آنکھ تو میری تب ہی کھل گئی تھی جب صبح سویرے نور کے تڑکے… …مرغے نے پہلی بانگ دی اور صحن میں میری ساتھ والی چارپائی پر سویا خیر محمد ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا تھا۔ پھر سرہانے پڑی چادر اٹھا کر وہ تو غسل خانے کی جانب بڑھ گیا تھا کہ اسے اب وضو کر کے مسجد، اور مسجد سے سیدھا کھیتوں کی طرف روانہ ہونا تھا۔ پھر اس کی واپسی نو دس بجے تک ہی ہوتی جب ماں توے سے گرما گرم پراٹھے اتار رہی ہوتی اور رشیدہ ساتھ والے گھر سے مانگی ہوئی برف، بڑے سے سٹیل کے جگ میں کوٹ کوٹ کر ڈالتی جاتی،اور ساتھ ساتھ مدھانی سے ٹھنڈی میٹھی لسّی بلوتی جاتی۔ لیکن میری ایسی کوئی مجبوری نہیں تھی۔ سو میں کروٹ بدل کر دوبارہ سو گیا۔ کوئی آدھے پونے گھنٹے بعد مجھے ماں کی آواز آئی، شاید وہ نماز کے لیے جگا رہی تھی ، میں نے مندی مندی آنکھیں کھول کر آسمان کی طرف دیکھا، آسمان کا گہرا نیلا رنگ اب ہلکے نیلے میں تبدیل ہو رہاتھا، مگر ابھی تو بہت وقت پڑا ہے نماز کے لیے، اور ویسے بھی، آج تو جمعہ بھی نہیں ہے، یہ سوچ کر میں ایک بار پھر سو گیا۔
جب آنکھ کھلی تو سورج سر پر چمک رہا تھا، اور کھیس کے اندر میرا پورا وجود پسینے میں نہایا ہوا تھا۔ گویا کہ نو بج چکے تھے، اب مزید سونا ممکن نہیں تھا۔ نجانے کب اس گھر میں کولر آئے گا اور ہمیں بھی آرام سکون کی نیند نصیب ہو گی۔ کوفت سے سوچتا ہوا میں اٹھا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ میرے اٹھتے ہی رشیدہ لپک کر آئی اور میری چارپائی سے تکیہ اور کھیس اٹھا کر تہہ کرنے لگی۔ صحن میں اس وقت ایک میری ہی چارپائی بچھی رہ گئی تھی، اور وہ بھی شاید انتظار میں ہی بیٹھی تھی کہ میں اٹھوں اور وہ یہ چارپائی بھی اٹھا کر برآمدے میں کھڑی کر دے، اور پھر صحن میں پائپ لگا کر ناشتہ سے پہلے پہلے ہی صحن دھو دھلا کر فارغ ہو جائے۔ میرا ابھی کچھ دیر مزید سونے کا ارادہ تھا، آخر میں اس ملک کی سخت ترین ڈیوٹی پر مامور تھا، اور چھ مہینے ڈیوٹی کے فرائض انجام دینے کے بعد چھٹی پر گھر آیا تھا……میں کمرے میں پہنچا اور پلنگ پر دراز ہونے سے قبل، پنکھا چلانے کے لیے دیوار پر موجود سوئچ بورڈ پر ہاتھ مارا تو بجلی ندارد۔ غصّے سے کھول کر رہ گیا۔ ایک دو شاندار سے الفاظ واپڈا والوں کی عزت افزائی میں ادا کرنے کے بعد میں نے الماری میں سے استری شدہ جوڑا نکالا، اور نہانے کی غرض سے غسل خانے میں گھس گیا۔
صابن سے رگڑ رگڑ کر منہ دھونے کے بعد میں نے چہرے پر اچھی طرح شیونگ کریم کا لیپ کیا، اور اس وقت بڑی عرق ریزی سےالٹا ریزر پھیر رہا تھا جب مجھے کمرے میں آہٹ اور پھر رشیدہ کی آواز آئی:’پائی جان ! ناشتہ تیار ہو گیا ہے‘۔ میں کوئی جواب دینے کی پوزیشن میں نہ تھا۔ وہ بھی اعلان کر کے شاید جا چکی تھی۔ شیو بنا کر میں فارغ ہوا، اور ایک بار پھر خوب رگڑ کے چہرہ دھو رہا تھا کہ یکایک غسل خانے کا واحد بلب جل اٹھا۔ یعنی بجلی آ گئی تھی۔ میں نے بغور اپنے چہرے کو آئینے میں دیکھا۔ کہیں کسی بال کا نام و نشان نہ تھا۔پھر چکنی جلد پر ہاتھ پھیر کربھی میں نے چہرے کے بالوں سے مصفا ہونے کی تصدیق کی۔ شیو تو اتنی اچھی بنائی تھی کہ صوبیدار میجر کرامت اپنے معمول کے راؤنڈ پراگر عدسے سے بھی میرے چہرے پر ڈاڑھی مونچھ کے کسی بال کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا، تو اسے نہ ملتا۔ لیکن اس وقت آئینے میں خود کو دیکھتے ہوئے مجھے عجیب سا ملال ہوا۔ شاید یہ خیر محمد کی ڈاڑھی تھی جسے صبح صبح نیند بھری آنکھوں سے دیکھتے ہوئے مجھے ابّا جی مرحوم یاد آ گئے تھے، لیکن اگر میں بھی چھوٹی موٹی ذرا سی ڈاڑھی رکھ لیتا تو شاید میرے چہرے پر موجود یہ کیل مہاسوں کے داغ چھپ جاتے، اور کچھ رعب و دبدبہ میں بھی اضافہ ہو جاتا۔ لیکن پھر خیال آیا مجھ سے محض دو سال چھوٹا ہونے کے باوجود خیر محمد عمر میں مجھ سے ۱۰ سال بڑا لگتا ہے، تو کیا ضرورت ہے مجھے خواہ مخواہ مولوی بننے کی۔ اور ویسے تو کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوتا، لیکن بلا وجہ یونٹ میں افسران کی نگاہیں میری جانب اٹھنا شروع ہو جاتیں۔
نہا دھو، شیو بنا کر میں باہر نکلا تو طبیعت کی گرمی کافی حد تک دور ہو چکی تھی۔ ہینگر لٹکانے کے لیے الماری کھولی، سامنے ہی میری صاف ستھری، استری شدہ وردی لٹک رہی تھی۔ چھٹی پر گھر آنے سے پہلے اپنی وردی میں یونٹ کے دھوبی سے ہی استری کروا کر لایا تھا۔ اور اس نے ہمیشہ کی طرح کریزیں خوب جما کر بٹھائی تھیں اور سارے بیج اور پھول لگا کروردی پہننے کے لیےتیار کر دی تھی۔ خاکی وردی، سنہرے بیج اور پنجاب رجمنٹ کے صوبیدار کی سبز ٹوپی۔ اس پاک سر زمین کے محافظوں کی وردی۔ میری وردی۔ میں نے دل میں ایک فخر و انبساط محسوس کرتے ہوئے اپنی خاکی وردی پر ہاتھ پھیرا۔ میں ایک فوجی ہوں۔ پاک فوج کا جوان۔ بانکا سجیلا جوان۔ ’میرے نغمے تمہارے لیے ہیں‘……میڈم نور جہاں کا میرے نام گانا میرے ذہن میں چلنے لگا۔
نجانے میرے دل میں کیا آئی کہ اپنی فوجی ٹوپی اٹھا کر ایک بار پھر آئینے کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ چاند تارے والے بیج کو عین ماتھے کے درمیان سیٹ کرتے ہوئے، میں نے ایک جانب سے ٹوپی کوکھڑا کیا اور دوسری جانب سے چپٹا کر کے سر پر جمایا ۔ آئینے میں اپنا عکس دیکھ رہا تھا کہ ایک بار پھر ابّا جی حقّہ اٹھائے میرے سامنے آ براجمان ہوئے۔ آم کے پیڑ کے نیچے بچھی چارپائی پر بیٹھ کر انہوں نے سامنے دھرے چھوٹے موڑھے پر اپنا حقّہ بڑے اہتمام سے سیٹ کیا تھا، پھردرخت کی ہی ایک ڈالی توڑ کر اس کے سرے سے چلم کی بجھتی راکھ کو کریدا، اسے تازہ کیا، اور پھر حقّے کا ایک لمبا کش لگا کر دھواں فضا میں چھوڑتے ہوئے انہوں نے میری جانب دیکھ کر تان لگائی تھی
دیکھ کر یار بناویں محمدا
فیر پاویں سولی تے چڑھ جاویں
’یہ شعر غلط ہے ابّا‘، میں نے اخبار سے نظریں ہٹائے بغیر کہا تھا۔
’مگر معنی تو غلط نہیں ہے ناں پتر‘، ابّا نے برا منائے بغیر جواب دیا۔ میں جانتا تھا وہ کیا کہنا چاہتےتھے۔ ان دنوں گھر کا سب سے اہم موضوع میرے مستقبل کاانتخاب ہی تھا۔
’دیکھ پتر! اج تو جہیڑا وی پیشہ اختیار کر لے ، لیکن ایہہ گل یاد رکھیِں، کہ تو جیہڑا کم کرے گا او ہی تیری شَنَاخَت ہو گا۔ اک ویلا آنا اے کہ تو اپنے پیشے میں ڈھل جائے گا۔ تو کسان بن کر مٹی سے اناج اگا، اپنے ہاتھ مٹی مٹی کر لے، مٹی تجھ میں عاجزی پیدا کرے گی۔ تو پُلس میں بھرتی ہو جا اور چور ڈاکو پھڑ، لیکن چوروں اور ڈاکوؤں کا ساتھ ہو گا تو تُو بھی چور ڈاکو بن جائے گا، بس قانونی بھی ہو گا۔کسی سکول میں ماسٹر لگ جا ،تے تو استاد بن جائے گا اورقصائی کی دکان کھول لے، تو ایک وقت آئے گا کہ توزندگی کے ہررخ کے اعتبار سے قصائی بن جائے گا۔ایس واسطے تو چھیتی نہ کر، اچھی طرح سوچ سمجھ کر فیصلہ کرِیں ‘۔
گو کہ ابّانے آخری فیصلے کا اختیار میرے ہاتھ میں دیا تھا، لیکن میں جانتا تھا کہ دل سے وہ یہی چاہتے ہیں کہ آرائیوں کی اولاد انہی کی طرح زمینوں کو سینچنے، اور اپنا خون پسینہ پانی کی طرح بہا کر اناج اگانے کا آبائی پیشہ اختیار کرے۔حالانکہ زمینوں کی دیکھ بھال کے لیے خیر محمد اور وارث علی بھی موجود تھے، مگر بس بڑا بیٹا ہونے کے ناطے ساری توقعات اور امیدیں مجھ ہی سے وابستہ تھیں۔ اور امّاں تو سنتے ہی ہتھے سے اکھڑ گئی تھی۔
’لو کر لوگَل!نئیں تُو مینوں ایہہ دس کہ تینوں نوکری کرن دی کیہہ لوڑ اے ؟ انّیاں زمیناں نے، تِن مجّاں کول نے،آرام نال اپنے پنڈ اِچ گزر بسر ہو رہی اے۔ میں تے سوچیا سی کہ ہن عبدالرشید دی دھی نوں ووہٹی بنا کر لیاواں گی، تے توں پنڈ چھڈ کے جان دی گل کر ریا اے‘، ماں کی پلاننگ کسی اور ہی نہج پر چل رہی تھی۔ اب میں کیسے سمجھاتا کہ دنیا میں اچھی زندگی گزارنے کے لیے صرف چند ایکڑ زمین اور تین مجّیں کفایت نہیں کرتیں، بلکہ اس کے لیے پیسہ چاہیے پیسہ۔جتنا زیادہ ہو اتنا اچھا ہے۔یہاں خیر محمد اور وارث علی موجود تھے زمینوں اور مویشیوں کی دیکھ بھال کے لیے، اگر قسمت سے مجھے فوج میں کمیشن مل جاتا تو زندگی سنور جاتی اپنی۔ بیس پچیس سال کی نوکری اور پھر آرام سے بیٹھ کر پنشن کھاتے۔ اور جو پنڈ میں فوج کی نوکری کی بدولت اپنی ٹور بنتی وہ الگ تھی، پھر بھلے سے امّاں ماما عبدالرشید کو چھوڑ، چودھری فضل الٰہی کی دھی کو ووہٹی بنا کر لاتی، سب فخر کرتے مجھ سے رشتہ جوڑنے پر۔
’امّاں میرا تو خیال تھا کہ تو خوشی خوشی مجھے اجازت دے گی، میرا ماتھا چومے گی اور کہے گی کہ جا میرا سوہنا پتر، تجھے میں اس وطن کی مٹی کی خاطر قربان کرتی ہوں، جاتو اس وطن کا محافظ ہے، اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دینا پر اس پاک سر زمین پر آنچ نہ آنے دینا ‘، میں نے جذباتی اٹیک کیا ۔
مگرمقابل ماں تھی، یک دم برا مان کر بولی، ’لے دس! میں کیوں تجھے مٹی کی خاطر قربان کروں گی۔ وہ تیرے چاچے کم ہیں جنہاں نے ساری حیاتی لگا دی زمین اور مٹّی پانی کے جھگڑوں میں۔ تیرے ابّا کو کچہریوں میں ذلیل کرتے رہے صرف چند فٹ زمین کی خاطر۔قربان ہونا ہو تو آدمی اللہ رسول ؐ کی خاطر قربان ہو، ربّ کی خاطر مرے، زمین کی خاطر لڑنے مرنے میں کیا کمال ہے‘ اللہ رسولؐ کا ذکر کرتے ہوئے ماں کی آنکھیں ہمیشہ کی طرح عجیب سے انداز سے بند ہوئیں اور پھر کھلی تھیں۔
’ارے امّاں! میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ میرا مطلب تھا کہ فوج میں جا کر میں مجاہد بنوں گا، جہاد کروں گا‘، میں نےماں کی خاطر آسان الفاظ میں اپنے اپنائے ہوئے پیشے کی تعریف بیان کی۔
’کتھے؟‘، امّاں نے اپنے مخصوص انداز میں انگلی ناک پر رکھتے ہوئے نہایت سنجیدگی سے پوچھا۔ ایک لمحے کے لیے تو میں سوال سمجھ ہی نہ پایا تھا۔
’جی؟‘، میں نے قدرے ہونق پن سے پوچھا۔
’کتھے کرے گا تو جہاد؟ کادے نال؟‘،
’جس کے ساتھ بھی افسر آرڈر دے گا، یہ کیسا سوال ہے‘، میں اچانک ہی جھلا گیا تھا۔’انڈیا کے ساتھ کروں گا جہاد، اور جو کوئی بھی ہمارے ملک کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے گا، اس سے کروں گا جہاد‘۔
’اللہ نہ کرے کہ کوئی اس ملک کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے، لیکن انڈیا کے ساتھ تو یہ فوج لڑتی نہیں، امریکہ کے ساتھ دوستی ایوب خان نے گانٹھی تھی اور دوستی ملازمت میں بدل گئی، سارے کافرتو یار دوست ہیں، دیکھا نہیں اس موئے پرویز مشرف کو؟……تو جہاد کیا مسلمانوں سے کرو گے‘۔
’یا اللہ! ‘، میں چکرا گیا تھا، مجھے تو امّاں کی اس قدر سیاسی سوچ کا اندازہ ہی نہ تھا، اوپر سے ماں نے چیف صاب کو بھی رگڑ دیا تھا۔
’تُو پتر! میری مان تے کشمیر جا کر جہاد کر لے۔ قسم لے لے تجھے کوئی نہیں روکے گا۔ جہاد تو عظیم عبادت ہے۔ ہمارا سر نہ فخر سے اُچا ہو جائے گا اگر ہمارا پتر مجاہد بن جائے تو۔ یا تو تُو غازی اور فاتح بن کر لوٹے گا، یا پھر شہید ہو گیا تو ہمیشہ کی جنّت اور نعمتاں ہی نعمتاں ہوں گی۔ عاقبت سنور جائے گی تیری‘،ماں اتنے جوش و خروش سے بولی کہ مجھے لگا کہ اس کے بس میں ہوتا تو مجھے ابھی اسی وقت شہید کروا دیتی۔ شاید اسے معلوم نہ تھا کہ شہید ہونا آسان نہیں، آدمی جان سے چلا جاتا ہے۔ اور پھر فائدہ ککھ بھی نہیں، پیچھے والوں کو پنشن تو دور کی بات، بینیولنٹ فنڈ کا دھیلا بھی نہیں ملتا۔
’امّاں آخر فوج کی نوکری میں کیا قباحت ہے؟کیوں آپ دونوں میرے مستقبل کے دشمن بنے ہوئے ہیں‘، میں نے جھنجھلا کر پوچھا۔ عجیب ماں باپ تھے، خواہ مخواہ مخالفت کیے چلے جا رہے تھے۔
’آخر ضرورت کیہہ اے؟ تو مینوں ایہہ دس دے کہ ضرورت کیہہ اے؟ اور تو کیہڑا افسر لگ جائے گا فوج وِچ جا کر، جا کر کرے گا تو وہی ناں، وہ بن جائے گا تو کسی افسر دے کار وِچ…. اوہ کیہہ آندے نے؟ بیٹمین، فیر بس برتن پانڈے مانجھتا رہویں، تینوں عزّت راس جو نئیں آ رہی‘، ماں جلال میں آ گئی تھی۔
٭٭٭٭٭
مگر آج…… آج مجھے فخر تھا اپنے فیصلے پر۔فوج میں کمیشن ملنا آسان مرحلہ نہیں تھا۔ مگر ایک بار وہ طے کر لیا تو پھر بس چھتیس ہفتوں کی ٹریننگ، اور اس کے بعد دس سالہ نوکری کےعرصے میں، میں نائب صوبیدار سے ترقی پا کر صوبیدار بن گیا تھا۔ پنڈ میں سب نظریں جھکا کر مجھے سلام کرتے تھے۔کوئی جھگڑا ہو جاتا تو سب سے پہلے مجھے بلایا جاتا، اکثر جھگڑوں کا فیصلہ میں ہی کرتا تھا۔ شہر میں نوکری حاصل کرنے کے لیے میری سفارش نعمت غیر مترقبہ تصور کی جاتی تھی۔ ماماعبدالرشید کی دھی کوتو ماں خیر محمد سے بیاہ کر چھ سال پہلے ہی لے آئی تھی، مگر دو سال پہلے میری نسبت بھی منشی اسلم کی بیٹی کے ساتھ طے ہو گئی تھی۔ وہ چودہ جماعتیں پاس تھی اور گاؤں کے سکول میں پڑھاتی تھی۔ پورے خاندان میں ، میں واحد مرد تھا جس کی منکوحہ اپنا کماتی تھی۔سال میں دو سے تین بار لمبی چھٹی پر گھر آتا تھا۔ ہر مہینے بینک میں اچھی خاصی تنخواہ آ جاتی تھی۔ اسی کے بل پر تو آج گھر کے صحن میں تین کے بجائے سات مجّیں کھڑی تھیں۔ابھی پچھلے سال ہی وارث کو موٹرسائیکل خرید کر دی تھی، اس نے چھوٹی سی پرچون کی دکان ڈال لی تھی ، اس میں بھی آدھا پیسہ میں نے ڈالا تھا۔ اچھی آسودہ حال زندگی تھی۔
آئینہ سے جھلکتے چہرہ پر درست اور بروقت کیے گئے فیصلے کا اطمینان اور سکون جھلک رہا تھا۔ اب اس سال ویاہ کا بھی ارادہ تھا۔ ایک بار پھر میرا ہاتھ چہرے کی چکنی جلد کو سہلانے لگا۔ پابندی سے شیو کرنے کی وجہ سے چہرے کی جلد ذرا کھردری ہو گئی تھی۔ لیکن خیر! شادی سے پہلےشہر جا کر ایک بار میں بھی فیشل کروا لوں گا۔ یونٹ کے اکثر جوان تو جاتے ہی ہیں پارلر، میں بھی ایک چکر لگا لوں گا۔ بہرحال، بتیس سال کا تو میں کہیں سے نہیں لگتا، یونہی بائیس چوبیس برس کا جوان گبھرو لگتا ہوں۔
’پائی جان!‘، رشیدہ کی آواز سے میری سوچوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا،’ناشتہ نہیں کریں گے کیا؟سب کر چکے ہیں‘۔
’بس آ رہا ہوں‘،میں نے بالوں میں انگلیاں پھیر کر انہیں سیٹ کیا ، دراز میں سے سیگریٹ کی ڈبیا نکال کر جیب میں رکھی اور رشیدہ کے پیچھے پیچھے کمرے سے نکل آیا۔ ایک میری یہ بہن میری سستی سے بہت نالاں رہتی تھی۔ میرے بیٹھتے ہی اس نے میرے سامنے چھابہ لا رکھا جس میں تین گرم گرم آلو کے پراٹھے ، اوران کے اوپر ایک بڑی سی کٹوری میں گاڑھا میٹھا دہی رکھاتھا۔ گھر میں غیر معمولی خاموشی تھی۔’کہاں ہیں سب؟‘، میں نے پہلا نوالہ توڑتے ہوئے پوچھا۔
’امّاں پڑوس میں گئی ہیں، خالہ مجیداں کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، ان کا پتہ لینے گئی ہیں۔ وارث اوپر کوٹھے پر ہے، اور ویرجی ماما جی کی طرف گئے ہیں بھابھی کو لینے، اب تو آنے والے ہوں گے‘۔
اس نے مفصّل جواب دیاتھا، ورنہ عموماً وہ میرے سامنے ایک دو جملوں سے زیادہ نہیں بولتی تھی۔ یہ تو ویر جی تھے جن سے بات کرتے ہوئے اور جن کی بات کرتے ہوئے سبھی کے منہ میں گُڑ گھل جاتا تھا ۔ ابّاجی کے انتقال کے بعد خیر محمد نے غیر محسوس انداز میں ان کی جگہ پُر کر دی تھی۔ میں انہی سوچوں میں گم ناشتہ کر رہا تھا ۔ جیسے ہی آخری نوالہ منہ میں ڈالا ، گلی میں سے خیر محمد کی موٹر سائیکل کی کھٹ کھٹ ، پھٹ پھٹ اور پھر ہارن کی تیز آواز سنائی دی۔ وارث تیزی سے زینے پھلانگتا نیچے آیا اور جلدی سے دروازہ کھول دیا۔ دروازہ کھلتے ہی کسی آندھی طوفان کی طرح عبد اللہ اور مقدس اندر داخل ہوئے۔ عبداللہ تو فوراً وارث کی گود میں چڑھ گیا جبکہ مقدس ’تایا جی، تایاجی‘ کے نعرے لگاتی سیدھی مجھ سے آ کر لپٹ گئی۔ خیر محمد بائیک اندر لے آیا، اس کے پیچھے بھاوج، عبد الرحمان کو اٹھائے، بڑا سا گھونگھٹ نکالے اندر آئی اور سیدھا امّاں کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
بھاوج کے دو گز کے گھونگھٹ نے مجھے ہمیشہ کی طرح حلق تک کڑوا کر دیا تھا۔ مولوی کو ملی بھی تو پکی مولوائن۔ اب گھر میں اتنا بڑا گھونگھٹ نکالنے کی کیا تُک تھی بھلا۔ آخر کو میں جیٹھ تھا اس کا، باپ کی جگہ تھا۔ مگر چاہنے کے باوجود میں کبھی خیر محمد سے اس بارے میں کچھ کہنے کی جرأت نہ کر پایاتھا۔ اتنے میں مقدس جو میرے گلے سے جھول رہی تھی، اس نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی۔
’آ گئی میری شطونگڑی! اتنے دن لگا دیے تو نے نانا کے گھر میں، وہاں بہت مزا آتا ہے کیا؟‘، پھول سے گالوں والی یہ ننھی رشتہ دار مجھے بہت عزیز تھی۔ شاید اس گھر میں سب سے زیادہ وہی مجھے پیاری تھی، اور وہ بھی پورے گھر سے زیادہ مجھ ہی سے پیار کرتی تھی۔
’نہیں تو تایاجی، میں نے تو آپ کو اتنا یاد کیا…… اتنا زیادہ……‘، وہ شاید کوئی تمثیل ڈھونڈ رہی تھی،’جتنا حضرت یعقوب ؑ نے حضرت یوسفؑ کو یاد کیا تھا‘۔
’ہائیں!‘، اس کی بات سن کر میں بھونچکا رہ گیا،’کتنا یاد کیا تھا انہوں نے؟‘۔
’اتنا زیادہ کہ رو رو کر ان کی آنکھیں چلی گئیں‘، اس نے معصومیت سے جواب دیا،’میں بھی اتنا روئی تایاجی کہ امّی نے کہا کہ ابّاجان کو فون کر کے بلا لیتے ہیں، کہیں میری بھی آنکھیں نہ چلی جائیں‘۔
’تمہیں ایسی باتیں کون سکھاتا ہے شطونگڑی، اتنی بڑی بڑی باتیں کرتی ہو‘، میں نے پیار سے اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے پوچھا۔
’تایاجی میں بڑی ہو گئی ہوں ناں، دادی کہتی ہیں میں بہت سمجھدار ہوں‘، اس نے فخریہ انداز میں میری طرف دیکھ کر گویا دادی کی بات کی تصدیق کروانا چاہی۔
’کوئی نہیں، میری گڑیا تو چھوٹی سی ہے ابھی۔ ننھی منّی سی۔ اب میں دوبارہ شہر جاؤں گا تو اپنی گڑیا رانی کے لیے ڈھیر سارے پیارے پیارے کپڑے لاؤں گا، اور رنگ برنگی چوڑیاں بھی، پھر وہ سب پہن کر میری گڑیا شہزادی لگےگی ‘ ۔
’اور تایاجی ایک نورانی قاعدہ بھی لانا، پھر میں دادی سے پڑھوں گی‘، اس نے فوراً اپنی فرمائش جڑ دی۔
اتنے میں رشیدہ میرا موبائل اٹھا لائی۔ نجانے کب سے اس کی گھنٹی بج بج کر اب خاموش ہو چکی تھی۔ میں نے مس کالیں چیک کیں، پچھلے آدھے گھنٹے میں صوبیدار میجر کی تین کالیں آ چکی تھیں۔ مجھےقدرے تشویش ہوئی۔ فوراً ان کے نمبر پر فون کیا تو دوسری ہی گھنٹی پر فون اٹھا لیا گیا۔
’ہا ں…… افضل! کب سے فون کر رہا ہوں ، اٹھا نہیں رہے تھے تم‘، فون اٹھاتے ہی وہ مجھ پر برس پڑے تھے۔
’جی سر! وہ سر…… بس غلطی ہو گئی سر، د د د دھ دھ دھیان نہیں رہا موبائل کا‘، میں ہکلا کر بولا۔ ایک تو پتہ نہیں کیا بات تھی اس کم بخت کے انداز میں ، آوازمیں ایسی کرختگی ہوتی تھی کہ آمنا سامنا نہ ہونے کے باوجودمجھ پر خواہ مخواہ گھبراہٹ طاری ہو نے لگتی۔
’دھیان رکھا کرو موبائل کا، کوئی پتہ تو نہیں ہوتا کس وقت کوئی ایمرجنسی ہو جائے‘،وہ ڈپٹ کر بولے۔
’جی سر‘، میں نے مستعدی سے جواب دیا۔
’اچھا خیر! میں نے تمہیں یہ بتانا تھا کہ تمہاری چھٹی منسوخ ہو گئی ہے، کل سے آ جانا ڈیوٹی پر‘، انہوں نےاگلا جملہ فائر کیا، جو کسی گولی کی طرح ہی مجھے آ کر لگا۔
’جی سر؟ مگر کیوں سر؟‘، میں نے مرے مرے انداز میں پوچھا۔
’میجر صاحب کا آرڈر ہے‘، ادھر سے کڑک جواب موصول ہوا۔
’جی سر‘،
’پھر کل تم ڈیوٹی پر ہو گے؟‘، انہوں نے اپنی تسلّی کی خاطر پوچھا۔
’جی سر!‘
’ٹھیک ہے‘، وہ مطمئن ہو گئے اور اس کے ساتھ ہی فون کٹ گیا۔
بے غیرت …… جی تو چاہا افسران کی شان میں اپنی پوری لغت کا نذرانہ پیش کر دوں، خود تو اے سی کی ٹھنڈک کے مزے لوٹتے تھےاور ہم غریبوں کو چھ ماہ کے بعد مہینے بھر کی چھٹی بھی سکون سے گزارنے نہیں دیتے تھے۔ چلو بھئی حاضر ہو جاؤ کہ افسر کا حکم ہے۔ لعنت ہے ایسی زندگی پر۔ اوپر سے یہ جون کی آخری تاریخوں کی چلچلاتی دھوپ اور گرمی میں ڈیوٹی پر جانا، وہ بھی جب چھ ماہ بعد ملنے والی چھٹی یکایک منسوخ ہو جائے، کس دل گردے سے میں نے اپنی واپسی کی تیاری کی ، یہ میں ہی جانتا تھا۔
٭٭٭٭٭
میں جو ایک ہفتہ گھر گزار کر آیا تھا تو اپنی سدھ بدھ ہی بھول گیا تھا۔میں نے تو ہفتے بھر سے خبریں بھی نہیں سنی تھیں۔ اگلے دن صبح سویرے یونٹ پہنچا تو غیر معمولی ہلچل کا احساس ہوا۔ اپنے کمرے میں پہنچ کر میں نے سامان پلنگ پر ڈھیر کیا اور صوبیدار میجر کرامت کا سامنا کرنے سے پہلے ایک آدھے سیگریٹ کے ذریعے حواس بحال کرنے کا ارادہ کیا۔ مگر ابھی سیگریٹ سلگایا ہی تھا کہ سپاہی اسلم جان نے زوردار انداز سے دروازہ کھٹکھٹایا اور جواب کا انتظار کیے بغیر سیدھا اندر آ کرایک زوردار سیلوٹ جھاڑا۔
’آپ آ گئے سر!‘،
’ہاں بولو کیا بات ہے‘، میں نے بد مزاجی سے پوچھا۔
’سر وہ آپ کو میجر صاب نے یاد کیا ہے‘۔
اور یوں جس نحوست سے میرے دن کا آغاز ہوا اس نے پھر اگلے کئی دنوں تک ساتھ نہ چھوڑا۔ صبح صبح چائے اور سیگریٹ کے بجائےمیں اپنی وردی کی نادیدہ سلوٹیں درست کرتا، میجر صاحب کے کمرے کے باہر، بلاوے کا منتظر تھا۔ صوبیدار عبدالرحیم اور نائب صوبیدار سعید بھی وہاں موجود تھے۔ انہی سے مجھے تازہ ترین خبریں ملیں۔ فوج نے اسلام آباد میں آپریشن سائلنس کا ارادہ کر لیا تھا۔ اور اسی چکر میں اس وقت ہم سب میجر صاحب کے کمرے کے باہر، بریفنگ حاصل کرنے کے لیے کھڑے تھے۔
ہم سب کی تعیناتی لال مسجد پر ہوئی تھی۔ نجانے کیا کھڑاگ کھڑا کر دیا تھا مولویوں نے۔ اور وہ بھی عین جولائی کے مہینے میں۔ مجھے معاملے کی تفصیلات جاننے سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ مجھے تو صرف اتنا پتہ تھا کہ مجھے لال مسجد کا محاصرہ کرنے کا آرڈر ہے، اور میں نے وہاں سے کسی کو نکلنے نہیں دینا۔ چلچلاتی دھوپ میں جب ساری مخلوق گھروں کے اندر آرام کر رہی تھی، میں اپنے جوانوں سے مسجد کے گرد خاردار تار وں کا جال بچھوا رہا تھا۔شام تک ہم نے مسجد کے گرد مختلف مقامات پر تین مورچے بھی بنا لیے تھے اور جب میجر صاحب فوجی جیپ میں تیاریوں کا جائزہ لینے کے لیے لال مسجد پہنچے، تو میں اور میرے سپاہی، اپنے مورچوں میں پوزیشنیں سنبھالے، مستعد کھڑے تھے۔
’صوبیدار صاحب! کوئی مسئلہ تو نہیں ہوا آج؟‘، انہوں نے جیپ میں بیٹھے بیٹھے ہی مجھ سے رپورٹ طلب کی۔
’نہیں سر! ہم نے پورے کمپاؤنڈ کے گرد تار لگا دیے ہیں۔ تین مورچے آج بن گئے ہیں سر، ان شاء اللہ تین اور مسجد کی پچھلی سائڈ پر کل بنائیں گےسر‘۔
’ہوں……ٹھیک ہے۔خار دار تار مسجد اور مدرسے دونوں کے گرد لگائی ہے؟‘،
’جی سر! جیسے آپ نے کہا تھا سر، ایسے لگائی ہے کہ کوئی بھی ہماری نظروں میں آئے بغیر نکل نہیں سکتا، سر!‘،
’گُڈ، گُڈ…… اور جوان ٹھیک ہیں؟‘
’جی سر‘،
’کوئی مسئلہ تو نہیں؟‘،
’نہیں سر‘،
’مورال کیسا ہے؟‘،
’ہائی سر!‘
’ٹھیک ہے…… صابر! چلو پھر‘، میجر صاحب نے ڈرائیور کو مخاطب کر کے کہا۔ میں فوراً گاڑی سے ایک قدم پیچھے ہٹا اور ہاتھ ماتھے تک لے جا کر میجر صاحب کو سیلوٹ کیا:’سر!‘۔ میجر صاحب نے میری طرف دیکھے بغیر گردن کو ہلکا سا خم دے کر میرے سیلوٹ کا جواب دیا اور ان کی جیپ آگے بڑھ گئی۔
٭٭٭٭٭
اگلے چند دن ہمارا یہی معمول رہا۔ محاصرے کی تمام تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔مسجد کے طلبہ مسجد کی چھت اور دیواروں سے ہمیں دیکھتے رہتے اور ہم اپنے مورچوں سے ان کی ہر ہر نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ روز انہ کے حساب سے مسجد کے گرد تعینات فوجی نفری میں اضافہ ہو رہا تھا۔ مسجد کے بڑے مولویوں کے ساتھ حکومت کے مذاکرات چل رہے تھے، مسجد کے اندر سے بھی تقریروں اور نعروں کی آوازیں آتی رہتی تھیں۔ لیکن سب سے زیادہ کوفت مجھے تب ہوتی جب اندر سے ’اللہ اکبر‘شریعت یا شہادت ‘ کے نعرے سنائی دیتے۔ نجانے کیوں مجھے ایسا لگتا جیسے کسی نے میری وہاں موجودگی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہو۔ میں یہاں اس شدید گرمی میں، اس مسجد کے باہر کیوں ڈیوٹی دے رہا ہوں؟ ماں جی کی تمسخر اڑاتی آواز میرے ذہن میں گونجنے لگتی:’تو کادے نال جہاد کرے گا؟ مسلماناں دے نال؟‘۔
ان مسجد والوں سے میرے ملک کی سالمیت کو خطرہ ہے، میں ان سے جہاد کر رہا ہوں۔ ان میں انڈیا کے ایجنٹ شامل ہیں، یہ دہشت گرد ہیں جو میرے ملک کے نظام کو درہم برہم کرنا چاہتے ہیں۔میں اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا مگر اندر لاؤڈ سپیکر پر لگائے جانے والے نعرے میرا سارا اطمینان درہم برہم کر دیتے۔ ’ہم کیا چاہتے ہیں؟ ہمارا مقصد کیا ہے؟‘، اندر سے آواز آتی ، اور پوری مسجد ’شریعت یا شہادت‘ کے نعروں سے گونج اٹھتی۔ آخر میں نے ان آوازوں پر کان دھرنا چھوڑ دیے۔ آخر مجھے اتنا سوچنے کی ضرورت بھی کیا تھی، سادہ سی بات تھی، مجھے تو جو آرڈر ملے گا میں وہی کروں گا۔
محاصرہ کیے ہوئے ہمیں پانچواں دن تھا۔ پولیس، رینجرز، فوج سبھی موجود تھے۔دوپہر دو بجے کا وقت تھا جب سپاہی اسلم جان نے آ کر بتایا کہ صوبیدار میجر صاحب سب کو مورچوں کے اندر رہنے کا آرڈر دے رہےہیں۔ تیز دھوپ میں باہر نکلنے کی خواہش بھی کسے تھی۔ مجھے تو ان لڑکوں پر حیرت ہوتی تھی جو سارا سارا دن تپتے سورج کے نیچے، مسجد کی چھت پر کسی چوکس شیر کی طرح ہم پر نظریں جمائے بیٹھے رہتے تھے۔بہر حال، ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ فائرنگ کی آواز نے ہمیں چونکایا۔ خدا جانے فائرنگ کس جانب سے شروع ہوئی تھی، لیکن اس وقت گولیوں کا سنجیدہ تبادلہ ہو رہا تھا۔اتنے میں پولیس آگے بڑھی اور اس نے آنسو گیس کی شیلنگ کرنا شروع کر دی۔ میرا خیال تھا کہ مسجد کے لونڈے اب حالات کو سنجیدہ رخ اختیار کرتے دیکھ کر جلدی ہار مان جائیں گے، لیکن وہاں سے وقفے وقفے سے کچھ نہ کچھ مزاحمت مسلسل ہو رہی تھی۔ شام تک حالات ٹھیک ٹھاک گھمبیر ہو چکے تھے۔ اطلاعات کے مطابق ایک صحافی اور ایک راہگیر کے علاوہ مسجد کے چار طلبہ مارے گئے تھے۔اگلے دن جی سکس سیکٹر میں کرفیو لگ گیا تھا۔
اگلی صبح ناشتہ کے بعد چائے کا دور چل رہا تھا جب میجر صاحب کی جیپ ہمارے مورچے کے عین سامنے آ کر رکی۔مورچے میں اس وقت نائب صوبیدار سعید، سپاہی اسلم جان، سپاہی وسیم اور میں خود تھا۔ میجر صاحب کو دیکھ کر ہم چاروں جلدی سے اپنی چائے کی پیالیاں چھوڑ چھاڑ، مورچے سے باہر نکل آئے۔ کھٹ، کھٹ، کھٹ، کھٹ، یکے بعد دیگرے چار سیلوٹ کیے گئے۔ میجر صاحب جیپ سے اتر کر سیدھا میری طرف آئے اور میرے پاس رک کر میرا کندھا تھپتھپا کر بولے:
’اور صوبیدار صاحب! سب ٹھیک چل رہا ہے؟‘،
’سر!‘، میں نے جلدی سے ایک اور سیلوٹ جھاڑا،’جی سر!‘۔
میجر صاحب مورچے کے اندر داخل ہو گئے، اور کرسی سے جھولتی دور بین اٹھا کر مسجد کی چھت پر نظریں گاڑ دیں۔ ایک دو منٹ تفصیل سے جائزہ لینے کے بعد انہوں نے آنکھوں سے دور بین ہٹائی اور مسجد کی جانب اشارہ کر کے پوچھا،’اُدھر مورال کیسا ہے؟‘۔
’سر! ادھر تو کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا سر!، سب کچھ پہلے روز جیسا ہی لگتا ہے‘، میں نے جواب دیا۔
’ہوں…… اور جوانوں کا مورال کیسا ہے؟‘، میجر صاحب کا لہجہ خشک تھا۔
’ہائی ہے سر‘، میں گھبرا کر بولا، اب یہ تو بتانے سے رہا کہ ایک ہفتے سے اس دھوپ اور گرمی میں بیٹھے ہم سب کس قدر بیزار ہو چکے تھے۔
’ہوں…… ایسا ہے……کہ آج لیفٹیننٹ کرنل ہارون کمانڈ سنبھال رہے ہیں آپریشن کی۔ ان کے جوان آج یہاں پہنچ جائیں گے‘۔
’جی سر!‘،
’تم لوگ اپنی پوزیشن برقرار رکھو گے‘،
’جی سر!‘،میں کسی روبوٹ کی طرح بولا۔
’تمہارے لیے آرڈر یہ ہے کہ جو کوئی بھی مسجد سے نکلنے کی کوشش کرے، اسے گولی مار دو‘۔
’جی سر!‘، میں نے ایک بار پھر ذہن میں فیڈ کیا ہوا جواب دہرا دیا۔
’جو کوئی بھی نکلے…… مگراندر تو عورتیں اور بچے بھی ہیں‘، مجھے نائب صوبیدار سعید کی بڑبڑاہٹ سنائی دی۔ غالباً میجر صاحب بھی سن چکے تھے۔ تبھی تو انہوں نے سردمہری سے سعید کی طرف دیکھا اور ایک بار پھر آرڈر دہرادیا:
’عورتیں ہوں یا بچے، اندر سے جو بھی نکلے اسے گولی مار دو، سمجھ گئے؟…… یہ چیف صاب کا ڈائریکٹ آرڈر ہے!‘،
’جی سر!‘،اس بار آرڈر سمجھنے میں کسی نے کوتاہی نہیں کی، ہم چاروں بیک آواز بولے۔
٭٭٭٭٭
شام تک کرنل ہارون اپنے ڈیڑھ سو ایس ایس جی کمانڈوز کے ساتھ آ موجود ہوئے۔لال مسجد کے گرد اس وقت بھاری تعداد میں فوج، رینجرز اور پولیس موجود تھی۔ سکیورٹی فورسز نے مسجد اور اس سے ملحق مدرسے کو پوری طرح گھیرے میں لے رکھا تھا۔ فورسز کے کھینچے خاردار تاروں کے حصار کے اس پار، ایسا محسوس ہوتا تھا گویا پورے ملک کا پریس اور میڈیا جمع ہو گیا ہو۔ رنگا رنگ قسم کے چینلز کی گاڑیاں اور ان کے رپورٹر موجود تھے۔ سارا دن مسجد کے اندر موجود مولویوں سے مذاکرات ہوتے رہے تھے، کبھی لاؤڈ سپیکر پر اور کبھی فونوں پر۔ لگتا تھا آج کچھ طے ہو ہی جائے گا۔ ہم سب پر امید تھے کہ اب جلد ہی اس ڈیوٹی سے نجات ملے گی اور یونٹوں میں واپسی ہو گی۔ حکومت نے مسجد کے اندر موجود لوگوں کو دوپہر تین بجے تک ہتھیار ڈالنے کی مہلت دی تھی۔ آج ہماری ڈیوٹی مورچوں کے بجائے مسجد کے دروازوں کے باہر تھی تاکہ ہتھیار ڈالنے والوں کو اپنی نگرانی میں تحویل میں لے سکیں۔مہلت کا وقت ختم ہوا اور کسی قسم کی پیش رفت کے آثارنہیں تھے۔ وقت میں مزید آدھے گھنٹے کی توسیع کر دی گئی۔
شام چھ بجے کے قریب مدرسے کی طالبات اور بچے باہر نکلنا شروع ہوئے۔ میں نے سپاہیوں کو مزید چوکس رہنے کی ہدایت کر دی۔ ایک تو ان کٹر مذہبی لوگوں کی عورتوں کا بھی کچھ پتہ نہیں ہوتا، کس نے اپنے برقعے میں خود کش جیکٹ پہن رکھی ہو، ہمیں کیا پتہ۔ مگر ایک سپاہی کے لیے اس کے افسر کے آرڈر کی قیمت اس کی جان سے بڑھ کر ہوتی ہے، اسی لیے تو ہم یہاں کھڑے تھے۔ اور یونہی تو نہیں جنگیں جیتی جاتیں ۔ سو اپنے پاک وطن کی خاطر، ہم بھی جان ہتھیلی پر لیے، بندوقیں تانے چوکس و مستعد کھڑے تھے۔ مدرسے کی لڑکیاں قطار بنا کر، اپنا تھوڑا تھوڑا سامان اٹھائے باہر نکل رہی تھیں۔ ان میں ہر عمر کی لڑکیاں تھیں۔ پانچ، چھ سال کی بچیوں سے لے کر برقعہ پوش عورتوں تک، نجانے اندر ان کو کیسی تربیت دے رہے تھے، کیا سکھا پڑھا کر ان بےچاریوں کو دہشت گرد بنا رہے تھے۔ میرے سپاہیوں نے ان کو بحفاظت فوجی گاڑیوں میں بٹھا کر روانہ کر دیا۔ابھی ان کو پہلے پوچھ گچھ کے لیے لے جایا جانا تھا، اس کے بعد رشتے داروں کے حوالے کرنا تھا۔
رات نو بجے کے بعد مسجد میں سے مزید افراد نکلنا بند ہو گئے۔ گو کہ مہلت کے وقت میں مزید توسیع کر دی گئی تھی، لیکن اندر موجود طلبہ و طالبات شاید اندر ہی جانیں قربان کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ حالانکہ چیف صاحب نے ٹی وی پر آ کر کہا تھا کہ انہیں امن و سلامتی سے نکلنے کا راستہ دیا جا رہا ہے، نکل گئے تو ٹھیک ورنہ مارے جائیں گے، پھر بھی شاید وہ ابھی مزید حکومت و فوج کا صبر آزمانا چاہ رہے تھے۔ دس بجے ڈیوٹی تبدیل ہوئی تو میں نے بھی بندوق کندھے سے لگائی اور اپنے مورچے کی جانب بڑھ گیا۔ ابھی خار دار تار کی باؤنڈری پار نہیں کی تھی کہ نائب صوبیدار سعید مجھ سے آ ملا۔ چہرے سے تھکن اور پریشانی عیاں تھی۔
’آج مسجد سے کتنے لوگ نکلے ہوں گے سر؟‘، اس نے پوچھا۔
’سو، ڈیڑھ سو……شاید دو سو‘، میں نے لاپرواہی سے جواب دیا۔
’اندر کتنے لوگ تھے؟‘،
’تیرہ سو کے لگ بھگ ہیں میرے خیال میں‘ ۔
’تیرہ سو! پھر تو آج ان میں سے آدھے بھی نہیں نکلے‘، وہ بڑبڑایا۔
’آدھے! ان کا دسواں حصّہ بھی نہیں نکلا، بہت ڈھیٹ قوم ہے یہ‘، میں بولا،’جانتے ہو یہاں ہماری کتنی نفری ہے؟‘، نجانے کیوں میں اس سے پوچھ بیٹھا تھا۔
’نہیں…… کتنی ہے؟‘،
’ پندرہ ہزار‘، میں سپاٹ لہجے میں بولا۔ میں نے اس کی آنکھوں کو تحیر آمیز بے یقینی سے پھیلتے دیکھا۔
’تیرہ سو لڑکے لڑکیوں کے لیے پندرہ ہزار کی فورس!‘، اس کے انداز سے مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ مسجد کے اندر موجود جنگجوؤں اور دہشت گردوں کے لیے ہمدردی محسوس کر رہا تھا۔’اوئے تمہیں کیا پتہ اندر انہوں نے کیسا کیسا اسلحہ جمع کر رکھا ہے۔ وہ مولوی عبدالرشید کہہ رہا تھا کہ ہمارے پاس صرف ۱۴ کلاشنکوفیں ہیں، مگرمسجد کے تہہ خانوں میں جو انڈیا کا دیا ہوا اسلحہ رکھا ہوا ہے، اس کا اس نے ذکر نہیں کیا۔ کیا کچھ نہیں ہے، آر۔پی۔جی راکٹ، مائنیں،خود کش جیکٹیں،رائفلیں، مشین گنیں، سنائپر گنیں، راکٹ لانچر، نائٹ ویژن وغیرہ، سب کچھ ہے۔ گرنیڈ اور بارود کے تو ڈھیر ہیں ڈھیر۔ یہ چاہیں تو مہینہ بھر ہمارا مقابلہ کر سکتے ہیں آرام سے‘، میں نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا۔
’اتنا کچھ… …‘اس نے مجھے ایسے دیکھا جیسے یقین کرنا چاہتا ہو، مگر یقین نہ آ رہا ہو،’مگر پھروہ یہ سب استعمال کیوں نہیں کر رہے‘، آخری جملہ وہ اتنی آہستگی سے بولا کہ میں بآسانی نہ سننے کا تاثر دے کر آگے بڑھ گیا۔
اگلے دن بھی ہم مسجد میں سے لوگوں کے نکلنے کا انتظار کرتے رہے۔ کچھ نکلےبھی مگر ابھی بھی اندر بڑی تعداد میں غیر مسلّح عورتیں ، بچے اور طلبہ موجود تھے۔دن کے دوران مسجد کے طلبہ کے ساتھ گاہے بگاہے فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا۔ میں نے مسجد کی چھت اور دیواروں سے کتنے ہی لڑکوں کو زخمی ہو کر گرتے دیکھا۔ نجانے کس مٹی کے بنے تھے یہ لڑکے، کہ گولیاں ان پر برس رہی تھیں، انہیں محفوظ راستوں سے نکلنے کی پیشکشیں ہو رہی تھیں، مگر پھر بھی عقل کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اپنی ہٹ دھرمی پر قائم تھے۔ ادھر ہمارا بھی نقصان کر رہے تھے۔ سنا تھا ایک گولی لیفٹیننٹ کرنل ہارون کو بھی لگی تھی، انہیں فوری طور پرہیلی کاپٹر میں سی ایم ایچ پنڈی منتقل کر دیا تھا۔
یہ ۷ جولائی کی شام تھی۔مذاکرات ناکام ہو گئے تھے۔ مسجد کے مولوی اور ان کے شاگرد ہتھیار ڈالنے پر تیار نہیں تھے۔ حکومت کے رویے میں بھی کوئی لچک نہیں تھی۔ چیف صاحب بار بار کہہ رہے تھے کہ یہ سب مارے جائیں گے۔ مگر مسجد والے بھی اپنے موقف پر جمے ہوئے تھے، امامِ کعبہ نے بھی چیف صاب کی تائید کی تھی، ان کو امامِ کعبہ کا بھی خیال نہیں تھا۔سارا دن کسی قسم کی پیش رفت کا انتظار کرنے کے بعد شام کو چیف صاحب نے آخری وارننگ جاری کی۔ پولیس اور رینجرز پیچھے ہٹ گئے اور میں نے اپنے جوانوں سمیت آگے بڑھ کر پوزیشنیں سنبھال لیں۔ رات ایک بجے کے بعد باقاعدہ آپریشن کا آغاز کیا۔ ہم نے مسجد کی بیرونی دیوار میں مائنیں لگا کر سوراخ کرنے شروع کیے۔ اندر سے مزاحمت جاری تھی۔ رات ڈھائی بجے کے بعد ایک عجیب سی ہلکی سی آواز سنائی دینا شروع ہوئی۔ پہلے تو میں نے توجہ نہ دی لیکن کچھ دیر بعد سپاہی اسلم نے بھی وہ آواز نوٹ کی۔
’ ایسا لگ رہا ہے جیسے کوئی مکھی مستقل بھنبھنا رہی ہو سر، عین ہمارے سروں کے اوپر‘، وہ بولا۔ اس کی بات سن کر میں نے بے ساختہ آسمان کی طرف دیکھا۔ رات کے تین بج رہے تھے، اس وقت کون سی مکھی بھنبھنا رہی ہے۔ لیکن یکایک میرے ذہن میں جھماکا ہوا۔ یہ مکھی کی نہیں ڈرون کی آواز تھی، باجوڑ میں تعینات رہنے والے صوبیدار عبد الرحیم نے مجھے بتایا تھا کہ وہاں مکھی کی آواز والے ڈرون ہوتے تھے، کبھی کبھی۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی تو میس میں صوبیدار میجر کرامت بھی ذکر کر رہے تھے کہ وانا میں نیک محمد نامی دہشت گرد کمانڈر اسی سے مارا گیا تھا۔ ڈرون کے ہمارے ساتھ ہونے کے احساس سے میرے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ اگر ان مولویوں کے پیچھے بھارت تھا تو امریکہ اپنا یار تھا، اس نے بھی ہمیں بہت کچھ دے رکھا تھا اور بہت کچھ دینے کا وعدہ تھا۔
صبح تک ہم بیرونی دیوار گرانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ لیکن یکایک آپریشن تعطل کا شکار ہو گیا۔ پہلی خبر یہ ملی کہ لیفٹیننٹ کرنل ہارون الاسلام ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گئے تھے۔ غم وغصّہ سے ہمارا برا حال تھا۔ اب ان دہشت گردوں کا بچ کر نکلنا محال تھا۔ اب انہیں مزید کوئی ڈھیل نہیں دی جا سکتی تھی۔ اڑتی اڑاتی ہمیں بھی ملی تھی کہ رات کو فوج نے ڈرون کے ذریعے مسجد کے اندر کے حالات معلوم کر لیے تھے، تصویریں بھی اتاری تھیں۔ اب ان معلومات کی بنیاد پر آئندہ کا پلان طے ہونا تھا۔
۱۰ جولائی کی صبح ہم نے مسجد پر تین جانب سے حملہ کیا۔ ایس ایس جی کمانڈوز نے پہلی منزل بہت تیزی سے کلیئر کروا لی تھی۔ میں اپنے جوانوں کے ساتھ مسجد کے بیرونی احاطے کو کلئیر رکھنے اور کمانڈوز کی ہر ممکن مدد کرنے پر مامور تھا۔ مسجد کے اندر جا کر مسجد اور مدرسے کو جنگجوؤں سے پاک کرنے کا کام تو کرنل صاحب شہید کے ایس ایس جی جوانوں کے سپرد تھا۔ ان کو بھی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ جب اندر موجود جنگجوؤں کے پاس اسلحہ ختم ہو گیا تو انہوں نے پتھراؤ کرنا شروع کر دیا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جنگجوؤں نے بھرپور تیاری کر رکھی تھی ہمارے مقابلے کی۔ اور ابھی تو تہہ خانوں میں موجود جدید اسلحہ بھی تھا، وہ شاید انہوں نے آخر میں استعمال کے لیے سنبھال رکھا تھا۔
لیکن اللہ کے فضل سے اس کی نوبت ہی نہ آئی۔ ہمارے شیر دل کمانڈوز نے ۱۶ جوانوں کی قربانی دے کر یہ آپریشن مکمل کیا۔ مسجد اور مدرسہ جنگجوؤں سے پاک ہو چکا تھا۔ مولوی عبدالرشید مارا جا چکا تھا۔ اس کا بھائی عبدالعزیز زندہ گرفتار ہو گیا تھا۔ اور گو کہ ہم نے بھاری نقصان اٹھائے تھے، تقریباً ۵۰ کے قریب جوان شہید ہوئے تھے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد اس سے دگنی تگنی تھی، مگر ہم یہ جنگ جیت چکے تھے۔
٭٭٭٭٭
۱۱ جولائی کو میں نائب صوبیدار سعید کے ساتھ مسجد کے اندر داخل ہوا۔مسجد کی ہر دیوار اور چھت گولیوں سے چھلنی تھی۔ وسیع احاطہ خون سے رنگین تھا۔ احاطے میں جا بجا شیشے کے ٹکڑے اور کہیں کہیں استعمال شدہ گولیوں کے شیل بکھرے ہوئے تھے۔ مسجد کی سیڑھیاں چڑھ کر اندرونی ہال میں داخل ہونے لگے تو سعید قدرے ٹھٹک کر رک گیا۔ میں نے مڑ کر اس کی جانب دیکھا۔ وہ آخری سیڑھی پر گو مگو کے عالم میں جھکا ہوا تھا۔ اس کا ایک ہاتھ بوٹ کے تسموں پر تھا۔ میں اس کی جھجک سمجھ سکتا تھا۔وہ امام مسجد کا بیٹا تھا۔ اس کا گھر گاؤں کی مسجد کے احاطے کے اندر ہی تھا۔ ساری زندگی اپنے گھر میں داخل ہونے کے لیے بھی وہ مسجد کے صحن کے باہر جوتے اتارنے، اور پھر جوتیاں ہاتھ میں اٹھا کر گھر میں داخل ہونے کا عادی تھا۔ اس وقت مسجد میں داخل ہوتے ہوئے جوتے اتارنے کی اس کی خواہش قابلِ فہم تھی۔ لیکن اس وقت اس کی اس حرکت نے مجھے شدید ناگواری اور کوفت میں مبتلا کر دیا تھا۔اس وقت ہم کوئی جمعہ کی نماز پڑھنے تو نہیں آئے تھے، بلکہ فاتح کی حیثیت سے مفتوحہ علاقے میں داخل ہو رہے تھے۔
’کیا کر رہے ہو؟ ایسے ہی آ جاؤ، ابھی ضرورت نہیں ہے‘، میں نے بیزاری سے کہا۔ وہ چپ چاپ میرے پیچھے چل پڑا۔ اندر ہر طرف پیرا ملٹری سٹاف بکھرا ہوا تھا۔ لاشیں اٹھائی جا رہی تھیں، بارودی سرنگیں پھٹنے سے جو دیواریں گر گئی تھیں، ان کا ملبہ ہٹایا جا رہا تھا۔ ایک ایک کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے ہم تہہ خانوں کی طرف آ گئے۔ یہاں ایک ناقابلِ برداشت بو پھیلی ہوئی تھی۔اس طرف ابھی کسی کو آنے کی اجازت نہیں تھی، یہاں سے ابھی لاشیں نہیں اٹھائی گئی تھیں۔ سیڑھیاں اترتے ہوئے اچانک مجھے محسوس ہوا کہ میں اکیلا ہوں۔ سعید نجانے پیچھے کہاں رہ گیا تھا۔ میں اس کا انتظار کیے بغیر سیڑھیاں اتر کر نیچے چلا آیا۔ پہلے ہی کمرے میں داخل ہوا تو پاؤں کسی نرم چیز سے ٹکرایا۔ میں نے نیچے دیکھا اور خوف و دہشت سے منجمد ہو گیا۔ وہ کسی نوجوان کی لاش تھی، لیکن اس قدر جلی ہوئی تھی کہ اس کے جسمانی اعضاء کی شناخت کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔ اس کے چہرے کے تمام اعضاء گویا پگھل کر آپس میں مدغم ہو گئے تھے۔ مجھے شدید قسم کی کراہت اور گھن کا احساس ہوا۔ میں تیزی سے وہاں سے ہٹا، مگر باہر نکلنے کی بجائے تہہ خانے کے مرکزی ہال کی طرف نکل آیا۔
یہاں جا بجا لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ بعض کے اعضاء نا مکمل تھے۔ کوئی سر سے محروم تھا تو کسی کی ٹانگیں نہیں تھیں۔ مگر ایک چیز ان میں یکساں تھی۔ وہ سب پہلی لاش کی طرح پگھلی ہوئی تھیں۔ ان میں سے کسی کو بھی پہچانا نہیں جا سکتا تھا۔ میں دیکھنا نہیں چاہتا تھا، میں وہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا، لیکن نجانے کیوں دیکھتے رہنے پر مجبور تھا۔ بدبو سے میری طبیعت متلا رہی تھی اس کے باوجود میں وہاں سے نکل نہیں پا رہا تھا۔ ایک بات میں جانتا تھا، کہ کوئی اسلحہ، کوئی بندوق، اور کوئی گولی ایسی نہیں ہوتی جو انسان کو موم کی طرح پگھلا دے۔ ہاں ایک چیز ایسی تھی جو آدمی کی جلد کو پگھلا کر بہا سکتی تھی۔ سفید فاسفورس۔ مگر کیمیکل ہتھیار استعمال کرنا بین الاقوامی اصول و ضوابط کے مطابق ناجائز تھا۔ پھر نجانے یہاں کیا ہوا تھا۔
میں تہہ خانے سے یوں باہر نکلا جیسے کوئی شرابی شراب خانے سے نکلتا ہے۔ چکراتے سر اور منتشر ذہن کو سنبھالنے کے لیے مجھے شدت سے تازہ ہوا کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔ میں تیزی سے مسجد کے مرکزی ہال کی طرف بڑھا جہاں سے باہر کی طرف راستہ جاتا تھا۔ مگر سامنے سے پیرا ملٹری اسٹاف ایک سٹریچر اٹھائے چلے آ رہے تھے۔ انہیں راستہ دینے کے لیے میں راہداری کی دیوار سے لگ کر کھڑا ہو گیا۔ میرے بوٹ کےنیچے کوئی چیز چرچرائی تھی۔ میں نے جھک کر دیکھا۔ وہ قرآن پاک کا ایک جلا ہوا، کٹا پھٹا نسخہ تھا۔ میرے ذہن میں یکایک ماں آ گئی۔ فجر کے وقت صحن میں بیٹھی، ہل ہل کر قرآن پاک کی تلاوت کرتی ماں ۔ پھر قرآن پاک کو احترام سے جزدان میں لپیٹ کر، چومتی ہوئی، آنکھوں سے لگاتی ہوئی ماں ۔ میرا جی چاہا کہ کہ میں وہ جلا ہوا نسخہ اٹھا کر کسی اونچی جگہ پر رکھ دوں۔ ادھر ادھر دیکھا، مگر کوئی مناسب جگہ نظر نہ آئی۔ میں سر جھٹکتا تیزی سے آگے بڑھ گیا۔
تمام لاشوں کو مرکزی ہال میں جمع کیا جا رہا تھا۔ پھر یہاں سے ان لاشوں کی شناخت اور ورثاء کے سپرد کرنے کے مراحل طے کیے جانے تھے۔ ہسپتال کا جو عملہ ابھی چند لمحوں پہلے میرے سامنے سے گزر ا تھا، وہ اب سٹریچر پر اٹھائی لاش کو دیگر لاشوں کے ساتھ رکھ رہے تھے۔ میں نے نوٹ کیا کہ یہ لاش دیگر لاشوں کی نسبت بہت چھوٹی تھی۔ اس کے پاس سے گزرتے ہوئے یونہی میں نے اس کے چہرے پر موجود چادر ہٹاکر دیکھا، وہ پھولے پھولے گالوں والی اک چھوٹی سی بچی تھی۔ اس کے چہرے کی گلابی اب موت کی سفیدی میں ڈھل گئی تھی، مگر اس کے باریک باریک ہونٹ کسی ادھ کھلی کلی کی طرح مسکرا رہے تھے۔ نجانے کس جماعت میں پڑھتی ہو گی یہ بچی……؟ میرے ذہن میں سوال پیدا ہوا۔ اور مجھے لگا جیسے وہ بچی اچانک کھل کر مسکرا دی ہو، مجھے اس کی آواز آئی، ’تایا جی! میرے لیے نورانی قاعدہ ضرور لانا، میں دادی سے پڑھوں گی‘۔ میں نے گھبرا کر چادر کا سرا چھوڑ دیا۔
٭٭٭٭٭
میں اپنے مورچے کے پاس پہنچ چکا تھا۔اندر داخل ہوا تو سعید آنکھیں بند کیے کرسی پر نیم دراز تھا۔ میں اس پر ایک نظر ڈال کر مورچے کی کھڑکی کے پاس جا کھڑا ہوا۔ میں نے باہر نظر ڈالی۔ آج موسم میں گرمی کی شدت پہلے سے کم تھی۔ اچھی خوشگوار ہوا بھی چل رہی تھی۔ تبھی ایک تتلی نجانے کہاں سے اڑتے اڑتے کھڑکی میں آ بیٹھی۔ میں اس کے پروں کے رنگوں کو دیکھنے لگا۔ شاید یہ دھیان بٹانے کی ایک لا شعوری کوشش تھی۔ وہ تھی بھی بہت خوش رنگ ۔ چند منٹ تتلی کو تکتے رہنے کے بعد میں نے مڑ کر سعید کی طرف دیکھا۔ وہ آنکھیں کھولے میری طرف ہی دیکھ رہا تھا۔ شاید میرے کچھ کہنے کا منتظر تھا۔
’کیا بکواس حالت بنا رکھی ہے تم نے؟‘، میں نے درشتگی سے پوچھا۔ اس نے سر جھکا لیا، مگر میں دیکھ چکا تھا، اس کی آنکھیں آنسوؤں سے نم تھیں۔
’ظلم… …بڑا ظلم کیا ہے ہم نے افضل‘، وہ میری طرف دیکھے بغیر بولا۔
’کیا ظلم کیا ہے ہم نے؟ افسروں کا حکم مانا ہے، آرڈر کی تعمیل کی ہے‘، میں زور سے بولا۔
’ان کے آرڈر غلط تھے، انہوں نے ظلم کا حکم دیا تھا، زیادتی کرنے کا آرڈر دیا تھا‘، وہ اسی طرح سر جھکائے جھکائے بولا۔
’بکواس بند کرو! وہ افسروں کے آرڈر تھے، ہمارا کام آرڈر پورا کرنا ہے، یہ سوچنا نہیں کہ آرڈر صحیح ہے یا غلط‘،
’وہ افسروں کے آرڈر تھے، خدا کے تو نہیں‘۔
’افسروں کے آرڈر ہی ہمارا دین ایمان ہیں۔ ہم فوجی ہیں۔ ہمیں اسی چیز کے پیسے ملتے ہیں کہ ہمیں جو آرڈر دیا جا رہا ہے، اسے بے چوں و چراں پورا کریں۔ اور تو سعید… …تو اب امام مسجد کا بیٹا بن کر سوچنا چھوڑ دے، اور نائب صوبیدار سعید ملک بن کر سوچا کر۔ ورنہ نقصان اٹھائے گا۔ اس فوج کی نوکری سے ہی تمہاری روزی روٹی بندھی ہوئی ہے۔ مت بھولو کہ تمہاری چار بہنیں گھر میں بن بیاہی بیٹھی ہیں اور تمہارا باپ امام نور دین، شوگر کا مریض ہے۔ اس لیے اپنے دماغ کو کم استعمال کیا کرو اور جوآرڈر ملے ، آنکھیں بند کر کے، اسے پورا کیا کرو۔ اگر تم نے اپنے دل سے ان مولویوں کی ہمدردی نہ نکالی تو یاد رکھو! تمہارا انجام ان سے بھی بدتر ہو سکتا ہے‘۔ میں نجانے اسے کیا باور کرانا چاہ رہا تھا، لیکن اس وقت اس کے سامنے میں پھٹ پڑا تھا۔
وہ چپ چاپ میری تقریر سنتا رہا۔ پھر تھکے تھکے انداز میں کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ میز پر رکھی اپنی ٹوپی اٹھا کر سر پر رکھی، بندوق کندھے سے لگائی، پھر میری طرف مڑا اور ہاتھ سر تک لے جا کر، ایڑیاں ملا کر مجھے سیلوٹ کیا :’سر!‘۔ اور شکست خوردہ سے انداز میں مورچے سے باہر نکل گیا۔
میں کھڑکی سے اسے جاتا دیکھتا رہا۔ ایک تو پہلے ہی مسجد کے اندر کے مناظر دیکھ کر طبیعت پر ایک بوجھ تھا، اوپر سے سعید کی باتوں نے مزید میرا دماغ گھما دیا تھا۔’الو کا پٹھا، بے غیرت ……‘، میں منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا اسے کوس رہا تھا۔’رہے گا دیہاتی کا دیہاتی‘۔ آخر وہ یہ کیوں نہیں سوچتا تھا کہ افسروں نے جو بھی حکم دیے، ہماری اور ملک کی بہتری کے لیے ہی دیے تھے۔ یہ دہشت گرد ،جنگجو مولوی، ان کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ ان کی اپنی کرنی کا پھل تھا، ان کے ساتھ یہی کچھ ہونا چاہیے تھا۔ میں نے غصّے سے اس مٹی کی بوری کو ایک مکّا رسید کیا جس سے مورچے کی دیوار بنی ہوئی تھی۔ میرے مکّے سے پریشان ہو کر بوری پر بیٹھی تتلی ذرا سا اڑی، پھر دوبارہ اپنی جگہ آ بیٹھی۔
’میں ایک فوجی ہوں، میرا کام افسروں کے آرڈر کی تعمیل ہے۔ میں اس وطن کا محافظ ہوں‘۔ میں بلند آواز میں بڑبڑایا۔تتلی اب اڑنے کے لیے پر تول رہی تھی۔ شاید میری آواز اور حرکتیں اسے پریشان کر رہی تھیں۔ یکایک مجھے اس کے رنگ چبھنے لگے، مجھ پر شدید بیزاری اور کوفت طاری ہو رہی تھی۔ تتلی تھوڑا سا اڑی، لیکن اسی لمحے میرا بھاری ہاتھ اس پر آ پڑا۔ میں نے ہاتھ ہٹایا، اس کے پروں کے سب رنگ میری ہتھیلی پر نقش و نگار بنا گئے تھے۔ وہ میری بھاری ہتھیلی تلے مسلی جا چکی تھی۔ لیکن مجھ پر جیسے جنون سوار ہو گیا تھا۔ ایک بار، دو بار…… پھر کتنی ہی بار میں نے مکّے مار مار کراس کا کچومر نکال دیا۔
نجانے مجھے کیا ہو گیا تھا۔ یہ سعید کی باتیں تھیں یا صبح جو کچھ مسجد میں دیکھا تھا۔ لیکن اس وقت مجھے کسی کی ضرورت تھی، جو مجھے بتاتا کہ میں صحیح ہوں، میں نے جو کچھ کیا، درست کیا۔ پچھلے ڈیڑھ ہفتے کی شدید ترین ڈیوٹی جس مقصد کی خاطر دی تھی، وہ مقصد درست تھا۔ میں نے زمین پر پڑی اپنی بندوق اٹھا کر کندھے سے لٹکائی۔ سر پر رکھی ٹوپی درست کی۔ سینے پر سجے بیجوں پر ہاتھ پھیر کر انہیں صاف کیا۔ پھر کونے میں پڑے اپنے کِٹ بیگ میں سے چھوٹا سا آئینہ نکال کر اپنا عکس دیکھنے لگا۔ آئینے میں جھلکتے چہرے کی شیو حسبِ معمول بے عیب تھی۔مگر چہرہ دھوپ میں رہ رہ کر اپنی پچھلی تازگی کھو چکا تھا اور سیاہ پڑ رہا تھا۔ آنکھوں سے بھی عجیب سی وحشت جھلک رہی تھی۔ ’میں ایک……فوجی ہوں‘، میں بڑبڑایا۔
’تُو ایک قصائی ہے۔تُو میرا پتر نہیں… …تُو قصائی بن گیا ہے افضل!‘، ابا جی کی نظریں مجھے ملامت کر رہی تھیں۔ مگر میں انہیں کیسے سمجھاتا، اس سال میرا ویاہ ہونا تھا۔ گھر کے لیے ایک کولر خریدنا تھا کہ گرمی بہت بڑھ گئی تھی، اورر اگر گنجائش نکلتی، تو ایک مجّ اور……
ہماری بٹالین کو واپس اپنے یونٹ جانے کا آرڈر مل گیا تھا۔ میں اپنے جوانوں کو فوجی ٹرک پر سوار کروا کر ٹرک کی اگلی سیٹ پر آ بیٹھا۔ میں اگلے آرڈر کی طرف روانہ ہو چکا تھا۔
٭٭٭٭٭