نوجوان مجاہد فی سبیل اللہ، اشفاق گریزی کا تعلق وادیٔ کشمیر کے علاقے ’گُریز‘ سے ہے اور انہوں نے یہ تحریر وہیں قلم بند کی ہے۔(ادارہ)
ایک بار پھر فروری کا مہینہ آیا، اور گزر گیا ۔ کشمیر لہو لہان ہے، ہندو جیت کا جشن مناتے نہیں تھک رہا اور ایسے میں ۵فروری، یومِ کشمیر کا دن بھی روایتی طور پر منایا گیا۔ ٹوئٹر پر بھارت کے خلاف کچھ ’ storms‘ہوئے ، انڈین ’twitterjati‘نے جوابی ردّعمل دیا اور پروکشمیر(pro Kashmir) لوگوں کے دل کو تسلی ہوگئی اور دن گزر گیا۔ اسی دن کشمیر کے شہر سرینگر میں فجر سے پہلے قافلۂ شریعت یا شہادت سے وابستہ دو مجاہدین ہندو فوج سے ایک جھڑپ میں شہید ہوگئے۔ عادل نثار ڈار اور اخلاق حجام ،یہ دو مجاہدین ایک ایسی فکر سے وابستہ تھے جس نے کشمیر کے ہر ایک فرد، خصوصاً جوانوں کے دل و دماغ میں حق پرستی اور introspection (خود نگری)کی شمع جلائی ہے اور جو امّتِ مسلمہ اور بالخصوص پاکستان کے اپنے بھائیوں اور بہنوں سے یہ سوال کرتے ہیں کہ آپ کے سوشل میڈیا پر پوسٹس(posts)، جلوسوں ، نعروں وغیرہ سے کتنے ہندو فوجی جہنم واصل ہوئے اور جہادِ کشمیر کتنا قوی ہوا ہے؟
سوال یہ ہے کہ گلگت سے لے کر مظفر آباد اور کوٹلی تک آپ نے کشمیر میں سپلائی پہنچانے کے لیے کتنے سپلائی روٹ بنائے اور کھلوائے؟ دریائے نیلم اور جہلم پر آپ نے اپنے خون سے ہمارا خون روکنے کے لیے کتنے پل بنائے؟ یا پھر کیا آپ نے ملکوں کی لگائی باڑ اور حدود کے اندر ہی اپنے جذبات مقید کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے؟ وہ حدود اور سرحدیں جو ایغور مسلمانوں کو مسلمان نہیں، بلکہ ایغور چینی باشندوں میں تبدیل کر دیتی ہیں، ہندوستانی مسلمان کو انڈین سٹیزن(بھارتی شہری) بنا دیتی ہیں اور کشمیری مسلمان کو محض پاکستان و بھارت کے درمیان تنازع کا باعث ایک کشمیری کی حیثیت دیتی ہیں۔ یہ سرحدیں ہی ہیں جو ان مسلمانوں کوامّتِ مسلمہ کا مسئلہ بنانے کے بجائے محض ایک قومی مسئلہ بنا دیتی ہیں، مختلف ممالک کا اندرونی و ذاتی معاملہ قرار دے دیتی ہیں۔
میرپور کے شیخ احسن عزیز، ڈڈیال کے الیاس کشمیری، گلگت کے ابو دجانہ، عبّاس پور کے مفتی وقاص و ابو حماس، بہاول پور کے غازی بابا اور ان جیسے کئی عظیم مجاہدین نے جہادِ کشمیر کی آبیاری کسی ملک کے اشارے یا مفاد کے لیے نہیں کی اور نہ ہی کسی ملک کی پابندی کی پروا کی بلکہ صرف اللہ کے حکم کی پیروی کی اور مظلوم کشمیری مسلمانوں کی مدد و نصرت کی۔آخر یہ جذبہ کہاں چلا گیا؟
آزاد کشمیر میں جس زمین پر مجاہدین کے معسکر ہونے چاہیے تھے اس کی جگہ کرکٹ لیگ کے گراؤنڈ تیار ہو رہے ہیں، جہاں فدائی مجاہدین کی لمبی قطاریں ہونی چاہیے تھیں وہاں کرکٹ کے کھلاڑیوں کے شائقین کی لمبی قطاریں ہیں، جس سرزمین کو امّت کے مختلف محاذوں کے عرب وعجم کے مجاہدکمانڈروں کی بستیٔ انصار بن کر کشمیر کی طرف جانے میں مدد کرنی تھی، وہاں کشمیری کرکٹ ٹیموں کی ’t-shirts‘پہنے انٹرنیشنل کرکٹ پلیئرز کے ’خصوصی‘ پرو کشمیر انٹرویو چل رہے ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں بھارتی محاصرے میں محصور کشمیریوں کے دن کیسے گزرتے ہیں؟کیا آپ کو معلوم ہے کہ کشمیر میں نابالغ بچوں سے لے کر عمر رسیدہ بزرگوں تک، کسی کی جان اور عزت محفوظ نہیں؟ بھارتی فوج جب گھر گھر چھاپے مارتی ہے تو کشمیر کے بچّےاپنی جان بچانے کی خاطر کیسے گھروں سے نکل کر بھاگتے ہیں؟کبھی کھیتوں میں چھپتے ہیں تو کہیں یخ بستہ دریاؤں اور نہروں میں چھلانگیں لگا دیتے ہیں۔ اس کے باوجود بھارتی فوج ان کا پیچھا کرتی ہے اور انہیں نشانہ بناتی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ وہ موسیٰ ہیں جو جلد ہی بڑے ہو کر ہندو فرعون کو للکارنے والے بن جائیں گے۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ کشمیر کا ایک نوجوان جب لاپتہ کر دیا جاتا ہے تو اس کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے؟ کہیں جسم میں پٹرول انڈیل کے انتڑیاں جلا دی جاتی ہیں تو کبھی اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کے لیے ہاتھوں سے باندھ کر چھت سے لٹکا دیا جاتا ہے۔ کشمیر کے یہ بے کس نوجوان لٹکتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ کلائی کے جوڑ ٹوٹ جاتے ہیں اور ہاتھ بیکار ہو جاتے ہیں۔کیا آپ نے کبھی ان ماؤں اور بہنوں کا بھی سوچا ہے جن پر پیلٹ گنوں سے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے، سینکڑوں گولیاں لگنے کے بعد جسم کی حالت ایسی ہوتی ہے گویا مار مار کے ہڈیوں کا چورا کر دیا گیا ہو۔ کیا ان محصور بہنوں کا خیال بھی کبھی آپ کو آیا جو اپنے ارد گرد روزانہ اپنے جیسی کسی عفیفہ کےساتھ بھارتی فوج کی درندگی و زیادتی کا قصّہ سنتی ہیں اور خوف سے منجمد دل کےساتھ یہ سوچنے پر مجبور ہوتی ہیں کہ کہیں کل کو میں بھی اس بھگوا دہشت گردی کا شکار نہ ہو جاؤں۔ وہ اس خوف سے چھٹکارا نہیں پا سکتیں، وہ موہوم ہوتی امید کو روز زندہ کرتی ہیں کہ مدد کرنے والے اور حفاظت کرنے والے مسلمان بھائی جلد ہی آئیں گے، اور روز ہی بھارتی فوج کی درندگی کے قصّے ان کی امید کا قتل کرتے ہیں۔
کشمیر میں فدائی جوانوں اور مجاہدین پر اپنا تن من دھن لٹانے والی عوام کی کمی نہیں ہے، کمی ہے تو مستقل جنگی سپلائی کی۔کیا آپ جانتے ہیں کہ کراچی سے طور خم اور چمن و غلام خان تک کتنے روٹ ہیں جو گزشتہ بیس سالوں سے افغانستان میں مصروف امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کو جنگی سامان اور رسد سپلائی کرتے رہے ہیں؟ بیس سال تک مسلسل جاری رہنے والی اس سپلائی کی وجہ سے سڑکوں میں ایسے ٹریک بن گئے گویا ریل کی پٹڑیاں ہوں، جن پر چل کر کنٹینر سامانِ رسد افغانستان تک پہنچاتے تھے۔ ان سڑکوں کی مرمت و بحالی کا سب کام اور ان پہ آنے والا خرچہ پاکستانی حکومت و عوام نے اپنی جیب سے ادا کیا۔ مگر کیا آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ سنہ ۲۰۰۳ء سے عالمی طاغوت کے حکم پر پاکستان و بھارت کی حکومتوں نے اپنی سرحدوں پر باڑ لگا دی ہے اور اتنے سالوں میں کشمیری مجاہدین کو اپنے پاکستانی بھائیوں کی جانب سےجنگی سامان اور کمک کے نام پر جو امداد ملی ہےاس پر یا ہنسا جا سکتا ہے یا رویا جا سکتا ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جہادِ کشمیر سے وابستہ مہاجر مجاہدین میں سے سب سے زیادہ حصہ پاکستان کے رہنے والے مجاہدین کاہے ۔ مگر حیرت ہے ان خاندانوں اور ان ورثاء پہ……جن کے بچے کٹ مرے اپنے کشمیری بھائیوں کی خاطر، مگر آج وہ اپنے ہی خون کی اس قربانی کو بھلا کر ، حکومتی و فوجی پالیسیوں کے تابع فرمان بنے ہوئے ہیں اور پاکستانی فوج کی طرح شاید وہ بھی کشمیریوں کو ’’abandon‘‘کر چکے ہیں!
فلسطین اور کشمیر، امّت مسلمہ کے دو ایسے زخم ہیں جن کو مذمتی بیانات، یوم النکبہ، یوم کشمیر وغیرہ تک محدود کر دیا گیا ہے، جب کہ ان محاذوں کو عملی اقدام کی ضرورت ہے۔ کشمیری مسلمان پوری دنیا میں اپنے کلمہ گو مسلمانوں سے سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ کیا کبھی باتوں سے بھی جنگیں جیتی گئی ہیں؟ کیا کبھی ظالم کا ہاتھ تقریروں اور تحریروں سے، مردہ الفاظ اور کاغذ کے ٹکڑوں سے بھی روکا گیا ہے؟آخر آپ کب تک صرف زبان و قلم سے ہمیں سپورٹ کرنے پر اکتفا کرتے رہیں گےاور اپنے دل کو یوم کشمیر منانے سے تسلی وبہلاوا دیتے رہیں گے؟ کشمیری مسلمانوں کو آپ کے جان، مال اور اسلحہ کی ضرورت ہے۔
یوم ِکشمیر روایتی جوش و خروش سے منایا گیا، لیکن کارگل سے لےکر گریز اور کپواڑہ سے لے کر بارا مولا اور پونچھ سے لے کر سانبھا تک مجاہدین کی سپلائی لائن بند رہی۔ پاکستان کے ’امیر‘ کا کہنا ہے کہ جو کوئی ریاستی پالیسیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ، اپنے طور پہ کشمیریوں کی امداد کرنے کی کوشش کرے گا، وہ پاکستان کا بھی دشمن ہے اور کشمیر کا بھی۔ کیونکہ ریاستِ پاکستان اور افواجِ پاکستان کے پاس کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیےہمیشہ کی طرح بہترین حکمتِ عملی موجود ہے۔یہ وہ حکمتِ عملی ہے کہ جس کے نتیجے میں آج نوجوان کشمیری مجاہدین ایک پستول اور محض دس گولیوں کے ساتھ ہندو فوج کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
کشمیری مجاہدین کو عسکری تربیت کے نام پرمحض پستول یا کلاشن کوف کو کھولنا جوڑنا سکھایا جاتا ہے اور اس تربیت کے ساتھ ان سے آٹھ لاکھ ہندو فوج ،ہزاروں کی تعداد میں پولیس اور کئی خفیہ اداروں سے جنگ کرنے اور جنگ جیتنے کی توقع کی جاتی ہے۔ لیکن امّت کے وسائل، اسلحے، اور مہاجر مجاہدین کو کشمیر کے اندر داخل نہیں ہونے دیا جاتا۔اس کے باوجود پاکستان میں ہمارے بھائی یوم کشمیر کے دن ریلیوں اور بڑے بڑے جلسوں میں شریک ہو کر، ہمارے حق میں نعرے لگا کر خود کو تسلی دےلیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم کشمیر کے ساتھ ہیں۔
آج بھارت نے کشمیر کا عسکری ،معاشرتی ا وراقتصادی محاصرہ بہت مضبوط کر لیا ہے۔ فلسطین کی طرز پہ کشمیر میں بھی مسلمانوں کی زمین پر ہندؤوں کو آباد کیا جا رہا ہےاور کشمیری مسلمانوں کے حقوق غصب کیے جا رہے ہیں۔ مگر کشمیر کے دوسرے سرے پر آزاد کشمیر کی سمت سےایک دوسرا محاصرہ ہے، جو کشمیر کے مسلمانوں تک عسکری کمک پہنچنے نہیں دے رہا۔
آپ کے اور ہمارے درمیان صرف ایک باڑ ہے۔ ایک خونیں باڑ جو کشمیر کے مظلوم و مجبور مسلمانوں کو کشمیر ہی میں قید و محدود رکھنے کا کام کرتی ہے۔ ایک ہی خدا اور ایک رسولﷺ پر ایمان لانے والوں، ایک ہی کلمہ پڑھنے والوں کووطن کے نام پر ۸۵ لاکھ کشمیریوں اور ۲۰ کروڑ پاکستانیوں میں بانٹنے والی تفریق کرتی باڑ۔ رسد، کمک اور امداد کے ہر راستے اور ذریعے کو روکنے والی ایک بے رحم باڑ۔یہ وہ باڑ ہے جس نے کشمیر کو آج دنیا کا سب سے بڑا زندان بنا رکھا ہے۔ جو اپنے مسلمان بھائی کی نصرت و اعانت کا فریضہ ادا کرنے، اس پر ظلم و بربریّت کا خاتمہ کرنے میں مدد کرانے سے روکتی ہے۔آخر کب وہ وقت آئے گا جب یہ باڑیں اٹھا کر پھینک دی جائیں اور پنجاب و سندھ اور خیبر کے مسلمان اپنے بھائیوں کی مدد و کمک کرنے کشمیر جا پہنچیں گے؟آخر کب کشمیر میں سسکتے نہتے مسلمانوں کو اس باڑ کے پار سے گولیاں ، بارود اور اسلحہ ملے گا؟ آخر کب ایسی حکمتِ عملی وضع کی جائے گی کہ جس کا مقصد کشمیری مسلمانوں کے خون سے سیاست چمکانا نہیں، بلکہ ان کے غموں کا مداوا کرنا ہو گا؟
یاد رکھیے……ہمارے درمیان صرف ایک باڑ ہے۔یہ جب تک قائم رہے گی سرینگر میں اسلام سرنگوں رہے گا۔ یہ جب تک باقی ہے، کشمیری نوجوان نہتے ہی بھارتیوں سے لڑنے، کٹنے اور اپنی جانوں کی قربانیاں دینے پر مجبور رہیں گے……کشمیر کی بیٹیوں کی عزتیں لٹتی رہیں گی۔ اور کیا باقی سب لوگ باڑ کے اس پار کشمیری مسلمانوں کی لاشوں اور عزتوں کا جنازہ خاموشی سے بیٹھے تکتے رہیں گے؟!!
٭٭٭٭٭