اِس زمانے میں دین کی طرف سے جتنی بے توجہی اور بے التفاتی کی جارہی ہے وہ محتاج بیان نہیں، حتیٰ کہ اہم ترین عبادت نماز جو بالاتفاق سب کے نزدیک ایمان کے بعد تمام فرائض پر مقدم ہے، اور قیامت میں سب سے اول اِسی کامطالبہ ہوگا، اِس سے بھی نہایت غفلت اور لاپرواہی ہے، اِس سے بڑھ کر یہ کہ دین کی طرف متوجہ کرنے والی کوئی آواز کانوں تک نہیں پہنچتی، تبلیغ کی کوئی صورت بارآور نہیں ہوتی، تجربے سے یہ بات خیال میں آئی ہے کہ نبیٔ اکرم ﷺکے پاک اِرشادات لوگوں تک پہنچانے کی سعی کی جائے؛ اگرچہ اِس میں بھی جو مزاحمتیں حائل ہیں وہ بھی مجھ سے بے بِضاعَت کے لیے کافی ہیں، تاہم اُمید یہ ہے کہ جو لوگ خالی الذہن ہیں اوردین کامقابلہ نہیں کرتے ہیں، یہ پاک الفاظ ان شاء اللہ تعالیٰ اُن پر ضرور اثرکریں گے، اورکلام وصاحبِ کلام کی برکت سے نفع کی توقع ہے،…… اِس رسالے میں صرف نماز کے متعلق چنداحادیث کا ترجمہ پیش کرتاہوں؛ چوں کہ نفسِ تبلیغ کے متعلق بندۂ ناچیز کاایک مضمون رسالہ ’فضائلِ تبلیغ‘کے نام سے شائع ہوچکاہے، اِس وجہ سے اِس کو سلسلۂ تبلیغ کانمبر۲ قرار دے کر’فضائلِ نماز‘ کے ساتھ موسوم کرتا ہوں۔ وَمَا تَوْفِیْقِيْ إِلَّا بِاللّٰہِ، عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ، وَإِلَیْہِ أُنِیْبُ.
نماز کے بارے میں تین قسم کے حضرات عام طورسے پائے جاتے ہیں: ایک جماعت وہ ہے جو سرے سے نماز ہی کی پرواہ نہیں کرتی، دوسرا گروہ وہ ہے جو نماز تو پڑھتا ہے مگر جماعت کا اہتمام نہیں کرتا، تیسرے وہ لوگ ہیں جو نماز بھی پڑھتے ہیں اور جماعت کابھی اہتمام کرتے ہیں مگرلاپرواہی اور بری طرح سے پڑھتے ہیں؛ اِس لیے اِس رسالے میں تینوں مضامین کی مناسبت سے تین باب ذکر کیے گئے ہیں، اور ہر باب میں نبیٔ اکرم ﷺکے پاک اِرشادات اور اُن کا ترجمہ پیش کردیاہے؛ مگرترجمے میں وضاحت اور سہولت کالحاظ کیا ہے، لفظی ترجمے کی زیادہ رعایت نہیں کی ۔
فصلِ اول: نماز کی فضیلت کے بیان میں
1. عَن بنِ عُمَرَ رَضِيَ اللہُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: ’’بُنِيَ الإِسْلَامُ عَلیٰ خَمْسٍ: شَهَادَۃُ أَنْ لَّاإِلٰہَ إِلَّااللہُ وَأَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ، وَإِقَامُ الصَّلَاۃِ، وَإِیْتَاءُ الزَّکَاۃِ، وَالْحَجُّ، وَصَوْمُ رَمَضَانَ‘‘. (متفق علیہ)
حضرت عبداللہ بن عمرنبیٔ اکرم ﷺ کاارشاد نقل کرتے ہیں کہ اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر ہے: سب سے اوَّل لَاإِلٰہَ إِلَّااللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ کی گواہی دینا، یعنی اِس بات کا اقرار کرنا کہ اللہ کے سِوا کوئی معبود نہیں، اورمحمدﷺ اُس کے بندے اوررسول ہیں، اُس کے بعد نماز کاقائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا،حج کرنا، رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔
فائدہ:یہ پانچوں چیزیں ایمان کے بڑے اُصول اوراہم ارکان ہیں، نبیٔ اکرم ﷺ نے اِس پاک حدیث میں بطورِ مثال اسلام کوایک خیمے کے ساتھ تشبیہ دی ہے جوپانچ ستونوں پرقائم ہوتا ہے، پس کلمۂ شہادت خیمے کی درمیانی لکڑی کی طرح ہے، اور بقیہ چاروں ارکان بمنزلہ اُن چارستونوں کے ہیں جو چاروں کونوں پرہوں، اگر درمیانی لکڑی نہ ہو تو خیمہ کھڑا ہوہی نہیں سکتا، اوراگر یہ لکڑی موجود ہو اور چاروں طرف کے کونوں میں کوئی سی لکڑی نہ ہو، توخیمہ قائم تو ہوجائے گا؛ لیکن جس کونے کی لکڑی نہیں ہوگی وہ جانب ناقص اور گری ہوئی ہوگی۔ اِس پاک ارشادکے بعد اب ہم لوگوں کواپنی حالت پر خود ہی غور کرلیناچاہیے کہ اِسلام کے اِس خیمے کوہم نے کس درجے تک قائم کر رکھا ہے اور اِسلام کا کون سا رُکن ایسا ہے جس کوہم نے پورے طور پر سنبھال رکھا ہے۔ اِسلام کے یہ پانچوں اَرکان نہایت اہم ہیں، حتی کہ اِسلام کی بنیاد اِنہی کو قرار دیا گیا ہے، اور ایک مسلمان کے لیے بحیثیت مسلمان اِن سب کا اہتمام نہایت ضروری ہے؛ مگر ایمان کے بعدسب سے اہم چیزنماز ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضورﷺ سے دریافت کیا کہ اللہ تعالیٰ شانہٗ کے یہاں سب سے زیادہ محبوب عمل کون سا ہے؟ ارشاد فرمایا : نماز، میں نے عرض کیا کہ اِس کے بعدکیا ہے؟ ارشادفرمایا: والدین کے ساتھ حسنِ سلوک، میں نے عرض کیا: اِس کے بعد کون سا ہے؟ ارشاد فرمایا: جہاد۔ (بخاری، مواقیت الصلاۃ، حدیث: ۵۲۷)
مُلاَّعلی قاریؒ فرماتے ہیں کہ اِس حدیث میں عُلما کے اِس قول کی دلیل ہے کہ ’’ایمان کے بعد سب سے مقدم نمازہے‘‘۔ اِس کی تائید اُس حدیثِ صحیح سے بھی ہوتی ہے جس میں ارشاد ہے: ’’اَلصَّلَاۃُ خَیْرُ مَوْضُوْعٍ‘‘ یعنی بہترین عمل جو اللہ تعالیٰ نے بندوں کے لیے مقرر فرمایا وہ نماز ہے۔ (مسند احمد، حدیث:۲۱۵۴۶)
2. عَنْ أَبِيْ ذَرٍّ أَنَّ النَّبِيَّﷺ خَرَجَ فِيْ الشِّتَاءِ وَالْوَرَقُ یَتَهَافَتُ، فَأَخَذَ بِغُصْنٍ مِّنْ شَجَرَۃٍ، قَالَ: فَجَعَلَ ذٰلِكَ الْوَرَقُ یَتَهَافَتُ، فَقَالَ: یَاأَبَاذَرٍّ! قُلْتُ: لَبَّیْكَ یَارَسُوْلَ اللہِ! قَالَ: إِنَّ الْعَبْدَ الْمُسْلِمَ لَیُصَلِّيَ الصَّلَاۃَ یُرِیْدُ بِهَا وَجْہَ اللہِ، فَتَهَافَتَ عَنْہُ ذُنُوْبُہٗ کَمَا تَهَافَتُ هٰذَا الْوَرَقُ عَنْ هٰذِہِ الشَّجَرَۃِ. (رواہ أحمد)
حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبیٔ کریم ﷺسردی کے موسم میں باہر تشریف لائے، جب کہ پتے درختوں سے جھڑ رہے تھے، آپ ﷺنے ایک درخت کی ٹہنی ہاتھ میں لی، اُس کے پتے اوربھی گرنے لگے، آپ ﷺنے فرمایا: اے ابوذر! مسلمان بندہ جب اخلاص سے اللہ کے لیے نمازپڑھتا ہے تو اُس کے گناہ ایسے ہی جھڑتے ہیں جیسے یہ پتے درخت سے گررہے ہیں۔
فائدہ: سردی کے موسم میں درختوں کے پتے ایسی کثرت سے گرتے ہیں کہ بعض درختوں پرایک بھی پتہ نہیں رہتا، نبیٔ اکرم ﷺ کاپاک ارشاد ہے کہ اخلاص سے نمازپڑھنے کا اثر بھی یہی ہے کہ اُس کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، ایک بھی نہیں رہتا؛ مگرایک بات قابلِ لحاظ ہے؛ علما کی تحقیق آیاتِ قرآنیہ اوراحادیثِ نبویہ کی وجہ سے یہ ہے کہ نماز وغیرہ عبادات سے صرف گناہِ صغیرہ معاف ہوتے ہیں، کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتا؛ اِس لیے نماز کے ساتھ توبہ اور استغفار کااہتمام بھی کرناچاہیے، اِس سے غافل نہ ہوناچاہیے؛ البتہ حق تعالیٰ شانہٗ اپنے فضل سے کسی کے کبیرہ گناہ بھی معاف فرمادیں تو دوسری بات ہے۔
3. عَنْ أَبِيْ عُثْمَانَ قَالَ: کُنْتُ مَعَ سَلْمَانَ تَحْتَ شَجَرَۃٍ، فَأَخَذَ غُصْناً مِّنْهَا یَابِساً فَهَزَّہٗ، حَتّیٰ تَحَاتَّ وَرَقُہٗ ثُمَّ قَالَ: یَا أَبَاعُثْمَانَ! أَلَاتَسْأَ لُنِيْ لِمَ أَفْعَلُ هٰذا؟ قُلْتُ: وَلِمَ تَفْعَلُہٗ؟ قَالَ: هٰکَذَا فَعَلَ بِيْ رَسُوْلُ اللہِﷺ، وَأَنَا مَعَہٗ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ، وَأَخَذَ مِنْهَاغُصْناً یَابِساً، فَهَزَّہٗ حَتیٰ تَحَاتَّ وَرَقُہٗ، فَقَالَ: یَاسَلْمَانُ! أَلَاتَسَأَ لُنِيْ لِمَ أَفْعَلُ هٰذا؟ قُلْتُ: وَلِمَ تَفْعَلُہٗ؟ قَالَ: ’’إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا تَوَضَّأَ، فَأَحْسَنَ الْوُضُوْءَ، ثُمَّ صَلَّی الصَّلَوَاتَ الْخَمْسَ، تَحَاتَّتْ خَطَایَاہُ کَمَا تَحَاتَّ هٰذَا الْوَرَقُ، وَقَالَ: ﴿ وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ ۭ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّـيِّاٰتِ ۭ ذٰلِكَ ذِكْرٰي لِلذّٰكِرِيْنَ﴾‘‘.(رواہ أحمد والنسائي والطبراني)
ابوعثمان کہتے ہیں کہ میں حضرت سلمانؓ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے تھا، اُنہوں نے اُس درخت کی ایک خشک ٹہنی پکڑ کر اُس کوحرکت دی، جس سے اُس کے پتے گر گئے، پھر مجھ سے کہنے لگے کہ اے ابوعثمان! تم نے مجھ سے یہ نہ پوچھا کہ میں نے یہ کیوں کیا؟ میں نے کہا: بتادیجیے، کیوں کیا؟اُنہوں نے کہا کہ میں ایک دفعہ نبیٔ اکرم ﷺ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے تھا، آپ ﷺنے بھی درخت کی ایک خشک ٹہنی پکڑ کراِسی طرح کیا تھا، جس سے اُس ٹہنی کے پتے جھڑ گئے تھے، پھر حضورﷺنے ارشاد فرمایاتھا کہ: ’’سلمان! پوچھتے نہیں کہ میں نے اِس طرح کیوں کیا‘‘؟ مَیں نے عرض کیا:بتادیجیے، کیوں کیا؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جب مسلمان اچھی طرح سے وضو کرتا ہے، پھر پانچوں نمازیں پڑھتا ہے، تو اُس کی خطائیں اُس سے ایسے ہی جھڑ جاتی ہیں جیسے یہ پتے گرتے ہیں‘‘، پھرآپ ﷺ نے قرآن کی آیت ﴿أَقِمِ الصَّلوٰۃَ طَرَفَيِ النَّہَارِ﴾تلاوت فرمائی، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ قائم کر نماز کو دن کے دونوں سِروں میں، اور رات کے کچھ حصوں میں، بے شک نیکیاں دُور کردیتی ہیں گناہوں کو، یہ نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں کے لیے۔
فائدہ: حضرت سلمانؓ نے جوعمل کرکے دِکھلایا یہ صحابۂ کرامؓ کے تعشق کی ادنیٰ مثال ہے؛ جب کسی شخص کوکسی سے عشق ہوتا ہے اُس کی ہر اَدا بھاتی ہے، اور اُسی طرح ہر کام کرنے کو جی چاہاکرتا ہے جس طرح محبوب کو کرتے دیکھتا ہے، جو لوگ محبت کاذائقہ چکھ چکے ہیں وہ اِس کی حقیقت سے اچھی طرح واقِف ہیں، اِسی طرح صحابۂ کرامؓ نبیٔ اکرم ﷺ کے اِرشادات نقل کرنے میں اکثر اُن اَفعال کی بھی نقل کرتے تھے جو اُس اِرشاد کے وقت حضور ﷺنے کیے تھے۔
نمازکااہتمام اوراس کی وجہ سے گناہوں کامعاف ہوناجس کثرت سے روایات میں ذکر کیا گیا ہے، اُس کااحاطہ دشوار ہے؛ پہلے بھی متعدد روایات میں یہ مضمون گزر چکا ہے؛ عُلما نے اِس کوصغیرہ گناہوں کے ساتھ مخصوص کیا ہے جیسا کہ پہلے معلوم ہوچکا؛ مگر احادیث میں صغیرہ، کبیرہ کی کچھ قید نہیں ہے، مطلق گناہوں کا ذکر ہے؛ میرے والدصاحبؒ نے تعلیم کے وقت اِس کی دو وَجہیں ارشاد فرمائی تھیں: ایک یہ کہ مسلمان کی شان سے یہ بعید ہے کہ اُس کے ذمے کوئی کبیرہ گناہ ہو، اولاً تو اُس سے گناہِ کبیرہ کا صادِر ہوناہی مشکل ہے، اور اگر ہو بھی گیا تو بغیر توبہ کے اُس کوچین آنا مشکل ہے، مسلمان کی مسلمانی شان کا مقتضیٰ یہ ہے کہ جب اُس سے کبیرہ صادِر ہوجائے، تو جب تک روپیٹ کر اُس کو دھو نہ لے اُس کوچین نہ آئے؛ البتہ صغیرہ گناہ ایسے ہیں کہ اُن کی طرف بسااَوقات اِلتفات نہیں ہوتا ہے اور ذِمے پر رہ جاتے ہیں، جو نماز وغیرہ سے معاف ہوجاتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جوشخص اخلاص سے نمازپڑھے گا اورآداب ومستحبات کی رعایت رکھے گا، وہ خود ہی نہ معلوم کتنی مرتبہ توبہاستغفار کرے گا، اورنماز میں التحیات کی آخری دعا: اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ إلخ میں توتوبہ واستغفار خود ہی موجود ہے۔
اِن روایات میں وضو کوبھی اچھی طرح سے کرنے کاحکم ہے، جس کامطلب یہ ہے کہ اُس کے آداب ومستحبات کی تحقیق کرکے اُن کا اہتمام کرے، مثلاً ایک سنت اِس کی مسواک ہی ہے جس کی طرف عام طور پربے توجہی ہے؛ حالانکہ حدیث میں وَارد ہے کہ جو نماز مسواک کرکے پڑھی جائے وہ اُس نماز سے جو بِلامسواک پڑھی جائے ستردرجہ افضل ہے۔ (مسند احمد)
ایک حدیث میں وارِد ہے کہ مسواک کااہتمام کیا کرو، اِس میں دس فائدے ہیں: (۱)منہ کو صاف کرتی ہے (۲)اللہ کی رضا کاسبب ہے (۳) شیطان کو غصہ دِلاتی ہے (۴)مسواک کرنے والے کواللہ تعالیٰ محبوب رکھتے ہیں (۵) اور فرشتے محبوب رکھتے ہیں (۶)مسوڑھوں کو قوت دیتی ہے (۷) بلغم کوقطع کرتی ہے (۸) منہ میں خوشبو پیدا کرتی ہے (۹) صَفراء کو دُور کرتی ہے (۱۰)نگاہ کوتیزکرتی ہے (۱۱)منہ کی بدبو کو زَائل کرتی ہے؛ اور اِس سب کے عِلاوہ یہ ہے کہ سنت ہے۔ (کنزالعمال)
علما نے لکھا ہے کہ مسواک کےاہتمام میں سَتَّرفائدے ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ مرتے وقت کلمۂ شہادت پڑھنا نصیب ہوتا ہے، اوراِس کے بالمقابل اَفیون کھانے میں سَتَّر مضرتیں ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ مرتے وقت کلمہ یاد نہیں آتا۔ اچھی طرح وُضو کرنے والے کے فضائل احادیث میں بڑی کثرت سے آئے ہیں، وُضو کے اعضاء قیامت میں روشن اورچمک دار ہوں گے، اور اِس سے حضورﷺ فوراً اپنے امتی کو پہچان جائیں گے۔ (مسند احمد)
4. عَنْ أَبِيْ هُرَیْرَۃَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِﷺ یَقُوْلُ: أَرَأَیْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهْراً بِبَابِ أَحَدِکُمْ یَغْتَسِلُ فِیْہِ کُلَّ یَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ، هَلْ بَقِيَ مِنْ دَرَنِہٖ شَيْئٌ؟ قَالُوْا: لَایَبْقیٰ مِنْ دَرَنِہٖ شَيْئٌ، قَالَ: فَکَذَالِكَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ یَمْحُوْاللہُ بِهِنَّ مِنَ الْخَطَایَا. (رواہ البخاري ومسلم والترمذي والنسائي، ورواہ ابن ماجہ من حدیث عثمان، کذافي الترغیب)
حضرت ابوہریرہؓ نبیٔ اکرم ﷺسے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا: بتاؤ! اگرکسی شخص کے دروازے پر ایک نہرجاری ہوجس میں وہ پانچ مرتبہ روزانہ غسل کرتا ہو، کیا اُس کے بدن پرکچھ میل باقی رہے گا؟ صحابہؓ نے عرض کیا کہ کچھ بھی باقی نہیں رہے گا، حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہی حال پانچوں نمازوں کاہے کہ اللہ جل شانہٗ اُن کی وجہ سے گناہوں کو زائل کردیتے ہیں۔
5. عَنْ جَابِرٍ قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ: مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ کَمَثَلِ نَهْرٍ جَارٍ غَمْرٍ عَلیٰ بَابِ أَحَدِکُمْ یَغْتَسِلُ مِنْہُ کُلَّ یَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ. (رواہ مسلم، کذا في الترغیب)
حضرت جابرؓ نبیٔ اکرم ﷺکاارشادنقل کرتے ہیں کہ پانچوں نمازوں کی مثال ایسی ہے گویا کسی کے دروازے پرایک نہر ہو، جس کاپانی جاری ہو اور بہت گہرا ہو، اُس میں روزانہ پانچ دفعہ غسل کرے۔
فائدہ: جاری پانی گندگی وغیرہ سے پاک ہوتا ہے، اورپانی جتنا گہراہوگا اتنا ہی صاف شفاف ہوگا؛ اِسی لیے اِس حدیث میں اُس کا جاری ہونا اور گہرا ہونا فرمایا گیا ہے، اور جتنے صاف پانی سے آدمی غسل کرے گا اُتنی ہی صفائی بدن پرآئے گی، اِسی طرح نمازوں کی وجہ سے ــ اگر آداب کی رعایت رکھتے ہوئے پڑھی جائیں تو ــ گناہوں سے صفائی حاصل ہوتی ہے۔ جس قسم کا مضمون اِن دو حدیثوں میں ارشاد ہوا ہے اِس قسم کامضمون کئی حدیثوں میں مختلف صحابہؓ سے مختلف الفاظ میں نقل کیاگیا ہے۔
ابوسعید خُدریؓ سے نقل کیاگیاہے کہ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’پانچوں نمازیں درمیانی اوقات کے لیے کفارہ ہیں‘‘؛ یعنی ایک نمازسے دوسری نمازتک جوصغیرہ گناہ ہوتے ہیں وہ نمازکی برکت سے معاف ہوجاتے ہیں؛ اِس کے بعدحضورﷺ نے ارشادفرمایا: ’’مثلاً ایک شخص کاکوئی کارخانہ ہے جس میں وہ کچھ کاروبار کرتا ہے، جس کی وجہ سے اُس کے بدن پر کچھ گَرد وغبار، میل کچیل لگ جاتاہے، اوراُس کے کارخانے اورمکان کے درمیان پانچ نہریں پڑتی ہیں، جب وہ کارخانے سے گھرجاتا ہے تو ہر نہر پر غسل کرتا ہے، اِسی طرح سے پانچوں نمازوں کا حال ہے کہ جب کبھی درمیانی اوقات میں کچھ خطا، لغزش وغیرہ ہوجاتی ہے تونمازوں میں دعا استغفار کرنے سے اللہ جل شانہ ٗ بالکل اُس کومعاف فرما دیتے ہیں۔ (معجم کبیر)
نبیٔ اکرم ﷺ کا مقصود اِس قسم کی مثالوں سے اِس اَمر کا سمجھا دینا ہے کہ اللہ جل شانہ ٗ نے نماز کوگناہوں کی معافی میں بہت قوِی تاثیر عطا فرمائی ہے، اور چونکہ مثال سے بات ذرا اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے؛ اِس لیے مختلف مثالوں سے حضورﷺنے اِس مضمون کو واضح فرما دیا ہے۔ اللہ جل شانہ ٗ کی اِس رحمت اور وسعتِ مغفرت اورلُطف وانعام اور کرم سے ہم لوگ فائدہ نہ اُٹھائیں تو کسی کاکیانقصان ہے! اپناہی کچھ کھوتے ہیں۔ ہم لوگ گناہ کرتے ہیں، نافرمانیاں کرتے ہیں، حکم عدولیاں کرتے ہیں، تعمیلِ ارشادمیں کوتاہیاں کرتے ہیں؛ اِس کا مقتضیٰ یہ تھا کہ قادِر،عادِل بادشاہ کے یہاں ضرور سزا ہوتی، اور اپنے کیے کو بھگتتے ؛ مگراللہ کے کرم کے قربان کہ جس نے اپنی نافرمانیاں اورحکم عدولیاں کرنے کی تلافی کا طریقہ بھی بتادیا، اگرہم اِس سے نفع حاصل نہ کریں توہماری حماقت ہے، حق تعالیٰ شانہ ٗ کی رحمت اور لطف توعطا کے واسطے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔
ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ جوشخص سوتے ہوئے یہ ارادہ کرے کہ تہجدپڑھوں گا، اورپھر آنکھ نہ کھلے تواِس کاثواب اُس کوملے گا، اور سونا مُفت میں رہا۔1کیا ٹھکانا ہے اللہ کی دَین اور عطا کا! اور جو کریم اِس طرح عطائیں کرتاہو اُس سے نہ لیناکتنی سخت محرومی اور کتنا زبردست نقصان ہے!
6. عَنْ حُذَیْفَۃَ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللہِﷺ إِذَاحَزَبَہٗ أَمْرٌ فَزَعَ إِلَی الصَّلَاۃِ.
(أخرجہ أحمد وأبوداود وابن جریر، کذا في الدرالمنثور)
حضرت حذیفہؓ ارشادفرماتے ہیں کہ نبیٔ اکرم ﷺ کوجب کوئی سخت اَمر پیش آتاتھا تو نماز کی طرف فوراً متوجہ ہوتے تھے۔
فائدہ: نمازاللہ کی بڑی رحمت ہے؛ اِس لیے ہر پریشانی کے وقت میں اُدھر متوجہ ہو جانا گویا اللہ کی رحمت کی طرف متوجہ ہوجانا ہے، اورجب رحمتِ اِلٰہی مساعد ومددگارہو توپھرکیا مجال ہے کسی پریشانی کی کہ باقی رہے!، بہت سی روایتوں میں مختلف طورسے یہ مضمون وارد ہوا ہے؛ صحابۂ کرامؓ جو ہر قدم پرحضورﷺ کی اتباع فرمانے والے ہیں، اُن کے حالات میں بھی یہ چیز نقل کی گئی ہے۔حضرت ابودَرداءؓ فرماتے ہیں کہ جب آندھی چلتی تو حضورِاقدس ﷺ فوراً مسجد میں تشریف لے جاتے تھے، اور جب تک آندھی بند نہ ہوتی مسجد سے نہ نکلتے، اِسی طرح جب سورج یا چاند گرہن ہوجاتا تو حضورﷺ فوراً نماز کی طرف متوجہ ہوجاتے۔(کنزالعمال، ۸:۳۰۸)
حضرت صُہَیبؓ حضورﷺسے نقل کرتے ہیں کہ پہلے اَنبیاء علیہم السلام کابھی یہی معمول تھا کہ ہر پریشانی کے وقت نمازکی طرف متوجہ ہوجاتے تھے۔(مسند احمد،۱۸۹۳۷)
حضرت ابن عباسؓ ایک مرتبہ سفرمیں تھے، راستے میں اطلاع ملی کہ بیٹے کا انتقال ہوگیا، اونٹ سے اُترے، دورکعت نمازپڑھی، پھر اِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا، اور پھر فرمایا : ’’ہم نے وہ کیا جس کااللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے‘‘، اور قرآنِ پاک کی آیت ﴿وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ﴾ تلاوت کی۔( شعب الایمان للبیہقی، حدیث: ۹۲۳۲)
ایک اورقصہ اِسی قسم کانقل کیا گیا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما تشریف لے جارہے تھے، راستے میں اُن کے بھائی قُثَم کے انتقال کی خبرملی، راستے سے ایک طرف کو ہوکر اُونٹ سے اُترے، دو رکعت نماز پڑھی،اورالتحیات میں بہت دیر تک دعائیں پڑھتے رہے، اِس کے بعد اُٹھے اور اونٹ پر سوار ہوئے، اور قرآنِ پاک کی آیت ﴿وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ وَاِنَّهَا لَكَبِيْرَةٌ اِلَّا عَلَي الْخٰشِعِيْنَ﴾’’ اور مدد حاصل کرو صبر کے ساتھ اور نماز کے ساتھ، اور بے شک وہ نماز دشوارضرور ہے؛ مگر جن کے دلوں میں خشوع ہے اُن پر کچھ دشوار نہیں‘‘، تلاوت فرمائی(خشوع کا بیان تیسرے باب میں مفصل آرہا ہے)۔ (شعب الایمان للبیہقی، حدیث: ۹۲۳۳)
اِن ہی کااور ایک قصہ ہے کہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن میں سے کسی کے انتقال کی خبرملی توسجدے میں گرگئے، کسی نے دریافت کیا کہ کیا بات تھی؟ آپ نے فرمایا کہ حضورﷺ کاہم کویہی ارشاد ہے کہ ’’جب کوئی حادثہ دیکھو توسجدے میں (یعنی نماز میں)مشغول ہوجاؤ‘‘، اِس سے بڑا حادثہ اورکیاہوگا کہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوگیا۔ (ابوداؤد، کتاب الاستسقاء، باب السجود عند الآیات، حدیث: ۱۱۹۷)
حضرت عبادہؓ کے انتقال کاوقت جب قریب آیا تو جو لوگ وہاں موجودتھے اُن سے فرمایا : میں ہرشخص کواِس سے روکتاہوں کہ وہ مجھے روئے، اور جب میری روح نکل جائے تو ہر شخص وضوکرے، اوراچھی طرح سے آداب کی رعایت رکھتے ہوئے وضوکرے، پھرمسجدمیں جائے اور نماز پڑھ کر میرے واسطے استغفار کرے؛ اِس لیے کہ اللہ جل شانہ ٗ نے ﴿وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ﴾ کاحکم فرمایا ہے، اِس کے بعدمجھے قبر کے گڑھے میں پہنچا دینا۔
حضرت اُمّ کلثوم رضی اللہ عنہا کے خاوند حضرت عبدالرحمانؓ بیمار تھے، اورایک دفعہ ایسی سکتے کی سی حالت ہوگئی کہ سب نے انتقال ہوجانا تجویز کرلیا، حضرت اُمّ کلثوم رضی اللہ عنہا اُٹھیں اور نماز کی نیت باندھ لی، نماز سے فارغ ہوئیں تو حضرت عبدالرحمانؓ کوبھی افاقہ ہوا، لوگوں سے پوچھا: کیامیری حالت موت کی سی ہوگئی تھی؟ لوگوں نے عرض کیا: جی ہاں! فرمایا کہ دو فرشتے میرے پاس آئے اورمجھ سے کہاکہ: چلو! اَحکم الحاکمین کی بارگاہ میں تمہارا فیصلہ ہونا ہے، وہ مجھے لے جانے لگے، توایک تیسرے فرشتے آئے اور اُن دونوں سے کہا کہ: تم چلے جاؤ، یہ اُن لوگوں میں سے ہیں جن کی قسمت میں سَعادت اُسی وقت لکھ دی گئی تھی جب یہ ماں کے پیٹ میں تھے، اور ابھی اِن کی اولاد کواِن سے اَور فوائد حاصل کرنے ہیں، اِس کے بعدایک مہینے تک حضرت عبدالرحمان ؓ زندہ رہے، پھرانتقال ہوا۔ (دُرِّمنثور،۳:۱۳۱)
حضرت نَضرؒ کہتے ہیں کہ دن میں ایک مرتبہ سخت اندھیراہوگیا، میں دوڑاہوا حضرت انسؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے دریافت کیا کہ حضورﷺکے زمانے میں بھی کبھی ایسی نوبت آئی ہے؟ اُنھوں نے فرمایا: خداکی پناہ! حضورﷺکے زمانے میں تو ہوا بھی ذرا تیزچلتی تھی تو ہم سب مسجدوں کودوڑ جاتے تھے کہ کہیں قیامت تونہیں آگئی۔ (ابوداؤد، کتاب الاستسقاء، باب الصلاۃ عند الظلمۃ ونحوھا، حدیث: ۱۱۹۶)
عبداللہ بن سَلامؓ کہتے ہیں کہ جب نبیٔ اکرمﷺ کے گھروالوں پر کسی قسم کی تنگی پیش آتی تو اُن کو نماز کا حکم فرمایاکرتے، اوریہ آیت تلاوت فرماتے: ﴿وَاْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ۭ لَا نَسْــَٔــلُكَ رِزْقًا ۭ نَحْنُ نَرْزُقُكَ ۭ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوٰى﴾ ’’اپنے گھروالوں کونمازکاحکم کرتے رہیے اورخود بھی اِس کااہتمام کیجیے، ہم آپ سے روزی کَموانا نہیں چاہتے، روزی توآپ کوہم دیں گے…‘‘۔ (شعب الایمان)
ایک حدیث میں ارشادہے کہ جس شخص کوکوئی بھی ضرورت پیش آئےــدینی ہو یادنیوی، اُس کاتعلق مالِک الملک سے ہو یاکسی آدمی سےــ اُس کو چاہیے کہ بہت اچھی طرح سے وضو کرے، پھر دو رکعت نمازپڑھے، پھراللہ جل شانہ کی حمدوثنا کرے، اور پھر درود شریف پڑھے، اِس کے بعدیہ دعاپڑھے توإن شاء اللہ اُس کی حاجت ضرور پوری ہوگی، دعایہ ہے:
لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ، سُبْحَانَ اللہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ؛ أَسْئَلُكَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِكَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ، وَالْغَنِیْمَۃَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ، وَالسَّلَامَۃَ مِنْ کُلِّ إِثْمٍ، لَا تَدَعْ لِيْ ذَنْباً إِلَّا غَفَرْتَہٗ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ! وَلَا هَمّاً إِلَّا فَرَّجْتَہٗ، وَلَا حَاجَۃً هِيَ لَكَ رِضاً إِلَّا قَضَیْتَهَا یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔ (ترمذي، ابواب الوتر، باب ماجاء في صلاۃ الحاجۃ، حدیث: ۴۷۹)
وَہَب بن مُنبَّہؒ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے حاجتیں نمازکے ذریعے طلب کی جاتی ہیں، اور پہلے لوگوں کوجب کوئی حادثہ پیش آتاتھا وہ نماز ہی کی طرف متوجہ ہوتے تھے، جس پر بھی کوئی حادثہ گزرتا وہ جلدی سے نماز کی طرف رُجوع کرتا۔
کہتے ہیں کہ کوفہ میں ایک قُلی تھا، جس پرلوگوں کوبہت اعتماد تھا، اَمین ہونے کی وجہ سے تاجروں کاسامان، روپیہ وغیرہ بھی لے جاتا، ایک مرتبہ وہ سفر میں جا رہا تھا، راستے میں ایک شخص اُس کوملا، پوچھا: کہاں کاارادہ ہے؟ قُلی نے کہا: فلاں شہر کا، وہ کہنے لگا کہ مجھے بھی جانا ہے، میں پاؤں چل سکتا تو تیرے ساتھ ہی چلتا، کیا یہ ممکن ہے کہ ایک دِینار کرائے پر مجھے خچرپر سوار کرلے؟ قُلی نے اُس کو منظور کرلیا، وہ سوار ہوگیا، راستے میں ایک دو راہا آیا، سوار نے پوچھا: کدھر کو چلنا چاہیے؟ قُلی نے شارعِ عام کاراستہ بتایا، سوار نے کہاکہ: یہ دوسرا راستہ قریب کا ہے، اور جانور کے لیے بھی سَہولت کا ہے کہ سبزہ اِس پر خوب ہے، قُلی نے کہا کہ: میں نے یہ راستہ دیکھا نہیں، سوار نے کہا کہ میں بارہا اِس راستے پر چلا ہوں، قُلی نے کہا: اچھی بات ہے، اِسی راستے کوچلیں، تھوڑی دُور چل کر وہ راستہ ایک وحشت ناک جنگل پرختم ہوگیا جہاں بہت سے مُردے پڑے تھے، وہ شخص سواری سے اُترا، اور کمر سے خنجر نکال کر قُلی کے قتل کا ارادہ کیا، قُلی نے کہا: ایسا نہ کر، خچر اور سامان سب کچھ لے لے، یہی تیرا مقصود ہے، مجھے قتل نہ کر، اُس نے نہ مانا اور قسم کھالی کہ پہلے تجھے ماروں گا، پھریہ سب کچھ لوں گا، اُس نے بہت عاجزی کی؛ مگر اُس ظالم نے ایک بھی نہ مانی، قُلی نے کہا: اچھا! مجھے دو رکعت آخری نمازپڑھنے دے، اُس نے قبول کیا، اور ہنس کر کہا: جلدی سے پڑھ لے، اِن مُردوں نے بھی یہی درخواست کی تھی؛ مگراِن کی نماز نے کچھ بھی کام نہ دیا، اُس قلی نے نماز شروع کی، الحمد شریف پڑھ کرسورۃ بھی یاد نہ آئی، اُدھر وہ ظالم کھڑا تقاضا کررہاتھا کہ جلدی ختم کر،بے اختیار اُس کی زبان پر یہ آیت جاری ہوئی: ﴿اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ… الاٰیة﴾ یہ پڑھ رہاتھا اور رو رہا تھا کہ ایک سوار نمودار ہوا جس کے سر پر چمکتا ہوا خَود (لوہے کی ٹوپی)تھا، اُس نے نیزہ مار کر اُس ظالم کوہلاک کردیا، جس جگہ وہ ظالم مر کر گرا آگ کے شعلے اُس جگہ سے اُٹھنے لگے، یہ نمازی بے اختیار سجدے میں گرگیا، اللہ کاشکر ادا کیا، نماز کے بعد اُس سوار کی طرف دوڑا، اُس سے پوچھا : خداکے واسطے اِتنا بتادو کہ تم کون ہو؟کیسے آئے؟ اُس نے کہا کہ میں ﴿ اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ ﴾ کاغلام ہوں، اب تم مامون ہو جہاں چاہے جاؤ، یہ کہہ کرچلا گیا۔ (نُزہۃ المجالس)
درحقیقت نماز ایسی ہی بڑی دولت ہے کہ اللہ کی رَضاکے علاوہ دنیا کے مصائب سے بھی اکثر نجات کاسبب ہوتی ہے اورسکونِ قلب توحاصل ہوتا ہی ہے۔ابنِ سِیرین ؒکہتے ہیں کہ اگر مجھے جنت میں جانے میں اور دو رکعت نمازپڑھنے میں اختیار دے دیاجائے، تو میں دو رکعت کو ہی اختیار کروں گا؛ اِس لیے کہ جنت میں جانا میری اپنی خوشی کے واسطے ہے، اور دو رکعت نمازمیں میرے مالک کی رضا ہے۔(نزہۃ المجالس)
حضورﷺ کاارشاد ہے: ’’بڑا قابلِ رَشک ہے وہ مسلمان جو ہلکاپھلکا ہو (یعنی اہل وعَیال کازیادہ بوجھ نہ ہو)، نمازسے وافر حصہ اُسے ملا ہو، روزی صرف گزارے کے قابل ہوجس پر صبر کر کے عمر گزار دے، اللہ کی عبادت اچھی طرح کرتا ہو، گم نامی میں پڑاہو، جلدی سے مرجاوے، نہ میراث زیادہ ہو، نہ رونے والے زیادہ ہوں‘‘۔ (جامع الصغیر)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ ’’اپنے گھر میں نماز کثرت سے پڑھاکرو، گھرکی خیرمیں اِضافہ ہوگا‘‘۔(جامع الصغیر)
7. عَنْ أَبِيْ مُسْلِمِ التَّغْلَبِيِّ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلیٰ أَبِيْ أُمَامَۃَ -وَهُوَ فِيْ الْمَسْجِدِ- فَقُلْتُ: یَا أَبَا أُمَامَۃَ! إِنَّ رَجُلًا حَدَّثَنِيْ مِنْكَ أَنَّكَ سَمِعْتَ رَسُوْلَ اللہِﷺ یَقُوْلُ: مَنْ تَوَضَّأَ فَأَسْبَغَ الْوُضُوْءَ:غَسَلَ یَدَیْہِ وَوَجْهَہُ وَمَسَحَ عَلیٰ رَأْسِہِ وَأُذُنَیْہِ، ثُمَّ قَامَ إِلیٰ صَلَاۃٍ مَفْرُوْضَۃٍ، غَفَرَ اللہُ لَہٗ فِيْ ذٰلِكَ الْیَوْمِ مَا مَشَتْ إِلَیْہِ رِجْلَاہُ، وَقَبَضَتْ عَلَیْہِ یَدَاہُ، وَسَمِعَتْ إِلَیْہِ أُذُنَاہُ، وَنَظَرَتْ إِلَیْہِ عَیْنَاہُ، وَحَدَّثَ بِہٖ نَفْسُہُ مِنْ سُوْءٍ؛ فَقَالَ: وَاللہِ لَقَدْ سَمِعْتُہٗ مِنَ النَّبِيِّﷺ مِرَاراً. (رواہ أحمد)
ابومسلمؒ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابواُمامہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا،وہ مسجد میں تشریف فرماتھے، میں نے عرض کیاکہ مجھ سے ایک صاحب نے آپ کی طرف سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ آپ نے نبیٔ اکرم ﷺسے یہ ارشادسناہے: ’’جو شخص اچھی طرح وضوکرے، اور پھر فرض نماز پڑھے توحق تعالیٰ جل شانہٗ اُس دن وہ گناہ جو چلنے سے ہوئے ہوں، اوروہ گناہ جن کو اُس کے ہاتھوں نے کیا ہو، اور وہ گناہ جو اُس کے کانوں سے صادِر ہوئے ہوں، اور وہ گناہ جن کواُس نے آنکھوں سے کیاہو، اور وہ گناہ جو اُس کے دل میں پیداہوئے ہوں؛ سب کومعاف فرمادیتے ہیں‘‘، حضرت ابواُمامہؓ نے فرمایا : میں نے یہ مضمون نبیٔ اکرم ﷺسے کئی دفعہ سنا ہے۔
فائدہ: یہ مضمون بھی کئی صحابہؓ سے نقل کیاگیا ہے؛ چنانچہ حضرت عثمان، حضرت ابوہریرہ، حضرت انس، حضرت عبداللہ صُنابِحی، حضرت عَمرو بن عَبَسہ رضی اللہ عنہم وغیرہ حضرات سے مختلف الفاظ کے ساتھ متعدد روایات میں ذکرکیاگیا ہے، اور جو حضرات اہلِ کَشف ہوتے ہیں اُن کو گناہوں کا زائل ہوجانا محسوس بھی ہوجاتاہے؛ چنانچہ حضرت امام اعظمؒ کا قصہ مشہور ہے کہ وہ وضو کا پانی گرتے ہوئے یہ محسوس فرمالیتے تھے کہ کون ساگناہ اِس میں دُھل رہا ہے۔ حضرت عثمانؓ کی ایک روایت میں نبیٔ اکرم ﷺ کایہ ارشادبھی نقل کیاگیا ہے کہ ’’کسی شخص کو اِس بات سے مغرور نہیں ہونا چاہیے‘‘ اِس کامطلب یہ ہے کہ اِس گھمنڈپر کہ نمازسے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، گناہوں پر جرأت نہیں کرناچاہیے؛ اِس لیے کہ ہم لوگوں کی نماز اورعبادت جیسی ہوتی ہے اُن کو اگرحق تعالیٰ جل شانہٗ اپنے لطف اور کرم سے قبول فرمالیں، تواُن کالطف واحسان وانعام ہے؛ ورنہ ہماری عبادتوں کی حقیقت ہمیں خوب معلوم ہے، اگرچہ نمازکایہ اثر ضروری ہے کہ اُس سے گناہ معاف ہوتے ہیں؛ مگر ہماری نماز بھی اِس قابل ہے؟ اِس کاعلم اللہ ہی کو ہے۔ اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ اِس وجہ سے گناہ کرنا کہ میرامالک کریم ہے، معاف کرنے والا ہے، انتہائی بے غیرتی ہے، اِس کی مثال توایسی ہوئی کہ، کوئی شخص یوں کہے : اپنے اُن بیٹوں سے، جو فلاں کام کریں، درگزر کرتاہوں، تو وہ نالائق بیٹے اِس وجہ سے کہ باپ نے درگزر کرنے کوکہہ دیا ہے جان جان کر اُس کی نافرمانیاں کریں۔
8. عَنْ أَبِيْ هُرَیْرَۃَ قَالَ: کَانَ رَجُلَانِ مِنْ بَلِيٍّ حَيٌّ مِنْ قَضَاعَۃَ أَسْلَمَا مَعَ رَسُوْلِ اللہِﷺ، فَاسْتُشْهِدَ أَحَدُهُمَا وَأُخِّرَ الْاٰخِرَۃُ سَنَۃً، قَالَ طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِاللہِ: فَرَأَیْتُ الْمُؤَخَّرَ مِنْهُمَا أُدْخِلَ الْجَنَّۃَ قَبْلَ الشَّهِیْدِ، فَتَعَجَّبْتُ لِذٰلِكَ، فَأَصْبَحْتُ فَذَکَرْتُ ذٰلِكَ لِلنَّبِيِّﷺ، أَوْ ذُکِرَ لِرَسُوْلِ اللہِﷺ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ: أَلَیْسَ قَدْ صَامَ بَعْدَہٗ رَمَضَانَ؟ وَصَلّیٰ سِتَّۃَ اٰلَافِ رَکْعَۃٍ؟ وَکَذَا وَکَذَا رَکْعَۃً صَلَاۃِ سَنَۃٍ؟. (رواہ أحمد بإسناد حسن، ورواہ ابن ماجہ وابن حبان في صحیحہ، والبیهقي)
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک قبیلے کے دوصحابی ایک ساتھ مسلمان ہوئے، اُن میں سے ایک صاحب جہاد میں شریک ہو کر شہید ہوگئے، اور دوسرے صاحب کا ایک سال بعد انتقال ہوا، میں نے خواب میں دیکھا کہ وہ صاحب جن کاایک سال بعد انتقال ہوا تھا اُن شہید سے بھی پہلے جنت میں داخل ہوگئے، تو مجھے بڑا تعجب ہوا، کہ شہید کادرجہ توبہت اونچا ہے، وہ پہلے جنت میں داخل ہوتے، میں نے حضورﷺ سے خود عرض کیا یا کسی اورنے عرض کیا، حضورِاقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جن صاحب کا بعد میں انتقال ہوا اُن کی نیکیاں نہیں دیکھتے، کتنی زیادہ ہوگئیں؟ ایک رمضان المبارک کے پورے روزے بھی اُن کے زیادہ ہوئے، اور چھ ہزار اور اِتنی اِتنی رکعتیں نماز کی ایک سال میں اُن کی بڑھ گئیں۔
فائدہ: اگرایک سال کے تمام مہینے اُنتّیس دن کے لگائے جائیں اور صرف فرض اور وِتر کی بیس رکعتیں شمار کی جائیں، تب بھی چھ ہزار نوسوساٹھ رکعتیں ہوتی ہیں، اور جتنے مہینے تیس دن کے ہوں گے بیس بیس رکعتوں کااِضافہ ہوتا رہے گا، اور سنتیں اورنوافل بھی شمار کیے جائیں تو کیا ہی پوچھنا!ابنِ ماجہ میں یہ قصہ اوربھی مفصل آیا ہے، اُس میں حضرت طلحہؓ جوخواب دیکھنے والے ہیں، وہ خود بیان کرتے ہیں کہ ایک قبیلے کے دوآدمی حضور ﷺکی خدمت میں ایک ساتھ آئے اور اکٹھے ہی مسلمان ہوئے، ایک صاحب بہت زیادہ مستعد اورہمت والے تھے، وہ ایک لڑائی میں شہید ہوگئے، اوردوسرے صاحب کاایک سال بعد انتقال ہوا، میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوں اور وہ دونوں صاحب بھی وہاں ہیں، اندر سے ایک شخص آئے اور اُن صاحب کو جن کا ایک سال بعد انتقال ہوا تھا، اندر جانے کی اجازت ہوگئی، اور جو صاحب شہید ہوئے تھے وہ کھڑے رہ گئے، تھوڑی دیر بعد پھر اندر سے ایک شخص آئے اور اُن شہید کو بھی اندر جانے کی اجازت ہوگئی، اور مجھ سے یہ کہا کہ تمہارا ابھی وقت نہیں آیا، تم واپس چلے جاؤ، میں نے صبح کو لوگوں سے اپنے خواب کاتذکرہ کیا، سب کو اِس پرتعجب ہوا کہ اُن شہید کوبعد میں کیوں اجازت ہوئی! اُن کو تو پہلے ہونی چاہیے تھی، آخر حضورﷺ سے لوگوں نے اِس کاتذکرہ کیا، تو حضور ﷺنے ارشاد فرمایا کہ: اِس میں تعجب کی کیابات ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ: یارسول اللہ! وہ شہید بھی ہوئے اور بہت زیادہ مستعد اور ہمت والے بھی تھے، اور جنت میں یہ دوسرے صاحب پہلے داخل ہوگئے! حضورﷺنے ارشاد فرمایا: کیا اُنہوں نے ایک سال کی عبادت زیادہ نہیں کی؟ عرض کیا: بے شک کی، ارشاد فرمایا: کیا اِنہوں نے پورے ایک رمضان کے روزے اُن سے زیادہ نہیں رکھے؟ عرض کیاگیا:ـ بے شک رکھے، ارشادفرمایا: کیااِنھوں نے اِتنے اِتنے سجدے ایک سال کی نمازوں کے زیادہ نہیں کیے؟ عرض کیاگیا: بے شک کیے، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: پھر تواِن دونوں میں آسمان زمین کافرق ہوگیا۔ (ابن ماجہ، ابواب تعبیر الرؤیا، حدیث: ۳۹۲۵)
اِس نوع کے قصے کئی لوگوں کے ساتھ پیش آئے، ابوداؤد شریف میں دوصحابہ رضی اللہ عنہما کا قصہ اِسی قسم کا صرف آٹھ دن کے فرق سے ذکر کیاگیا ہے، کہ دوسرے صاحب کاانتقال ایک ہفتے کے بعد ہوا پھربھی وہ جنت میں پہلے داخل ہوگئے۔حقیقت میں ہم لوگوں کو اِس کااندازہ نہیں کہ نمازکتنی قیمتی چیز ہے۔ آخر کوئی تو بات ہے کہ حضورِ اقدس ﷺنے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں بتلائی ہے، حضور ﷺکی آنکھ کی ٹھنڈکــجو اِنتِہائی محبت کی علامت ہےــ معمولی چیزنہیں۔ایک حدیث میں آیا ہے کہ دوبھائی تھے، اُن میں سے ایک چالیس روز پہلے انتقال کرگئے، دوسرے بھائی کا چالیس روز بعدانتقال ہوا، پہلے بھائی زیادہ بزرگ تھے، لوگوں نے اُن کو بڑھانا شروع کردیا، حضور ﷺنے ارشادفرمایا: کیا دوسرے بھائی مسلمان نہ تھے؟ صحابہؓ نے عرض کیا کہ بے شک مسلمان تھے؛ مگرمعمولی درجے میں تھے، حضور ﷺنے ارشاد فرمایا: تمہیں کیامعلوم اِن چالیس دن کی نمازوں نے اُن کوکس درجے تک پہنچا دیا ہے؟ نماز کی مثال ایک میٹھی اورگہری نہر کی سی ہے جو دروازے پر جاری ہو، اور آدمی پانچ دفعہ اُس میں نہاتا ہو، تواُس کے بدن پر کیا میل رہ سکتاہے؟ اِس کے بعد پھر دوبارہ حضورﷺ نے فرمایا: تمہیں کیامعلوم کہ اُس کی نمازوں نے، جو بعد میں پڑھی گئیں، اُس کوکس درجے تک پہنچادیا؟(مسند احمد، حدیث: ۱۵۳۴)
1 ابن ماجہ، اقامۃ الصلاۃ، باب ماجاء في من نام عن حزبہ، حدیث: ۱۳۴۴