الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علیٰ سید الانبیاء والمرسلین محمد و علیٰ آلہ و صحبہ و ذریتہ اجمعین اما بعد
فقد قال اللہ سبحانہ وتعالیٰ فی کتابہ المجید بعد أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمان الرحیم
وَاِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِيُثْبِتُوْكَ اَوْ يَقْتُلُوْكَ اَوْ يُخْرِجُوْكَ ۭوَيَمْكُرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللّٰهُ ۭوَاللّٰهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ (سورۃ الانفال: ۳۰)
صدق اللہ مولانا العظیم
رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ، وَيَسِّرْ لِيْٓ اَمْرِيْ، وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ، يَفْقَـــهُوْا قَوْلِيْ
اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
وَاِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا اور یاد کیجیے وہ وقت کہ جب کافر آپ کے خلاف چال چل رہے تھے، لِيُثْبِتُوْكَ کہ آپ کو پکڑ لیں ، آپ کو قید کردیں، اَوْ يَقْتُلُوْكَ یا آپ کو قتل کردیں، اَوْ يُخْرِجُوْكَ یا آپ کو نکال دیں، جلا وطن کردیں، وَيَمْكُرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللّٰهُ اور یہ (یعنی کافر) مکر کرتے ہیں اور اللہ ان کے خلاف چال چلتا ہے، وَاللّٰهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ اور اللہ بہترین چال چلنے والا ہے۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمانوں کے خلاف، انبیاء اور انبیاء کے پیروکاروں کے خلاف کفار کے جو ہتھکنڈے ہوتے ہیں، ان کا بیان فرمایا ہے، اور بنیادی طور پر تین ہتھکنڈوں کا ذکر کیا ہے: قید کرنا، قتل کرنا اور جلاوطن کرنا۔ یہی ہتھکنڈے رسول اکرم ﷺ کے خلاف بھی استعمال ہوئے اور یہی ہتھکنڈے آج تک انبیاء ءکے رستے پہ جو بھی چل رہا ہے اس کے خلاف استعمال کیے جاتے ہیں۔ بنیادی طور پہ کسی بھی دین پر چلنے والے کے خلاف کافروں کا آخری حربہ یا زیادہ سے زیادہ کوئی چال ہے جو وہ اختیار کرسکتے ہیں تو وہ یہی تین چیزیں ہیں کہ قید کرنا، قتل کرنا یا جلاوطن کردینا۔ اللہ کے نبیﷺکے دور میں بھی وہ یہی سمجھتے تھے کہ غالباً ان ذرائع سے، ایسے ظلم سے وہ بات کو دبا لیں گے اور اللہ کے دین کی دعوت کو روک لیں گے۔ لیکن بالآخر یہ ثابت ہوا کہ اللہ کی چال غالب رہی اور ان کا ہر حربہ انہی کے خلاف پڑااور دین کو جتنا دبانے کی کوشش کی اتنا زیادہ وہ پھیلا۔آج بھی جو راہ حق کو اختیار کرے گا، بالخصوص جہاد کےرستے پر آئے گا، جہاد کے لیے دعوت دے گا، جہاد کے لیے نکلے گا، قتال کے میدانوں کا رخ کرے گا، اس کو ان میں سے کسی نہ کسی چیز کا سامنا کرنا پڑے گا۔جہاد کے رستے پر آنے والے کو ان تینوں حربوں کے لیے ذہناً تیار ہونا چاہیے: قید، قتل اور جلاوطنی۔تو یہ انبیاء کا رستہ ہے۔ کسی بھی نبی کی سیرت آپ اٹھا کر دیکھ لیں تو ان کی زندگی میں آپ کو بالکل سکون، اور سالوں تک ایک سے تسلسل سے چلتی زندگی جو کبھی متاثر نہ ہوئی ہو، کبھی کسی نے ان کو اف نہ کہا ہو، کبھی کسی نے ان کے خلاف ظالمانہ اقدام نہ کیے ہوں، ایسی زندگی کبھی نہیں ملتی آپ کو انبیاء کی۔ انبیاء کی زندگیوں میں ہجرتیں آتی ہیں، قتل آتا ہے، شہادتیں آتی ہیں، اعزا و اقربا کا چھننا آتا ہے، اپنوں کا مخالف ہونا آتا ہے، پوری قوم کا اپنے خلاف کھڑا ہوجانا آتا ہے، یہ سب آزمائشیں انبیاء کی زندگی میں آتی ہیں۔ یہ صرف اللہ کے آخری نبی ﷺ ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم کی زندگی دیکھیں! شروع کہاں سے ہوتی ہے؟ عراق کے ایک علاقے سے اور فلسطین اور شام اور گھومتے گھومتے مکہ،اتنا طویل سفر ہے، ہجرتیں در ہجرتیں جو آپ کو کرنی پڑتی ہیں۔ حضرت موسیٰ ہیں، ہجرتوں ہی ہجرتوں کا سفر ہے، پہلے فرعون کے خوف سے بھاگتے ہیں، پھر قوم سمیت فرعون کے خوف سے وہاں سے نکلتے ہیں اور اللہ سبحانہ تعالیٰ اس قوم سمیت صحرا کے اندر ایک طویل سفر کرواتے ہیں، مستقل دربدری کی زندگی ہے، کٹھن اور مشکلات اور دشواریوں والی زندگی ہے۔کتنے انبیاء ہیں کہ جن کی شہادتیں ہوئیں ان کی قوم کے ہاتھوں، انہوں نے اپنی جان دی اس رستے کے اندر، تو انبیاء کی زندگی ایسی ہے۔
دعوت حق اہل باطل پر رعب طاری کردیتی ہے
جیسا کہ روایات کے اندر کسریٰ کے حوالے سے آتا ہے کہ جب اس تک یہ دعوت پہنچی تو اس نے کہا کہ: ’إنّ ھذا أمرٌ یَکرَھُہُ المُلُوْک‘، یہ ایک ایسی دعوت ہے جسے بادشاہ نہیں برداشت کرسکتے۔ تو یہ دعوت اپنی تاثیر کے اعتبار سے ایسی ہی ہےکہ اللہ کے سوا کسی کی حاکمیت قبول نہیں کرتی۔ اللہ کے سوا اللہ کی زمین میں، اللہ کی مخلوق پہ کسی اور کا نظام چلنا قبول نہیں کرتی۔ تو جو بھی یہ دعوت دیتا ہے وہ چاہے تنہا ہی کیوں نہ ہو، مخالفین اس کی دعوت کی قوت و تاثیر سے کانپنے لگتے ہیں۔
آپ دیکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ایک فرد تھے، ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارون تھے، دونوں فرعون کے دربار میں جاتے ہیں، ان کے ساتھ کوئی لشکر کوئی طاقت کچھ بھی نہیں۔ فقط دو بندے ہیں جن کے پاس ان کی زبان ہے بس اور اللہ کا سہارا ہے۔ تو وہ جب فرعون کے دربار میں بات کرتے ہیں تو فرعون اپنی قوم سے کیا کہتا ہے؟ کہتا ہے کہ یہ دو ساحر ہیں جو تمہیں تمہاری زمین سے نکال دینا چاہتے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ دو بندے جو خالی ہاتھ آئے ان سے لشکروں کے حامل فرعون کو اتنا خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ کہتا ہے کہ
قَالُوْٓا اِنْ ھٰذٰىنِ لَسٰحِرٰنِ يُرِيْدٰنِ اَنْ يُّخْرِجٰكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِهِمَا وَيَذْهَبَا بِطَرِيْقَتِكُمُ الْمُثْلٰى(سورۃ طہ: ۶۳)
’’ انھوں نے کہا کہ : یقینی طور پر یہ دونوں (یعنی موسیٰ اور ہارون) جادو گر ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور پر تم لوگوں کو تمہاری سرزمین سے نکال باہر کریں، اور تمہارے بہترین (دینی) طریقے کا خاتمہ ہی کر ڈالیں۔‘‘
یہ تمہیں تمہاری زمین سے نکال دیں گے اور تمہارا جو بہترین طرز زندگی ہے، تمہاری جو اقدار ہیں تمہاری جو ویلیوز ہیں اس کے اور تمہارے لائف اسٹائل (جیسا کہ امریکہ آج کہتا ہے) کے دشمن ہیں، یہ تمہاری اُس زندگی کو ختم کردینا چاہتے ہیں۔ دو بندوں کے پاس ایسی کیا قوت تھی کہ فرعون، جسے قرآن ’ذو الاوتاد‘ کہتا ہے ،یعنی جو لشکروں والا ہے، جس کے لشکر جب پھیلتے تھے تو خیمے ہی خیمے گڑ جاتے ہر طرف، اتنے بڑے بڑے اس کے لشکر تھے، اور جس نے سالہا سال اپنی قوت کے زور سے بنی اسرائیل کو غلام بنائے رکھا، وہ خطرہ محسوس کرتا ہے اس دعوت سے؟ اسی طرح مکہ کے اندر رسول اکرم ﷺ ایک فرد ہیں، آپ کے پاس کوئی لشکر نہیں ہے، قریش کے مقابلے میں آپ کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے، لیکن قریش کے بڑے اکٹھے ہوتے ہیں، آپ کے خلاف سازشوں کے جال بنتے ہیں، طرح طرح کے حربے اختیار کرتے ہیں، لالچ دیتے ہیں، اس لیے کہ پتہ ہے کہ وہ لوگ باطل پہ ہیں اور جو دعوت سامنے سے آرہی ہے وہ حق دعوت ہے۔ ان کو حق دعوت کا آنا اپنی موت نظر آتا ہے۔ ان کو یہ پتہ ہے کہ یہ حق دعوت پھیلے گی تو ان کی جھوٹی خدائیاں پاش پاش ہوں گی اور دنیا کے اندر اللہ کا نظام پھیلے گا۔ ابو جہل سمجھتا تھا کہ لا الہ الا اللہ کتنی خطرناک چیز ہے کفار کے لیے اور باطل کی پیروی کرنے والوں کے لیے۔
جو دعوت بلا مزاحمت قبول کرلی جائے اس میں کچھ نقص ہے
آج دین کی دعوت کو نہ سمجھنےوالے اس کو اتنا ہلکا پھلکا پیش کرتے ہیں کہ وہ دعوت آپ جا کر عین امریکہ میں بھی کھڑے ہوکر بیان کرنا چاہیں تو امریکی خود ان کو ویزہ دیتے ہیں کہ لیں جی بسم اللہ! آئیے اور آ کر دعوت دیں۔ اس دعوت میں کچھ نقص ہے۔جو دعوت اتنی کمزور اور پھسپھسی ہو کہ کہنے کو کوئی دین کی دعوت دے رہا ہو اور اسے کوئی کافر کچھ نہ کہتا ہو، کوئی اس سے تعرض نہ کرتا ہو، کوئی اسے روکتا نہ ہو، کوئی اسے پکڑتا نہ ہو، کوئی اس کو گرفتار نہ کرتا ہو، تو یقیناً اس دعوت میں کوئی کمزوری ہے، یقیناً اس دعوت میں کہیں نہ کہیں کوئی نقص پایا جاتا ہے، ورنہ کفار کبھی بھی دین کی دعوت ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرتے۔
انبیاء کی لائی ہوئی دعوت میں تصادم کا آنا ناگزیر ہے
تو وہ دعوت جو رسول اکرم ﷺ لے کر آئے،وہ دعوت جو تمام انبیاء لے کر آئے اس میں تصادم کا آنا ناگزیر ہوتا ہے۔ باطل پر چلنے والوں سے ٹکر ہونا ناگزیر ہوتا ہے اس دعوت میں۔یہ دعوت آدھے پونے حل قبول نہیں کرتی، یہ دعوت مداہنت قبول نہیں کرتی، اللہ کے نبی ﷺ کے ساتھ ہر قسم کی ڈیل کرنے کی کوشش کی کفار نے جس سے وہ اپنے اصولوں پر سودے بازی کرلیں، مال کی پیشکش، سلطنت کی پیشکش۔ آج جو لوگ کرسی تک پہنچنے کے لیے تمام جائز و ناجائز ذرائع استعمال کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ہم دین کے لیے کررہے ہیں، اگر یہی کرنا ہوتا تو نبی اکرم ﷺ کو تو انہوں نے آکر کہا تھا کہ ہم آپ کو سردار بنا دیتے ہیں! اگر آج کے ذہن سے سوچیں تو اس وقت آپ ﷺ کو یہی کرنا چاہیے تھا کہ آپ کرسی تک پہنچ جاتے اور پھر جب قوت مل جاتی تو نافذ کردیتے اور بتدریج دین کو لے آتے کسی اور ذریعے سے،لیکن آپ نے اپنے اصولوں پر سودے بازی کرنا نہیں قبول کیا، اپنی دعوت کو ہمیشہ صاف ستھرا اور واضح رکھا۔
جب نبی کریم ﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ ﷺ ورقہ بن نوفل کے پاس گئے تو ان کا پہلا رد عمل یہ تھا کہ تم جو دعوت لے کر آئے ہو وہ تم سے پہلے جو بھی لے کر آیا ہے ضرور اس سے عداوت رکھی گئی ہے، ضرور اس سے دشمنی کی گئی ہے۔اور کہا کہ کاش میں اس وقت جوان ہوتا، قوت میں ہوتا جب تمہاری قوم تمہیں جلا وطن کردے گی، کاش اس وقت میں تمہاری مدد کرنے کے قابل ہوتا۔تو آپ ﷺ نے حیرت سے دریافت فرمایا کہ مجھے! میر ی قوم مجھے نکالے گی؟ آج یہ قوم جسے صادق کہتی ہے، امین کہتی ہے، احترام کرتی ہے اس سے محبت کرتی ہے،وہ ہستی کہتی ہے کہ مجھے قریش کے لوگ یہاں سے نکال دیں گے؟ مکہ والے یہاں سے نکال دیں گے؟ تو اس کے جواب میں وہ یہ کہتے ہیں کہ جو دعوت تم لے کر آئے ہو وہ جو بھی لے کر آتا ہے اس کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔
دین کی قدر آزمائشوں سے گزر کر ہی آتی ہے
تو یہ رستہ ہے ہی ایسا پیارے بھائیو کہ جو اس رستے پر چلے گا اسے ان تین چیزوں کے لیے تیار رہنا چاہیے،قید کے لیے، قتل کے لیے، جلا وطنی کے لیے۔ اور جب ان آزمائشوں کی بھٹی سے کوئی داعی گزرتا ہے، کوئی دین کا حامل فرد گزرتا ہے پھر اس کو اپنے دین کی قدر آتی ہے ، جب دین کی خاطر اس کا خون گرتا ہے تو اس دین کی محبت تب اس کے سینے میں پیدا ہوتی ہے، جب وہ اس کی خاطر کچھ قربان کرتا ہے، جب اس کی خاطر وہ کچھ دیتا ہے۔
ایک ایسا دین کہ جس کی خاطر آپ نے کچھ بھی نہ دیا ہو، کچھ بھی نہ قربان کیا ہو، آپ اس کی قدر نہیں کرسکتے۔ قدر دل میں پیدا تب ہوتی ہے جب آپ کا بھائی اس کی خاطر شہید ہوتا ہے، جب آپ کا باپ اس کی خاطر جیل جاتا ہے، جب آپ کی بہنیں اس کی خاطر اذیتیں برداشت کرتی ہیں، جب آپ خود اپنے جسم کا خون اس رستے میں دیتے ہیں، پھر آپ کو قدر آتی ہے کہ یہ کتنا قیمتی دین ہے اوریہ آپ کو اپنی جان سے ، اپنے مال سے اپنے اہل و عیال سے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے۔
تو یہ تین چالیں ہیں کفار کی۔ کفار نے اُس دور میں بھی یہ سمجھا کہ وہ ان کے ذریعے دین کو دبا لیں گے۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ دین کتنی قوی چیز ہے۔یہ اللہ کا دین ہے۔ یہ اللہ کا وہ نور ہے جو پھونکوں سے نہیں بجھایا جاتا۔
پہلا حربہ: (سنت انبیاء) قید
آج کے دور میں بھی کتنے ہی لوگ ہیں جو اللہ کے رستے پر چلے، وہ علمائے حق ہوں، وہ مجاہدین ہوں، وہ دین کے داعی ہوں کہ جن کو دین پر چلنے کی پاداش میں قید کیا گیا۔ تو اُس دور میں بھی قید کا حربہ استعمال کیا گیا ۔ ابتدائی دور تھا اسلام کا، مسلمان کمزوری کے عالم میں تھے، حضرت بلال ، حضرت خباب، خواتین میں حضرت سمیہ اور اسی طرح دیگر بہت سے خواتین و حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے کہ جن کو قید کا سامنا کرنا پڑا۔اور یہ قید انبیاء کی سنت ہے۔ یہ یوسف کی سنت ہے۔اس قید کے ذریعے انہوں نے چاہا کہ دین کو دبائیں۔لیکن وہ دبا نہیں۔ وہ اُس دور میں بھی پھیلا۔ اِس دور میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جیل مدرسے کا کام دیتے ہیں۔ طالبان کی صفوں میں دیکھیں افغانستان کے اندر تو وہاں بھی قائدین کی سطح پہ بہت سے لوگ آپ کو وہ نظر آتے ہیں جو جیلوں سے ڈگری لے کر نکلے ، مدرسے کا کام دیا ان کے لیے جیل نے ، کوئی چھ سال لگا کے نکلا کوئی آٹھ سال لگا کے نکلا۔ اسی طرح قبائلی پٹی کے محاذ پر دیکھیں تو یہاں بھی طالبان ہوں، القاعدہ سے وابستہ مجاہدین ہوں یا دیگر مجموعات سے وابستہ مجاہدین ہوں ان میں سے بھی قیادت کا ایک بہت بڑا حصہ وہ ہے جو جیلوں سے فارغ التحصیل ہے، جو جیلوں سے اپنی اپنی ڈگریاں لے کر نکلا ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ایک عام مجاہد ہوتا ہے، وہ جیل میں داخل ہوتا ہے، جب جیل سے کچھ سال بعد باہر آتا ہے تو قرآن حفظ کرچکا ہوتا ہے، ان علماء سے جو دین پر چلنے کے جرم میں جیل میں ہوتے ہیں ان سے وہ حدیث کی کتابیں پڑھ چکا ہوتا ہے، کئی ساتھی ایسے ہیں جو جیل جانے سے پہلے عامی تھے اور جیل سے نکلے تو باقاعدہ علماء بن چکے تھے۔تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تربیت کا انتظام کیا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ویسے کبھی بھی نہ پڑھتے، ساری زندگی بندوقوں میں ہی گم رہتے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو چھ سات سال جیل کی ہوا سے گزار کے ان کی سطح کہیں سے کہیں پہنچا دی۔
پھر علم دین سے ہٹتے ہوئے بھی جیل ایک بھرپور تربیت گاہ ہے۔ آپ کو وہاں دنیا کی بدترین مخلوق سے لے کر بہترین مخلوق تک سب مل جاتی ہے۔ اور ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ کٹھن حالات میں رہنے سے جو تجربہ حاصل ہوتا ہے وہ سالوں میں کبھی نہیں حاصل ہوتا جو جیل کے چند ایام میں حاصل ہوجاتا ہے۔ انسان انسانوں کو پہچاننا سیکھ جاتا ہے، انسانوں سے تعامل کرنا سیکھ جاتا ہے، تنگیاں اور آزمائشیں سہنا سیکھ جاتا ہے، صبر کرنا سیکھ جاتا ہے۔ تو جیل سے نکلے ہوئے افراد بہت قیمتی ہوتے ہیں۔ کافروں نے اپنے تئیں یہ سمجھا کہ وہ گوانتانامو سے، بگرام سے ، ابو غریب سے امت کو توڑیں گے یا خوفزدہ کردیں گے، اس کی تصویریں نشر کرکر کے ڈرائیں گے ، لیکن اس کا نتیجہ ہمیشہ الٹا ہوا کہ وہاں سے ایسے ایسے ہیرے موتی برآمد ہوئے اور ایسے ایسے لوگ نکلے جو آج تک ان کے لیے ناک میں دم کرنے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ تو یہ ایک حربہ ہے جو وہ اختیار کرتے ہیں کہ قید کے ذریعے روکیں۔
دوسرا حربہ: قتل (یعنی شہادت)
دوسرا حربہ قتل ہے۔اور یہ حربہ بھی صرف رسول اکرم ﷺ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ قرآن بار بار ذکر کرتا ہے، اصحاب کہف کا ذکر کرتا ہے:
اِنَّهُمْ اِنْ يَّظْهَرُوْا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوْكُمْ اَوْ يُعِيْدُوْكُمْ فِيْ مِلَّتِهِمْ وَلَنْ تُفْلِحُوْٓا اِذًا اَبَدًا (سورۃ کہف: ۲۰)
’’ کیونکہ اگر ان (شہر کے) لوگوں کو تمہاری خبر مل گئی تو یہ تمہیں پتھراؤ کر کے ہلاک کر ڈالیں گے، یا تمہیں اپنے دین میں واپس آنے کے لیے مجبور کریں گے، اور ایسا ہوا تو تمہیں کبھی فلاح نہیں مل سکے گی۔ ‘‘
اصحاب کہف جب بیدار ہوتے ہیں تو ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ جب باہر نکلو گے تو ہوشیار رہنا، گر انہوں نے تم پہ قبضہ پا لیا تو یا تمہیں رجم کردیں گے، سنگسار کرکے قتل کردیں گے، یا تمہیں واپس اپنی ملت میں پلٹا لیں گے۔تو جب کوئی اور رستہ نہیں بچتا تو کافر یہی دو رستے چھوڑتے ہیں۔ یا وہ کہتے ہیں، جو ہمیں بھی دعوت دی جاتی ہے کہ main stream (مرکزی دھارے) میں واپس آجاؤ، یہی دعوت اُس وقت بھی تھی کہ ہمارے قومی دھارے میں، ہماری ملت میں ، جو ہمارے گمراہ طریقے ہیں ان پر واپس آجاؤ یا پھر سنگسار ہونے کے لیے، قتل ہونے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ تو ہر دور میں انبیاء کو اسی طرح پکارا گیا، اسی طرح ان کو دھمکی دی گئی کہ یا سنگسار ہوگے یا اپنے قومی دھارے میں واپس آجاؤ۔تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔
قرآن کے تبصرے دائمی تبصرے ہوتے ہیں ، ایسے تبصرے جو قیامت تک آپ کو رہنمائی دیتے ہیں۔ جملے تک جو کل کا فرعون کہتا تھا وہی آج کا فرعون کہتا ہے۔ جو کل کے اہل ایمان کہتے تھے وہی آج کے اہل ایمان کہتے ہیں۔ وہی تصویریں ہیں۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اس امت کے نوجوان قرآن کی روشنی میں زندگی گزارنا سیکھیں۔ قرآن کو ایک جامد چیز کے بجائے ایک زندہ کتاب کے طور پر پڑھیں جو ہر وقت ہر لمحے میں ان کو رہنمائی دیتی ہے۔ تو یہ دھمکیاں تھیں جو کل بھی دی گئیں کہ قتل کردیں گے، مار دیں گے، بوٹیاں علیحدہ کردیں گے، لیکن جواب ہمیشہ اہل ایمان کا ایک سا ہوتا ہے۔ وہ جواب ہوتا ہے جو ساحروں نے فرعون کو دیاجب وہ ایمان لے آئے، جب ان کو دھمکی دی گئی کہ:
فَلَاُقَطِّعَنَّ اَيْدِيَكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّلَاُوصَلِّبَنَّكُمْ فِيْ جُذُوْعِ النَّخْلِ (سورۃ طہ: ۷۱)
’’ اب میں نے بھی پکا ارادہ کرلیا ہے کہ تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹوں گا، اور تمہیں کھجور کے تنوں پر سولی چڑھاؤں گا۔‘‘
تو ان کا کیا جواب تھا؟
فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ (سورۃ طہ: ۷۲)
کرلو جو کرنا ہے! جو فیصلہ کرنا ہے تم نے کرلو، جو تمہارے بس میں ہے، جو چال چلنی ہے چل لو۔ تو یہ وہ جواب ہے جو اہل ایمان کی طرف سے ہمیشہ ایسی دھمکیوں کے جواب میں ملتا ہے اور اس سے کافروں کا ذلیل و حقیر ہونا اور ان کا عاجز و بے بس ہونا پوری طرح کھل کے سامنے آجاتا ہے۔
ایک بندے کے پاس سلطنت ہے، لاکھوں کی فوجیں ہیں، آپ کو پکڑا ہوا ہے، ایک بے بس آدمی ہے جس کے خلاف وہ ہر قسم کے اذیت کے حربے استعمال کررہا ہے اور وہ اس سے اتنی سی بات کہلانا چاہتا ہے جو وہ حضرت بلال سے کہلانا چاہتا تھا کہ احد احد کہنا بند کردو اور دین سے واپس لوٹ جاؤ، پر وہ ایک بندے کے عزم کو نہیں توڑ پاتا۔ اس سے زیادہ عاجز کون ہوگا جو ایک بندےکے سینے میں جو عزم ہے اس کو نہ توڑ سکتا ہو؟ تو وہ ﴿ فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ ﴾ کا جواب ہمیشہ کے لیے اہل ایمان کی طرف سے جاتا ہے اور کافروں کو یہ واضح پیغام دیتا ہے کہ اللہ کے اوپر ایمان جب سینے میں راسخ ہوجائے تو وہ اس ظلم سے اس جبر سے، وہ جیٹ جہازوں کے استعمال سے، وہ ہیلی کاپٹروں سے ، وہ توپیں داغنے سے، وہ ان چیزوں سے نہیں ختم ہوسکتا۔
تو یہ وہ پیغام ہے جو آج امریکہ کو دے رہے ہیں مجاہدین اپنے عمل سے۔ یہ وہ پیغام ہے جو آج پاکستانی فوج کو دے رہے ہیں مجاہدین اپنے عمل سے۔ چھ ماہ تک پاکستانی فوج نے محسود میں آپریشن سے قبل دن رات بمباری کی۔ جیٹ جہازوں کا اس قدر استعمال یقین سے ہم کہتے ہیں کہ انہوں نے کبھی نہیں کیا کہ چھ ماہ تک تو ان کی کوئی جنگ کبھی نہیں رہی۔ نہ انہوں نے سن پینسٹھ بھی کبھی استعمال کیا نہ اکہتر میں اس طرح استعمال کیا، کبھی کسی کافر کے خلاف نہیں استعمال کیا۔ تو چھ ماہ تک ہمارے اوپر بلا توقف بمباری ان کی ہوتی رہی۔اور آج بھی ان کا خیال ہے کہ انہوں نے سوات سے لے کر خیبر اورکزئی اور جگہ جگہ مجاہدین پر زمین تنگ کی ان کو پیچھے دھکیلا۔ سوال ان سے بس اتنا سا ہے کہ کیا مجاہدین اپنی دعوت سے پیچھے ہٹ گئے؟ کیا مجاہدین اپنے مشن سے پیچھے ہٹ گئے؟ کیا مجاہدین اپنے رستے سے پیچھے ہٹ گئے؟ الحمدللہ وہ آج بھی ادھر ہی جمے ہوئے ہیں اور یہ اونچ نیچ، یہ تو وقتی ہوتی ہے اور یہ جنگ کا حصہ ہوتا ہے، جنگ کی فطرت ہی یہ ہے، جو احادیث کے اندر آتا ہے کہ ’ الحرب سجالٌ و دُوَل‘، وہ ڈول کی طرح ہے، کبھی کوئی ڈول بھر کے لے جاتا ہے کبھی کوئی اور۔ کبھی ایک کو فتح ملتی ہے کبھی دوسرے کو فتح ملتی ہے۔تو یہ تو سب کچھ واپس پلٹ جانا ہے۔ اصل فیصلہ اس بات کا ہوتا ہے کہ کیا وہ اس عزم کو توڑ پائے؟ کیا وہ اس نظریے کو بدل پائے؟ تو وہ نہیں بدل پائے اور نہ وہ بدل سکتے ہیں، اس لیے کہ جو حق پہ کھڑا ہو وہ کبھی بھی باطل کے اس قسم کے حربوں سے نہیں رکتا۔
تو قتل وہ دوسرا حربہ ہے جو انہوں نے استعمال کیا ، رسول اکرم ﷺ کے خلاف بھی استعمال کرنا چاہا لیکن جواب ہمیشہ وہی ملا، نہ صحابہ کبھی اس کی وجہ سے پیچھے ہٹے اور نہ صحابہ کے رستے پہ چلنے والوں کو ان دھمکیوں یا آزمائشوں کی وجہ سے پیچھے ہٹنا چاہیے۔ ا س کی اگر ماضی قریب میں کوئی مثال ملتی ہے تو عبدالرشید غازی کی شہادت کے جو آخری چند دن ہیں وہ عین اسی ﴿فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ﴾ کی تفسیر ہیں کہ کر لو جو کرنا ہے۔ گھیرے میں ایک بندہ ہو، پانی بند ہو، بجلی کٹی ہو، زندگی تنگ ہو اور ہر طرف سے اس کو پتا ہو کہ یہاں سے بچ کر جانا ناممکن ہے ، یہاں لڑنے کا مطلب شہادت ہی ہے اور اس کو پیشکش کی جارہی ہو کہ ہتھیار ڈال دو ، گرفتاری دے دو، اور وہ نہ پیچھے ہٹے، تو بہت عظمت والی موت ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی شہادت قبول فرمائے، بہت عظمت والی موت ہے یہ۔ تو یہ ہے دوسرا حربہ۔
تیسرا حربہ: جلا وطنی (یعنی ہجرت)
تیسرا حربہ جلاوطنی ہے۔ قید جو ہے وہ مدرسہ ہوتا ہےمجاہدین کا ، قتل مجاہدین کے لیے شہادت ہوتی ہے، قتل کی تو وہ خود تمنا کرتے ہیں اور اگر مجاہدین کے بس میں ہو تو ان میں سے ہر ایک وہ کرے جو سورۃ البروج کی تفسیر میں واقعہ آتا ہے کہ نوجوان کو قتل کرنے کی ہر طرح سے کوشش کر دیکھتا ہے ، اس کے ایمان کی پاداش میں اسے قتل کیا جارہا ہوتا ہے لیکن وہ نہیں قتل ہورہا ہوتا، اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرماتے ہیں تو آخر میں وہ پھر طریقہ سجھاتا ہےکہ تم ’ بسم رب ھذا الغلام‘، یعنی اس لڑکے کے رب کے نام کے ساتھ کہہ کر مجھے تیر مارو گے پھر میں شہید ہوں گا۔یعنی اپنے آپ کو شہید کرنے کا طریقہ وہ اسے خود سجھاتا ہے۔ مجاہدین کے تو دل کی یہ کیفیت ہوتی ہے۔ وہ تو نکلتے ہی اس لیے ہیں کہ شہادت حاصل کریں تو ان کو شہید کر کے کوئی خوش ہوتا ہے تو وہ تو احمق ہے، وہ تو چاہتے ہی یہ تھے، یہی تو ہدف تھا ان کا ، سب سے بڑی تمنا ان کی زندگی کی یہ تھی، تو قید ان کا مدرسہ ہوتا ہے، قتل ان کے لیے شہادت ہوتی ہے اور تیسری چیز جلاوطنی ہے جو ان کے لیے سفر و سیاحت ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث میں آتا ہے، ’سَیَاحَۃُ أمَّتی الجِھاد‘، میری امت کی سیاحت جہاد ہے۔ تو مجاہد کو اور کیا چاہیے! وہ تو گھومنے پھرنے کے لیے ویسے ہی موقع کی تلاش میں ہوتا ہے۔ جب اس کی دوڑ لگتی ہے، جب ایجنسیاں چھاپے مارتی ہیں، جب دشمن اس کے پیچھے بھاگتا ہے، تو اس کے لیے ایک اور دنیا کھول دیتی ہے وہ چیز۔ اور جس طرح مکہ سے اللہ کے نبی ﷺ نکلے تو کافروں نے ایک لمحے کے لیے تو سکھ کا سانس لیا کہ چلو یہاں سے تو گئے، لیکن دس سال گزرنے کی دیر تھی کہ وہی نبی ﷺ دس ہزار کا لشکر لے کر مکہ کے دروازے پر کھڑے تھے اور دوبارہ کسی کے اندر لڑنے کی ہمت نہیں تھی۔ تو اللہ تعالیٰ مزید دروازے کھولتے ہیں جو کافروں کے وہم و گمان میں نہیں ہوتے۔ امارت اسلامیہ پر حملہ کیا تو ان کا خیال تھا کہ انہوں نے سارے مجاہدین کی قوت توڑ دی، ان کو نکال دیا، امارت سے سب بکھر گئے، وہ شہد کی مکھیوں کی طرح سب بکھرے اور وہی دس سال گزرے اور اس کے بعد انہی مجاہدین میں سے ایک صومالیہ میں جہاد کی قیادت کررہا ہے ، ایک الجزائر میں قیاد ت کررہا ہے، ایک یمن میں قیادت کررہا ہے جو جیلوں سے چھوٹ کر نکلا اور ایک عراق کے اندر قیادت کررہا ہے۔ وہی جہاد جو ایک جگہ بند تھا، وہ چھ سات محاذوں پر پھیل گیا، اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کے لیے مصیبت کا سامان ہوگیا۔
تو یہی وہ تیسرا حربہ ہوتا ہے جس کو وہ مجاہدین کے خلاف یا اللہ کے دین پر چلنے والوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں، جلاوطنی اور یہ جلاوطنی ہمیشہ واپس انہی کے خلاف الٹی پڑتی ہے۔ کسی مجاہد کے لیے یا دین پر چلنے والے کے لیے وہ ہجرت کا رستہ ہے جو اس کو بہت کچھ سکھاتا ہے ۔ ہجرت کے اندر انسان پختہ ہوتا ہے، وہ طرح طرح کے لوگوں سے ملتا ہے، طرح طرح کے حالات سے گزرتا ہے، اپنے وطن اپنی قوم سے دور ہوتا ہے، اجنبی علاقوں میں گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے کا موقع ملتا ہے، طرح طرح کے حالات سے گزرنے کا، تو اس بھٹی سے گزر کے جو انسان تیار ہوتا ہے وہ کچھ اور چیز ہوتا ہے، وہاں قیادتیں تیار ہوتی ہیں، ان آزمائشوں سے گزر کے امت کے بوجھ سنبھالنے کی صلاحیت رکھنے والے لوگ تیار ہوتے ہیں۔
تو یہ وہ تین حربے ہیں جو کافروں کے پاس ہیں۔ یہ ان کی آخری انتہا ہےجو وہ ہمارے خلاف کرسکتے ہیں اور وہ قید ہے جو مدرسہ، قتل ہے جو شہادت اور وہ جلاوطنی ہے جو کہ ہجرت ہے۔ہجرت کی تو ویسے ہی اتنی فضیلت ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ’’کیا تم جانتے نہیں کہ اسلام اپنے سے پیچھے کے سارے گناہوں کو مٹا دیتا ہےاور ہجرت اپنے سے پیچھے کے سارے گناہوں کو مٹا دیتی ہے‘‘، تو ہجرت تو اتنے عظیم اجر و ثواب والی عبادت ہے کہ مجاہد تو ویسے ہی موقع ڈھونڈ رہا ہوتا ہے کہ اسے اس کی سعادت مل سکے، کہ وہ اللہ کی خاطر ہجرت کرے، وہ حضرت ابراہیم کے نقش قدم پر چلے، وہ رسول اللہ ﷺ کے نقش قدم پر چلے، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقش قدم پر چلے۔
تو پیارے بھائیو یہ وہ تین حربے ہیں اور انہی تین کے بارے میں مکہ کے بڑے بڑے سردار ’دارالندوہ‘ میں اکٹھے ہوئے کہ اللہ کے نبی ﷺ کی دعوت کو جب وہ کسی طرح نہیں دبا پائے تو ان کے بڑوں نے کہا کہ آؤ مل بیٹھ کے مشورہ کرتے ہیں کہ کیسے اس دعوت کا علاج کیا جائے۔ تو یہی تین مشورے تھے جو مختلف لوگوں کی طرف سے آرہے تھے۔ دارالندوہ اس وقت کی ان کی پارلیمنٹ تھی، اور پارلیمنٹ جس طرح آج اکٹھی ہوتی ہے اور دہشت گردی کی مذمت میں قراردادیں اور کبھی ان کے خلاف آپریشن کرنے کی قراردادیں دیتی ہے ، اسی طرح اس وقت ان کی پارلیمنٹ دارالندوہ میں سب اکٹھے ہوئے، انہوں نے ایک قرار دار پاس کرنے کا فیصلہ کیا جس سے اس مسئلے کا ہمیشہ کے لیے علاج ہوجائے ، اسلام کی دعوت ہمیشہ کے لیے دب جائے ۔ تو بعض روایات کے مطابق، جو فیصلہ ہوا یعنی جو قرار دار منظور ہوئی وہ یا ابو جہل کی پیش کردہ تھی اور بعض روایات کے مطابق شیطان خود ایک بوڑھے انسان کی شکل میں آیا اور اس نے وہ قراردار پیش کی جس کے اوپر سب نے لبیک کہی ۔ اور وہ قرارداد یہ تھی کہ قتل تو کرنا ہے لیکن اگر کوئی ایک قبیلہ آگے بڑھ کر یہ کرے گا تو پھر رسول اللہ ﷺ کی پوری قوم اس کی مخالف ہوجائے گی، لہٰذا ایسا کرتے ہیں کہ ہر قبیلے سے ایک ایک نوجوان چنتے ہیں اور سب مل کر حملہ کریں گے تاکہ اتنے قبیلوں پر خون بٹ جائے کہ بالآخر قریش کو، یعنی رسول اللہ ﷺ کی قوم کو دیت لینے پرراضی ہونا پڑے۔تو یہ وہ شیطانی چال تھی جس کے اوپر سب کا اتفاق ہوا، لیکن اللہ فرماتے ہیں ﴿ وَيَمْكُرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللّٰهُ﴾، وہ چال چلتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ بھی چال چلتے ہیں، انہوں نے اپنے تئیں بہت محکم منصوبہ بندی کی ، گھر کو گھیر لیا اور بظاہر یہ نظر آرہا تھا کہ یہ شاید دین کا آخری دن ہو، اس لیے کہ رسول اللہﷺ، جو محور تھے اس پوری دعوت کے، وہ گھیرے میں آچکے تھے، اسلام اتنا ضعیف تھا۔
تھوڑی دیر کے لیے اس پہلو سے سوچنے کی بات ہےکہ وہ دین جو بعد میں تین براعظموں تک پھیلا ، ایک دن ایسا بھی اس دین پر گزرا کہ جب اس کا نبی بھی غیر محفوظ تھا اور جب اس کے نبی کا گھر گھیرے میں تھا اور اسلام کو چاہنے والے یا نبی سے محبت کرنے والے بچانے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھے۔ تو یہ وہ طعنہ ہے جو بہت سے لوگ مجاہدین کو دیتے ہیں کہ یہ دیکھو ان کی تو قیادت غاروں میں چھپتی پھرتی ہے ۔ تو غاروں میں چھپنا تو خود نبی کریم ﷺ کی سنت ہے کہ اس کے بعد کے سفر میں آپ ﷺ غار ہی میں چھپے تھے، تو جو بھی اس رستے پر چلے گا اس پر یہ سب کچھ گزرے گا، یہ کوئی عار کی بات نہیں ہے۔ وہ جماعتیں جو آج بازاروں، گلیوں اور شہروں میں دفاتر کھول کر بیٹھی ہیں بڑے بڑے بینر لگا کر اور ان میں کا کوئی فرد طعنہ دیتا ہے کہ یہ دیکھو ان کی قیادت پہاڑوں میں چھپتی پھرتی ہے تو یہ تو عین سنت پر چل رہی ہے۔ وہ بات اتنی سچی کررہی ہے جو کافروں پر اس قدر بھاری گزر رہی ہے کہ اس کے بعد ان کو پہاڑوں ہی میں ہونا چاہیے اور شاہین پہاڑوں میں ہی ہوتے ہیں۔
تو دین خطرے میں تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ نبی کریم ﷺ کی زندگی کی بس یہ آخری رات ہو اور آپ ﷺ کی شہادت گویا آنکھوں کے سامنے تھی۔ ہم بعض اوقات ان واقعات پہ سے سرسری گزر جاتے ہیں، جبکہ تھوڑی دیر سوچنا چاہیے کہ نبی کی سیرت کیسے خطرات سے پر ہے اور موت کو اپنی آنکھوں سے آپ ﷺ نے دیکھا اور پھر حضرت علی کو اپنی جگہ لٹایا۔ یہاں حضرت علی کی فضیلت بھی آتی ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ کی جگہ لیٹنا ایک طرح سے فدائی کارروائی تھی کہ آپ ان کی جگہ لیٹنے پر تیار ہوئے۔ پورا امکان تھا کہ جو اندر گھستا سیدھا آپ پر تلوار پڑتی، دیکھتا بھی نہ کہ کون لیٹا ہوا ہے سامنے۔ ان کو اپنی جگہ لٹا کر آپ ﷺ باہر نکلے اور اللہ رب العزت نے ایک معجزے کے ذریعے آپ کو نکالا کہ اللہ نے محاصرے کے لیے آنے والوں پر اونگھ طاری کی اور آپ ﷺ نے ان میں سے ایک ایک کے سر پر خاک ڈالی تاکہ بعد میں ذلیل بھی ہوں، بعد میں لوگوں کو پتا بھی چلے کہ یہ نکلے بھی ہیں اور ان میں سے ایک ایک کے سر پر مٹی ڈال کر نکلے ہیں جو اپنی طرف سے بالکل چوکنا تھے۔ تو اللہ رب العزت نے ان پر اونگھ طاری کی، آپ ﷺ نے ان کے سروں پر مٹی ڈالی اور ان کے درمیان سے گزر کر نکل گئے۔ بعد میں جب انہیں ہوش آیا تو ہر ایک نے اپنے سر پر مٹی دیکھی تو حیران ہوا اور پشیمان ہوا۔ عالم اسباب میں تو اس وقت کوئی مقابلہ نہ تھا۔ ایک گھرے ہوئے گھر میں ایک اکیلا بندہ کیا کرسکتا ہے؟ لیکن اللہ کی نصرت آئی اور اللہ نے اپنے دین کو پھیلانے کا فیصلہ کیا تھا لہٰذا اللہ نے اس دین کی حفاظت کرنی تھی۔رسول اللہ ﷺ وہاں سے نکلے اور بعد ازاں سفر ہجرت پر نکلے اور پھر ہم نے جس طرح کہا کہ کافروں نے اپنے تئیں وہ چال چلی جس سے ان کا خیال تھا کہ مسئلہ ختم ہوجائے گا، وہ مسئلہ نا صرف یہ کہ ختم نہیں ہوا بلکہ رسول اللہ ﷺ خیریت سے نکل گئے، حضرت ابو بکر نکل گئے ، صحابہ کی باقی غالب اکثریت نکل گئی اور پھر دس سال کے بعد وہی واپس لوٹے اور وہی لوگ کہ جو کل تک آپ ﷺ کے گھر کو گھیرے ہوئے تھے، وہی ہاتھ باندھ کر سر جھکا کر نبی کریم ﷺ کے سامنے کھڑے تھے اور رسول اکرم ﷺ نے جب پوچھا کہ میرے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے تو کہا کہ ’اخٌ کریم وابن اخٍ کریم‘، تو وہی جو کل تک خون کے پیاسے تھے، وہ جب تلوار سر پر آئی تو بالکل تیر کی طرح سیدھے ہوگئے ، کہنے لگے کہ آپ تو شریف بھائی ہیں اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں تو آپ سے ہمیں خیر ہی کی توقع ہے۔تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان کی چال انہی پر الٹ دی۔ ہوسکتا ہے کہ وہیں رہنے دیتے، ایسا فیصلہ کن اقدام نہ اٹھاتے تو ہجرت اور موخر ہوجاتی، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی اس حرکت کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کے وہاں سے نکلنے کا سبب بنایا، اللہ نے اپنے دین کی حفاظت کی اور اتنی اچھی سرزمین کی طرف لے گئے کہ جو اصل میں رسول اللہ ﷺ کی قوم نہیں تھی لیکن انہوں نے آپ ﷺ کا اپنی قوم سے بڑھ کر دفاع کیا، اپنے دل کے ٹکڑے مدینہ والوں نے آپ ﷺ پر وارے، اس دین کے رستے میں قربان کیے۔ اوس اور خزرج دونوں آپ ﷺ کے دو مضبوط بازو بن کر کھڑے ہوئے۔
کافروں کی چالیں اللہ انہی کے اوپر الٹ دیتے ہیں
تو کافروں کی چالوں کا یہ انجام ہوتا ہے کہ وہ اپنے تئیں بہترین منصوبہ بندی کرتے ہیں ، ان کے تھنک ٹینک اکٹھے ہوتے ہیں، دن رات سوچتے ہیں، سروے کراتے ہیں، این جی اوز یہاں دوڑتی ہیں، گھومتی ہیں، اعداد و شمار اکٹھے کرتی ہیں، اس کے بعد ایک رپورٹ تیار ہوتی ہے اس پر رینڈ کارپوریشن مغز ماری کر کے ان کے دس ذہین لوگ سی ٹی سی کے یا سی ایف آر کے بیٹھ کر کوئی فارمولا پیش کرتے ہیں کہ کیسے ان کی بڑھتی ہوئی جہادی سوچ کو روکا جائے ۔ اس کے باوجود مجاہدین اللہ پر توکل کرتے ہوئے ایک پریشر ککر کے اندر دس کلو بارود بھر کے رکھتے ہیں اور ایک دھماکے کے ساتھ ان کا سارا منصوبہ خاک میں مل جاتا ہے۔یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا کرنا ہے، ورنہ جتنے بڑے تھنک ٹینک وہاں کام کررہے ہیں اور جتنا بڑا سٹاف ان میں سے ایک ایک تھنک ٹینک کو میسر ہے ، ہمارے پاس اس سطح کا کچھ بھی نہیں ہے جس سے ہم ان کا مقابلہ کریں ۔ جس رفتار سے ہمارے بارے میں رپورٹیں مغربی تھنک ٹینکس نکال رہے ہیں ، انہیں پڑھنے کی بھی ہمارے پاس افرادی قوت نہیں ہے کہ ہم صرف اس کا مطالعہ کرلیں کہ وہ کہہ کیا رہے ہیں ہمارے متعلق، مقابلہ تو بہت دور کی بات ہے ان کی ساری اسٹریٹیجیز کا کرنا۔ لیکن اللہ کی نصرت ہے اور واقعتاً اللہ کی نصرت کے سوا کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ بات ان کو بھی ایک دن سمجھ میں آئے گی ، آتی ہے لیکن وہ اس وقت آتی ہے کہ جب فرعون غرق ہورہا ہوتا ہے، اس وقت اس کو اللہ پر ایمان لانا یاد آتا ہے کہ میرا مقابلہ اللہ کے بندوں سے نہیں بلکہ اللہ سے مقابلہ ہے۔ امریکہ کو بھی یہ سمجھ آئے گی مگر اس دن جب اس کے غرق ہونے کا دن آئے گا ، اس دن وہ چیخے گا کہ میں ایمان لایا موسی اور ہارون کے رب پر۔ تو مقابلہ ان کا اللہ سے ہے اور وہ اللہ کو شکست دینا چاہتے ہیں جبکہ اللہ کو کوئی شکست نہیں دے سکتا ۔ وہ اللہ کے خلاف چال چلنا چاہتے ہیں جبکہ اللہ کے خلاف کوئی چال کامیاب نہیں ہوسکتی۔ہم صرف آلے ہیں، ہماری خوش قسمتی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں استعمال کرلیں اپنے دین کے کام کے لیے۔ اللہ کو میری اور آپ کی حاجت نہیں ہے۔ تو پیارے بھائیو یہ مکر کا انجام ہے۔
کافروں کے مکر کا مقابلہ اللہ رب العزت خود فرماتے ہیں
شیخ ابو یحیی ایک جگہ درس دے رہے تھے ڈرون حملوں کے پس منظر میں بات کرتے ہوئے کہ ڈرون آج کے دور میں جو ہتھیار ہے ، وہ بنیادی طور پر ڈرون کا کمال نہیں ہے، اصل میں تو وہ جاسوسی کا جو پورا مکروہ نظام ہے جو زمین پر چلتا ہے اس کے نتیجے میں ڈرون کام کرپاتا ہے، تو وہ اصل میں ایک مکر کا نظام ہے، سازشوں کا نظام ہے، بندے خریدنے کا، پیسے پھینک کے لوگوں کی وفاداریاں خریدنے کا نظام ہے ، لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف کاٹنے توڑنے پھوڑنے کا نظام ہے۔ تو یہ جو سازشوں کا پورا عمل ہے اس کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ قرآن میں جس بھی جگہ جنگ کی بات ہوتی ہے تو ہمیشہ اللہ نے ہمیں حکم دیا کہ تم لڑو مقابلے میں، فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ، وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ، وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّةً كَمَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ كَاۗفَّةً ، ہر جگہ جہاں کافروں سے جنگ کا ذکر ہے تو اللہ نے کہا کہ جو تم سے لڑے تم اس سے لڑو، جو تمہارے خلاف اللہ کے رستے میں لڑتے ہیں تم ان کے خلاف لڑو، جس طرح کافر اکٹھے ہو کر تمہارے خلاف لڑتے ہیں تم ان کے خلاف لڑو، لیکن جہاں مکر کا ذکر آیا، جہاں سازشوں کا ذکر آیا، وہاں اللہ نے کبھی نہیں کہا کہ وہ مکر کرتے ہیں تم بھی مکر کرو، اللہ نے کہا کہ ﴿ وَيَمْكُرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللّٰهُ ﴾، وہ مکر کرتے ہیں اور اللہ مکر کرتے ہیں۔اور فرمایا ﴿وَمَكَرُوا مَكْرًا وَمَكَرْنَا مَكْرًا﴾، انہوں نے مکر کیا اور ہم نے مکر کیا، تو ہر جگہ مکر کا جواب دینا، سازش کا جواب دینا اللہ نے اپنے ذمے لیا۔ اس لیے کہ کافر جس سطح پہ اتر کے سازش کرتے ہیں ہم اس سطح پہ مقابلہ کر ہی نہیں سکتے ہیں۔ وہ جتنی گھٹیا سطح پہ چلے جاتے ہیں، لوگوں کو خریدنے میں اور جوڑ توڑ کرنے میں، اور مکروہ شیطانی منصوبے بنانے میں، ہمیں شرعاً ان میں سے بہت سے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی اجازت ہی نہیں ہوتی۔ ہم اپنے دین کے پابند ہیں ہم ان کی ہر سازش کا اس طرح جواب نہیں دے سکتے۔ تو ان کی خفیہ ایجنسیاں جو جال بن رہی ہوتی ہیں ہم ان کا مقابلہ کر نہیں سکتے شرعاً نہیں کرسکتے اور عملاً بھی کرنا ہمارے بس سے باہر ہوتا ہے، پس وہ اللہ نے اپنے ذمے لے لیا۔ ہمارے ذمے لگایا سیدھا میدان کے اندر ان سے ٹکرانا اور اللہ پر توکل کرتے ہوئے جہاد کے میدان میں ڈٹے رہنا۔ باقی مکر اور سازشیں اور جوڑ توڑ اور شیطانی حرکتیں، ان سے اللہ تعالیٰ خود نمٹ لیں گے، ان کا جواب اللہ تعالیٰ دیں گے۔
اللہ اہل ایمان کا دفاع کرتے ہیں
تو اس میں ایک تسلی کا سامان ہےمجاہدین کےلیے کہ ان کی سازشوں سے کہ جن کے بارے میں اللہ خود کہتے ہیں کہ ﴿وَإِن كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ﴾، ان کی بعض سازشیں ایسی ہیں کہ ان سے تو پہاڑ بھی ٹل جائیں، لیکن اللہ اس کا جواب دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کا مقابلہ کرتے ہیں اور، ﴿إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا ﴾اللہ اہل ایمان کا دفاع کرتے ہیں اور ان کی حفاظت فرماتے ہیں ان ساری سازشوں سے۔ تو یقیناً اللہ تعالیٰ بہترین چال چلنے والے ہیں ، بہترین تدبیر اختیار کرنے والے ہیں۔
تو پیارے بھائیو! کہنے کو یہ ایک آیت ہے مگر اس میں کافروں کی پوری اسٹریٹیجی کا خلاصہ بیان کردیا گیا۔ جسے وہ بہت خوبصورت الفاظ میں طویل طویل رپورٹوں میں بیان کرتے ہیں وہ انہی تین چیزوں کے گرد گھوم رہی ہوتی ہے۔ ان کی حکمت عملی کا خلاصہ بیان کردیا گیا اور ہمیں بھی اطمینان دلا دیا گیا کہ جب سازش پہ بات آئے گی تو اللہ تمہارا دفاع کریں گے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ مقابلے میں تمہارے ساتھ کھڑے ہوں گے ۔ اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ احسان بھی یاد دلایا، یہ آیتیں نازل ہوتی ہیں مدینہ میں، یاد دلاتی ہیں وقت مکہ کا، مدینہ میں بدر کے بعد یہ آیات نازل ہورہی ہیں اور یاد دلا رہی ہیں مکہ کا وہ وقت کہ یاد کرو جب تم اتنے کمزور تھے کہ وہ چاہتے تو تمہیں قید کرلیتے، چاہتے تو قتل کردیتے، چاہتے تو جلاوطن کردیتے، لیکن اللہ کی نصرت تھی کہ اللہ نے حالات کو پلٹا دیا اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے تمہیں، ایمان کو، اسلام کو، اہل ایمان کو، رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو تقویت نصیب فرمائی۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے دین کا صحیح فہم نصیب فرمائیں اور اللہ تعالیٰ اپنے رستے پر ہم سب کو ثابت قدمی نصیب فرمائیں۔
سبحانک اللھم و بحمدک ونشھد ان لا الہ الا انت نستغفرک و نتوب الیک و صلی اللہ علی النبی
٭٭٭٭٭