اِمارتِ اِسلامیہ افغانستان
دفترِ امیر المومنین
حقوقِ خواتین کے حوالے سے امیر المومنین شیخ ہبۃ اللہ اخندزادہ (دامت برکاتہم العالیۃ) کا فرمانِ خاص
امارتِ اسلامی کی قیادت تمام متعلقہ اداروں، علمائے کرام اور قبائلی بزرگان و سرداران کو حقوقِ خواتین کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی ہدایت کرتی ہے۔
- نکاح (شادی) کے لیے بالغ عورت کی رضامندی حاصل کرنا ضروری ہے۔(نکاح میں فریقین کا ہم کفو ہونا بھی ضروری ہے اور فتنہ و فساد رفع کرنے کا اصول مدِّ نظر رکھا جائے ) کوئی شخص زور زبردستی سے کسی خاتون کو نکاح پر مجبور نہیں کر سکتا۔
- عورت کسی کی مِلکیت یا جائیداد نہیں بلکہ ایک آزاد و محترم انسان ہے، کوئی شخص کسی دوسرے کے ساتھ جنگ و دشمنی ختم کرنے یا صلح کا معاہدہ کرنے کے لیے عورت کا سودا نہیں کر سکتا۔
- شوہر کے انتقال کی صورت میں ، شرعی عّدت (چار ماہ دس دن یا مدّتِ حمل)کی مدّت گزرنے کے بعد، بشمول بیوہ کے خاندان و رشتہ داروں کے ، کسی کےلیے روا نہیں کہ وہ بیوہ سے زبردستی ، اس کی مرضی کے خلاف نکاح کرے ۔ بیوہ شادی کرنے یا اپنے مستقبل سے متعلق فیصلہ کرنے کا اختیار خود رکھتی ہے۔ (گو کہ اس میں بیوہ کے لیے دوسری شادی کی صورت میں فریقین کے مابین برابری ہونا اور فتنہ و فساد رفع کرنے کا اصول مدِّ نظر رکھا جائے گا)۔
- اپنے نئے خاوند سے ’مہر ‘ حاصل کرنا بیوہ کا شرعی حق ہے۔
- بیوہ اپنے شوہر، بچوں، والد اور رشتہ داروں کے مال میں وراثت کا حق رکھتی ہے اور کوئی شخص اسے اس حق سے محروم نہیں کر سکتا۔
- ایک سے زیادہ نکاح کرنے والے حضرات کے لیے ضروری ہے کہ وہ شریعتِ مطہرہ کے مطابق تمام خواتین کے حقوق ادا کریں اور ازواج کے مابین عدل و مساوات قائم کریں۔
اس فرمان کے درست طور پر نفاذ کے لیے تمام متعلقہ اداروں کو درجِ ذیل اقدامات کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے:
- وزارتِ حج و اوقاف کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ علمائے کرام کو عوام کے درمیان خواتین کے حقوق سے متعلق آگاہی پھیلانے کی تحریض دلائے ، تاکہ وہ اپنے خطوط و دروس اور تبلیغ کے ذریعے عوام میں یہ شعور پیدا کریں کہ خواتین پر ظلم اور ان کے حقوق کی پامالی، اللہ تعالی کے غیض و غضب اور ناراضگی کا سبب ہے۔
- وزارتِ اطلاعات و ثقافت کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اپنے وسائل استعمال کرتے ہوئے حقوقِ خواتین کے حوالے سےتحریری و صوتی مضامین اور مقالے شائع اور نشر کرے اور دیگر لکھاری وادیب حضرات اور داعیان و مبلغین کی بھی حوصلہ افزائی کرے کہ وہ اس موضوع پر مفید مقالے لکھیں اور نشر کریں تاکہ خواتین کے شرعی حقوق کے موضوع پر علمائے کرام اور عوام الناس کی توجہ حاصل ہو اور عورتوں پر جاری ظلم کا خاتمہ کیا جا سکے۔
- عدالتِ عظمیٰ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اپنی تمام ذیلی عدالتوں کو حکم نامے جاری کرے کہ خواتین کے حقوق سے متعلق بالعموم اور بیوگان کے حقوق سے متعلق بالخصوص، تمام درخواستوں کو درست، مناسب اور با اصول طریقے سے سنا جائےاور ان پر غور کیا جائے تاکہ خواتین کو ان کے شرعی حقوق حاصل کرنے اور ظلم و جبر سے چھٹکارا حاصل کرنے کے معاملے میں مایوسی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
- تمام والی(صوبائی گورنر) اور ولسوال(ضلعی کمشنر) حضرات کے لیے ضروری ہے کہ اس فرمان پر عمل درآمد کے لیے مذکورہ وزارتوں اور عدالتِ عظمیٰ کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔
والسلام
۲۸؍۴؍۱۴۴۳ھ ق | ۱۲؍۸؍۱۴۰۰ھ ش | ۳؍۱۲؍۲۰۲۱ء