زیر نظر تحریر شیخ منصور شامی (محمد آل زیدان) شہید کے آٹھ عربی مقالات کا اردو ترجمہ ہے۔ آپ محرم ۱۴۳۱ھ میں وزیرستان میں شہید ہوئے۔ یہ مقالات مجلہ ’طلائع خراسان‘ میں قسط وار چھپے اور بعد ازاں مذکورہ مجلّے کی جانب سے محرم ۱۴۳۲ھ میں کتابی شکل میں نشر ہوئے۔ ترجمے میں استفادہ اور ترجمانی کا ملا جلا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ مترجم کی طرف سے اضافہ کردہ باتوں کو چوکور قوسین [] میں بند کیا گیا ہے۔ (مترجم)
بڑی غلطی!
رسول اللہ ﷺ نے پچاس تیر اندازوں پر مشتمل ایک دستے کو لشکر کی پشت کی جانب ایک چوٹی پر لشکر کے عقب کی حفاظت کے لیے مقرر کیا۔ یہ چوٹی تیر اندازوں کے پہاڑ کے نام سے معروف ہے۔ اور ان سے کہا:
’’اگر تم یہ دیکھو کہ پرندے ہمیں اچک کر لے جا رہے ہیں یعنی ہمیں شکست کھاتا دیکھ لو تو بھی اپنی جگہ سے مت ہلنا جب تک میں خود تمہیں پیغام بھیج کر نہ بلا لوں، اور اگر تم یہ دیکھو کہ ہم مدمقابل کو شکست دے کر پچھاڑ چکے ہیں تب بھی اپنی جگہ سے حرکت نہ کرنا یہاں تک کہ میں خود پیغام بھیج کر تمہیں بلوا لوں۔‘‘
لیکن ہوا یہ کہ جب اللہ نے اپنے بندوں پر نصرت اتاری اور کفار کو شکست ہوئی تو اس تیر انداز دستے کے دل میں بھی دنیاوی مال و متاع کی چاہت پیدا ہوئی اور ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ بھئی! غنیمت جمع کرو! ہمیں فتح مل گئی، اب کس کا انتظار ہے؟
اس دستے کے امیر نے اپنے ساتھیوں کو رسول اللہ ﷺ کا حکم یاد بھی دلایا، لیکن اکثریت نے غنیمت جمع کرنے کے لیے پہاڑ کی چوٹی سے اترنے کو ترجیح دی۔
جب مشرکین نے چوٹی کو خالی دیکھا تو موقع سے فائدہ اٹھایا اور پشت کی جانب سے مسلمانوں پر حملہ کر دیا، جس سے جنگ کا پانسہ پلٹ گیا، اسلامی لشکر تتر بتر ہو گیا، کئی صحابہ شہید اور متعدد زخمی ہوئے، اگر اللہ کا فضل شامل حال نہ ہوتا تو مسلمانوں کو شکست فاش ہو جاتی۔
تیر انداز دستے کی اس خطا میں مسلمانوں کے لیے ایک بہت بڑا درس عبرت ہے، کیونکہ خطا میں تکرار کا امکان ہوتا ہے جس کا نتیجہ ممکن ہے کہ پہلی بار سے زیادہ ہولناک ہو، اور تکرار خطا میں یہ لازم نہیں کہ بعینہ اسی خطا کو دہرایا جائے، بلکہ خطا کی صورتیں مختلف ہو سکتی ہیں، یہاں بنیادی خطا امیر کی بے اطاعتی ہے، اور اس کی صورتیں بے شمار ہیں، بلکہ بسا اوقات اس بے اطاعتی کی معصیت کو نیکی، دین پر غیرت اور مسلمانوں کی اجتماعی مصلحت کا خیال رکھنے کا جامہ بھی پہنایا جاتا ہے۔ اس قسم کی بے اطاعتی کا معصیت ہونا گو اتنا واضح نہیں ہوتا، لیکن اس کا ضرر سب سے شدید و سخت ہے۔ بعض اصلاح کے مدعی اس نوع کی بے اطاعتی کے لیے ایسی ایسی تاویلیں گھڑتے ہیں کہ سمجھدار آدمی بھی مغالطے میں پڑ جاتا ہے۔
بے اطاعتی کی وجوہات!
ایک سبب اپنی رائے پر اترانا ہے، ایسا فرد اپنی بے اطاعتی کا جواز یہ پیش کرتا ہے کہ امیر نے میرا مشورہ نہیں سنا اور میری ’’گہری‘‘ منصوبہ بندی پر نہیں چلا۔ اس بات کا مطلب تو یہ ہوا کہ یہ رائے دینے والا فرد امیر ہے جس کی اطاعت خود امیر پر بھی لازم ہے ۔
ایک سبب کاموں کے بوجھ سے بچنا، ذمے داری اٹھانے سے جی چرا کر راحت کو ترجیح دینا ہے، ایسے حضرات کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ اطاعت تو بقدر استطاعت ہوتی ہے، حالانکہ اللہ تو دلوں کے بھید سے واقف ہے، اسے بھلا کوئی دھوکہ دے سکتا ہے؟
ایک اور سبب جہالت ہے، ایک فرد کو امیر کے کیے کام یا دیے گئے امر کی بابت حکمِ شرعی کا علم نہیں ہوتا کہ یہ شرعا ًجائز ہے یا نہیں، اور وہ اپنی کم علمی کی وجہ سے اسے ناجائز سمجھ کر اس کی مخالفت میں کمربستہ ہو جاتا ہے۔
ایک سبب یہ بھی ہوتا ہے کہ بے اطاعتی کرنے والا فرد خود کو امارت کا زیادہ مستحق سمجھتا ہے کہ اس کا امیر علم، تجربے یا عمر میں اس سے کمتر ہے۔ ایسا فرد اختلاف کو ہوا دیتا ہے، غلطیوں کی تشہیر کرتا ہے اور اچھے کاموں کا ذکر نہیں کرتا، اور دلیل یہ دیتا ہے کہ قیادت کمزور ہے، گو فی الواقع ایسا نہ ہو۔
بے اطاعتی کی ان تمام صورتوں سے بچنے کا واحد راستہ خود کو علم و تقویٰ سے مزین کرنا ہے، انسان سے بھول چوک ہو جاتی ہے، سو اگر وہ توبہ کر کے حق کی طرف لوٹ آئے تو کوئی مسئلہ نہیں، البتہ جو معصیت پر ڈٹا رہے اور اس میں منہمک رہے اس کے لیے پوری پوری ہلاکت ہے۔
نیز یہ بات جاننا بھی لازم ہے کہ جہاد کی خطا صرف خطا کار تک محدود نہیں رہتی ،بلکہ پوری تحریک جہاد اس سے متاثر ہوتی ہے، اور الٰہی نصرت نہیں اترتی، جیسا کہ غزوۂ احد میں پیش آیا [اور غزوۂ حنین میں]۔
مجاہدین کی مثال تو ایک کشتی پر سوار لوگوں کی سی ہے، اگر کشتی والوں میں سے کوئی غلطی کرے گا تو تمام نہیں تو اکثر سوار تو یقینا ًپانی میں ڈوب کر مریں گے، ہم مجاہدین بھی ایک ہی دفاعی مورچے پر پہرہ زن ہیں، سو ہم میں سے کسی کی جانب سے اسلام پر آنچ نہ آنے پائے۔
کم عمل ،زیادہ اجر!
زخمیوں کے درمیان مسلمانوں نے اصیرم عمرو بن ثابت، نامی شخص کو بھی پایا، یہ نزع کے عالم میں تھے، مسلمان اس سے پہلے انہیں اسلام کی دعوت دیتے رہے تھے، مگر وہ انکار کرتے رہے، سو اپنے زخمیوں میں انہیں دیکھ کر مسلمانوں کو حیرت ہوئی کہ یہ یہاں کیسے آ گئے؟ یہ تو اسلام کے منکر تھے، سو انہوں نے اصیرم سے پوچھا : تمہیں کیا چیز یہاں کھینچ لائی؟ قوم کی محبت یا اسلام میں رغبت؟ اصیرم نے جواب دیا: اسلام کی رغبت مجھے میدان کار زار میں لائی ہے، میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا ،پھر میں نے قتال میں شرکت کی اور مجھے یہ زخم لگے جو تم دیکھ رہے ہو۔
یہ کہہ کر اصیرم دم توڑ گئے، صحابہ کرام نے یہ سارا واقعہ رسول اللہ ﷺکے گوش گزار کیا ،آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ جنتی ہے،رضی اللہ عنہ۔
حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے ایک نماز بھی نہیں پڑھی۔
جب ایمان کی سرشاری دل کو چھو لیتی ہے تو پھر اپنی سچائی پر بڑی سے بڑی دلیل پیش کرنا بھی مشکل نہیں ہوتا، تب انسان اپنے لیے رخصتیں نہیں تلاشتا، عذر نہیں تراشتا، بلکہ آگے بڑھ کر اس میدان کا رخ کرتا ہے جہاں انسانی جان کی بولی لگتی ہے اور جہاں غلام اپنے آقا و مالک کی رضا اور انعام کی خاطر جان تک وار دیتا ہے، پھر اسے قتل ہو جانے کا خوف نہیں ہوتا، بلکہ قتل ہونا ہی اس کا مطمح نظر ٹھہرتا ہے کہ اسی طرح وہ اپنے مالک کے انعامات کو پا سکتا ہے، سو اپنے مالک کی خاطر قتل ہونا اس کی سب سے بڑی تمنا بن جاتی ہے۔
[بقول شاعر:
دست از طلب ندارم تا کام من برآید
یا تن رسد بجانان،یا جان زتن برآید
معنی ومفہوم: مقصد پورا ہونے تک میں اپنے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹوں گا،یا تو میرا جسم محبوب تک پہنچے گا یا پھر روح اس جسم سے نکل جائے گی۔]
سچا ایمان خود انسان کو حرکت میں لاتا ہے،خواہ ابھی اس کا پہلا دن ہی کیوں نہ ہو، جو حضرات اس عظیم فریضے کی ادائیگی کے لیے مطلق طور پر علم، تربیت اور تزکیے کی شرط لگاتے ہیں، انہیں اس منظر نامے کو خوب غور سے بنظرِ انصاف دیکھنا چاہیے، اپنی رائے پر گھمنڈ کو ایک طرف رکھ کر خود سے سوال کرنا چاہیے کہ کیا رسول اللہ ﷺ نے اصیرم کے بغیر علم و تربیت کے جہاد پر نکل آنے کو ناپسند فرمایا اور علم و تربیت کو جہاد کی شرط قرار دیا؟ یا آپ ﷺ نے ان کے جنتی ہونے کی بشارت دی ۔
کیا صحابہ کرام نے بغیر علم و تربیت کے ان کے نکل آنے کو ناپسند کیا یا یہ پوچھا کہ تمہارے آنے کا سبب قوم کی محبت ہے یا اسلام میں رغبت۔1
پھر کیا وجہ ہے کہ اصیرم تو ایمان لا کر فورا ًمیدان کا رخ کرتے ہیں جبکہ آپ حضرات کے بال ایمان کی حالت میں سفید ہو گئے ہیں اور ہڈیاں سوختہ ہو گئی ہیں لیکن آپ اس اقدام سے عاجز ہیں، حالانکہ آپ ایک عرصے سے علم کے حصول اور تربیت و تزکیے میں مشغول ہیں۔
نیز آپ حضرات کے نزدیک ایمان کی وہ کم سے کم مقدار کیا ہے جس سے کوئی فرد جہاد کے قابل بنتا ہے؟ اس ایمانی پرورش کی مدت کتنی ہے؟ کیا حضرات فقہائے امت میں سے کسی نے یہ شرط لگائی ہے جہاد کی فرضیت کے لیے؟
اسی طرح کے اور بھی کافی سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں، لیکن اہم بات یہ جاننا ہے کہ ان سب کے جواب کے لیے بہت زیادہ سوچ و بچار کی ضرورت نہیں، بلکہ یہی ایک واقعہ کافی ہے، اس جیسے دیگر واقعات بھی تاریخ اسلام کا حصہ ہیں۔
حق پر ثابت قدمی!
وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ ۭ وَمَنْ يَّنْقَلِبْ عَلٰي عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَـيْـــًٔـا ۭ وَسَيَجْزِي اللّٰهُ الشّٰكِرِيْنَ
’’اور محمد (ﷺ) ایک رسول ہی تو ہیں۔ ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں، بھلا اگر ان کا انتقال ہو جائے یا انہیں قتل کر دیا جائے تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے ؟ اور جو کوئی الٹے پاؤں پھرے گا وہ اللہ کو ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اور جو شکر گزار بندے ہیں اللہ ان کو ثواب دے گا۔‘‘
غزوۂ احد میں کسی نے پکار لگائی کہ رسول اللہ ﷺ معاذ اللہ قتل کر دیے گئے ہیں، اس سے بہت سے مسلمانوں کے حوصلے ٹوٹ گئے، اور اگر اللہ کی مدد شامل حال نہ ہوتی تو شاید وہ میدان چھوڑ جاتے، اس جھوٹی افواہ پر مسلمانوں کا ابتدائی ردعمل ان آیات کے نزول کا سبب بنا۔
یہ عظیم آیت مبارکہ امت مسلمہ کو وہ مضبوط و محکم بنیاد فراہم کرتی ہے کہ حوادث کے تھپیڑے خواہ کتنے ہی سخت ہوں، کتنے ہی قائدین شہید ہو جائیں، لیکن امت مضبوطی کے ساتھ حق پر ڈٹی اور راہِ حق پر گامزن رہے گی۔
انسان مر جاتے ہیں، لیکن حق کی زندگی سرمدی ہے، اصولوں کو کبھی موت نہیں چھو سکتی، مسلمان کسی قیادت کے پیچھے اسی حق کی خاطر ہی چلتے ہیں، سو اگر قیادتیں جسمانی طور پر مر جائیں یا حق کو چھوڑ کر معنوی موت کا شکار ہو جائیں، تو بھی مسلمان حق کا تابع رہتا ہے ، حق کی اتباع کرتا ہے، اسی کی خاطر قربانی دیتا ہے اور اس راستے پر گامزن رہتا ہے۔
یہ عظیم اسلامی حقیقت دشمنان اسلام کی نگاہوں سے اوجھل ہے کہ مسلمان کی زندگی دین حق کی خاطر ہے، نہ کہ افراد کی خاطر۔ اسی خاطر یہ دشمن مسلم قیادت کو نشانہ بنانے کے لیے بڑی جد وجہد کرتے ہیں، کہ انہیں قتل کر دیں، یا گرفتار کر لیں، یا بے گھر کردیں، ان منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کرتے ہیں تاکہ اسلام کی بیخ کنی کی جا سکے۔
بعض دشمن اس حقیقت کو سمجھ چکے ہیں اور مایوس ہو کر کہتے ہیں کہ اپنے سرداروں کے قتل یا گرفتاری سے مسلمان کمزور نہیں پڑتے، کیونکہ ان کا جینا اپنے اصولوں کی خاطر ہوتا ہے، ان کی امت میں عظیم لوگ بکثرت پیدا ہوتے ہیں، قیادت کا قتل انہیں مزید استقامت دیتا ہے کہ جیسے انہوں نے قربانی دی ہم بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
جیسا کہ اسی غزوہ احد میں جب رسول اللہ ﷺ کے قتل کی افواہ حضرت انس بن نضر تک پہنچی تو آپ نے کہا: ’’رسول اللہ ﷺ کے بعد تمہاری زندگی کس کام کی؟ اٹھو اور جس دین پر رسول اللہ ﷺ کٹ گئے اس پر تم بھی مر مٹو‘‘، پھر آپ آگے بڑھ کر کفار کے لشکر میں گھس گئے، اور تا دمِ شہادت قتال کرتے رہے۔
اللہ ورسول کا فرمانبردار گروہ!
اَلَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰهِ وَالرَّسُوْلِ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَصَابَھُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا مِنْھُمْ وَاتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِيْمٌ (سورۃ آل عمران: ۱۷۲)
’’وہ لوگ جنہوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول کی پکار کا فرمانبرداری سے جواب دیا، ایسے نیک اور متقی لوگوں کے لیے زبردست اجر ہے۔‘‘
اَلَّذِيْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِيْمَانًا ڰ وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ (سورۃ آل عمران: ۱۷۳)
’’وہ لوگ جن سے کہنے والوں نے کہا تھا : یہ ( مکہ کے کافر) لوگ تمہارے (مقابلے) کے لیے (پھر سے) جمع ہو گئے ہیں، لہٰذا ان سے ڈرتے رہنا، تو اس (خبر) نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کر دیا اور وہ بول اٹھے کہ: ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔‘‘
غزوۂ احد کے بعد مسلمان تھکن سے بے حال اور زخموں سے چور تھے، رسول اللہ ﷺ نے خطرہ محسوس فرمایا کہ کہیں کفار یہ سوچ کر مدینہ پر حملہ آور نہ ہو جائیں کہ وہ مسلمانوں کو کما حقہ نقصان نہیں پہنچا سکے ،اس لیے رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ واپس مدینہ جانے کے بجائے دشمن کا پیچھا کیا جائے، آپ ﷺ نے فرمایا:
’’اس تعاقب میں ہمارے ساتھ وہی نکلے گا جو جنگ میں شامل رہا ہو۔‘‘
سو لشکر اسلام نے پیش قدمی کی اور مدینہ منورہ سے آٹھ میل کے فاصلے پر حمراء الاسد کے مقام پر پڑاؤ ڈالا۔
اس منظر نامے پر غور کر کے ہم مسلمانوں کی نفسیات کے اجزائے ترکیبی کو سمجھ سکتے ہیں، ان کے دل و دماغ، روح و بدن ایمان سے سرشار تھے ،ساری تھکن اور زخموں کے باوجود اللہ اور اس کے رسول ﷺکے امر کی تکمیل کے لیے اس ایمان نے ہی انہیں متحرک کیا۔
جو بھی سچا چاہنے والا ہوتا ہے، وہ اپنے محبوب کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے فوراً آگے بڑھتا ہے، خواہ خود کتنا زخمی کیوں نہ ہو! خواہ اس میں اس کا جسم تھکے یا جان جائے! محبوب کی خدمت بجا لاتے ہوئے اسے تکلیف کا احساس ہی نہیں ہوتا، بلکہ محبوب کی رضا و خوشی کا تصور اس کی تکلیف کو راحت و لذت میں بدل دیتا ہے۔
سچے مسلمان بڑی سے بڑی ٹھوکر کھانے اور تکلیف اٹھانے کے بعد بھی اسی ایمانی فطرت کی بنا پر کھڑے ہو کر دوبارہ اپنا سفر شروع کر دیتے ہیں، اس حقیقت سے ہمارا دشمن یا تو جاہل ہے یا پھر تجاہل عارفانہ سے کام لیتا ہے۔
حمراء الاسد کے غزوے میں دشمن نے مسلمانوں کے خلاف ایک نفسیاتی حربہ آزمانے کی کوشش کی، ایک گروہ کو بھیجا ،جس نے مسلمانوں کو یہ کہہ کر ڈرانا چاہا کہ کئی قومیں تم سے جنگ کے لیے ایک ہو چکی ہیں۔
اَلَّذِيْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِيْمَانًا ڰ وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ (سورۃ آل عمران: ۱۷۳)
’’وہ لوگ جن سے کہنے والوں نے کہا تھا : یہ ( مکہ کے کافر) لوگ تمہارے (مقابلے) کے لیے (پھر سے) جمع ہو گئے ہیں، لہٰذا ان سے ڈرتے رہنا، تو اس (خبر) نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کر دیا اور وہ بول اٹھے کہ: ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔ ‘‘
یہ ایک اور مسلم حقیقت ہے کہ مسلمان خالق کو اور اس کی قوت و قدرت کو دیکھتا ہے اور اس پر اعتماد و توکل کرتا ہے، اس کی نظر مخلوق کی طرف نہیں جاتی، خالق و مخلوق کی قدرت کے موازنے کا مسلمان کا یہاں تصور ہی نہیں۔
[چہ نسبت خاک را با عالم پاک!
مٹی کو بھلا پاکیزہ عالَم سے کیا نسبت ہو سکتی ہے؟]
یہ ایمانی حقائق میں سے ایک اور حقیقت ہے جن سے ہمارے دشمن ناواقف ہیں، حالانکہ انہیں چاہیے کہ وہ ان ایمانی حقائق کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کریں ،تاکہ اپنے ملک و قوم کو اس خسارے کی جنگ سے بچا پائیں، کیونکہ یہ ایمانی حقائق و اوصاف مسلمانوں کی فتح کے ضامن ہیں۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭
1 راقم کا مقصود ہرگز ہرگز بھی علم و تربیت کو غیر اہم قرار دینا نہیں، بلکہ علم تو فرض کفایہ ہے اور کبھی فرض عین بھی ہوتا ہے، اسی طرح صف مجاہدین کی تربیت کی اہمیت سے بھی انکار نہیں، اصل تنقید اس ذہنیت پر ہے کہ جب مسلمانوں پر ہر طرف سے کفار یلغار کر رہے ہیں اور جہاد فرض عین کے دائرے میں داخل ہو گیا ہے اس وقت ان چیزوں کو شرط قرار دیا جا رہا ہے جو عام حالات میں [فرض کفایہ جہاد میں ]بھی شرط نہیں۔ (راقم)