کو قید بھی کیا جس میں سے ایک معاہدے کے تحت 105 قیدیوں کو رہا بھی کر دیا۔ مجاہدین باقی قیدیوں کو بھی رہائی دینا چاہتے ہیں اور اس کے لیے انہوں نے پیشکش بھی کی ہے لیکن اسرائیلی قابض حکومت مجاہدین کے ساتھ مذاکرات کے بجائے قوت کے استعمال کو فوقیت دے رہی ہے ۔ اس قوت کے استعمال میں جہاں انہوں نے اپنا اصل چہرہ پوری دنیا پر واضح کردیا کہ کیسے انہوں نے ہزاروں معصوم لوگوں کی جانیں لیں، جن میں زیادہ تعداد بچوں ، خواتین اور بوڑھوں کی ہے ، ہزاروں افراد کو قید کیا اور پورے غزہ کو بمباری سے تباہ کیا لیکن حاصل کیا ہوا؟ کچھ نہیں۔

القسام بریگیڈز کے مطابق اسرائیل کی بمباری میں نہ صرف غزہ کے عام لوگوں شہید ہورہے ہیں بلکہ اسرائیل کی بمباری میں اسرائیل کے اپنے لوگ، جو مجاہدین کے پاس قید ہیں وہ بھی مارے جارہے ہیں اور اسرائیلی انٹیلی جنس ادارے نے اس بات کی تصدیق بھی کی کہ اسرائیل کی بمباری میں تیس اسرائیلی قیدی جو القسام بریگیڈز کے قبضے میں تھے مارے جاچکے ہیں۔ جبکہ القسام بریگیڈز کے اعلان کے مطابق ان قیدیوں کی تعداد جو اسرائیلی بمباری میں مارے گئے پچاس ہے۔

یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ اسرائیلی حکومت پر ان کی عوام بھی وقتاً فوقتاً دباؤ ڈالتی رہی ہے کہ ہمارے قید رشتہ داروں وغیرہ کو رہا کیا جائے اور اس کے لیے اگر مذاکرات بھی کرنا پڑیں تو کریں، جنگ بند کرنی پڑے تو بند کریں لیکن اسرائیلی حکومت اس بات کے لیے تیار نہیں اور بظاہر یہی نظر آرہا ہے کہ غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے وہ اس بات کے لیے بھی آمادہ ہیں کہ اگر ہمارے اپنے لوگ جو وہاں قید ہیں ، ان کو بھی مارنا پڑے تو مسئلہ نہیں ۔ بس ہم یہ نسل کشی کر کے ہی رہیں گے۔

سات اکتوبر کو صہیونی یہودیوں کے زیادہ تعداد میں قتل ہونے کے حوالے سے اسرائیلی اخباروں نے یہ خبر نشر کی ہے کہ اسرائیلی دفاعی افواج کو سات اکتوبر کے حملے کے دوران ہی ہنی بل ڈائریکٹو (Hannibal directive) پر عمل درآمد کا کہا گیا تھا۔ اسرائیلی فوج کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کو یر غمال بننے سے ہر قیمت (چاہے یہ قیمت ان اسرائیلیوں کی موت ہی کیوں نہ ہو) پر روکیں، جو ممکنہ طور پر بڑی تعداد میں اسرائیلی یرغمالیوں کی ہلاکت کا باعث بنا۔

یاد رہے کہ مجاہدین نے جن گاڑیوں میں حملہ کیا تھا واپسی پر ان میں سے ستر گاڑیاں اسرائیلی مزاحمت کے سبب وہیں رہ گئی تھیں۔ حالانکہ یہ واضح تھا کہ ان گاڑیوں میں مجاہدین کے ساتھ ساتھ اسرائیلی یرغمالی بھی ہوں گے لیکن اس کی پروا نہیں کی گئی اور مجاہدین کی گاڑیوں کو گن شپ ہیلی کاپٹروں سے نشانہ بنایا گیا ۔ جس میں بڑی تعداد میں اسرائیلی بھی مارے گئے۔

اسرائیلی اخبار HAARETZ کے مطابق ایسا ایک سنگین واقعہ کیبٹز بیری ( Kibbutz Be’eri) میں پیش آیا اور وہاں پر مرنے والے 14 اسرائیلیوں کے لواحقین اپنے دعوے اور مطالبے میں حق بجانب ہیں کہ اس واقعے کی تحقیقات کروائی جائیں ۔ مزید یہ کہ پیسی کوہن (Pesi Cohen) کے گھر کے باہر اکتوبر کو اسرائیلی افواج نے جو عمل کیا ، اسرائیلی دفاعی افواج اس کی وضاحت نہ صرف مارے جانے والے اسرائیلیوں کے اہل خانہ سے شریک کرے بلکہ قوم کے سامنے بھی یہ وضاحت اور صفائی بیان کرے۔

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اسرائیلی افواج سب سے بڑھ کر اس بات کی وضاحت کریں کہ سات اکتوبر کو کیبٹز بیری کے گھر میں یرغمال بنائے جانے والے یہودیوں کے خلاف نام نہاد ہنی بیل ڈاریکٹیو ، جس میں کہا گیا ہے کہ یرغمال بنائے جانے کو ہمارے اپنے فوجیوں کی جانوں کے عوض بھی روکا جائے، کا استعمال کیوں کیا گیا تھا؟

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ عوام کا مطالبہ کہ IDF ان سوالات کے جوابات اور وضاحت پیش کرے اور اس بات کی وضاحت کے لیے اس کا انتظار نہ کیا جائے کہ جنگ ختم ہو بلکہ اس بات کی وضاحت اس لیے بھی اہم ہے کہ ان کے اس طرز العمل کا باقی ماندہ مغوی قیدیوں کی قسمت (زندگیوں) سے تعلق ہے۔ (مطلب یہ کہ اگر اسرائیل نے واقعی اغواء شدہ افراد کے بارے میں ہنی بل پروٹوکول کے طریقے کا لاگو کیا ہے تو پھر مارے گئے قیدی، اور ابھی مجاہدین کے پاس موجود قیدیوں کی زندگیاں اسرائیلی حکومت و افواج کے لیے کوئی معنیٰ نہیں رکھتی)۔ اس لیے یرغمالیوں کے رشتہ دار حکومت سے اس بات کا مطالبہ کررہے ہیں کہ اپنے کیے گئے اعمال کی وضاحت کے ساتھ اس بات کا جواب دیا جائے کہ ہمارے یرغمال کئے گئے رشتہ داروں کے بارے میں آپ کی پالیسی کیا ہے؟

یاد رہے کہ کیبٹز بیری میں کوہن کے گھر پر 14 اسرائیلی یرغمال افراد اسرائیلی افواج کے اقدام کے نتیجے میں مارے گئے۔ اس بات کے دو چشم دید گواہ یاسمین بورات (Yasmin Porat) اور ہاداس داگان(Hadas Dagan) اس ہی حادثے میں شامل زندہ رہنے والے آخری دو افراد ہیں۔ یاسمین نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں اس بات کا انکشاف کیا کہ اس کو حماس کے ایک جنگجو نے جنگ کے دوران ہی رہا کیا اور وہ جیسے باہر آئی تو اس نے اسرائیلی افواج کو آگاہ کیا کہ اندر 14 اسرائیلی باشندے ہیں لیکن اس کے بعد بھی اس گھر کو ٹینک کے گولوں سے مار کر مسمار کیا گیا۔

اسی طرح ’’ہاداس ‘‘جو اس وقت بھی کمپاؤنڈ کے اندر تھا جب اسرائیلی ٹینکوں نے دو گولے اس گھر پر داغے اور گھر مکمل طور پر تباہ ہوا اور صرف وہ اس بمباری سے زندہ بچ سکا ۔ اس نے بھی یہی بیان دے کر یاسمین کی گواہی کی تصدیق کی اور یوں یہ امر ثابت ہوجاتا ہے کہ اسرائیلی افواج نے یہ بات جان کر کہ اندر 14 اسرائیلی باشندے ہیں ، تب بھی اس گھر کو مسمار کیا ۔

عوام اس لیے بھی حکومت سے اس بات کی وضاحت چاہتی ہے کہ دو ہفتے قبل ایک اسرائیلی اخبار نے اس واقعے پر تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی ۔ جس کے ایک حصے کا عنوان تھا ’’ ایک جنرل کا مخمصہ‘‘، اس حصے میں جنرل باراک حیرام جو اس آپریشن کا کمانڈر تھا ، نے اعتراف کیا کہ یہ حکم اس نے دیا تھا کہ شہری ہلاکتوں کی قیمت پر بھی کوہن کے گھر میں ٹینک کمانڈر گھس جائے۔

رپورٹ کے آخر میں کہا گیا ہے کہ عوام کو درج سوالوں کے جوابات جاننے کا حق ہے کہ کیا جنرل باراک حیرام نے اسرائیلی دفاعی افواج کے اصولوں کے مطابق یہ کام کیا یا اس نے اپنی طرف سے بے اصولی کرکے یہ آرڈرز دیے؟ دوسرا سوال کہ کیا حماس کے خلاف جنگ(غزہ پر برپا کی گئی قیامت) میں اسرائیلی افواج پر ہینی بل ڈاریکٹیو کی روح غالب ہے؟ (مطلب کیا اس طرز العمل کو اپنایا جارہا ہے؟ )

بظاہر اسرائیلی افواج کے طرز العمل سے صاف ظاہر ہے کہ اسرائیلی افواج نے اس طرز العمل کو اپنایا ہوا ہے۔ اس کی شروعات سات اکتوبر سے ہی ہوئی تھی اور غزہ کے جنوب سے لے کر، خان یونس اور اب رفح تک یہ سب کچھ جاری ہے۔ یاد رہے کہ پورے غزہ پر اسرائیل نے قبضہ کرلیا ، رفح کے ماسواء لیکن اپنے یرغمالی پیدا نہ کرسکا۔ اب جب پوری آبادی رفح تک محدود ہوچکی ہے اور رفح پر بمباری کی جارہی ہے تو صاف ظاہر ہے کہ اسرائیل یرغمالیوں کے معاملے میں ہینی بل پروٹوکول پر عمل کررہا ہے۔

یہاں ہم اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ اس متنازع طرز العمل کو سمجھ کر دشمن کی نفسیات اور اپنے عمل کا جائزہ لیں۔

Hannibal Directive کیا ہے؟

ہینی بل ڈاریکٹیو ایک طریقہ کار ہے جو اسرائیلی دفاعی افواج نے 1986ء میں اپنے فوجیوں کے لیے وضع کیا ۔ اس طریقہ کار کے مطابق ایک اسرائیلی فوجی کے اغواء(مخالفین کے قید میں جانے) کو ہر حالت میں روکنا ضروری ہے، چا ہے اس کے لیے کتنی بھی تباہی برپا کردی جائے اور چاہے اس میں خود وہ اسرائیلی فوجی جو اغوا ہورہا ہو، وہ بھی مارا جائے۔ اس ڈاریکٹیو کو ہینی بل پروٹوکول بھی کہا جاتا ہے۔ یہ قانون یا طریقہ کار دنیا سمیت خود اسرائیل میں بھی متنازع رہا۔ اسرائیل میں یہ طریقہ کار اس لیے نہیں متنازع بنا کہ اس میں اسرائیلی فوج کو دوسروں کے خلاف کھلی تباہی کی اجازت مل جاتی ہے بلکہ صرف اس لیے کہ اس سے اسرائیلی قیدی یا جو اسرائیلی اغوا ہوا ہے اس کی جان کوخود اسرائیلی فوج سے خطرہ لاحق ہوجاتا ہے کیونکہ اس طریقہ کار کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ کسی بھی حال میں اسرائیلی فوجی یا باشندے کے اغوا کو روکا جائے چاہے اس میں وہ اسرائیلی فوجی یا باشندہ بھی مارا جائے۔

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل اپنے مخالفین(فلسطینی مجاہدین) سے کتنا خائف ہے۔ اس طریقہ کار کا مقصد ہی یہی ہے کہ ہم کسی بھی طریقے سے مجبور نہ ہو ں کہ مخالفین(مجاہدین) سے مذاکرات کرنے پڑیں اور وہ ہم سے اپنی شرائط منوا سکیں۔ اس کے لیے چاہے ہمیں اپنے آدمی کو(جو اغوا ہوا ہے یا کیا جارہا ہے ) بھی مارنا پڑے۔

وکی پیڈیا کے مطابق اس پروٹوکول کے ایک ورژن میں لکھا ہے کہ :

“The kidnaping must be stopped by all means, even at the price of striking and harming our own forces.”

(Forensic Architecture, Weizman, Eyal 2017, page 176)

’’ (اسرائیلی کی) اغوا کاری کو ہر طریقے سے روکا جائے، چاہے یہ ہماری اپنی افواج کو مارنے اور نقصان پہنچانے کی قیمت پر کیوں نہ ہو۔‘‘

اس پروٹوکول کی مکمل دستاویز اسرائیل نے کبھی بھی ظاہر نہیں کی اور ہمیشہ اس کو چھپا کر رکھا گیا ۔اس سے بڑھ کر یہ کہ اس پروٹوکول پر میڈیا کے سامنے تبصرہ کرنا بھی اسرائیلی حکومت نے منع کیا تھا۔ اس میں کئی مرتبہ ترامیم کی گئیں۔ ۲۰۱۶ء میں اسرائیلی دفاعی افواج کے چیف ’’گادی ایزینکوٹ‘‘ نے اعلان کیا کہ اس پروٹوکول کو منسوخ کر کے اس کا متبادل پیش کیا جاچکا ہے۔ اس پروٹوکول کا متبادل کیا ہے؟ یہ آج تک ظاہر نہیں کیا گیا۔

وکی پیڈیا کے مطابق اس پروٹوکول کے دو ورژن ہیں۔ ایک دستوری شکل میں جو صرف اعلیٰ عہدیداروںکی دسترس میں ہے اور دوسرا زبانی طور پر جو عموماً عام فوج کو سنایا اور سمجھایا جاتا ہے جس کا خلاصہ ہے کہ:

An IDF soldier was, better dead than abducted.

’’اسرائیلی دفاعی افواج کا (کوئی بھی)فوجی، بہتر ہے کہ مارا جائے(اپنوں کے ہاتھوں کیوں نہ سہی) اس سے کہ وہ اغواکیا جائے۔‘‘

ہینی بل پروٹوکول کیوں بنایا گیا؟

اسرائیلی حکومت نے فلسطین پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اب یہ قبضہ سو فیصد اسلحے اور مادے کی قوت پر ہے۔ یہ قوت نہ ہو تو اسرائیلی قابض ریاست ایک دن کے لیے بھی اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکے۔ اس قوت سے اسرائیل نے جو کچھ حاصل کیا ہے ، اگر ان پر سمجھوتے کا معاملہ آجائے تو یہ اسرائیل کے لیے بڑے نقصان کے مترادف ہے۔ اس کے لیے کہ جو کچھ ہم نے حاصل کیا ہے، جو قبضہ ہم نے کیا ہے، اس کے لیے لوگوں کو قید کیا ہے، یہ ہمارے ہاتھ سے کسی مجبوری کی وجہ سے چلا نہ جائے۔

اس کی ایک صورت یہ ہے کہ مجاہدین ان کے فوجیوں کو اغواء کرکے ان سے اپنی شرائط منوالیں۔ جو اسرائیل کے لیے بہت نقصان دہ ہے اور اسی طرح کا واقعہ 1986ء میں پیش آیا جب جنوبی لبنان میں اسرائیلی قبضے کے دوران ان کے تین فوجیوں کو اغوا کیا گیا۔ اس کے بعد اسرائیلی دفاعی افواج میں یہ پروٹوکول متعارف کروایا گیا کہ کسی بھی صورت اپنے فوجیوں کی اغوا کاری کو روکنا ہے، چاہے وہ ان کی موت کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔

اس لیے خود اسرائیل کے اندر یہ پروٹوکول انتہائی متنازع ہے اور اس کو جب بھی لاگو کیا گیا تو خفیہ کمانڈز سے لاگو کیا گیا۔

اس پروٹوکول کی سنگینی

اس پروٹوکول کے مادے انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں۔ جہاں خود اسرائیلی عوام اپنے رشتہ داروں کی زندگیوں کو اس پروٹوکول سے خطرے میں محسوس کرتے ہیں وہیں اس پروٹوکول میں مزید بھی خفیہ ہدایات ایسی ہیں کہ جو کسی بھی انسانی ضابطے کے خلاف تصور کی جاتی ہے۔ ہینی بل پروٹوکول جیسے ہی نافذ العمل ہوجاتا ہے اس کے بعد اس پروٹوکول کے تحت اسرائیلی فوج کے fire engagement rules یعنی کسی کے ساتھ مسلح تصادم کے اصول بھی تبدیل ہوجاتے ہیں۔

اس کی ایک مثال یکم اگست 2014ء میں غزہ پر اسرائیلی وحشیانہ بمباری ہے۔ یہ بمباری تب کی گئی جب ایک اسرائیلی لیفٹیننٹ حادار گولدن کو حماس کے مجاہدین نے اغوا کیا۔ اس کے بعد اسرائیلی افواج کو ہینی بل پروٹوکول پر عمل کا کہا گیا۔ اسرائیلی افواج نے رفح کے علاقے میں فضائی و زمینی آپریشن کیا۔ اغوا کے بعد صرف تین گھنٹوں میں 200 فلسطینیوں کو شہید کیا گیا جس میں 75 بچے شامل تھے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور فارنزک آرکیٹیکچر کے مطابق اسرائیل نے اس آپریشن میں سنگین قسم کے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا۔

اس بات کی گواہی خود ایک اسرائیلی انفنٹری کے فوجی نے، جو اس آپریشن میں شامل تھا، بھی ایک این جی او Breaking the silence کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی کہ جیسے ہی ’’ ہینی بل ڈاریکٹیو ‘‘ کے نفاذ کا اعلان ہوتا ہے تو اس کے نتائج (سنگین) آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس پروٹوکول کے نفاذ کے ساتھ ہی گولی چلانے کا ایک ایسا قانون لاگو ہوجاتا ہے جس کو ’’ ہینی بل فائر طریقہ کار‘‘ Hannibal fire procedure کہا جاتا ہے اور جس کے تحت راستے میں نظر آنے والے ہر مشکوک شخص، چیز اور جگہ پر گولیاں چلانا ہوتا ہے۔1

غالباً یہی وجہ ہے کہ اس وقت غزہ میں محصور عوام جب کیمپوں سے اس غرض سے نکلتے ہیں کہ پانی، روٹی یا دیگر بنیادی ضروریاتِ زندگی کا بندوبست کیا جاسکے تو اسرائیلی فوج سنائیپرز کے ذریعے ان کو چن کر نشانہ بناتے ہیں۔ یہ مجرمانہ عمل کئی بچوں اور خواتین کے خلاف بھی کیا گیا، جس کی ویڈیوز انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔

اس کا نام Hannibal کیوں رکھا گیا؟

اسرائیلی عہدیداروں کے مطابق یہ نام بغیر کسی خاص وجہ کے رکھا گیا، لیکن کچھ ذرائع کہتے ہیں کہ یہ نام قدیم یہودی جنگجو ’’ ہینی بل‘‘ کے نام سے منسوب ہے جس نے رومیوں کی قید سے بچنے کے لیے زہر کھا کر خودکشی کی تھی۔ اس لیے اس کے اس عمل سے متأثر ہوکر کہ اس نے دشمن کی قید میں جانے سے اپنے آپ کو مارنا بہتر سمجھا ، یہ نام رکھا گیا۔2

ہماری ذمہ داری

یہاں ہم نے دشمن کے ایک جنگی اصول کا تجزیہ کیا۔ اس سے جو بنیادی بات ثابت ہوئی وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن یہودی ہم سے جنگ کے لیے جو اصول اپناتا ہے وہ اس کے اپنے لوگوں ، اپنی عوام کے مطابق بھی صحیح نہیں اور وہ جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والے اصول ہیں۔ خود ان کی اپنی عوام ان جنگی اصولوں سے خائف ہیں تو جن کے خلاف ان اصولوں کا واقعی استعمال ہورہا ہے( اہلِ غزہ ) ان کے بارے میں کیا تصور کیا جائے کہ ان کو ان جنگی اصولوں سے کتنا خطرہ ہوگا؟

کیا ہماری ذمہ داری نہیں کہ ہم اہلِ غزہ کے لیے مؤثر طریقے سے آواز اٹھائیں؟ کیا اہلِ غزہ کی نسل کشی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں رہیں؟ کیوں ہمارا خون ٹھنڈا پڑ چکا ہے؟ ہماری حکومت ، ہمارے افواج کیوں ساکت ہیں؟ ساکت کیا ہمارے افواج تو اپنے بحری مشنز اہلِ غزہ کے کاز کے خلاف بھیج رہی ہیں۔ کیا ہمارا اس پر خاموش رہنا، ہماری دنیا و آخرت کے لیے خطرناک نہیں؟

اسرائیلیوں کے 14 لوگ مارے جاتے ہیں اور ان کے عزیز ان کے لیے دھرنے دیتے ہیں، ان کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ دوسری طرف 30000 ہمارے مسلمان فلسطینی بھائی ، بہنیں اور بچے شہید کیے جاچکے ہیں لیکن ہم اتنا نہیں کرسکے کہ امریکہ کے سفارت خانے کے سامنے دھرنا دیں؟ کیونکہ اسرائیل کا سارا اسلحہ اور سپورٹ امریکہ فراہم کررہا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے اس قاتل امریکہ کی سفارت پر ، جو اصل میں سفارت نہیں بلکہ ہمارے ملک پر امریکی حکمرانی و شیطانیت کا اڈہ ہے ، اس پر حملہ ہوتا، اپنے فلسطینی مظلومین کا بدلہ لیا جاتا، لیکن یہ نہ صحیح، جمہوری اور آئینی تقاضوں کے مطابق احتجاج، دھرنا وغیرہ تو کیا جاتا! لیکن ہم یہ بھی نہ کرسکے۔ حال یہ کہ پاکستانی عوام الیکشن میں ایک سیٹ ہارنے پر احتجاج، دھرنے، جلسے جلوس اور یہاں تک کہ پولیس و فوج کی گولیاں کھانے کو تیار ہے لیکن اپنے مسلمان مظلوم فلسطینی بھائی ، بہنوں کے معاملے میں خاموش۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اسرائیل نے ایسا اصول بنایا ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے ناجائز مقاصد کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار ہے۔ اس کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اپنے فوجی بھی مارنے پڑے تو وہ انہیں مارنے کا قانون تک بنادیتا ہے۔ دوسری طرف فلسطین کا مسئلہ مسلمانوں کے لیے بنیادی نوعیت کا ہے۔ مسجدِ اقصیٰ مسلمانوں کی مقدسات میں سے ہے لیکن مسلمان اس کی آزادی کے لیے، اس کی ناموس کے لیے اس طرح سنجیدہ نہیں جس طرح ہونا چاہیے۔ مسلمانوں نے ماضی میں بھی غفلت برتی اور آج بھی یہی حال ہے کہ مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے کوئی تیاری(اعداد) نظر نہیں آرہی۔ جو گنے چنے مجاہدین امت کے شرق و غرب میں اس مقصد کو بنیاد بنا کر جدوجہد کررہے ہیں ان کی اولین دشمن مسلمانوں کی اپنی حکومتیں اور افواج بنی ہوئی ہیں۔ کیا مسلمانوں پر لازم نہیں کہ مقبوضہ مسلم خطوں کی بازیابی کے لیے اٹھنے والے مجاہدین، تحریکات کا ساتھ دیں ، ان کی حمایت اور حفاظت کریں؟

ہم سب پاکستانی مسلمانوں پر لازم ہے کہ غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کریں۔ مدد صرف یہ نہیں کہ ان کے لیے کپڑیں یا کمبل بھیجیں۔ آخر شہیدوں کو کپڑوں اور کمبلوں کی کیا ضرورت؟ ہمیں ان کی نسل کشی روکنی چاہیے۔ اپنی حکومت اور فوج کو مجبور کیا جائے کہ وہ اقدام کر سکیں۔ نہیں تو ایسی حکومت اور فوج سے چھٹکارا حاصل کیا جائے اور ایسے با ایمان وغیرت مند افراد کو اقتدار تک پہنچایا جائے جو امت کا درد محسوس کرتے ہوں، اس درد کا درماں کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں، اس کے لیے قربانی کے لیے تیار ہوں۔ یہ تڑپ ان مومنوں میں نظر آتی ہے جو جہاد کے فرض کی ادائیگی کرتے ہیں۔ پس دعوت و جہاد سے ایسے لوگوں کو سامنے لایا جائے جو امت کے مسائل کے حل کے بارے میں سنجیدہ ہوں۔ ایسی تحریکات کا ساتھ دیا جائے جو مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے کفار و منافقین کے خلاف برسر پیکار ہوں۔ یہی غزہ کے مسلمانوں کی نصرت کا راستہ ہے۔

٭٭٭٭٭


1 This is how we fought in Gaza: Soldiers testimonies and photographs from operation Protective Edge

2 Hadar Goldin and The Hannibal Directive by Ruth Margalit, The New Yorker, August 6, 2014

Previous Post

امارت اسلامیہ افغانستان کے فلاحی و ترقیاتی منصوبے

Next Post

چھلنی

Related Posts

مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!
طوفان الأقصی

کوئی غنڈہ اپنے بل پر غنڈہ نہیں ہوتا

13 اگست 2025
غزہ: خاموشی جرم میں شرکت ہے!
طوفان الأقصی

غزہ: خاموشی جرم میں شرکت ہے!

13 اگست 2025
مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!
طوفان الأقصی

مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!

13 اگست 2025
فلسطینی صحافی انس الشریف کی وصیت
طوفان الأقصی

فلسطینی صحافی انس الشریف کی وصیت

13 اگست 2025
اہلیانِ غزہ کی فوری مدد کے لیے ہنگامی اپیل
طوفان الأقصی

اہلیانِ غزہ کی فوری مدد کے لیے ہنگامی اپیل

13 اگست 2025
طوفان الأقصی

قبلۂ اوّل سے خیانت کی داستان – مراکش

12 اگست 2025
Next Post
چھلنی

چھلنی

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version