بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره ونتوكل عليه ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلله فلا هادي له، ونشهد أن لا إله إلا الله ونشهد أن محمدًا عبده و رسوله. ربِّ اشرح لي صدري ويسّر لي أمري واحلل عقدة من لساني يفقھوا قولي، أما بعد!
رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو ہم نہ ہوتے، اس کائنات میں ہدایت کا سلسلہ نہ ہوتا، سب چوپایوں کی مانند ہوتے، جنت و دوزخ کی تقسیم ہوتی تو کیونکر؟ مالک ﷻ نے اپنے نام کے بعد آپؐ کا نام جوڑ دیا، کم و بیش سوا لاکھ پیغمبروں علیہم الصلاۃ والسلام کو آپ کی پہچان کروائی، آپؐ کو افضل الخلائقؑ کا امام بنایا، آپؐ ہی کو مالک ﷻ نے اپنی ذات کے بعد ’بزرگ و برتر‘کا رتبہ دیا، آپؐ کی خاکِ پا سدرۃ المنتہیٰ ہے، تمام انبیاءؑ یومِ حشر کو فرمائیں گے شفاعت کے لیے انؐ کے پاس جاؤ۔ پس جو آپؐ پر ایمان لایا وہ جنتی، خوش بخت، کامیاب ٹھہرا اور جس نے آپ کا انکار کیا وہ ربّ العالمین کا مبغوض و مغضوب، جہنمی، بد بخت و ناکام و نامراد ٹھہرا! اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!
ہمارے سامنے ہے کہ ہندوستان میں پچھلے ایک ماہ سے محمدِ مصطفیٰ، احمدِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ عالی و اقدس کے بارے میں دریدہ دہنی کا سلسلہ چل رہا ہے۔ دریدہ دہنی، گستاخی بھی ایسی، ایسے خسیس الفاظ جن کو پڑھ سن کر روح تو کانپے ہی کانپے، بدن سے بے اختیار، آنسو، چیخیں اور آہیں نکل جائیں، فإنّا للہ وإنّا إلیہ راجعون!
ہندوستان میں آج محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخیوں کا جو ناپاک سلسلہ جاری ہےتو اس بابت ہم دو قسم کے مخاطبین کے سامنے دو نکات بیان کرتے ہیں:
عربی و عجمی، گورے و کالے، ہندی و حجازی ہر ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقام لے اور اس گستاخی کے سلسلے کو فی الفور رکوائے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں پر واجب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرنے والوں کو قتل کریں، اس انتقام کے لیے جو چھری چاقو، جو کلہاڑا و ٹوکا میسر ہو، جو ڈنڈا و ہتھوڑا ہاتھ آئے تو استعمال کیا جائے۔ ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ گستاخوں کے سرخیلوں کا پتہ چلائیں، وہ اعلیٰ حکومتی عہدیدار اور آر ایس ایس جیسی ہندو تنظیموں کےرہنما ہمارا پہلا ہدف ہوں جو اس گستاخی کی مہم میں در پردہ و پیش پردہ پیش پیش ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ چند گستاخوں کے سر ،اُن کی مُنڈیوں سے جدا ہونے کی دیر ہے اور یہ گستاخ نسل اپنے گھروں میں دبکی بیٹھی ہو گی۔ واللہ العظیم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں اگر ہم خود شہید ہو گئے، تو جس نبیؐ کا کلمہ ہم ہر ہر سانس کے ساتھ پڑھتے ہیں تو اسی نبیؐ کی خاطر مر جانے سے افضل موت کوئی نہیں! ہم تو محمد بن مسلمہ و عبد اللہ بن عتیک اور نابینا مگر سب آنکھوں والوں سے زیادہ دیکھنے والے عمیر بن عدی رضی اللہ عنہم کے وارث ہیں، ان صحابۂ کرام کے وارث جنہوں نے گستاخوں کو قتل کیا اور ’أفلحت الوجوہ‘، یہ چہرے ہمیشہ کامیاب رہیں کا اعزاز و اکرام پایا۔
پس ہمارے قلب و ذہن میں یہ مسئلہ واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کی خاطر گستاخوں کا قتل، اللہ ﷻ کے دین میں ایسا واضح حکم ہے جس کے متعلق خود آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا ’لا ینتطح فیھا عنزان‘، دو بکریاں بھی اس معاملے میں اختلاف نہ کریں گی۔1ذکرہ ابن عبد البرؒ بإسناد ضعیف ولکن معناہ ثابت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا قول مشہور ہے کہ ’اس امت کی بقا کا کیا جواز ہے جس کے نبی کی توہین کی جاتی ہو؟‘۔2الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم
پس دنیا و آخرت کی کامیابی اور اللہ اور اس کے رسول کی رضا و خوشنودی ہراس شخص کا مقدر ہے جو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرے اور آپ کے اس فرمان پر عمل کرے ’من سبّ نبیاً فاقتلوہ!‘، جو کسی نبی کی گستاخی کرے تو اسے قتل کر دو!
ہمارے دوسرے مخاطب ہندوستان کے ہندو ہیں۔ ہر قوم میں کچھ سمجھ دار اور عقل کے ناخن رکھنے والے لوگ موجود ہوتے ہیں، ہندوستان میں بستے ہندو بھی ایسے عقل مند لوگوں سے خالی نہیں ہوں گے۔
ایسے ہی لوگوں سے ہم کہتے ہیں کہ تاریخِ عالَم شاہد ہے کہ جس نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کا جرم کیا ہے تو اسے کبھی معاف نہیں کیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی پوری امتِ مسلمہ کو للکارنا ہے اور اس سے بھی قبل اللہ وحدہٗ لا شریک کے غضب کو دعوت دینا ہے۔
پس اے ہندوستان میں بستے ذی عقل ہندؤو! اپنے بے وقوفوں کو ایسے جرائم سے روکو ورنہ جو آگ آج ہندوستان کی گلی گلی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کی صورت میں لگائی جا رہی ہے اس سے بھارت سارا کا سارا جل کر راکھ ہو جائے گا۔ وما ذلک علی اللہ بعزیز!
وآخر دعوانا أن الحمد لله ربّ العالمين وصلى الله على النبي!
۱۶ ربیع الثانی ۱۴۴۷ھ بمطابق ۹ اکتوبر ۲۰۲۵ء
- 1ذکرہ ابن عبد البرؒ بإسناد ضعیف ولکن معناہ ثابت
- 2الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم












