کچھ مہینوں پہلے سنا تھا کہ عافیہ صدیقی کا خط آیا ہے، ان کی بہن کی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔
نا معلوم کتنے ہی خط اور کتنے ہی پیغام پہلے بھی آ چکے ہیں۔
کتنے ہی خط، کتنی خبریں اور رپورٹیں ہم پڑھ چکے ہیں، عافیہ صدیقی سے متعلق کتنی کہانیاں اور قصے ہم سن چکے ہیں۔ عافیہ صدیقی کی قید کی کہانیاں اور ما قبلِ قید کی زندگی کے بارے میں شاذ ہی کوئی ہو گا جو اَب نہ جانتا ہو۔
اس بار عافیہ کی بہن اور وکیل کے ذریعے جو پیغامات ملے اور جو رپورٹیں بین الاقوامی و قومی اخبارات و ویب صفحات پر چھپیں وہ ہماری عزت کا نوحہ تھیں۔ عافیہ صدیقی ہم میں سے کتنوں کی بہنوں سی ہیں، کتنوں کے لیے ان کا رتبہ ماں جیسا ہے اور من حیث المجموع امت کی بیٹی تو وہ ہیں ہی۔عافیہ کی عمر، صحت، ذہنی حالت وغیرہ آج اس سب سے بہت مختلف ہے جو آج سے اکیس سال پہلے تھی۔ عافیہ کے دشمنوں کا رویہ لیکن عافیہ کے ساتھ ویسا ہی ہے جیسا دمِ اغوا تھا۔
ذرا سوچیے آپ کی ایک پچپن –ستاون سال کی بہن ہو، یا آپ کی ماں کی عمر کی یا کچھ زیادہ یا کم کی ’عافیہ‘ ہو اور اب بھی وہی چیخ و پکار ان کے پنجرے سے بلند ہوتی ہو جو قریباً دو عشرے قبل تھی۔ ذہن ایسی بات سوچنے پر آمادہ نہیں ہوتا، زبان سے اس بات کو بیان کرنا مشکل ہے اور نوکِ قلم پر یہ بات نہیں آ پا رہی کہ عافیہ کے ساتھ اس عمر میں بھی کیا سلوک ہو رہا ہے؟
میرے پاس بھی کہنے کو کچھ نیا نہیں ہے۔ بس میں تو ایک ’عذر نامہ‘ لکھ رہا ہوں کہ اس رسوائی سے بچ سکوں کہ جب عافیہ صدیقی زندہ یا مردہ حالت میں ہمارے سامنے ہوں گی اور اس رسوائی سے بچ سکوں جو اصل رسوائی ہے کہ جب اولادِ آدمؑ روزِ قیامت جواب طلبی کے کٹہرے میں کھڑی ہو گی۔ آپ کی ماں کی، آپ کی بہن کی، صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی بیٹی کی آبرو تار تار ہو رہی تھی اور ہر کوئی وہ کرب ناک اور سننے والے کے لیے ذلت آمیز چیخ و پکار سن رہا تھا، لیکن، کیا عجیب بے غیرتی کا عالَم تھا کہ زندگی کا پہیہ ہر ہر صورت میں ہر ہر طرح رواں تھا، کہیں کوئی فکر، کوئی دل میں پھانس یا ماتھے پر شکن نہ تھی۔
غزوۂ بنو قینقاع کے قصے، محمد بن قاسم کی غیرت، معتصم باللہ کی لشکر کشی یہ سب باتیں ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ہم نے صرف سننے اور پڑھنے کے لیے رکھی ہوئی ہیں۔ میں کہوں یا نہ کہوں، میں ادب سے کہوں یا انداز جری ہو، کچھ بھی ہو، ہمارا عمل اجتماعی حیثیت میں ظاہر کر رہا ہے کہ ہم بے غیرتی کی بڑی سی گولی کو بغیر پانی کے نگل چکے ہیں۔
دنیا کے ہر چوراہے پر یہ خبر مشہور ہے کہ عافیہ کو فلاں فلاں زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، چھیاسی سال کی قید ان کے مقدر میں طاغوتِ زمانہ نے لکھ دی ہے، عافیہ کے دماغ کے کچھ گوشے مستقل بجھ چکے ہیں، وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ ہیں۔ عافیہ کو برہنہ کیا جاتا ہے، جی، میری ماں کو، میری بہن کو، میری بیٹی کو برہنہ کیا جاتا ہے، قرآنِ پاک پھر اس حافظۂ قرآن اور عالمۂ دین کے آگے، فرش پر پٹخا جاتا ہے اور پھر عافیہ کو کہتے ہیں کہ تم اس پر قدم رکھو اور آگے بڑھو تب تمہیں تمہارے کپڑے لوٹائے جائیں گے۔
ہم زندہ ہیں؟ ہم غیرت مند ہیں؟ ہم انسان ہیں؟ ہم مسلمان ہیں؟
سنہ ۲۰۱۶ء میں، Discovery چینل کا ایک کلپ کسی نے واٹس ایپ پر بھیجا تھا۔ایک نَر پینگوئن (Penguin )جو کہ ایک آبی پرندہ ہے، شکار کے بعد، ساحلِ سمندر پر واقع اپنے گھونسلے کو لوٹتا ہے۔ وہاں دیکھتا ہے کہ اس کے گھر پر ایک دوسرے نَر پینگوئن نے قبضہ کیا ہوا ہے اور اس کی مادہ کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ یہ پینگوئن، جسمانی طور پر کمزور ہے، لیکن ہم سے زیادہ غیرت مند ہے، بس برداشت کر کے، ’صبر شکر‘ نہیں کرتا، باہر کھڑا چیخ و پکار نہیں سنتا رہتا۔ یہ آگے بڑھتا ہے اور بے غیرت و غاصب پینگوئن پر حملہ کر دیتا ہے۔ لڑائی بہت شدید ہوتی ہے۔ حق کی خاطر لڑنے والا پینگوئن لہو لہان ہو جاتا ہے اور زمین پر گر جاتا ہے۔ غاصب اپنی فتح کا اعلان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں فاتح ہوں، میں غالب ہوں، ہمت ہے تو اٹھ۔ اس میں ہمت کہاں ہے، خون بہہ رہا ہے، یہ کراہ رہا ہے، قوت جواب دے چکی ہے، لیکن دِل میں غیرت اب بھی موجود ہے، بلکہ صرف ’موجود‘ نہیں ہے ’موجزن‘ ہے۔ یہ اپنے جسم کی کل قوت جمع کرتا ہے اور پھر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ یہ ہماری طرح خود سے اپنی بے غیرتی کی لاش پر فاتحہ نہیں پڑھتا۔ قدم ڈگمگا رہے ہیں، آنکھوں کے سامنے شاید اندھیرا ہو گا، لیکن دل میں غیرت کی روشنی ہے، اسی سے دیکھتا ہے۔ رگوں سے خون نچڑ چکا ہے، لیکن حمیت کی بجلی ابھی دوڑ رہی ہے۔ ایک بار پھر ’سپر پاور‘ پر حملہ آور ہوتا ہے اور ’سپر پاور‘ پینگوئن، اس جان کھوتے پینگوئن کا حملہ روکتے ہوئے اسے ایک ہی ہاتھ جڑتا ہے ، اس پینگوئن کا کام تمام ہو جاتا ہے اور اب یہ کبھی نہ اٹھنے کے لیے گر جاتا ہے۔
یہ جانور ہے، حیوان ہے، اس کی کیا اوقات کہ اس کو یاد رکھا جائے، لیکن بڑی چیزوں سے نسبت ’بڑا‘ بناتی ہے، ہے تو وہ کتا ہی لیکن اصحابِ کہف کا ہے تو اس کا ذکر قرآن میں آ گیا۔ ہے تو یہ بھی ایک حقیر حیوان ہی لیکن ’غیرت‘ سے متصف ہوا تو عام لاکھوں پینگوئن کے غول سے جدا ہو کر خاص ہو گیا۔
کاش ہم میں بھی کوئی ’پینگوئن‘ ہوتا کہ اگر عافیہ کو بچا نہ سکتا تو کم از کم جان ہار کر ایمان و غیرت کا ثبوت دیتا…… کاش……
٭٭٭٭٭