برِّصغیر پاک و ہند اور اس سے ملحقہ خطوں میں تاریخی لحاظ سے اصل قوت مسلمانوں ہی کی تھی۔ ترکی و افغانستان سے لے کر برما و انڈونیشیا تک یہ خطہ صدیوں سے مسلمانوں کے زیر تسلط یا کم از کم زیر اثر رہا۔ دنیا میں مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی اس خطے میں ہونے کے باوجود دورِ حاضر میں مسلمان یہاں مغلوب ہیں۔ اس کے عوامل کیا ہیں؟ اسے علمائے حق نے بار ہا تفصیل سے بیان کیا ہے۔ دورِ حاضر میں ایک بات جو یہاں کے مسلمانوں کے لیے خوش آئند ہے وہ خراسان میں روس و امریکہ کے لشکروں کے خلاف اہلِ اسلام کی کامیابی ہے۔ جس سے مغلوب و مظلوم مسلمانوں کے لیے راہِ عمل کا تعین آسان ہو جاتا ہے اور اس طریقۂ اصل پر یقین اور پختہ ہو جاتا ہے جس کے ذریعے خراسان میں کفار کی تاریخ میں سب سے بڑے لشکر کو واضح شکست ہوئی۔ پھر اس خطے میں پہلے سے اہل اسلام اور اہل کفر کے مابین معرکہ کسی نہ کسی صورت و انداز میں جاری ہی رہا ہے۔ موجودہ حالات ،کہ مسلمان مغلوب ہیں اور غلبۂ اسلام کے لیے جدوجہد کی جا رہی ہے ، کا عسکری آغاز شہید سیّد احمد بریلوی نے کیا تھا اور یہ معرکہ مسلمانوں کی طرف سے غربت ہی کے عالَم میں صحیح لیکن بہرحال جاری ہے۔ ضرورت تو یہ ہے کہ جس امتِ مسلمہ کو اس کے صادق و مصدوق نبیِ آخر الزماں، جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ نے اس خطے میں ’’غزوہ‘‘ کے متعلق جو پیشن گوئی اور معرکے کے شرکاء کے لیے جو فضائل بیان کیے ہیں ، تو اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امت کا ہر فرد یا کم از کم اس خطے کا ہر فرد، اس مبارک غزوے کی تیاری کرتا، شرکت کی کوشش کرتا، لیکن حقیقتِ حال یوں نہیں ہے۔
دوسری طرف اہلِ باطل جنہوں نے اس وقت کے واحد دینِ حق کا انکار کیا اور کفر اختیار کیا ہوا ہے، وہ اس غزوے کی تیاری، بلکہ سرعت سے تیاری میں مصروف ہیں۔ اس خطے کے کفر کا سربراہ اور اس کی پشت پر عالمِ کفر کے سرغنہ کا ہاتھ، یعنی ہندو سردار اور ان کا پشت پناہ امریکہ، یہاں حتمی معرکہ کے لیے صف بندی کر رہے ہیں۔ اس معرکہ میں مسلمانوں کے اصل مقابل فریق یہی ہیں۔ البتہ ہمارے کچھ ’اپنے‘ جنہوں نے پہلے بھی اس خطے میں امریکہ کا ساتھ دیا اور اب بھی ان کفارِ اصلی کے لیے ایک حفاظتی حصار کا کام دے رہے ہیں، بھی اس معرکہ میں ان کے ترازو کو بھاری کرنے کی کوشش میں ہیں لیکن ’’ وَمَكَرُواْ وَمَكَرَ اللّهُ وَاللّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ ‘‘۔
ہندوستان اس وقت خطے میں واضح غلبہ کیسے حاصل کرنا چاہتا ہے؟ اس کی ایک جھلک تو سب کے سامنے ہے، یعنی G20 اجلاس۔ لیکن یہ معاشی برتری کسی بڑی اور واضح عسکری قوت کے حصول کے بغیر ممکن ہے؟ کبھی نہیں! اس لیے یہاں موجود اصل خطرے (threat) کے خلاف یہ ہند کے سردار پہلے سے تیاری کر رہے ہیں۔ G20 کانفرنس سے پہلے ایک چیز جسے کسی بھی میڈیا نے اتنی اہمیت نہیں دی وہ امریکہ کے ساتھ ہندوستان کی جدید ہتھیاروں کی خرید و فروخت کا معاملہ ہے۔ اس میں نمایاں G20 اجلاس سے چند دن قبل ہندوستان کا امریکہ سے اکتیس (۳۱) MQ-9 Reaper (Predator B)جدید ڈرونز کی خریداری کا معاملہ ہے۔ جس کے بارے میں تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ ڈیل اس ہی مالی سال کے اندر طے پا جائے گی اور یہ جدید ڈرونز چھ سال کے عرصے میں مکمل طور پر ہندوستان کی دفاعی قوت کا حصہ بن جائیں گے۔
ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق انڈین ڈیفنس منسٹری نے ایک تفصیلی خط (Letter of Request) میں اس سرویلنس ائیر کرافٹ کو بمع اس کی تمام مسلح قسموں (All weapon options)، متحرک زمینی کنٹرول سسٹم (Mobile ground control system) و دیگر آلات کے ساتھ خریدنے کی درخواست کی ہے۔ اس کے بدلے میں بائیڈن انتظامیہ اس کا جواب منظوری کے خط (LOA: Letter of Offer & Acceptance) کے ذریعے دیں گے۔ اس خریداری کی قیمت امریکہ کا خارجی ممالک کو اسلحے کی فروخت کا پروگرام (FMS: Foreign Military Sales) طے کرے گا۔ البتہ دفاعی ماہرین نے اس کی قیمت 3.1 بلین ڈالر بتائی ہے۔
ہندوستان کے دفاعی تجزیہ نگار اس ڈیل کو ملک کے دفاع میں ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ ڈرونز اس وقت دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہیں۔ یہ دور تک نگرانی کی صلاحیت (Long range surveillance) اور صحیح ہدف مارنے کی صلاحیت (Precise strike capabilities) کے حامل ڈرونز ہیں اور اس کے اسلحے کے پیکج میں ہیل فائرمیزائلوں (Hellfire) کی شمولیت اس کو اور جدید بنا دیتی ہے۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ہندوستان نے ان ڈرونز کا چناؤ کیوں کیا؟ جبکہ یہ ڈرونز اپنی تمام تر جدید صفات کے ساتھ ان کے روایتی حریف پاکستان کے لیے ایک آسان ہدف بن سکتا ہے کیونکہ یہ ڈرون چاہے (HALE: High Altitude Long Endurance) کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن یہ ریڈار سے چھپ نہیں سکتا، مطلب یہ Stealth نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی ریڈارز پر عام طیاروں کی طرح paint ہوتا ہے (یعنی نظر آتا ہے) اور پاکستانی میزائل ان کو آسانی سے نشانہ بنا سکتے ہیں جبکہ اس ڈرون میں میزائل سے دفاع کرنے کی صلاحیت (Missile defense system) بھی نہیں ہے۔ دوسری طرف یہ ڈرونز نگرانی تو عام ڈرونز ہی کی طرح کرسکتے ہیں لیکن ان کی برتری باقی ڈرونز سے ان کی مارنے کی صلاحیت (Strike capabilities) کی وجہ سے ہے۔ اور یہ مارنے کی صلاحیت بنیادی طور پر خاص ہدف یا ضد الانسان (Anti-Personnel) ہے۔ معلوم ہوا کہ ان ڈرونز کی دفاع میں شمولیت کسی اور غرض سے ہے اور وہ مجاہدین ہی ہیں۔ بنیادی طور پر ہندوستان ان ڈرونز کو اپنے دین پر قائم رہنے والے اہل ایمان اور مجاہدین کی نگرانی اور ہدف بنانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرے گا۔ کیونکہ پاکستان کے خلاف یہ استعمال کرنا ان کو ضائع کرنے کے مترادف ہو گا اور ویسے بھی پاکستان کو ہندوستان پر صرف ائیر فورس کے ایف سولہ ٹیکنالوجی کی برتری حاصل تھی، جو انڈیا نے فرانس سے رفال ایم جیٹ طیارے خرید کر کاؤنٹر کرنے کا بندوبست پہلے ہی کر لیا ہے۔
ہندوستان کے یہ متشدد مشرک سردار جتنی بھی کوشش کر لیں لیکن غزوۂ ہند اور اس میں اسلامی لشکر کی کامیابی کا راستہ نہیں روک سکتے۔ ان کو شاید یہ اندازہ نہیں کہ یہ تو امریکہ سے صرف اکتیس ڈرونز لے کر مجاہدین کو روکنے کی کوشش کریں گے، جبکہ کفر کا سرغنہ افغانستان میں سینکڑوں پریڈیٹر ڈرونز کے ساتھ اسلام کے شیروں کا مقابلہ نہ کر سکا۔
یہاں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ ہندوستان کی اسلام دشمن حکومت اس خطے میں اسلام و مسلمان سے نمٹنے کے لیے کس لیول کی تیاری کر رہی ہے اور خود جس نے اس معرکہ میں بہرحال اترنا ہے اس ’مسلمان‘ کی تیاری کیا ہے؟ ہند کے یہ متکبر مشرک سردار صرف عسکری میدان میں تیاری نہیں کر رہے، بلکہ فکری میدان میں بھی اسلام کے غلبے کے خطرے کو کیسے روکنا ہے اس کے لیے اکھنڈ بھارت کا نظریہ زور و شور سے پیش کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ اس نظریے کا وجود ہندوستان کی معروف تاریخ میں ہمیں نہیں ملتا۔ بات بس اتنی سی ہے کہ انہیں کفرو شرک کی ضلالت عزیز ہے ، اسلام کے نور سے نفرت ہے اور اللہ کے صادق و مصدوق رسول جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی پیشن گوئی سے خطرہ ہے ۔یوں نورِ الٰہی کو بجھانے آنے والے غزوہ ہند کے لیے یہ تیاری کررہاہے ۔ دوسری طرف ہم مسلمانوں کو اس بات کا یقین بھی ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی پیشن گوئی سچ و حق ہے، لیکن کیا ہم اس طرح تیاری کر رہے ہیں جیسے اس غزوہ کے لیے ہمارا دشمن کر رہا ہے؟ پس اس خطے کے تمام مسلمان چاہے ان کا تعلق ہندوستان سے ہے یا پاکستان و بنگال سے، اس بات پر غور کریں کہ دشمن جب تیاری کر رہا ہے ، کیا ہمارا اس وقت غافل رہنا صحیح ہے؟ کیا ہندو نے اپنے قریب کے مسلمانوں پر یعنی ہندوستان کے اندر مسلمانوں پر حملہ شروع نہیں کیا؟ ان کے گھر مسمار کرنا شروع نہیں کیے؟ ان کی مساجد بلڈوز نہیں کیں؟ ہندو تو واضح طور پر عمل سے بتلا رہے ہیں کہ ہم نے مسلمانوں کو یہاں سے ایسے مٹانا ہے جیسے سپین سے عیسائیوں نے مسلمانوں کو مٹایا۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ان ہندو ظالموں کے خلاف صف آرا ہوا جائے اور ان کے مظالم کے خلاف اہل اسلام کا دفاع کرنے والے مجاہدین کا ساتھ دیا جائے۔ اس وقت کشمیر میں جاری ہمارے مجاہد بھائیوں کی تحریک مسلمانان ہند کے دفاع کی تحریک ہے ، اس تحریک کو مضبوط کرنا بھی اس خطے کے مسلمانوں کی ایک اہم ترجیح ہونی چاہیے بلکہ یہاں تو یہ امر مسلمانوں کی بقاء کی ضرورت بن چکا ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنی اور اپنے دین کے دفاع کی خاطر اٹھنا ہو گا۔ اسی طرح پڑوس میں پاکستانی اور بنگالی مسلمانوں پر بھی قرآنی حکم سے لازم ہے کہ اپنے مظلوم بہن بھائیوں کی مدد کریں اور جب صورت ِ حال یہ ہے کہ اسلام کے اس حکم میں آپ کی اپنی حکومتیں اور فوج رکاوٹ بن رہی ہے اور ظالم مشرکین کا الٹا دفاع کررہی ہےتو اس رکاوٹ کو ہٹانے کے لیے ان مقامی طواغیت،کفر کے آلۂ کاروں سے برسر پیکار مجاہدین کا ساتھ دینا بھی بہرحال ضروری ہے۔
٭٭٭٭٭