غزہ کی جنگ ایک ایسی کسوٹی ہے جس نے ایمان و نفاق کے خیموں کو جدا کر دیا۔ قریباً سات سو روز سے جاری اس معرکۂ ایمان و مادیت کے بعد، ہم اب ’الکفر ملۃ واحدۃ‘ کا فلسفہ یہاں سمجھانا ایک عبث کام سمجھتے ہیں۔ ہمارا موضوع وہ ہے جس کے متعلق ایک قول معروف ہے کہ ’القدس لوگوں کے چہروں پر پڑے نقاب کو ہٹا دے گا‘۔ یہ تاریخ میں پہلی بار نہیں ہو رہا کہ منافقوں کے چہروں پر پڑا نقاب الٹا گیا ہو، کئی واقعات ایسے رونما ہوتے رہے ہیں، لیکن کسی منافق چہرے کو پہچاننے کے لیے صرف اس کے چہرے پر پڑے نقاب کو الٹنا کافی نہیں ہوتا، بلکہ آنکھیں درکار ہوتی ہیں جو حُسن و قُبح میں تفریق کر سکیں اور وہ دل چاہیے ہوتا ہے جو اس ایمان و نفاق کا فرق سمجھ سکے۔ یہی دیدۂ بینا اور یہی قلبِ شُنوا اگر ہو تو ہم اس نفاق کے بارے میں بات کرتے ہیں، جس کے چہرے پر سے نقاب الٹ چکا ہے۔
القدس مسلمانوں کا بنیادی ایمانی مسئلہ ہے۔ جو کوئی قدس کے بارے میں ذرا سی لیت و لعل سے کام لے یا اس الجھن کا شکار ہو کہ قدس مسلمانوں کا مسئلہ ہے یا نہیں تو اس کے ایمان و اسلام پر مسلمانوں میں سے کوئی کم سِن بچہ بھی شک کرے گا، جی ہاں! قدس ہمارے ایمانوں میں اس قدر راسخ اور پختہ امر ہے! مسلمانوں نے کسی چپہ برابر زمین پر ایک دم کے لیے بھی اگر حکومت کی ہو تو اس چپہ بھر زمین کو دوبارہ حاصل کرنا مسلمانوں پر واجب ہے، تو قدس کے بارے میں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ قدس جہاں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی جائے اسراء و معراج ہے، جہاں حبیبِ دو جہاںؐ نے کم و بیش سوا لاکھ انبیاء کو نماز پڑھائی، جو انبیائے کرامؑ کا مسکن و وطن رہا، ہمارا قبلۂ اول، حشر و نشر کی سرزمین، حضرتِ فاروقِ اعظم کی امانت۔
اس قدس، اس شہرِ سلامتی، اس یروشلم کو تقسیم کرنا اور صہیونی سازش کے تحت نتیجتاً مسجدِ اقصیٰ کا انہدام، ایسے کسی بھی منصوبے کا حصہ بننا اسلام کے ساتھ کھلی غداری و خیانت ہے۔ اس خیانت کی تاریخ خلافتِ عثمانیہ سے دغے کے ساتھ شروع ہوئی، وہاں بھی کچھ آلِ رسولؐ سے ہونے کے دعوے دار ’سیّد‘ تھے۔ پھر یہ دغا دینے والے اردن کا ’ہاشمی شاہی خاندان‘ بن گئے۔ وقت کے ساتھ اسرائیل کے گرد موجود ’اسلامی‘ ممالک سب کے سب اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن کی طرف بڑھ گئے۔ ترکی، مصر، سوڈان، مراکش، عرب امارات، عمان، کویت، بحرین وغیرہ۔ نوے کی دہائی میں دولتِ قطر کو جب اندیشہ ہوا کہ وہ بھی بحرین کی طرح سعودی عرب کے باج گزار بن جائیں گے، تو انہوں نے امریکہ کی مدد سے اپنے آپ کو خود مختار بنانا چاہا اور اس کے لیے ’امریکہ جن‘ جس کی جان ’اسرائیل طوطے‘ میں تھی کے چرنوں میں یا پنجوں میں جا کر بیٹھ گئے۔ اسرائیل کے ساتھ خفیہ ساز باز کے نتیجے میں امریکہ ’بہادر‘ کی خوشنودی حاصل ہوئی ، بدلے میں انہوں نے اپنی سرزمین امریکی فوجی اڈوں کے لیے پیش کی۔ سعودی عرب میں چند برس قبل ایسے ڈرامے نشر ہونا شروع ہوئے جہاں اسرائیل کے ساتھ ’بزنس‘ کی باتیں چلیں۔ ابنِ سلمان نے سعودی عرب میں نیتن یاہو کی دعوت کی۔ ابراہم اکارڈز یا براہیمی معاہدے کی طرف ایک اہم قدم بڑھایا گیا۔ چند برس قبل اس نارملائزیشن کے لیے عرب امارات اپنے ساتھ بحرین و سوڈان کو اسرائیل کی غلامی میں لایا تھا۔ تو قریباً دو سال قبل ابنِ سلمان اس منصوبے کے ساتھ اسرائیل کے پاس گیا کہ وہ بھی نارملائزیشن، قدس کی تقسیم، نام نہاد دو ریاستی حل کے ڈھونگ کو ماننے کو تیار ہے اور وہ اکیلا نہیں آئے گا، اس کی نجد کے صحرا میں ایک مضبوط ’اسلامی‘ ملک کی اہم شخصیت سے ملاقات ہو چکی ہے، اور یہ اہم اسلامی ملک بھی ساتھ ہی اس براہیمی معاہدے کا حصہ بنے گا۔
ابنِ سلمان سے صحرائے نجد میں دو سال قبل عاصم منیر کی ملاقات ہوئی تھی، اس ’سیّد‘ کو بھی شریف ِ مکہ ’سیّد‘حسین جیسا آلِ رسولؐ سے ہونے کا دعویٰ ہے اور اس کا آج کا عمل بھی کل کے شریفِ مکہ جیسا ہی ہے۔ یہ سب اقدامات مثبت جانب بڑھ رہے تھے کہ القدس کے محافظ قسامی مجاہدین نے تاریخ کا دھارا موڑتا معرکہ، طوفان الاقصیٰ، سات اکتوبر ۲۰۲۳ء کی ایک بابرکت صبح کو ساعاتِ فجر میں برپا کر دیا۔
طوفان الاقصیٰ نے کفر، خصوصاً صہیون کے منصوبوں اور مفادات کو جو ناکوں چنے چبوائے سو چبوائے، ہوا میں پیرا شوٹوں سے لٹک لٹک کر صہیون کے بیٹوں اور بیٹیوں کے کلیجوں میں جو نبیٔ برحقؐ کی امت کا نبوی رعب ڈالا سو ڈالا، ایک عظیم کارنامہ یہ مجاہدینِ حق یہ بھی سر انجام دے گئے کہ براہیمی معاہدے کے سبھی منصوبوں کو سالوں پیچھے دھکیل گئے۔ براہیمی معاہدے کے چیتھڑے جب فضا میں یہودِ نا مسعود کی لاشوں کے ساتھ بکھرے تو عرب و عجم کے منافقوں کی چیخیں سننے کے قابل تھیں۔ اسرائیل کا پشت پناہ امریکہ جس قدر بھی مضبوط ہو جائے اس قدر قدرت و دلیری نہیں رکھتا کہ وہ نارملائزیشن کے ان چند اقدامات سے پہلے قدس پر مکمل قبضہ اور پھر گریٹر اسرائیل کو قائم کر دے۔ قرطبہ تا مرشد آباد و سرنگا پٹم، کافروں کو ایسے منافق کرداروں کی ضرورت ہوتی ہے جو اندر سے مسلمانوں کی صفوں کو کھوکھلا کریں۔
دوسری طرف دجّال و پیروکارانِ دجّال قدس پر جلد از جلد قبضے کے خواہاں ہیں۔ ایک طرف طوفان الاقصیٰ کا عالمی معرکہ برپا ہے جو صرف غزہ و جوارِ قدس میں نہیں فلپین تا فلسطین لڑا جا رہا ہے، ترکستان تا صحرائے اعظم۔
یہی منظرنامہ ہے جس میں عاصم منیر کو امریکہ میں ٹرمپ اپنی میز پر کھانے کے لیے مدعو کرتا ہے۔ دورانِ لنچ کیا گفتگو ہوئی، اصل احوال تو اس میز پر کھانا کھانے والے امریکی اور امریکیوں کے فرنٹ لائن اتحادی ہی جانتے ہیں، لیکن باہر بیٹھے لوگ اس لنچ کے بعد ہونے والے واقعات سے بخوبی واقف ہیں کہ کیا سمت وہاں متعین ہوئی تھی۔ خواجہ آصف سے رانا ثناء اللّٰہ تک جیسے لوگوں کے منہ سے نکلتے جھاگ اور بیانات عکاس ہیں کہ عاصم منیر (جس کے روحانی اجداد جرنیل کشمیر کا سودا کرنے والے تھے) نے قدس کا سودا براہیمی معاہدے میں حصہ ڈالنے کے لیے منظور کر لیا ہے۔ عالمِ اسلام کا کوئی اہم ملک اب نہیں بچا کہ جو اس براہیمی معاہدے کا حصہ خفیہ یا اعلانیہ طور پر نہ ہو۔
یوں تو ویسے بھی اسرائیل امریکہ اور امریکہ اسرائیل کا ہم معنیٰ نام و عنوان و طاقت ہے۔ غزہ میں ہزاروں ٹن آہن و بارود برسانے والے امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی ہونا ایک سادے سے مساویے (equation) کے تحت اسرائیل کا حامی و فرنٹ لائن اتحادی ہونا ہے، لیکن براہِ راست اسرائیل سے ساز باز،یہ تو اسفل درجے کا عمل ہے۔ امریکی ڈیپ سٹیٹ کی خدمت سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی نمک خواری تک کرنے والے کچھ لوگوں کا ٹی وی پر آ کر یہ ماحول بناناکہ فلسطین تو مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے، کوئی سادہ بات نہیں ہے۔ یہ کٹھ پتلیاں ہیں جو آقا کے حکم کے مطابق خفیہ پالیسیوں کے لیے ماحول سازی کی خدمت سرانجام دیا کرتی ہیں۔
یہاں اسی دھرتی پر پرویز مشرف جیسا ایسا جرنیل گزرا ہے جس نے “Need to know basis”کے فلسفے پر گوادر کی بندر گار، شمسی و جیکب آباد کے ہوائی اڈے امریکیوں کو رہن رکھوا دیے اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہونےدی1بحوالہ شہید مجاہد فی سبیل اللّٰہ جنرل شاہد عزیز رحمہ اللّٰہ رحمۃ ًواسعۃً (یہ خاموشی کہاں تک؟)۔ جنرل عاصم منیر ، پرویز مشرف سے زیادہ مکار اور کایاں شخص ہے، جو سودا ٹرمپ کے ’حلال مینیو والے لنچ ٹیبل‘ پر یہ مُکا کر آیا ہے، اس کا ایک چہرہ تو وہ ہے جو خواجہ آصف و رانا ثناء اللّٰہ کی زبانوں اور ٹرمپ کے لیے امن کے نوبل انعام کی تجویز کی صورت میں ظاہر ہے اور جو ڈیل یہ پسِ پردہ کر کے آیا ہے وہ ’قدس شریف‘ کا سودا ہے، رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی جائے معراج کا سودا ہے۔ یہی وہ سودا ہے جس کے نتیجے میں ’مینوں نوٹ وِکھا‘ اور ’میری خدمات ویکھ‘ اور پھر وزیرستان کے مسلمانوں کے خلاف ایک نیا آپریشن آج نہیں تو کل ، کل نہیں تو پرسوں ہو گا۔ برِّ صغیر میں لشکرِ مہدی علیہ الرضوان کو منظم کرنے کی کوششوں کے خلاف کام ہو گا اور یہ یقینی بنایا جائے گا کہ کوئی پاکستانی کلمہ گو نصرتِ قدس کے لیے ہجرت و جہاد تو دور کی بات ہے سوشل میڈیا پر چند حروف بھی نہ لکھ پائے۔ آرویلین (Orwellian)’پولیس سٹیٹ‘ میں یہ ’پیکا‘ قانون ، اجتماعی نگرانی (Mass Surveillance) کے ذریعے نوجوانوں کو اٹھائے گا، عفیفات کے گھروں میں گھسے گا ۔لیکن یہ دعوت و جہاد کا کاروان تو نہ رکنے پائے گا، لوحِ ازل میں یہی درج ہے!
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
پچھلے سو سال کے مسلمان حکمرانوں کے افعال و اعمال، ان کے غدر و خیانت، دھوکے اور دغابازیوں کی داستان اور ان کے نفاق پر سے نقاب تو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سِرک رہا ہے۔ سوال بس راقم و قاری کے لیے وہی رہ جاتا ہے کہ ہم اور آپ اس جنگ میں کہاں کھڑے ہیں؟
غزہ کی نصرت میں حائل خائنوں سے نمٹنے کی پکار ہے، ایک طرف غزہ کے مظلومین ہیں تو دوسری طرف وقت کے عظیم ترین خائن، عاصم منیر ،ابنِ سلمان، ابنِ زاید، تمیم، شاہ عبد اللّٰہ ، اردگان ، سیسی اور ان کی قبیل ہے ۔ چودہ صدیوں پہلے کے کربلا میں بھی بھوک اور پیاس کے ساتھ خانوادۂ رسول (علیہ وعلی آلہ وصحبہ ألف صلاۃ وسلام) کا قتلِ عام تھا اور آج کے کربلا، غزہ میں بھوک اور پیاس کے ساتھ امتِ رسول (علیہ وعلی امتہ ألف صلاۃ وسلام) کا قتلِ عام جاری ہے۔
جنگ میں ترجیحات بہت ضروری و اہم ہیں۔ سب سے بڑے دشمن اسرائیل اور اس کے پشت پناہ امریکہ کو جہاں جہاں ضرب لگائی جا سکے تو للکار و تلوار سے لگائی جائے، یہی ہدفِ اولین ہے پھر جہاں جہاں اسرائیل و امریکہ سے براہیمی معاہدہ کرنے والے، اہالیانِ غزہ کی نصرت سے ہمیں روکیں تو ان کے سامنے بھی مثلِ حسین ابنِ علی و مثلِ عبد اللّٰہ ابنِ زبیر رضی اللّٰہ عنہم ڈٹنے کی ضرورت ہے۔ وہی پکار ہے، وہی معرکہ ہے، وہی دشت و بلا ہے، ویسی ہی اخروی کامیابیوں اور ناکامیوں کے دفتر کھولے صفحاتِ تاریخ ہمارے اور آپ کے منتظر ہیں۔ ایک طرف شریفِ مکہ حسین ابنِ علی کی ’سنت‘ ہے، خلافت و تحریکِ خلافت ریشمی رومال سے دغا ہے، دھوکہ ہے، خیانت ہے، طاغوت سے دوستی و ولاء ہے، تو دوسری طرف ایسے خائنوں کے مقابل حسینؓ ابنِ علیؓ کی سنت ہے اورہم نواسۂ رسولؐ ہی کی سنت پر عمل کرنے والے ہیں، چاہے قافلہ لٹ جائے، آل و اولاد قتل ہوجائے اور پاک دامن بیبیاں بے ردا ہو جائیں، لیکن سنت و شریعتِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر آنچ نہ آئے!
ہم راہ روِ دشتِ بلا روزِ ازل سے
اور قافلہ سالار حسینؓ ابنِ علیؓ ہے!
اللھم اهدنا فيمن هديت وعافنا فيمن عافيت وتولنا فيمن توليت وبارك لنا فيما أعطيت وقنا شر ما قضيت إنك تقضي ولا يقضی عليك وإنه لا يذل من واليت ولا يعز من عاديت تبارکت ربنا وتعاليت!
اللھم وفقنا لما تحب وترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم اهدنا لما اختلف فيه من الحق بإذنك. اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وارضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!
- 1بحوالہ شہید مجاہد فی سبیل اللّٰہ جنرل شاہد عزیز رحمہ اللّٰہ رحمۃ ًواسعۃً (یہ خاموشی کہاں تک؟)