یہ تحریر تنظیم قاعدۃ الجہاد في جزیرۃ العرب سے وابستہ یمن کے ایک مجاہدلکھاری ابو البراء الاِبی کی تالیف ’تبصرة الساجد في أسباب انتكاسۃ المجاهد‘ کا ترجمہ ہے۔ انہوں نے ایسے افراد کو دیکھا جو کل تو مجاہدین کی صفوں میں کھڑے تھے، لیکن آج ان صفوں میں نظر نہیں آتے۔ جب انہیں تلاش کیا تو دیکھا کہ وہ دنیا کے دیگر دھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟یہ تحریر ان سوالوں کا جواب ہے ۔(ادارہ)
بتیسویں وجہ: شادی بیاہ
اس وجہ سے اکثر ایسے جوان جہاد چھوڑ جاتے ہیں جن کی شادیاں جلدی نہیں ہوتیں۔ اس راستہ پر چلنے والے ایسی حالت سے ہمیشہ دوچار رہتے ہیں۔ اسی لیے جب کوئی جوان مجاہدین کے ساتھ مل جاتا ہے تب اس کا خاندان اسے جہاد سے روکنے کے لیے کہتا ہے: چلو آؤ تمہاری شادی کراتے ہیں۔ اس طرح وہ لذتِ شہوت کے پیچھے لگ کر جہاد سے دور ہو جاتا ہے۔ اور عین ممکن ہے کہ جہاد پر نکلنے سے پہلے یہ جوان سالہا سال شادی کا مطالبہ کرتا رہا ہو لیکن اس وقت اس کی سنی ان سنی کر دی جاتی ہو۔ اور اب جیسے ہی اس نے جہاد کے راستے پر قدم رکھا تو اس کے لیے یہ دروازہ چوپٹ کھول دیا گیا۔ تاکہ اس راستہ پر چلنے کے لیے اس کے عزم اور ارادہ کو توڑ دیں اور ہمتیں پست کر دیں۔
اور کتنے ہی ہمارے جوان اس دلدل میں پھنس کر رہ گئے!
نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں:
إِنَّ الدُّنْيَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ وَإِنَّ اللَّهَ مُسْتَخْلِفُکُمْ فِيهَا فَيَنْظُرُ کَيْفَ تَعْمَلُونَ فَاتَّقُوا الدُّنْيَا وَاتَّقُوا النِّسَاءَ فَإِنَّ أَوَّلَ فِتْنَةِ بَنِي إِسْرَائِيلَ کَانَتْ فِي النِّسَاءِ
” دنیا میٹھی اور سر سبز ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں خلیفہ و نائب بنانے والا ہے پس وہ دیکھے گا کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو ۔ دنیا سے بچو اور عورتوں سے بھی ڈرتے رہو کیونکہ بنی اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ عورتوں میں تھا ۔“ (متفق علیہ)
امام ابو زکریا نووی فرماتے ہیں:
” (دنیا سے بچو اور عورتوں سے بھی ڈرتے رہو) کا مطلب یہ ہے کہ : دنیا اور عورتوں کے دل دادہ نہ ہو جانا۔ عورتوں سے یہاں مراد بیویاں بھی ہیں اور دیگر عورتیں بھی۔ لیکن فتنے میں مبتلا کرنے والی اکثر بیویاں ہی ہوتی ہیں۔ کیونکہ اکثر مرد شادی شدہ ہوتے ہیں اور ان کی بیویوں کا فتنہ ان کے ساتھ لگاتار اور مسلسل رہتا ہے ۔“
نیز اللہ فرماتے ہیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ وَإِنْ تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (سورۃ التغابن: 14)
Your Content Goes Here”اے ایمان والو تمہاری بعض بیبیاں اور اولاد تمہارے (دین کے ) دشمن ہیں ۔ سو تم ان سے ہوشیار رہو (اور ان کے ایسے امر پر عمل مت کرو) ۔ اور اگر تم معاف کر دو اور در گذر کر جاؤ اور بخش دو تو اللہ تعالیٰ (تمہارے گناہوں کا) بخشنے والا ہے ( اور تمہارے حال پر) رحم کرنے والا ہے۔“
امام شوکانی (فتح القدیر) میں فرماتے ہیں:
”یعنی کہ وہ تم سے دشمنی برتتے ہیں اور خیر سے پھیر کر تمہیں دیگر کاموں میں مصروف کر دیتے ہیں۔ اس آیت کے مفہوم میں اس کے سببِ نزول کا واقعہ تو بطریق اولی داخل ہے۔ ہوا یہ تھا کہ مکہ کے چند افراد نے اسلام قبول کر کے ہجرت کا ارادہ کر رکھا تھا۔ لیکن نہ ان کی بیویوں نے چھوڑا اور نہ ان کے بچوں نے۔ اس پر اللہ ﷻ نے انہیں بیویوں بچوں سے احتیاط برتنے کا کہا۔ اور منع فرمایا کہ وہ بیویوں بچوں کی کوئی ایسی بات نہ مانیں، جو وہ چاہتے ہیں، جبکہ وہ بات اُس کے خلاف ہو جو اللہ چاہتا ہے ۔ (ان سے احتیاط برتو )میں ضمیر دشمن کی طرف لوٹتا ہے اور یا پھر بیویوں بچوں کی طرف۔ لیکن تمام بیویوں بچوں کی طرف نہیں بلکہ ان میں سے وہ جو دشمنی سے متصف ہوں۔“
حضرت بشر الحافی فرماتے ہیں:
”علم شہوتِ زن کے بیچ گم ہو کر رہ گیا۔ “
ایک مقولہ ہے کہ:
”جسے گھوڑوں کی زینت پسند ہوں ، وہ کامیاب ہے۔ اور جسے عورتوں کی شہوت پسند ہوں ، وہ ناکام ہے۔ “
حافظ ابو بکر الخطیب نے اپنی کتاب (الجامع لأخلاق الراوی و آداب السامع) میں ”طالب علم کو خود کنوارہ رہنے اور اسے شادی نہ کروانے کی ترجیح“ کے عنوان کے تحت لکھا ہے:
”علمِ حدیث کے طالب کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ جب تک بغیر شادی کے رہ سکتا ہے ، رہے۔ تاکہ اسے بیوی کے حقوق کی ادائیگی اور فکرِ روزگار میں مشغول رہنا طلبِ علم سے نہ روک دے۔“
پھر انہوں نے حضرت ابراہیم بن ادہم کا قول نقل کیا کہ :
”شہوت ِزن کے پیچھے لگنے والا کبھی کامیاب نہ ہوا۔ “
(إیضاح البیان) کے مصنف شیخ شنقیطی سے ان کے بعض دوستوں نے شادی کرنے کا کہا۔ تو انہوں نے اس بارے میں اور حصول علم پر تحریض دیتے ہوئے یہ شعر پڑھے [جن کا مطلب کچھ یوں ہے کہ:
مجھے بعض مخلصوں نے نصیحت کی کہ کسی حسن و جمال کے پیکر سے شادی کر لوں۔ میں نے ان سے کہا : چھوڑو مجھے! میرا دل آج ایک مشکل کام کے سبب بے خواب ہے۔ تم نہیں جانتے کہ میں ایسے اوراق کے حسن میں مشغول ہوں، جن کے رموز و اسرار پر پڑے پردے کو ہٹا کر میں ان کے حسن و جمال سے محظوظ ہوتا ہوں۔ رات بھر میں ان میں محو رہتا ہو اور صبح ہوتے ہی مجھ پر سب منکشف ہو جاتا ہے۔ میں ان اوراق کا پردہ زبردستی چاق کر دیتا ہوں جبکہ خواتین کا حسن دیکھنا مجھ پر حرام ہے]۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں شادی کرنے سے لوگوں کو منع کر رہا ہوں۔ لیکن مقصود یہ ہے کہ بسا اوقات شادی مردوں کے پھسل کر الٹ جانے کا سبب بن جاتی ہے۔ ورنہ میں مجاہدین کو صرف ایک شادی کی ہی نہیں بلکہ ایک سے زائد شادیوں کی ترغیب دیتا ہوں۔
امام غزالی نے احیاء علوم الدین میں نکاح کے مقاصد اور فوائد بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
”نکاح دینداری میں مدد گار ہوتا ہے۔ شیطان کو رسوا کرتا ہے۔ اللہ کے دشمن کے مقابلے میں مضبوط قلعہ ہے۔ نکاح تکثیرِ امت کا سبب بنتا ہے جس پر سید المرسلین ﷺ دیگر انبیاء پر فخر کریں گے۔ تو کتنا ہی اہم ہے کہ شادی کی ضروریات پوری کرنے کی تگ و دو کی جائے ۔ اور شادی کے مقاصد اور آداب واضح واضح بیان کیے جائیں۔“
پھر آگے فرمایا:
”شادی کے 5 فائدے ہیں: اولاد حاصل کرنا، شہوت کو لگام دینا، گھر داری کا انتظام کرنا، رشتہ داروں کو بڑھانا، اور ان چاروں کا بندوبست کرنے کے لیے اپنے نفس سے مجاہدہ کرنا۔“
پھر یہ بھی ذکر کیا کہ اگر شادی سے مقصد نسل کی افزائش ہے تو یہ ، نیت درست ہونے کی شرط پر ، ایسی عبادت ہے جس پر اسے پورا اجر ملے گا۔ اس نکتے کو انہوں نے کئی پہلوؤں سے سمجھایا:
”اولا: نوع انسان کے بقاء کی خاطر اولاد کے حصول سے بندہ اللہ تعالی کی پسندیدہ کام پر اللہ کا موافق ہو جاتا ہے۔
ثانیا: جس کثرت پر رسول ﷺ فخر کریں گے اسے پورا کرنے سے بندہ حبِ رسول ﷺ کا خواست گار بن جاتا ہے۔
ثالثا: مرنے کے بعد نیک اولاد کی دعا کے سبب برکت کے حصول، اجر کی زیادتی اور گناہوں کی مغفرت کا طلب گار بن جاتا ہے۔“
اس کے بعد امام غزالی نے تاکیداً کہا کہ :
”صاحب عقل وفہم کے لیے پہلی وجہ ہی سب سے قوی اور واضح ہے۔“
اور اس کے لیے انہوں نے ایک مثال پیش کی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
”ایک آقا نے بیچ، کھیتی باڑی کا سامان، اور زر خیز زمین اپنے غلام کو سپرد کی۔ اور اس غلام پر ایک نگران مقرر کیا جو اسے کام پر ابھارتا رہے۔ اب اگر یہ غلام کاشت کاری میں سستی کرے اور اس پر جو نگران مقرر ہے اس کی پرواہ نہ کرے تو وہ اپنے آپ کو آقا کے غیظ و غضب کا حقدار ٹھہرائے گا۔ جس پر آقا اسے بر طرف کر دے گا۔ اسی طرح اللہ ﷻ نے مرد اور عورت کی جوڑی پیدا کی۔ اور ہر ایک کو اس کی اپنی اپنی خاصیتوں سے نوازا۔ پھر نسل کی افزائش اور اولاد کی پیدائش میں حکمت ِ خداوندی واضح کرنے کے لیے شہوت کو ایک قوی محرک بنایا۔ اب جو شخص اس مقصد سے انحراف کرتا ہے یا اس کی مخالفت کرتا ہے تو گویا وہ کائنات میں سننِ الٰہی کو چیلنج کر رہا ہے جس پر وہ اللہ تعالی کے غضب اور نا راضگی کا مستحق ٹھہرے گا۔“
٭٭٭٭٭