نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home …ہند ہے سارا میرا!

ہِندُتْوا کیا ہے؟ | دوسری قسط

ادارہ by ادارہ
21 جنوری 2022
in جنوری 2022, …ہند ہے سارا میرا!
0

ایم ایس گولوَالکَر

مادَھوّ سَداشِوّ گولوَالکَر(Madhav Sadashiv Golwalkar) راشٹریہ سوَائم سیوَک سَنگھ (Rashtriya Swayamsevak Sangh) یعنی ’آر ایس ایس‘ کا دوسرا سَرسَنگھ چالَک (سپریم لیڈر) تھا۔گولوالکر نے ہندُتوا سے متعلق ساوَرکَر کے افکار کو قدیم ہندو فلسفوں اور روحانی و مذہبی خیالات کی بنیاد پر نیا اور ہندوؤں کے لیے پرکشش جامہ پہنا کر اسے ہندو عوام میں مقبول بنایا۔ سَنگھ پریوار کے حلقوں میں گولوالکر کو گوروجی کہا جاتا ہے۔ اور اس وقت گولوالکر ان حلقوں کا سب سے مقبول مفکر ہے۔ تجزیہ نگاروں کے نزدیک ہندُتوا تحریک کی سب سے زیادہ دیانتداری کے ساتھ وضاحت گولوالکر ہی نے کی ہے جب کہ دیگر مفکرین نے اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر لاگ لپیٹ سے کام لیا ہے۔

گولوالکر ۱۹۰۶ء میں مہاراشٹر میں ناگپور کے نزدیک گاؤں مادھوّ میں مراٹھی کرتھاڑے براہمن1 خاندان میں پیدا ہوا۔ لڑکپن سے ہی گولوالکر کو ہندو مذہب اور اس کے روحانی گیان و دھیان میں گہری دلچسپی تھی۔

۱۹۲۲ء میں گولوالکر نے ناگپور کے ایک مشنری تعلیمی ادارے ہِسلوپ کالج (Hislop College) میں داخلہ لیا۔ کہا جاتا ہے کہ کالج میں اسے عیسائیت کی کھلے عام تبلیغ پر بہت طیش آتا تھا اور یہی چیز بعد میں اس کے ہندومت کےلیے کام کرنے کی بنیاد بنی۔ ۱۹۲۴ء میں گولوالکر نے بنارس ہندو یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ یہاں وہ مادَن موہَن مالاوِیہ (Madan Mohan Malaviya)سے بہت متاثر ہوا جو کہ ایک قوم پرست رہنما تھا اور اس یونیورسٹی کا بانی بھی تھا۔ بعد میں اسی یونیورسٹی میں گولوالکر نے تین سال تدریس بھی کی۔ اس کے شاگرد اس کی لمبی داڑھی، لمبے بال اور سادہ چوغہ پہننے کی وجہ سے اسے ’گوروجی‘ کہا کرتے تھے۔ بعد میں آر ایس ایس میں اس کے پیروکار بھی اس کی عقیدت میں یہی حلیہ اپناتے تھے۔ اس کے بعد گولوالکر ناگپور واپس آگیا اور وہاں قانون کی ڈگری ۱۹۳۵ء میں حاصل کی۔

بنارس ہندو یونیورسٹی میں تدریس کے دوران بھیا جی دانی (Bhaiyaji Dani) نے، جو کہ آر ایس ایس کے پہلے سربراہ کِشاوّ بالی رام ہیڈگَوار(Keshav Baliram Hedgewar) کا قریبی ساتھی تھا، بنارس میں آر ایس ایس شاکھ 2شروع کی۔ گولوَالکَر بھی ان اجتماعات میں جایا کرتا تھا۔ ۱۹۳۱ء میں جب ہیڈگوار نے بنارس کا دورہ کیا تو اسے گولوالکر پسند آگیا۔

ناگپور واپسی کے بعد ہیڈگوار گولوالکر پر زیادہ اثر انداز ہوا۔ ہیڈگوار نے ہی اسے کہا تھا کہ وہ قانون میں ڈگری حاصل کرے کیونکہ اس سے اسے وہ ساکھ حاصل ہو جائے گی جو کہ ایک آر ایس ایس کے رہنما کے لیے درکار ہے۔ ۱۹۳۴ء میں ہیڈگوار نے گولوالکر کو ناگپور کی شاخ کا ’کریاواہ‘ (سیکریٹری) مقرر کیا۔

لیکن ۱۹۳۶ء میں گولوالکر نے اپنی لاء کی پریکٹس بھی چھوڑ دی اور آر ایس ایس کے لیے کام بھی چھوڑ دیا اور مغربی بنگال میں سرگاچی3 رام کرشن مشن4 آشرم5 چلا گیا تاکہ دنیا ترک کر دے اور ایک سنیاسی6 بن جائے۔ وہاں وہ سوامی اکھنڈ آنند (Akhandananda) کا شاگرد بن گیا۔ لیکن ۱۹۳۷ء میں اکھنڈ آنند کے مرنے کے بعد اس نے آشرم چھوڑ دیا اور واپس ناگپور آگیا۔ ہیڈگوار نے اسے قائل کیا کہ سماج کے لیے اس کا فرض اسی طرح سے پورا ہو سکتا ہے کہ وہ آرایس ایس کے لیے کام کرے۔

آر ایس ایس میں دوبارہ شمولیت کے بعد ہیڈگوار نے گولوالکر کی تربیت قیادت کے لیے کرنی شروع کی اور اسے آل انڈیا آفیسرز کے تربیتی کیمپ کا انچارج بنا دیا ، اور وہ۱۹۳۹ء تک اسی عہدے پر رہا۔ ۱۹۳۸ء میں گولواکر کو ساورکر کی مراٹھی کتاب راشٹر میمانس (قوم پرستی) کا ہندی اور انگریزی ترجمہ کرنے کا کہا گیا۔ اس کے نتیجے میں کتاب We, or Our Nationhood Defined گولوالکر کے نام سے نشر ہوئی7۔ اس کتاب کو آر ایس ایس کے نظریے کی تشریح کے طور پر لیا جاتا ہے۔

۱۹۳۹ء میں گرودَکشِن8(Gurudakshina) کی تقریب میں ہیڈگوار نے اعلان کیا کہ اگلا سرکاریاواہ9 (جنرل سیکریٹری) گولوالکر ہو گا۔ ۱۹۴۰ء میں اپنے مرنے سے قبل ہیڈگوار نے گولوالکر کو آر ایس ایس کا سربراہ بننے کا کہا۔ اور اس کی وفات کے بعد ریاستی سطح کے پانچ سَنگھ چالَکوں نے ناگپور میں ہیڈگوار کے اس فیصلے کا اعلان کر دیا۔

گولوالکر کا انتخاب زیادہ تر سوائم سیوکوں10 کے لیے اچنبھے کی بات تھی۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ ہیڈگوار کے بہت سے سینئر ارکان کو نظر انداز کرتے ہوئے گولوالکر کو انتخاب کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ہیڈگوار کی نظر میں گولوالکر واحد ایسی شخصیت تھی جو آر ایس ایس کی آزاد حیثیت کو قائم رکھ سکتا تھا ورنہ اسے ہندو مہاسبھا کے یوتھ ونگ کے طورپر ہی دیکھا جاتا۔

گولوالکر نے۱۹۷۱ء میں اپنی موت تک یعنی تیس سال سے زیادہ عرصے تک آر ایس ایس کی صدارت کی اور اس عرصے میں اُس نے اس تنظیم کو بہت وسیع کیا۔ زندگی کے ہر شعبے میں اس تنظیم کی ذیلی تنظیمیں قائم کی گئیں۔ اس کے علاوہ بیرونِ ملک ہندوستانیوں کے لیے بھی علیحدہ ذیلی تنظیمیں قائم کی گئیں۔ ان اقدامات کے نتیجے میں آر ایس ایس ہندوستان کی ایک مضبوط مذہبی سیاسی جماعت کی شکل اختیار کر گئی۔

تقسیمِ ہند کے دوران متحدہ صوبوں11 کی پولیس نے آر ایس ایس کے مراکز پر چھاپے مارے جہاں سے شواہد موصول ہوئے کہ تقسیم کے دوران آر ایس ایس کا متحدہ صوبوں میں مسلمانوں کی آبادیوں پر بڑے پیمانے پر حملے کرنے کا منصوبہ تھا اور اس کا منصوبہ ساز گولوالکر تھا۔ لیکن متحدہ صوبوں کی حکومت نے گولوالکر کو گرفتار کرنے میں ہچکچاہٹ دکھائی اور موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گولوالکر صوبے سے فرار ہو گیا۔

۱۹۴۸ء میں گاندھی کے قتل کے بعد یہ بات ہر طرف مشہور ہوئی کہ آر ایس ایس اس قتل میں ملوث ہے۔ گولوالکر اور ۲۰ ہزار کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا اور آرایس ایس پر پابندی لگا دی گئی۔ چھے ماہ بعد گولوالکر کو رہا کر دیا گیا لیکن آر ایس ایس پر پابندی برقرار رہی۔

گولوالکر نے حکومت سے پابندی ہٹانے کے لیے مذاکرات کی کوشش کی۔ حکومت کا مطالبہ تھا کہ آر ایس ایس اپنا تحریری آئین تشکیل دے، تاکہ واضح ہو سکے کہ اس تنظیم کے نظریات کیا ہیں اور ان پر اس تنظیم کو پابند بھی کیا جا سکے۔ گولوالکر نے اس مطالبے کو ماننے سے انکار کیا اور ستیاگراہ(satyagraha)12کی تحریک شروع کر دی۔ اس کے جواب میں وہ اور آر ایس ایس کے ۶۰ ہزار کارکن گرفتار کر لیے گیے۔ ۱۹۴۹ء میں آر ایس ایس کے دیگر رہنماؤں نے ستیاگراہ ختم کر دی اور آر ایس ایس کا تحریری آئین مرتب کر دیا جسے حکومت نے تسلیم کر لیا اور اس کےنتیجے میں آر ایس ایس پر پابندی ختم کر دی گئی۔ حکومت نے اعلان کیا کہ پابندی کو گولوالکر کے انڈیا کے آئین کے ساتھ وفاداری اور ہندوستانی قومی پرچم ترنگا کو قبول کرنے اور اس کا احترام کرنے کے وعدے کی بنیاد پر ختم کیا گیا ہے۔

گولوالکر کے افکار

برطانوی راج کی حمایت

دلچسپ بات یہ ہے کہ ساورکر ہی کی طرح گولواکر بھی برطانوی راج مخالف تحریک کے خلاف تھا۔ یعنی ہندتوا تحریک کے دو بنیادی نظریہ ساز اصل میں برطانوی راج کے حامی تھے۔ اس لیے گولوالکر کے دور میں آر ایس ایس نے آزادی کی تحریک سے مکمل علیحدگی اختیار کر لی، اسی لیے اس کے ہندو مہاسبھا کے ساتھ تعلقات میں بھی کمزوری آئی۔ آر ایس ایس نے نعرہ لگایا کہ ’’ہندوستان کی آزادی کی حفاظت، مذہب اور ثقافت کی حفاظت کے ذریعے‘‘ اور برطانوی راج سے آزادی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ گولوالکر کے بقول برطانویوں کی مخالفت کو حبّ الوطنی اور قوم پرستی کے ساتھ جوڑنا ایک ردّعمل والا نظریہ ہے جو کہ بہت تباہ کن ہو سکتا ہے۔

دوسری جنگِ عظیم کے دوران برطانوی حکومت کی درپردہ حمایت کے لیے گولوالکر نے آر ایس ایس کے پلیٹ فارم سے یہ نعرہ لگایا کہ ہندو مت کو جاپانی حملے سے خطرہ ہے، اور آرایس ایس کو ممکنہ جاپانی حملے کی صورت میں ہندو مفادات کے تحفظ کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

ہندو قوم ہندوستان کی اصل باسی

ساورکر نے اپنی کتاب ہندُتوا میں اس نظریے کو تسلیم کیا ہے کہ آریائی نسل ہندوستان کہیں باہر سے آئی اور دریائے سندھ کے کنارے آباد ہوئی۔ ساورکر کے بقول آریائی قوم کے آنے سے پہلے سے اس علاقے کو ہند کہا جاتا تھا اور اس دریا کا نام بھی سندھ نہیں ہند تھا۔ جب آریائی قوم یہاں آباد ہوئی تو اس نے یہاں کے مقامی ناموں کو سنسکرت میں تبدیل کیا جس کی وجہ سے ہند سندھ ہو گیا۔ اور دریائے سندھ کے کنارے آباد ہونے کی وجہ سے آریائی نسل ’سندھو‘ کہلائی جو بعد میں پھر بدل کر یہاں کی مقامی زبان کے مطابق ’ہندو‘ بن گیا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ گولوالکر ہندُتوا اور ہندو قوم پرستی میں ساورکر کو اپنا بڑا مانتا ہے اور ہندو قوم پرستی پر اس کی کتاب بھی اگر ساورکر کی کتاب کا ہوبہو ترجمہ نہیں ہے توکم از کم اُسی کو بنیاد بنا کر ہی لکھی گئی ہے۔ لیکن اس معاملے میں وہ ساورکر کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا ۔

گولوالکر نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہندو اسی دھرتی کی اولاد ہیں اور ہمیشہ سے یہیں کے باسی ہیں۔ مغربی ماہرینِ بشریات کی ان تحقیقات ،کہ ہندو ؤں کا تعلق آریائی نسل سے ہے اور یہ خانہ بدوش ہیں اور پانی کی تلاش میں مختلف جگہیں بدلتے ہوئے دریائے سندھ کے کنارے آکر آباد ہوئے، کے جواب میں گولوالکر لکھتا ہے کہ مغربیوں کو اپنی گوری چمڑی کا گھمنڈ ہے اور یہ چیز ان کی سوچ اور تحقیق پر پردے ڈال دیتی ہے۔ لیکن گولوالکر نے کہیں بھی اس کا ہلکا سا بھی ذکر نہیں کیا کہ اس کا گورو ساورکر بھی اس نظریے کو قبول کرتا تھا۔لیکن مشہور کانگرسی رہنما بال گنگا دھر تِلَک(Bal Gangadhar Tilak) نے ۱۹۰۳ء میں “The Arctic Home in the Vedas” (ویدوں میں لکھا قطب شمالی کا گھر) کے عنوان سے ایک کتاب تحریر کی جس میں ایک دلچسپ دعویٰ کیا کہ ہندوؤں کے مشہور قدیم وید13 قطب شمالی میں برفانی دور (Ice Age) میں لکھے گئے تھے۔اور یہی آریائی نسل کا اصل گھر تھا۔ پھر آخری برفانی دور کے بعد کے عظیم برفانی طوفان کی وجہ سے آریائی ۸۰۰۰ قبل مسیح میں جنوب کی طرف ہجرت کر گئے اور یہ ویدبھی ساتھ لے آئے۔ اس کے جواب میں گولوالکر ایک مضحکہ خیز دعویٰ کرتا ہے کہ تِلَک کی یہ بات درست ہے لیکن ان کو شاید یہ علم نہیں کہ ہجرت ہم نے نہیں بلکہ قطب شمالی نے کی۔ وہ بنارس ہندو یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر بیربل ساہنی کے ایک دعوے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:

’’قطب شمالی ایک ساکت چیز نہیں ہے اور بہت زمانہ قبل یہ دنیا کے اُس حصے میں تھا جسے آج بہار اور اڑیسہ کہتے ہیں، پھر اس کے بعد اس نے شمال مشرق کی طرف حرکت شروع کی، پھر کچھ عرصے بعد وہ کبھی مغرب کی طرف اور کبھی شمال کی طرف حرکت کرتے ہوئے اپنے موجودہ مقام پر پہنچا۔ اگر ایسا ہے تو ، کیا ہم نے قطب شمالی کو چھوڑا اور ہندوستان آگئے یا ہم ہمیشہ سے یہیں آباد تھے اور قطب شمالی نے ہمیں چھوڑ دیا اور شمال کی طرف آڑی ترچھی حرکت کرتے ہوئے چلا گیا؟ ہمیں یہ یقین سے کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ اگر لوک تِلَک14 کی زندگی میں یہ حقیقت سامنے آ چکی ہوتی ، تو وہ بھی بلا جھجک اعلان کرتے کہ ویدوں میں جس قطب شمالی کے گھر کا ذکر ہے وہ بلاشبہ ہندوستان میں ہی تھا اور ہندوؤں نے اس زمین پر ہجرت نہیں کی بلکہ قطب شمالی یہاں سے ہجرت کر گیا اور ہندوؤں کو ہندوستان چھوڑ گیا۔‘‘15

آگے چل کر گولوالکر لکھتا ہے:

’’ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہم ہندو اس دھرتی پر کہیں سے نہیں آئے، بلکہ ہمیشہ ہمیشہ سے اسی دھرتی کی اولاد ہیں اس لیے اس ملک کے فطری حکمران بھی۔‘‘16

ہندو قوم بطور خدا

گولوالکر ہندو قوم کی عظمت بیان کرتے ہوئے اس حد تک گیا کہ اس نے دعویٰ کیا کہ ہندو قوم بحیثیت مجموعی خود ایک خدا ہے۔ وہ لکھتا ہے:

’’ہمارے آباواجداد کہتے تھے ’ہمارے لوگ ہمارا خدا ہیں‘۔ شری رام کرشن جو کہ انسانیت کے عظیم ترین استادوں میں سے ایک ہیں کہتے تھے ، ’انسان کی خدمت کرو‘۔ اس کے عظیم شاگرد سوامی وویک آنند بھی یہی کہتے تھے۔ لیکن ’انسان‘ کو جب پوری انسانیت کے دائرے میں لیا جائے گا تو یہ ایک بہت وسیع اصطلاح ہے اور اس لیے اسے آسانی سے ایک اکائی کے طور پر دیکھنا اور محسوس کرنا بہت مشکل ہے۔ اسی لیے ایسا ہوا کہ بہت سے لوگ جو انسانیت کی خدمت کا خیال لے کر اٹھے وہ کچھ بھی نہ کر سکے۔ اس لیے ہمارے آباواجدا د نے، انسانی دماغ اور ذہانت کی حدود کو سمجھتے ہوئےکہا، ’انسانیت اور یہ سب تو ٹھیک ہے، لیکن اس سے پہلے کہ کوئی اس سطح تک پہنچ پائے، خدا کا تصور کچھ حدود و قیود کے ساتھ رکھنا ضروری ہے، جسے کوئی سمجھ سکے، محسوس کر سکے اور اس کی خدمت کر سکے۔‘ انہوں نے کہا کہ ہندو قوم وِروت پُرش ہیں، یعنی خدا کی تجلّی ۔ اگرچہ انہوں نے ’ہندو‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا لیکن یہ خدا کی اس تعریف سے واضح ہو جاتا ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ’ سورج اور چاند اس کی آنکھیں ہیں، ستارے اور آسمان اس کی ناف سے پیدا کیے گئے ہیں اور براہمن اس کا سر، بادشاہ اس کے ہاتھ، ویش اس کی ٹانگیں اور شودر اس کے پاؤں ہیں‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جو یہ خاصیت رکھتے ہیں، یعنی ہندو قوم ، وہ ہمارا خدا ہے۔‘‘17

فسطائیت

گولوالکر رامائن، مہابھارت اور گیتا جیسی دیومالائی داستانوں کے ذریعے سے ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ہندو قوم اُس وقت سے ایک متمدن قوم ہے جب دیگر دنیا کو تمدن کا علم تک نہیں تھا اور جب ابھی بابِل کی تہذیب کا بھی نام و نشان تک نہیں تھا۔ ایک اور جگہ گولوالکر ہندو قوم کے آغاز کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:

’’ہماری قوم کا آغاز، یعنی وہ تاریخ جب سے ہم یہاں ایک مہذب قوم کے طور پر رہ رہے ہیں، وہ تاریخ دانوں کے لیے نامعلوم ہے۔ ایک طرح سے ہم ’’انادی‘‘ ہیں، یعنی جن کا کوئی آغاز نہ ہو……

……ہم تب سے موجود ہیں جب کسی طرح کے ناموں کی کوئی ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی۔ ہم اچھے اور اہل بصیرت لوگ تھے۔ ہم وہ لوگ تھے جو قوانینِ فطرت اور روح کے قوانین تک سے آگاہ تھے۔ ہم نے ایک عظیم تہذیب ، ایک عظیم ثقافت اور ایک انوکھا معاشرتی نظام وضع کیا۔ وہ سب چیزیں جو انسانیت کے لیے فائدہ مند ہیں تقریباً اُن تمام کی تمام ہی کو ہم نے وجود بخشا ہے۔ تب دیگر ساری انسانیت صرف دو پاؤں پر چلنے والے حیوان تھے، اس لیے فرق کرنے کے لیے ہمیں کوئی نام نہیں دیا گیا۔ بعض اوقات، ہمیں دیگر لوگوں سے جدا دکھانے کے لیے ’’اہل بصیرت‘‘ کہا جاتا رہا ہے، یعنی’’آریائی‘‘، اور دیگر سب ’’ملیچھ‘‘ ۔ جب بیرونی زمینوں میں مختلف عقائد وقت کے ساتھ سامنے آنا شروع ہوئے اور یہ اجنبی عقائد کا ہم سے تعامل ہوا، تب جا کر نام رکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی……

…… اور نام ’’ہندو‘‘، جو کہ سندھو دریا سے اخذ کیا گیا ہے، ہم سے ہماری تاریخ اور روایات میں اتنے لمبے عرصے سے جڑا ہوا ہے کہ اب یہ ہمارا آفاقی طور پر تسلیم شدہ اور پسند کردہ نام ہے۔‘‘18

ظاہر ہے کہ جب کوئی بھی اپنی قوم کے تعریف و تحسین میں اس حد تک غلو کرتا ہو کہ اپنی قوم کو ’’اہل بصیرت‘‘ اور دیگر سب کو ملیچھ (ناپاک) گردانتا ہو، حتیٰ کہ اسے خدا تک کا درجہ دیتا ہو تو اس کا منطقی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ وہ دیگر تمام اقوام کو اپنی قوم سے حقیر تر تصور کرے اور خود کو ان سے برتر اور حاکم تصور کرے۔ جس بھی قوم میں نسلی تفاخر آیا انہوں نے دوسری قوموں اور نسلوں کو خود سے حقیر ہی جانا۔ جیسے یہودیوں کی صہیونی تحریک اور جرمنی کی نازی تحریک دیگر اقوام کو خود سے حقیر سمجھتے ہیں، یہی معاملہ ہندو قوم پرستوں کا بھی ہے۔ گولوالکر قوم پرستی کی فکر میں نازی جرمنی سے بھی متاثر تھا۔ اس حوالے سے وہ لکھتا ہے:

’’اپنی نسل اور ثقافت کو خالص رکھنے کے لیے، جرمنی نے سامی نسلوں (یعنی یہودیوں) سے اپنے ملک کو پاک کر کے دنیا کو حیران کر دیا۔یہاں نسلی تفاخر کا اظہار اپنے عروج پر کیا گیا۔ جرمنی نے یہ بھی دکھایا کہ کیسے اُن نسلوں اور ثقافتوں کے لیے ، جن کی بنیادوں میں ہی اختلاف پایا جاتا ہو، ایک متحد اکائی بن کر رہنا بالکل ناممکن ہے۔ یہ ہندوستان میں ہمارے لیے سیکھنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے اچھا سبق ہے۔‘‘19

گولوالکر نسلی عنصر کو قوم کا سب سے اہم ترین جزو گردانتا ہے۔ اس کی نظر میں اقلیتیں صرف اسی صورت میں معاشرے میں ضم ہو سکتی ہیں اگر وہ اپنے شعائر کو ختم کر دیں، کیونکہ ہندو شعائر ’قومی‘ ہیں جبکہ اقلیتوں کے شعائر ’خارجی‘۔ اپنی کتاب میں وہ لکھتا ہے:

’’ہندوستان میں موجود خارجی نسلیں لازمی طور پر یا تو ہندو ثقافت اور زبان کو اپنا لیں، ہندو مذہب کی تعظیم و احترام کرنا سیکھ لیں، ہندو قوم و ثقافت کی تعریف و تحسین کرنے کے علاوہ کسی خیال کو خاطر میں نہ لائیں، اور اپنا علیحدہ وجود ختم کر کے ہندو نسل میں ضم ہو جائیں یا پھر اس ملک میں مکمل طور پر ہندو قوم کے ماتحت بن کر رہیں، کوئی مطالبہ نہ کریں، کسی فائدے یا رعایت کا انہیں حق نہ ہو، ان کے ساتھ کسی قسم کا رعایتی سلوک نہ کیا جائے، حتیٰ کہ انہیں شہری حقوق تک میسر نہ ہوں۔ اُن کے سامنے اس کے علاوہ کوئی راستہ موجود نہیں ہونا چاہیے۔ ہم ایک قدیم قوم ہیں، اور ہمیں ویسے ہی کرنا چاہیے جیسے کوئی قدیم قوم اُن خارجی نسلوں کے ساتھ کرتی ہے یا اسے کرنا چاہیے، جو ان کے ملک میں آکر رہنے لگیں۔‘‘20

اسلام دشمنی

گولوالکر کے نزدیک ہندوستان کے مالک ہندو ہیں، اور پارسی اور یہودی یہاں پر مہمان ہیں جبکہ مسلمان اور عیسائی حملہ آور۔ جرمنی کے نازی نظریات کو گولوالکر نے ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا۔ اس کے نزدیک مسلمان خارجی ہیں جو کہ ہندو معاشرے میں گھس کر اس کو کمزور کر رہے ہیں۔ اس کے نزدیک مسلمان یہاں کے باسی نہیں بلکہ حملہ آور ہیں جن کے عقیدے کا مرکز ہندوستان کی بجائے مکہ ہے۔

تقسیمِ ہند کے بعد ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرتے ہوئے گولوالکر لکھتا ہے:

’’پورے ملک میں جہاں بھی کوئی مسجد ہو یا مسلمانوں کا محلہ ہو، مسلمانوں کو لگتا ہے جیسے یہ ان کی ایک آزاد عملداری ہے۔ اگر کوئی ہندوؤں کا جلوس گانے بجانے کے ساتھ گزرے، تو انہیں غصہ آ جاتا ہے کہ ہمارے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ اگر ان کے مذہبی جذبات اتنے نازک ہو چکے ہیں کہ میٹھی سی موسیقی سے بھی خراب ہوتے ہیں تو پھر وہ اپنی مساجد کو جنگلوں میں منتقل کیوں نہیں کر دیتے کہ وہاں خاموشی سے عبادت کریں؟ کیوں وہ بضد ہیں کہ سڑک کنارے ایک پتھر نصب کریں، اس پر سفید رنگ کریں اور کہیں کہ یہ نماز کی جگہ ہے، اور پھر جب موسیقی چلے تو شور برپا کر دیں کہ ان کی نماز میں خلل ڈالا گیا ہے؟……

…… کیا یہ بات واضح نہیں کہ موسیقی کے حوالے سے مسلمانوں کے نام نہاد مذہبی جذبات کا مذہب سے یا نماز سے حقیقت میں کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ صرف اس نظر سے کیا جاتا ہے کہ ہندوؤں کے ساتھ جھگڑا کھڑا کیا جائے اور اپنے چھوٹے چھوٹے آزاد سیل قائم کیے جائیں؟‘‘21

ہندوستان میں ہندو قوم پرستوں کی مسلمانوں کے خلاف جنگ کے حوالے سے گولوالکر لکھتا ہے:

’’ اُس منحوس دن سے ، جب مسلمان پہلی بار ہندوستان میں اترے تھے، آج اِس لمحے تک، ہندو قوم ان لٹیروں کا جوانمردی سے مقابلہ کر رہی ہے۔ یہ اس جنگ کا نتیجہ ہی ہے کہ آج پانسا ہماری طرف پلٹ چکا ہے، لیکن جنگ جاری رہے گی۔ نہ تو اس کا فیصلہ اب تک ہوا ہے اور نہ ہی ایسا کوئی خوف موجود ہے کہ اس کا فیصلہ ہمارے خلاف ہو سکتا ہے۔ نسلی روح بیدار ہو رہی ہے۔ شیر مرا نہیں تھا بلکہ سو رہا تھا۔ وہ پھر سے بیدار ہو رہا ہے اور دنیا اس نیا جنم لینے والی ہندو قوم کی طاقت کو دیکھ لے گی کہ کیسے وہ اپنے دشمن کو اپنے قوی بازو سے ختم کر تی ہے۔‘‘22

ہندوستانی آئین اور جھنڈے کا انکار

گولوالکر ہندوستان کے سیکولر آئین اور اس کے جھنڈے (ترنگا) کو تسلیم نہیں کرتا تھا ۔ لیکن جب حکومت کی طرف سے گولوالکر اور آر ایس ایس کے ساٹھ ہزار کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا اور تنظیم پر پابندی لگا دی گئی تو اس کے بعد پابندی ہٹوانے کے لیے مجبوراً انہیں قبول بھی کرنا پڑا اور ان کی تعظیم کرنے کا عہد بھی کرنا پڑا۔ لیکن اس کے بعد بھی آج تک آر ایس ایس کے دفاتر میں کبھی کسی موقع پر بھی ترنگا نہیں لہرایا گیا بلکہ ہمیشہ ’’بھگوا دھواج‘‘ (زعفرانی جھنڈا) ہی لہرایا جاتا ہے۔

گولوالکر ترنگا پر تنقید کرتے ہوئے اپنی کتاب میں لکھتا ہے:

’’ہمارے قائدین نے ہمارے ملک کے لیے ایک نیا جھنڈا متعارف کروایا ہے۔ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ یہ معاملہ صرف انحراف اور تقلید کا ہے۔ یہ جھنڈا کیسے وجود میں آیا؟ فرانسیسی انقلاب کے دوران ، فرانسیسیوں نے اپنے جھنڈے پر تین رنگی دھاریں لگائیں تاکہ ’آزادی‘، ’مساوات‘ اور ’بھائی چارے ‘کے تین نظریات کا اظہار ہو سکے۔ امریکی انقلاب بھی انہیں اصولوں سے متاثر ہوا اور اس نے بھی کچھ تبدیلیوں کے ساتھ تین رنگی دھاروں کو اپنایا۔ اس لیے تین رنگی دھاروں میں ہمارے آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کو بھی کچھ دلکشی نظر آتی ہے۔ اس لیے کانگریس نے اسے اپنا لیا۔ پھر اس کی توجیح یہ پیش کی گئی کہ یہ ملک میں موجود مختلف گروہوں کے اتحاد کی علامت ہے۔ زعفرانی رنگ ہندوؤں کی علامت، سبز مسلمانوں کی اور سفید دیگر تمام گروہوں کے لیے۔ غیر ہندو گروہوں میں سے مسلمانوں کا نام خاص طور پر اس لیے لیا گیا کہ ہمارے سرکردہ رہنماؤں میں سے زیادہ تر کے ذہن میں مسلمان غالب تھے اور ان کا نام لیے بغیر ان کے خیال میں ہماری قومیت مکمل نہیں ہو سکتی! جب کچھ لوگوں نے اعتراض کیا کہ اس توجیہ سے تو فرقہ پرستی کی بو آتی ہے تو ایک تازہ وضاحت پیش کر دی گئی کہ زعفرانی رنگ کا مطلب ہے قربانی، سفید رنگ پاکیزگی کی علامت ہے جبکہ سبز رنگ امن کی ……

…… آج اسی جھنڈے کو ہمارا ریاستی جھنڈا بنا دیا گیا ہے جس ریاست کی ایک تابناک تاریخ ہے۔ پھر، کیا ہمارا اپنا کوئی جھنڈا نہیں تھا؟ کیا ہماری کوئی قومی علامت ان ہزاروں سالوں میں موجود نہیں رہی؟ بلاشبہ، ہم رکھتے تھے۔ پھر یہ خلا، یہ ہمارے دماغوں میں مکمل خلا کیوں ہے؟‘‘23

اسی طرح گولوالکر آئینِ ہند پر تنقید کرتے ہوئے لکھتا ہے:

’’ہمارا آئین بھی بہت سے مغربی ممالک کے آئینوں کی بہت سی شقوں کو بے ڈھنگے انداز میں جوڑ کر بنایا گیا ہے۔ اس میں سرے سے کچھ بھی ایسا نہیں ہے جسے ہم اپنا کہہ سکیں۔ کیا اس کے رہنما اصولوں میں کوئی ایک لفظ بھی ایسا ہے جو یہ اشارہ دیتا ہو کہ ہمارا قومی مشن کیا ہے اور ہماری زندگی کی اساس کیا ہے؟ نہیں! اقوام متحدہ کے چارٹر سے یا سابقہ لیگ آف نیشنز کے چارٹر سے حاصل کیے ہوئے کچھ لولے لنگڑے اصول ہیں اور کچھ چیزیں امریکی اور برطانوی آئین سے حاصل کیں ہیں اور ان سب کو جوڑ کر ایک کھچڑی سی بنا دی گئی ہے۔‘‘24

چند اہم ملاحظات

ہندُتوا کے مفکرین کی زندگی اور افکار سے ہندُتوا کے نظریے اور اس کو ماننے والے قوم پرستوں کے حوالے سے چند اہم نکات واضح ہوتے ہیں۔

ہندُتوا نظریہ کے محرکات
شدید نسلی تفاخر

ہندو قوم پرست شدید نسلی تفاخر پر یقین رکھتےہیں اور خود کو دنیا کی دیگر تمام اقوام سے برتر تصور کرتے ہیں۔ خود کو ’اہل بصیرت‘ جبکہ باقی تمام انسانوں کو ’ملیچھ‘ یعنی ناپاک تصور کرتے ہیں۔ جرمن نازی بھی خود کو دوسروں سے برتر قوم تصور کرتے تھے، یہودی ان سے آگے بڑھتے ہوئے خود کو خدا کا بیٹا تصور کرتے ہیں لیکن ہندوؤں کا تفاخر ان سے بھی کہیں زیادہ ہے کہ یہ تو اپنی قوم کو ہی خدا تصور کرتے ہیں۔ اتنے شدید نسلی تفاخر کی وجہ سے ان کی سوچ یہ بن گئی ہے کہ ہندوستان میں دیگر جو بھی اقوام رہیں وہ ان کے ماتحت بن کر رہیں، ان کو اپنے سے برتر تصور کریں، ان کے رسوم و رواج کو اپنے رسوم و رواج سے اعلیٰ تر تصور کریں، اور ان کے مقدسات کو اپنے مقدسات سے مقدس تر تصور کریں، تب ہی وہ ہندوستان میں رہنے کا حق حاصل کر سکتے ہیں ورنہ انہیں یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں۔

ہندو مذہب کے وجود کو لاحق خطرات
  • ہندو مت دیو مالائی داستانوں، مضحکہ خیز عقائد اور پیچیدہ اور ایک دوسرے سے متضاد فلسفوں پر مشتمل مذہب ہے۔ جب اسلام اس خطے میں متعارف ہوا تو عقل و سمجھ رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد اس طرف مائل ہوئی اور لوگ تیزی سے مسلمان ہونے لگے۔ اس لیے اسلام سے ہندومت کے وجود کو خطرہ لاحق ہو گیا جس کی وجہ سے ہندُتوا کے نظریے میں سب سے اوّلین دشمن مسلمان ہیں۔

  • ہندو قوم ذات پات اور طبقات میں بری طرح گھِری ہوئی ہے۔ نچلی ذات کے ہندوؤں کو عرفاً بنیادی انسانی حقوق تک میسر نہیں۔ ہندو معاشروں میں ان کی زندگی غلاموں سے بھی بدتر رہی ہے جس کی وجہ سے جب مسلمان آئے اور خاص طور پر جب مسلمان حاکم بنے تو نچلی ذات کے ہندوؤں کی بڑی تعداد مسلمان ہونے لگی تاکہ معاشرے میں اپنی سطح کو بلند کر سکیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کے ساتھ مل کر رہنے کی وجہ سے مسلمانوں کے اندر بھی یہی ذات پات کی تفریق پیدا ہو گئی اور وہ بھی ان نچلی ذات کے ہندوؤں کو کم تر تصور کرنے لگے، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے خود ان کے اندر بھی ذات پات کی تقسیم پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ پھر جب برطانوی حکمران بنے تو نچلی ذات کے ہندوؤں کو اپنی معاشرتی سطح کو بلند کرنے کا ایک اور موقع میسر آیا اور ان کی بڑی تعداد عیسائی ہونا شروع ہو گئی۔ اس لیے ہندو قوم پرستوں کے نزدیک اوّلین دشمن مسلمان جبکہ دوسرے نمبر پر دشمن عیسائی ہیں اور یہ تحریک ان دو مذاہب کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔

تحریکِ خلافت

ہندوؤں میں نسلی تفاخر اور ان کے وجود کو لاحق خطرات تو پہلے سے چلے آ رہے تھے لیکن جس چیز نے ہندو قوم پرستوں کو عمل پر ابھارا اور ہندُتوا کے سیاسی نظریے کی بنیاد پڑی وہ برصغیر میں چلنے والی تحریکِ خلافت تھی جس کا آغاز ۱۹۱۵ء میں ہوا۔ ہندو قوم پرستوں کو غصہ اور حسد اس بات پر تھا کہ آخر کیوں ہندوستان میں رہتے ہوئے مسلمانوں کے دل ترکی میں موجود خلافت کے لیے دھڑکتے ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان کی ساری وفاداریاں اور ہمدردیاں ہندوستان سے زیادہ اپنی مقدسات سے اور ہندوستان سے باہر اپنے لوگوں سے ہیں۔ اور ان امور میں مسلمان پوری طرح متحد ہیں جبکہ ہندو ہندوستان میں رہتے ہوئے ایک ہی قوم اور نسل ہونے کے باوجود بھی متحد نہیں ہیں۔ اسی لیے ہندوؤں کی قوم پرست تنظیمیں بھی اسی تحریکِ خلافت کے بعد وجود میں آئیں۔ ساورکر نے بھی خود اقرار کیا کہ اس نے ہندُتوا کا نظریہ تحریکِ خلافت ہی کے ردّ عمل میں متعارف کروایا تھا۔

ہندو قوم پرستوں کےمشترک اوصاف
ثابت قدمی کا فقدان

ساورکر اور گولوالکر کی زندگی سے اور اسی طرح کے دیگر قوم پرستوں کی زندگی سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے اندر ثابت قدمی کا فقدان ہے۔ ساورکر کالا پانی کی جیل میں ایک مہینہ بھی سختی برداشت نہ کر سکا اور رحم کی اپیل کر دی اور اپنے تمام کاموں سے توبہ کرنےکا، برطانوی راج سے وفاداری کرنے کا اور ساتھ ہی دیگر ایسے نظریات کے لوگوں کو بھی ایسے نظریات سے ہٹانے کا وعدہ کر لیا، اور بعد میں بھی اس وعدے پر قائم رہا۔

یہی معاملہ گولوالکر میں بھی نظر آتا ہے کہ آزاد ہندوستان میں سیکولر آئین بنانے کی اور ترنگا کو قومی جھنڈا بنانے کی نظریاتی بنیادوں پر شدید مخالفت کے باوجود جب سختیاں پڑیں اور گرفتاریاں ہوئیں اور آر ایس ایس پر پابندیاں لگیں تو فوراً اپنے ان نظریات سے رجوع کر لیا اور ہندوستان کے سیکولر آئین کو بھی تسلیم کر لیا اور اس کے ساتھ وفاداری کا عہد بھی کر لیا اور ترنگا کو بھی قومی پرچم کے طور پر تسلیم کر لیا اور اس کی بھی تعظیم کا عہد کر لیا۔

اس رویے سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ آخر کیوں ہندو قوم پرست تنظیموں نے اور ہندُتوا کے نظریے نے تقسیمِ ہند کے قریب ہی جڑیں پکڑیں۔ جب ان قوم پرستوں کو یقین ہو گیا کہ اب وہ ہندوستان میں غالب آنے والے ہیں تو انہوں نے پر نکالنا شروع کر دیے اور جب ہندوستان آزاد ہو گیا اور ہندو غالب طاقت بن کر سامنے آگئے تو یہ کھل کر سامنے آگئے ، اس میں بھی یہ تب تک پوری طرح کھل کر سامنے نہیں آئے جب تک کہ انہیں اقتدار نہیں ملا۔ جب انہیں اقتدار حاصل ہو گیا تو انہوں نے سب نقاب اتار پھینکے اور اپنے اصلی بھیانک چہرے کے ساتھ بلا خوف و خطر سامنے آگئے۔

اصولوں پر مفادات کو ترجیح

ہندو قوم پرست اپنے اصولوں پر اس وقت تک ہی قائم رہتے ہیں جب تک کہ ان کے مفادات پر ضرب نہ لگ رہی ہو۔ اگر کہیں ان کے مفادات پر ضرب لگے تو وہ فوراً اپنے اصولوں کی قربانی دے دیتے ہیں۔ ساورکر برطانوی راج کا مخالف تھا اور ہندُتوا کے نظریے میں بھی اور ان قوم پرست ہندوؤں کے نزدیک بھی عیسائیوں کا درجہ دشمن اور حملہ آور کا ہے۔ لیکن چونکہ برطانیہ کی حکومت تھی اور حکومت کے خلاف جانے سے سنگین نتائج بھگتنا پڑتے ، اور عزیمت کا لفظ ان کی لغت میں بھی موجود نہیں ہے، اس لیے انہوں نے اپنے مفادات کی خاطر اصولوں کو قربان کر دیا اور ساورکر اور گولوالکر دونوں نے اور ان کی تنظیموں، ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس نے برطانوی راج کی مخالفت سے مکمل پرہیز کیا بلکہ الٹا اس راج کی حمایت کی اور اس بات کو خاطر میں نہیں لائے کہ یہ وہی عیسائی حملہ آور ہیں جن کے خلاف یہ ہندوؤں کو کھڑا کر رہے ہیں۔

یہی معاملہ ہندوستان کی آزادی کے بعد بھی رہا۔ گولوالکر اور آر ایس ایس ہندوستانی آئین اور ترنگا کے سخت مخالفین تھے۔ لیکن اس مخالفت کی وجہ سے جب انہیں جیل کی ہوا کھانی پڑی اور جب آر ایس ایس پر پابندی لگ گئی تو یہ پابندی ہٹوانے اور سختیوں سے بچنے کے لیے انہوں نے اپنے اصولوں پر سودے بازی کرلی اور انہوں نے اپنا ایک تحریری آئین بنایا اور ہندوستانی آئین کی پاسداری اور احترام اور ریاستی جھنڈے ترنگا کو قبول کرنے اور اس کی تعظیم کرنے کا عہد کرلیا۔

بے دریغ جھوٹ اور مبالغہ آرائی

مسلمانوں اور عیسائیوں پر اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ خارجی حملہ آور ہیں ہندوستان کے مقامی نہیں ہیں۔ اور اس سرزمین پراصل حق ہندوؤں کا ہے۔ لیکن پھر جب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہندو بھی تو آریائی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ اس سرزمین پر کہیں اور سے آئے تھے۔ اس بارے میں بھی ایک ہندو نے شدید مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ ہندو قطب شمالی سے آئے تھے اور ان کے قدیم وید قطب شمالی میں برفانی دور کے دوران لکھے گئے تھے۔ لیکن چونکہ اس نظریے سے ہندوؤں کے بھی اس سرزمین پر مقامی ہونے کی نفی ہو جاتی ہے اور پھر انہیں کوئی حق نہیں رہتا کہ وہ مسلمانوں کو یہاں پر خارجی کہیں کہ اس تعریف کے اعتبار سے وہ خود بھی خارجی بن جاتے ہیں۔لیکن یہ تو ان کے اپنے مذہبی ویدوں میں لکھا موجود تھا کہ آریائی قطب شمالی سے آئے ہیں تو اس کا انکار کیسے ممکن ہو؟ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے گولوالکر نے کمال ڈھٹائی کے ساتھ ایک بے سر و پا جھوٹ گھڑ لیا کہ قطب شمالی ہی پہلے ہندوستان میں تھا اور ہجرت کر کے ہندو اس خطے میں نہیں آئے تھے بلکہ قطب شمالی یہاں سے ہجرت کر گیا۔ عقل و منطق کے اعتبار سے یہ کیسی احمقانہ بات ہے اس کو وہ بالکل خاطر میں نہیں لایا۔ اسی ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ سب ہندو قوم پرست گھڑتے رہتے ہیں اور ان کی پوری تاریخ اسی طرح کے بے سرو پا جھوٹوں اور افسانوں پر مشتمل ہے۔

مظلومیت اور حق تلفی کا رونا

ایک اور چیز جو سب ہندو قوم پرستوں میں مشترک ہے وہ یہ کہ یہ ہر وقت مظلومیت اور حق تلفی کا رونا روتے رہتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ صدیوں سے مسلمان ہندوؤں پر مظالم کے پہاڑ توڑتے آ رہے ہیں، اور انہیں ہندوستان سے ختم کرنا اور نکالنا اشد ضروری ہے ورنہ یہ پھر طاقت میں آکر ہمیں چن چن کر ختم کر ڈالیں گے۔ اسی طرح ہندوستان کی آزادی کے بعد سے آج تک ہندو قوم پرست یہ رونا روتے آ رہے ہیں کہ ان کی حق تلفی ہو رہی ہے، مسلمانوں کو رعایتیں دی جا رہی ہیں مراعات دی جا رہی ہیں جبکہ ہندوؤں کے حقوق انہیں نہیں دیے جا رہے۔ حد تو یہ ہے کہ آج ان قوم پرستوں کا اپنا دورِ حکومت ہے، مسلمانوں کے سب حقوق غصب کر کے بیٹھے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر مسلمانوں کا قتل عام بھی کر رہے ہیں، پھر بھی یہ پوری ڈھٹائی سے آج بھی یہی رونا رو رہے ہیں۔

تحریکِ آزادی کے کرداروں سے عداوت

ہم ضمنی طور پر پیچھے یہ بات تو کر ہی آئے ہیں کہ ہندو قوم پرست نہ ہندوستان کے آئین کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی قومی جھنڈے کو بلکہ ان کا مطالبہ ہے کہ ترنگا کی بجائے ’بھگوا دھواج‘ (زعفرانی جھنڈا) کو قومی جھنڈا بنایا جائے اور سیکولر آئین کو ختم کر کے آئین کو مانوّ دھرم شاستر کے مطابق تشکیل دیا جائے اور ہندوستان کو ہندو راشٹر بنایا جائے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ آزادیٔ ہند کے کرداروں سے بھی عداوت رکھتے ہیں۔ اور گاندھی اور نہرو کے سخت مخالفین ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ہندُتوا کے دونوں بڑے مفکرین کا نام گاندھی کے قتل کے ملزمین میں شامل ہے۔ اورگاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کا ان دونوں سے ہی تعلق تھا۔ اور آج یہی قوم پرست گوڈسے کو ’دیش بھگت‘ (قومی ہیرو) قرار دے رہے ہیں ، اور گاندھی کے قتل کو عظیم بہادری کا کام گردانتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جب یہ قوم پرست نہ ہندوستانی آئین کو مانتے ہیں نہ ترنگا کی تعظیم کرتے ہیں اور نہ ہی آزاد ہندوستان کے دو بڑی شخصیات گاندھی اور نہرو کو اچھا سمجھتے ہیں ، تو پھر تو انہیں ملک کا غدّار کہا جانا چاہیے۔ لیکن بجائے اس کے کہ یہ غدار کہلا کر جیلوں میں ہوتے یہ آج اقتدار کے ایوانوں میں موجود ہیں اور وہ ہندوستانی مسلمان جو نہ ہندوستانی آئین کا انکار کرتے ہیں نہ قومی پرچم کا اور جو گاندھی اور نہرو کو بھی برا نہیں کہتے، ان پر ملک کے غدار ہونے کا لیبل چسپاں کیا جا رہا ہے۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)


1 کرتھاڑے براہمن مہراشٹر کے براہمنوں کی ایک ذیلی شاخ ہے۔

2 شاکھا یا شاکھ آر ایس ایس کی کسی علاقے میں شاخ کو کہتے ہیں۔ سب سے بنیادی شاکھ میں روزانہ کا اجتماع ہوتا ہے جس میں کھیل، گیت، سبھاشت(سنسکرت کی نظمیں) اور یوگا وغیرہ کا اہتمام ہوتا ہے۔

3 سرگاچی: مغربی بنگال کے ضلع مرشد آباد کا ایک علاقہ۔

4 رام کرشن مشن: ایک ہندو روحانیت کی تنظیم جو پوری دنیا میں رام کرشن تحریک یا ویدانت تحریک کےعنوان سے آشرم چلاتی ہے۔

5 آشرم(Ashrama) ہندوؤں کی خانقاہ کو کہا جاتا ہے۔

6 سنیاسی: جو دنیا ترک کر کے اپنے آپ کو ہندو روحانیت کے لیے وقف کر دے۔

7 اس حوالے سے دو رائے پائی جاتی ہیں کہ یہ ساورکر کی تحریر کا ترجمہ ہی ہے یا کہ اس تحریر کو بنیاد بنا کر گولوالکر نے اپنی تحریر لکھی ہے۔ گولوالکر نے کتاب کے مقدمے میں تو یہی لکھا ہے کہ ساورکر کی کتاب کو بنیاد بنا کر یہ کتاب لکھی گئی ہے اور یہ اس کی اپنی تحریر ہے ، اور ۱۹۶۳ء تک یہی بات معروف تھی۔ لیکن ۱۹۶۳ء کے بعد یہ رائے آر ایس ایس کے حلقوں کی طرف سے ہی سامنے آئی کہ گولوالکر نے اس کتاب میں صرف مقدمہ اور ابتدائیہ وغیرہ لکھا ہے باقی کتاب ساری اصل میں ساورکر کی کتاب کا ترجمہ ہی ہے۔

8 گرودکشن: کسی تعلیم یا تربیت کے اختتام پر تربیت دینے والے گورو کو خراج عقیدت پیش کرنے کی تقریب

9 سرکاریاواہ: آر ایس ایس میں دوسرا اعلیٰ ترین عہدہ

10 سوائم سیوک: رضاکار

11 برطانوی دور کا صوبہ ’آگرہ اور اودھ کے متحدہ صوبے‘ جو کہ آج کی دو ریاستوں ’اترپردیش‘ اور اترکھنڈ‘ پر مشتمل ہے۔

12 ستیاگراہ: گاندھی کے عدم تشدد کے نظریے پر مبنی سول نافرمانی کی تحریک

13 سنسکرت میں لکھی گئی ہندوؤں کی قدیم مذہبی کتابیں۔

14 بال گنگا دھر تِلک کو لوک مانیا تلک بھی کہا جاتا ہے۔ لوک مانیا سے مراد وہ جسےلوگ راہنما مانیں۔

15 We or Our Nationhood defined – M. S. Golwalkar p. 45

16 We or Our Nationhood defined – M. S. Golwalkar p. 46

17 Bunch of Thoughts by M. S. Golwalkar p. 46, 47

18 Bunch of Thoughts by M. S. Golwalkar p. 60, 61

19 We or Our Nationhood defined – M. S. Golwalkar p. 87, 88

20 We or Our Nationhood defined – M. S. Golwalkar p. 104, 105

21 Bunch of Thoughts by M. S. Golwalkar p. 152, 153

22 We or Our Nationhood defined, M. S. Golwalkar p. 51, 52

23 Bunch of Thoughts by M. S. Golwalkar p. 188

24 Bunch of Thoughts by M. S. Golwalkar p. 188

Previous Post

منزل ہم سے اوجھل نہ ہونے پائے پیارو! | انیسواں خط

Next Post

کرسمس کیک کاٹنے کا جرم……اسلام کی نظر میں

Related Posts

حربِ ظاہری کا حربۂ باطنی | دوسری قسط
…ہند ہے سارا میرا!

حربِ ظاہری کا حربۂ باطنی | دوسری قسط

13 اگست 2025
حربِ ظاہری کا حربۂ باطنی
…ہند ہے سارا میرا!

حربِ ظاہری کا حربۂ باطنی

13 جولائی 2025
ثكلتنا أمهاتنا إن لم ننصر رسول اللہ…
…ہند ہے سارا میرا!

ثكلتنا أمهاتنا إن لم ننصر رسول اللہ…

7 جون 2025
!امتِ واحد بن جائیے
…ہند ہے سارا میرا!

!امتِ واحد بن جائیے

6 جون 2025
اس سیکولرزم اور سنودھان نے ہمیں کیا دیا؟
…ہند ہے سارا میرا!

اس سیکولرزم اور سنودھان نے ہمیں کیا دیا؟

27 مئی 2025
اب وقت ہے ایسے نعروں کا جو سوتوں کو بیدار کریں!
فکر و منہج

اب وقت ہے ایسے نعروں کا جو سوتوں کو بیدار کریں!

25 مئی 2025
Next Post

کرسمس کیک کاٹنے کا جرم……اسلام کی نظر میں

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version