بسمِ اللهِ والحمدُ للهِ والصلاةُ والسلامُ على رسولِ اللهِ وآلِه وصحبِه ومن والاه
دنیا بھر میں بستے میرے مسلمان بھائیو!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
آج میں امتِ مسلمہ کو اقوامِ متحدہ کے خطرے سے خبردار کرنا چاہتا ہوں۔یہ بحث درج ذیل حصوں کا احاطہ کرے گی:
تعارف
اقوامِ متحدہ کے منشور (چارٹر) کا مختصر جائزہ
انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کا مختصر جائزہ
یونیسکو کی سرگرمیوں کا خلاصہ
اقوامِ متحدہ کی مسلمانوں سے عملی دشمنی کا مختصر جائزہ
اختتامیہ
تعارف
شروع میں ہمیں یہ واضح کرنا ہوگا کہ اقوامِ متحدہ کو دوسری جنگِ عظیم کی فاتح طاقتوں نے پوری دنیا پر ایک سیاسی اور نظریاتی نظام مسلط کرنے کے مقصد سے اور باقی ساری انسانیت پر اپنی بالادستی قائم کرنے کی غرض سے تشکیل دیا تھا۔اگرچہ اقوامِ متحدہ، بین الاقوامی تعاون کی ایک تنظیم ہونے کے بلند ترین دعوے کرتی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے چارٹر کا مختصر جائزہ
اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے سرسری جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک ایسی تنظیم کا چارٹر ہے جو دنیا کو کنٹرول کرنے اور اس پر ایک بے دین اور غیر اخلاقی نظریہ مسلط کرنے کے لیے تشکیل دی گئی ہے اور جو شریعتِ اسلامیہ سے متصادم ہے۔
اور جب ہم اقوامِ متحدہ کے چارٹر پر غور کرتے ہیں تو درج ذیل چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں:
اول: شریعت سے متصادم قانون کے ذریعے فیصلے کرنا:
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فیصلے یا تو مطلق اکثریت یا دو تہائی اکثریت کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ اور سلامتی کونسل کو جنرل اسمبلی پر فوقیت حاصل ہے اور اس میں پانچ مستقل ارکان شامل ہیں جو اس دنیا کے سب سے بڑے مجرم ہیں اور ان کی منظوری کے بغیر کوئی فیصلہ لینا ناممکن ہے۔یعنی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فیصلے اکثریت کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں جبکہ سلامتی کونسل کو جنرل اسمبلی پر فوقیت حاصل ہے۔ پھر پانچ مستقل ارکان سب سے اوپر ایک مقدس حیثیت سے لطف اندوز ہوتے ہیں، اور وہی اقوامِ متحدہ کے حقیقی حکمران ہیں۔یعنی، جاہلیت پر جاہلیت اور اس پر پھر جاہلیت۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح کیا ہے کہ اُس کی شریعت کے علاوہ کوئی بھی قانون جاہلیت کا قانون ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّهِ حُكْماً لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ (سورۃ المائدۃ: ۵۰)
’’بھلا کیا یہ جاہلیت کا فیصلہ حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ یقین رکھتے ہوں ان کے لیے اللہ سے اچھا فیصلہ کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟‘‘
اقوامِ متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل نمبرایک واضح کرتا ہے کہ:
’’بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے اور جارحیت کی کارروائیوں یا امن کی دیگر خلاف ورزیوں کو دبانے کے لیے، اور پرامن ذرائع سے، اور انصاف کے اصولوں اور بین الاقوامی قانون کے مطابق، بین الاقوامی تنازعات کا تصفیہ یا ایسے حالات جو امن کے لیے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔‘‘
پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ڈاکٹر حسن نافعہ، اس آرٹیکل پر تبصرہ کرتے ہیں:
’’اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کسی بھی ایسے معاہدے یا تصفیے کی توثیق نہیں کرسکتی جو منطقی استدلال یا طاقت کے توازن کے مطابق تو ہو لیکن وہ تصفیہ انصاف کے اصولوں یا بین الاقوامی قوانین سے متصادم ہو۔‘‘
دوسرے لفظوں میں، اقوامِ متحدہ کی رکنیت قبول کرنے کا مطلب شریعت سے متصادم قانون کے ذریعے فیصلے قبول کرنا ہے اور شریعت کو مکمل طور پر ترک کرنا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے چارٹر پر دستخط کرنا بجائے خود یہ مطالبہ کرتا ہے کہ تمام معاملات (جنرل اسمبلی میں) اکثریت کی مرضی یا اقوامِ متحدہ کی ڈوریں کھینچنے والے پانچ مستقل اراکین کی مرضی یا بین الاقوامی قانون یا تجریدی انصاف کے مبہم حکم کے مطابق حل کیے جائیں گے۔ یعنی، اقوامِ متحدہ کے چارٹر پر دستخط کرنا، جاہلیت کے قانون کو برضا و رغبت قبول کرنا ہے۔
وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّهِ حُكْماً لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ (سورۃ المائدۃ: ۵۰)
’’ حالانکہ جو لوگ یقین رکھتے ہوں ان کے لیے اللہ سے اچھا فیصلہ کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟‘‘
دوم: دیگر معاہدوں اور قوانین کے مقابلے میں اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی غالب حیثیت:
اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل۱۰۳میں کہا گیا ہے:
’’رکن ریاست کی کسی بھی بین الاقوامی ذمہ داری اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے ذریعہ طے شدہ ذمہ داریوں کے درمیان تنازعہ کی صورت میں رکن ریاست مؤخر الذکر کی طرف سے عائد کردہ ذمہ داریوں کی پابند ہوگی۔‘‘
قاہرہ یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ڈاکٹر حسن نافعہ، اس سلسلے میں کہتے ہیں:
’’اقوام متحدہ کا چارٹر محض ایک بین الاقوامی تنظیم کا بانی منشور یا اس کی پلے بُک نہیں ہے؛ اس کا دائرہ کار اس سے بہت آگے جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کو بین الاقوامی معاہدوں میں اعلیٰ مقام حاصل ہے اور اسے بین الاقوامی قانون کے سب سے اہم اور باوقار اصولوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔‘‘
اس کے بعد وہ چارٹر کے آرٹیکل۱۰۳پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’اس سے واضح ہوتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں درج اصولوں کی مخالفت کرنے والے کسی بھی معاہدے کا انعقاد غیر قانونی تصور کیا جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں، ریاستی سرگرمیاں یا ریاستی طرز عمل جو واضح طور پر اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی مخالفت یا خلاف ورزی کرتا ہے، اسے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور بین الاقوامی قانونی حیثیت کی مخالفت سمجھا جائے گا۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی پاسداری کرنے والی کسی ریاست کے لیے کسی دوسری ریاست کے ساتھ ایسا معاہدہ کرنا غیر قانونی ہوگا جو اقوام متحدہ کے چارٹر کی روح کے خلاف ہو۔ مثلاً، اگر دو حکومتیں شرعی احکام کی بنیاد پر کوئی معاہدہ کرتی ہیں، جیسے شریعت کے مطابق تعلیمی نصاب پر اتفاق کرنا، تو یہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور اس کی شقوں کے خلاف ہوگا جو شریعتِ اسلامیہ سے متصادم ہیں۔ اور اس طرح ان دونوں حکومتوں کو ایسے معاہدوں کو منسوخ کرنا پڑے گا (جو اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے منافی ہیں)۔
اسی طرح اگر کوئی مسلمان ریاست اقوامِ متحدہ کی کافر رکن ریاست کے قبضے سے آزادی حاصل کرنے والی کسی دوسری مسلمان ریاست کو تسلیم کرے مثلاً امارتِ اسلامیہ کی جانب سے چیچنیا کے مجاہدین کی حکومت کا اعتراف کرنا، تو اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے مطابق اسے غیر قانونی سمجھا جائے گا۔
اسی طرح اگر کوئی اسلامی حکومت کسی کافر رکن ریاست کے خلاف مجاہدین کی مدد کرے، مثال کے طور پر اسرائیل کے خلاف فلسطینی مجاہدین، یا روس کے خلاف چیچن مجاہدین، یا اِتھیوپیا کے خلاف صومالی مسلمانوں، یا فرانس کے خلاف مالی کے مسلمانوں یا بشاری حکومت کے خلاف شامی مسلمانوں کی حمایت کرنا، تو یہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی سمجھا جائے گا۔
اقوامِ متحدہ کے چارٹر پر دستخط کرنے والی ریاست، اسلامی سرزمینوں پر کافر قابضین کے خلاف جہاد میں مسلمانوں کی مدد کرنے کا فرضِ عین بھی ادا نہیں کرے گی۔ یعنی، اقوامِ متحدہ کے چارٹر پر دستخط کرنے والی کسی بھی ریاست کو اسے شریعتِ اسلامیہ سے بالاتر سمجھنا ہوگا؛ وہ شریعت جو حکم دیتی ہے کہ مسلم سرزمینوں کی آزادی کے لیے جہاد ایک فرضِ عین ہے۔
اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی اس غالب حیثیت کی تصدیق انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے آرٹیکل ۲۹ سے کی جاتی ہے جو ۱۹۴۸ء میں جاری کیا گیا تھا۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس میں شامل حقوق کو اس انداز سے استعمال نہیں کیا جائے گا جو اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے مقاصد سے متصادم ہو۔یعنی یہ اعلامیہ بنی نوع انسان کے وقار، آزادی اور اِستقلال کی خاطر وضع نہیں کیا گیا تھا، بلکہ اسے دوسری جنگِ عظیم کی فاتح طاقتوں کی مرضی کے تابع بنانے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا جیسا کہ ہم بعد میں اس پر تفصیل سے بات کریں گے، ان شاء اللہ۔
سوم: اقوامِ متحدہ کی رکنیت اس کے چارٹر کے التزام پر منحصر ہے:
رکنیت حاصل کرنے کے طریقہ کار کا خلاصہ یہ ہے کہ خواہش مند ریاست، اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل کو رکنیت کے مطالبے کا خط لکھے گی اور اس مطالبے کے ساتھ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی پاسداری کا اعلان بھی ہونا چاہئے۔ اقوامِ متحدہ سے بے دخلی کے لیے بھی یہی بات درست ہے۔ چارٹر کے آرٹیکل ۶ میں کہا گیا ہے کہ جنرل اسمبلی کسی رکن ریاست کو نکال سکتی ہے اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس نے چارٹر میں درج اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے دیباچے میں بیان کیا گیا ہے کہ:
’’اس کے مطابق، ہماری متعلقہ حکومتیں، سان فرانسسکو شہر میں جمع ہونے والے نمائندوں کے ذریعے، جنہوں نے اپنے صحیح، مناسب اور مکمل اختیارات کا مظاہرہ کیا ہے، اقوامِ متحدہ کے موجودہ چارٹر پر رضامند ہو چکی ہیں اور اس طرح اقوامِ متحدہ کے نام سے ایک بین الاقوامی تنظیم قائم کرتی ہیں۔‘‘
یعنی، اقوامِ متحدہ کے چارٹر پر دستخط کرنے والی ریاست اُن مقاصد کو پورا کرنے کے لیے کفار کے ساتھ اپنی کوششوں کو متحد کرنے پر اتفاق کرتی ہے جو شریعتِ اسلامیہ کے فیصلوں سے متصادم ہیں۔
آرٹیکل ۲ میں کہا گیا ہے:
’’تنظیم اور اس کے اراکین آرٹیکل نمبرایک میں بیان کردہ مقاصد کے حصول میں درج ذیل اصولوں کے مطابق کام کریں گے:
i. یہ تنظیم تمام رکن ممالک کی مساوی خودمختاری کے اصول پر مبنی ہے۔
ii. تمام اراکین نیک نیتی سے موجودہ چارٹر کے مطابق ان پر فرض کردہ ذمہ داریوں کو پورا کریں گے۔ ‘‘
یعنی مقبوضہ فلسطین پر اسرائیلی خودمختاری کسی بھی رکن ریاست کی اپنے علاقوں پر خودمختاری سے مختلف نہیں ہے اور تمام رکن ممالک ایک دوسرے کی خودمختاری کا احترام کرنے کے پابند ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل ۲۵ میں اعلان کیا گیا ہے کہ تمام رکن ممالک سلامتی کونسل کی قراردادوں کی پاسداری اور ان پر عمل درآمد کا عہد کرتے ہیں۔
لہذا یہ واضح ہے کہ اقوامِ متحدہ میں شامل ہونے والی کوئی بھی ریاست اس کے چارٹر کو تسلیم کرتی ہے اور اسے قبول کرتی ہے اور اس میں شامل قوانین، اصولوں اور ذمہ داریوں کی پاسداری کرنے کی پابند ہے۔
چہارم: اقوامِ متحدہ کا چارٹر واضح طور پر شریعتِ اسلامیہ کی خلاف ورزی کرتا ہے جب وہ مردوں اور عورتوں کو اور مسلمانوں اور کافروں کو مساوی حقوق دیتا ہے:
اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے دیباچے میں بیان کیا گیا ہے:
’’ہم، اقوامِ متحدہ کے عوام، جنگ کی لعنت سے آنے والی نسلوں کو بچانے کے لیے پرعزم ہیں……اور بنیادی انسانی حقوق، انسانی شخص کے وقار اور قدر، مردوں اور عورتوں اور چھوٹی بڑی قوموں کے مساوی حقوق پر اعتقاد کا اعادہ کرتے ہیں……‘‘
چارٹر کے پہلے آرٹیکل کے تیسرے پیراگراف میں کہا گیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ:
’’……عالمی معاشی، معاشرتی، ثقافتی اور انسانی مسائل کے حل کے لیے بین الاقوامی تعاون کا حصول اور بلا امتیاز نسل، جنس، زبان یا مذہب اور بلاتفریق مرد و عورت، سب کے لیے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے احترام کو فروغ دینے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے میں تعاون کرنا……‘‘
چارٹر کے تیرہویں آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ جنرل اسمبلی کو اس مسئلے کا تفصیل سے مطالعہ کرنا چاہیے۔ یہ مختلف شعبوں سے متعلق تجاویز پیش کرتا ہے:’’……بلا امتیاز نسل، جنس، زبان یا مذہب اور بلاتفریق مرد و عورت، سب کے لیے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے حصول میں مدد فراہم کرنا……‘‘۔
اور یہ شریعتِ اسلامیہ کی مخالفت ہے جیسا کہ شریعت مردوں اور عورتوں کے حقوق میں فرق کرتی ہے کیونکہ ہر جنس کے حقوق مختلف ہیں اور اس کے ذمے مختلف فرائض ہیں۔
پس ایک مرد پر لازم ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کے مالی اخراجات برداشت کرے۔ اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیوی کا مہر ادا کرے اور اُسے اور اُس کے بچوں کو رہائش، لباس اور کھانا فراہم کرے۔ اس پر لازم ہے کہ وہ ان کو آزمائشوں، انحراف اور گناہ کے کاموں سے بچائے اور ان پر کسی بھی قسم کی جارحیت کے خلاف ان کا دفاع کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’جو اپنے مال یا اپنے اہل و عیال یا اپنی جان یا اپنے دین کا دفاع کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے‘۔
عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر کی اطاعت کرے، اس کے مال، اس کے گھر اور اس کے بچوں کی حفاظت کرے۔ عورت ریاست کی سربراہ یا گورنر یا مسلح افواج کی سربراہ نہیں بن سکتی۔ وہ نمازوں کی امامت نہیں کر سکتی اور نہ ہی اس پر کفائی جہاد فرض کیا گیا ہے۔
اور اسی طرح شریعت مرد اور عورت کے مابین ستر، گواہی اور میراث وغیرہ میں فرق کرتی ہے لیکن اقوامِ متحدہ ان تمام چیزوں کا انکار کرتی ہے۔
اور اسی طرح شریعتِ مطہرہ مسلمان اور کافر کے درمیان فرق کرتی ہے۔ ایک کافر اعلیٰ عوامی عہدوں یا عدلیہ کا حصہ بننے کا حقدار نہیں ہے۔ اس پر زکوٰۃ ادا کرنا لازم نہیں ہے۔ (نا صرف یہ) بلکہ شریعت تو مختلف قسم کے کفار میں بھی فرق کرتی ہے اور انہیں ذمی (اسلامی ریاست کے تحفظ اور ذمہ داری کے تحت)، مستأمن (پناہ گزین)، معاہد (کسی معاہدے کا فریق) اور حربی (جنگجو دشمن) میں تقسیم کرتی ہے اور اس معاملے سے متعلق فقہی تفصیلات موجود ہیں۔
تاہم اقوامِ متحدہ کا چارٹر، شریعتِ اسلامیہ سے متصادم، ایک نظریے اور قوانین کے مجموعے پر مبنی ہے جو دوسری جنگِ عظیم کے فاتحین باقی انسانوں پر مسلط کرنا چاہتے تھے۔
چنانچہ اقوامِ متحدہ بین الاقوامی تعاون کی تنظیم نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی تنظیم ہے جسے بڑے مجرموں نے پوری انسانیت – خصوصاً مسلمانوں – کے اعتقادی نظام کو تبدیل کرنے کے لیے تشکیل دیا ہے۔
پنجم: چارٹر مردوں اور عورتوں کی ایسی آزادی کی توثیق کرتا ہے کہ وہ اخلاقیات اور مذہب کی پابندیوں سے خود کو آزاد کرا سکیں:
چارٹر کے آرٹیکل ۵۵میں کہا گیا ہے:
’’اقوامِ متحدہ جنس، نسل، زبان یا مذہب کے امتیاز کے بغیر سب کے لیے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے احترام اور ان کی پاسداری کو فروغ دے گی۔‘‘
چارٹر جس بنیادی آزادی کی پاسداری کرتا ہے وہ محض انسان کی باوقار زندگی گزارنے کی آزادی نہیں ہے؛ بلکہ یہ زنا، ہم جنس پرستی اور مرتد ہونے کی آزادی جیسی ہر قسم کی بے حیائی و بداخلاقی میں ملوث ہونے کی آزادی دیتا ہے۔ اس اصول کی تصدیق انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے سے ہوتی ہے اور اقوامِ متحدہ کی طرف سے منعقد کی گئی مختلف کانفرنسوں کے ذریعہ اس کی تائید ہوتی ہے۔ جس پر ہم انشاء اللہ بعد میں بات کریں گے۔ لہٰذا یہ شریعتِ مطہرہ سے ایک اور واضح تضاد ہے۔
ششم: چارٹر رکن ممالک کی سیاسی خودمختاری کے تحفظ اور ان کی علاقائی سرحدوں کے تقدس پر زور دیتا ہے اور کسی رکن ریاست کی جانب سے دوسرے کے خلاف طاقت کے استعمال سے منع کرتا ہے:
لہذا اگر کوئی ریاست چارٹر پر دستخط کرتی ہے تو وہ دیگر ریاستوں کی طرف سے مسلم سرزمینوں کو غصب کرنے کو ہر طرح سے تسلیم کرتی ہے اور ان علاقوں پر قبضہ کرنے کے اُن کے حق کی تصدیق کرتی ہے۔ چارٹر کے دیباچے میں کہا گیا ہے:
’’……اصولوں اور طریقوں کی قبولیت سے، اس بات کو یقینی بنانا کہ مشترکہ مفاد میں…، مسلح طاقت کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔‘‘
یعنی فوجی طاقت کے استعمال کی اجازت صرف اسی صورت میں دی جاتی ہے جب یہ رکن ممالک کے مشترکہ مفاد کی خاطر ہو۔ لہذا اگر فلسطینی مسلمان فلسطین کو اسرائیلی قبضے سے آزاد کرانے کی کوشش کریں اور دیگر مسلمان ان کو مدد کی پیشکش کریں تو اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی بنیاد پر اسے غیر قانونی سمجھا جائے گا کیونکہ اسرائیل ایک رکن ریاست ہے اور یہ اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے کہ مجاہدین اُس کے خلاف فلسطینیوں کی مدد کریں۔
چیچنیا، قوقاز اور وسطی ایشیا کے مسلم خطوں پر روسی قبضے، کشمیر پر ہندوستان کے قبضے، سبتہ اور ملیلا پر ہسپانوی قبضے، مشرقی ترکستان پر چینی قبضے، زیلع اور ہرر پر اِتھیوپیا کے قبضے، زنجبار پر تنزانیہ کے قبضے، صومالیہ پر کینیا کے قبضے اور مالی پر فرانسیسی قبضے پر بھی یہی تشبیہ لاگو ہوتی ہے۔دوسری طرف شریعت ان سرزمینوں اور اس میں موجود لوگوں کو کفار کی بالادستی سے آزاد کرانے کے لیے جہاد کو فرضِ عین قرار دیتی ہے۔
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر، جو احناف (رحمہم اللہ) کی معتبر کتب میں سے ہے، میں بیان کیا گیا ہے:
’’اگر جہاد کے لیے نفیر کا اعلان کر دیا جائے تو یہ دشمن کے قریب رہنے والوں پر فرض عین ہو جاتا ہے بشرطیکہ وہ جہاد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، جہاں تک دشمن سے دور رہنے والوں کا تعلق ہے تو اگر دشمن کے قریب رہنے والے لوگ مزاحمت کرنے سے قاصر ہوں یا مزاحمت کی صلاحیت ہونے کے باوجود سستی یا غفلت کا مظاہرہ کریں تب اُن سے آگے کے قریب والوں پر جہاد فرض عین ہو جاتا ہے اور پھر ان کے بعد والوں پر، یہاں تک کہ فرضیت کا دائرہ مشرق اور مغرب کے تمام لوگوں تک پھیل جاتا ہے۔‘‘
شيخ عبد اللہ عزام (رحمہ اللہ) فرماتے ہیں:
’’اور یہی وجہ ہے کہ آج تمام امتِ مسلمہ پر جہاد فرضِ عین ہے۔ اور یہ آج فرضِ عین نہیں ہوا بلکہ جہاد اندلس کے سقوط کے دن سے فرضِ عین ہے، یعنی۱۴۹۲ء سے۔ یہ پانچ صدیوں پہلے فرضِ عین ہوا تھا۔ اور امت پانچ صدیوں سے گناہ گار ہے کیونکہ وہ اندلس واپس لینے میں ناکام ہو گئی۔ جہاد آج ہر مسلمان پر فرضِ عین ہے۔ یہ افغانستان کی آزادی یا فلسطین کی آزادی سے ساقط نہیں ہوگا۔ یہ فرضِ عین اس وقت مکمل ہوگا جب ہم ہر اُس سرزمین کے ٹکڑے کو واپس لے لیں گے جو کبھی ‘لا الہ الا اللہ‘ کے جھنڈے کے نیچے تھی۔ جہاد موت تک آپ پر فرضِ عین ہے جیسے پانچ نمازیں فرض ہیں اور موت تک وہ ساقط نہیں ہو سکتیں۔ اپنی تلواریں اٹھائیے اور زمینوں کو آزاد کروانے نکلیے۔ یہ فرضِ عین اس وقت تک ساقط نہیں ہو گا جب تک آپ اپنے رب سے نہیں ملتے۔ ایسے ہی جیسے آپ یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ میں نے پچھلے سال روزے رکھے تھے اس لیے اس سال نہیں رکھوں گا، یا میں نے پچھلے جمعے کی نماز ادا کی تھی اس لیے اس جمعے نہیں پڑھوں گا۔ اسی طرح آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں نے پچھلے سال جہاد کیا تھا اس لیے میں اس سال آرام کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
چارٹر کے دوسرے آرٹیکل کے چوتھے پیراگراف میں مذکورہ بالا اصول بیان کیا گیا ہے:
’’تمام اراکین اپنے بین الاقوامی تعلقات میں کسی بھی ریاست کی علاقائی سالمیت یا سیاسی آزادی کے خلاف خطرے یا طاقت کے استعمال یا اقوامِ متحدہ کے مقاصد سے مطابقت نہ رکھنے والے کسی اور طریقے کے استعمال سے گریز کریں گے۔‘‘
دسویں آرٹیکل میں ہر ریاست کی سیاسی آزادی اور علاقائی سالمیت کے احترام کا وعدہ کیا گیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ دستخط کرنے والی پارٹی کو رکن ممالک بشمول اسرائیل، ہندوستان، روس، چین، ہسپانیہ، اِتھیوپیا، کینیا اور مسلم سرزمینوں پر قبضہ کرنے والی دیگر ریاستوں کی علاقائی سالمیت اور سیاسی آزادی کا احترام کرنا ہوگا۔ لہذا اس قبضے کا احترام کرنا ہو گا اور اسے قانونی اور جائز تسلیم کرنا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے بار بار اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر پر دستخط کرنے والی ہر ریاست اِن ریاستوں کے مسلم سرزمینوں پر قبضے کو عملی طور پر تسلیم کرتی ہے جن کی آزادی شریعت کی رُو سے ہم پر فرض ہے۔
میں اپنے مسلمان بھائیوں، مجاہدین اور علمائے حق کے لیے یاد دہانی کے طور پر یہ وضاحت پیش کرنا چاہوں گا کہ مسلم دنیا کے تمام رکن ممالک نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر پر دستخط کرکے اسرائیلی ریاست کو تسلیم کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چارٹر تمام رکن ممالک – بشمول اسرائیل – کی سالمیت اور تحفظ کو مقدس مانتا ہے۔
چارٹر پر دستخط کرکے انہوں نے اپنے تنازعات کے فیصلے شریعت کے مطابق نہ کرنے کا وعدہ کیا ہے اور اس کے بجائے سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی سے فیصلے کروانے کو قبول کرلیا ہے۔ اس میں ۱۹۴۷ء میں فلسطین کو تقسیم کرنے کا فیصلہ، قرارداد۲۴۲ اور دیگر قراردادیں شامل ہیں جن میں مسلمانوں کی رسوائی ہے اور انہیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
السحاب:
اس عذر کے بارے میں جو اقوامِ متحدہ سیاسی آزادی اور علاقائی خودمختاری کے احترام کے بہانے استعمال کرتی ہے، شہید صدر زلیم خان یندربی نے اپنی قیمتی کتاب ’چیچنیا، سیاست اور حقیقت کے درمیان‘میں لکھا ہے۔
عیسائیت کے پیروکاروں کے حوالے سے یہ بات واضح ہے کہ اقوامِ متحدہ انہیں استعمار کے چنگل سے مکمل طور پر آزاد کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ تاہم دیگر مذہبی گروہوں – خصوصاً اسلام کے پیروکاروں – کے معاملے میں اقوامِ متحدہ، نواستعمار کی مختلف شکلوں کی تخلیق اور قیام کے لیے ضروری حالات پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
آسان الفاظ میں، غیر عیسائی قوموں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں ان کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے جو حکمران عیسائی ٹولہ ایسے ذرائع سے کرتا ہے جسے وہ مناسب سمجھتا ہے۔ ان کو اپنی تقدیر کا تعین کرنے کے حق سے انکار کرنے کے لیے اکثر استعمال کیے جانے والے ذرائع میں ریاست کی طرف سے ذاتی آزادیوں کا انکار یا ریاست کی سالمیت کے تحفظ اور اس کے انتشار کو روکنے کے بہانے کا استعمال ہے۔
ریاست کی سالمیت کا اصول تقریبا تیس سال پہلے بین الاقوامی قانون میں متعارف کرایا گیا تھا۔ اس کا مقصد ان ریاستوں کو امداد کی فراہمی کا جواز پیش کرنا ہے جو استعمار سے نجات کی کوششوں کو اپنے اہم مفادات کے لیے خطرہ سمجھتی ہیں۔ اور اس کے بعد سے یہ اصول ان مسلم اقوام کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے جو خود کو استعماری حکومت سے آزاد کرنا چاہتی ہیں۔
ہفتم: اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک بتدریج اپنی آزادی کھو دیتے ہیں، محکوم ہو جاتے ہیں اور جنگوں میں تنظیم کو کنٹرول کرنے والے پانچ بڑے مجرموں کے مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے بطور آلہ استعمال کیے جاتے ہیں:
اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل ۲ کے پیرا ۵ میں کہا گیا ہے:
’’تمام اراکین اقوامِ متحدہ کو، موجودہ چارٹر کے مطابق ہونے والی کسی بھی کارروائی میں، ہر طرح کی مدد دیں گے اور کسی بھی ریاست کو امداد دینے سے گریز کریں گے جس کے خلاف اقوامِ متحدہ روک تھام یا نفاذ کی کارروائی کر رہی ہو۔‘‘
۴۳ویں آرٹیکل میں کہا گیا ہے:
’’اقوامِ متحدہ کے تمام اراکین بین الاقوامی امن اور سلامتی کی بحالی میں حصہ ڈالنے کے لیے سلامتی کونسل کو……مسلح افواج، امداد اور سہولیات بشمول بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کے مقصد سے راہداری کے حقوق فراہم کرنے کا عہد کرتے ہیں۔‘‘
چارٹر کے ۴۵ویں آرٹیکل میں کہا گیا ہے:
’’اراکین مشترکہ بین الاقوامی نفاذ کی کارروائیوں کے لیے قومی فضائیہ کے فوری طور پر دستیاب دستے رکھیں گے۔ ان دستوں کی قوت اور تیاری اور ان کے اقدامات کے منصوبوں کا تعین سلامتی کونسل کرے گی……‘‘
آسان الفاظ میں، مسلمان اپنے ان مسلمان بھائیوں کے خلاف اقوامِ متحدہ کی حمایت کرنے کے پابند ہیں جن کے خلاف اقوامِ متحدہ جنگ لڑتی ہے۔ البتہ مسلمان اپنے ان دوسرے مسلمان بھائیوں کی حمایت کا حق نہیں رکھتے جن پر اقوامِ متحدہ یا اس کے رکن ممالک کی طرف سے جارحیت کی جاتی ہے، جیسے فلسطین، چیچنیا، عراق، افغانستان، بوسنیا اور صومالیہ۔
پس مسلمان ان طاقتوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے شروع کی گئی جنگوں میں بڑی مجرم طاقتوں کے غلام اور توپوں کے چارے بن جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاء بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (سورۃ المائدۃ: ۵۱)
’’اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں شمار ہوگا۔ بے شک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَتُرِيدُونَ أَن تَجْعَلُواْ لِلّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَاناً مُّبِيناً (سورۃ النساء: ۱۴۴)
’’اے اہلِ ایمان! مومنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بناؤ، کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ کا صریح الزام لو‘‘
انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے (۱۹۴۸ء)کا جائزہ
اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے اس مختصر جائزہ کے بعد ہم ۱۹۴۸ء میں جاری کردہ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کا جائزہ لیں گے۔
اپنی کتاب ’فرسان تحت راية النبي صلى الله عليه وسلم‘ کے دوسرے ایڈیشن میں، میں نے اِس اعلامیے کو وضع کرنے میں دھوکہ دہی پر تبادلہ خیال کیا تھا، اِس اعلامیے کو تیار کرنے کا مقصد یہ تھا کہ بڑی مجرم طاقتوں کے مفادات کی تکمیل کی جاسکے، باقی انسانیت پر اپنے اعتقادی نظام کو مسلط کیا جاسکے اور مسلم عوام کو اپنے آبائی علاقوں میں واپس جانے، اپنے حقوق کی بازیابی کرنے اور ان کو شریعت نافذ کرنے سے روکا جاسکے۔ تاہم، میں یہاں صرف چند واضح مثالیں بیان کروں گا کہ یہ اعلامیہ شریعتِ اسلامیہ کے بنیادی اصولوں سے کس طرح متصادم ہے۔ مزید تفصیل میں جانے سے پہلے میں دو اہم امور کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں:
اول: اقوامِ متحدہ دوسری جنگِ عظیم کے فاتحین کی اجتماعی مرضی کی نمائندگی کرتی ہے۔ لہٰذا ان کی طرف سے جاری کردہ انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ ان ریاستوں کے وِژن اور مفادات کی نمائندگی کرتا ہے، بلکہ ان کے بے دین اعتقادی نظام کو باقی انسانیت – خصوصاً مسلمانوں – پر مسلط کرنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔
دوم: دوسری جنگِ عظیم کے اہم ترین نتائج میں سے ایک، اسرائیلی ریاست کا قیام تھا جسے ۱۴ مئی ۱۹۴۸ء کو فاتح طاقتوں نے کھڑا کیا اور تسلیم کیا؛ یعنی اس ڈیکلریشن کے اعلان سے آٹھ ماہ پہلے۔ بلکہ حقیقت میں، ۱۹۴۷ء میں فلسطین کو تقسیم کرنے کی قرارداد کی منظوری دے کر، انہوں نے پہلے ہی صہیونی ریاست کے جواز کو تسلیم کرلیا تھا۔
مذکورہ اعلامیہ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے جاری کیا گیا تھا جس کی سربراہی امریکی مندوب ‘الیانور روزولٹ‘ نے کی تھی، جو سابق امریکی صدر ‘فرنکلن روزولٹ‘ کی بیوہ تھی۔
سابق امریکی صدر ’فرینکلن روزولٹ‘ کی بیوہ ’الیانور روزولٹ‘:
’’انسانی حقوق کا یہ عالمی اعلامیہ ہر جگہ کے تمام انسانوں کے لیے ایک بین الاقوامی ’میگنا کارٹا‘ بن جائےگا۔‘‘
روزولٹ اسرائیل کے قیام میں حمایت کے ساتھ ساتھ یہودی کمیونٹی کے ساتھ اپنے گہرے تعلقات کے لیے جانا جاتا تھا۔ اس نے فروری ۱۹۴۵ء میں منعقدہ’یالٹا کانفرنس‘ میں سٹالن اور چرچل کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس میں روسیوں کو مشرقی یورپ میں اثر و رسوخ زون قائم کرنے کی اجازت دینے کے بدلے فلسطین میں یہود کے لیے ایک قومی وطن کے قیام اور یہودی ہجرت میں حائل تمام رکاوٹوں کو فوری طور پر دور کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔
جہاں تک اعلامیے کے مرکزی مصنف’رینے کاسین‘ کا تعلق ہے، وہ ایک فرانسیسی سیاستدان اور اعلان کے وقت اقوامِ متحدہ میں فرانسیسی نمائندہ تھا۔ اعلان کے وقت الجزائر فرانسیسی قبضے میں تھا اور فرانس جبری طاقت، پھانسیوں، قید، تشدد اور ہر قسم کے جبر کے استعمال سے الجزائر کے عرب مسلم عوام کی زبان اور شناخت پر شدت سے مسلط تھا۔ مصنف ایک صہیونی یہودی تھا، جو اس مہم کا سرگرم رکن تھا جسے وہ لوگ ‘یہودیوں کے حقوق‘ کہتے ہیں اور ‘فرانس میں یہودی اتحاد‘ کا سربراہ تھا، جو شمالی افریقہ میں فرانسیسی استعمار کے آلات میں سے ایک تھا۔ ۱۹۴۷ء میں اقوامِ متحدہ کی فلسطینی کمیٹی نے وسیع پیمانے پر یہودی امیگریشن اور یہودی وطن کے قیام کے لیے فلسطینی اراضی کے استحصال کی اجازت کا مطالبہ کیا۔ اس شخص کی قیادت میں (فرانسیسی یہودی) اتحاد نے صیہونی تحریک کے سیاسی مقاصد کو محفوظ بنانے میں مدد کی۔ جس میں فلسطین میں زمین خرید کر عربوں کی ایک چھوٹی اراضی کو یہودی جائیدادوں میں تبدیل کرنا اور مشرقی یورپ سے آنے والے یہودی تارکیِن وطن کو نئی قائم شدہ زرعی کالونیوں میں آباد کرنا شامل ہے۔
یہ اس اعلامیے کے نظریاتی اور سیاسی پس منظر کا مختصر جائزہ تھا۔ (آئیے دیکھتے ہیں) اگر ہم نفسِ اعلامیہ کا جائزہ لیں تو ہمیں اس میں کیا ملے گا؟
اس اعلامیے کے دوسرے آرٹیکل میں کہا گیا ہے:
’’ہر انسان اس اعلامیہ میں بیان کردہ تمام حقوق اور آزادیوں کا حقدار ہے، بغیر کسی امتیاز کے، جیسے نسل، رنگ، جنس، زبان، مذہب، یا سیاسی رائے یا دیگر رائے……‘‘
اور یہ شریعتِ اسلامیہ کی مخالفت ہے جیسا کہ میں نے ابھی ذکر کیا، کیونکہ کفار مسلمانوں کے برابر نہیں ہیں۔
میں آپ کی توجہ ایک بار پھر اس حقیقت کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ دوسری جنگِ عظیم کے بے دین اور بد اخلاق فاتحین نے اِس اعتقادی نظام کو لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی۔اور یہ اعتقادی نظام مسلمانوں کے عقیدے سے متصادم ہے جو اللہ کے اس قول پر یقین رکھتے ہیں کہ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں‘‘اور جن کے معاشرے – بدترین حالات میں بھی – توحید، شریعت کی تعظیم، معاشرتی برائیوں جیسے شراب، جوئے، زنا اور دیگر فواحش کی حرمت پر اپنے عقیدے سے ممتاز ہیں۔ اور یہ بے دین لوگ اس حقیقت سے پوری طرح واقف ہیں کہ مسلمانوں کی طاقت کا راز ان کے عقیدے اور ان کی شریعت میں ہے۔ اور مسلمانوں کو ان کی طاقت سے دور کرنے کے لیے آزادی اور انسانی وقار کے لبادے میں بے حیائی و بداخلاقی کا بازار لگانے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
وہ اس منطق کا استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کو پھنساتے ہیں کہ: اگر آپ باقی دنیا کے ساتھ عداوت اور مخالفت کی حالت میں نہیں رہنا چاہتے ہیں، اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ دنیا آپ کو تسلیم کرے اور قبول کرے تاکہ آپ دوسروں کے ساتھ برابری کی سطح پر ہوں تو آپ کو اقوامِ متحدہ میں شامل ہونا ہوگا۔ اور اقوامِ متحدہ میں شامل ہونے کے لیے آپ کو اس کے منشور پر دستخط کرنا ہوں گے، اس کی قراردادوں کو قبول کرنا ہوگا اور اس طرح کفر سے لے کر بداخلاقی تک ہر چیز میں اپنی رضامندی دینا ہوگی۔ اور ایک بار یہ کام ہونے کے بعد وہ مسلمانوں پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ اس طرح کے پروگراموں کو نافذ کریں اور ان کے نتیجے میں ہونے والی برائی کے تابع ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ سچ فرماتا ہے:
’’ (وہ) چاہتے ہیں کہ تم بھی کافر ہو جاؤ جیسے وہ کافر ہوئے تو پھر تم سب برابر ہو جاؤ‘‘(سورۃ النساء:۸۹)
اس اعلامیے کے تیسرے آرٹیکل میں کہا گیا ہے: ’’ہر فرد کو زندگی، آزادی اور شخصی سلامتی کا حق حاصل ہے‘‘۔
اس آزادی میں بے حیائی و بداخلاقی اور مرتد ہونے کی آزادی بھی یکساں طور پر شامل ہے۔
سولہویں آرٹیکل میں کہا گیا ہے:
’’نسل، قومیت، یا مذہب کی پابندی کے بغیر، پوری عمر کے مردوں اور عورتوں کو شادی کرنے اور خاندان بنانے کا حق ہے۔ وہ شادی کے لیے، شادی کے بعد اور اس کے تحلیل ہونے پر مساوی حقوق کے حقدار ہیں۔‘‘
شریعتِ اسلامیہ اس اصول کو اس بنیاد پر مسترد کرتی ہے کہ یہ کسی غیر مسلم مرد کو مسلمان عورت سے شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے اور یہ کہ یہ اصول مرد اور عورت کے مابین فرق نہیں کرتا۔
پانچویں آرٹیکل میں کہا گیا ہے:
’’کسی بھی شخص کو تشدد، یا ظالمانہ، غیر انسانی، ہتک آمیز سلوک یا سزا کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔‘‘
سخت سزائیں حدودِ شرعیہ میں داخل ہیں جیسے قصاص، چور کا ہاتھ کاٹنا، کوڑوں کی سزا اور رجم۔
اٹھارہویں آرٹیکل میں کہا گیا ہے:
’’ہر شخص کو فکر، ضمیر اور مذہب کی آزادی کا حق حاصل ہے۔ اس حق میں اس کے مذہب یا عقیدے کو تبدیل کرنے کا حق بھی شامل ہے۔‘‘
انیسویں آرٹیکل میں کہا گیا ہے:
’’ہر ایک کو رائے اور اظہار کی آزادی کا حق حاصل ہے؛ اس حق میں، کسی مداخلت کے بغیر، رائے قائم کرنے اور کسی بھی میڈیا اور سرحدوں سے قطع نظر معلومات حاصل کرنے، وصول کرنے اور فراہم کرنے کی آزادی شامل ہے۔‘‘
یعنی اس میں مرتد ہونے، لوگوں کو بے حیائی و بداخلاقی کی دعوت دینے اور شریعت کو مسترد کرنے اور ان خیالات کی تشہیر کی آزادی شامل ہے۔
۲۱ویں آرٹیکل میں کہا گیا ہے:
’’عوام کی مرضی حکومت کے اختیار کی بنیاد ۔‘‘
یعنی، اختیار لوگوں کی مرضی سے حاصل ہوتا ہے نہ کہ شریعتِ اسلامیہ کے نفاذ سے۔ لہذا اگر عوام شریعت کے تحت حکومت کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ان کے ذریعہ منتخب ہونے والوں کو شریعت کے تحت حکمرانی کرنا ہوگی۔ تاہم، اگر وہ شریعت کے علاوہ دیگر قوانین کے تحت حکومت کرنے کا انتخاب کرتے ہیں، تو حکومت کو شریعت کے علاوہ دیگر قوانین کے ذریعہ حکمرانی کرنا ہوگی۔
یونیسکو کی سرگرمیاں
یونیسکو اقوامِ متحدہ کی ایجنسیوں میں سے ایک ہے جو تعلیم، سائنس اور ثقافت کے شعبوں کی نگرانی کرتی ہے۔ اسے باضابطہ طور پر نومبر ۱۹۴۶ء میں اقوامِ متحدہ کی ایجنسی قرار دیا گیا تھا۔
یونیسکو کی سرگرمیوں کا ایک وسیع سلسلہ ہے۔ اس کی ایک اشاعت کا عنوان ہے ‘انسانی نسل اور اس کی ثقافتی اور سائنسی ترقی کا انسائیکلوپیڈیا‘۔ جس کی تیسری جلد کے باب دہم میں ’اسلام‘کے بارے میں درج ذیل باتیں پائی جاتی ہیں (نعوذ باللہ):
i. اسلام یہودیت، عیسائیت اور عرب بت پرستوں کی رسومات سے اخذ شدہ ایک مرکب ہے۔
ii. قرآن ایک غیر فصیح کتاب ہے۔
iii. احادیثِ نبوی (ﷺ) لوگوں نے نبی (ﷺ) کے انتقال کے بعد ایجاد کی تھیں اور بعد میں آپ (ﷺ) سے منسوب کر دی گئیں۔
iv. مسلم فقہاء نے رومی اور فارسی قوانین، تورات اور کلیسا کے قوانین سے اسلامی نظامِ قانون اخذ کیا۔
v. عورت اسلامی معاشروں میں بیکار شے ہے۔
vi. اسلام نے اقلیتوں پر جِزیہ اور خراج ٹیکس عائد کرکے انہیں زیر کیا۔
اس تنظیم کی مالی معاونت اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کرتے ہیں۔ یعنی اگر کوئی ریاست اقوامِ متحدہ میں شامل ہو جاتی ہے تو وہ مسلمانوں کی دولت سے ادائیگی کرے گی تاکہ اقوامِ متحدہ ملحدوں اور اسلام کے دشمنوں کی مالی معاونت کر سکے۔
جب امارتِ اسلامیہ نے امیر المومنین ملا محمد عمر (رحمہ اللہ) کے دور میں بدھا کے بتوں کو مسمار کرنے کا فیصلہ کیا تو یونیسکو نے امارتِ اسلامیہ کے خلاف ایک ناپاک شیطانی مہم کی قیادت کی۔
اس وقت یونیسکو کے جاپانی بدھسٹ ڈائریکٹر، شِیرو موتورا، نے بتوں کی تباہی روکنے کے لیے مختلف ریاستوں سے مداخلت کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کا وفد دس دن سے زیادہ افغانستان میں رہا تاکہ طالبان حکومت کو بدھا کے دنیا میں موجود سب سے بڑے دو بتوں کو تباہ کرنے سے روکا جا سکے۔ یونیسکو نے طالبان پر دباؤ ڈالنے کے لیے اور ان بتوں کو تباہی سے بچانے کی کوشش میں ان کی ‘حالت زار‘ کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف ممالک کے ۴۵ وزرائے ثقافت کو اکٹھا کیا۔
اقوامِ متحدہ اور مسلمانوں کے ساتھ اس کی عملی دشمنی:
اقوامِ متحدہ کی مذہب اور اخلاقیات سے دشمنی کے پہلوؤں میں خواتین اور آبادی کے بارے میں اس کی متعدد کانفرنسیں ہیں مثلا ۱۹۹۴ء میں آبادی کانفرنس قاہرہ، ۱۹۹۵ء میں عورت کانفرنس پیکنگ، ۲۰۰۰ء میں عورت کانفرنس نیو یارک اور اسی طرح کی دیگر کانفرنسیں۔
ان تمام کانفرنسوں میں اقوامِ متحدہ نے بے حیائی و بداخلاقی کے پھیلاؤ کو فروغ دیا، جیسا کہ بدکاری اور ہم جنس پرستی، دیر سے شادی، طوائفوں کا احترام، شادی سے پہلے نوجوانوں کو بے حیائی و بداخلاقی میں ملوث ہونے کی ترغیب اور مردوں اور عورتوں کے مساوی حقوق وغیرہ۔
فلسطین:
اقوامِ متحدہ نے ۱۹۴۷ء میں فلسطین کو تقسیم کرنے والی قرار داد منظور کرکے امتِ مسلمہ کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا۔ بعد میں، اسرائیل کو ۱۹۶۷ء میں منظور کی گئی قرارداد ۲۴۲ کے ذریعے فلسطینی سرزمین سے بہت بڑا حصہ دیا گیا۔
بوسنیا میں اقوامِ متحدہ کے جرائم، مسلمانوں کو اسلحہ برآمد کرنے پر پابندی اور سربوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتلِ عام میں اس کی عدم مداخلت سے بے نقاب ہوئے۔ اقوامِ متحدہ خاموشی سے صورتحال کا مشاہدہ کرتی رہی جیسا کہ سربرانیکا کے قتل عام کا معاملہ تھا جس میں صرف ایک ہی واقعے میں ۷۰۰۰ مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔
چیچنیا کے معاملے میں اقوامِ متحدہ نے اسے مجرم صلیبی روسی ریاست کا حصہ قرار دیا۔
یہ اقوامِ متحدہ ہی تھی جس نے عراق پر پابندیاں عائد کیں، جس کی وجہ سے پانچ لاکھ عراقی بچے موت کا شکار ہوگئے۔
یہ اقوامِ متحدہ ہی ہے جو کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے فیصلے پر عمل درآمد سے انکار کرتی ہے جو تقریبا ًساٹھ سال قبل منظور کیا گیا تھا۔
افغانستان کے معاملے میں، اقوامِ متحدہ نے بون کانفرنس میں امریکہ کے آلہ کاروں کو اکٹھا کیا اور دھاندلی زدہ انتخابات کی نگرانی کی۔ جنگ سے پہلے اور اس کے دوران اقوامِ متحدہ نے افغانستان پر پابندیاں عائد کردی تھیں۔ یہ افغانستان میں قتل عام کے باوجود خاموش تماشائی بنی رہی۔ مثلاً قلعہ جنگی کے قتل عام، شبرغان منتقلی کے دوران قیدیوں کا دم گھٹنے اور بگرام، قندھار، شبرغان اور گوانتانامو کی جیلوں میں ہزاروں افراد پر تشدد کے دوران۔
صومالیہ پر اقوامِ متحدہ کے جھنڈے تلے حملہ کیا گیا۔ جبکہ اِتھیوپیا، برونڈی، یوگینڈا اور کینیا کی فوجوں نے صومالیہ پر قبضے میں حصہ لیا۔
اقوامِ متحدہ نے جنوبی سوڈان کی علیحدگی اور اس کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے میں فعال کردار ادا کیا۔
اقوامِ متحدہ اب لبنان کی سرحدوں کے ساتھ اپنی افواج تعینات کررہی ہے تاکہ فلسطین سے باہر کے مجاہدین کا فلسطین کے اندر موجود مجاہدین سے رابطہ ختم کردیا جائے، اور اس طرح فلسطین کا محاصرہ مکمل کرلیا جائے۔
یہ اقوام متحدہ ہی تھی جس نے مشرقی تیمور کی انڈونیشیا سے علیحدگی کو تسلیم کیا، جبکہ وہ چیچنیا، پورے مسلم قفقاز، کشمیر، سبتہ، ملیلا اور بوسنیا کے لیے علیحدگی کو مسترد کرتا ہے۔
اختتامیہ
حاصلِ کلام یہ کہ اقوامِ متحدہ ایک بین الاقوامی تعاون کی تنظیم نہیں ہے؛ بلکہ یہ ایک ایسی تنظیم ہے جسے دوسری جنگِ عظیم کے بے دین فاتحین نے باقی دنیا پر اپنی بالادستی اور اپنا اعتقادی نظام مسلط کرنے کے لیے تشکیل دیا تھا۔ مختصر یہ کہ یہ ایک ایسی تنظیم ہے جو اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتی، لوگوں کو بے حیائی، بداخلاقی اور ارتداد کی دعوت دیتی ہے، اسلام اور پیغمبرِ اسلام (ﷺ) کی توہین کرتی ہے اور مسلمانوں کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرتی ہے۔
تو ایک مسلمان جو اپنی شریعت کی تعظیم کرتا ہے……بے حیائی، بداخلاقی اور ارتداد سے روکتا ہے……اپنے دین اور اپنے نبی ﷺ کے بارے میں غیرت مند ہے اور اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرتا ہے……وہ ایسی تنظیم کا حصہ بننے کو کیسے قبول کر سکتا ہے؟
کیا میں نے پیغام پہنچادیا؟ اے اللہ! تو گواہ رہنا۔
وآخرُ دعوانا أن الحمدُ للهِ ربِ العالمين،
وصلى اللهُ على سيدِنا محمدٍ وآلِه وصحبِه وسلم.
والسلامُ عليكم ورحمةُ اللهِ وبركاتُه۔