یہاں درج فاضل لكهاريوں کے تمام افکارسے ادارہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
ذالک ھو الخسران المبین……خالد محمود عباسی صاحب نے لکھا
ایک ملک کے بادشاہ سے ملی گھڑی بیچی گئی۔ ایک ہنگامہ برپا ہے……!!
بادشاہِ ارض و سماء سے ملی زندگی کی گھڑیاں اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھائی جا رہی ہیں۔ کوئی اظہار تاسف بھی نہیں کر رہا……!!!
اے پتر……مدثر اقبال نے لکھا
وہ جب ریٹائر ہوا تو اسکے دونوں ہاتھ خالی تھے اور بنک میں صرف بارہ ارب روپے تھے۔
اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں…… تیمور سلیم نے لکھا
جن کی وجہ سے پاکستان محفوظ ہے وہ ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان چھوڑ کر کسی محفوظ ملک کیوں چلے جاتے ہیں؟
#رافضہ…… شیخ حامد کمال الدین نے لکھا
جہاں اقلیت میں ہوں گے وہاں pluralism کی دہائیاں۔
جہاں اکثریت ہوں گے وہاں اقلیت کی زندگی اجیرن۔اور شور مچانے میں پھر بھی اچھے!
لیجیے تو دیکھ کر……عبد المحسن الاحمدنے لکھا
مثالیں دیتا ہے بار بار مغرب کی صنعت اور ترقی کی۔
مگر مغرب سے ’لینے‘ کے لیے اس کے پاس بے حیائی اور بدکاری کے سوا کچھ نہیں
اس شخص کی طرح جو کتے کی تعریفیں تو کرے اس کی وفاداری پر، لیکن سیکھے اس سے صرف بھونکنا!
گندے کھیل میں اصل بات…… فیض اللہ خان سواتی نے لکھا
آڈیوز اور ویڈیوز کے گندے کھیل میں میرے آپکے لیے سیکھنے کا صرف یہ ہے کہ اس دن کے لیے تیاری اور توبہ کرنی چاہیے جہاں سب کے کھاتے سب کے سامنے کھلیں گے، فرانزک کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی سچے جھوٹے ہونے کی توجیح پیش ہوگی (اے اللہ پردہ فرما ہمارا)
یاد رکھیں قبر کے اندھے گڑھے میں میرے آپکے جان سے پیارے پڑے ہیں مگر ہم میں سے کوئی انکے ساتھ دفن نہیں ہوا……
اس دن کی تیاری کریں جسکی ہولناکی سے نبی کریم ﷺ رو پڑتے تھے، اسی سفر کی بابت کہا گیا تقوی لے لو بیشک وہ بہتریں زاد راہ ہے۔
نصابِ تعلیم و لٹریچر کس کا تشکیل کردہ ہے……محمد طلال نے لکھا
اس بحث کو ہم ایک جانب رکھتے ہیں کہ ہم کس نظام کے سائے تلے کشمیر فتح کریں گے۔ لیکن اگر ایسا ہو گیا تو سب سے پہلا سوال جو میرے ذہن میں آتا ہے وہ کیا ہے……؟ یہی کہ ہم وہاں کا تعلیمی نظام وہی رہنے دیں گے جو بھارت نے ظالمانہ قبضے میں کشمیریوں پر تھوپ رکھا تھا؟ ہر گز نہیں……
دشمن قوتوں کے زیر تسلط خواہ کوئی بھی ملک ہو وہاں سب سے پہلی چھیڑ چھاڑ مقامی کلچر اور مقامی روایات کو چیلنج کر کے کی جاتی ہے تاکہ مستقبل میں وہاں کوئی مزاحمت زور نہ پکڑے خصوصا اگلی نسلیں اپنے ہی ملک کی آزادی کی جنگ لڑنے میں شرم محسوس کریں اور اسکی بنیاد ایسے تعلیمی لٹریچر سے ڈالی جاسکتی ہے جس میں دشمن قوتوں سے ٹکرانے والے اپنے ہی ہم وطنوں کو ظالم جابر، ملک و قوم کا دشمن بنا کر دکھایا جاتا ہے۔ اسکا فوری اثر نہیں ہوتا ہے لیکن یہ دوسری اور تیسری نسل جو دشمن قابض قوت کے بنائے ہوئے نظام تعلیم سے مستفید ہو رہی ہے اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی……
آج افغانستان میں یونیورسٹی لیول پر طلبہ و طالبات کو کچھ مخصوص لٹریچر تک رسائی حاصل کرنے سے روکا گیا تو دنیا بھر کے میڈیا میں شور مچ گیا لیکن کوئی یہ سوال نہیں کرے گا کہ آخر وہ تعلیمی لٹریچر واقعی افغانوں کا بنایا ہوا ہے یا قابض قوتوں کا؟؟
معتدل بات…… احمد عمرنے لکھا
آجکل اعتدال کا مطلب یہ ہو گیا ہے کہ تھوڑا سا حق لیں، اس میں تھوڑا سا باطل ملا کر بیچ کی بات کہہ دیں۔ لوگ کہیں گے بڑی معتدل بات کہی ہے……
طالبان اپنے مواقف سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے!…… ادریس چرخی نے لکھا
طالبان اپنے مواقف سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے! اس لیے کہ انہوں نے امریکہ کے مقابل اپنا بیس سالہ جہاد موٹر سائیکلوں پر بیٹھ کر کیا ہے اور موٹر سائیکل میں ریورس گیئر نہیں ہوتا!