بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للہ وکفیٰ والصلاۃ والسلام علیٰ أشرف الأنبیاء.
اللّٰھم وفقني کما تحب وترضی والطف بنا في تیسیر کل عسیر فإن تیسیر کل عسیر علیك یسیر، آمین!
چوتھی وجہ: کیونکہ وہ اجنبی ہیں!
حضرتِ ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’بَدَأَ الإِسْلَامُ غَرِيبًا، وَسَيَعُودُ كَمَا بَدَأَ غَرِيبًا، فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ.‘‘ (صحيح مسلم)
’’ابتدا میں اسلام اجنبی (مسافر کی مانند غیر معروف) تھا اور عنقریب پھر غیر معروف ہوجائے گا، پس خوشخبری ہے اجنبیوں کے لیے۔‘‘
یہ نبوی ﷺ فرمان اہلِ حق کے ’اجنبی‘ ہونے کی خبر دیتا ہے۔ بھلا اس بات میں بھی کوئی شک ہے کہ جو شخص ہر وقت اپنے عقیدے اور جہاد کی وجہ سے موت کے خوف میں جیتا ہو، دراصل وہی غربت و اجنبیت کی زندگی گزارنے والا ہے۔ یہی شخص تو اجنبی ہے کہ مشکل حالات میں حق پر قائم ہونے کے باوجود اس پر عقیدے کی خرابی کا الزام ہے اور اس کے حامی و مددگار بہت کم ہیں۔
وہ ہر وقت ایک طرح کے خوف میں مبتلا رہتا ہے، اس کا فون ہر وقت زیرِ نگرانی(under surveillance) رہتا ہے، دشمن اس کے کمپیوٹروں کی کھوج میں رہتا ہے، اس کا انٹرنیٹ ہر وقت مانیٹر کیا جاتا ہے۔ اسے ہر وقت یہ اندیشہ لاحق رہتا ہے کہ اس کی گاڑی میں دشمن نے بم نہ لگا دیا ہو یا اس کی گاڑی میں Tracking-Chip نہ نصب کر دی گئی ہو۔ وہ اپنے ہی وطن میں اپنی مرضی سے آزادانہ نقل و حرکت نہیں کر سکتا۔ حکومتی اہلکار و خفیہ والے اس کی تاک میں رہتے ہیں۔ راہِ حق پر چلنے کے سبب اس کے اپنے ہی قبیلے اور خاندان کے لوگ، بلکہ بعض دفعہ سگے بھائی بہن، والدین و اولاد، بلکہ بعض کی بیویاں تک اس کی دشمن ہو جاتی ہیں، اس کے قربت و رحم کے رشتہ دار تک اسے دشمن کے حوالے کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔اس کے قرابت دار ہی اسے گمراہ کن نظریات کا حامل ہونے کا الزام لگاتے ہیں، اسے امنِ عامہ کا دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ اسے کہا جاتا ہے کہ وہی ہے جس نے شر کا باب کھولا ہے، جلد باز ہونے کا طعنہ اس کو دیا جاتا ہے۔ الغرض یہ تو محض چند باتیں ہیں، جیسے جیسے الزامات یہ شخص سہتا ہے تو بے شک یہی ہے جو اپنے زمانے کا سب سے غریب، سب سے اجنبی شخص ہے۔
جس اجنبی کو زبانِ رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کامیابی کی خوش خبری دے رہے ہیں، کیا وہ ایسا شخص ہے جو یہودیوں اور عیسائیوں کے جرائم پر خاموش رہتا ہے؟ امت کی گردنوں پر مسلط حکمران جو دراصل کہیں امریکہ کے غلام ہیں اور کہیں خادمِ بے دام، یہ شخص ان طواغیت کو ولی الامر کہتا ہے اور ان کے خلاف خروج کو حرام کہتا ہے۔ یہ شخص شاید اللہ کے راستے میں کبھی خوف زدہ نہیں ہوا ہو گا۔ یہ شخص طواغیتِ زمانہ کا منظورِ نظر ہونے کے سبب ہر شہر میں گھومتا ہے۔ اس کی معیشت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔
ذرا سوچیے! کیا ایسا شخص رسول اللہ ﷺکے فرمان کے مطابق ’غریب‘ و ’اجنبی‘ قرار دیا جا سکتا ہے؟ ہم اسے کیسے اجنبی کہہ سکتے ہیں جبکہ وہ اجنبیت کو جانتا تک نہیں۔ بلکہ عین ممکن ہے طواغیتِ زمانہ اس شخص کو عزت دے رہے ہوں۔ اسے ایسی سہولیات میسر ہوں جو کسی اور کو میسر نہیں۔ بعض ’مبلغین‘ کو تو طواغیتِ زمانہ خود ہی لمبی لمبی گاڑیاں، پروٹوکول اور مشاہرے دیتے ہیں۔ ایسے لوگ کیا جانیں کہ اللہ کے راستے میں تکلیفوں سے گزرنا، قید کاٹنا اور زیرِ نگرانی رہنا کیا ہوتا ہے؟ جبکہ اس کے مقابل حقیقی اجنبی اسلام کی خاطر اپنے بچوں، والدین، بیوی، وطن اور آرام دہ اور ایک آزاد زندگی، ’نارمل لائف‘ کو چھوڑ چکا ہوتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ کئی بار اپنا انتہائی نجی نوعیت کا سودا خود بازار سے نہیں لا سکتا؟ بیمار ہو جائے تو ہسپتال نہیں جا سکتا۔ سالہا سال بِیت جاتے ہیں کہ وہ اپنی ماں کی میٹھی آواز نہیں سن سکتا، اگر وہ اپنی بوڑھی ماں کی آواز سننے کے لیے اس سے رابطہ کرنا چاہے تو طواغیتِ زمانہ کے کارندے اس کی بوڑھی ماں کو مارنے پیٹنے، دھمکانے اور اغوا تک کرنے جیسے جرائم کرتے ہیں۔
کہاں یہ خوش خبریوں کے حق دار، غرباء اجنبی لوگ اور کہاں زمانے کے طواغیت کے چہیتے لوگ۔ ان شخصیات میں تو زمین و آسمان جتنا فرق ہے۔ یہ اجنبی مسافر ’فرضِ عین‘ کی پکار پر اپنے گھروں سے نکلے، اس فرضِ عین نے ان کو واپس ان کے گھروں کو لوٹنے نہ دیا، کتنوں کی مائیں اور کتنوں کے باپ ان کی غیر موجودگی میں اللہ کو پیارے ہو گئے، کتنوں کی بہنیں ان کی غیر موجودگی میں بیاہی گئیں، یہ اپنے سگے بھائیوں کی شادیوں میں شریک ہو سکے، نہ بھائیوں کی مشکلوں میں ان کے لیے سہارا بن سکے۔ یہ اجنبی مسافر اسی راہ میں چلتے چلتے مٹی میں مل گئے اور کچھ ہیں جو اسی فرضِ عین کی ادائیگی میں مٹی میں مل جانے کی آرزو صبح و شام رکھتے ہیں۔ انہی کے بارے میں مسافرِ راہِ وفا، شاعرِ جہاد شیخ احسن عزیز شہید نے کہا تھا:
اُنہیں یہ بھی بتادینا جو ہم اس راہ پہ نکلے
سوائے دردِ اُمّت کے ،ہمیں درپیش غم نہ تھے
وگرنہ زندگی کے امتحاں کچھ اور ____کم نہ تھے
ابھی بہنوں کی رُخصت کا ہمیں سامان کرنا تھا
ابھی بیمار ماں کو بھی معالج کو دکھانا تھا
ضعیف اک باپ کا بھی ہاتھ پھر ہم کو بٹانا تھا
مگر ہم سر ہتھیلی پر لیے، فی اللہ نکل آئے
یہ فرضِ عین بھی آخر ہمیں ہی تو نبھانا تھا!
میرے بھائی! یہ نہ ہی غلو ہے اور نہ ہی شدت پسندی۔ نہ ہم امت کے دیگر اہلِ صدق و صفا کی تحقیر کرنا چاہتے ہیں۔ ہم تو بس یہ کہہ رہے ہیں کہ دل کی آنکھ سے اور چشمِ سر سے دیکھیے کہ وہ اجنبی لوگ کون ہیں جن کو بشارتیں دی جا رہی ہیں؟ ہم آج ایک ایسے وقت میں جی رہے ہیں جب یہود و نصاریٰ مسلم علاقوں پر حملہ آ ور ہیں۔ ہمارے اپنے ہی ہم قوم، نام نہاد یہ کلمہ گو حکمران، یہود و نصاریٰ کو، صلیبیوں اور صہیونیوں کو تیل بھی فراہم کرتے ہیں، ان کی خوراک کا سامان بھی کرتے ہیں اور انٹیلی جنس مدد بھی کرتے ہیں۔ یہ طواغیتِ زمانہ اِنہیں صلیبی و صہیونی کافروں کے لیے بحری، برّی اور فضائی راستے محفوظ بناتے ہیں، پھر یہی ہیں جو مجاہدین کے راستے میں حائل ہیں اور مجاہدینِ اسلام کو ظالم و غاصب کافروں سے لڑنے سے روکتے ہیں ۔ ہم ایک ایسے زمانے میں جی رہے ہیں جب اللہ کی شریعت کی جگہ خود ساختہ کفری قوانین نافذ ہیں۔ ایسے میں جو اس سب کا انکار کرے گا تو اس کی زندگی غربت و اجنبیت میں گزرے گی ۔ جو شخص ان قوانین اور ان کے بنانے والوں اور ان حکمرانوں کے دفاع میں زندگی صرف کرے گا وہ کیسے اجنبیوں میں شمار ہو سکتا ہے؟
امت میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو دین کی بڑی بڑی، عالی شان خدمتوں میں لگے ہوئے ہیں، یہ خدمتیں ہمیں تسلیم ہیں، ہمارے دلوں میں ان خدمتوں کے لیے بڑی قدر ہے۔ یہ خدمتیں سب کچھ ہیں، اعلیٰ و ارفع ہیں لیکن جہاد نہیں ہیں اور اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ مجاہدین اپنے عملِ جہاد کو ’کافی و شافی‘ سمجھ کر اپنے اعمال پر قانع ہو بیٹھے ہیں۔ یہاں بحث تو اس بات کی ہے، دعوت تو اس بات کی ہے کہ امت کا ہر ہر شخص ہر ہر عملِ دین میں شریک رہے، اوجِ کمال کو پہنچے یا اس اوجِ کمال کے راستے کا راہی بن جائے۔ وہ اجنبیت جس کی خوش خبری کے مصداق فی الحال یہ مجاہدین ہی ہیں۔ اس امت میں کون ہے جو اس وقت اس حدیث کا مصداق ہے کہ ’القابضوں علی الجمر‘، انگارے کو ہاتھ میں پکڑے ہوئے!
اللہ راقم و قاری پر رحم فرمائے۔ عدل و انصاف سے غور کیجیے کہ آج دنیا بھر میں سرگرم دینی تنظیموں اور جماعتوں میں اس حدیث پر کون زیادہ پورا اترتا ہے؟ کون ہے کہ جس کے لیے دین پر عمل آج انگارے کو ہاتھ میں پکڑنے کے مترادف ہے۔ یہ حدیث بھی، غربت و اجنبیت والی حدیث کی تائید کرتی ہے۔
یہ مجاہدینِ اسلام ہی ہیں جن کا دشمن صاحبِ قوت و شوکت اور صاحبِ وسائلِ ہمہ قسم ہے اور خود ان کے مددگار بہت کم ہیں۔ ان کے دشمنوں میں یہود و نصاریٰ بھی ہیں، مقامی طواغیت بھی، ان کے دم چھلے بھی اور درباری علماء بھی۔ یہاں راقم کو اس وقت پاکستان میں موجود ایک نام ور عالم مفتی عبد الرحیم صاحب کے بارے میں شیخ اسامہ بن لادن کی رائے ثم حکم یاد آ گیا ۔ جہادِ افغانستان ضد الروس کے اختتام ثم خانہ جنگی اور پھر امارتِ اسلامیہ کے قیام کے وقت مفتی عبد الرحیم صاحب افغانستان اکثر آیا جایا کرتے تھے۔ اس عرصے میں مفتی عبد الرحیم صاحب ہر وقت کمانڈو وردی پہنے رکھتے تھے، جامعہ میں بھی اور اپنے اسفار کے دوران بھی۔ اسی طرح کے ایک موقع پر جب مفتی عبد الرحیم صاحب شیخ اسامہ کے مرکز میں آئے تو شیخ اسامہ ایک اہم اور خفیہ میٹنگ میں مصروف تھے۔ مفتی عبد الرحیم نے ادھر ادھر سے سن گن لی کہ شیخ اسامہ کی ملاقات کس کے ساتھ چل رہی ہے۔ کچھ معلومات حاصل ہونے پر وہ واپس کراچی لوٹے اور ایک مشہور اخبار میں شیخ اسامہ کی اس خفیہ ملاقات کا ذکر چھاپ دیا۔ مفتی عبد الرحیم صاحب اس واقعے سے قبل بھی اس زمانے میں دیگر مجاہدین کی جگہوں پر بھی جا کر مجاہدین کی سن گن وغیرہ لیا کرتے تھے اور اس زمانے میں بھی پاکستان فوج کے اندرونی حلقوں میں ان کی رسائی و تعلقات کی خبریں موجود تھیں (جو آج ہر عام و خاص کے سامنے بلکہ مفتی عبد الرحیم صاحب کی اپنی گفتگو سے بھی ظاہر ہیں)۔ شیخ اسامہ بن لادن اور مجاہدین کے راز کو افشا کرنے کے واقعے کےبعد شیخ اسامہ نے اپنے سے مربوط مجاہدین کو مفتی عبد الرحیم صاحب کا بائیکاٹ کرنے کا کہا۔ اس کے بعد شیخ اسامہ نے یہی نصیحت شیخ ایمن الظواہری کو کی جس کے نتیجے میں دیگر مجاہد ساتھیوں کے مراکز میں ان صاحب کے آنے پر پابندی لگ گئی اور مجاہد ساتھیوں نے ان صاحب کے ساتھ ملنا جلنا بالکل ترک کر دیا۔ ان پابندیوں کے بعد مفتی عبد الرحیم صاحب نے ایک وزیر صاحب کو اپنا سفارشی بنایا اور شیخ اسامہ سے ملاقات کی درخواست کی۔ شیخ اسامہ نے اس کو منظور کیا اور ایک بار اور آخری مرتبہ مفتی عبد الرحیم صاحب سے ملاقات کر لی۔ لیکن اس ملاقات کے بعد شیخ اسامہ نے تنظیم القاعدہ کے مسئولین کو کہا ’اس شخص سے دور رہیں، ورنہ یہ ہم سب کو بیچ دے گا‘۔ اس واقعے سے جان لیجیے کہ مجاہدین کو کیسی کیسی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور علماء سے منسوب بھی کچھ لوگ کیسے کیسے مجاہدین کو ضرر پہنچاتے ہیں۔ یہ واقعہ راقم الحروف کو تنظیم کے ایک مرکزی قائد نے سنایا جن کو شیخ ایمن الظواہری نے خود یہ بات بتائی۔ یہ سلسلہ صرف یہیں تک نہیں رکا بلکہ امارتِ اسلامیہ افغانستان کے ۲۰۲۱ء میں دوبارہ قیام کے بعد بھی مفتی عبد الرحیم صاحب ایک بار قندھار آئے۔ لیکن ان کو قندھار میں پاک افغان چمن سپین بولدک بارڈر سے ہی واپس رخصت کر دیا گیا۔
ایک طرف مجاہدین کو، ان غرباء کو جہاں ایسے لوگوں کا سامنا ہے تو دوسری طرف یہ غرباء بعض علمائے حق کی اجتہادی غلطیوں کے نتیجے میں قائم کی گئی آراء سے بھی محفوظ نہیں رہ پاتے، یا پہلے مذکور صاحب جیسی شخصیات بڑے بڑے علمائے حق کو اپنے ظاہر کے سبب متاثر کر کے مجاہدینِ اسلام کے بارے میں غلط معلومات دے کر بد ظن کرتے ہیں اور ان سے حیلوں اور چالوں کے ذریعے اعلامیے نشر اور فتاویٰ صادر کرواتے ہیں۔
اس سب کے باجود کچھ علمائے حق اور مجاہدین سے ایمانی محبت رکھنے والے عام لوگ مجاہدین کے ساتھ کھڑے ہیں، حالانکہ اکثر سادہ لوح مسلمانوں کا حال بھی یہ ہے کہ وہ وہ مجاہدین کو غلط نظر سے دیکھتے ہیں۔ اور یہ سب میڈیا کی وجہ سے ہے، وہ میڈیا جو یہود و نصاریٰ، منافقین اور درباری علماء کے تابع ہے۔ ان سب نے مجاہدین اور ان کے اہلِ خانہ پر، بلکہ عافیہ صدیقی جیسی امت کی پاک باز بیٹی پر ایسی تہمتیں لگائیں جن سے مجاہدین بری ہیں۔ ان لوگوں نے مجاہدین کی کفار کے مقابلے میں کامیابیوں اور فتوحات کی خبریں چھپائیں اور دشمن کی ناکامیوں کا ظاہر نہ ہونے دیا۔ اس اعلامی یا میڈیائی جنگ کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ ساحری مخلص لوگوں پر بھی کارگر ہوئی۔ ابھی فی الحال ہمارا موضوع یہ نہیں ہے ورنہ بات بہت لمبی ہو جائے گی۔
اللہ راقم و قاری پر رحم فرمائے۔ ذرا دیکھیے! یہ مجاہد کون ہے؟ یہ وہ شخص ہے جس نے اپنی جان اور اپنا مال اللہ کی راہ میں قربان کر دیا۔ جب اس نے اللہ کے دین کی حرمتیں پامال ہوتے دیکھیں تو اس سے رہا نہ گیا اور وہ اللہ کے دین کی حرمت کی خاطر، ان کے دفاع میں اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے اپنی جان اور مال کو اللہ کے لیے وقف کر دیا اور دنیا کی عارضی لذتیں ترک کر دیں۔ اس پر امن کے بعد خوف کی زندگی غالب ہو گئی، وہ اپنے گھر میں بہت متمول و خوشحال تھا لیکن اس سب کی جگہ فقر و فاقہ نے لے لی، اللہ کی وسیع زمین اپنی وسعت کے باوجود اس پر تنگ ہو گئی۔
اس سب کے بعد بھی اس پر عقیدے کی خرابی ، منہج میں کجی کے الزامات لگائے گئے۔ اسے کہا گیاکہ وہ مصلحت و مفسدے کا خیال نہیں رکھتا اور اس کے سبب امت مصیبت میں مبتلا ہو گئی۔ کیا یہی وہ شخص نہیں جو دین پر اس طرح قائم ہے گویا جیسے ہاتھ میں دہکتا انگارہ تھامنا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا اَنْ يَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ (سورة العنكبوت: 2)
’’ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ انہیں یونہی چھوڑ دیا جائے گا کہ بس وہ یہ کہہ دیں کہ : ہم ایمان لے آئے۔ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ ‘‘
آج کے مجاہدین دنیا بھر میں اہلِ ابتلا ہیں اور بے شک حق پر قائم شخص آج ضرور آزمائش کا شکار ہو گا۔ اس لیے کہ آج یہود و نصاریٰ اور ان کے منافق ایجنٹ غالب ہیں۔ ایسے میں اہلِ حق کیسے حق پر قائم رہتے ہوئے ان کے شرسے بچ سکتے ہیں؟ پس جو بھی آج منہجِ نبوی ﷺ پر کفر کے غلبے کے زمانے میں کاربند ہو گا اور باطل کا انکار اپنے ہاتھ اور زبان سے کرے گا تو محمدِ مصطفیٰ ﷺ کے دشمن اس کو ضرور اذیت پہنچائیں گے۔
اے وہ شخص! کہ جو طائفۂ منصورہ کا حصہ ہونے کا دعوے دار ہے لیکن آزمائش اس کو چھو کر بھی نہیں گزرتی تو جان لو کہ محمدِ مصطفیٰ ﷺکے طریق پر چل کر تو آزمائش ضرور بالضرور آئے گی،بالکل ویسے ہی جیسے کفار کے غلبے کے زمانے میں محمدِ مصطفیٰ ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین پر آئی۔ اگر آزمائش آپ پر نہیں آتی تو اپنے راستے، اپنے منہج اور اپنے نظریات پر نظرِ ثانی کیجیے۔ جیسا کہ شہیدِ اسلام سیّد قطب نے فرمایا:
’واعلم أن أي جماعة لا تتعرض للابتلاء فلتراجع حساباتها!‘
’ پس جان لیجیے کہ جو جماعت آزمائشوں کا شکار نہ ہو تو وہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرے!‘
اللھم اجعلنا هادين مهتدين، غير ضالّين ولا مضلّين، سلماً لأوليائك، وحرباً علی الأعدائك، نحبك من أحبك، ونعادي بعداوتك من خالفك. اللهم هذا الدعاء ومنك الإجابة، اللهم هذا الجهد وعليك التكلان، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم، آمين!
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭
السلام علیکم
معین الدین شامی صاحب! آپ کے اس سلسلے کی اگلی قسط کا شدت سے انتظار تھا۔ جون کا میگزین دیکھا لیکن قسط نہ پا کر مایوسی ہوئی۔ اسی طرح آپ کے شروع کیے دیگر سلسلوں میں خاص طور پر مع الاستاد فاروق کا شدت سے انتظار ہوتا ہے، اس میں استاد احمد فاروق صاحب اور ان کے ساتھیوں کا ذکر ہمیں کسی اور جگہ آپ کے سٹائل سے نہیں مل پاتا، لیکن اس کی قسط بھی بہت ٹائم سے نہیں آئی۔
پلیز اس طرف بھی تھوڑی attention دیں۔ یقیناً آپ کی مصوفیات بھی ہوں گی۔ امید ہے مائنڈ نہیں کریں گے۔
جزاک اللہ خیرا