کرسمس کیک کاٹنا، کرسمس کی مبارک بادیں دینا، بلکہ ہولی منانا، دیوالی پر مبارک بادیں دینا وغیرہ آج مسلم معاشروں میں عام ہوتا جا رہا ہے۔ عوام المسلمین طوفان کی رو میں بہہ کر اور ٹرینڈز کے تعاقب میں ایسا کر رہے ہیں، جبکہ حکمران، سیکولر و لبرل طبقہ اسے دینِ ’سیکولرازم و لبرل ازم‘ میں منا رہا ہے اور اس کی ترویج بھی کر رہا ہے اور باقی لوگ مفاد پرستی میں ایسا کر رہے ہیں۔ زیرِ نظر تحریر بانی مدیر مجلّہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ (سابقاً ’نوائے افغان جہاد‘) حافظ طیّب نواز شہید رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔ حافظ صاحب شہید نے اپنی مختصر تحریر میں ان رویوں کا ذکر کیا ہے اور کرسمس (اسی میں دیوالی ، نوروز، ہیلووین وغیرہ بھی شامل کر لیں) کی مبارک باد دینے اور اس کے کیک کاٹنے کا حکمِ شرعی بیان کیا ہے۔ یوں تو کرسمس کا موقع گزر چکا ہے، لیکن اس تہوار کا حکم جاننا بہر کیف شرعاً لازم ہے!
اللہ پاک ہماری اور تمام اہلِ اسلام کی ’صراطِ مستقیم‘ کی طرف رہنمائی فرمائیں ، آمین! (ادارہ)
اسلام اپنے ماننے والوں کو غیرت و حمیت کا ایسا خوگر بناتا ہے کہ وہ اپنے دین کے سوا کسی سے مرعوب نہ ہوں ۔کیونکہ اس کائنات میں صرف اور صرف اسلام ہی ’الدین‘اور ’الحق‘ہے اور اس کے ماسوا سب کچھ باطل اور جھوٹ ہے ۔
اسلام جہاں خیر وشر اور کامیابی وناکامی کے اپنے معیار اور پیمانے مقرر کرتا ہے وہیں محبت اور دوستی ،نفرت اور دشمنی کے لیے اپنے معیار کا تعین کرتا ہے اور اس کا اصرار ہے کہ محبت اور دوستی کے تمام تر رشتے صرف مسلمانوں کے ساتھ استوار کیے جانے چاہییں۔ان کی زبان کوئی بھی ہو اور وہ دنیا کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتے ہوں وہ آپس میں بھائی ہیں اور ان کا یہ رشتہ خونی رشتوں سے بھی مقدم ہے ۔اسی طرح دشمنی اور نفرت کے لیے بھی اسلام اپنا معیار قائم کرتا ہے کہ ہر شخص جوآپ کے دین میں داخل نہیں وہ آپ کا دوست نہیں ہو سکتا چاہے وہ والدین یا اولاد کی صورت قریب ترین رشتے ہی کیوں نہ ہوں۔یہاں تک کہ مسلمان والد کی اولاد میں سے کوئی اگر کافر ہو تو وہ اس کاوارث بھی نہیں ۔
کفار میں سے کسی سے عداوت اور نفرت کاکتنا تعلق رکھا جائے اس بات کا انحصار اس کی کیفیت پر ہے کہ آیا وہ محارب کافر ہے یا غیر محارب کافریا مسلمانوں کا ذمّی کافر، ہر ایک کے بارے میں تفصیلی احکامات فقہ کی کتابوں میں درج ہیں ۔
کفار سے دشمنی اور مومنین سے محبت کے اسلامی عقیدے کو اصطلاح میں’الولاء البرا‘ کہتے ہیں۔ علماکا کہناہے کہ ’کتاب و سنت ‘میں عقیدۂ توحید کے بعد سب سے زیادہ بیان اسی عقیدے کا ہے اور بعض علمااسے عقیدۂ توحید کا ہی جزوشمار کرتے ہیں ۔
اب ہم نفسِ مسئلہ کی طرف آتے ہیں کہ ’عید میلاد مسیح علیہ السلام‘جسے عیسائی ’کرسمس ‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور اسے باقاعدہ اپنی عید قرار دے کر مناتے ہیں۔ گویا کہ یہ عیسائیوں کا اہم ترین مذہبی تہوار ہے ۔ پہلے پہل بلادِکفر میں رہنے والے مسلمان اس عادتِ بدکا شکار ہوئے کہ وہ عیسائیوں کے اس تہوار کے موقع پر ان کے ’گرجا گھروں‘ میں جاکر یا انہیں اپنے ہاں بلا کر کرسمس کیک کاٹتے اوران کے ساتھ تحائف کا تبادلہ کرتے اور اُس سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کفار سے ان کے تعلقات بہتر رہیں کیونکہ ان کے ملکوں میں رہتے ہوئے ان کی حیثیت کافروں کے ذمیوں کی سی ہوتی ہے اس لیے اپنے آقاؤں کو خوش کرنا وہ اپنے فرائض منصبی میں سے سمجھتے ہیں۔ دوسرا اہم مقصد تجارتی تعلقات کو بہترطریق پر استوارکرنا ہوتاہے،اسی طرح ان کا تعارف ایک اعتدال پسند اور ماڈریٹ مسلمان کے طور پر ہو جاتا ہے جن سے کافروں کو یہ تسلی رہتی ہے کہ یہ ان ’دہشت گرد‘ مسلمانوں میں سے نہیں ہیں جو ہمیں ختم کرنا چاہتے ہیں ،اور’ہمارے نظام کو ختم کر کے خلافت اسلامی قائم کرنے کے خواہاں ہیں‘۔
کرسمس منانے سے مذہبی جمہوری جماعتوں اور دیگرسیاسی جماعتوں کے راہنماؤں کے پیشِ نظر یہ ہوتا ہے کہ اب انتخابات چونکہ مخلوط طرز پر ہیں اس لیے ان عیسائیوں کے ووٹ بھی اہم ہیں شاید کہ ہمیں ہی حاصل ہو جائیں دوسرا یہ کہ بیرونی کافروں کے سامنے اپنے لیے کریمانہ تاثر (سافٹ امیج) پیدا کرنے کی کوشش بھی ہوتی ہے کہ ہم بتوں کو گرانے والے یا اسلامی احکامات پر بزورعمل کروانے والے’طالبان‘نہیں ہیں اور اس لیے اقتدار کے لیے موزوں ترین لوگ ہیں ۔ایک اہم مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ مقامی سیکولر اور لبرل طبقے کو اپنی داڑھی اور مذہب کی صفائی دی جائے۔
کفار کی عیدوں اور مذہبی تہواروں میں مسلمانوں کی شرکت کے بارے میں اسلام کے مفصل احکامات ہیں، ان میں سے چند احادیث،آثار صحابہؓ اور اقوالِ فقہا درج کیے جاتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’من تشبہ بقومٍ فھو منھم‘‘، ’جو کسی قوم کی مشابہت کرے گا وہ اُنہی میں سے ہو گا‘۔دوسری حدیث میں ارشا دہے: ’’من کثر سواد قوم حشر معھم‘‘، ’ جو کسی قوم کی تعداد میں اضافہ کرے گااس کا حشر(قیامت کو)اُنہی میں سے ہو گا‘۔
عطاء بن دینار سے روایت ہے کہ سیدنا عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ’ ’ان کے تہوار وں کے دن ان کی عبادت گاہوں میں نہ جاؤ، کیونکہ ان پر اللہ کا غضب ہوتاہے ‘‘۔(بیہقی)
حضرت عبداللہ ؓبن عمروؓ بن العاص نے فرمایا’’جو شخص عجمیوں کافروں کے نوروزومرجان (تہواروں ) میں شریک ہو اور اس کا اہتمام کرے اور ان کی مشابہت اختیار کرے اور موت آنے تک اسی کردار پر قائم رہے تو قیامت کے دن انہی لوگوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا‘‘۔ (السنن الکبرٰی بیہقی۹؍۲۳۴)۔
علمائے احناف کے نزدیک ان کے شعائر پر مبارک دینا ’’کفر‘‘ہے (البحر الدقائق)۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شعائر، مذہب کی علامت ہوتے ہیں گویا کہ اُن کے کفر پر مبارک دی جارہی ہے ۔ امام ابو حفص حنفی لکھتے ہیں کہ ’’اگر کوئی کسی مشرک کو کسی دن کی تعظیم میں تحفہ دیتا ہے تو یہ کفر ہے‘‘۔(فتح الباری۲/۵۱۳)
امام ادریس ترکمانی حنفی ایسے اعمال کے ذکر کے طور پر، جن کا ارتکاب مسلمان ’عیسائیوں کی عید کے موقع پر کرتے ہیں ‘فرماتے ہیں ’علمائے احناف میں سے کچھ یہ کہتے ہیں کہ جس نے یہ سب کچھ کیا اور بغیر توبہ کے مرگیا تو انہی کی طرح کافر ہے (اللمع فی الحوادث ۱/۳۹۴)۔
امام ابن ِقیم فرماتے ہیں شعائر ِکفر سے متعلقہ کاموں پر مبارک باد دینا باتفاقِ علما حرام ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے انہیں صلیب کو سجدہ کرنے پر مبارک دی جائے ‘یہ تو کسی کو شراب پینے اور زنا کرنے پر مبارک باد دینے سے بھی بُرا ہے۔(احکام اہل الذمۃ ۱۔۲۰۴)
بعض مالکی فقہا کا کہنا ہے کہ ’’جس نے نوروز کے احترام میں تربوز کاٹا تو اس نے گویا سور ذبح کیا ‘‘۔(اللمع فی الحوادث )
غور کرنے کی بات ہے کہ دنیا کے عارضی مفاد کے لیے اپنی آخرت برباد کیے جانا کہاں کی عقلمندی ہے ؟؟؟
٭٭٭٭٭