نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home فکر و منہج

لامحدود ذہنیت بمقابلہ محدود ذہنیت | دوسری قسط

شاکر احمد فرائضی by شاکر احمد فرائضی
25 مئی 2025
in فکر و منہج, اپریل و مئی 2025
0

برادر شاکر احمد فرائضی کا تعلق شہید سراج الدولہ، سید تیتومیر اور حاجی شریعت اللہ ﷭ کی سرزمین سے ہے جس کے مشرقی حصے کو آج بنگلہ دیش کے نام سے جانا جاتا ہے، برادر شاکر نے یہ تحریر بنگلہ دیش میں ہی قلم بند کی ہے۔ (ادارہ)

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيم

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ أنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُّضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُه . أمابعد

لامحدود تنازعات کی کچھ بنیادی خصوصیات ہوا کرتی ہیں جو اسے محدود تنازعات سے ممتاز کرتی ہیں۔ مثلاً اس میں کوئی روایتی فتح یا ناکامی نہیں ہوا کرتی، بلکہ ثابت قدم رہنا ہی فتح جبکہ اپنا راستہ چھوڑ دینا شکست ہوا کرتی ہے۔ لامحدود تنازعات کو مخصوص اصولوں کا پابند نہیں کیا جا سکتا، اس تنازع میں دشمن کبھی ختم نہیں ہوتے۔

ان خصوصیات کی وجہ سے، آپ کو لامحدود تنازعات میں ثابت قدم رہنے کے لیے لا محدود ذہنیت کا حامل ہونا چاہیے۔ اور لامحدود ذہنیت کے دو سب سے بنیادی پہلو یہ ہیں:

  1. لامحدود ذہنیت کا مطلب ہے جنگ جاری رکھنا اور آخری دم تک میدانِ جنگ میں ثابت قدم رہنا۔ یہاں جیت یا ہار اہم نہیں نہ ہی ایک مخصوص وقت کے اندر فتح حاصل کرنا اہم ہے۔ اصل مقصود ہے آخری دم تک جنگ جاری رکھنا۔

اگرچہ فتح اہم ہے اور فتح لامحدود تنازعات میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن جنگ جاری رکھنا فتح حاصل کرنے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ اگرچہ شکست تکلیف دہ ہوا کرتی ہے لیکن کسی بھی جنگ میں شکست ہر چیز کا خاتمہ نہیں ہوا کرتی، بلکہ جنگ سے دستبردار ہو جانا زیادہ بڑا نقصان ہے۔

ذاتی طور پر جب تک ہمارا وجود باقی ہے اور جب تک یہ امت اس زمین پر زندہ ہے، یہ امت مسلمہ ہر محاذ پر ہمہ گیر جنگ جاری رکھے گی۔ اس جنگ میں جیت یا ہار اہم نہیں ہے۔ تمام کافروں کو مکمل طور پر نیست و نابود کر دینا ضروری نہیں ہے (جو ممکن بھی نہیں ہے)۔ اصل بات ہے جنگ جاری رکھنا۔ لامحدود ذہنیت سے ہماری مراد یہی ہے۔

شیخ انوار العولقی ﷫ فرماتے ہیں:

’’یہ دوڑ کا مقابلہ جیتنے کی بات نہیں ہے (کہ کوئی پہلے نمبر پر آیا یا دوسرے پر)، اصل مقصود دوڑ پوری کرنا ہے (آخر تک راستے پر رہتے ہوئے)۔‘‘

“Its not about winning the race (coming 1st or 2nd), its all about finishing the race (while being on track).”

  1. ہمیں مسلسل بہتری کے عمل سے گزرنا چاہیے۔ جس طرح لامحدود جنگ کو جاری رہنا چاہیے، اسی طرح میدان جنگ میں ہماری بقا کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر مسلسل بہتری لاتے جائیں۔

مسلسل جنگ اور مسلسل بہتری، ان دونوں کا امتزاج لامحدود ذہنیت کو کامل کرتا ہے۔

اگر آپ لامحدود ذہنیت رکھتے ہوئے جنگ لڑیں گے تو دشمن خود ہی میدان سے فرار ہو جائے گا۔ آخری دم تک ثابت قدم رہنا ہی یہاں کامیابی ہے۔ دوسری طرف اس تنازع میں کامیابی کی کنجیوں میں سے ایک یہ ہے کہ آپ ’’خود کو اپنا ہی مد مقابل تصور کریں‘‘۔ اپنے آج کو اپنے گزشتہ کل سے بہتر بنانے کے لیے، نئے سال کو گزرے ہوئے سال سے بہتر بنانے کے لیے۔

اب محدود ذہنیت اور لامحدود ذہنیت کے درمیان تقابل کر کے دیکھتے ہیں۔ بعض مثالوں سے ان دونوں ذہنیتوں کے درمیان فرق کو واضح کیا جا سکتا ہے، ان شاء اللہ۔

محدود اور لامحدود ذہنیت کا معاملہ ایمانی معاملات یا کسی جدوجہد تک محدود نہیں، بلکہ یہ دو ذہنیتیں ہمارے ارد گرد ہر چیز میں موجود ہیں۔

جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ لامحدود ذہنیت میں جیت اور ہار کا تصور روایتی جیت اور ہار سے مختلف ہوا کرتا ہے۔ یہاں جیت کا مطلب جنگ میں آخری دم تک ثابت قدم رہنا ہوتا ہے۔ جو بھی جنگ سے باہر ہوا، ہار اسی کا نصیب بنی۔ لیکن مخالف پھر بھی رہتا ہے، اس لیے کہ لامحدود تنازع کبھی نہ ختم ہونے والا تنازع ہے۔ جو جنگ سے دستبردار ہو گیا وہ شکست ضرور کھا گیا لیکن شکست کا مطلب یہ بھی نہیں کہ مخالف ہمیشہ کے لیے دستبردار ہو چکا یا اب اس کا وجود ہی باقی نہیں بچا یا اس کی پوری جماعت ہی فنا ہو گئی۔ جو بھی کسی تنازع میں آخر تک بچ پاتا ہے وہ درحقیقت اپنے مخالفین کو پوری طرح ختم نہیں کرتا، جلد ہی مزید مخالفین سامنے آ جاتے ہیں۔

یہ نکتہ بہت اہم ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ اگر ہم نے امریکہ کو شکست دے دی تو ہمارا کام ختم ہے۔ لیکن درحقیقت، تنازع پر بھی ختم نہیں ہو گا۔ ممکن ہے ہم امریکہ کو شکست دے دیں۔ اس کے بعد ہم عالمی سٹیج پر بھی ایک طاقت بن کر ابھریں گے۔ لیکن پھر ہم دیکھیں گے کہ دنیا کے دیگر خطوں میں کوئی اور سپر پاور ابھر رہی ہے، جیسا کہ چین اور روس کا اثر و رسوخ روز بروز بڑھتا نظر آ رہا ہے۔ ان کے زوال کے بعد کوئی اور ان کی جگہ لے لے گا۔ لامحدود ذہنیت کا بنیادی محور یہی ہے، جب ایک دشمن سرنگوں ہوتا ہے تو دوسرا ابھر آتا ہے۔

لامحدود ذہنیت کے اس تصادم میں امریکہ نے 1990ء کی دہائی میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد غلطی کی۔ سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ جیتنے کے بعد، اس کا خیال تھا کہ وہ دنیا کا واحد مالک بن چکا ہے، وہ جو چاہے کر سکتا ہے، کوئی دوسرا مخالف اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ اس کی غلط فہمی تھی۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعدجو یک قطبی عالمی نظام ابھرا وہ زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا۔ چین، روس وغیرہ جیسی کئی سپر پاورز امریکہ کو چیلنج کرنے کے لیے ابھر آئیں، اللہ کی مرضی سے ہم بھی عالمی سطح پر ایک اہم قوت بن کر ابھرے، میدان بدل گیا، میدانِ جنگ میں نئے چہرے سامنے آ گئے، لیکن جنگ رکی نہیں، جنگ اب بھی جاری ہے۔

بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ اگر میں ناکام بھی ہوا تو میری اگلی نسل مستقبل قریب میں اس مقصد تک پہنچ جائے گی۔ مثلاً اسرائیل، امریکہ کا زوال، خمینی، بشار، مودی کا خاتمہ وغیرہ۔ یہ بھی ایک محدود ذہنیت کا اظہار ہے۔ نظر آنے والا ہدف در حقیقت مقصد نہیں ہوا کرتے، مقصد لا محدود ہدف ہوا کرتے ہیں۔ مقصد ہے کفر و شرک کے خلاف جنگ جاری رکھنا ۔ ہماری ساری بحث بنیادی طور پر اسی نکتے پر مرکوز ہے۔ لامحدود ذہنیت کی اس انفرادیت کو دیکھنا، سمجھنا اور محسوس کرنا اس بحث کے لیے خاص طور پر اہم ہے۔ ۔ تب ہی آپ بحث کے باریک نکات کو سمجھ سکیں گے، انشاء اللہ۔

دوسری طرف محدود ذہنیت یا محدود تصادم کی صورت میں کیا ہوتا ہے؟ ایک خاص وقت کے بعد جنگ ختم ہو جاتی ہے۔ تمام جنگیں لامحدود نہیں ہوا کرتیں۔ محدود تنازعات یا محدود جنگیں بھی ہمارے ارد گرد پائی جاتی ہیں۔ ایک لامحدود جنگ کے اندر بہت سی محدود جنگیں ہو سکتی ہیں۔ ایک جنگ میں بہت سی لڑائیاں ہو سکتی ہیں۔ مثلاً اسلام اور کفر کی جنگ قیامت تک جاری رہے گی۔ یہ لامحدود ذہنیت کی جنگ ہے ۔ اب اس لامحدود ذہنیت کی جنگ کا ایک محدود حصہ افغانستان کی سرزمین پر امریکہ اور نیٹو کا حملہ ہے۔ یہ جارحیت امریکہ اور امارت اسلامیہ افغانستان کے درمیان دوحہ معاہدے سے عارضی طور پر ختم ہو گئی۔ یہ ایک محدود جنگ ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسلمانوں کے خلاف امریکہ کی جنگ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی۔ اگرچہ دوحہ معاہدے کے ذریعے افغانستان میں امریکہ کی یہ خاص جارحیت روک دی گئی لیکن مسلمانوں کے ساتھ جنگ نہیں رکی۔ اگرچہ میدان جنگ اور نوعیتِ جنگ بدل چکی لیکن جنگ اب بھی جاری ہے۔

ایک سادہ سی مثال سے اس کو سمجھتے ہیں۔ ہم تعلیمی اداروں سےبہت سی ڈگریاں حاصل کرتے ہیں ۔ بیچلرز، آنرز، ماسٹرز وغیرہ۔ کسی خاص ڈگری کو حاصل کرنے کے لیے کسی کو مخصوص نصاب کے تحت کچھ مضامین کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک محدود معاملہ ہے، ایک محدود ذہنیت کا معاملہ۔ لیکن علم کا حصول ان مخصوص ڈگریوں کے لیے پڑھے جانے والے مخصوص نصاب تک محدود نہیں۔ علم حاصل کرنے کا کلیدی مقصد یہ ہے کہ گود سے گور تک علم کی تلاش جاری رکھی جائے۔

ایسا نہیں ہے کہ کامل علم ایک مخصوص نصاب کے تحت مخصوص کتب کا مطالعہ کرنے سے حاصل ہو جاتا ہے ۔ ہیں ہر وقت سیکھنے اور خود کو بہتر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیں ہر وقت خود کو بہتر کرنے پر توجہ مرکوز رکھنی ہوتی ہے۔ مجھے ابھی بھی کسی خاص موضوع پر علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے، میں ایسے موضوع پر اپنے علم میں کیسے بہتری لا سکتا ہوں جس کے حوالے سے میں کم علم ہوں؟ یہ سوچ پڑھے لکھے شخص کو پریشان کرنی چاہیے۔ جس طرح نمبروں کی کوئی انتہا نہیں اسی طرح حصول علم کی بھی کوئی انتہا نہیں۔ ہم جتنا زیادہ کسی موضوع کا مطالعہ کرتے ہیں، اتنا ہی ہمیں ادراک ہوتا جاتا ہے کہ اس موضوع کے بارے میں ہمارا علم کتنا محدود ہے۔ یہ احساس، علم کی تا حیات جستجو اور مسلسل بہتری، یہ سیکھنے کے عمل میں لامحدود ذہنیت کی مثالیں ہیں۔

دوسری طرف کسی تعلیمی ادارے سے کوئی ڈگری حاصل کرنا اور یہ سمجھنا کہ میں سب کچھ جان گیا اور میں تعلیم یافتہ بن گیا ایک محدود ذہنیت کی مثال ہے۔

لامحدود ذہنیت میں محدود معاملات کے شامل ہونے میں کوئی حرج نہیں۔ مثلاً، گریجوئیشن کرنے کے لیے میں نے مخصوص نصاب کا مطالعہ کیا۔ یہ ایک محدود معاملہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ میں نے اپنی بہتری اور علم حاصل کرنے کی مسلسل اور مستقل جستجو میں مسلسل مطالعہ جاری رکھا۔ یہ لامحدود ذہنیت ہے۔ یہاں بنیادی مقصد حصولِ علم ہے۔ بیچلر ڈگری کا حصول اس حصولِ علم کا چھوٹا سا حصہ ہے۔ لیکن اگر یہی محدود معاملہ مقصودِ اصلی بن جائے تو پھر مسئلہ بن جاتا ہے۔

مثلاً، اگر پڑھنے کا بنیادی ہدف گریجوئیشن کرنا ہو، تو ایک فرد صرف اپنا نصاب وقتی طور پر یاد کرنا چاہتا ہے، اسے اس علم کو سمجھنے یا سیکھنے کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ پھر وہ اس انداز میں پڑھتا ہے کہ وہ بس اس وقت تک اس علم کو یاد رکھ سکے کہ اسے امتحان میں کاغذ پر اتار سکے جبکہ اس کے بعد سب کچھ بھول جائے۔

اس طرح کی محدود ذہنیت کا حامل شاید امتحانات میں امتیازی درجہ حاصل کر لے۔ لیکن دوری طرف کوئی شخص اگر ایک لامحدود ذہنیت کے ساتھ پڑھتا ہے شاید وہ پہلے والے فرد کی طرح کارکردگی نہ دکھا پائے۔ لیکن اصلی جیت یہاں کس کی ہوئی؟ حصولِ علم کاحقیقی ہدف یہاں کون حاصل کر پایا؟ بلاشبہ وہی جس نے لامحدود ذہنیت کے ساتھ مطالعہ کیا وہی حقیقی مقصد کو پا گیا۔ اس نے صرف امتحانات پاس کرنے کے لیے نہیں پڑھا، بلکہ اس نے علم کو سمجھنے کے لیے پڑھا۔ ایک لمبے عرصے میں دیکھا جائے تو یہی فرد کامیاب ہو گا، جو علم کے میدان میں ثابت قدم رہا۔

درحقیقت آخر تک علم کے حصول میں کوئی فاتح نہیں ہوا کرتا۔ کوئی شخص اپنے بارے میں یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ: ’’الحمد للہ میں حصول علم میں کامیاب رہا۔ میں اصول یا فقہ کا علم حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ میں حدیث کے علم کا فاتح بن گیا، ما شاء اللہ‘‘۔ لیکن ایسا دعویٰ نہ درست ہے اور نہ ہی مناسب۔ علم کی کوئی حد نہیں، یہ لا محدود ہے۔ اس لیے آپ ایسا نہیں کہہ سکتے کہ میں نے ا تنا پڑھ لیا ہے تو اب میری تعلیم مکمل ہے، اب مجھے مزید پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن گریجوئیشن کے معاملے میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے یہ کورس مکمل کر لیا ہے، یا میں نے اپنی گریجوئیشن مکمل کر لی ہے۔ اس لیے کہ کسی خاص ڈگری کے حصول کے لیے پڑھنا ایک محدود ہدف ہے۔

اسی طرح ہماری جنگ کے معاملے میں بھی ہم نہیں کہہ سکتے کہ اگر میں یہ چند مخصوص کام پورے کر لوں تو جنگ پوری طرح ختم ہو جائے گی۔ ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ یہ جنگ جاری رہنی چاہیے۔ اگر آج کا دشمن شکست کھا گیا تو کل دوسرا دشمن آئے گا۔ جیتنا یا ہارنا یہاں اصل نہیں نہ ہی ایسے کوئی مخصوص اصول ہیں کہ جن کی پیروی کرتے ہوئے ہمیں جنگ میں کامل فتح مل جائے گی۔ یہاں اصول ہر لمحہ بدلتے رہتے ہیں۔

دیکھیں، جو لوگ بیچلرز ڈگری حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ کچھ اصولوں پر عمل کرتے ہیں۔ لیکن ہماری اس جنگ میں امریکہ کوئی اصول نہیں مانتا۔ اور آپ اسے ہزار کہہ لیں وہ کبھی نہیں مانے گا۔ ہم اس معاملے کو اس لیے اٹھاتے ہیں تاکہ امریکہ کے دوغلے پن کو عام لوگوں کے سامنے واضح کیا جا سکے۔ لیکن ہم کبھی یہ توقع نہیں رکھتے کہ امریکہ کسی اصول پر عمل کرے گا۔ کیونکہ یہ ایک لامحدود جنگ ہے، اور لامحدود جنگوں میں کوئی مخصوص اصول نہیں ہوتے۔ ہر فریق اپنے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی مخصوص حکمت عملی اور اصولوں کے مطابق جنگ کرے گا۔

ایسی کوئی خاص منزل نہیں جس تک پہنچنے پر آپ کو حتمی فاتح قرار دے دیا جائے گا، اور جِس سے آگے کوئی جنگ نہیں ہو گی۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اگر ہم اگلے پانچ سال روزانہ اٹھارہ گھنٹے کام کریں گے تو ان شاء اللہ امریکہ کو شکست ہو جائے گی یا اس امت کے ایک کروڑنوجوان اگر اٹھارہ گھنٹے کام کریں گے تو امریکہ ختم ہو جائے گا۔ ہم اس طرح گھنٹوں کے اعتبار سے نہیں سوچتے۔ لیکن ہماری سوچ کا بہاؤ یا جوہر اسی محدود سوچ سے ملتا جلتا ہے جس پر ہم پہلے بحث کر آئے ہیں۔

ہم نے اب تک جو بات چیت کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے:

  1. لامحدود جنگ میں جیتنا یا ہارنا بنیادی نکتہ نہیں۔ کلیدی نکتہ جنگ جاری رکھنا ہے۔
  2. لامحدود تنازعات کو کسی خاص اصول و ضوابط کا پابند نہیں کیا جا سکتا۔
  3. لامحدود تنازعات میں دشمن کبھی بھی پوری طرح ختم نہیں ہوتا۔ جب ایک مخالف کو شکست ہو جاتی ہے تو دوسرا ابھر آتا ہے۔
  4. لامحدود تنازع میں، آپ کو ایک ہی وقت میں متعدد دشمنوں کے ساتھ متعدد محاذوں پر لڑنا پڑتا ہے۔ لیکن ایک محدود تنازع میں، مخالف فریق مخصوص اور واضح ہوتا ہے۔

لامحدود ذہنیت کا میدان صرف عسکری جنگ تک محدود نہیں۔ بلکہ لامحدود تنازعات کے اور بھی بہت سے اہم شعبے ہیں۔ نظریاتی جنگ، علمی جنگ، تہذیبوں کا تصادم، معیشت، سیاست، تجارت، یہ سب لامحدود تنازع کے اہم شعبے ہیں۔

اگر ہم ان تنازعات میں مرتے دم تک ثابت قدم، درست راہ پر اور توحید پر عمل پیرا رہنا چاہتے ہیں، اگر ہم امت کو قیادت کے منصب تک پہنچانا چاہتے ہیں، تو پھر ہمیں اس لامحدود تنازع کے تمام اہم محاذوں پر لامحدود ذہنیت کی تمام اثاثی خصوصیات کو اپناتے ہوئے یہ لامحدود جنگ جاری رکھنی ہو گی۔ ہمیں خود کو محدود ذہنیت کے جال میں پھنسنے سے پوری احتیاط کے ساتھ بچانا ہو گا اور خود کو مستقل اور مسلسل بہتری کے عمل سے گزارنا ہو گا۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔ آمین

واللہ تعالیٰ اعلم

٭٭٭٭٭

Previous Post

اب وقت ہے ایسے نعروں کا جو سوتوں کو بیدار کریں!

Next Post

خلافت کن صفات کے حامل لوگوں کے ہاتھوں قائم ہوتی ہے؟

Related Posts

اَلقاعِدہ کیوں؟ | چوتھی قسط
فکر و منہج

اَلقاعِدہ کیوں؟ | پانچویں قسط

13 اگست 2025
مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | چھٹی قسط

13 اگست 2025
کفار کا معاشی بائیکاٹ | چوتھی قسط
فکر و منہج

کفار کا معاشی بائیکاٹ | چوتھی قسط

13 اگست 2025
کیا ریاست (State) اسلامی ہو سکتی ہے؟
فکر و منہج

کیا ریاست (State) اسلامی ہو سکتی ہے؟

13 اگست 2025
ہم بندگانِ خدا شریعت کے پابند ہیں!
فکر و منہج

ہم بندگانِ خدا شریعت کے پابند ہیں!

17 جولائی 2025
مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | پانچویں قسط

13 جولائی 2025
Next Post
خلافت کن صفات کے حامل لوگوں کے ہاتھوں قائم ہوتی ہے؟

خلافت کن صفات کے حامل لوگوں کے ہاتھوں قائم ہوتی ہے؟

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version