دنیا اپنے قیام سے تا قیامت، معرکۂ کارزار ہے۔ حق و باطل کا معرکہ یہاں مخلوق کے پہلے سانس کے ساتھ شروع ہوا تھا اور یہ جائے آزمائش اس وقت تک اس معرکۂ خیر و شر کا میدان بنی رہے گی، جب تک صورِ اسرافیلؑ پھونک نہیں دیا جاتا۔ اس جائے امتحان میں ایک طرف رحمان کی بندگی کا اختیار ہے تو دوسری طرف شیطان کی بندگی کا۔ ایک طرف رحمان کی رضا و جنت ہے اور دوسری طرف ابلیس کی پرستش کی صورت میں رحمان کی سزا اور جہنم۔ ’الرحمٰن‘ نے اپنی رضا کو اپنے حبیب کی اتباع سے جوڑ دیا ہے، قربان جائیے حبیبِ کبریا پر، اس محبوب پر درود و سلام پڑھ کر اپنی دنیا و آخرت سنواریے۔ بلکہ ’الرحمٰن‘ کی رضا پائیے، اللھم صلِّ علیٰ محمد وعلیٰ آلِ محمد کما صلّیت علیٰ إبراهیم وعلیٰ آلِ إبراھیم إنك حمیدٌ مجیدٌ!
کائنات کا ہر ذرہ، اس معرکے میں شریک ہے۔ ریگ کے بے جان ذرات بھی اور دنیا کی جدید دوربینوں سے نظر آنے والے ہزاروں نوری سال بعید ’حقائق‘ بلکہ ان سے بھی بعید تر جو کچھ بھی اس کون و زمان میں ہے، اس معرکے میں شریک ہیں۔ بظاہر بے جان چیزوں میں البتہ مکلفیت کی تکلیف نہیں، وہ تو ذاتِ باری کی اطاعت میں مگن ہیں اور جب ذاتِ باری ان کو حکم دیتی ہے تو وہ حضور سرورِ عالَم (علیہ ألف صلاۃ وسلام) کے راستے میں پڑا بے زبان و لا شعور پتھر ہونے کے باوجود’السلام علیک یا رسول اللّٰہ1‘ کہہ کر توحید و رسالت کا اقرار کر کے اشرف المخلوقات پر حجت کا اتمام کرتا ہے۔ امتحان تو ہم جیسی مخلوق کا ہے، جسے شعور سے نوازا گیا ہے۔ بظاہر اللّٰہ کو ماننے والے تو بہت سے ہیں، لیکن اللّٰہ کے پیغمبر و محبوب کو ماننے والے بہت نہیں ہیں۔ عیسائی بھی پندرہ صدیاں قبل کسی کے منتظر تھے اور یہود بھی، بلکہ یہود نے ’المنتظر‘ کا ایسا انتظار کیا تھا کہ ان کی دیکھا دیکھی مشرکین بھی کسی کے منتظر ہو گئے تھے۔ وہ ذات جس کا انتظار تھا، حضرتِ خلیل اللّٰہ (علیہ الصلاۃ والسلام) کی دعا سے، باذن اللّٰہ ان کے بیٹے حضرتِ ذبیح اللّٰہ (علیہ الصلاۃ والسلام) کی نسل میں پیدا ہوئی۔ پھر یہ ذات حق و باطل کا پیمانہ بن گئی۔ جو محمدؐ کا، اس کے لوح و قلم اور جو محمدؐ کا باغی، اس کا دشمن خدائے بزرگ و برتر(صلی اللّٰہ علیٰ نبیّنا محمد)۔ پس اب نقطۂ نزاع، ذاتِ محمدؐ تھی اور ہے! لہٰذا اس معرکے میں آج سے پندرہ صدیاں پیشتر جائیے تو ’اہلِ شعور‘ کو جو امتحان پیش آیا آج بھی وہی امتحان ہے۔ قریش اللّٰہ کو مانتے تھے، لیکن محمدؐ کے منکر ہو گئے۔ یہود سے زیادہ تو کوئی علم والا تھا ہی نہیں، وہ اپنے کبر و بغض میں انکارِ محمدؐ کر بیٹھے۔ نصاریٰ بھی جانتے تھے، حضرتِ مسیح (علیہ الصلاۃ والسلام) نے اپنے بعد آنے والے آخری پیغمبر ’احمد‘ کی بشارت دے رکھی تھی، لیکن مسیحی کہلانے والوں نے گمراہی میں انکار کر دیا۔یہ سبھی بظاہر اللّٰہ کو ماننے والے تھے، لیکن دراصل اللّٰہ کے منکر تھے، اللّٰہ نے کہا فَإِنَّهُمْ لاَ يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللهِ يَجْحَدُونَ2!
یہ منکرین و ظالمین کس کے منکر تھے؟ صادق و امین تو یہی منکرین حضور کو کہا کرتے تھے (علیہ ألف صلاۃ وسلام)۔آج بھی دنیا کے سو بہترین انسانوں میں حضور (علیہ ألف صلاۃ وسلام) کو بہتر ترین، کامل و اکمل انسان کہنے والا مائیکل ایچ ہارٹ مذہباً یہودی ہے۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی صداقت و امانت اور آپؐ کے خدا کی عبدیت میں درجۂ معراج پر ہونےکی گواہی ’مہاتما‘ گاندھی بھی دیا کرتا تھا۔ برطانیہ میں آج بھی سوشل سکیورٹی کے عناوین پڑھائے جاتے وقت اس سوشل سکیورٹی سسٹم کا مؤسس حضور علیہ ألف صلاۃ وسلام کے صحابیٔ خاص سیّدنا فاروقِ اعظم رضی اللّٰہ عنہ کو قرار دیا جاتا ہے۔ آج صہیونی عیسائیوں کا سیاسی و عسکری پیشوا امریکی صدر بائیڈن بھی حضور (علیہ ألف صلاۃ و سلام) کی حدیثیں سناتا ہے۔ آپ کے فرامین کی حقانیت پر یہودِ عصر بھی ایسا پکا یقین رکھتے ہیں کہ مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) میں درخت و جھاڑیاں بھی وہ اگاتے ہیں جن کا ذکر آخر الزمان کے معرکوں کی احادیث میں آیا ہے۔ پھر مسئلہ کہاں ہے؟
مسئلہ ہے شرعِ محمد کا ، محمد، جو المصطفیٰ و المجتبیٰ ہیں کی شریعت کے انکارکا(علی صاحبہا ألف صلاۃ وسلام)!
الحذر! آئینِ پیغمبرؐ سے سو بار الحذر
حافظِ ناموسِ زن، مرد آزما، مرد آفریں
اسی آئینِ پیغمبرؐ کا، اسی شرعِ محمدؐ کا اقرار و انکار نقطۂ نزاع ہے۔ پچھلی پندرہ صدیوں میں ابلیس اور اس کے پیروکاروں و آلۂ کاروں کی محنت کا ایک ہی نقطہ رہا ہے، ’الحذر! آئینِ پیغمبرؐ سے سو بار الحذر‘۔ پھر اس کے متضاد دیکھیں تو اہلِ ایمان کی محنتوں کا بھی ایک ہی نقطہ رہا ہے، ’آئین و شرعِ پیغمبرؐ کا نفاذ‘! (فدانا أرواحنا وأمہاتنا وآباؤنا وأولادنا لشریعتك یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم!)
بڑے ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے یہاں مدحِ ذاتِ محمدؐ (جو بجائے خود مقصود بھی ہے، رفعِ درجات کا سبب اور اجرو ثواب کا باعث بھی) صلی اللّٰہ علیہ وسلم تو بہت ہے لیکن ذاتِ محمدؐ جس نظام کے ساتھ مبعوث کی گئی، جس شریعت کو انؐ پر نازل کیا گیا اس کا ذکر و محنت مفقود ہے۔ ہمارے یہاں ایک طرف انتہا یہ ہے کہ ’سوہنا آیا تے سج گئے نے گلیاں تے بازار وے‘ کی صدائیں ہیں تو دوسری طرف جمہوری جلسوں، لانگ مارچوں اور برطانوی کوکھ سے پیدا ہونے والے پارلیمان میں چند قرار دادوں کی منظوری کی بھول بھلیوں میں نظامِ اسلام کے نفاذ کے لیے کوشاں ہیں ۔ ہم بھول چکے ہیں کہ عاشقوں کے سر خیل سیّدنا ابو بکر ا لصدیق رضی اللّٰہ عنہ نے عشقِ محمدؐ کا دعویٰ کیسے نبھایا تھا۔ سنتوں کے عاشق اور امتِ محمدیؐ میں محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے متبع ’حضراتِ صحابہ ()‘ نے، آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی رحلت کے بعد، آپؐ کو آپؐ کے روضۂ اقدس میں اتارنے سے بھی قبل اہل حل وعقد کی شوریٰ میں اقامتِ دین اور استحکامِ جماعت کی غرض سے ’خلیفۃ الرسول‘ کی تنصیب کی، کہ صحابۂ کرامؓ کو چند لمحے بھی بنا ’امیرِ شرعی‘ گزارنا گوارا نہ تھا۔ پھر امتیوں میں عظیم ترین امتی، بالتحقیق أفضل الخلائق بعد الأنبیاء، خلیفۃ الرسول، سیّدنا ابو بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ نے منبرِ رسولؐ پر بیٹھنے کے بعد پہلے پہل، رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی وراثت ’شمشیرِ جہاد‘ کو حرکت دی اور حضور (علیہ ألف صلاۃ وسلام) کے تشکیل کردہ لشکرِ اسامہ ابنِ زید (رضی اللّٰہ عنہما) کو روانگی کا حکم دیا کہ دین تو تبھی قائم رہ سکتا ہے، شریعت کا نفاذ تو تبھی کامل ہو سکتا ہے جب جہاد فی سبیل اللّٰہ جاری ہو، بھلا وہ عمارتِ اسلام کیسے کامل ہو سکتی ہے جس کے پانچ ستون توحید و رسالت پر ایمان،نماز، روزہ، زکاۃ و حج ہوں لیکن اس عمارت کی چھت یعنی جہاد فی سبیل اللّٰہ موجود ہی نہ ہو؟! حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد جزیرۃ العرب کے بہت سے قبائل انکارِ زکاۃ کر دیتے ہیں۔تو جن کی شان قرآنِ عظیم الشان یوں بیان کرتا ہے کہ ’ الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ……‘ ان کے سردار صدیقِ اکبر رضی اللّٰہ عنہ منکرینِ زکاۃ سے، منکرینِ شریعت سے، مرتدین سے قتال فرماتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ اگر کوئی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے زمانے میں اونٹ کو باندھنے والی رسی بھی دیا کرتا تھا اور اب دینے سے انکار کرتا ہے، تو میں اس سے قتال کروں گا یہاں تک کہ وہ ادائیگیٔ فرض کی جانب لوٹ نہ آئے۔ یہ تھا ’خیر القرون‘ کا فہمِ دین اور اللّٰہ کے حبیب صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے عشق۔خلفائے راشدین اور ان کے بعد صحابہ کرامؓ میں سے آنے والے عادل خلفائے ذی شان اور حضرتِ عمر بن عبد العزیز رضی اللّٰہ عنہم اجمعین کی تو بات ہی کیا ہے، خلفائے بنو امیہ، خلفائے بنو عباس، خلفائے بنو عثمانِ ترک سے لے کر مرابطین و موحدین، زنگیوں، ایوبیوں،سلجوقوں، غزنوی، خوارزم شاہ، ایبک، التمش اور مغلوں اور مغلوں میں بھی محی الدین محمد اورنگ زیب عالم گیر تک سبھی کہ یہاں اقامتِ آئینِ پیغمبر، نفاذِ شریعت اہم تر ترجیح رہا۔ حتیٰ کہ برِّصغیر میں اکبر جیسا مغل بادشاہ بھی گزرا جس نے اپنا دین بھی اختراع کیا، لیکن اس کے زمانے میں بھی شریعتِ مطہرہ معطل و منسوخ کرنے کی جرأت نہ کی گئی، شریعت کی جگہ کسی اور نظام کے نفاذ کا تو سوچنا بھی کفرِ اکبر گردانا جاتا تھا۔
لیکن ہماری آزمائش کے لیے، مشیتِ ایزدی سے یہود اور ان کے ہم نوا ابلیس صفت عیسائیوں اور ملحدوں کی گیارہ بارہ صدیوں کی محنت اپنا کڑوا ثمر لائی۔ خلافتِ عثمانیہ کی پیٹھ میں پہلا خنجر لارنس آف عریبیہ کی محنتوں کی صورت میں امتِ محمد (علی صاحبہا ألف صلاۃ وسلام) میں قوم پرستی (nationalism)کے ناسور کو لاکر گھونپا گیا۔ بے دینی و لادینی کے باوجود بلکہ دین و ملت فروشی کے جذبے والی عرب قومیت کو جگایا گیا، ایک عجمی ’ترک‘مسلمان اور اولوالامر سلطان و خلیفہ گوارا نہ تھا، اس کی جگہ قریش ِ عرب کے بنو ہاشم میں سے [لیکن دراصل ابو جہل و ابنِ سلول کے روحانی (شیطانی)وارثوں میں سے] شریفِ مکہ حسین اور اس کی اولاد کو کھڑا کیا گیا۔ کوئی شاہِ حجاز بنا، کوئی شاہِ شام، کوئی شاہِ عراق تو کوئی شاہِ اردن3۔ بعداً انگریزوں کو آلِ سعود، آلِ نہیان اور آلِ ثانی وغیرہ جیسے زیادہ وفا شعار پالتو میسر آگئے تو امارات تا قطر وسعودی عرب نئے ٹوڈیوں کو لا بٹھایا گیا۔ شریعت کی جگہ قومیت نے لی اور ذاتی مفادات والی قومیت کی بادشاہت نے وحدتِ اسلامی والی خلافت کو توڑدیا۔ پھر سلطان محمد فاتح کے اسلامبول ، دار الخلافۃ استنبول میں آج سے ٹھیک سو برس قبل خلافت کی قبا کو ایک اور قوم پرست، لادین و عیار، فری میسن کے رکن مصطفیٰ کمال اتاترک نے چاک کر دیا۔ یہ تھا وہ دوسرا اور مہلک خنجر کا وار جس نے ملتِ اسلامیہ کا شیرازہ بکھیر دیا ۔ اس کے بعد بقول قائدِ مجاہدینِ برِّ صغیر استاد احمد فاروق شہید، ’امتِ مسلمہ کو ایک کیک کی مانند حصوں میں کاٹ کر ‘ملتِ اسلامیہ سے وابستہ رذیل ترین لوگوں میں حکمرانی کے لیے بانٹ دیا گیا۔ مسلمانوں کی عالمی خلافت کے سقوط سے ایک صدی یا اس سے کچھ زائد قبل برِّ صغیر میں بھی نظامِ اسلامی کا خاتمہ ہو گیا۔ برِّ صغیر میں دراصل سلطانِ عادل اورنگ زیب عالم گیر کی وفات کے ساتھ حکومتِ الٰہیہ کا سورج ڈوبنا شروع ہو گیا تھا جو اٹھارہویں صدی عیسوی میں اولاً نواب سراج الدولہ ثم سلطان فتح علی ٹیپو کی شہادت کے ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی ’بہادر‘کی سیاہ و تاریک حکومت کی شکل اختیار کر گیا۔
غاصب یورپیوں میں سرِ فہرست کمپنی’بہادر‘ ثم برطانوی امپیریل ازم کی دنیا پر چودھراہٹ ہو یا اس کے بعد امریکہ ’بہادر‘، ان سب کی محنتوں کا یک نقاطی ایجنڈا رہا ’الحذر! آئینِ پیغمبرؐ سے سو بار الحذر‘۔ ان غاصبوں نے عالمی جنگوں اور ان کے بعد پیدا ہونے والے بحرانوں سے اپنے آپ کو نکالنا چاہا تو ساتھ ہی مصر تا برما اور ملیشیا و انڈونیشیا تک قسم قسم کی جمہوریتوں، آمریتوں اور بادشاہتوں کو اپنے وفا داروں کے ذریعے مسلط کر دیا جو آج تک مسلم جغرافیے پر قابض ہیں۔ نیو ورلڈ آرڈر کے عالمی ٹھیکے دار امریکہ کے صدر ، باراک اوبامہ سے اس کے دورۂ مصر کے دوران پوچھا گیا کہ ’امریکہ تو ساری دنیا میں جمہوریت کا داعی ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ امریکہ مشرقِ وسطیٰ اور عرب ممالک میں آمروں کی تائید کرتا ہے؟‘۔ جمہوریت کے علم بردار نے کہا ’بعض لوگ جمہوریت کے بغیر بھی اچھا کام کر رہے ہیں!‘۔
یہ ’اچھا کام‘ کیا ہے؟نفاذِ اسلام کی راہ میں روڑے اٹکانا، بلکہ جو نفاذِ شریعت کی محنت و مطالبہ کرے اس کے خلاف اپنے جملہ وسائل اور اسلحوں سے لیس ہو کر جنگ کرنا۔ مالی کے صحرائے اعظم میں جنگ ہو یا یمن کے عدن میں، صومالیہ کے دشت و ساحلوں میں جنگ ہو یا پاکستان کے سوات تا قبائل کے پہاڑوں میں، یہ سبھی جنگیں امریکہ اور اس کے حواریوں اور ان کے غلام اتحادیوں کی مسلط کردہ ہیں۔ حتیٰ کہ نفاذِ شریعت کا مطالبہ جامعہ حفصہ و لال مسجد کے منبر و محراب سے اٹھے تو سفید فاسفورس برسا کر اس مطالبے کی صدا کو دبانے پر بھی امریکہ ’بہادر‘ کا صلیبی صدر جارج ڈبلیو بش اپنے اتحادی پرویز مشرف کی تعریف کرتا ہے۔ماضی قریب کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ امریکہ نے نائن الیون کے مبارک جہادی حملوں کو محض بہانا بنا کر افغانستان پر ہلہ بولا تھا۔ حالانکہ نائن الیون سے ما قبل ہی امریکی بحری بیڑے افغانستان کے پڑوس کے پانیوں میں پہنچ چکے تھے اور افغانستان پر حملے کی تیاری کر رہے تھے۔ امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد کا یہ بیان صفحاتِ تاریخ پر محفوظ ہے کہ ’امریکہ کو اصل مسئلہ افغانستان میں نفاذِ شریعت سے ہے، مسئلہ اسامہ بن لادن کا نہیں، آج کفار ایک مطالبہ کرتے ہیں تو کل یہ کوئی اور مطالبہ کریں گے!‘4۔ اور اگر مسئلہ اسامہ بن لادن کا بھی تھا تو اسامہ بن لادن بھی تو اہلِ اسلام ہی کا ایک سپہ سالار تھا، وہ اپنے اربوں ڈالر کے محلات، کاروبار اور اثاثے اسلام و اہلِ اسلام کی جنگ ہی کی خاطر تو چھوڑ کر افغانستان آیا تھا، مسلم سرزمنیوں سے کفار کا اخراج اور ان سرزمینوں پر شریعت کا نفاذ ہی اس کی محنت کا محور تھا، اسی لیے تو عمر ثالث ملا عمر نے کہا تھا کہ’مسئلہ اسامہ بن لادن کا نہیں، اسلام کا ہے……رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا فرمان ہےکہ ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے کافروں کے حوالے کرتا ہے‘‘، مدینہ منورہ سے جو شخص جہاد کی خاطر آیا میں اسے کیسے کافروں کے حوالے کر دوں؟!‘5۔ آج بھی اگر امریکہ ’بہادر‘ کے پیٹ میں مروڑ اٹھتا ہے تو امارتِ اسلامیہ افغانستان کی سرزمین پر نفاذِ شریعت و اقامتِ حدود اللّٰہ پر اٹھتا ہے۔ امریکہ کو آج بھی افغانستان سے کوئی تکلیف ہے تو یہی کہ عورتیں با حجاب کیوں رہیں، عورتیں کیوں نہ امریکہ و یورپ کی طرح ’میرا جسم میری مرضی‘ کے فیمنسٹ کلمہ پر ایمان لائیں؟ اور امریکہ اگر کوئی فوجی کارروائی آج اکیس سال قبل کی طرح نہیں کرتا تو اس کا سبب بیس سال افغانستان میں ذلت آمیز مار کھانا ہے، جس میں امریکہ کو تئیس کھرب ڈالر کا خسارہ براہِ راست صرف افغانستان میں اٹھانا پڑا، اسی جنگ سے وابستہ اربوں ڈالر کے دیگر خسارے الگ ہیں۔ بیس سال افغانستان میں مصروف رہنے کے سبب یک قطبی دنیا جس کا سردار امریکہ تھا اب چند قطبی دنیا میں بدل چکی ہے، ہر جنگ میں تکبر سے ڈکارتے ہوئے براہِ راست کود جانے والا امریکہ، اپنے نیٹو اتحادیوں سمیت اپنے دوست یوکرین کی مدد بھی اپنے قدیم حریف روس کے مقابلے میں براہِ راست فوجی موجودگی سے نہیں کرتا ۔ امریکہ کو اس حالت میں لانے کی واحد ذمہ دار قوت جہاد فی سبیل اللّٰہ ہے، جس کے ذریعے امریکہ کو افغانستان میں توڑا گیا۔
افغانستان کا دفاعِ اسلام اور نفاذِ شریعت کا ’جہادی تجربہ‘ امتِ مسلمہ پر ایک حجت ہے اور لائقِ تقلید اسوہ بھی۔
سچ تو یہ ہے کہ ہمارا مقصدِ حیات اللّٰہ کی عبادت اس طریقے پر کرنا ہے جس طریقے سے محبوب صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرما گئے۔ پھر یہ جہاد فی سبیل اللّٰہ اور نفاذِ شریعت کی مبارک محنت بھی تو من جانب اللّٰہ فریضہ اور محبوب صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا منہج و طریقہ ہے۔ ہمیں بغور دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہےکہ ہم اللّٰہ کی عبادت، اقامتِ صلاۃ تا اقامتِ دین اس طریق پر کریں جس کا مطالبہ ہم سے شریعتِ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو ہے۔انگریزی ایکٹوں کو قراردادِ مقاصد کے preamble کے اضافے کے ساتھ اسلامی جاننا دقتِ نظری نہیں، اس آئین کو محض نظرِ طائرانہ سے دیکھنا ہے۔آئینِ پیغمبر، شریعتِ محمدی (علی صاحبہا ألف صلاۃ وسلام) اگر کسی آئین کی اساس ہو، تو کیا ممکن ہے معیشت سودی ہو،فوج امریکہ کی فرنٹ لائن اتحادی ہو، آرمی چیف مرزائیوں کے سگے رشتہ دار بن جائیں اور حدود اللّٰہ کی جگہ حقوقِ نسواں بل لے لے، ٹرانس جینڈر ایکٹ اسی آئین کا اضافی حصہ بننے کو تیار ہو اور تہذیبی روایت میں سنسر بورڈ ’جوائے لینڈ‘ کی منظوری دے دے؟
آئین یا اساسی قانون کے بارے میں تو امارتِ اسلامیہ افغانستان کے عالی قدر مشائخ الحدیث وزرائے کرام نے کتنی بہترین بات فرمائی کہ ’ہمیں کسی اساسی قانون (آئین) کی بھلا کیا ضرورت ہے؟ ہمارا اساسی قانون (آئین) تو کتاب و سنت ہے اور اسی کتاب و سنت سے اخذ کردہ فقہ‘۔ لیکن اگر قراردادِ مقاصد محض ایک قرارداد ہی ہو اور اس کی حیثیت قانونِ اساسی یعنی آئین میں حقوقِ نسواں (اور آخری کوشش میں ٹرانس جینڈر ایکٹ) کی شقوں جیسی ’برابر‘ہو تو اس کو آئین و نظامِ اسلام سمجھنا غلط فہمی ہے۔ (کہنے کو نیا آنے والا)’حافظِ قرآن‘ آرمی چیف چھوڑیے، اگر پوری کی پوری فوج بھی حافظِ قرآن بن جائے ،لیکن محض آیاتِ قرآن کا ازبر ہونا ملک کی اصل حاکم و مقتدر قوت کو امریکی فرنٹ لائن اتحادی بننے اوراس اسٹیبلشمنٹ کو ملک میں شریعتِ محمدیؐ کی جگہ جمہوریت کے روپ میں امریکی ڈکٹیشن پر چلنی والی چنگیزی آمریت نافذ کرنے سے نہ روکے، بلکہ جو مجاہدینِ قبائل نفاذِ شریعت کا مطالبہ لے کر اٹھیں ان پر ضربِ عضب مسلط کریں تو اللّٰہ وحدہٗ لا شریک کی قسم! ایسے حاکم و مقتدر ہی شریعتِ محمدیؐ کے دشمن ہیں6۔ ایسے وردی و بے وردی حکمرانوں کے خلاف دعوت و جہاد کے محاذ گرم کرنا بقدرِ استطاعتِ شرعی فرض ہے ۔ ایسے وردی و بے وردی حکمران ہی ہیں جنہوں نے ستّر سال سے زائد سے اہلِ کشمیر و جہاد کشمیر سے خیانت کو روا رکھا ہوا ہے اور جو جہادِ کشمیر میں اپنا حصہ شریعتِ مطہرہ کے واضح احکام کے مطابق دامے درمے قدمے سخنے ڈالنے والوں کو زندانوں کی تاریکیوں میں ڈال دیتے ہیں۔ جنہوں نے دو دہائیوں سے کشمیری مجاہدین کی سپلائی لائن روک رکھی ہے۔ انہی غدار و خائن جرنیلوں اور کارگل کے بھگوڑے اعلیٰ افسروں کی بزدلی اور مجاہدین کے ساتھ عیاری و مکاری نے زمانے کے بزدل ترین کافر، ہندو بنیے کو اتنا شیر کر دیا کہ وہ کشمیر کو بھارت کا حقیقی اٹوٹ انگ بنانے میں کامیاب ہوتا جا رہا ہے ۔ بھارت نے مجاہدینِ کشمیر کی سرکوبی کے لیے امریکہ کے ساتھ کروڑوں ڈالر کے دفاعی معاہدے کر کے جدید سرویلنس سسٹمز اور پریڈیٹر (Predator)ڈرون خریدے جبکہ پاکستان فوج ’انڈیا جا جا جا کشمیر سے نکل جا‘ جیسے گانے آئی ایس پی آر سے بناتی رہی۔
پس حالات کا تقاضا اور شریعتِ مطہرہ کا عائد کردہ فرض ہے کہ بین الاقوامی و مقامی ان قوتوں کے مقابل دعوت، اعداد (تیاریٔ قتال) اور جہاد و قتال کے لیے صف بندی کی جائے جو شریعت کے نفاذ میں رکاوٹ ہیں اور جمہوری سازشوں اور فوجی آپریشنوں کے ذریعے اہلِ دین کی محنتوں کے سامنے روڑے اٹکاتی ہیں۔ نریندر مودی اور یوگی ادتیا ناتھ جیسے موذی ناگوں کا سر کچلنے کے لیے از حد ضروری ہے کہ جہادِ کشمیر کا محاذ تنظیموں اور مسلکوں سے بلند ہو کر خالص شرعی جہادی بنیادوں پر پوری قوت کے ساتھ گرمایا جائے کہ جہادِ کشمیر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی الہامی پیشین گوئی غزوۂ ہند کے ابواب میں سے ایک اہم باب ہے۔ لیکن غزوۂ ہند کے اس اہم باب، جہادِ کشمیر کو تب تک مکمل طور پر نہیں کھولا جا سکتا، جب تک غزوۂ ہند کے لیے ارضِ نصرت پاکستان میں ایک مضبوط شرعی اصولوں پر قائم دعوتی و جہادی تحریک موجود نہ ہو، ایک ایسی تحریک جس کا مشن نفاذِ شریعت اور نصرتِ مظلومینِ امت ہو۔ پاکستان میں دعوت و جہاد کی تحریک کو سیّد احمد شہید اور شیخ الہند کے منہج پر کھڑا کرنا ہو گا اور اس مبارک محنت میں مجاہدینِ قبائل اسی اساسی حیثیت کے حامل ہیں جس حیثیت میں شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ساتھ ایک صدی قبل قبائلِ یاغستان کے مشران (بزرگوں) کھڑے ہوئے تھے، پھر قیامِ پاکستان کے بعد حاجی صاحب میرزا علی خان سے امیر صاحب بیت اللّٰہ محسود تک یہ ایک ہی قافلہ ہے۔ مشرقی بنگال میں سیّد تیتو میر، حاجی شریعت اللّٰہ اور حضرت دُودُو میاں کے خطوط پر اٹھائی تحریک کی ضرورت ہے جو اولاً بنگلہ دیش میں سیکولر ازم و ہندتوائی طوفان سے نبٹ کر، ڈھاکہ میں نفاذِ اسلام کی راہ ہموار کرتے ہوئے، اس فوجی پیش قدمی کا آغاز کرے جو مرشدآباد میں نواب سراج الدولہ کی فوج کو ہونے والی شکست کا انتقام، کمپنی ’بہادر‘ ثم رائل انڈین آرمی کی ہندوستان میں وارث بھارتی فوج سے لے۔
بظاہر یہ باتیں کسی دیوانے کا خواب معلوم ہوتی ہیں، لیکن تاریخ کا دھارا عالی ہمت اور اولو العزم دیوانے ہی موڑا کرتے ہیں۔ پھر اگر ایسے دیوانوں کو حضور علیہ ألف صلاۃ وسلام کی مبارک بشارتیں حاصل ہوں تو یہ بحرِ ظلمات میں گھوڑے بھی اتارتے ہیں اور خشکی کے راستے بحری جہاز بھی لے جا کر دشمن کی بندرگاہ میں اتار دیتے ہیں۔ درود و سلام ہوں دو تلواروں کے ساتھ مبعوث کیے جانے والے محبوبِ ربّ العالمین پر، آپ کی آل پر، آپ کے اصحاب پر اور تا قیامت آنے والے آپ کے طریقِ احسان کے سالکوں پر!
سلام اسؐ پر کہ جس نے زندگی کا راز سمجھایا
سلام اسؐ پر کہ جو خود بدر کے میدان میں آیا
سلام اسؐ پر کہ جس کا نام لے کر اس کے شیدائی
الٹ دیتے ہیں تختِ قیصریت، اوجِ دارائی
سلام اسؐ پر کہ جس کے نام لیوا ہر زمانے میں
بڑھا دیتے ہیں ٹکڑا سر فروشی کے فسانے میں
سلام اسؐ ذات پر کہ جس کے یہ پریشاں حال دیوانے
سنا سکتے ہیں اب بھی خالدؓ و حیدرؓ کے افسانے
اللھم وفقنا كما تحب و ترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وأرضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!
٭٭٭٭٭
1 سنن ترمذی، غریب حدیث
2 ’’دراصل یہ آپ کو نہیں جھٹلاتے، بلکہ یہ ظالم اللّٰہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الأنعام: ۳۳)
3 یہی نسل آج تک اردن پر قابض ہے اور ہائے افسوس کہ اردن کی لادین پادشاہی مملکت کو ’المملكة الأردنية الهاشمية‘ کہتے ہیں، حالانکہ ان ابو جہلوں کو نبیٔ ہاشمی و قرشی صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے کوئی نسبت نہیں!
4 بحوالہ کتاب: عمرِ ثالث
5 بحوالہ ویڈیو تقریر از شیخ الحدیث حضرت مولانا شیر علی شاہ نوّر اللّٰہ مرقدہٗ
6 یہاں یہ نقطہ یاد رکھنے کا ہے کہ فوج ایک نہایت منظم ادارہ ہے اور اس منظم ادارے میں آرمی چیف کی کرسی تک وہی افسران ابھرتے ہیں جو اس فوجی نظم کے مطابق بہترین ہوتے ہیں۔ اور بہترین فوجی افسران الا ما شاء اللّٰہ، امریکیوں کے منظورِ نظر ہوتے ہیں (لادین جرنیلوں میں پرویز مشرف تا اسد درانی کی کتابیں اور اہلِ دین میں سے جنرل شاہد عزیز شہید کی کتاب اس امر پر گواہ ہیں۔ یہاں یہ امر بھی مستحضر رکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر کوئی ’حقیقی‘دین دار افسر، جرنیل کے رتبے تک پہنچ جائے تو فوج کا اپنا نظم ہی ایسے شخص کو اولاً کھڈے لائن لگا دیتا ہے اور بعداً ان کے قتل یا جبری گمشدگی سے بھی نہیں چُوکتا: جنرل مظفر حسین عثمانی، جنرل شاہد عزیز، بریگیڈئیر علی وغیرہ اس کی مثالیں ہیں)۔ پس نئے آنے والی آرمی چیف اور چیئرمین چیف آف جوائنٹ سٹاف کی حقیقت سمجھنے کے لیے یہ کافی ہے کہ اول الذکر ڈی جی ایم آئی اور ڈی جی آئی ایس آئی رہ چکا ہے اور آئی ایس آئی اور امریکی سی آئی اے کا یارانہ اور ایک دوسرے کا انٹیلی جنس اتحادی ہونا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، بلکہ آئی ایس آئی کے کتنے ہی بڑے رینک کے افسرامریکی پے رول پر سی آئی اے کے لیے بھی کام کرتے ہیں(شیخ اسامہ بن لادن کا راز بیچنے والا کرنل اس کی ایک مثال ہے)۔ جبکہ مؤخر الذکر جرنیل شریعتِ مطہرہ کا مطالبہ و محنت کرتے مجاہدینِ قبائل کے خلاف آپریشن ضربِ عضب میں کمان کرتا رہا ہے اور سابقاً ڈی جی ملٹری آپریشنز اور چیف آف جنرل سٹاف جیسے عہدوں پر فائز رہا ہے۔