نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home فکر و منہج

برِّ صغیر كے حكمرانوں كے خلاف لڑنا مسلمانوں پر كيوں واجب ہے؟ | حصۂ ثالث

فضل الرحمن قاسمی by فضل الرحمن قاسمی
26 نومبر 2022
in اکتوبر و نومبر 2022, فکر و منہج
0

حضرت مولانا فضل الرحمٰن قاسمی کا تعلق شہید سراج الدولہ، سید تیتومیر اور حاجی شریعت اللہ ﷭ کی سرزمین سے ہے جس کے بیشتر حصے کو آج بنگلہ دیش کے نام سے جانا جاتا ہے اور آپ نے یہ تحریر بنگلہ دیش میں ہی قلم بند کی ہے۔

زیرِ نظر سلسلہ کل چار حصوں پر مشتمل ہے، اس مضمون کا دوسرا حصہ جنوری ۲۰۲۲ء کے مجلّہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ (ادارہ)


ہندوستان: دار الحرب بننے سے ماضی قريب تك

علمائے ہندكا كردار

یہ ملک یعنی برصغیر[ہندوستان ( بھارت)، بنگلہ دیش اور پاکستان] دارالحرب بننے کے بعد دارالاسلام بننے کے مرحلے میں کبھی داخل نہیں ہوا ، کہ دارالحرب سے دارالاسلام میں تبدیل ہونے کے لیے جو باتیں ضروری تھیں وہ اس خطۂ ارض کو نصیب نہیں ہوئیں۔

گزشتہ دو سو برس میں برصغیر بہت سے مراحل سے گزرا اور ہزاروں تبدیلیاں اس میں آئیں، مگر ان میں سے کوئی تبدیلی بھی اسے دارالاسلام بنا دینے والی نہ تھی۔ دوسو برس کے اس سفر کو ہم مختصراً بیان کرنےکی کوشش کرتے ہیں، اللہ درست بات کی توفیق عطا فرمائے۔

ہم پر کیا گزری؟

ہندوستان (یعنی برصغیر پاک وہند اور بنگلہ دیش ) گزشتہ دو سو برس کے دوران ایسے ایسے مراحل سے گزرا کہ جن کا تصور بھی آج کے مسلمان کے لیے مشکل ہے، اور ایسا ہی حال ہر ماضی کا ہوتا ہے کہ حال کا آدمی جتنا بھی پڑھ لے اور جہاں تک بھی تصور کے گھوڑے دوڑائے وہ مشاہدہ کرنے والے کے احساس کو نہیں پاسکتا۔ بدلتے احوال کا ادراک، ماضی اور حال کا فرق اس دور سے گزرنے والا جیسے کرسکتا ہے اس طرح اس دور سے غیر حاضر فرد نہیں کرسکتا۔

اسی طرح جن لوگوں نے اپنے مقتول والدین، بھائی بہنوں رشتہ داروں کے خون سے رنگے چھرے ان کے قاتلین کے ہاتھوں میں دیکھے، ان کا جذبۂ انتقام اور اور بدلے کا عزم ان کے برابر ہرگز نہیں ہوسکتا جنہوں نے اس قتل و قتال کی محض کہانیاں سن رکھی ہیں اور انہیں اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا۔

اسی طرح باپ دادا سے میراث میں ملی جائیداد اور اپنی محنت سے بنائے مکان کی محبت یکساں نہیں ہوسکتی، اپنے خون پسینے کی کمائی کی قدروقیمت ہرگز مفت ملے عطیے کے برابر نہیں ہوسکتی۔

گندے ماحول میں رہنے بسنے والا اس ماحول کی گندگی اور بدبو سے وہ اذیت محسوس نہیں کرتا جتنا کہ پاکیزہ ماحول سے اس گندگی اور تعفن بھرے مقام پر آنے والا محسوس کرتا ہے۔ مگر پاکیزہ ماحول سے آنے والے کی یہ تکلیف اور اذیت بھی رفتہ رفتہ دور ہوتی جاتی ہے، بدبو کا احساس ختم ہوجاتا ہے…… کیوں؟ کیا بدبو دور ہوگئی یا اس شخص نے بدبو کو اپنا لیا؟ حقیقت یہ ہے کہ بدبو تو اپنی اسی شدت کے ساتھ قائم و دائم ہے، ماحول بھی متعفن ہے اور گندگی بھی پھیلی ہوئی ہے، لیکن صاحبوں نے اس بدبو کو اپنا لیا ہے۔

ان چند تمہیدی نکات کے بعد اب ہم ہندوستان کی مختصر کہانی کی جانب آتے ہیں۔ یہ کوئی باقاعدہ تاریخی مضمون نہیں ہے کہ جس میں ماضی کے ہر گوشے کو اجاگر کیا جائے، بلکہ ہم یہاں صرف تاریخ کے ان حصوں پر روشنی ڈالیں گے جن سے صدیوں پر محیط پیچیدگیوں کو حل کرنے میں مدد ملے۔ قوم پرستی کی جہالت، عصبیت پر مبنی نفرت، اور فرقہ وارانہ عداوت سے پاک ہو کر محض ایک مسلمان کی حیثیت سے تاریخ کی جن باتوں کو سامنے لانا اور جن حالات پر غور کرنا مطلوب ہے ہم صرف انہی کا احاطہ کرنے کی کوشش کریں گے، ان شاء اللہ۔ دو سوا دو صدیوں پر محیط اس تاریخ کو ہم چارحصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:

  • پہلا حصہ: ہندوستان دارالحرب بننے سے مغل سلطنت کے خاتمے تک، یہ قریباً پچاس سالہ مدت ہے۔

  • دوسرا حصہ: مغل سلطنت کے اختتام سے آزادیٔ ہند اور قیام پاکستان تک، یہ قریباً ایک صدی پر محیط عرصہ ہے۔

  • تیسرا حصہ: آزادیٔ ہند اور قیام پاکستان سے لے کر تقسیم پاکستان اور قیام بنگلہ دیش تک، جو لگ بھگ تئیس چوبیس برس پر محیط ایک مختصر مدت ہے۔

  • چوتھا حصہ: تقسیم پاکستان اور قیام بنگلہ دیش سے لے کر اب تک، یہ قریباً پچاس سال کا عرصہ ہے۔

پہلا حصہ: فتویٰ دارالحرب سے مغل سلطنت کے خاتمے تک
(۱۸۰۸ء تا ۱۸۵۷ء)

انیسویں صدی کا آغاز، جب ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتویٰ دیا گیا، یہ وہ دور تھا کہ جب مسلمانوں کا وجود تو تھا لیکن ان کے پاس طاقت نہ تھی، تختِ سلطانی مسلمانوں کے پاس تھا مگر سلطانی نہ تھی۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کے فتوے کی حتمی تاریخ بتانا تو مشکل ہے البتہ تاریخ دان ۱۸۰۸ء سے ۱۸۱۲ء کے دوران اس کی تاریخ بتاتے ہیں۔ مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’۱۸۰۳ء میں جب کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے نمائندے نے شاہ ِدہلی سے ملکی انتظام کا پروانہ جابرانہ طریقے سے لکھوا کر ملک میں اعلان کردیا کہ خلق(مخلوق) خدا کی، ملک بادشاہ سلامت کا اور حکم کمپنی بہادر کا، تو شاہ عبدالعزیزؒ نے ہندوستان کے دارالحرب ہوجانے کا فتویٰ جاری فرمایا اور مسلمانوں کو آزادیٔ ہند کے لیے آمادہ کرنا ضروری سمجھا (مذکورہ مفصل فتویٰ فتاوی عزیزیہ صفحہ ۱۷ پر موجود ہے)۔ واقعات نے بتلا دیا تھا کہ ہندوستان کے موجودہ حکام و امراء میں سے اب کسی میں طاقت اس بدیسی غیر مسلم قوم کے مقابلے اور دفع کرنے کی ایسی نہیں رہی جس پر اطمینان کیا جائے۔ لہٰذا مسلمانوں کے لیے احوال پر غور کرنا اور آزادی کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا از بس ضروری ہے جو کہ ہر دارالحرب کے باشندے پر لازم ہے۔ چنانچہ اس کے بعد سے جدوجہد شروع ہوئی ۔‘‘ (نقش حیات ص ۴۱۰، ۴۱۱)

مذکورہ فتوے کے اجراء کے قریباً پچاس سال بعد ہندوستان میں مغل حکومت کا خاتمہ ہوا اور ۱۸۵۷ء میں مغل سلطنت کے آخری فرمانروا سلطان بہادر شاہ ظفرکی جلاوطنی کے ساتھ ہندوستان سے بادشاہت کا جنازہ نکلا۔ ان پچاس برس کے دوران تخت سلطانی مسلمانوں کے ہاتھ میں رہا، دہلی کا لال قلعہ بھی مسلمانوں کے ہاتھ میں رہا لیکن ہندوستان پھر بھی دارالحرب تھا، مغل سلطنت کے باوجود ہندوستان دارالحرب تھا، صدیوں سے مسلمانوں کے ہاتھوں میں سلطنت رہنے کے باوجود دارالحرب بن گیا!!!

ناقابل ذكر اختلافات؍كچھ الحاد كچھ زلات

اس موقع پر قارئین کی توجہ ایک بات کی جانب دلانا چاہتا ہوں، بات یہ ہے کہ اس عرصہ میں ہندوستان کے دارالحرب ہونے کے بارے میں بعض نے اختلاف بھی کیا۔ اسی طرح مغل سلطنت کے بعد کے دور میں جب حکومت صد فی صد کفار کے ہاتھ میں تھی، اس وقت بھی بعض لوگوں نے، قادیانیوں اور ان جیسے کچھ دیگر فرقوں نے بھی اس مسئلہ میں اختلاف کیا اور کرتے رہے، دنیا میں کون سا ایسا مسئلہ ہےجس میں کسی کو اختلاف نہ ہو! غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اختلاف کرنے والے نے دلیل کی رو سے اختلاف کیا ، اپنی عصبیت اور نفاق اور الحاد کی بنا پر یا کسی شبہہ کی بنیاد پر۔ اگر کسی شبہہ کی بنیاد پر اختلاف کیا تو وہ معذور ہے اور اگر نفاق اور الحاد کی بنا پر اختلاف کیا تو وہ ملعون ہے، قابل ملامت ہے۔

ہندوستان کے حق پرست علمائے کرام اس پر متفق تھے کہ انیسویں صدی کے آغاز میں برصغیر پاک و ہند دارالحرب بن گیا تھا۔ کتاب و سنت کی رو سے یہی فیصلہ درست تھا۔ پھر بھی نفاق، الحاد اور زندقہ کی گرفت میں پھنسے لوگ اس کے دارالاسلام ہونے کا واویلا کرتے تھے اور انگریز سرکار کی جانب سے ان کو ایسا امن اور راحت میسر تھی جو اسلامی سلطنت کے دور میں بھی ان کو کبھی نہ ملی تھی۔ ان لوگوں کی نظر میں انگریز کے خلاف جہاد کرنا فساد اور فتنہ تھا اور کفار کی اطاعت ان کے نزدیک واجب تھی۔ ان ملحدین اور زنادقہ کی سوچ و فکر اور ان کے اقوال کی جانب توجہ کرنے کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی گنجائش۔البتہ اہل حق علمائے کرام میں سے بھی بعض کے قلم کی نوک سے کچھ ایسی باتیں نکل گئیں جو دلیل کی رو سے غلط اور علمائے وقت کے اجماع کے خلاف تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے ہندوستان کے دارالحرب بن جانے کا جو فتویٰ جاری فرمایا اسی پر ہندوستان کے حق پرست علماء عمل پیرا ہوئے اور ہندوستان پر متسلط کفار کے خلاف جہاد شروع کیا اور اپنی محدود طاقت و وسائل کے باوجود انگریز کے خلاف جہاد کرتے رہے، قربانیاں دیتے رہے، اللہ کے راستے میں شہید ہوتے رہے، اللہ کے دشمنوں کو مارتے رہے اور اپنا فرض ادا کرتے رہے۔

ادائے فرض کا ایک قابلِ اقتداء نمونہ

دارالاسلام، جو غیر اسلامی تسلط کی وجہ سے دارالحرب بن گیا تھا، کو دوبارہ حاصل کرنے اور غیر اسلامی اقتدار ہٹانے کے لیے اللہ کے راستے میں جہاد کا جو تسلسل شروع ہوا تھا، معرکۂ بالاکوٹ اسی کی ایک ناقابل فراموش کڑی ہے۔ رائے بریلی کے سید خاندان کے یکتائے روزگار مرشد کامل، مجاہد ملت سیّد احمد بریلوی شہیدؒ کی امارت اور ان کے بے مثال سپہ سالار مولانا اسماعیل شہیدؒ کی قیادت میں متسلط قوت کے خلاف جہاد کا سلسلہ شروع ہوا۔

سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ ہی کے دربار کے پروردہ ہیں۔ آپ اگر تاریخ کے صفحات پر نگاہ دوڑائیں تو آپ دیکھیں گے کہ ہمارے اسلاف کے مراکز علمی سے جس طرح تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری و ساری رہا اسی طرح وقت کی دیگر شرعی ذمہ داریاں بھی یہی مراکز انجام دیتے رہے۔ چنانچہ اسی مرکز علمی سے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتویٰ جاری کیا گیا، اسی مرکز علمی سے جہاد کا آغاز ہوا اور انہی مراکز علمی سے نکلنے والے علم وعمل کے شہ سوار اسلامی حکومت دوبارہ قائم کرنے اور متسلط قوتوں کو ہٹانے کے لیے آخری دم تک لڑتے رہے یہاں تک کہ اس راستے میں اپنے گلے کٹوا دیے۔

مختصراً اس وقت حالات یہ تھے کہ ہندوستان کو دارالحرب قرار دیا جا چکا تھا، ملک کے حکمران مسلمان تھے، تسلط کفار کا تھا، آئینی ادارے کفار کے قوانین کے ماتحت چلتے تھے، متسلط قوت دنیا کی سب سے بڑی مسلح فوج کی مالک تھی، عام مسلمانوں میں جہالت و گمراہی وبا کی طرح پھیلی ہوئی تھی، نفاق و الحاد کا جال بچھا ہوا تھا، ہر قسم کی سازشوں کے پھندے گھیرے ہوئے تھے، دین کے تمام جلی و قطعی شعبوں کو مشکوک اور مختلف فیہ بنانے کا منصوبہ پختہ ہوچکا تھا، اسلام کے دشمن کفار محاربین کی بہبود اور ان کے قدم چومنے کے لیے ایمان فروشوں کی ایک بڑی جماعت اپنے ایمان کا سودا کرچکی تھی، علمائے سوء اور الَّذِينَ هَادُواْ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ (دینی نصوص میں معنوی تحریف کرنے والوں) کی ایک بڑی تعداد تحریف اور تاویل کا بازار گرم کیے ہوئے تھی، جہادی جدوجہد کے خلاف پروپیگنڈہ جاری تھا، ملکی اور غیر ملکی دشمنوں کی تعداد اور قوت کا اندازہ لگانا بھی مشکل تھا جبکہ دوسری جانب مجاہدین تھے، دونوں فریقوں کی تعداد اور قوت میں سرے سے کوئی تناسب نہ تھا۔ محض ایک معرکۂ بالاکوٹ پر نگاہ ڈالیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ مسلمان مجاہدین کی تعداد سات سو جبکہ دشمن کی تعداد دس ہزار تھی۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو اسلام اور کفر کے مابین معرکوں میں فریقین کا عددی تناسب کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا، مگر مسلمان جب بھی اپنے رب کے بھروسے اور ایمانی طاقت کے بل پر لڑا، وہ کامیاب ہوا۔

بانیان دارالعلوم دیوبند کا اقدام

متسلط انگریز کے خلاف ہمارے اکابر و اسلاف جہاد کے لیے جتنے میدانوں میں بھی اترے ان میں سے ہر ایک کا یہی حال تھا مگر پھر بھی انہوں نے اپنی شرعی ذمہ داری سے روگردانی نہ کی۔ میدان بالاکوٹ کی جو تصویر آپ کے سامنے پیش کی، اس کے تقریباً پچیس برس بعد شاملی کے میدا ن میں بھی عین وہی منظر نظر آتا ہے۔

ہمارے اکابر علمائے دیوبند، جن کو صف اول کے اکابر سمجھا جاتا ہے، مختصر سامان جہاد کے ساتھ مخالف مسلح فوج کی ان گنت تعداد کے خلاف میدان میں اتر گئے کیونکہ مسئلہ دفاع کا تھا۔حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کی امارت، قاسم نانوتویؒ کی سپہ سالاری، رشید احمد گنگوہیؒ بطور قاضی اور دیگر کئی علمائے کرام کی شرکت کے باعث یہ معرکۂ جہاد بپا ہوسکا۔

۱۸۵۷ء میں جب علمائے ہند نے دہلی کی جامع مسجد میں غاصب انگریز کے خلاف جہاد کا متفقہ فتویٰ صادر فرمایا تو اس فتوے پر غور کرنے کے لیے تھانہ بھون میں علماء کی مجلس شوریٰ طلب کی گئی۔ موضوع بحث وہی تھا کہ موجودہ حالات میں ہم ظالم و جابر انگریز سے ٹکر لے سکتے ہیں یا نہیں،اور اس وقت جہاد کا شرعی حکم کیا ہے۔ اجلاس میں شوری نے متفقہ طور پر دہلی کے علماء کے فتویٔ جہاد کی توثیق و تصدیق وتائید کی۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا رشيد احمد گنگوہی رحمہم اللہ تعالیٰ سب موجود تھے،صرف ایک بزرگ حضرت مولانا شیخ محمد تھانویؒ کی رائے مخالف رہی، اس اجلاس کا ایک دل چسپ مکالمہ ملاحظہ فرمائیں:

حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نے حضرت شیخ محمد صاحب سے خطاب کرتے ہوئے نہایت ادب کے ساتھ عرض کیا: حضرت!کیا وجہ ہے کہ آپ ان دشمنان دین و وطن کے خلاف جہاد کو فرض بلکہ جا‏‎ئز بھی نہیں فرماتے؟

حضرت مولانا شیخ محمد صاحب : اس لیے کہ ہمارے پاس اسلحہ اور آلات جہاد نہیں ہیں،ہم بالکل بے سروسامان ہیں۔

حضرت مولانا محمد قاسم صاحب:کیا اتنا بھی سامان نہیں ہے جتنا سامان غزوۂ بدر میں تھا؟

حضرت مولانا شیخ محمد صاحب:اگر آپ کی تمام حجتیں اور باتیں مان لی جا‏‏ئیں تو سب سے بڑی شرط جہاد میں نصب امام کی ہے۔امام کہاں ہے کہ اس کی قیادت میں جہاد کیا جائے؟

حضرت مولانا محمد قاسم صاحب:نصب امام میں کیا دیر لگتی ہے،مرشد بر حق حضرت حاجی صاحب موجود ہیں،انہی کے ہاتھ پر بیعت جہاد کی جائے۔

حضرت حافظ ضامن صاحب نے فرمایا:مولانا بس سمجھ میں آگیا،پھر سب نے حضرت حاجی صاحب کے دست حق پربیعت جہاد کی۔(نقش حيات از مولانا حسین احمد مدنیؒ، ص:۵۵۱،۵۵۲)

جہاں ایک طرف یہ واقعہ تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے وہیں دوسری طرف ہمارے متنازع فیہ مسئلہ کا ایک مدلل اور کافی شافی جواب بھی ہے۔

نزہۃ الخواطر پر ايك نظر

علامہ عبدالحئی ؒ اپنی مشہور کتاب نزہۃ الخواطر میں لکھتے ہیں:

وثار المسلمون وأهل البلاد على الحكومة الإنجليزية سنة أربع وسبعين ومائتين وألف، وقامت جماعة من العلماء والصلحاء وأهل الغيرة من المسلمين في سهارنبور ومظفر نكر فأعلنوا الحرب على الإنكليز واختاروا الشيخ إمداد الله أميراً لهم، واشتبك الفريقان في ميدان شاملي قرية من أعمال مظفر نكر فقتل حافظ محمد ضامن شهيداً، وانقلبت الدائرة على المسلمين ورسخت أقدام الإنكليز.

واشتد بطشهم بكل من اتهم بالمشاركة في هذه الثورة، وضاقت على العلماء العاملين الغيارى الأرض، وضاق مجال العمل في الهند، وقضى بعض الرفقة مدة في الاختفاء والانزواء، ولجأ بعضهم إلى الهجرة ومغادرة البلاد، وآثر الشيخ إمداد الله الهجرة إلى مكة المكرمة، ودخل مكة سنة ست وسبعين ومائتين وألف وألقى رحله بالبلد الأمين، وكان أول إقامته على الصفا ثم انتقل إلى حارة الباب حيث قضى حياته ولقي ربه. نزهة الخوطر لعبد الحي الحسني المتوفى سنة 1341هـ، ص: 1194، دار ابن حزم بيروت، الطبعة الأولى 1420هـ 1999عـ

’’مسلمانان ہند نے ۱۲۷۴ہجری ميں انگريز حكومت كے خلاف بغاوت كی اور علماء و صلحاء اور غيرت مند مسلمانوں كی ايك جماعت سہارن پور اور مظفرنگر ميں جمع ہوئے اور انگريز كے خلاف جہاد كا اعلان كيا اور حاجی امداد الله مہاجر مكی صاحب كو اپنا امير بنايا۔ ضلع مظفرنگر كی ايك آبادی شاملی كے ميدان ميں فریقین كے درميان مقابلہ ہوا اس ميں حافظ ضامن صاحب نے شہادت پائی، مسلمانوں كی حالت کمزور ہوگئی، انگريزوں كے قدم راسخ ہو گئے۔

ان لوگوں کے خلاف انگریز کی گرفت سخت ہوتی گئی جنہوں نے اس انقلاب میں شرکت کی۔ جہاد کے کام کرنے والے غیرت مند علماء پر زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوگئی اور ہندوستان میں کام کا میدان تنگ ہونے لگا۔ بعض لوگ کچھ عرصے کے لیے روپوش ہوگئے اور بعض نے ہجرت کی راہ اختیار کی۔ حاجی امداد اللہ نے مکہ مکرمہ کی جانب ہجرت کو ترجیح دی۔ آپ ۱۲۷۶ہجری میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور بلدِ امین میں مقیم ہوگئے۔ آپ پہلے صفا پر اقامت پذیر ہوئے اس کے بعد حارۃ الباب میں منتقل ہوگئے اور وہاں رہتے ہوئے اپنے رب سے جاملے۔‘‘(نزہۃ الخواطر ص ۱۱۹۴)

خلاصہ

ہندوستان کی گزشتہ دو سوا دو صدیوں پر محیط تاریخ کا جو مختصر جائزہ ہم پیش کررہے ہیں اس کے پہلے حصے کے مطالعے سے جو باتیں سامنے آتی ہیں وہ درج ذیل ہیں:

اول: شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کے فتویٔ دارالحرب کے اجراء سے لے کر مغل سلطنت کے خاتمے تک ہندوستان مسلسل دارالحرب ہی رہا۔ اس عرصہ میں یہ کبھی دوبارہ دارالاسلام نہ بن سکا۔

دوم: تقریباً پچاس سالہ اس مدت میں ہندوستان کے تخت سلطنت پر مسلمان رونق افروز رہے اس کے باوجود یہ دارالحرب ہی رہا۔ اکابر علمائے ہند اسے دارالحرب ہی سمجھتے تھے۔

سوم: اس پچاس سالہ مدت میں متسلط کفار کے خلاف مسلمانان ہند علمائے کرام کی قیادت میں لڑتے رہے، جہاد کرتے رہے۔

چہارم: بانیان دارالعلوم دیوبند نے ان جہادی معرکوں کے ایک بڑے حصہ کی قیادت کی ذمہ داری ادا کی اور تعلیم و تعلم سے متعلق جملہ امور کی انجام دہی کے دوران بھی ان کے اندر انگریز کے خلاف جہاد کی فکر مسلسل دکھائی دیتی رہی۔

پنجم: اپنے سے کئی گنا بڑی، باقاعدہ اور مسلح فوجی قوت کے خلاف وہ انتہائی کم قوت اور تیاری کے باوجود میدان میں اترے۔ سامان کی قلت، افرادی قوت کی کمی اور بعض علماء کا اختلاف بھی ان کو ان کے فرائض منصبی کی ادائیگی سے نہ روک سکا کہ ان کے نزدیک ادائے فرض نہایت اہم تھا۔

ششم: ظاہری ناکامی کے بعد بھی جہاد کی فکر کو انہوں ے ذہنوں سے نہیں نکالا بلکہ اسی فکر کی خاطر وہ روپوش ہوئے، اسی جہاد کو جاری رکھنے کے لیے انہوں نے ہجرتیں کیں، جلاوطن ہوئے، سزائیں قبول کیں، شہادت سے ہمکنار ہوئے مگر کسی حالت میں بھی کفار سے سمجھوتہ نہیں کیا۔

ہندوستان اب تک دارالحرب ہے، دارالاسلام بننے کی کوئی علت تاحال سامنے نہیں آئی۔

دوسرا حصہ: مغل سلطنت کے خاتمے سے
آزادیٔ ہند اور قیام پاکستان تک (۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ءتک)

اب ہندوستان سےمغل سلطنت کا خاتمہ ہوچکا تھا، نام ہی کی سہی جو سلطنت باقی تھی اب وہ بھی نہ رہی۔ ۱۸۵۷ء میں عام خونریزی اور جلاوطنیوں کے بعد انگریز مطمئن ہوگئے کہ ان کے مقابلے میں اب ایسی کوئی طاقت باقی نہیں رہی جو ان کے اقدام کو روک سکتی ہے۔ مغل سلطنت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کرکے رنگون جلاوطن کردیا، مسلمانوں کے قائدین اور مجاہدین میں کسی کو پھانسی پر لٹکایا اور کسی کو جلاوطنی کی سزا دی، اس طرح انگریز نے اپنے خلاف بغاوت کی تمام ممکنہ جڑیں اکھیڑ دیں۔

اب تک تو انگریز ایک کمپنی کے عنوان کے تحت اپنی ساری کارروائیاں جاری رکھے ہوئے تھا، لیکن ۱۸۵۷ء کی غارت گری کے بعد انگریز اپنے آپ کو کامیاب سمجھنے لگا، اس موقع پر ہندوستان کی حکومت ایسٹ انڈیا کمپنی کے سے براہ راست برطانوی راج کو منتقل ہوگئی۔ ۱۸۵۸ء میں ملکہ وکٹوریا نے ہندوستان کی حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی اور تبھی ہندوستان سرکاری طور پر برطانوی راج کے ماتحت منتقل ہوگیا۔تقریباً سو برس تک برطانوی راج ہندوستان پر مسلط رہا۔ اس تسلط نے دارالحرب کی حیثیت کو درجۂ متوسطہ سے درجۂ ممتاز تک ترقی دی۔ سرکار برطانیہ نے ایک دارالحرب اور دارالکفر کی حیثیت سے ہندوستان میں کفر ہی کو ترویج دی اور مسلمانوں کے ایمان و عقائد، اعمال و افکار، تعلیم و تربیت کے تمام اجزاء مٹانے کے لیے عملی اقدامات کیے اور جن مراکز علمی سے اسلام اور اسلامیت کی تعلیم اور پرچار ہوتا تھا ان سب کو بے اثر اور بے فائدہ بنانے کی کوشش جاری رکھی۔

اب ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ مسلمان قائدین اور مجاہدین اس تمام عرصہ میں کیا کرتے رہےاور اس صد سالہ عرصہ میں ان کی کیاسرگرمیاں رہیں۔ ہم تاریخ کے صرف انہی حصوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے موضوع سے متعلق ہیں۔وباللہ التوفیق۔

رہبران امت کی سرگرمیاں

دہلی کے علماء و مشائخ: دہلی کے ولی اللّٰہی خاندان کا جو عَلم شاہ اسحاقؒ کے ہاتھ میں تھا وہ ان کے شاگردوں کے ذریعے برابر بلند رہا۔ ان میں شاہ عبدالغنی مجددی، مولانا مملوک علی نانوتوی، میاں نذیر حسین دہلوی اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہم اللہ کے نام سرفہرست ہیں۔

اکابر دیوبند: ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد حاجی امداد اللہ صاحب نے مکہ مکرمہ کا رخ فرمایا اور غیر معمولی مشکلات اور پریشانیاں برداشت کرکے مکہ معظمہ میں بیٹھ کر ہی آخر تک ہندوستانی تحریک کی قیادت کرتے رہے۔ (علمائے ہند کا شاندار ماضی؛ جلد ۴، ص ۲۸۶)

ان کے علاوہ مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا یعقوب نانوتوی رحمہم اللہ اور ان کے ہم عصر و ہم خیال علمائے کرام اپنی اپنی طاقت اور بساط کے مطابق خلافتِ اسلامیہ کی اقامت اور بقا کے لیے کوششیں کرتے رہے۔

یہ ہیں وہ حضرات جن کے ساتھ ہمارا علمی سلسلہ ملتا ہے اور جن کی جدوجہد اور قربانیوں کے صلے میں ہم علم، عمل اور جہاد کے میدانوں سے وابستہ ہوئے۔ان کے علاوہ ہندوستان کے مختلف خطوں میں مختلف مکاتبِ فکر کے مسلمان آزادیٔ ہند اور ہندوستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے لیے کوششیں کرتے رہے ہیں، ان حضرات کی فہرست بہت طویل ہے اور اس کا احاطہ ممکن نہیں۔

دیگر مجاہدین ملت: سیّد احمد شہید بریلوی کا قافلہ مختلف شعبوں میں تقسیم ہو کر میدان جہاد میں اپنا کردار ادا کرتا رہا۔ مولانا ولایت علی اور مولانا عنایت علی کے متبعین میں سے علمائے صادق پور نے اپنے علاقوں میں یہ کوشش جاری رکھی، مولانا کرامت علی جون پوری کے متبعین اپنے علاقے میں جدوجہد کرتے رہے، میر نثار الدین تیتومیر کے متبعین اپنے حوصلہ و عزم کے مطابق لڑتے رہے، حاجی شریعت اللہ کے جانشین حضرات اپنی استطاعت کی حد تک اسلامی شریعت کے قیام کو کوششوں میں حصہ ڈالتے رہے، غرض جس کے پاس جو کچھ اسباب و وسائل موجود تھے وہ انہی کو بروئے کار لا کر دشمن کی سرکوبی کے لیے کام کرتے رہے۔

ايك نا قابل انكار حقيقت

یہاں ہمیں ایک حقیقت کو قبول کرنا ہوگا کہ ۱۸۵۷ء کے واقعات کے بعد ایک طویل مدت تک پورے ہندوستان پر سناٹا سا چھایا رہا۔ جو قافلے اب تک سرگرم تھے اب وہ سابق سرگرمی کے ساتھ منظر عام پر نظر نہیں آرہے تھے، دشمن اسلام انگریز مسلمانوں کی جانب سے حملوں کے تھم جانے کے سبب کچھ مطمئن سا ہوچلا تھا، جن خطرات کا انہیں روزمرہ زندگی میں سامنا تھا وہ اب قریباً مٹ چکے تھے۔

لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمان مجاہدین اپنی ذمہ داری بھول بیٹھے تھے کیونکہ بعد کی تاریخ بتاتی ہے کہ کفار کے خلاف بغاوت کی جو چنگاری ان کے سینوں میں دبی ہوئی تھی وہ بجھی نہیں تھی بلکہ حالات کے سنبھلنے تک دبا دی گئی تھی۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ مجاہدین اسلام اس دور میں بے کار بیٹھے تھے، بلکہ وقت کے تقاضے اور ضرورت کے مطابق جو اور جیسی تیاری وہ کرسکتے تھے، کررہے تھے، بس انہوں نے صرف اپنا طور طریقہ بدل لیا تھا۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس دور میں مجاہدین کا عسکری طورپر خاموشی اختیار کرنا بے سبب نہ تھا اور اس کے لیے انہیں مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ ہاں البتہ اگر عوام کی بھرپور مدد اور حمایت ان کے ساتھ ہوتی اور دیگر مسلم ممالک بھی ہندوستان کو غلامی کے اس دور سے نکلنے میں مدد دیتے تو شاید تاریخ کا چہرہ کچھ اور ہوتا۔

اس موقع پر ایک اور بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ عام مسلمانوں کا دروس ہائے حدیث میں مشغول ہوجانا ایک مستقل دینی خدمت تو ہے لیکن جہاد نہیں، اگر وہ دعوت و تبلیغ کا کام شروع کردیں تو وہ بھی دینی ضرورت ہے لیکن جہاد نہیں۔ کسی نے اگر اصلاح نفس کی سرگرمیوں میں حصہ ڈالنا شروع کر دیا تو یہ بھی ایک مطلوب دینی امر تو ہے مگر جہاد نہیں ہے، جیسے یہ تمام شعبے جہاد نہیں ہیں ویسے یہ شعبے اپنی عام حالت میں جہاد کی تیاری میں بھی شامل نہیں ہوتے لہٰذا یہ آیت کریمہ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ کا مصداق بھی نہیں ہیں ۔ مگر ہندوستان کے خاص اس دور کے تناظر میں بعد کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ان مجاہدین کی دروس ہائے حدیث میں مشغولیت اوردعوت و تبلیغ اور اصلاح و تزکیہ کی کوشش دراصل جہاد کے لیے راستے تلاش کرنے کی خاطر ہی تھی، وہ بظاہر ایسی سرگرمیوں میں خود کو مشغول ظاہر کرنا چاہتے تھے جو براہ راست برطانوی راج کو چیلنج نہ کرتی تھیں، بعد ازاں اسی تعلیم و تعلم اور دعوت و تبلیغ کے نتیجہ میں دو تین عشروں کے بعد ایسے کارنامے رونما ہوئے دو تین برسوں کی کوشش سے جن کا بپا ہونا ممکن نہ تھا۔

اکابر علمائے کرام نے علاوہ از جہاد جن عنوانات کے تحت امارت اسلامیہ کے قیام کی خاطر جو کارنامے انجام دیے اور اس راہ میں جو کوششیں کیں ان کا مختصر جائزہ ہم پیش کرنے کی کوشش کریں گے، ان شاء اللہ۔

جہاد شاملی کے بعد

شاملی کے جہاد اور مغل سلطنت کے خاتمہ کے قریباً نو برس بعد میدان شاملی کے کامیاب مجاہد مولانا قاسم نانوتویؒ نے ۱۸۶۶ء میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی۔ دارالعلوم میں دیگر علوم کے علاوہ تدریس حدیث کو بہت اہمیت حاصل تھی۔اس مدرسہ کے پہلے طالب علم محمود حسن ہیں جو بعد میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کے نام سے مشہور ہوئے۔

شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی

شیخ الہندؒ نے جہاد اور اقامت خلافت کی راہ میں جو کارنامے سرانجام دیے ان کا فکری سرچشمہ آپ میدان شاملی کے مجاہدین کو قرار دے سکتے ہیں۔ شیخ الہندؒ نے علمی بصیرت، فکری پختگی اور جذبۂ جہاد براہ راست ان حضرات سے لیا جنہوں نے اپنی تمام طاقت و قوت میدانِ شاملی میں اللہ کے راستے میں پیش کردی تھی۔ حضرت حاجی صاحب (م ۱۸۹۹ء)، مولانا گنگوہی (م ۱۹۰۵ء) اور مولانا قاسم نانوتوی (م۱۸۸۰ء) رحمہم اللہ، ہر تین حضرات سے مختلف علوم دین سیکھنے کا موقع حضرت شیخ الہند کو ملا جس کی وجہ سے ان کی فکر اور طریق کار میں وہ شبہات اور اشتباہات داخل نہ ہوسکے جو جمہوریت کے فساد اور وطنیت اور عصبیت کی بلا کے ذریعے بعد کے سیاسی افکار میں داخل ہوئے۔

حضرت شیخ الہند نے ۱۸۶۶ء سے ۱۹۰۵ء تک لگ بھگ چالیس سال کی طویل مدت تک ان صالح صحبتوں سےفیض اٹھایا جن کی تشکیل ٹھوس اسلامی خلافت کے قیام کے واحد طریق کار، جہاد اور قتال فی سبیل اللہ کی فکر سے ہوئی تھی، جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے طریقِ کار کے مطابق ڈھلی ہوئی تھیں، یہی وجہ ہے کہ ان شخصیات نے غاصب انگریز جیسی بڑی قوت کے خلاف لڑنے میں کوئی تأمل نہ کیا اور بے سروسامانی کی حالت میں بھی اپنے فرض سے غفلت گوارا نہ کی۔

ان صحبتوں کی برکت سے شیخ الہندؒ نے دروس ہائے حدیث، تزکیہ کی خانقاہوں اور دعوت و تبلیغ کے نام سے ۱۸۵۷ء کے بعد کی مدت میں، جسے ہم نے سکتہ کی مدت قرار دیا، اور جو دراصل سکتہ کی مدت نہ تھی بلکہ اس دور میں خفیہ طور پر گوریلا طریق کار سے اقامت خلافت اور جہاد کی تیاری کی جارہی تھی، اپنا فرض انجام دیا۔

شيخ الہند كا طريق كار

بظاہر سکتہ کی ایک طویل مدت کے بعد حضرت شیخ الہندؒ کا ظہور ہوا۔ اپنے اکابر کی قربانیوں کے ثمرات حاصل کرنے کے لیے انہوں نے بنیادی طور پر تین سمت پیش رفت کی۔ پہلا ہندوستان کے مسلمانوں کو کفار کے خلاف لڑنے کے لیے تیار کرنا، دوسرا اپنی روحانی اولاد یعنی اپنے شاگردوں میں دین کی اصل روح پھونکنا اور ان کو ان کی ذمہ داریوں اور فرائض سے آگاہ کرنا اور تیسرا دنیا کے تمام مسلم ممالک کو ایک محاذ پر اکٹھا کرکے خلافت عثمانیہ کی اعانت اور کفار کے خلاف جہاد پر آمادہ کرنا۔ گویا یہی وہ میراث تھی جو آپ کو اپنے اکابر سے ملی اور یہی وہ چنگاری تھی جس سے آپ نے جہاد کی شمع جلانی تھی۔

شیخ الہند نے اپنے تینوں منصوبوں میں سے اول الذکر کے لیے آزادیٔ ہند اور دوسرے کے لیے جمیعت الانصار کے عنوان کے تحت کام شروع کیا جب کہ تیسرے منصوبے کے لیے بیرونی ممالک کے سفر کیے۔ ان تینوں منصوبوں کا اجمالی خاکہ مختصراً ملاحظہ فرمائیے۔

نزہۃ الخواطر كا بيان

شیخ الہند کے ان تینوں منصوبوں کا ایک اجمالی خاکہ آپ کو نزہۃ الخواطر کی اس جامع عبارت میں ملے گا:

وكان قد وضع خطة لتحرير الهند من حكم الإنجليز، كان يريد أن يستعين فيها بالحكومة الأفغانية والخلافة العثمانية، وهيأ لها جماعة من تلاميذه وممن يثق بهم من أصحابه، وكان في مقدمتهم المولوي عبيد الله السندي، وأرسله إلى أفغانستان، وكان الاتصال بينه وبين تلاميذه وأصحابه في الحدود الشمالية وفي أفغانستان، ولما تم لهم بعض ذلك ومهدوا الأرض للثورة واشتدت عليه الرقابة في الهند سافر إلى الحجاز سنة ثلاث وثلاثين وثلاثمائة وألف، وأقام بمكة وقابل غالب باشا الوالي التركي سراً، ثم سافر إلى المدينة المنورة وقابل أنور باشا وزير الحربية وجمال باشا القائد العام للجيش العثماني الرابع حين زار المدينة المنورة، وفاوضهما في طرق إعانة المسلمين في الهند ونفي الإنجليز منه، وأخذ منهما رسالة سرية إلى الشعب الهندي، والوعد بتأييد القضية الهندية، وحمل أهل الهند على مساعدة الشيخ محمود حسن والاعتماد عليه، وأخذت صور هذه الوثيقة، وقرر تسريبها إلى الهند وأفغانستان بطريقة سرية، واشتهرت فيها بعد بالرسائل الحريرية (ريشمي رومال–قاسمي) وصلت إلى الهند، وأراد الشيخ محمود حسن أن يصل إلى الحدود الشمالية الحرة بين أفغانستان والهند عن طريق إيران فسافر إلى الطائف، ورجع إلى مكة وأقام بها مدة، ودرس في صحيح البخاري وحج، وكان ذلك سنة أربع وثلاثين وثلاثمائة وألف.

واكتشفت الحكومة الإنجليزية المؤامرة، وعرفت قضية الرسائل الحريرية، فصرفت عنايتها إلى القبض على زعيم هذه الحركة وقطب رحاها (شيخ الهند محمود حسن–قاسمي)، وكان الشريف حسين أمير مكة قد خرج عن الدولة المتبوعة العثمانية، وثار عليها بتحريض الدولة الإنجليزية فأوعزت إلى الشريف بإلقاء القبض عليه وتسليمه إلى الحكومة الإنجليزية، فألقي القبض عليه في صفر سنة خمس وثلاثين وثلاثمائة وألف، ومعه المولوي حسين أحمد الفيض آبادي والحكيم نصرت حسين الكوروي والمولوي عزيز گل والمولوي وحيد أحمد، وسفر هؤلاء في الثامن عشر من ربيع الأول سنة خمس وثلاثين وثلاثمائة وألف إلى مصر ومنها إلى مالطه حيث وصلوا سلخ ربيع الآخر سنة خمس وثلاثين وثلاثمائة وألف.

نزهة الخواطر لعبد الحي الحسني المتوفى سنة 1341هـ، ص: 1378، دار ابن حزم بيروت، الطبعة الأولى 1420هـ 1999عـ

نزہۃ الخواطر کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے پہلے ہندوستانی مسلمانوں کے دل میں متسلط کفار کے خلاف جذبۂ جہاد بیدار کرنے کی کوشش کی پھر اس کو ایک خاص ترتیب میں لا کر اصل مقصد کو نبوی طریقہ اور ماثور طریقہ پر وجود میں لانے کے لیے مجاہدین کی تشکیل کی، افغانستان اور سرحدی علاقوں سے اپنے شاگردوں اور محبین کے ذریعہ یہ کام آگے بڑھانے کی کوشش کی، کفار کے خلاف انہوں نے ان دونوں محاذوں كو ايك حد تك تيار كرنے كے بعد بيرون ممالك كا سفر شروع كيا اور اس سلسلہ میں عالم اسلام كے زعماء اور قائدين سے رابطہ قائم كرنے كی كوشش كی، خاص طور پر خلافت عثمانیہ ترکیہ جو اس وقت دنيا كی سب سے بڑی اسلامی حكومت اور دار الاسلام تھی، اس كے ذمہ دار حضرات سے رابطہ كرنے كے لیے خاص طور پر كوشش كی اور ايك معتدبہ حد تك آپ اپنی كوششوں ميں كامياب بھی ہوئے، عثمانی خلافت كے بااثر ذمہ دارں سے آپ نے ملاقات كی، سارے حالات پيش كیے، اپنے منصوبے اور فكر و ترتيب كا خاکہ پيش كيا، دونوں طرف سے متحده طور پر كام كرنے كا فیصلہ ہوا، مسلمانوں كے اس عالمی مسئلہ كو حل كرنے كے لیے اور اس فریضۂ منصبی کی ادائیگی کے لیے عالمی سطح پر اور عالمی محاذ پر کام شروع ہوا،جس کی تفصيل آپ كو سوانح شيخ الہند کے موضوع پرلکھی گئی كتابوں میں ملے گی نیز مولانا حسین احمد مدنی کی کتاب نقش حیات میں بھی اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے ۔

غدار اور منافقین ہر جگہ ہوتے ہیں

نزہۃ الخواطر کی عبارت سے آپ کو یہ بھی معلوم ہوگیا کہ غداروں کی غداری کی وجہ سے یہ سارے منصوبے انگریز کے ہاتھ لگ گئے اور اس عالمی فکر کے روحِ رواں شیخ الہند کو گرفتار کرنے کے لیے انگریز نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ غداروں نے کفار کی پوری پوری مدد کی۔ امیر مکہ شریف حسین نے انگریز کے اشارے پر شیخ الہندؒ کو گرفتار کرکے انگریز کے حوالے کردیا جنہوں نے انہیں طویل مدت تک جزائر مالٹا میں قید رکھا۔

بات مختصر کرنا چاہتا ہوں لیکن موضوع کچھ ایسا ہے کہ کچھ باتیں کیے بغیر حالات کی صورت واضح کرنا ذرا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ مالٹا میں شیخ الہند کے ساتھ دیگر علمائے کرام بھی اسارت کی زندگی گزار رہے تھے، ان علماء میں سرفہرست مولانا حسین احمد مدنی ہیں جو اپنے شیخ کے ساتھ مالٹا میں اسیر رہے۔

۱۹۱۷ء سے ۱۹۲۰ء کے دوران مالٹا کی یہ اسارت قریباً تین سال پر مبنی تھی ۔ یہ زمانہ شیخ الہند کی زندگی کا آخری مرحلہ تھا اور فیصلہ کن بھی جس میں آپ اپنی زندگی کی تمام تر کوششوں کو ایک نتیجہ کی طرف لے جانا چاہتے تھے۔ایک عالمی ذمہ دار کی حیثیت سے اپنے ملک کے عام مسلمانوں کو کفار کے خلاف ابھار کر، اپنے شاگردوں اور متعلقین کو کفار کے خلاف جہاد کرنے کے لیے ایک خاص ترتیب میں لاکر اور دنیا کے دوسرے ممالک کے بااثر ذمہ داروں کو اس طرف متوجہ کرکے ایک عالمی منصوبے اور خاکے کو عملی جامہ پہنانے کے مرحلے میں جدوجہد کرتے کرتے قید ہوگئے، حالت قید میں بھی جہاں تک ممکن ہوا خود بھی اس فکر کے فروغ کے لیے کام کرتے رہے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے رہے۔

شیخ الہند کی فکر اور ان کی جدوجہد پر نظر ڈالیں تو نبوی طریقہ کی جھلک اس میں دکھائی دے گی۔ اپنی سوچ و فکر میں پوری امت کی ذمہ داری وہ اپنے کاندھوں پر محسوس کرتے تھے اور اسی کے سبب سب کو ساتھ لے کر وہ چلے۔ ایسا شخص کبھی حالات کے رد و بدل سے متاثر نہیں ہوتا اور بڑی سے بڑی طاقت و قوت سے گھبراتا نہیں۔

قید سے رہائی کے چند ماہ بعد مختلف بیماریوں کے ہجوم کا مقابلہ کرتے کرتے آپ انتقال فرماگئے۔ آپ نے اپنے پیچھے اعلائے کلمۃ اللہ، اقامت خلافت اور دارالحرب کو پھر سے دارالاسلام میں تبدیل کرنے کی خاطر جہاد کا ایک قابل اتباع نمونہ چھوڑا۔ اللہ ان کے تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭

Previous Post

خوارج…… آستین کے سانپ!

Next Post

محبوب کا حلیۂ مبارک [صلی اللہ علیہ وسلم]

Related Posts

مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | ساتویں قسط

26 ستمبر 2025
اَلقاعِدہ کیوں؟ | چوتھی قسط
فکر و منہج

اَلقاعِدہ کیوں؟ | چھٹی قسط

26 ستمبر 2025
اَلقاعِدہ کیوں؟ | چوتھی قسط
فکر و منہج

اَلقاعِدہ کیوں؟ | پانچویں قسط

13 اگست 2025
مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | چھٹی قسط

13 اگست 2025
کفار کا معاشی بائیکاٹ | چوتھی قسط
فکر و منہج

کفار کا معاشی بائیکاٹ | چوتھی قسط

13 اگست 2025
کیا ریاست (State) اسلامی ہو سکتی ہے؟
فکر و منہج

کیا ریاست (State) اسلامی ہو سکتی ہے؟

13 اگست 2025
Next Post

محبوب کا حلیۂ مبارک [صلی اللہ علیہ وسلم]

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version