نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home عالمی منظر نامہ

اخباری کالموں کا جائزہ | فروری ۲۰۲۴

شاہین صدیقی by شاہین صدیقی
28 فروری 2024
in عالمی منظر نامہ, فروری 2024
0

[اس تحریر میں مختلف موضوعات پر کالم نگاروں کی آراء پیش کی جاتی ہیں۔ ان آراء اور کالم نگاروں کے تمام افکار و آراء سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ (ادارہ)]


پاکستان | الیکشن ۲۰۲۴ء

نئے سال کے آغاز سے ہی پاکستان میں الیکشن کا شور اور گہما گہمی ہے۔ ہر طرف سیاسی جوڑ توڑ، بلند و بانگ دعووں اور جھوٹے نعروں کے ذریعے سیاستدان عوام کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان کے سابق حکمران عمران خان کو ۲۰۱۸ء کے انتخابات میں فوج نے اقتدار کی کرسی پر براجمان کیا، پھر دورانِ حکومت اپنی من مانی کرنے کے جرم میں اسی ادارے نے اٹھا کر اقتدار کے ایوانوں سے باہر اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا۔

بظاہر عمران خان وہ پہلا سیاست دان ہے جس نے علی الاعلان فوج کو للکارا اور فوج کے سیاسی کردار پر سوال اٹھائے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہی فوج جو ایک مقدس گائے کی حیثیت رکھتی تھی، جس کے خلاف زبان کھولنا ناممکن تھا، آج پاکستان میں ہر خاص و عام اسی فوج کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔

ایک طرف پاکستان کا تباہ حال سیاسی نظام ہے، جس میں ہر سیاستدان اسٹیبلشمنٹ کا ’منظورِ نظر‘ ہونے کی دوڑ میں سبقت لے جانے کی کوشش میں مصروف ہے تو دوسری طرف پاکستان کا عدالتی نظام ہے کہ جس کا میزان ’پینڈولم‘ کی طرح متحرک ہے۔ یہاں منصف ہی انصاف کا قاتل ہے۔ یہاں ایک طرف تاحیات نااہلی اور قید و بند کی سزا کا مجرم، ابرو کے ایک اشارےپر ہر جرم سے بری اور دوبارہ ’سیلیکٹ‘ ہو کر اقتدار میں آنے کے لیے تیار ہے۔ دوسری طرف اخلاق و کردار سے عاری، زبانی جمع خرچ کرنے والا سابق حکمران متعدد مقدموں میں مجرم ثابت ہو کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے۔ کل ایک کی باری تھی آج دوسرے کی باری ہے۔ جہاں عدل کے دعویدار (بلکہ ٹھیکیدار) طاقتور کے حق میں فیصلے دیں، ایسے باطل نظام سے کون صاحبِ دانش امید لگا سکتا ہے؟

پاکستان کی ۷۵ سالہ تاریخ ہی اس پر گواہ نہیں بلکہ دنیا کی بڑی بڑی جمہوریتوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، ہر طرف یہی کھیل نظر آتا ہے۔ لیکن اس جمہوری نظام نے سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو پہنچایا ہے، امت مسلمہ پر کاری ضربیں لگائی ہیں۔ اور اب حال یہ ہے کہ غزہ لہولہان ہے اور عالم اسلام پر سکتہ طاری ہے……!

پاکستانی اخبارات اور میڈیا پر الیکشن سایہ فگن ہے۔ ہر صحافی اور کالم نگار کسی نہ کسی پارٹی کو پروموٹ کر رہا ہے۔ سیاسی دنگل میں سر فہرست مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام ہیں، تحریک لبیک اور جماعت اسلامی کا نام بھی سننے میں آ جاتا ہے، لیکن پاکستان تحریک انصاف جو عوام میں سب سے زیادہ مقبول نظر آ رہی ہے اپنی شناخت اور اپنا ’بلا‘ کھو چکی ہے، اس کا سربراہ جیل میں ہے اور پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے امیدوار پارٹی کے ٹکٹ پر لڑنے کی بجائے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑیں گے۔ اور انہیں خریدنے کے لیے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں پارٹیاں ہی پر تول رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کو بزور طاقت جلسے جلوس کرنے سے روکا جا رہا ہے اور ان کے بہت سے لیڈر جیل کے سلاخوں کے پیچھے ہیں یا اسٹیبلشمنٹ کے خوف سے بک چکے ہیں۔

اس حوالے سے اخبارات کیا کہتے ہیں؟ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں۔

یہ کیسا الیکشن، کیسی جمہوریت ہے؟| انصار عباسی

’’ایسے الیکشن کے مذاق کی کیا ضرورت!! اس تماشے سے جمہوریت کا کیا تعلق!!

مجھے تو دکھ اس بات کا ہے کہ آئین اور جمہوریت کے نام پر قوم کے کوئی پچاس ارب روپے انتخابات کے نام پر ضائع کیے جا رہے ہیں، جبکہ سبھی جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ جس طرح ہو رہا ہے اس کا تعلق نہ جمہوریت سے ہے نہ ہی آئین و قانون سے۔

میں ۹ مئی کے حملوں کے خلاف ہوں اور چاہتا ہوں کہ جو جو لوگ ان حملوں میں شریک تھے ان کو ماسٹر مائنڈ سمیت سزا دی جائے، انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت بھی نہ دی جائے، لیکن پوری کی پوری سیاسی جماعت کو ہی الیکشن سے مائنس کرنے کے لیے جو جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ نہ درست ہے اور نہ ہی اس کا کوئی سیاسی ، قانونی اور اخلاقی جواز۔

آزاد حیثیت میں بھی تحریک انصاف کے امیدواروں کو الیکشن لڑنے میں مشکلات درپیش ہیں۔ اگر ان کے ساتھ یہی کرنا تھا تو پھر الیکشن لڑنے کی اجازت ہی نہ دیتے۔

ٹی وی چینلز نواز شریف، مریم نواز، بلاول وغیرہ کی تمام تقریریں لائیو دکھا رہے ہیں لیکن تحریک انصاف والوں کے لیے کارنر میٹنگ بھی ممکن نہیں۔ اگر پوری جماعت کو ہی ریاست مخالف سمجھا جا رہا ہے تو پھر ایسی جماعت پر پابندی کا قانونی راستہ نکالنا چاہیے تھا۔

……بڑے فخر سے کہا جا رہا ہے کہ زرداری صاحب تو اس کام میں ماسٹر ہیں، جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ انہوں نے ماضی میں بھی یہ کام کیا اب بھی کریں گے، جبکہ ن لیگ بھی یہی امید لگائے بیٹھی ہے کہ ایسے آزاد اراکین اسمبلی ان کے ساتھ ہی ملیں گے۔ یعنی الیکشن جعلی، پھر جعلی الیکشن کے نتیجے میں آزاد اراکین کی خرید و فروخت اور پھر اس کے نتیجے میں بننے والی حکومت یہ ہے ہماری جمہوریت۔

یہ سب کچھ غلط ہو رہا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ یہ سب دھاندلی ہے لیکن اس کے باوجود سب الیکشن کا یہ ڈرامہ سجانے پر مصر ہیں۔ ایسی جمہوریت سے پاکستان کو کیا ملے گا، ایسے الیکشن نے اس ملک کو کیسا سیاسی استحکام دینا ہے۔‘‘

[جیو نیوز]

غزہ کی صورتحال اور پاکستانی سیاست!| محمد فاروق چوہان

’’اس وقت جس طرح نگران حکومت کی سرپرستی میں ایک پسندیدہ جماعت کو اقتدار میں پہنچانے کے لیے آئین و قانون کو پامال کیا جا رہا ہے وہ پاکستانی سیاست و جمہوریت کے لیے تباہ کن ہے۔ اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو انتخابی نتائج ۲۰۱۳ء اور ۲۰۱۸ء کی طرح متنازع ہو جائیں گے جس کے ملک پر بھیانک اور خطرناک اثرات مرتب ہوں گے۔ اس وقت ملک کے مختلف اضلاع سے شکایات آ رہی ہیں کہ مختلف سیاسی جماعتوں کی انتخابی سرگرمیوں میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔

اس طرح اپنے لاڈلوں کو زور زبردستی جتوایا گیا تو ملکی حالات بہتر ہونے کی بجائے ابتر ہو جائیں گے۔ اعلیٰ عدلیہ اور الیکشن کمیشن کی یہ اوّلین ذمہ داری ہے کہ صاف، شفاف، غیر جانبدارانہ اور آزادانہ انتخابات یقینی بنائیں جن کے نتائج سب کے لیے قابل قبول ہوں، بصورت دیگر ملک سیاسی بحران کی دلدل سے نہیں نکل سکے گا اور نہ ہی عوام کے مسائل حل ہو سکیں گے۔ اس وقت ساڑھے ۱۷ ہزار میں سے ساڑھے ۱۱ ہزار امیدوار آزاد ہیں جو حکومت بنانے اور گرانے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ ‘‘

[جیو نیوز]

عمران خان تنہا، سیاست ہار گیا| محمد فاروق چوہان

’’ہماری اسٹیبلشمنٹ کئی رہنما اصولوں پر سختی سے کاربند ہے۔ جب وہ کچھ کر گزرنے یا کچھ پانے کا ارادہ باندھتے ہیں تو سفر ’نان سٹاب‘، منزل پر اختتام پزیر ہوتا ہے۔

اختلاف رائے رکھنے والے سیاستدان، وزرائے اعظم کا مقدر جیل یا جلا وطنی یا پھر لقمہ اجل، ہر حالت میں ایک عرصہ تک سیاست کے دروازے بند رہتے ہیں۔ یہ ایک ایسی اٹل حقیقت جس سے آنکھیں چرانا سیاسی عاقبت نا اندیشی کہلائے گا۔ کل ہی عمران خان کی بہن نے خان صاحب کی صورتحال یا حالت زار کا جامع نقشہ دو فقروں میں باندھ دیا، ’کہاں ہیں وہ وکلاء جو کہتے تھے کہ وکلاء لشکر بن کر ٹوٹ پڑیں گے؟ آج سارے وکلاء عمران خان کو کسمپرسی میں چھوڑ کر اپنی اپنی الیکشن کمپین میں مصروف ہیں۔‘

……عمران خان اپنی لڑائی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جس انتہا تک پہنچا چکا، یہ بات طے کہ دونوں میں سے ایک کو ہی رہنا ہے۔ لڑائی کی ایسی قسم میں اسٹیبلشمنٹ بات کرنے پر تیار نہ موڈ میں ہے۔ اس سے پہلے بھٹو بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ میں جرنل ضیاء الحق کسی صورت بھٹو کے ساتھ بات کرنے پر تیار نہ تھے۔

اگرچہ عمران خان آج اپنی پارٹی اسٹیبلشمنٹ کے حوالے کر چکے ہیں، عمران خان کا واحد اثاثہ پبلک سپورٹ، بالغ رائے دہی پر انحصار، اور اس کے لیے بیلٹ باکس کی ضرورت، جس سے وہ محروم ہیں۔ ووٹرز بے بس، بے کس اور بے یار و مددگار اس شش و پنج میں کہ ووٹ دیتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کی جیت، گھر بیٹھتے ہیں تو بھی اسٹیبلشمنٹ کی جیت۔ آزاد امیدوار کی جیت تو اسٹیبلشمنٹ کے زیادہ وارے میں۔‘‘

[جیو نیوز]

بھارت | رام مندر کا افتتاح

ہندوستان میں مسلمانوں کی حالتِ زار عیاں ہے۔ بھگوا غنڈوں کے شر سے مسلمانوں کے جان و مال، املاک حتیٰ کہ عبادت گاہیں، مدارس و قبرستان تک محفوظ نہیں۔ ایسی صورتحال میں ہندوستان کے مسلمان کمزوری و بے بسی کی تصویر بنے خاموشی سے ظلم سہنے پر مجبور ہیں کیونکہ مسلمانوں پر یہ ظلم حکومتی سرپرستی میں سرکار کی آشیر باد سے کیا جا رہا ہے۔ ۲۲ جنوری کو قدیم بابری مسجد کی جگہ رام مندر کے افتتاح نے بھگوا غنڈوں کو اور ان کے مذموم عزائم کو تقیت دی اور جنوری کے مہینے ہی میں بڑی جرات سے مزید دو قدیم مساجد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ جن میں دہلی میں موجود اخونجی نامی صدیوں پرانی مسجد ہے۔ ۳۰ جنوری کی صبح حکومتی سرپرستی میں اس تاریخی مسجد کو ملحقہ مدرسے اور قبرستان سمیت شہید کر دیا گیا۔ جس کا بظاہر کوئی جواز بھی نہ دیا گیا۔

بابری مسجد کی جگہ موجود رام مندر جس کی تعمیر بھی ابھی پوری طرح مکمل نہ ہو ئی تھی، مودی نے بڑے جوش و خروش سے اس کا افتتاح کیا۔ جس کی بدولت نہ صرف پورے علاقے کو بھگوا رنگ میں رنگ دیا گیا بلکہ پورے ملک میں مذہبی رسومات کا اعلان بھی کیا گیا۔ اس ضمن میں مسلمانوں سے بھی کہا گیا کہ وہ ’جے شری رام‘ جیسے مشرکانہ نعرے کا چاپ کریں۔ اس موضوع پر بہت سے مسلمان صحافیوں نے قلم اٹھایا۔ لیکن ان کی تحریروں سے بے بسی اور مایوسی صاف چھلک رہی ہے۔

ذیل میں ہم چند اقتباس قارئین کی نظر کرتے ہیں۔

اے ملت گم گشتہ ترے حالات پہ رونا آیا……!!! | خیال اثر

’’حکومت کی جانب سے مہیا کردہ زمین پر تین دہائی گزرنے کے باوجود آج تک نہ تو بابری مسجد کے محراب و منبر دکھائی دیتے ہیں نہ ہی قال اللہ اور قال الرسول کی وہ گونج سنائی دیتی ہے کہ مسجد کے دروبام اور محراب و منبر جھوم جھوم جائیں۔ امت مسلمہ کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ تین دہائیاں گزر جانے کے باوجود بابری مسجد کی تعمیر جدید کے لیے کوئی لائحہ عمل ترتیب نہیں دیا گیا جس کی بدولت میر باقی کا خواب دیرینہ تعبیروں کی صورت درخشاں ہو جائے، جبکہ شہید شدہ بابری مسجد کی زمین پر آج رام مندر کا کلس سر اٹھانے کو بے قرار و بے تاب ہے، جہاں کبھی بلند و بالا میناروں سے لحن داؤدی میں زمزمہ محمدی کی پکار پنج وقتہ نمازوں کے لیے آواز دیا کرتی تھی وہیں سے چند دنوں بعد ناقوس و سنکھ و زنار کی مالا جپنے کی پرشور گونج طلوع آفتاب سے قبل ہی سنائی دے گی۔ چند دنوں بعد ہی ہندوستان کے طول و عرض ہی نہیں بلکہ سارے جہاں کے شدت پسند جنونی رام مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے ایک بار پھر ایودھیا میں مجتمع ہونے والے ہیں جہاں یوگی اور مودی کا جلوہ ایک بار پھر ہندوستان کی فتح یابی کے لیے زہر میں بجھے ہوئے تیر اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف پھینکتا نظر آئے گا اور ساری دنیا ہندوستانی مسلمانوں کی بے بسی کا تماشہ نمناک آنکھوں سے دیکھتی ہی رہ جائے گی۔ آج امت مسلمہ کی یہ بے حسی اور کیا دن دکھائے گی ایک دو دن کی بات نہیں بلکہ آزادی کے بعد سے ہندوستانی مسلمانوں کے رخساروں پر شدت پسند زناٹے دار تھپڑ رسید کرتے آئے ہیں لیکن ان کی نیند ہے کہ ٹوٹتی ہی نہیں۔ امت مسلمہ کی عیش پرستی کا شاخسانہ یہ رہا ہے کہ آج بھی اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ’ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں‘۔‘‘

[اردو ٹائمز]

رام مندر کا افتتاح یا سیاسی شعبے بازی | معصوم مراد آبادی

’’ایودھیا میں تعمیر ہونے والا رام مندر محض اینٹ اور گارے سے بنی ہوئی ایک عمارت نہیں ہو گی بلکہ اس کے ذریعہ یہ بھی ثابت کیا جائے گا کہ ’ہم نے پانچ سو سال‘ پہلے ہوئی بے عزتی کا انتقام لے لیا ہے۔ یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کا اصل ہدف کون ہے اور آنے والے دنوں میں اس ہندو احیاء پرستی کا خمیازہ کون بھگتے گا۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اب یہ ملک کن بنیادوں پر کھڑا ہو گا اور یہاں رہنے والی اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کی کیا حیثیت ہو گی۔ موجودہ حکمرانوں نے یہ ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے کہ یہ ملک صرف ہندوؤں کا ہے اور یہاں انہیں کی چلے گی، جہاں تک یہاں کی اقلیتوں کا سوال ہے تو انہیں ان ہی کے رحم و کرم پر زندگی گزارنی ہو گی ۔‘‘

[روزنامہ اعتماد]

بھارت | گیان واپی مسجد تنازع

رام مندر کے افتتاح کے فوری بعد ہی بھگوا شدت پسندوں نے ورانسی (سابقہ بنارس) میں موجود تاریخی گیان واپی مسجد پر یلغار شروع کر دی۔ جس کا پرانا نام ’جامع مسجد بنارس‘ تھا۔ اس مسجد کے صحن میں موجود کنویں کو گیان بافی کنواں کہا جاتا تھا۔ اس کنوے سے اس مسجد کی پہچان گیان بافی کے نام سے ہوئی۔ بعد میں مسجد کا نام گیان واپی مسجد پڑ گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مسجد پندرھویں یا سولہویں صدی عیسوی میں بنائی گئی تھی۔ پچھلے سال مسجد میں موجود وضو خانے کو بند کر کے محکمہ آثار قدیمہ کو مسجد کا تفصیلی سروے کرنے کا حکم دیا گیا۔ تین ماہ پہلے کئے گئے سروے کو عدالت اب منظرِ عام پر لے آئی، جس کے تحت سروے ٹیم کو مندر کے ۳۲ شواہد ملے ہیں۔ جس کو بنیاد بنا کر فی الوقت ہندوؤں کو مسجد کے تہہ خانے میں پوجا پاٹ کی اجازت مل گئی ہے اور تادم تحریر ہندوؤں نے مسجد کے تقدس کی پامالی کرتے ہوئے وہاں اپنے بت نصب کر کے پوجا شروع کر دی ہے۔

اس دوران گیان واپی مسجد کمیٹی نے کہا کہ’’جب سپریم کورٹ عبادت گاہوں سے متعلق قانون ِ مجرا (۱۹۹۱ء) کے تحت معاملے کی سماعت کرے گی تو وہ اپنا مؤقف پیش کریں گے۔‘‘ واضح رہے کہ مذکورہ قانون کے مطابق کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ کی ۱۹۴۷ء کے بعد کی نوعیت میں ترمیم نہیں کی جاسکتی۔ لیکن بابری مسجد کے قضیہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ قانون نام کا ہے اور جب مسلمانوں کی بات آتی ہے تو اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔

اس اہم معاملے پر مختلف کالموں سے چند اقتباس پیش خدمت ہیں۔

ایودھیا کے بعد گیان واپی مسجد پر یلغار | معصوم مراد آبادی

’’گیان واپی مسجد کے خلاف اے ایس آئی کی رپورٹ ایودھیا میں رامن مندر کی پران پرتشٹھا کے دو روز بعد سامنے آئی ہے۔ اس وقت ہندو بریگیڈ میں جوش و خروش کی جو کیفیت ہے اسے پوری طرح الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ۲۲ جنوری کو ہندتوا وادیوں میں جو آگ بھری ہے، اس کا اثر دیر تک اور دور تک محسوس ہوگا۔ انہوں نے صرف مندر کا افتتاح ہی نہیں کیا بلکہ اپنی تقریر میں آئندہ ہزار سال کی منصوبہ بندی کا خاکہ بھی پیش کر دیا ہے۔ مرکزی کابینہ نے اس معاملے میں وزیر اعظم کی جو قصیدہ خوانی کی ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ ’۱۹۴۷ء میں ملک کو محض جسمانی طور پر آزادی ملی تھی، لیکن اس میں اب روح پھونکنے کا کام وزیر اعظم نریندر مودی نے کیا ہے۔ ۲۲ جنوری کے سلسلہ واقعات پر سرسری نگاہ ڈالنے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ایک سیکولر جمہوری ملک کو پوری طرح زعفرانی لباس پہنا دیا گیا ہے۔ وہ حکومت جو بلا تفریق مذہب و ملت سب کے ساتھ انصاف کرنے کا حلف اٹھا کر اقتدار میں آئی تھی، مکمل طور پر ہندو راشٹر کے سانچے میں ڈھل چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کی پوری مشنری ہندتوا کے ایجنڈے پر گامزن ہے۔ سیکولرازم اور فاشزم کے درمیان حائل باریک سی چلمن کو بھی تار تار کر دیا گیا ہے۔

۹۰ء کی دہائی میں جب رام جنم بھومی مکتی آندولن شروع ہوا تھا تو اسے ایک مذہبی تحریک کا نام دیا گیا تھا، لیکن اس کے سیاسی مقاصد کسی سے پوشیدہ نہیں تھے۔ بعد کے دنوں میں یہ ثابت بھی ہوا کہ سنگھ پریوار نے ایودھیا کی تحریک بی جے پی کو اقتدار میں لانے کے مقصد سے شروع کی تھی، جس میں اسے سو فیصد کامیابی ملی۔ لیکن اب جبکہ بی جے پی پوری طرح مرکز کے اقتدار پر قابض ہے اور ملک کے بیشتر صوبوں میں بھی اسی کی حکومت ہے تو آخر وہ کون سا مقصد ہے جس کے تحت مسلم حکمرانوں کی تعمیر کردہ مسجدوں کو مندروں میں بدلنے کی خطرناک اور شر انگیز مہم چلائی جا رہی ہے؟ ظاہر ہے اس کا ایک ہی مقصد ہے کہ ہندوؤں کے اندر فخر کا احساس پیدا کر کے انہیں ایک فاتح قوم کے طور پر جینے کا حق فراہم کیا جائے اور مسلمانوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ وہ اس ملک کے اصل شہری نہیں ہیں بلکہ ان حملہ آوروں کے پسماندگان ہیں جنہوں نے اس ملک پر ’آکرمن‘ کیا اور مندروں کو توڑ کر مسجدیں بنائیں۔ یہی وجہ ہے کہ یکے بعد دیگرے مسلم دور حکومت کی مسجدوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ہر مسجد کے نیچے مندر کے باقیات ڈھونڈے جا رہے ہیں۔ اس مقصد کے تحت بابری مسجد کے بعد کاشی اور متھرا کی مسجدوں کو ہی نشانے پر نہیں لیا گیا بلکہ اس فہرست میں ہر روز ایک نئی مسجد کا اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘

[روزنامہ اعتماد]

اب گیان واپی مسجد بھی قانون کی نظر ہو جائے گی | فاروق انصاری

’’ورانسی کی گیان واپی مسجد کی سروے رپورٹ کو عدالت نے ظاہر کر دیا ہے جس کے مطابق مسجد کے نیچے مندر ہونے کے ثبوت مل گئے ہیں۔ چونکہ یہ فیصلہ عدالت نے رپورٹ کی بنیاد پر سنایا ہے اس لیے اب یہ طے ہو گیا ہے کہ جب مسجد مندر توڑ کر بنائی گئی تھی تو وہی عدالت وہاں مندر تعمیر کرنے کا بھی حکم دے گی جیسا کہ بابری مسجد کے تعلق سے سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا۔ حالانکہ مسلم فریق نے اس فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا ہے، لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ بابری مسجد معاملے میں مسلمانوں کے پاس زمین کے سبھی کاغذات ہوتے ہوئے بھی اسی سپریم کورٹ نے کہہ دیا کہ اس جگہ سے ہندو آستھا جڑی ہوئی ہے اس لیے مسلمان اس جگہ سے دستبردار ہو جائیں اور کہیں دوسری جگہ جہاں سرکار جگہ دے وہاں مسجد تعمیر کر لیں۔ اگر بابری مسجد کی جگہ کے کاغذات موجود تھے تو پھر عدالت حق پرستی کی بنیاد پر رام مندر ٹرسٹ سے یہ کہہ سکتی تھی کہ وہ مسجد سے تھوڑا ہٹ کر رام مندر تعمیر کر لیں لیکن فیصلہ ہندوؤں کے حق میں آستھا کی بنیاد پر دیاگیا۔ اب ورانسی کی گیان واپی مسجد کا معاملہ بھی اسی طرح سے ہو رہا ہے، مسجد کے نیچے مندر ہونے کے ثبوت مل گئے ہیں، اب آگے کا کام عدالت کر دے گی؟ اور مسلمان پھر ہاتھ ملتا رہ جائے گا، صبر کر لے گا اور معاملہ اللہ پر چھوڑ دے گا۔ اس کے سوا مسلمان کر بھی کیا سکتا ہے؟ نہ تو ان میں آپس میں اتحاد ہے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی کوشش کی جا رہی ہے جو ہیں وہ اپنے آپ میں ہی مست ہیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ لگی رہتی ہے لیکن کبھی بھی سنجیدہ مزاجی کے ساتھ اجتماعی طور سے مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور حفاظت کے لیے غور نہیں کیا جاتا۔ بنام مسلم مسائل کی بنیاد پر مسلمانوں نے کبھی بھی آپس میں متحد ہونے کی کوشش نہیں کی، بلکہ اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد لیے پڑے ہیں۔ کسی کو بھی یہ فکر نہیں ہے کہ قوم کا کیا حال ہو رہا ہے۔ علمائے کرام کی تذلیل کی جاتی ہے ان کی قدر نہیں ہوتی، مسجدوں میں امام کو نوکر سمجھ کر رکھا جاتا ہے۔ اس لیے مارے کاٹے جاتے ہیں، ایسے میں اگر بابری مسجد کی طرح گیان واپی مسجد اور شاہی عید گاہ مسجد بھی منہدم کر کے اس جگہ مندر تعمیر ہو جائیں تو کوئی کیا کر سکتا ہے؟

[اردو ٹائمز]

اسی زمین پر ظالم تھے تم سے پہلے جو | رشید الدین

’’قوم کی بدقسمتی کہیے کہ سیاسی اور مذہبی سطح پر مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے کوئی مضبوط قیادت نہیں ہے۔ سابق میں جو بھی قیادتیں رہیں وہ دیانتدار اور حق گو ثابت ہوئی تھیں لیکن ان کے جانشینوں نے مصلحت پسندی کو اپنا شعار بنا لیا جس کے نتیجہ میں قیادتوں پر عام مسلمانوں کا اعتماد متزلزل ہو چکا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ جو مسلمانوں کے واحد نمائندہ پلیٹ فارم کی طرح ہے اسے بھی بعض عناصر نے کمزور کرنے اور حقیقی مقصد سے ہٹانے کی کوشش کی ہے ۔ موجودہ حالات میں بہادر یار جنگ کا یہ جملہ ہمیں یاد آرہا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مسلمان ہمیشہ خود میں احساس کو زندہ رکھیں، اگر احساس ختم ہو جائے گا تو ہندوستان میں اسپین جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ مسلمانوں کو عبادت سے روکنے کے لیے مساجد پر دعویداری پیش کی جا رہی ہے اور بابری مسجد کے بعد متھرا اور کاشی کی مساجد اور عیدگاہ پر نظریں ہیں۔ مسلمانوں کو کسی قیادت کا انتظار کیے بغیر خود کو حالات سے نمٹنے کے لیے تیار کرنا ہو گا۔‘‘

[روزنامہ سیاست]

بھارت بلقیس بانو کیس

گزشتہ ماہ کا ایک اہم موضوع بلقیس بانو کیس سے متعلق ہندوستان کی سپریم کورٹ کا تازہ حکم ہے۔ بلقیس بانو ایک ایسی مسلمان مظلوم خاتون ہیں جو ۲۰۰۲ء میں ہونے والے گجرات فسادات کا ہدف بنیں۔ جب انتہا پسند ہندو فسادیوں نے مسلمانوں کی جانوں اور املاک پر حملے کیے، جس میں ایک اندازے کے مطابق دو ہزار لوگ لقمۂ اجل بن گئے۔ انہی لوگوں میں ایک بلقیس بانو اور ان کا خاندان بھی تھا۔ ہندو بلوائیوں کے ایک گروہ نے ان کے خاندان پر حملہ کر کے ان کے خاندان کے ۱۴ افراد کو شہید کر دیا، جن میں بلقیس بانو کی ۳ سالہ بیٹی اور ان کی بھابھی کا نوزائیدہ بچہ بھی شامل ہے۔ ظالموں نے بلقیس بانو، ان کی بھابھی اور والدہ کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جس سے ان کی والدی اور بھابھی تو جانبر نہ ہو سکیں البتہ بلقیس بانو کا پانچ ماہ کا حمل ضائع ہو گیا لیکن ان کی جان بچ گئی۔ بلقیس بانو جو اس وقت ۲۱ سال کی تھیں، انہوں نے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی اور ایک طویل قانونی جنگ لڑی، جس کی بدولت ۱۱ ملزموں کو قتل اور ریپ کے الزام میں عمر قید کی سزا ہوئی۔ اس دوران ملزمان کو ضمانت پر بری کیا جاتا ہے۔ ۱۵ اگست ۲۰۲۲ء گجرات حکومت کی عام معافی کی پالیسی کے تحت تمام ۱۱ مجرموں کو رہا کر دیا گیا۔ جس پر ہندوؤں نے نہ صرف مٹھائی بانٹی بلکہ ان کا رہائی پر پرتپاک استقبال بھی کیا گیا۔ ۳ نومبر ۲۰۲۲ء کو بلقیس بانو نے مجرموں کی رہائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ ۸ جنوری ۲۰۲۴ء کو سپریم کورٹ نے تمام ۱۱ مجرموں کی معافی کو منسوخ کر دیا اور مجرموں کو دو ہفتوں میں از خود گرفتاری دینے کی ہدایت کی۔

اس کیس میں بلقیس بانو اور ان کے شوہر نے ہمت نہیں ہاری۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ اب بالآخر ۲۱ سال کی طویل جدو جہد کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ بلقیس بانو قانونی جنگ جیت چکی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آیا اس فیصلے پر عمل درآمد ہو گا یا یہ بھی بقیہ مسلمانوں کے معاملات کی طرح ناقابل عمل واقع ہو گا۔ یہ مجرم اور ان جیسے ہزاروں مجرم اپنی گھٹیا حرکتوں پر فخر کرتے دندناتے پھرتے رہیں گے؟

اس حوالے سے چند کالموں سے اقتباس ملاحظہ ہوں:

آرام سے واپس آؤ! | اداریہ

’’سپریم کورٹ کے فیصلے نے جہاں ایک عام آدمی کے عدالت عظمیٰ پر اعتماد کوتقویت بخشی ہے وہیں کچھ تشویش کو اب بھی زندہ رکھا ہے۔ سب سے پہلی تشویش یہ ہے کہ یہ حتمی فیصلہ نہیں ہے بلکہ اب بھی مہاراشٹر حکومت سے اجازت لینے کے دریچہ کو کھلا رکھا ہے عدالت عظمیٰ نے۔ گجرات میں بی جے پی کی حکومت ہے تو مہاراشٹر میں کس کی حکومت ہے؟ اگر مجرمین ۱۵ دنوں کے عرصہ میں آرام سے مہاراشٹر حکومت کے پاس پہنچتے پھر کیا ہو گا؟ عیاں رہے کہ ۲۰۲۲ء میں ۱۵ دنوں میں ہی مجرمین کی درخواست پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا اور مجرمین کو گجرات حکومت نے اچھے چال چلن کا سرٹیفکیٹ دے کر ۱۵ اگست کو ہی رہا کر دیا تھا۔ یہ بھی حیرت انگیز امر ہے کہ گجرات حکومت کی نظر میں تمام ۱۱ مجرمین کے چال چلن اچھے تھے جبکہ ان میں سے ۲ مجرمین کے خلاف پیرول کے دوران بھی جنسی زیادتی کے معاملات درج ہوئے تھے۔ پیرول کے دوران جرم کا ارتکاب کرنا جرائم کی دنیا میں انتہائی خطرناک سمجھا جاتا ہے اور مجرم کی خطرناک مجرمانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے اس کے باوجود گجرات حکومت نے ان مجرموں کو نیک قرار دے دیا تھا۔ یہ مجرمین وہ تھے جن کے ڈر سے بلقیس بانو کو اپنا محلہ اور اپنا علاقہ چھوڑنا پڑا تھا۔ بلقیس بانو کا کیس انتہائی بے رحمانہ معاملے کے زمرے میں آتا ہے۔ ایسا معاملہ جس کا سماج پر گہرا اثر ہوتا ہے اور جو ملک کے عدالتی نظام اور نظم و نسق کے حوالے سے برسوں تک یاد رکھے جانے والا ہے۔ اتنے سنگین معاملے کے مجرمین کو رہا کرنے کی سوچ ہی افسوسناک ہے۔ پہلے بلقیس بانو کو انصاف کے لیے کئی برسوں تک عدالتوں کے چکر لگانے پڑے اور اب ایک بار پھر اس انصاف کو برقرار رکھنے کے لیے انہیں عدالتوں کے چکر لگانے ہوں گے۔ کیا بلقیس بانو کو انصاف کا سکون میسر آئے گا؟ یا دو ریاستوں کے بیچ’آوا جاہی‘ لگی رہے گی اور بلقیس بانو کو عدالت سے ملا ۵۰ لاکھ کا معاوضہ عدالت اور وکیلوں کے چکر میں ہی خرچ ہو جائے گا۔‘‘

[اردو ٹائمز]

بلقیس بانو کی جیت! لیکن ابھی انصاف ہنوز ادھورا ہے!!! | خیال اثر

’’جس طرح ملک کی عدالت عالیہ نے سنسکاری کہہ کر آزاد کر دیے جانے والے ۱۱ درندوں کو واپس جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیے جانے کا حکم جاری کر کے ثابت کر دیا کہ ابھی انصاف زندہ ہے ابھی انصاف مرا نہیں۔ دیکھا جائے تو انصاف کا ترازو آج بھی حکومت وقت کی جنبش ابرو کا محتاج ہے۔ انصاف کے مندر میں کھڑی انصاف کی دیوی کی آنکھوں پر بندھی پٹی اتنی سختی سے باندھی گئی ہے کہ وہ کھلنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ ہندوستان کی عدالتوں میں بے شمار مقدمے آج بھی تشنہ کامی کا شکار ہیں۔ احسان جعفری کی معمر و بزرگ بیوہ ذکیہ جعفری اگر آج بھی انصاف کی تلاش میں سرگرداں ہیں تو عشرت جہاں کی مادر مہرباں شمیم بانو بھی حق و انصاف کی تلاش میں در در بھٹک رہی ہیں۔ یکے بعد دیگرے کئی مقدمات حصول انصاف کی طلب میں زندہ درگور ہوئے جا رہے ہیں۔ نربھیا کی چیخیں آج بھی دہلی تا سنگاپور کانوں میں پگھلا شیشہ انڈیل رہی ہیں۔ گلنار بانو کی بھٹکتی روح آج بھی سوالی ہے کہ کیا اس کی بے چین و بے قرار روح کو انصاف کی بھیک دے دی جائے گی۔ ایک مقدمہ کا فیصلہ کرتے ہوئے چند مجرمین کو واپس سلاخوں کے پیچھے ڈال دینا انصاف کے تقاضوں کو مکمل نہیں کرتا بلکہ بے شار سوالات کھڑے کر دیتا ہے کہ کہیں اس کے پس پشت کوئی منصوبہ تو نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایودھیا میں رام مندر کی افتتاحی تقریب مکمل ہوکر دیش کے پردھان منتری کو دھرم گرو کے عہدے پر یوں تمکین کر دیں کہ وہ امسال کے پارلیمانی انتخابات میں بھی مسلمان مغل بادشاہ شاہ جہاں کے ذریعے تعمیر شدہ لال قلعہ کی بلند و بالا فصیلوں سے ترنگا لہراتے ہوئے خود کو ناقابل تسخیر ہونے کا دعوی کر بیٹھیں، لیکن یاد رہے کہ بلقیس بانو کے حق میں سپریم کورٹ کا دیا گیا فیصلہ لاکھ خوش آئند سہی بالکل اسی طرز نو کو اپناتے ہوئے اگر ذکیہ جعفری اور شمیم بانو کے علاوہ ہندوستانی عدالتوں میں کروڑ ہا دائر شدہ مقدمات کا فیصلہ بھی صادر ہو جائے تو وہ دن قانون و عدلیہ کی بالادستی کا اعلان کرتے ہوئے یہ فرمان جاری کر جائے گا کہ ابھی قانون زندہ ہے۔ ابھی عدالتیں انصاف کی طلب میں بھٹکنے والوں کے لیے خضرِ راہ کی صورت متحرک و فعال ہیں۔‘‘

[اردو ٹائمز]

غزہ | اسرائیلی جارحیت کے چار ماہ

غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو چار ماہ ہو گئے ہیں۔ غزہ کے مسلمان جس ظلم، تکالیف، زبوں حالی اور کسمپسری کا شکار ہیں، ایک لمحے کو تصور کر کے ہی دل لرز جاتا ہے، اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔ قابض اسرائیلی فوج کی درندگی نے شیطان کو بھی شرما دیا ہے۔ اب تک تقریباً ۲۸ ہزار فلسطینی اسرائیلی حملوں میں شہید ہو چکے ہیں۔ جن میں ساڑھے گیارہ ہزار بچے اور تقریباً آٹھ ہزار خواتین ہیں۔ جبکہ زندہ بچ جانے والے زخمیوں کی تعداد ساڑھے چھیاسٹھ ہزار سے زائد ہے۔ جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ ظالم صہیونی حملوں میں آدھے سے زیادہ غزہ کا انفراسٹرکچر کلی یا جزوی طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ غزہ کی پٹی میں کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں ہے۔

الجزیرہ کے مطابق ہر ایک گھنٹے میں غزہ میں ۴۲ بم گر رہے ہیں جس کے نتیجے میں بارہ عمارتیں تباہ اور پندرہ لوگ شہید ہو رہے ہیں جن میں ۶ بچے ہیں۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں ہیں۔ یہ جیتے جاگتے انسانوں کی تباہی ہے۔ یہ وہ بچے ہیں جن سے ان کا مستقبل چھین لیا گیا، وہ پھول ہیں جو ابھی کھلے نہ تھے کہ مسل دیے گئے۔ وہ مائیں ، بہنیں اور بیٹیاں ہیں جن کے سر سے چھت اور سرپرست چھین لیے گئے۔ سخت سردی اور بارشوں میں جائے پناہ نہ ہونے کی وجہ سے پناہ گزین کیمپوں میں بیماریاں اور وبائیں پھوٹ رہی ہیں۔ بنیادی طبی سہولیات اور خوراک کی کمی نے غزہ کے مسلمانوں کی بقاء کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

ایسے میں اسرائیل کا ناپاک وجود وقت کا فرعون بنا ہوا ہے تو یہ بات بھی اسے جان لینی چاہیے کہ ماضی کا فرعون آج بھی عبرت کا نشان ہے۔ موجودہ فرعون بھی جلد عبرتناک انجام تک پہنچے گا۔ انشاء اللہ العزیز

غزہ | عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ

فلسطینی مسلمانوں کے خلاف ناپاک صہیونی ریاست کا ظلم مسلم حکمرانوں سمیت دنیا دیکھ رہی ہے۔ عوام الناس چاہے مشرق میں ہوں یا مغرب میں، احتجاج اور معاشی بائیکاٹ کے ذریعے ہر پلیٹ فارم پر آواز اٹھا رہے ہیں۔ لیکن جنوبی افریقہ نے بطور ریاست اس معاملے کو عالمی عدالت انصاف (ICJ) میں اٹھایا، اور مقدمہ دائر کیا کہ اسرائیل غزہ میں جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے اور فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ عالمی عدالت نے اس سلسلے میں چھ نکاتی فیصلہ سنایا ہے جس میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ’’وہ فلسطینیوں کے قتل عام سے گریز کرے، انہیں شدید جسمانی یا ذہنی نقصان نہ پہنچائے نہ ہی غزہ میں ناقابل برداشت صورتحال پیدا کرے یا فلسطینیوں کی پیدائش کو جان بوجھ کر نہ روکے۔ اسرائیل مزید اقدامات اٹھائے تاکہ وہ نسل کشی پر اکسانے والوں کو روک سکے اور انہیں سزا دے سکے۔غزہ میں موجود انسانی بحران کو ختم کرنے کے لیے غزہ کے شہریوں تک بنیادی انسانی ضروریات اور امداد کو یقینی بنائے۔ اور اسرائیل کو فیصلے کے ایک ماہ کے اندر عدالت کی طرف سے عائد کردہ اقدامات کی پاسداری کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی رپورٹ پیش کرنی ہو گی۔‘‘

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اسرائیل جیسی ریاست جس کا وجود ہی ناجائز بنیادوں پر کھڑا ہے، کیا ان مطالبات پر عمل پیرا ہو گی؟ اور اگر نہیں عمل کرتی تو کون سی طاقت ان مطالبات پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گی؟ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی طرح یہ فیصلہ بھی صرف کاغذی ہے، اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ بین الاقوامی میڈیا پر مصنفین اور تجزیہ نگار کیا کہتے ہیں چند اقتباسات ملاحظہ ہوں۔

The ICJ ruling was a legal victory at the cost of Palestinian lives | Andrew Mitrovica

ترجمہ: ’’میرے اندر کے بدبین کا گمان ہے کہ زمینی طور پر غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں جلد کچھ بھی نہیں بدلنے والا۔ معصوموں کا قتل عام جاری رہے گا۔ فلسطینی بچے، بوڑھے اور ناتواں بھوک اور بیماریوں کا شکار ہوتے رہیں گے جبکہ ان کے اہل خانہ بارش سے بھیگے خیموں کے سمندر مین دبکے ہوئے ہیں اور اسرائیل پورے غزہ کو خاک و یاداشت میں بدلتا جائے گا۔

عالمی عدالت کے احکامات کے باوجود دنیا کا بیشتر حصہ اسرائیل کو غزہ کا بے دریغ محاصرہ اور قتل عام آج اور مستقبل میں بھی اسی طرح کرنے دے گا جیسے وہ اب تک کرنے دیتا آرہا ہے۔

پھر بھی عالمی عدالت کی اسرائیل کو کی گئی سخت سرزنش کو علامتی یا غیر متعلق قرار دینے والوں کو غور کرنا چاہیے کہ تل ابیب اور واشنگٹن نے عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کس طرح کیا ہے۔

اسرائیل نے پھر اپنا وہی گھسا پٹا جملہ دہرایا ہے کہ ’عالمی عدالت انٹی سمیٹک متعصبین کاگڑھ ہے۔‘ سنگین فرد جرم کا یہ کتنا غیر سنجیدہ جواب ہے……‘‘

[Al Jazeera]

زخمی بچہ، مغربی میڈیا اور دو ذرائع | محمد حنیف

’’اس ہفتے دنیا میں سب سے بڑی خبر یہ تھی کہ جنوبی افریقہ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی نسل کشی کا مقدمہ تیار کر کے اقوام متحدہ کی عالمی عدالت میں پہنچا۔ ایک دن جنوبی افریقہ کو اپنا کیس پیش کرنا تھا، اگلے دن اسرائیل کو اپنا دفاع کرنا تھا۔ اس سے آسان ایڈیٹوریل فیصلہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ عالمی عدالت میں کیس پر پوری دنیا کی نظریں لگی ہیں۔ دونوں دن، دونوں ملکوں کا مؤقف لوگوں تک پہنچنا چاہیے تھا۔

مغرب کے تقریباً تمام نشریاتی اداروں اور بڑے اخباروں نے جنوبی افریقہ کی طرف سے پیش کیے گئے شواہد اور ان کے وکلاء کے دلائل کو براہ راست نہیں دکھایا۔ اگلے دن اسرائیل اپنےدفاع کے لیے پیش ہوا تو ساری نشریات روک کر براہ راست کاروائی دکھائی گئی۔

کسی ادارے نے اپنے اس فیصلے کی وضاحت پیش نہیں کی۔ شاید انہیں یقین ہے کہ جدید صحافت اور اس کی اخلاقیات انہیں کی ایجاد ہیں اور وہ جب چاہیں نئے معیار ایجاد کر لیں۔

اس معاملے میں ان کا رویہ اسرائیل کے دفاعی وکلاء جیسا ہی تھا کہ تم ہم پر نسل کشی کا الزام لگا کر ہمیں بدنام کر رہے ہو، ہمارے پہلے سے دکھی دلوں کو اور دکھی کر رہے ہو۔ لیکن ہم جو کر رہے ہیں اس سے تم ہمیں روک کر تو دکھاؤ۔

مغربی دانشور ہم جیسے ملکوں کو بنانا ریپبلک اور ہماری عدالتوں کو کینگرو کورٹ کہتے ہیں لیکن میں نے کسی بڑی سے بڑی ڈکٹیٹر شپ کے بارے میں بھی یہ نہیں سنا کہ ایک میچ ہو رہا ہو، جب مخالف باری لے رہا ہو تو یہ تاثر دیا جائے کہ کونسا میچ اور جب اپنی ٹیم باری لینے آئے تو فوراً لائیو کوریج شروع کر دی جائے۔‘‘

[بی بی سی اردو]

انصاف و علم بے بس ہیں | محترمہ عامرہ احسان صاحبہ

’’عالمی عدالتِ انصاف کی کل کہانی کریگ مرے نے دو جملوں میں بیان کر دی کہ: ’جج صاحبان وہ تھے جو وہاں ہونا ہی نہ چاہتے تھے! (اسرائیل کے خلاف مقدمہ ہو، امریکہ برطانیہ عالمی طاقتوں کی پشت پناہی اسرائیل کو حاصل ہو اور یہ ان کی ناراضی کا خطرہ مول لیں؟) یوں اصلاً تو یہ کورٹ اور ججوں کا امتحان تھا اور گویا انہیں پر مقدمہ تھا۔ زیادہ تر جج امریکہ، اسرائیل کو راضی اور خوش رکھنے کو بےقرار تھے!‘

غزہ نے پوری دنیا کو آئینہ دکھا دیا ہے۔ حقائق، (حقوق انسانی، خواتین بچوں کے) کھل گئے ہیں۔ اونچی دکانوں کے پھیکے (بلکہ تلخ ترین، زہرناک) پکوان کا تعفن غزہ کے قبرستانوں سے اٹھا ہے! امریکہ، یورپ نے ڈٹ کر اسلحہ فراہم کیا، حمایتی بیانات جاری کیے، ویٹو کیا۔ غزہ پر اسرائیل نے ایٹم بموں کے برابر بمباریاں کیں (جو موسمیاتی بحران کا سامان تھا)۔ قریبی ملک (امارات) میں اصل مجرم مقالے، بحث مباحثے، تقاریر فرماتے رہے۔ ’موسمیاتی تبدیلی‘ پر موسمیاتی بحران کے ڈرامے رچاتے رہے! اب جو حقائق سامنے آئے ہیں ان کے مطابق: پہلے ۶۰ دن کی بمباری (غزہ پر) سے ایک لاکھ ۵۰ ہزار ٹن کوئلہ جلانے کے برابر عالمگیر سطح پر درجہ حرارت میں اضافہ کرنے والی گیسوں کے اخراج (یعنی موسمیاتی تباہی!) کا سبب بنی۔ یاد رہے کہ ۲۰۲۳ء گرم ترین درجہ حرارت کا سال رہا۔ موسمیاتی شدت کا (سردی گرمی دونوں میں) پوری دنیا کو سامنا رہا۔

اسرائیل کی خونخواری کی مکمل ذمہ داری امریکہ اور برطانیہ پر ہے۔ دنیا اب اس پر یک زبان ہے۔ طرفہ تماشہ دیکھیے کہ عالمی عدالتِ انصاف میں، کریگ مرے بتاتا ہے کہ اندر لکھنے کو قلم، کاپی لے جانے کی اجازت نہ تھی۔ جب سکیورٹی چیف سے وجہ پوچھی تو اس نے کہا: ’یہ ہتھیار کے طور پر استعمال ہو سکتا ہے!‘ اندازہ کیجیے کہ جس عدالت کو کھنڈر، ملبہ بنے غزہ میں جنگی جرائم کا ثبوت (فی الوقت ۸۴ صفحات) مزید درکار ہے، ۲۴ ہزار شہادتوں کے بعد! اس کے ایوان میں قلم ’ہتھیار‘ ہے۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی! قلم کی قوت، لکھے الفاظ کی طاقت، غزہ کی پوسٹوں پر لکھی انگریزی میں حقائق کا انکشاف ہی ہے جس نے دنیا دگرگوں کر ڈالی۔ مرے کہتا ہے کہ اندر گیلری میں یو این کے افراد کے پاس پین موجود تھے (انہیں اجازت تھی۔) میں ان سے مانگ کر لکھ سکتا تھا لیکن اس شش و پنج میں رہا کہ کہیں یہ ’دہشت گردی‘ میں شمار نہ ہو جائے۔ دنیا میں ملمع سازی، فریب دجل کی حقیقت کتنی واشگاف ہوچکی! یہ سب نہتے صابر و پر عزم اہل غزہ کی صداقت سے ہوا۔ یا فلسطینی مجاہدین جو ساری دنیا کی اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی کو اپنی غیر معمولی شجاعت و پامردی سے شکست دے چکے۔ جن کی زندگیاں اقصیٰ کے ہر انچ اور انبیاء کے مولد و مساکن کے تحفظ کے لیے وقف ہو گئیں۔ مسلم دنیا ہوش کے ناخن لے! ورنہ دنیا و آخرت دونوں کا خسارہ مقدر ہو گا۔ (خدانخواستہ)‘‘

[نئی بات]

غزہ | UNRWA کی امداد پر بندش

ادارہ برائے فلسطینی پناہ گزین (UNRWA) اقوام متحدہ کا ایک خصوصی ادارہ ہے جو فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد کرتا ہے اور انہیں بنیادی سہولیات مہیا کرتا ہے۔ یہ ادارہ ۱۹۴۸ء میں پہلی نکبہ کے موقع پر اپنے علاقوں سے بے دخل کیے گئے لاکھوں فلسطینیوں کی امداد کے لیے قائم کیا گیا تھا اور اب تقریباً ساٹھ لاکھ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے بنیادی اور سب سے بڑا امدادی ادارہ ہے۔ ناپاک اسرائیلی ریاست نے الزام لگایا ہے کہ ۷ اکتوبر کے حملے میں UNRWA کے بارہ سٹاف ممبرز بھی ملوث تھے جس پر امریکہ اور برطانیہ سمیت نو بڑے ملکوں نے اپنی امداد ادارے کے لیے روک دی۔

یہ اعلان ایسے وقت میں سامنےآیاجبکہ غزہ کے شہریوں تک امداد کی رسد ویسے ہی برائے نام ہے۔ جس کی وجہ سے ادویات، بنیادی ضروریات اور خوراک کی شدید قلت نے ایک بہت بڑے انسانی بحران کو جنم دیا ہے۔ لگتا ہے کہ ناپاک اسرائیلی ریاست اور اس کے طاقتور چیلے غزہ کے مسلمانوں سے زندگی کی امید کو بھی چین لینا چاہتے ہیں۔

حالانکہ یہ ادارہ ان تمام بڑے ملکوں کی زیر نگرانی چلتا ہے اور ادارے کے سٹاف ، کام کرنے کے طریقے اور معاملات کی مکمل رپورٹ ان ممالک کو باقاعدگی سے دی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں بھی سراپا احتجاج ہیں اور تجزیہ نگار بھی اس پر آواز اٹھا رہے ہیں۔ چند مضامین سے اقتباس ملاحظہ ہوں۔

UNRWA’s funding crisis and Gaza’s humanitarian future | Mariam Shah

ترجمہ: ’’UNRWA صرف ایک تنظیم نہیں ہے، یہ بیس لاکھ لوگوں کے لیے لائف لائن ہے، جن میں سے نصف سے زیادہ غزہ کے بچے ہیں۔ چمکیلی سرخیوں اور غیر ثابت شدہ الزامات سے ہٹ کر، UNRWA جنگ زدہ لوگوں کے لیے امید کی کرن ہے، ہر حال میں امداد، پناہ، خوراک اور صحت کی دیکھ بھال فراہم کرتا ہے۔ عطیہ دینے والی ریاستوں کی جانب سے فنڈنگ کی معطلی سے غزہ میں UNRWA کی امداد پر انحصار کرنے والے لاکھوں شہریوں کے لیے جان بچانے والی امداد متاثر ہو گی۔ مزید برآں، امدادی کٹوتیوں سے اس کی کاروائیوں کو برقرار رکھنے کی صلاحیت کو نمایاں طور پر خطرہ لاحق ہوتا ہے، جو ممکنہ طور پر بند کیے جانے کا باعث بنتا ہے اور ایک ناقابل تصور انسانی آفت کو جنم دیتا ہے۔

اسرائیل کی طرف سے غزہ کو زمین بوس کرنے، جس میں سکول، ہسپتال اور ثقافتی و مذہبی مقامات شامل ہیں، اس کے بعد امداد میں کٹوتی، کرنے میں اہم عنصر شہریوں کو جسمانی اور نفسیاتی طور پور توڑنا اور ممکنہ طور پر نقل مکانی پر مجبور کرنا ہے۔ اپسالا یونیورسٹی کے شعبہ امن اور تنازعات کی تحقیق (Department of Peace and Conflict Research, Uppsala University)کے پروفیسر اور سربراہ اشوک سوین نے بتایا کہ موجودہ اسرائیلی حکومت غزہ میں فلسطینیوں کے لیے ناقابل برداشت حالات پیدا کر رہی ہے۔ ممکنہ طور پر انہیں وہاں سے نکل جانے پر مجبور کر رہی ہے، اور اس منصوبے میں ایک بڑی رکاوٹ غزہ کے لوگوں کو انسانی امداد فراہم کرنے والی اقوام متحدہ کی ایجنسیاں بالخصوص UNRWA کی موجودگی اور کام ہے۔

……فنڈنگ معطل کرنے کا فیصلہ اسی دن آیا جب غزہ میں اسرائیل کی طرف سے نسل کشی کی کاروائیوں پر عالمی عدالت کا فیصلہ آیا۔ اس اقدام کے پیچھے کسی سیاسی مقصد سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اسرائیل طویل عرصے سے اس کے خلاف لابنگ کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی واحد ایجنسی، جس کے پاس رجسٹرڈ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے مدد اور تحفظ فراہم کرنے کے لیے مخصوص مینڈیٹ ہے، ہونے کے ناطے یہ ایک خطرے کے طور پر کھڑا ہے۔ اس طرح، اسرائیل پناہ گزینوں کے مسئلے کو ختم کرنے کے لیے UNRWA کو بند کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اور فلسطینی پناہ گزینوں کی ان کی سرزمین پر واپسی کے حق سے انکار کرتا ہے۔ اسرائیلی وزارتِ خارجہ کے ایک سابق اہلکار نوگا اربیل نے جنوری میں کہا تھا کہ ’اگر ہم UNRWA کو تباہ نہیں کرتے تو جنگ جیتنا ناممکن ہو جائے گا، یہ تباہی فوری طور پر شروع ہونی چاہیے۔‘ لہذا وہ تمام ممالک جو UNRWA کو اپنی امداد روک رہے ہیں، وہ اس سیاسی ایجنڈے کے ساتھ موافق ہیں۔ ‘‘

[Middle East Monitor]

What is UNRWA, and why is Israel trying to have it closed down? | Nasim Ahmed

ترجمہ: ’’قابض ریاست ۱۹۵۰ء کی دہائی سے UNRWA کو تحلیل کرنے کے لیے لابنگ کر رہی ہے، اور یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ مہاجرین کے مسئلے کو حل کرنے کی بجائے اسے برقرار رکھتی ہے۔ برسوں کے دوران، اسرائیلی حکام نے بار ہا UNRWA پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگایا، اور یہ بھی الزام لگایا کہ اس کی تنصیبات کو فلسطینی مذاحمتی گروپ ہتھیاروں کے ذخیرہ کے طور پر یا حملہ شروع کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ UNRWA ان سیاسی محرکات پر مبنی الزامات کی تردید کرتا آیا ہے۔

……بیروت میں بدنام زمانہ صابرہ اور شتیلا کا قتل عام اس وقت ہوا جب اسرائیل کے اتحادی دو پناہ گزین کیمپوں میں داخل ہوئے اور ساڑھے تین ہزار فلسطینی شہریوں کو ہلاک کر دیا۔

……UNRWAکے سابق ایڈمنسٹریٹر لیکس ٹیکن برگ، جنہوں نے ایجنسی میں تیس سالہ کیرئر کے دوران دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ جنرل کونسل اور چیف اتھکس آفیسر کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں، فنڈنگ کی معطلی کے وقت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’عالمی عدالت کے فیصلے کا وقت، اس کا جوہر اور اس کا UNRWA کی رپورٹس پر انحصار دیکھتے ہوئے میں ان الزامات کو فیصلے کو کمزور کرنے اور توجہ ہٹانے کی دانستہ کوشش کے طور پر ہی دیکھ سکتا ہوں۔‘‘

[Middle East Monitor]

Israel attempting to exact revenge for genocide case | Mehmet A. Kanci

ترجمہ: ’’اس پابندی کا مطلب صرف یہ نہیں کہ غزہ کی پٹی میں ۲۰ لاکھ فلسطینیوں کو بھوک، پیاس اور ادویات کی کمی سے بھی بد تر حالات میں چھوڑ دیا گیا ہے۔ UNRWA ایک ایسی تنظیم ہے جو ۵۹ لاکھ فلسطینیوں کو مدد فراہم کرتی ہے، جنہوں نے مشرق وسطیٰ کے بہت سے ممالک میں پناہ لے رکھی ہے۔ یہ لوگ اس وقت لبنان اور شام جیسے ممالک میں رہتے ہیں جہاں عدم استحکام کا راج ہے، انہیں زندگی کے مزید سخت حالات کا اب سامنا کرنا پڑے گا۔ یاد رہے کہ جن ممالک نے اس تنظیم کی امداد بند کی ہے، انہوں نے ۷ اکتوبر سے اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والے UNRWA کے ۱۵۲ اہلکاروں کے حوالے سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی۔ مذکورہ ممالک نے جہاں اقوام متحدہ کی پہلے سے خستہ حال ساکھ کو ایک اور دھچکا پہنچایا ہے وہیں مشرق وسطیٰ میں دو ریاستی حل کی حمایت کرنے والوں کی منافقت بھی کھل کر سامنے آ گئی ہے۔

اس صورتحال میں جب غزہ میں قتل عام کو روکنے کے لیے عالمی عدالت کے اقدامات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں آئیں گے تو امریکہ کی جانب سے انہیں دوبارہ ویٹو کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یہ عمل اسرائیل کے ساتھ امریکہ کو تنہا کرنے کے عمل کے تابوت میں ایک اور کیل ٹھونک دے گا۔ جبکہ مشرق وسطیٰ میں دو ریاستی حل کی حقیقی حمایت کرنے والوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پیچھے چھپے منافقوں کے درمیان فرق بھی مزید واضح کر دے گا۔

[Anadolu Ajansi, Turkey]

غزہ | اسرائیلی تجارتی بحری جہازوں پر حوثیوں کے حملے

حوثی یمن کے شمال مغربی پہاڑی علاقے میں ایک عسکری گروہ ہیں۔ ان کا تعلق شیعوں کے یزیدی فرقے سے ہے۔ ۲۰۱۴ء میں طویل خانہ جنگی کے بعد سابق صدر صالح کو اقتدار سے بے دخل کر کے یمن پر قبضہ کیا۔ اس خانہ جنگی میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ ہلاک ہوئے۔ سخت گیر نظریہ رکھے والے اس گروہ کو ایران اور روس کی مبینہ سپورٹ حاصل ہے۔

یمن کے بحیرہ ٔ احمر کے ساحل کے ساتھ لگتی آبنائے باب المندب کو ایک خاص اسٹریٹیجک اہمیت حاصل ہے۔ یہ بحری راستہ یورپ سے ایشیا کے درمیان تجارتی جہازوں کے لیے سب سے مختصر بحری راستہ ہے۔ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے جواب میں حوثیوں نے یورپ سے اسرئیل کی طرف جانے والے جہازوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ جس کے جواب میں امریکہ اور برطانیہ نے بھی حوثیوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے شروع کر دیے۔ لیکن اس کے رد عمل میں اب امریکی اور برطانوی جہاز بھی حوثیوں کے نشانے پر آگئے ہیں۔ تجارتی جہازوں پر جاری ان حملوں کا اسرائیل اور امریکہ کو اتنا نقصان ہوا کہ تجارتی جہازوں نے حملوں سے بچنے کے لیے متبادل طویل سمندری راستہ اپنایا ہے جو کہ انہیں بہت مہنگا پڑ رہا ہے۔

تازہ خبر یہ ہے کہ اسرائیل کے تجاربی بحری جہازوں پر ہونے والے حملوں سے اسرائیل کو جو نقصان ہو رہا ہے وہ خود اس کے وجود کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ قریب تھا کہ وہ خود گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتا لیکن اس نے متبادل زمینی روٹ کا اعلان کیا ہے جس کے تحت تجارتی سامان دبئی پہنچ کر وہاں سے زمینی راستے کے ذریعے سعودی عرب اور وہاں سے آگے اردن کے ذریعے اسرائیل پہنچنا شروع ہو گیا ہے۔ لیکن ہمارے مردہ دل غلام حکمرانوں میں اتنی بھی سکت نہیں جتنی ایک باغی گروہ نے دکھائی ۔

Who is advising the US and UK on foreign policy? | Yvonne Ridley

’’جب بات اپنے علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ہو تو حوثی ، سخت، متشدد اور بے لچک ہو سکتے ہیں لیکن غزہ کے معصوموں اور بچوں کی نسل کشی کے اسرائیلی اقدامات ان کے لیے بھی ناقابل قبول ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کے اقدامات حماس اور فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے طور پر بحیرہ احمر میں صہیونی حمایت یافتہ جہاز رانی کو نشانہ بنانے کے لیے ہیں۔ تحریک کے رہنماؤں نے کہا کہ جب اسرائیل جنگ بندی کا اعلان کرے گا تو وہ بحیرہ احمر میں اپنے حملے بند کر دیں گے۔ اگر صہیونی ریاست کو کوئی عقل ہوئی تو وہ فوری ایسا کر دے گی۔ اور اگر اس کے مغربی اتحادیوں کو کوئی سمجھ ہے تو وہ بھی یمن پر بمباری بند کر دیں گے اور اس کی بجائے اسرائیل کی تباہ کاریوں کو روکیں گے۔

حوثیوں کی جانب سے عالمی تجارت کو لاحق خطرے کو کم کرنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں، جبکہ اسرائیل کی طرف سے لاحق خطرہ صرف ’جنگ بندی‘ کا حکم دے کر ختم کیا جا سکتا ہے۔ میں کبھی یہ نہیں سمجھ سکتی کہ مغربی سیاست دانوں کے لیے اس نتیجے پر پہنچنا اتنا مشکل کیوں ہے۔ جب تک وہ اسے نہیں سمجھتے اور اس کے مطابق عمل نہیں کرتے، ہم لاکھوں لوگ ہر ہفتے کے آخر میں احتجاج اور مارچ کرتے رہیں گے جب تک کہ ہمارے منتخب کردہ افراد اٹھ نہ بیٹھیں اور نوٹس نہ لے لیں۔‘‘

[Middle East Monitor]

فلسطینی مسلمان موسم سرما کی سختیوں اور شدید غزائی قلت کا شکار اور بدترین حالات میں ہیں، لیکن ان کے حوصلے نہیں ٹوٹے۔ مجاہدین جس طرح حسب استطاعت دو بدو مقابلہ کررہے ہیں وہ اپنے عمل سے جرات و حوصلہ کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ بزدل صہیونی فوج مجاہدین کا مقابلہ نہیں کر پاتی تو غصہ عام لوگوں پر اتارتی ہے۔ حال ہی میں غزہ کے مجاہدین کی زیر زمین سرنگوں میں سمندری پانی چھوڑ دیا گیا۔ ماہرین کے مطابق اس کی وجہ سے غزہ کے لوگوں کو جو زیر زمین میٹھا پانی میسر ہے اس میں سمندری پانی کی ملاوٹ پینے کے پانی تک رسائی بھی ختم کر سکتی ہے۔ اس صورتحال میں عرب اور مسلم ملکوں کے حکمران ظالم کا ساتھ دے کر فلسطینی بھائیوں سے غداری کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

صہیونیوں کے ظلم کے خلاف اگر اب بھی نہ اٹھے تو پھر بہت دیر ہو جائے گی اور یہ آگ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔

اللہ تعالیٰ غزہ کے مسلمانوں کو صبر و حوصلہ عطا فرمائے، ان کی اپنے غیب کے خزانوں سے نصرت فرمائے، مجاہدین کے قدموں کو ثبات بخشے اور یہودی ریاست اور اس کے تمام حواریوں کو نیست و نابود فرما دے۔ آمین

٭٭٭٭٭

Previous Post

انڈونیشیا میں روہنگیا پناہ گزینوں کے کیمپ پر مقامی طلباء کا حملہ

Next Post

ان سے بڑا ظالم بھلا کون ہو سکتا ہے ؟

Related Posts

علاجے نیست
عالمی منظر نامہ

علاجے نیست

17 اگست 2025
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے!
عالمی منظر نامہ

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے!

17 اگست 2025
اخباری کالموں کا جائزہ | اگست ۲۰۲۵ء
عالمی منظر نامہ

اخباری کالموں کا جائزہ | اگست ۲۰۲۵ء

16 اگست 2025
خیالات کا ماہنامچہ | جولائی ۲۰۲۵ء
عالمی منظر نامہ

خیالات کا ماہنامچہ | اگست ۲۰۲۵ء

14 اگست 2025
اسرائیل اور امریکہ میں شیطان پرستی اور بچوں کا قتل
عالمی منظر نامہ

اسرائیل اور امریکہ میں شیطان پرستی اور بچوں کا قتل

14 جولائی 2025
اخباری کالموں کا جائزہ | جولائی ۲۰۲۵ء
عالمی منظر نامہ

اخباری کالموں کا جائزہ | جولائی ۲۰۲۵ء

13 جولائی 2025
Next Post
ان سے بڑا ظالم  بھلا کون  ہو سکتا ہے ؟

ان سے بڑا ظالم بھلا کون ہو سکتا ہے ؟

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version