( خلیجِ عدن و بحرِ احمر میں اسرائیلی جہازوں پر حملے، اس کے اثرات اور پاکستان نیوی کے جہاز کی وہاں تعیناتی کے پیشِ نظر، نیوی میں اسلام کے دعوے داروں کو یاد دہانی اور علمائے پاکستان سے ایک گزارش)
امتِ مسلمہ کو دورِ حاضر میں جن چیلنجز کا سامنا ہے، اس میں واضح اور بنیادی عالمِ کفر یعنی عالمی طواغیت کا براہ راست ظلم و جبر اور ان کے ہاتھوں امت کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ تو ہے ہی۔ ایک اور بنیادی اور اتنا ہی خطرناک مسئلہ مقامی حکمرانوں اور مسلم ممالک کی اپنی افواج کا کفار کا ساتھ دینا، ان کے مفادات کی خاطر امت کو نقصان دینا اور عین امت کے لیے حساس وقت و مقام پر امت کے ساتھ غداری کرنا ہے۔ یہ مسئلہ اوپر ذکر کیے گئے بنیادی مسئلے سے زیادہ خطرناک اس لیے بھی ہے کہ ایسی حالت میں امت کو اپنے حقیقی دشمن کی طرف جو توجہ مبذول کرنی ہوتی ہے، وہ تقسیم ہوجاتی ہے۔ اس طرح حقیقی و اصلی دشمن یعنی حملہ آور کافرِ اصلی کو ایسے دوست میسر آتے ہیں جو ان کی قوم سے بھی نہیں ہوتے اور امت کی توجہ ان کافرِ اصلی دشمنوں سے ہٹاکر کہیں اور مصروف کردیتے ہیں۔ اسی مسئلے میں ایک اور پہلو جو امتِ مسلمہ کے مجاہدین کے لیے اور بھی مشکل کھڑی کردیتا ہے اور امت کے دشمنوں کے لیے آسانی پیدا کر دیتا ہے، وہ مسلم ممالک کی افواج کا اسلام کا لبادہ اوڑھ کر امت کے دشمن کفارِ اصلی کی خدمت کرنا اور ان کا ساتھ دینا ہے، جس سے ان مجاہدین کی دعوت، جو امت کی سربلندی اور مظلوموں کی مدد کے لیے جہاد کی دعوت دیتے ہیں، وہ بھی متاثر ہوجاتی ہے۔ حالانکہ جن مقاصد کے لیے اصلی کافر دشمن لڑ رہا ہوتا ہے، اسی کے لیے مقامی فوجی بھی لڑ رہا ہوتا ہے لیکن نام مسلمان کا استعمال کرکے منافقت سے کام لیتا ہے۔
کفار کیوں مسلمان افواج کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں؟
یہ طرز العمل اصلی دشمن (کفار) کے بہت فائدے میں ہےکہ کفار مسلمانوں کے خلاف مسلمانوں ہی کی افواج کو استعمال کریں۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ کفار کو یہی ہوتا ہے کہ امتِ مسلمہ کے اندر کفارِ اصلی کے خلاف جو نفرت و عداوت پائی جاتی ہے، اس سے بچ کر کفار اپنے مقاصد حاصل کرلیتے ہیں۔
دوسرا فائدہ کفار کی اقتصادی بچت کا ہے۔ جو کام ایک امریکی سپاہی سو ڈالر پر کرے گا، وہ مقامی افواج کا سپاہی دس ڈالر پر سرانجام دے دیتا ہے۔ اس کے علاہ کفار کا جانی نقصان بھی نہیں ہوتا بلکہ میدان میں مرنے والا فرد بہرصورت ان کی قبیل کا نہیں۔ اس لیے کفار باوجود اس کے کہ ان کے پاس وسائل کی کمی نہیں، افراد کی کمی نہیں ، ان کی ٹیکنالوجی مقامی افواج سے بہتر ہے، پھر بھی مقامی افواج کو اپنی طرف سے جنگ کا حصہ ضرور بناتے ہیں۔ آپ افغانستان پر امریکی حملے کی مثال لیجیے کہ اس میں امریکہ نے کس طرح پاکستان، سعودی عرب، عرب امارات اور ترکی وغیرہ کو شامل رکھا، یا صومالیہ میں القاعدہ کے مجاہدین کے خلاف امریکی مہم میں ترکی و دیگر اسلامی ممالک کا شامل کرنا۔
امت بیدار نہ ہو ، اس کے لیے نفاق کا سہارا لینا
امتِ مسلمہ کے خلاف جب بھی کفار (یہود و نصاریٰ) نے کوئی مہم چلائی تو مسلمانوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہوئے بہت دجل و فریب سے کام لیا۔ مثال کے طور پر جب انگریز جنرل ایلن بی فلسطین و قدس کو خلافتِ عثمانیہ سے چھین کر اس پر قبضہ کررہا تھا تو وہ حقیقتاً صلیبی جنگ لڑ رہا تھا اور اس بات کا ثبوت خود اس کا وہ قول ہے جو اس نے سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کی قبر پر جا کر کہا کہ صلاح الدین! ہم واپس آگئے ہیں۔ اس جنگ میں جنرل ایلن بی نے متحدہ ہندوستانی فوج کے مسلمانوں سے کافی بلکہ اصل کام لیا۔ غزہ اور پھر القدس کو خلافت سے چھین کر اس پر قبضہ کرنے والی انگریز فوج کا بیشتر حصہ ہندوستان کی مقامی فوج پر مشتمل تھا اور آج بھی وہی رجمنٹیں سولہویں، ستر ہویں اور اٹھارہویں گھڑ سوار رجمنٹوں کے نام سے پاکستانی فوج کا حصہ ہیں۔ تو کیا یہ ہندوستانی (مسلمان) فوجی اس بات سے ناواقف تھے کہ وہ صلیبی جنگ میں صلیبیوں کی طرف سے لڑ رہے ہیں؟ جی ہاں! تاریخ (دیکھیے کتاب عصرِ حاضر کے جہاد کی فکری بنیادیں ) میں لکھا ہے کہ جنرل ایلن بی اور اس سے پہلے جنرل مرے نے اپنی پوری دو سالہ مہم میں ’ صلیبی جنگ ‘ کے لفظ کا استعمال نہیں کیا اور یہ وہ دھوکے کا طریقہ کار تھا جو آج بھی اپنے آپ کو مسلمان کہنے والی فوج و جرنیل مسلمانوں کے ساتھ اپنائے ہوئے ہے۔
اس طرح پاکستانی فوج کا افغانستان کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینا۔ اس نام پر کہ ہم دہشت گردی کے خلاف پاکستان کا دفاع کررہے ہیں۔ یہ بھی دجل نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا امریکہ سے بڑا دہشت گرد دنیا میں موجود ہے؟
حالیہ غزہ پر اسرائیلی حملے میں یمن کی سمندری حدود میں اسرائیلی تجارتی جہازوں پر حملے
۱۶ نومبر کو خبر موصول ہوتی ہے کہ یمن کی سمندری حدود میں اسرائیلی تجارتی جہازوں پر میزائل و ڈرون حملے کی کوشش ہوئی ہے جس کو وہاں موجود امریکی نیوی کے جہاز نے مار گرایا ہے۔ اس کے بعد یمن کی طرف سے تین اسرائیلی تجارتی جہازوں (M/V Unity Explorer, M/V Number 9, M/V Sophie 2) کو میزائل و ڈرونز سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ۱۹ نومبر کو حوثی ملیشیا کے ارکان ایک اور اسرائیلی تجارتی جہاز (Galaxy) کو اغوا کرکے اس میں کام کرنے والے پچیس افراد کو یرغمال بناتے ہیں۔ اس کے بعد حوثی انتظامیہ نے اعلان کیا کہ ہم ہر اس جہاز کو نشانہ بنانے کی کوشش کریں گے جو اسرائیل کے ساتھ تجارت میں استعمال ہوگا۔
اسرائیلی مفادات پر اسرائیل کے باہر ان ضربوں کے بارے میں اسرائیلی نیشنل سکیورٹی کونسل کے سربراہ زاچی ہینیگبی(Tzachi Hanegbi) نے میڈیا سے کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اس خطرے کے بارے میں امریکی صدر بائیڈن کے علاوہ جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے سربراہان سے بات کی ہے اور ان پر واضح کیا ہے کہ اسرائیل دنیا کو مزید وقت دے رہا ہے کہ اس معاملے کو منظم طریقے سے روکے۔ اس نے مزید کہا کہ اگر عالمی انتظامیہ اس معاملے کو نہیں دیکھتی کیونکہ یہ (تجارتی جہازوں پر حملہ) ایک عالمی مسئلہ ہے تو پھر ہم اس بندش (راستے کی رکاوٹ) کو ہٹائیں گے۔
بائیڈن انتظامیہ نے بھی اسرائیلی وزیراعظم کے مطالبے کو جلدی تسلیم کرلیا اور بحرِ احمر و خلیجِ عدن کے حوالے سے اپنی پالیسی کا اعلان کچھ یوں کیا:
“The Biden administration’s call for expanding a multinational naval force comes as Houthi militants in Yemen have vowed to target vessels bound for Israel”1
’’بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کے لیے جانے والے بحری جہازوں پر حوثی عسکریت پسندوں کی طرف سے حملوں کے پیشِ نظر کثیر القومی بحری فوج ( کمبائنڈ میری ٹائم فورس) میں اضافے کا مطالبہ کیا ہے۔‘‘
الفاظ سے واضح ہے کہ امریکہ اسرائیل کا دفاع خود تو کرہی رہا ہے، اس میں اوروں کو بھی شریک کررہا ہے۔ یاد رہے کہ ’ اوروں‘ میں سب سے پہلا نمبر ’فرنٹ لائن اتحادی‘ کا آتا ہے۔
اس طرح خبر رساں ادارے (AXIOS) کے مطابق وائٹ ہاؤس کے نیشنل سکیورٹی کونسل کے کوآرڈینیٹر برائے اسٹریٹیجک کمیونیکیشن جان کربی (John Kirby) کے مطابق امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور پنٹاگون اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ دیگر ممالک اپنے بحری جہاز وہاں (خلیجِ عدن اور بحرِ احمر) میں تعینات کریں، اس ٹاسک فورس کی کمان میں جو امریکی سینٹرل کمانڈ (بحرین) کے ماتحت وہاں سکیورٹی خدمات سرانجام دے گا۔
اس ہی خبر رساں ادارے کے صحافی باراک راویڈ(Barak Ravid) نے اپنی ایک رپورٹ میںلکھا کہ اسرائیلی حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ فی الحال ہم اس بات پر راضی ہیں کہ ملٹی نیشنل میری ٹائم ٹاسک فورس ہی ان حالات کو قابو میں کرے اور ہمیں خود کچھ کرنا نہ پڑے۔2
یاد رہے کہ ذکر شدہ سمندری علاقے میں جو ملٹی نیشنل میری ٹائم ٹاسک فورس (کثیر القومی سمندری عملیاتی فوج) تعینات ہے اس کا سب سے فعال رکن پاکستان نیوی ہے، جس کی تفصیل مضمون میں آگے جاکر بیان کی جائے گی۔
امریکہ کو شراکت داروں کی ضرورت کیوں؟
خبر رساں ادارےرائٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے برطانوی بحری فوج کے ریٹائرڈ وائس ایڈمرل ڈنکن پوٹس (Dunkin Potts) نے کہا کہ تقریبا ً تئیس ہزار (۲۳۰۰۰) بحری جہاز (ہر سال) باب المندب (نیرو چینل(Narrow Channel)، لمبائی ۲۰ میل) سے گزرتے ہیں۔ اتنے چھوٹے علاقے سے اتنی زیادہ ٹریفک کا گزرنا اس عمل کو آسان بناتا ہے کہ ان جہازوں پر حملہ کیا جائے۔ وائس ایڈمرل ڈنکن خود بھی اس علاقے میں میری ٹائم سکیورٹی کمانڈر رہ چکا ہے۔ اس کے مطابق اس علاقے کی سکیورٹی کے لیے کافی بحری وسائل کی ضرورت ہے۔3
دنیا بھر کی اہم ترین سمندری گزر گاہیں، اکثر بلکہ ایک پاناما کنال کے علاوہ سب کی سب امتِ مسلمہ کے علاقوں سے گزرتی ہیں۔ خلیجِ فارس (عرب)، آبنائے ہرمز، آبنائے ملاکہ، آبنائے جبرالٹر، باب المندب، آبنائے باسفورس اور سویز کنال جیسی اہم سمندری گزر گاہیں امتِ مسلمہ کے پانیوں میں واقع ہیں۔ امتِ مسلمہ کی تنزلی کہ اس وقت یہ تمام گزر گاہیں، سمندر میں آزاد نقل و حرکت (Freedom of Navigation) نامی عالمی قانون کے تحت کفار کے لیے کھلی پڑی ہیں۔ امتِ مسلمہ پر اپنے کٹھ پتلی حکمران و افواج کو مسلط کرنے کے بعد بھی امریکہ و یورپ کو خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ امتِ مسلمہ سے انفرادی طور پر ( فرد یا کوئی جماعت) ہمارے مفادات پر حملہ نہ کردے۔ اس لیے ان تجارتی گزرگاہوں اور دیگر مسلم خطوں کی سمندری حدود کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے امریکی سینٹرل کمانڈ کے بحرین میں قائم ہیڈ کوارٹر میں امریکی نیوی کی پانچویں فلیٹ بھی قائم کی گئی ہے جو اس پورے خطے کی سمندر میں اپنی تعیناتی کرتا ہے اور حالات کو دیکھتا ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت مکہ مکرمہ کے قریب بحرِ احمر میں امریکہ کا جہاز کارنے (USS Carney, Destroyer) جو امریکی نیوی کی 5th فلیٹ کا حصہ ہے ، تعینات ہے۔ اسی طرح بحرِ احمر سے تھوڑا نیچے آکر خلیجِ عدن میں امریکہ کے اسی فلیٹ کا دوسرا ڈیسٹرائر جہاز میسون (USS Mason) تعینات ہے۔ اسی طرح بحرِ ہند میں امریکہ کا ائیر کرافٹ کیریر، فریگیٹ اور آئل ٹینکر ہر وقت تعینات رہتا ہے۔
سمندر پر امریکہ کے اس قبضے کو مزید مضبوط کیا جائے، اس کے لیے امریکہ ہی کے زیر سرپرستی کمبائنڈ میری ٹائم فورس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ جس کے نیچے بھی پانچ کمانڈز بنا کر پوری دنیا میں امریکی و یورپی مفادات کے تحفظ کے لیے مقامی بحری افواج کو استعمال کیا جاتا ہے۔
حالیہ قضیے میں امریکہ نے ایک بار پھر اس کمبائنڈ میری ٹائم فورس میں اضافے کا مطالبہ کیا ہے۔ آخر کیوں؟ کیونکہ خود امریکہ کی نیوی اسرائیلی جہازوں پر یمن کے ان حملوں کو روکنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ وہاں تعینات امریکی جہاز پورے علاقے کو cover نہیں کرسکتے۔ اب امریکہ کو مزید بحری فوج و وسائل کی ضرورت پڑ گئی جبکہ اس ہی 5th فلیٹ کے جہاز ( ائیر کرافٹ کیریر، فریگیٹ اور آئل ٹینکر) پہلے سے غزہ کی ساحل پر اسرائیل کے لیے پہرہ داری کررہے ہیں۔ مجبوراً امریکہ کو مقامی نیویز کو شامل کرنا پڑ رہا ہے کہ اسرائیل کے بحری جہاز حفاظت کے ساتھ امتِ مسلمہ کے پانیوں سے گزر سکیں۔
پنٹاگون کے ایک سابق (ٹرمپ دور کے) افسر میک ملرے(Mick Mulroy) نے اس امر کا اظہار، کہ امریکہ مجبور ہے یا اس کی خواہش ہے کہ یہ کام (اسرائیلی جہازوں کی حفاظت) امریکہ کے اتحادی (غلام) کریں، کچھ یوں کیا:
Using a maritime security force to protect the region’s waterways is a good idea but finding enough ships to effectively carry it out could be challenging. The US could do a lot of it, but may need to shift ships from other areas.
یہ ایک اچھا خیال ہے کہ مقامی سمندروں کی گزرگاہوں کی حفاظت کے لیے سمندری حفاظتی فوج کا استعمال کیا جائے مگر اس کے لیے اتنے بحری جہاز مہیا کرنا کہ یہ کام بخوبی کرسکے، مشکل کام ہوسکتا ہے۔ امریکہ اس میں بہت کچھ کرسکتا ہے لیکن اس کے لیے امریکہ کو اپنے جہاز (جو دوسرے مشنز پر تعینات ہیں) کو (یہاں) منتقل کرنا پڑے گا۔
مطلب امریکہ اپنی دیگر تشکیلات کو متاثر کیے بغیر یہاں کے سمندر کو اپنے، اسرائیل اور اپنے دیگر اتحادیوں کے لیے محفوظ بنانا چاہتا ہے۔ جس کے لیے اس نے کمبائنڈ میری ٹائم فورس کو بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ امریکی سرپرستی میں چلنے والی کمبائنڈ میری ٹائم فورس کی پانچ میں سے تین کمانڈز (CTF-150, 151, 152) صرف جزیرۃ العرب کے سمندروں کو مانیٹر کرتی ہیں اور باقی دو کمانڈز دیگر دنیا کے سمندروں کو۔ اس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ چھوٹا سا خطہ (خلیجِ فارس سے لے کر بحرِ احمر تک) امریکہ کے لیے کتنی اہمیت کا حامل ہے (بنسبت پوری دنیا کے سمندر کے)، اور اس کی بنیادی وجہ اس خطے سے امریکہ، اسرائیل و یورپ کے لیے تیل کی منتقلی ہے۔
ٹاسک فورس میں اضافے کی اسرائیل کے لیے کیا اہمیت ہے اور پاکستانی نیوی کا جہاز کیسے اسرائیل کی مفاد میں کام کررہا ہے؟
خبر رساں ادارے (AXIOS) کو بتاتے ہوئے ایک سینئر اسرائیلی عہدیدار نے کہا:
The task force is not going to escort ships in the Red Sea, but that the presence of more navy ships in the region will make it easier to respond to threats.
یہ ٹاسک فورس(عملیاتی فوج) بحرِ احمر میں (ہمارے) جہازوں کو اسکورٹ (بالکل قریب سے حفاظت) نہیں کرے گی، بلکہ زیادہ جنگی بحری جہازوں کا (صرف) موجود ہونا ہی اس عمل کو آسان بنادے گا کہ خطروں کا مقابلہ کیا جاسکے۔
اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ امریکہ اور اسرائیل وہاں کیوں مزید بحری جہازوں کی تعیناتی چاہ رہے ہیں۔ اس طرح یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ پاکستان، جو کہ وہ پہلا ملک ہے جس نے ان حملوں کے بعد اپنا جدید ترین جہاز طغرل وہاں تعینات کیا (اس پر آگے چل کر مزید تفصیل سے بحث ہوگی)، کس طرح اسرائیل کے مفادات کی خاطر استعمال ہورہا ہے۔ پاکستان نیوی کے اس جہاز کا صرف وہاں موجود ہونا ہی اسرائیلی عہدیدار کے مطابق ان کا مقصد ہے۔
اسرائیلی جہازوں پر چند حملوں کے اثرات
بظاہر یمن کے سمندری حدود میں اسرائیلی جہازوں پر چند حملے ہوئے ہیں لیکن اس کے اثرات عالمِ کفر پر بہت زیادہ ہیں۔
خبر رساں ادارے AXIOS کے مطابق ان حملوں کے باعث جنوبی اسرائیل کی بندرگاہ ایلاٹ(Eilat port) پر کمرشل جہاز آنا بالکل بند ہوگئے ہیں۔ اس طرح اسرائیل جانے والے جہاز اس راستے (خلیج عدن و بحرِ احمر) کو چھوڑ کر براعظم افریقہ سے گھوم کر لمبے راستے سے تجارت کررہے ہیں، جو ان کے سفر کو تین ہفتے لمبا اور بہت مہنگا کردیتا ہے۔ اسی طرح یورپ جانے والے جہاز بھی پچھلے دو ہفتوں سے یہی لمبا راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں (جو وقت و خرچے میں بہت اضافہ کردیتا ہے)۔
خبر رساں ادارے رائٹرزنے اس پر ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کا عنوان ہے کہ حوثیوں کے حملوں نےسمندری تجارت (اسرائیل،یورپ و امریکہ کو جانے والی ٹریڈ) کو مہنگا کردیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق لندن انشورنس مارکیٹ نے جنوبی بحرِ احمر کو زیادہ خطرے والی جگہوں (High risk areas) کی لسٹ میں شامل کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہر وہ جہاز جو اس خطے سے گزرتے ہوئے تجارت کرے گا وہ اپنے بیمہ کے ضمانتی (insurer) کو اطلاع دے گا اور انشورنس کے لیے اضافی رقم ادا کرے گا۔ جو صرف سات دن کے ٹرپ تک قابلِ منظور ہوگا (اس سے یورپ جانے والی کارگو مہنگی ہوجائے گی)۔
اس طرح دنیا کی سب سے بڑی شپنگ کمپنی مئیرسک (Maersk) نے جمعرات کے دن اعلان کیا ہے کہ سلالہ عمان سے جدہ جاتے ہوئے ان کے جہاز جبرالٹر پر حوثیوں کے حملے کے بعد ان کے تمام جہاز بحرِ احمر کے چھوٹے راستے کے بجائے، کیپ ٹاؤن جنوبی افریقہ سے گھوم کر یورپ و ایشیا کا سفر کریں گے۔ جس سے سفر کا دورانیہ تین ہفتے اور شپنگ چارجز بھی بڑھیں گے۔ یاد رہے کہ Maersk وہ کمپنی ہے جو افغانستان پر امریکی حملے میں امریکہ کے ساز و سامان کی شپنگ کرتی تھی اور اسرائیل کے لیے بھی شپنگ میں سب سے آگے ہے۔
یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ پاکستانی جہاز طغرل اس وقت (۱۵ دسمبر) کو سلالہ پورٹ پر ہی لنگر انداز ہوا اور اپنی تشکیل کے دوسرے حصے میں اسی خطے میں پہرہ داری کرے گا جہاں خاص یہ حملے پیش آئے۔
اس طرح امتِ مسلمہ کے مجاہدین کے لیے یہاں ایک تجربہ اور سبق یہ ہے کہ امت کے سمندروں میں اگر دشمن کو نشانہ بنایا جائے تو دشمن کو کتنا نقصان پہنچتا ہے۔ اس طرح یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ اس طرح کے علاقوں میں دشمن کو نشانہ بنانا اس کو اس کے محفوظ ٹھکانوں میں ہدف بنانے سے زیادہ آسان ہے۔
اسرائیل و امریکہ کون سی ملٹی نیشنل ٹاسک فورس میں مزید اضافہ کررہے ہیں اور اس میں پاکستان کا کردار کیا ہے؟
یہاں میں عامۃ المسلمین اور علمائے کرام حضرات کے سامنے ان کمانڈز کی مختصر سی تعریف اور ان کے مقاصد کا بیان کروں گا جو اس خطے میں امریکہ کی طرف سے متعین ہیں جہاں اسرائیلی جہازوں پر حملے ہوئے، اور جن کو اسرائیل و امریکہ مزید بڑھانے کا مطالبہ کررہے ہیں اور جن کمانڈز کا حصہ ہمارے ملک کی نیوی ہے۔ تاکہ یہ اندزہ لگانا آسان ہوجائے کہ ہمارے ٹیکس کے پیسوں پر پلنے والی نیوی کس کی خدمت میں مصروف ہے۔ یاد رہے جو ملٹی نیشنل ٹاسک فورس یہاں امریکہ کی سینٹرل کمانڈ کے ماتحت یہ سکیورٹی خدمات سرانجام دیتے ہیں (CTF-150/151) اس کا بنیادی اور سب سے فعال رکن پاکستان نیوی ہے۔
CTF-150/151 اور ان کے مقاصد:
CTF-150 جس کی کمان اس وقت فرانس کے پاس ہے۔ اس کا مقصد ان ہی کی زبانی ان کی ویب سائٹ4 سے ملاحظہ ہو۔
CTF-150 conducts Maritime Security Operations (MSO) outside the Arabian Gulf i.e., Red sea, Gulf of Aden, Indian Ocean and Gulf of Oman to ensure that legitimate commercial shipping can transit the region, free from non-state threats.
CTF-150’s mission is to disrupt criminal and terrorist organizations and their mandated related illicit activities by restricting their freedom of maneuver in the maritime domain.
CTF-150 خلیج ِ عرب سے باہر میری ٹائم سکیورٹی آپریشنز کا انعقاد کرتی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ قانونی تجارتی بحری جہاز غیر ریاستی خطرات سے پاک خطے میں منتقل ہوسکیں۔
CTF-150 کا مشن مجرمانہ اور دہشت گرد تنظیموں، بحری حدود میں ان کی نقل و حرکت اور ان کی غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنا ہے۔
یہاں یہ بات قابل غورہے کہ یہ تمام ٹاسک فورسز امریکہ کی سربراہی میں بنی ہیں اور غیر ریاستی عناصر و دہشت گرد کون ہے یہ بھی امریکہ نے ہی طے کیا ہے۔ آج کے حالات کے مطابق امریکہ فلسطینیوں (حماس کے نام پر پورے اہلِ غزہ کو) اور اس طرح ان کی حمایت کرنے والے حوثیوں کو دہشت گرد قرار دے چکا ہے۔
عملیات کی جگہ پر موجود بحری جہاز کے عملے نے تو صرف ان کا آرڈر بجا لانا ہوتا ہے۔ اسی طرح موجودہ حالات کے تناظر میں اسرائیل کا ان مسلم خطوں کی سمندروں سے گزرنا، UN و امریکہ کی نظروں میں عین قانونی ہے۔ جب کہ یمن سے حوثیوں یا صومالیہ سے الشباب وغیرہ کسی کا بھی ان اسرائیلسے ر عملیات کی جگہ پر موجود بی جہازوں پر حملہ کرنا، ان کو نقصان پہنچانا یا جہاز کے عملے کو اغوا کرنا غیر قانونی ہے اور اس ہی مقصد کی خاطر یہ ٹاسک فورسز ان علاقوں میں امریکہ کی آمریت کے تحت موجود ہیں کہ اپنے اور اپنے حلیفوں ( یورپ و اسرائیل) کے تجارتی جہازوں کی حفاظت کی جاسکے اور اس پورے پروگرام و سرگرمیوں میں سب سے کلیدی کردار پاکستان بحریہ کا ہے۔ کیونکہ پاکستان بحریہ نے سب سے زیادہ اس ٹاسک فورسز کو خدمات دی ہیں۔ پاکستان ہی وہ ملک ہے جس کے بحری جہاز سب سے زیادہ وقت کے لیے ان مشنز پر تعینات رہے ہیں۔ بلکہ پاکستان نیوی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس نے امریکی ایڈمرلز کی کمبائنڈ میری ٹائم فورس کے کمانڈ کے ماتحت CTF-150 اور CTF-151 کو سب سے زیادہ (بارہ) مرتبہ کمان کیا ہے۔ 5
اس طرح CTF-151 تو خاص بنی ہی اس خطے میں صومالی مجاہدین اور قزاقوں کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لیے۔ جب Horn of Africa کے علاقے میں امریکیوں اور یورپی تجارتی جہازوں کا نشانہ بنایا گیا تب سال ۲۰۰۹ء میں اس فورس کی خاص طور پر بنیاد رکھی گئی۔ ان ہی کے ویب سائٹ سے ملاحظہ ہو:
CTF-151 was established in January 2009, with a specific piracy mission-based mandate, currently endorsed under UNSCR 2608(2021), in order to contribute to the protection of commerce free flow.
سی ٹی ایف ۱۵۱ جنوری ۲۰۰۹ میں قائم کی گئی تھی، ایک مخصوص بحری قزاقی مشن پر مبنی مینڈیٹ کے ساتھ، جس کی فی الحال یو این ایس سی آر ۲۶۰۸(۲۰۲۱) کے تحت توثیق کی گئی ہے، تاکہ تجارت کے آزادانہ بہاؤ کا تحفظ کیا جاسکے۔
یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ اس کمانڈ کا قیام صومالیہ کے قریب سمندر میں صومالیہ سے تعلق رکھنے والے القاعدہ کے مجاہدین ’الشباب‘کے امریکہ اور ان کے اتحادیوں کے جہازوں پر حملوں کے بعد کیا گیا۔ پاکستان اس ٹاسک فورس کا بھی سب سے فعال رکن ہے۔وجود اس کے کہ ان کے پاس وسائل کی کمی نہینے مقام سے دھوکہ دینا کہ ہم تو مسلمان ہے ، ہم سے مجاہدین کیو
پاکستان نیوی اسرائیل کے دفاع میں اپنا جدید ترین فریگیٹ متعین کرتی ہے
یمن میں اسرائیلی جہازوں پر حوثی حملوں کے بعد پاکستان نیوی وہاں کے سکیورٹی حالات کا حوالہ دے کر اپنا سب سے جدید بحری فریگیٹ وہاں تعینات کرتی ہے۔ آخر پاکستان نیوی خلیجِ عدن میں کن کے جہازوں کی حفاظت کی خاطر یہ تعیناتی عمل میں لاتی ہے؟ کیا خلیجِ عدن و ملحقہ سمندری حدود میں کسی پاکستانی بحری جہاز کو نشانہ بنایا گیا ہے کہ پاکستان کو اپنا سب سے جدید قسم کا فریگیٹ بھیجنا پڑا ہے؟ یمن کے سمندری علاقے میں حملہ اسرائیلی تجارتی جہازوں پر ہورہا ہے اور وہاں سکیورٹی حالات کو سدھارنے پاکستان نیوی کا فریگیٹ جارہا ہے؟ کیا یہ سب سوالات پاکستانی افواج کے مسلم خطے میں کردار پر شکوک و شبہات پیدا نہیں کررہے؟ حالات و تحقیق سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تعیناتی وہاں امریکہ کے حکم پر اسرائیلی تجارتی جہازوں کی حفاظت کے لیے کی گئی ہے۔ آئیے! حقائق و ثبوتوں سے اس بات پر یقین حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یکم دسمبر کو پاکستان نیوی کے ترجمان نے میڈیا کو ایک بیان دیا کہ مشرقِ وسطیٰ کے سمندری حالات کے مدِ نظر پاکستان نیوی کے جدید جہاز پی این ایس طغرل کو وہاں (خلیجِ عدن) اس لیے تعینات کیا جارہا ہے کہ پاکستان سے رفت آمد کرنے والے کارگو جہازوں کی حفاظت کی جاسکے (حالانکہ وہاں ابھی تک کسی پاکستانی کارگو جہاز کو نشانہ نہیں بنایا گیا )۔ اوپر کے اس بیان میں دھوکہ دہی کو سمجھنے کے لیے اس مکمل بیان کا آخری پیرا گراف لفظ بلفظ ملاحظہ ہو:
In the same spirit, it (Pakistan Navy) regularly deploy its ships on Regional Maritime Security Patrols and also contributes to collaborative maritime security efforts under the ambit of Combined Maritime Force.
اسی جذبے کے ساتھ، یہ ( پاکستان نیوی) اپنے بحری جہازوں کو مقامی سمندر کے گشت پر باقاعدگی سے تعینات کرتی ہے اور مشترکہ سمندری فورس کے دائرہ کار کے تحت مشترکہ سمندری سکیورٹی کی کوششوں میں بھی حصہ ڈالتی ہے۔
محترم قارئین! اصل بات نیوی کے ترجمان نے انتہائی ملمع سازی سے آخر میں گول مول کرکے بیان کی ہے۔ جبکہ دھوکہ دینے کے لیے، مسلمانوں کو بے وقوف بنانے کے لیے اول الذکر بیان کو فوقیت دے کر، صرف اس ہی کو میڈیا کی زبان پر لایا گیا۔ کسی نے آخری پیراگراف کی طرف توجہ نہیں کی کہ اصل میں تو پاکستان نیوی کے جہاز ہر وقت آبنائے ہرمز سے لے کر بحرِ احمر تک تک امریکہ کی بنائی مشترکہ سمندری فوج (Combined Maritime Force) کی ایک سو پچاسویں اور اکیاونویں کمانڈ (Command Task Force 150 and 151) کے تحت تعینات ہوتے ہیں۔ CTF-150 اور CTF-151 جس کا ہیڈ کوارٹر بحرین میں ہے، پاکستان اس کا سب سے فعال رکن ہے۔ پاکستان نیوی کے ترجمان نے آخر میں اس بات کا ذکر کیوں کیا کہ ہم اس ہی جذبے کے ساتھ اپنے جہازوں کو کمبائنڈ میری ٹائم فورس کی ماتحت تعینات کرتے رہیں گے؟ کیا اس تعیناتی کا کمبائنڈ میری ٹائم سکیورٹی کے مشنز کے ساتھ تعلق ہے؟ اور کیا وہ تعلق یہ نہیں کہ وہاں کے سکیورٹی حالات جو اسرائیلی بحری جہازوں کے لیے مناسب نہیں ، اس کو کنٹرول کیا جاسکے۔
اظہار اپنے منہ سے
یہاں یہ بات بھی توجہ کے قابل ہے کہ نیوی کے ترجمان نے اس بات کا قولاً اظہار کیا ہے کہ ہم اسی جذبے کے ساتھ مشترکہ سمندری فوج (Combined Maritime Force) میں بھی خدمات سر انجام دیں گے (اور دے رہے ہیں)۔ تو یہاں اس سوال کا جواب کیا ہوگا کہ Combined Maritime Force تو امریکہ و UN کے ماتحت ہے۔ اس کو اس وقت بھی امریکی نیوی کا حاضر سروس وائس ایڈمرل Brad Cooper کمانڈ کر رہا ہے۔ یہ ایڈمرل مختلف نیول عہدوں کے ساتھ ساتھ افغانستان کے جنگ کے وقت وہاں کے وزارت داخلہ کا امریکہ کی طرف سے مشیر بھی رہا ہے۔ اس فورس کے مطابق تو اس خطے میں اسرائیلی جہازوں کو جو لوگ ہدف بنارہے ہیں وہ مجرم ہیں اور یہ عمل غیر قانونی ہے۔ اسی طرح اس فورس نے تو اسرائیلی جہازوں کا دفاع کرنا ہے۔ کیا پاکستان نیوی اسی جذبے کے ساتھ اسرائیلی جہازوں کا دفاع مسلمانوں سے کرے گی جس طرح خود پاکستانی تجارتی جہازوں کا کرتی ہے؟
کیا پاکستان اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات رکھتا ہے؟
یاد رہے کہ یمن کی حوثی ملیشیا نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ ہم صرف ان جہازوں کو نشانہ بنائیں گے جو یا تو اسرائیل کے ہوں یا پھر کسی دوسرے ملک کے ہوں لیکن اسرائیل کے ساتھ تجارت میں استعمال ہوتے ہوں۔ تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیوی کے ترجمان کے مطابق ہمارا جہاز اس لیے تعینات کیا جارہا ہے کہ وہاں پاکستانی جہازوں کی حفاظت کرسکیں۔ تو کیا پاکستانی جہاز اسرائیل سے تجارت کے لیے وہاں سے گزرتے ہیں؟ یا پاکستانی کارگو جہاز اسرائیل کے ساتھ تجارت میں استعمال ہوتے ہیں؟ کیا اسرائیل کے ساتھ پاکستان کا کوئی تجارتی معاہدہ ہے؟ اگر نہیں تو پھر یہ تعیناتی کیوں کی گئی۔ جبکہ دھمکی اسرائیلی جہازوں یا اس کے ساتھ تجارت میں استعمال ہونے والے جہازوں کو دیا گیا ہے۔
پی این ایس طغرل کیوں؟
پاکستان نیوی اس سے پہلے کمبائنڈ میری ٹائم مشن پر اپنے پرانے یا کمزور جہاز تعینات کرتا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جس مشن پر یہ جہاز جاتے ہیں اس میں جدید ہتھیاروں کا استعمال نہیں کیا جاتا اور نہ ہی مخالفین (جن کے خلاف مشن ہوتا ہے) جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہوتے ہیں۔ اس لیے ایک ایسے جہاز کا استعمال کافی ہوتا ہے جو صرف گشت، ریڈار سرویلنس اور سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن کی تعمیل کرسکے اور وہ بھی غیر روایتی عناصر کے خلاف، جو عموماً چھوٹی کشتیوں پر سوار ہوتے ہیں۔ لیکن اس دفعہ پاکستان نیوی اپنا سب سے جدید کلاس فریگیٹ ایف ۵۴ پاپا، پی این ایس طغرل تعینات کررہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اس دفعہ وہاں جہازوں پر میزائل و ڈرون حملے ہورہے ہیں۔ اس لیے ایک ایسے جہاز کی ضرورت تھی جس میں جدید اینٹی ائیر ڈیفنس سسٹم ہو۔ اس لیے پی این ایس طغرل کی تعیناتی عمل میں لائی گئی۔ یاد رہے پی این ایس طغرل HQ-16 درمیانے فاصلے پر ائیر ڈیفنس میزائل سے لیس پاکستان نیوی کا جدید کلاس فریگیٹ ہے۔
عمل کی دنیا میں
یہاں میں ایک مثال دے کر بحری فوجیوں سے سوال کروں گا تاکہ قارئین کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ نیوی کے ترجمان کے مطابق بحرِ احمر کے حالات کے مطابق ہمارے جہاز کی تعیناتی وہاں کی جارہی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستانی فریگیٹ طغرل وہاں موجود ہے، اس کا ریڈار چالو (آن) ہے، اس کے قریب سے اسرائیلی جہاز گزر رہا ہے۔ ایک دم ریڈار پر میزائل آنے کی عکاسی آجاتی ہے…… اب پاکستانی جہاز کا عملہ یہ کیسے طے کرے گا کہ یہ میزائل ان کے خلاف داغا گیا ہے یا اسرائیلی جہاز کے خلاف؟ اگر پاکستانی جہاز اس میزائل کو کاؤنٹر کرتا ہے اور یہ میزائل یمن سے اسرائیلی جہاز کے خلاف لانچ کیا گیا تھا تو کیا ایسی حالت میں پاکستانی جہاز نے اسرائیلی جہاز کی حفاظت نہیں کی؟
اے پاکستانی بحریہ میں اسلام کے دعوے دارو!
کیا کوئی ہے جو نیوی کے ترجمان کا یہ جملہ جس میں اس نے نیوی کا جذبہ، ارادہ اور واقعی عمل (کہ اسرائیلی جہازوں کا دفاع بھی کریں گے) علماء تک پہنچائے؟ کیا کوئی ہے جو علمائے کرام سے اس بابت فتویٰ طلب کرسکے کہ ’’خلیج عدن یا کہیں بھی اگر کوئی مسلمان اسرائیلی جہازوں پر حملہ کرتا ہے تو ان اسرائیلی جہازوں کا دفاع کوئی مسلمان (بحری) فوج کرسکتی ہے؟‘‘ …… کیا اس پوری فوج و نیوی میں کوئی ایسا نہیں جو امریکی کمان کے نیچے بنائی گئی ٹاسک فورس میں ڈیوٹی پر جانے سے پہلے علمائے کرام سے اس کا حکم معلوم کرسکے کہ ہم اُن اسرائیلی، امریکی، یورپی تجارتی اور سب سے اہم تیل کے ٹینکرز اور بحری جہازوں کی حفاظت کرنے جارہے ہیں جو غزہ میں ہمارے مسلمان بھائیوں کے قتلِ عام میں شریک ہیں، کیا ہماری یہ ڈیوٹی حلال ہے یا حرام؟ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ کمانڈ ٹاسک فورس کی ڈیوٹی میں آپ امریکی، یورپی اور اسرائیلی بحری جہازوں کا دفاع کررہے ہوتے ہیں؟ آپ کیسے اس حساس اور اصولی مسئلے سے بے خبر ہوکر کفار کے لیے اتنی بڑی خدمات سر انجام دے سکتے ہیں؟ کیا پوری دنیا کے علماء نے اسرائیل کے خلاف جہاد کا فتویٰ نہیں دیا؟ کیا آپ پر فرض نہیں کہ آپ غزہ میں مسلمانوں کا قتلِ عام کرنے والے اسرائیلیوں کو نشانہ بنائیں؟ آپ ان کی حفاظت کیسے کرسکتے ہیں؟
کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ جس امریکہ کے ساتھ آپ مشترکہ مشن پر ہیں، جس کے ساتھ آپ نیول ایکسرسائزز کررہے ہیں، جس امریکی نیوی کے آئل ٹینکر سے آپ اس تعیناتی میں تیل وصول کررہے ہیں ، وہ امریکہ فلسطین میں مسلمانوں کے قتلِ عام میں اسرائیل کا سب سے بڑا معاون و مددگار ہے؟ آپ کیسے مسلمانوں کے قاتل امریکہ کے ساتھ مشترکہ کام و عملیات کرسکتے ہیں؟
کیا آپ یہ پسند کریں گے کہ کل قیامت کے دن صحابیٔ رسول ﷺ، خلیفۂ ثانی، فاتحِ القدس حضرت عمر فاروق اور القدس کے فاتحِ ثانی سلطان صلاح الدین ایوبی کے سامنے اس حالت میں کھڑے ہوں کہ آپ بیت المقدس پر یہودیوں کے قبضے کے معاون و مددگار کہلائے جائیں؟
کیا آپ کی اس نیوی میں آپ کو راہِ عمل کسی نے نہیں سکھایا؟ کیا سب لیفٹیننٹ اویس جاکھرانی نے اس امریکہ کے خلاف حملے کی کوشش نہیں کی؟ کیا لیفٹیننٹ ذیشان رفیق کی قربانی، اس کا عمل، ایسا نہیں کہ آپ کو بتا دے کہ آپ نے جن کے خلاف لڑنا ہے ان سے دوستی و اشتراکیت کیسے کی جاسکتی ہے؟
کیا آپ بائیڈن انتظامیہ کے اتحادی بن کر کل قیامت کے دن غزہ کے بیس ہزار سے زائد شہداء، بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کا سامنا کر پائیں گے؟
کچھ تو غور و فکر کیجیے کہ آپ کیا کررہے ہیں……!
اے پاکستان کے علمائےکرام!
علمائے کرام سے گزارش ہے کہ وہ امت کی رہنمائی کریں کہ خلیجِ فارس سے لے کر بحرِ احمر تک جب امریکی و اسرائیلی جہاز تیل سے لدے جارہے ہوتے ہیں اور وہی تیل وہاں ان ہوائی جہازوں، ٹینکوں ، بکتر بندوں میں استعمال کیا جاتا ہے جس سے ہمارے مظلوم اہلِ غزہ کے مسلمانوں، عورتوں، بوڑھوں اور کثیر تعداد میں بچوں کا قتل عام کیا جارہاہے، تو کیا ان تیل سے لدے بحری جہازوں کی حفاظت کرنا شرعاً جائز ہے؟
کیا مسلم ممالک کی بحری افواج پر ان کو مارنے کی، ان کو روکنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے یا ان کو یہاں سے بحفاظت منتقل کرنے کی خدمت؟
کیا علمائے کرام پاکستانی بحریہ کے بڑے افسروں سے اس بات کے متعلق پوچھ نہیں سکتے کہ آپ جس کمانڈ ٹاسک فورسز کا حصہ ہیں، جو امریکی ایڈمرلز کی کمانڈ (کمبائنڈ میری ٹائم فورس) کے ماتحت ہیں، ان کے مقاصد کیا ہیں؟
جو مقاصد ان کمانڈ فورسز نے خود بیان کیے ہیں، کیا ان کے حصول میں کسی مسلمان فوج (پاکستان بحریہ) کا اس میں خدمات انجام دینا درست ہے؟
ان ٹاسک فورسز میں رہ کر اسرائیلی جہازوں کی حفاظت، اور علی الاعلان کہنا کہ ہم ایک (اچھے) جذبے کے ساتھ یہ خدمات انجام دے رہے ، شریعت میں کیا حکم رکھتا ہے؟
کمبائنڈ فورسکی ان کمانڈز کا مسلم خطوں کی سمندروں میں، اور وہ بھی دنیا کی اہم ترین تجارتی گزارگاہوں ( آبنائے ہرمز، آبنائے ملاکہ، خلیجِ عدن اور سب سے بڑھ کر بحرِ احمر جو مکہ مکرمہ کے قریب ہے) میں آخر کیا کام ہے؟ کیا امت کی افواج پر لازم نہیں کہ ارضِ حرم کے ارد گرد صلیبیوں اور صہیونیوں کا یہ قبضہ، یہ گھیرا ختم کریں؟
پھر اس شخص کا کیا حکم ہے کہ جو اپنے آپ کو مسلمان بھی کہے اور اس پورے قبضے و گھیرے میں صلیبیوں و صہیونیوں کا مددگار و معاون بھی ہو؟
٭٭٭٭٭
1 US seeking partners to safeguard ships after Red Sea attacks, Washington Post, Dec 10, 2023
2 www.axios.com/2023/12/14/us-warns-yemens-houthis-stop-red-sea-attacks
3 www.reuters.com/world/middle-east/red-sea-shipping-cost-rising-after-houthis-target-more-commercial-vessels-2023-12-12
4 www.combinedmaritimeforces.com
5 ملاحظہ ہو Combined Maritime Force کی ویب سائٹ