مولانا محمد اسماعیل ریحان صاحب (زید مجدہٗ) کی تالیف ’أصول الغزو الفکري‘ یعنی ’نظریاتی جنگ کے اصول‘، نذرِ قارئین ہے۔ اس وقت مسلمانوں کو اہل باطل کی جانب سے ایک ہمہ گیر اور نہایت تند و تیز فکری و نظریاتی یلغار کا سامنا ہے۔ اس یلغار کے مقابلے کے لیے ’الغزو الفکری‘ کو دینی و عصری درس گاہوں کے نصاب میں شامل کرنا از حد ضروری ہوچکا ہے۔دینی و عصری درس گاہوں میں اس مضمون کو شامل کرنے کے ساتھ ساتھ ’الغزو الفکری‘ یعنی نظریاتی جنگ کے مضمون و عنوان کو معاشرے کے فعال طبقات خصوصاً اہلِ قلم، اسلامی ادیبوں اور شاعروں، اہلِ دانش، صحافیوں، پیشہ ور (پروفیشنل)حضرات نیز معاشرے کہ ہر مؤثر طبقے میں بھی عام کرنا از حد ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے ’اصول الغزو الفکری‘کے عنوان سے اس علم کے اہم مباحث کو مختصر طور پر مولانا موصوف نے پیش کیا ہے۔ مولانا موصوف ہی کے الفاظ میں ’در حقیقت یہ اس موضوع پر تحریر کردہ درجنوں تصانیف کا خلاصہ ہے جس ميں پاک و ہند کے پس منظر کا نسبتاً زیادہ خیال رکھا گیا ہے‘۔ یہ تحریر اصلاً نصابی انداز میں لکھی گئی ہے، لیکن اس کے باوجود خشکی سے پاک ہے اور متوسط درجۂ فہم والے کے لیے بھی سمجھنا آسان ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم مسلمانوں کو نظریاتی و عسکری محاذوں کو سمجھنے، ان محاذوں کے لیے اعداد و تیاری کرنے اور پھر ہر محاذ پر اہلِ باطل کے خلاف ڈٹنے کی توفیق ملے۔ اللہ پاک مولانا محمد اسماعیل ریحان صاحب کو جزائے خیر سے نوازیں کہ انہوں نے ایسے اہم موضوع کے متعلق قلم اٹھایا، اللہ پاک انہیں اور ہم سب اہلِ ایمان کو حق پر ثبات اور دین کا صحیح فہم عطا فرمائیں، آمین یا ربّ العالمین! (ادارہ)
یہودی تنظیمیں اور تحریکیں
یہودی تنظیمیں اور تحریکیں خفیہ بھی ہیں اور اعلانیہ بھی۔ بڑی خفیہ تنظیمیں یہ ہیں:
ٹیمپلرز
فری میسنری یا الماسونیۃ
الومیناتی تنظیم
مشہور تحریکیں یہ ہیں:
صیہونیت
ایلیا تحریک
بڑی اعلانیہ تنظیمیں یہ ہیں:
بینی برتھ سوسائٹی
لائنز کلب
روٹری انٹرنیشنل
ان کے علاوہ یہودیوں نے کچھ عالمی ادارے بھی قائم کیے جیسے لیگ آف نیشنز اور اقوام متحدہ۔ ذیل میں ان تنظیموں اور تحریکوں کا تعارف کرایا جارہا ہے۔
ٹیمپلرز:
ٹیمپلرز کا ظہور پانچویں صدی ہجری (گیارہویں صدی عیسوی) کے اواخر میں اس وقت ہوا جب پہلی صلیبی جنگ چھڑی اور صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کرلیا۔ انھوں نے مقدس مقامات کی حفاظت کے عنوان سے اپنی ایک فوج بنائی جو یورپ کی تمام فوجوں سے زیادہ مضبوط تھی۔ اس فوج کے سپاہی جنونی عیسائی تھے، لیکن اس کے قائدین صرف یہودی ہوتے تھے۔ صدیوں تک اس تنظیم کو نصرانی ہی تصور کیا جاتا تھا۔ صلیبی جنگوں میں عیسائیوں کی متواتر شکستوں کی وجہ سے ٹیمپلرز کو شام سے نکلنا پڑا، تب انھوں نے یورپ میں قدم جمالیے۔ ان کی فسادی حرکات سے تنگ آکر ۱۳۱۲ء میں ٹیمپلرز کی تنظیم کو کالعدم قرار دے دیا گیا لیکن ٹیمپلرز ختم نہیں ہوئے۔ انھوں نے ایک نئی شکل اختیار کرلی۔ ان کے بہت سے افراد نے “آرڈر اوف کرائسٹ” نامی تنظیم بناکر بحری تجارت اور قزاقی کا پیشہ اختیار کرلیا۔ کچھ فری میسنری تنظیم میں شامل ہوگئے اور اسے اپنے عقائد و نظریات کے تابع کرلیا۔ موجودہ فری میسنری ٹیمپلرز ہی کا دوسرا نام ہے۔
فری میسنری Free Masonry (الماسونیۃ):
خفیہ یہودی تنظیموں میں سب سے قدیم اور مؤثر تنظیم فری میسنری ہے۔ اس کے نظریات، اہداف اور طریقۂ واردات بہت خفیہ رکھے جاتے ہیں۔
اس تنظیم کی علامات تعمیراتی اوزار اور آلات….. پرکار، گُنیا اور مثلث میں گھورتی ہوئی آنکھ ہیں۔ تنظیم میں کئی درجات اور طبقات ہیں، پہلے طبقے میں تمام مذاہب، قوموں اور نسلوں کے لوگ آسکتے ہیں۔ اس کے ارکان لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ دوسرے طبقے میں صرف یہودی شامل ہوسکتے ہیں۔ تیسرے طبقے میں دنیا بھرکے چنے ہوئے یہودی ہوتے ہیں۔ تمام طبقوں اور عہدے داروں کے اوپر فری میسنری کا سربراہ ہوتا ہے جسے “رئیس” یا “حاخامِ اعظم” کہا جاتا ہے، لیکن اس کی شخصیت ہمیشہ پوشیدہ رہتی ہے۔
اس تنظیم کے اصول و قواعد بہت سخت ہیں۔ کارکن ان کے مطابق نظم و ضبط کے پابند ہوتے ہیں۔ ہر رکن صرف اپنے سربراہ کے طبقے کے رکن سے تعلقات رکھ سکتا ہے۔ ایک ڈگری میں شامل افراد ایک دوسرے کو مخصوص علامات سے پہچان لیتے ہیں۔ پہچان کے یہ اشارے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
مقاصد:
فری میسنری کا شعار اور ظاہری مقصد “عدل، اخوت اور حریت“ہے۔ فری میسنز دعویٰ کرتے ہیں کہ ہماری تنظیم قوم، ملک اور مذہب کی تفریق سے بالاتر ہے اور ہم اپنی کارکردگی سے انسانوں میں حتی الوسع تعاون کا ایک مثالی ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ مگر ان خوشنما دعووں کے پسِ پردہ اصل مقاصد تحفظِ یہودیت، غلبۂ یہود، تمام مذاہب کی مخالفت اور بے دینی و اباحیت کا فروغ ہیں۔
تحفظِ یہودیت اور غلبۂ یہود:
یہودیت کا تحفظ اور یہودیوں کا عالمگیر غلبہ فری میسنری کا پہلا ہدف ہے۔ یہودی پیشوا، حاخام اسحاق وایز اعتراف کرتا ہے: “فری میسنری تحریک ایک یہودی ادارہ ہے جس کی تاریخ، اس کے مراتب اور درجہ بندی، تعلیمات اور خفیہ کلمات اول تا آخر یہودی ہیں“۔
۱۹۰۱ء میں شائع ہونے والے کتابچے “European Free Masonry” میں تحریر کیا گیا:
“یورپین فری میسنری” European Free Masonry ایک ایسی عمارت تعمیر کرے گی جس میں خداوندِ بنی اسرائیل ہمیشہ رہے گا“۔
دیگر مذاہب کی مخالفت:
یہودی دیگر مذاہب کو ختم کرکے لادینیت پھیلانا چاہتے ہیں تاکہ عقائد سے عاری قلوب میں یہودیت کی کاشت کرنا مشکل نہ ہو۔ اس مقصد کے لئے فری میسنری پوری طرح متحرک ہے۔ یہودی پروٹوکولز میں کہا گیا ہے:
“فری میسنری جو پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے ہماری مدد کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایمانی عقائد کی زنجیر توڑ دیں۔ جب ہم اپنی مملکت حاصل کرلیں گے تو اپنے عقیدے کے علاوہ کسی عقیدے کو نہیں رہنے دیں گے، اس لیے ہمیں تمام ادیان اور عقائد کا خاتمہ کرنا چاہیے“۔
الحاد، بے دینی اور اباحیت کا فروغ:
فری میسنری دنیا کو حیوانوں کی طرح جنسی اباحیت کا عادی بناکر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرنا اور انھیں حال و مستقبل کے خطرات سے غافل رکھنا چاہتی ہے۔ “Jewish Encyclopedia” میں کہا گیا ہے:
“ہم ایسے لوگ پیدا کرنا چاہتے ہیں جو اپنے اعضائے تناسلی کے بارے میں بالکل شرم نہ کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ نوجوان یہ سمجھیں کہ پیدائش کے وقت ہی سے اعضائے تناسل کو تقدس کا درجہ حاصل ہے“۔
(جیوش انسائکلو پیڈیا۔ ایڈیشن ۱۹۰۳ء۔ جلد ۵ صفحہ ۵۰۳)
فری میسنری کی تاریخ:
یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ فری میسنری کی بنیاد اس وقت پڑ چکی تھی جب بنی اسرائیل فرعون کی غلامی میں اہرام تعمیر کر رہے تھے۔ اس وقت بھی بنی اسرائیلی معماروں نے اپنی روایتی اَنا کو ترک نہ کیا اور اپنی ایک آزادانہ حیثیت برقرار رکھنے کی کوشش کرتے
رہے۔ اس طرح فری میسن (آزاد معمار) برادری کی بنیاد پڑگئی۔ موسیٰ علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کے دور میں انھوں نے اپنا تشخص بر قرار رکھا۔ بنی اسرائیل کے زوال کے دور میں یہودی پیشواؤں نے اپنی حمیت کو بر قرار رکھنے کے لئے مخصوص محفلوں کا انعقاد شروع کیا جنھیں لاج (lodge) کہا جاتا تھا۔ ان میں وہ اپنے نظم و ضبط کی بقا اور اپنے عروج کی بازیابی کے لیے منصوبے بناتے تھے۔ یہود کے ان بڑے راہنماؤں کا تعلق انھیں معماروں اور سنگ تراشوں کے خاندان سے تھا، سنگ تراش کو انگریزی میں “میسن” کہا جاتا ہے، چنانچہ اسی مناسبت سے اس تنظیم کو “آزاد معماروں کی تنظیم” یا “فری میسنری” کہا جانے لگا۔
تاریخی حقائق سے “فری میسنری” کی بنیادوں کے اتنا قدیم ہونے کا ثبوت پیش نہیں کیا جاسکتا۔ فری میسنری کا نام پہلی بار اٹھارہویں صدی میں مشہور ہوا، جب اس تنظیم نے برطانیہ میں اپنے قدم جما کر تیزی سے ترقی شروع کی۔ ۱۷۱۷ء میں برطانیہ میں گرینڈ لاج قائم ہوا پھر جہاں جہاں برطانیہ کا اثر و رسوخ تھا وہاں فری میسنری کے مراکز قائم ہونے کی ایک رَو چل پڑی۔ کینیڈا، آسٹریلیا، مصر، مشرق وسطیٰ اور دیگر مقبوضہ ممالک میں لاجز بنتے چلے گئے۔
فری میسنری نے ۱۷۸۹ء میں انقلابِ فرانس برپا کرکے فرانسیسی شہنشاہیت کا خاتمہ کیا اور یورپ میں جمہوریت کی بنیاد ڈالی۔ ترکی سے خلافت کے خاتمے میں بھی فری میسنری کا کردار سب سے فعال رہا۔ انیسویں صدی کے اواخر میں سرگرم ہونے والی ترک نوجوانوں کی خفیہ جماعت “انجمن اتحاد و ترقی” جو انقلاب کی داعی تھی در حقیقت فری میسنری کے اشارے پر چل رہی تھی۔ فری میسنری کے ایجنٹوں نے تین بر اعظموں میں پھیلی ہوئی اسلامی خلافت کی جگہ ایک تنگ نظر اور کمزور لادین ریاست قائم کر دکھائی۔ ۱۹۱۷ء میں روس میں بالشویک انقلاب آیا، اس میں بھی فری میسنری کا بھرپور کردار تھا، جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال، افغانستان کے بادشاہ حبیب اللہ خان، ایران کے سابق شاہ رضا شاہ پہلوی، مصر کے سابق صدر جمال عبدالناصر اور صدر انور سادات، اور فلسطینی لیڈر یاسر عرفات جیسے لوگ فری میسنری کے ایجنٹ تھے۔
لوگ فری میسن کیوں بنتے ہیں:
لوگ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تکمیل کے لیے فری میسن بنتے ہیں۔ ذاتی اغراض اور مفادات کے پجاری ہی فری میسنری کے جال میں پھنستے ہیں۔ یہ خاص لوگ مثلاً حکمران، سیاست دان، وزراء، سفیر، سول حکام، فوجی افسران، بڑے تاجر، صنعت کار، سائنسدان، ڈاکٹر، اہل علم و دانش ہوتے ہیں جو مقبولیت، مقام اور دولت میں زیادتی کے بھوکے ہوتے ہیں۔ اس تنظیم میں داخلے کے وقت امیدوار سے قسم لی جاتی ہے کہ وہ کسی قسم کا راز افشا نہیں کرے گا، اگر خلاف ورزی کرے تو اسے قتل کردیا جائے۔ رکن بننے کے بعد آزمائش کے لیے مختلف کام دیے جاتے ہیں، جن کی تکمیل پر اس کی ترقی موقوف ہوتی ہے۔
الومیناتی تنظیم (Order of Illuminati):
یہ تنظیم یکم مئی ۱۷۷۴ء کو ان یہودیوں نے قائم کی جو لوسی فر (Lucifer) یعنی ابلیس کو اپنا خدا مانتے ہیں اور اس کی عبادت کرتے ہیں اور دجال کو اپنا نجات دہندہ یا مسیحا تصور کرتے ہیں۔ یہ تنظیم لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے ظاہر کرتی ہے کہ اس کا مقصد قوم، مذہب، حیثیت اور پیشے سے بالاتر ہوکر نسل انسانی کو ایک خوشحال برادری میں تبدیل کرنا ہے۔ مگر اس کا اصل مقصد تمام مذاہب، تمام حکومتوں، تمام ذاتی جائیدادوں، حب الوطنی اور خاندانی نظام کا خاتمہ اور اس کے بعد ایک عالمی ابلیسی ریاست کا قیام ہے۔ ۱۶ جولائی ۱۹۸۲ء سے “فری میسنری” اور “الومیناتی” ایک معاہدے کے تحت متحد ہوگئی ہیں کہ دونوں کا مقصد ایک ہی ہے۔
یہودی تحریکیں
صہیونیت ( Zionism):
یہ یہودیوں کی سب سے قدیم اور سب سے مؤثر تحریک ہے جو بیت المقدس کے جنوب میں واقع ایک پہاڑ “صہیون” کی طرف منسوب ہے۔ یہ تحریک بنی اسرائیل کی عظمت رفتہ کی بازیابی، اقصیٰ کی جگہ ہیکل کی تعمیر، اور پوری دنیا پر ایک یہودی بادشاہ کے ذریعے حکومت کرنے کے خواہاں ہے۔ یہ یہودی بادشاہ “کانا دجال” ہے۔
یہ انتہائی قدیم تحریک ہے۔ صہیون کو واپسی، ہیکل کی از سرنو تعمیر اور عالمگیر بادشاہت کا جذبہ پہلی مرتبہ اس وقت پیدا ہوا جب یہودی بخت نصر کی قید سے آزاد ہوکر فلسطین واپس جا رہے تھے۔ اس وقت جو تحریک شروع ہوئی اسے “تحریکِ مکابیین” کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد ایسی کئی تحریکیں مختلف زمانوں میں چلتی رہیں مگر ان سب کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اٹھارہویں صدی عیسوی میں فری میسنری اور یہودی دانشوروں کی سرگرمیوں کی وجہ سے یورپ کی کئی حکومتیں ایک الگ آزاد وطن کے لئے جاری یہودی تحریک کی حامی بن گئیں۔ یورپی حکمرانوں نے یورپ کو یہود کے فساد سے پاک کرنے اور ان کے ذریعے مسلمانوں کو شکست دینے کے خیال سے یہود کی حمایت شروع کردی۔ ان میں فراس کا نپولین سرفہرست ہے۔ اس نے یہودیوں سے یہ معاہدہ کیا کہ یہودی مشرق وسطیٰ پر قبضہ کرنے میں اس کی مالی امداد کریں تو وہ فلسطین میں انھیں ایک آزاد ملک دلوائے گا مگر یہ منصوبہ چوپٹ ہوگیا۔ انیسویں صدی کے وسط میں یہودی لیڈروں نے فلسطین میں زمینیں خریدنے کے منصوبے کا آغاز کردیا، اس سلسلے کو “ایلیا تحریک” کہتے ہیں۔
۱۸۹۶ء میں عالمگیر صہیونی تحریک کا آغاز ہوا جس کا بانی آسٹریا (یورپ) کا ایک صحافی “تھیوڈور ہرٹزل” تھا۔ اس نے اپنی تصنیف “الدولۃ الیہودیۃ” میں دریائے نیل سے لے کر فرات تک ایک عظیم یہودی ریاست قائم کرنے، فلسطین کو مرکز بنانے اور عالمگیر یہودی بادشاہ کے اقتدار کی راہیں ہموار کرنے کا تفصیلی منصوبہ پیش کیا۔ اس نے صہیونیوں کی پہلی سالانہ کانفرنس میں جو کہ ۱۸۹۷ء سوئزر لینڈ کے شہر باسل میں منعقد ہوئی اعلان کیا کہ ہم نے یہودیت کے غلبے کا پہلا پتھر نصب کردیا ہے، اور عن قریب دنیا ہمارے تابع ہوگی۔ اسی کانفرنس میں پہلی بار “حکمائے صہیون کے پروٹوکولز” پیش کیے گئے۔
۱۹۰۱ء میں یہودیوں نے خلیفۃ المسلمین سلطان عبدالحمید ثانی سے بھاری رقم کے بدلے فلسطین کی زمین طلب کی، لیکن سلطان نے صاف انکار کردیا۔ آخر کار صہیونیوں نے عثمانی خلافت کو سبوتاژ کرنے کے لیے پہلی عالمی جنگ چھیڑ دی جس کے اختتام پر خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کردیا گیا، ترکی کی بندر بانٹ کرکے شام اور عرب ممالک پر برطانوی اور یہودی ایجنٹوں کو مسلط کردیا گیا۔ ۱۹۱۷ء میں برطانیہ نے اعلان کردیا کہ فلسطین یہودیوں کو ملنا چاہیے، یہ ان کا حق ہے۔ تین عشروں بعد دوسری عالمی جنگ چھیڑی گئی اور صہیونیوں کے ہاتھوں اقوام متحدہ وجود میں آئی۔ اس ادارے کے تشکیل پانے کے کچھ ہی عرصے بعد اسرائیل کے قیام کی قرار داد منظور کرالی گئی۔ ۱۴ مئی ۱۹۴۸ء کو اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوگیا۔ صہیونیوں نے اس پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اسرائیل کے گرد و نواح کی اسلامی مملکتوں پر حملے جاری رکھے حتیٰ کہ ۵ جون ۱۹۶۸ء بیت المقدس پر بھی قابض ہوگئے۔ صہیونی مسجد اقصیٰ کو برباد کرنے کے لیے اس کے نیچے سرنگیں کھود چکے ہیں تاکہ کسی معمولی سے زلزلے سے مسجد گرجائے اور انھیں ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کا بہانہ مل سکے۔ جس کے بعد ان کے نزدیک عالمگیر یہودی بادشاہ کا آنا یقینی ہے۔
ایلیا تحریک
ایلیا تحریک سے مراد وہ تحریک ہے جس کے تحت یورپ سمیت دنیا بھر میں یہود کو فلسطین واپسی اور وہاں آباد ہونے کی دعوت دی گئی۔ یہ تحریک پانچ ادوار سے گزری ہے۔
پہلی ایلایا تحریک ۱۸۸۱ء میں شروع ہوئی جب روس سے بہت سے یہودی فرار ہوکر فلسطین میں آباد ہونے لگے۔ یہودی سرمایہ داروں مونیٹوری اور روتھ شیلڈ نے فلسطین میں ان یہودیوں کی آباد کاری کے لیے پانی کی طرح دولت بہائی مگر یہ تحریک ناکام ہوگئی۔
دوسری ایلیا تحریک ۱۹۰۴ء سے ۱۹۱۴ء تک جاری رہی۔ اس میں چالیس ہزار یہودی فلسطین آئے۔ جنھیں کِبُّتز (Kibbutz) سسٹم کے تحت آباد کیا گیا، اس میں زمین اور جائیدادیں کسی فرد کی ملکیت میں نہیں ہوتی تھیں۔ تمام لوگ مل کر کام کرتے تھے۔
تیسری ایلیا تحریک ۱۹۱۹ء سے ۱۹۲۳ء تک جاری رہی۔ اس بار جو نئے یہودی آباد کار فلسطین آئے انھوں نے کاشتکاری کے ساتھ تجارت کا آغاز بھی کردیا اور جلد ہی فلسطین کی تجارت میں اہم مقام حاصل کرلیا۔
چوتھی ایلیا تحریک ۱۹۲۳ء سے ۱۹۲۹ء تک جاری رہی۔ اس میں ۸۲ ہزار کے لگ بھگ یہودی روس، پولینڈ، رومانیہ اور دوسرے ملکوں سے فلسطین آگئے اور بہت بڑے پیمانے پر فلسطین کی زمین ہتھیائی گئی۔
پانچویں ایلیا تحریک ۱۹۲۹ء سے ۱۹۳۹ء تک جاری رہی۔ اس بار یہودی آبادکاروں کی تعداد اڑھائی لاکھ سے متجاوز تھی۔
چھٹا دور ۱۹۳۹ء سے ۱۹۴۵ء تک جاری رہا۔ اس دوران ڈیڑھ لاکھ کے قریب یہودیوں کو غیر قانونی طور پر فلسطین میں آباد کیا گیا۔ ۱۹۴۸ء میں قیامِ اسرائیل پر ایلیا تحریک کا اختتام ہوگیا۔
اعلانیہ تنظیمیں
بینی برتھ سوسائٹی:
بینی برتھ کا مطلب ہے “عہد کی اولاد” ایک جرمن یہودی نے ۱۷۴۳ء میں اس کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ فری میسنری کی مددگار تنظیم ہے جو اعلانیہ کام کرکے اس کے لیے زمین ہموار کرتی ہے۔ فری میسنری کے بڑے بڑے عہدے دار اعلانیہ زندگی میں اس سوسائٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔
لائنز کلب (The Lions Club):
لائنز (Liberty, Intelligence, Our Nation, Safety) کا مخفف ہے جس کا معنی ہے “آزادنہ روش اور دانش مندی ہمارا قومی تحفظ ہے“۔ لائنز کلب میں ایسے لوگوں کو لیا جاتا ہے جو سرمائے، علم یا منصب و جاہ کے اعتبار سے غیر معمولی ہوں، یا کسی میدان میں غیر معمولی صلاحیت کے حامل ہوں۔ لائنز کلب کے دو بڑے اہداف ہیں:
دنیا میں سیکولرزم (لادینیت) کو فروغ دینا۔
نسلِ نو کا ذہن صہیونیت کے مقاصد کے لیے ہموار کرنا۔
روٹری انٹرنیشنل (Rotary International):
یہود کی اس عالمی تنظیم کی بنیاد ایک امریکی وکیل پال ہیرس نے ۱۹۹۵ء میں رکھی۔ یہ تنظیم مختلف ملکوں میں فلاحی اور ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے اپنے قیام کا جواز نکال لیتی ہے۔ اب دنیا کے ۱۵۷ ممالک میں اس کے تحت تین ہزار کے لگ بھگ کلب کھلے ہوئے ہیں جن کے ممبران کی تعداد بارہ لاکھ سے زائد ہے۔
یہودی تسلط کے عالمگیر ادارے
لیگ آف نیشنز(League of Nations):
یہ پہلی جنگ عظیم (۱۹۱۶ء سے ۱۹۱۸ء) کے بعد قائم ہوئی، اس کے قیام کا ظاہری مقصد ایک ایسا عالمی پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا جو تمام ممالک پر اثر انداز ہو اور دنیا میں امن و سلامتی کا ضامن ہو۔ پہلی عالمی جنگ کے اختتام پر لیگ اوف نیشنز (League of Nations) کے ذریعے ہی وہ معاہدے ہوئے جن کے ذریعے خلافتِ عثمانیہ ختم ہوئی۔
اقوامِ متحدہ(United Nations Organization) :
دوسری جنگ عظیم کے بعد ۱۹۴۶ء میں اقوام متحدہ وجود میں آئی، اس کے دو سال بعد ۱۹۴۸ء میں اسرائیل قائم ہوگیا جس کی زیادتیوں کو اقوام متحدہ نے ہمیشہ نظر انداز کیا ہے۔ شام، اردن، مصر اور لبنان پر اس کے متعدد جارحانہ حملوں کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی نہیں کی گئی۔ ۱۹۶۶، ۱۹۷۳، اور ۱۹۸۲ء کی جنگوں میں عربوں کے قتلِ عام اور ہر قسم کے ممنوعہ اسلحے کے استعمال کو کبھی دہشت گردی شمار نہیں کیا گیا۔ ۲۰۰۰ء سے تا حال فلسطین میں اسرائیل کی بدترین خون ریزیوں کو کبھی درخورِ اعتناء نہیں سمجھا گیا۔ یہ حقائق اس سچائی کا ثبوت ہیں کہ اقوام متحدہ یہودیوں کے عالمی تسلط کا جال ہے۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)