ہمارے یہاں برِّ صغیر ہند و پاک میں شریعت، طریقت اور سیاست کی اصطلاحیں عام ہیں اور اس پر حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمیؒ کا ایک خطبہ بھی موجود ہے۔
برِّ صغیر میں یہ تصور بڑے زمانے تک چلا کہ طریقت ایک جدا چیز ہے اور شریعت جدا چیز۔ حضرت مجدد الفِ ثانیؒ نے طریقت کو شریعت کے تابع قرار دیا کہ یہ کوئی جدا چیز نہیں ہے بلکہ شریعت کے تابع ہے۔ مکتوباتِ امام ربانی میں ہے:
”طریقت اور شریعت عین ایک ہی چیز ہیں، ان کے درمیان بال برابر بھی کوئی مخالفت نہیں پائی جاتی… ہر وہ چیز جو شریعت کے خلاف ہو، مردود ہے“۔
طریقت کے متعلق ہمارے اکابرینِ اھل السنۃ کی یہی رائے ہے، اسی کی توثیق حضرت تھانویؒ اور مولانا علی میاںؒ نے بھی کی ہے۔
جس طرح طریقت شریعت کے تابع ہے بالکل اسی طرح سیاست بھی شریعت کے تابع ہے۔
کوئی صوفی ہو یا مُلّا ہو یا مجاہد ہو یا حاکم ہو، یہ سب شریعت کے تابع ہیں، ان کے اقوال و اعمال کو شریعت ہی پر پرکھا جائے گا۔
صوفی کی طریقت میں اگر پیرویٔ سنت اور اتباعِ سلف کا تقاضا ہے تو مُلّا کے بیان کردہ فتوے میں بھی یہی تقاضا ہے کہ وہ اللہ کی شریعت سے حکم بیان کرے۔ مجاہد کا جہاد بھی تابعِ شریعت ہونا چاہیے ورنہ بندوق بردار تو ڈاکو بھی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح اللہ کی شریعت حکمران کے لیے بھی کچھ اصول و ضوابط و ثوابت (constants) بیان کرتی ہے۔ اگر کوئی حکمران اللہ کی شریعت کے علاوہ کوئی امر بیان کرے تو پھر بھلے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ راست، امیر المومنین، سیّدنا فاروقِ اعظمؓ ہی کیوں نہ ہوں ان کو مسلمان عوام میں سے ایک عورت بھی کہہ سکتی ہے کہ آپ سے سہو ہوا اور وہ بھی کشادگیٔ صدر سے کہتے ہیں کہ ”أصابت امرأة وأخطأ عمر“، عورت نے ٹھیک کہا اور (میں) عمر غلط ہو گیا (رضوان اللہ علیہم أجمعین)۔
یاد رکھیے حکمرانوں سے سرزد ہونے والی غلطیوں ہی پر تنبیہ و نصیحت کرنے کے جرم میں امامِ اعظم ابو حنیفہ، امام احمد بن حنبل، امام ابنِ تیمیہ سے مجدد الفِ ثانی تک کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں!
پس اگر آج کے فاتح مسلمان حکمرانوں سے کوئی شرعاً واضح قابلِ گرفت خطا ہو اور اس پر امت کے اصحابِ خیر علماء و داعیان رد و نصیحت نہ کریں تو ہمارے ان فاتح مسلمان حکمرانوں کو ہم اپنے ہاتھوں سے ہی شہباز شریف، ابنِ سلمان اور اردگان بنا دیں گے!