بھائی عمر حیدر آبادی کا تعلق ہندوستان سے ہے اور ان کی نسبت ہندوستانی ریاست ’حیدر آباد‘ سے ہے۔ (ادارہ)
کیا آپ نے کسی علاقے میں غنڈوں اور بدمعاشوں کی دادا گیری دیکھی ہے؟ جب بڑے بدمعاش دادا گیری کرتے ہیں تو ان کی شہ پر ان کے چیلے چمچے چھوٹے غنڈے بھی چوڑے ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح آج ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل جیسے عالمی غنڈوں کی حمایت نے بھارت جیسے ’اندھ بھکتوں‘ کے دیش کو مسلمانوں کے خلاف شہ دی ہے۔ ہندو دہشت گرد، ہندو راشٹر کی بنیادوں کو مسلمانوں کے لہو سے سینچ رہے ہیں۔ مسجدوں کو شہید کر کے ’ہندو راشٹر‘ کے مندروں کی تعمیر کی جا رہی ہے اور ان سارے معاملات میں امریکہ اور اسرائیل انڈیا کی پیٹھ تھپ تھپا رہے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور جینوسائڈ واچ(Genocide Watch) جیسے اداروں کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی کی اسلاموفوبک پالیسی اور کھلے بندوں ہندو شدت پسندوں کو چھوٹ دینے کے نتیجے میں مسلمانوں کے خلاف بہت ہی بھینکر (خطرناک) صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ جینو سائڈ واچ کے بانی گریگری اسٹینٹن (Gregory Stanton) نے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف کسی بھی وقت بڑے پیمانے پر قتلِ عام شروع ہو سکتا ہے اور جس طرح کا ماحول انڈیا میں بنایا جا رہا ہے یہ بہت ہی تشویشناک ہے۔
یہ بات شاید آپ کو تعجب میں ڈال دے کہ گجرات کے دنگوں کے قصائی نریندر مودی، جسے گجرات دنگوں کے بعد امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت تک نہیں دی گئی تھی، اس وقت دو مرتبہ امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں امریکیوں کے سامنے خطاب کر چکا ہے۔ مودی کا امریکہ میں اب بڑی ہی گرمجوشی سے استقبال کیاجاتا ہے، رائل ڈنر کے لیے مدعو کیا جاتاہے، نیویارک میں یوگا ڈے (Yoga Day) کی تقریب منعقد کی جاتی ہیں، (بھارت اور مودی) کو نئےابھرتے ہوئے شراکت دار (new emerging partner) اور لیڈر کے طور پر سراہا جاتا ہے۔ ایک گھنٹے سے زیادہ کی تقریر میں مودی کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا گیا کہ مانو مودی ہی امریکہ کا صدر یا سب سے اچھا دوست ہو۔ پورے خطاب کے دوران (مودی، مودی) کے نعرے کئی مرتبہ لگائے جاتے ہیں۔ خطاب کے اختتام پر ’بھارت ماتا کی جے‘، ’وندے ماترم‘ کے نعرے‘… جی ہاں… وائٹ ہاؤس میں لگائے جاتے ہیں۔
سب کچھ جانتے ہوئے بھی اور مودی کا کردار سامنے ہونے کے باوجود مودی کے ساتھ خصوصی برتاؤ اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ کو مودی کے کام سے کوئی دقت یا پریشانی نہیں بلکہ وہ ہرحال میں مودی کا ساتھ چاہتا ہے۔
اسلام کے پاکیزہ اور فطرت پر مبنی نظام نے جب دوبارہ سے عروج کی طرف اپنا سفر شروع کیا تو کفر کے سرداروں کو اپنے اور اپنے نظام کے لیے خطرہ محسوس ہونے لگا۔ خطے میں اپنے اسٹریٹجک پارٹنر اور لیڈر چنے جانے لگے۔ برصغیر میں بھارت سے اچھا پارٹنر اور لیڈر کہاں مل سکتا تھا؟ جس کے ساتھ انتہائی اہم فوجی، معاشی اور سفارتی معاہدے کیے گئے، جو ہندو جنونیوں سے بھرا پڑا ہے، جو جغرافیائی طور پر بھی اہم ہے اور جہاں چڑھتے سورج کی پوجا کی جاتی ہے۔ کرائے کی فوج تو آس پڑوس سے بھی مل جاتی ہے لیکن برصغیر میں کفر کی قیادت کی ساری صلاحیتیں بھارت کے مشرکین میں نظر آتی ہیں جن کے ساتھ بین الاقوامی مفادات بھی جڑے ہیں۔
فروری ۲۰۲۰ء میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہے جانے والے بھارت میں صدیوں سے رہ رہے مسلمانوں کی شہریت پر ہی سوال اٹھا دیے گئے۔ بھارت میں ۸۰۰ سال حکومت کرنے والے مسلمانوں کو، انگریزوں کے خلاف سب سے زیادہ قربانیاں دینے والے مسلمانوں کو، اب یہ کہا جا رہا ہےکہ اپنی شہریت کا ثبوت دیں، جبکہ پڑوس ممالک سے آنے والے سکھوں، جین وغیرہ کو انڈیا کی شہریت کی پیشکش کی جا رہی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف دائرہ تنگ کیا جا رہا ہے۔
اور جب حکومت کے اس منصوبے (شہریت بل) کے خلاف مسلمانوں نے پر امن احتجاج کیا، تو ہندوؤں نے واویلا مچا دیا، بات اس حد تک بگڑ گئی کہ مسلمانوں کا بے دریغ خون بہایا گیا، پولیس انتظامیہ جو براہ راست مرکزی حکومت کے زیرِ کنٹرول ہے، ہندوؤں کی مدد کرتی نظر آئی، پولیس نے میڈیا کے سامنے بغیر کسی ڈر و خوف کے مسلمانوں کو بے رحمی سے پیٹا اور قتل کیا۔ مسلمانوں کے گھروں کو اجاڑ دیا گیا، انہیں نذرِ آتش کر دیا گیا، دسیوں مسلمان شہید ہوئے، سیکڑوں زخمی کر دیے گئے، ہزاروں مسلمان ریلیف کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہو گئے۔
لیکن اسی وقت احمد آباد، گجرات کے سب سے بڑے کرکٹ اسٹیڈیم میں ڈونلڈ ٹرمپ اپنا آشیرواد مودی اینڈ کمپنی پر نچھاور کر رہا تھا۔ انڈیا کو اپنا سب سے اچھا پارٹنر بتلا کر ہر میدان میں سمجھوتے کیے جا رہے تھے۔ خطے کی قیادت بھارت کو سونپنے کی تیاری مکمل ہے اور اس کی ہر طرح سے بھرپور رہنمائی بھی کی جا رہی ہے۔ جس کا فائدہ اٹھا کر ہندوؤں نے ہندوستان میں رہ رہے مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔
ٹرمپ نے گجرات کے دورے کے دوران اپنی تقریر، بلکہ یوں کہیں کہ عشق و محبت کے فسانے میں کہا:
’’میں اور میری بیوی آٹھ ہزار میل کا سفر طے کر کے بھارت کو یہ پیغام دینے آئے ہیں کہ ہم آپ سے محبت کرتے ہیں، آپ کی عزت کرتے ہیں اور ہمیشہ آپ کے بھروسہ مند دوست رہیں گے۔ انڈیا ہمارے دلوں میں بہت ہی اعلیٰ مقام رکھتا ہے، انڈیا اور ہم بہت ہی بڑے مقصد کے لیے یہاں موجود ہیں۔ ‘‘
ٹرمپ نے مزید محبت کے افسانے پڑھتے ہوئے کہا:
’’انڈیا کی مثال اس صدی کی بہترین کامیابی کی ہے، انڈیا ایک آزاد ملک بن کر سامنے آیا ہے، جو دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔ ہم انڈیا کو دنیا کے بہترین جہاز، میزائل، راکٹ، بحری جہاز اور ہیلی کاپٹر دیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ کو انڈیا کا دفاعی ساتھی ہونا چاہیے۔ امریکہ اور انڈیا مل کر اسلامی دہشت گردی کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ انڈیا ایک اچھے لیڈر کی طرح مستقبل کے لیے مشکلات کو حل کررہا ہے اور امن قائم کر رہا ہے۔‘‘
ایک طرف مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، انٹرنیشنل ہیومن رائٹس واچ (International Human Rights Watch) کئی مرتبہ دنیا کو اس بات سے آگاہ کر چکی ہے کہ ہندوستان مسلمانوں کی قتل گاہ بننے جا رہا ہے۔ نہ مسلمانوں کے گھر محفوظ ہیں، نہ مسجدیں، مدرسے اور نہ ہی خود مسلمان ۔ اور دوسری طرف امن کے ٹھیکے دار، انسانی اقدار کے چیمپئن امریکہ اور اسرائیل بھارت کی پیٹھ تھپ تھپا رہے ہیں۔ انہی عالمی غنڈوں کی شہ پر انڈیا میں ظلم کی چکی اپنی رفتار سے کئی گنا تیز چلنا شروع ہو گئی ہے۔ عراق اور افغانستان کو دنیا کے لیے خطرہ کہہ کر آسمان سے آگ برسانے والا امریکہ ہندوستان کے سارے جرائم کو نظر انداز کر کے بھارت کو اپنا اسٹریٹجک پارٹنر بنا رہا ہے۔
مودی کے گجرات میں دورِ حکومت میں مسلمانوں نے گجرات میں وہ منظر دیکھا جسے قیامت تک بھلایا نہیں جا سکتا، ایکشن کے ری ایکشن کے نام پر ہزاروں مسلمانوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا، مودی کی سربراہی میں دو ہزار مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ بی بی سی نے کچھ عرصہ پہلے گجرات دنگوں کے حوالے سے ایک دستاویزی فلم نشر کی ، جس میں مودی کے کردار کو اجاگر کیا گیا تھا۔ لیکن اس فلم پر بھارت میں فوراً ہی پابندی عائد کر دی گئی اور حکومت کی طرف سے فلم کو پروپیگنڈہ قرار دیا گیا۔
امریکی دفترِ خارجہ کے ترجمان ’نیڈ پرائس‘ سے جب ایک رپورٹر نے یہ پوچھا:
’’ میں یہاں پچھلے آٹھ سالوں سے آ رہا ہوں لیکن ایک مرتبہ بھی مودی کے گجرات دنگوں میں کردار کے حوالے سے سوال نہیں کیا گیا۔ کیا گجرات میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی تھی؟ بی بی سی کی نشر کردہ فلم کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟‘‘
نیڈ پرائس نے جواب دیا :
’’مجھے اس فلم کے بارے میں نہیں پتہ، انڈیا سب سے بڑی جمہوریت ہے اور ہم ہر اس چیز کو دیکھتے ہیں جو ہمیں آپس میں جوڑتی ہے اور ہماری دلچسپی ہمارے جمہوری سمجھوتوں میں ہے۔‘‘
بھارت میں منظم طریقے سے مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے، جس میں بلڈوزر کا اہم کردار ہے۔ اتر پردیش کا وزیر اعلیٰ یوگی ادتیا ناتھ بڑے فخریہ انداز میں اپنے بلڈوزروں کی طرف اشارہ کر کے مسلمانوں کی تباہی پر ہنستا ہے۔ ہزاروں مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو مسمار کر کے مسلمانوں کو خوفزدہ کیا جاتا ہے۔ بلڈوزر بابا، ماما کے نام سے بڑے ہی فخر سے بلڈوزر کو یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن امریکہ میں کیوں بلڈوزر کو منظرِ عام پر لایا گیا؟ کیا ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف اپنائے گئے طریقوں پر خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے؟ کیا ہندوستان کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ ہم تم سے اور تمہاری پالیسیوں سے خوش ہیں؟
امریکی ریاست نیو جرسی میں ریپبلک ڈے(Republic Day) پریڈ کے دوران بلڈوزر کو پریڈ کا حصہ بنایا گیا۔ آقاؤں نے اپنے نوکروں کو ہری جھنڈی دکھائی ہے۔
جب مودی کو اس سال امریکہ بلایا گیا تو موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن نے یہاں تک کہہ دیا کہ بھارت اور امریکہ کی شراکت داری اکیسویں صدی کی سب سے خاص شراکت داری ہونے والی ہے۔ پھر ٹیسلا کا ’سی ای او‘ ایلن مسک یہ اعلان کرتا ہے کہ جلد ٹیسلا بھارت آ رہی ہے۔ ایک ہی میز پر مودی گوگل، مائکروسافٹ اور ایپل کے سی ای اوز سے ملاقات کرتا ہے۔ دوسری طرف مودی اور بائیڈن دفاعی شعبے میں، سیمی کنڈکٹرز کی تیاری میں اور اے آئی کے شعبے میں شراکت داری کا اعلان کر رہے ہیں۔ سیمی کنڈکٹر جو موبائل، لیپ ٹاپ اور گاڑیوں میں استعمال ہوتے ہیں پہلے تائیوان اور چین تیار کر رہے تھے ، لیکن اب گجرات میں پانچ لاکھ مربع فٹ سیمی کنڈکٹر پلانٹ لگنے جا رہا ہے، جسے امریکی کمپنی مائکرون ۸۲۵ ملین ڈالر خرچ کر کے بنا رہی ہے۔ اس کی تربیت کے لیے امریکہ نے بھارت سے ساٹھ ہزار انجینئر بلوائے ہیں۔
اسی لیے کہ امریکہ خطے کی قیادت بھارت کے حوالے کرنا چاہتا ہے اور اسے خطے میں چین کے مد مقابل لانا چاہتا ہے تاکہ وہ خطے میں بھارت کے ذریعے اپنے مفادات پورے کر سکے۔ دنیا میں امریکہ کی سربراہی بھی قائم رہے اور اسے خطے میں بھارت جیسا بہترین شراکت دار بھی مل جائے۔
اسی سلسلے کی ایک کڑی حال ہی میں بھارت میں منعقد ہونے والا جی ۲۰ اجلاس ہے جو بھارت کی راجدھانی دہلی میں منعقد کیا گیا۔ بھارت نے اس اجلاس کا نعرہ دیا، ’’ایک زمین، ایک خاندان، ایک مستقبل‘‘۔
اس اجلاس میں ایک بڑے معاشی منصوبے ’’انڈیا، مڈل ایسٹ، یورپ اکنامک کاریڈور‘‘ (IMEEC) کا اعلان کیا گیا۔ یہ منصوبہ پارٹنر شپ فار گلوبل انفراسٹرکچر انوسٹمنٹ(Partnership for Global Infrastructure Investment) کے تحت تشکیل دیا گیا ہے جس کا ایک مقصد چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا مقابلہ کرنا بھی ہے، اس طرح اس منصوبے کے ذریعے امریکہ خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو لگام ڈال کر انڈیا کو آگے لانا چاہتا ہے۔یہ اکنامک کاریڈور سمندر اور ریلوے لائنوں کا استعمال کرے گا اور یہ بھارت کے شہر گجرات سے شروع ہو کر ، دبئی، سعودی عرب، اردن اور پھر اسرائیل کے ساحل سے اٹلی، فرانس اور جرمنی تک جائے گا۔ اسی منصوبے کے تحت ایک امریکی ہیلتھ کمپنی انڈیا میں ۱۸ ملین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کرے گی ، جبکہ یورپی یونین اس پورے منصوبے میں ۳۰۰ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔ اس منصوبے کے لیے شراکت داری ’’پارٹنر شپ فار گلوبل انفراسٹرکچر انوسٹمنٹ‘‘ کا اعلان برطانیہ میں ۲۰۲۱ء میں پہلی بار کیا گیا۔ پھر ۲۰۲۲ء میں جرمنی میں اس پر جی ۷ ممالک رضامند ہو گئے۔
اس منصوبے کے معاشی مقاصد ایک طرف ، اس کے دو سب سے اہم سیاسی مقاصد ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ معاشی مقاصد کی بجائے ان دو سیاسی مقاصدکے حصول کے لیے ہی اس منصوبے کو شروع کیا گیا ہے۔
ایک چین کو لگام دینا اور اس کے معاشی منصوبوں کے مقابلے میں اپنے معاشی منصوبے متعارف کروانا، اور اسی مقصد کے تحت معاشی اور عسکری دونوں سطحوں پر بھارت کو چین کے مد مقابل لے کر آنا تاکہ چین خطے میں الجھ کر امریکہ کے لیے خطرہ نہ بنے۔
دوسرا مقصد جو امریکہ کے لیے اس سے بھی زیادہ اہم ہے جو اس منصوبے سے حاصل ہو سکے گا وہ اسرائیل کے مسلمان ممالک بالخصوص خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات کو ’’نارملائز‘‘ کرنا ہے۔
اس طرح اس منصوبے اور بحیثیتِ مجموعی امریکہ کے بھارت کے ساتھ بڑھتے تعلقات اس بات کی طرف بھی اشارہ دے رہے ہیں کہ امریکہ ایسا ماحول تیار کرنا چاہتا ہے کہ دنیا کے اہم ممالک بالخصوص اہم مسلمان ممالک (خلیجی ممالک) کو معاشی اور دیگر معاہدوں میں انڈیا اور اسرائیل کے ساتھ اس طرح باندھ دیا جائے کہ جب جب یہ دونوں ممالک مسلمانوں پر ظلم ڈھائیں، ان کاقتلِ عام کریں اور ان کی نسل کشی کی کوشش کریں تو یہ ممالک اپنے مفادات کی خاطر ان واقعات سے نظریں چرائیں اور ان دونوں غنڈوں(انڈیا اور اسرائیل) کو مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے لیے آزاد چھوڑ دیں۔
٭٭٭٭٭