مجھے مت بتاؤ
کہ ’اقصیٰ‘ کی مسجد
ند ا دے رہی ہے!
مددکوبلاتی،
صدا دے رہی ہے!
مجھے مت بتاؤ
مجھے مت بتاؤ
کہ ’غزہ‘ کے لوگوں پہ
صہیونیوں نے
مظالم کی اک انتہا کر رکھی ہے
مسلماں پہ جور وجفا کر رکھی ہے
فضا ہے کہ شعلوں کوبرسا رہی ہے
زمیں پر قیامت نما چھا رہی ہے
ہر اک سمت سے خوں کی بو آرہی ہے
سستے، بلکتے، لہو میں تڑپتے …… ہیں معصوم چہرے،
ہیں ماؤں کی آہیں …… اور بچوں کے لاشے،
تباہ ہیں گھرانے …… سبھی کو رلانے
یہ سب کچھ بتاتا ہے
مغرب کی اکیسویں اس صدی کی مہذب سی دنیا
بہت ہی مہذب ہے، جبکہ مسلماں
نہایت ہی وحشی، نہایت بے قیمت ……
انسان ہونے کے لائق نہیں ہے،
حیوان سے بھی وہ فائق نہیں ہے
وہ لائق ہےتو بس اس بات کا کہ
اسے مار ڈالو!
اسے ہی نہیں، اس کے پورے گھرانے کو ہی روند ڈالو!
نہ اس کی زمیں ہو، نہ ہو اس کا گھرانہ
نہ کوئی مقدس عبادت کا گھر ہو، نہ کوئی ٹھکانہ
اسے پھر سے ’نکبہ‘ پہ مجبور کردو!
اسے پھر سے فاقوں میں محصور کردو!
اسے ہر تعلق سے مہجور کردو!
یہ مغرب کی منطق ہے …… انصاف وحق ہے
کہ اس سرزمیں پر
تقدس کا حق ہے، تو صہیونیوں کو ……
’فلسطینیوں‘ کا فلسطین پر …… نہیں کوئی حق ہے
مجھے یہ بتاؤ!
مجھے مت بتاؤ
کہ یہ درحقیقت
تمدن وتہذیب کے اس جَلو میں ……
صلیبی وصہیونی یلغار ہے
جو ہر اِک مسلماں سے حاضر زمانے میں پیکار ہے
تمدن نہیں، سفاکیت ہے یہ!
نہیں عدل یہ، بربریت ہے یہ!
یہ تہذیب کے نام پر …… ببانگِ دہل
قیصریت ہے یہ، جارحیت ہے یہ!
مجھے مت بتاؤ
مجھے مت بتاؤ
کہ غزہ کا مسلم، مرا بھائی ہے
مری اس سے کچھ بھی شناسائی ہے
وہ مظلوم ہے، غمزدہ ہے،
جنازے وہ پیاروں کے سر پہ اٹھائے کھڑا ہے،
زمیں بوس اپنے گھروں سے نکل کر
وہ خیموں کی بستی میں آکر بسا ہے،
نہ پانی ، نہ کھانا،
نہ اپنے، نہ اپنوں کے اگلے دنوں کا
کوئی بھی تخیل، کوئی بھی فسانہ،
وہ اس حال میں مجھ سے اپنی مدد کے لیے کہہ رہا ہے
مجھے مت بتاؤ
مجھے مت بتاؤ
کہ اقصیٰ مری منتظرہے
ابھی سے نہیں، اکِ صدی سے مری منتظر ہے
وہ قبلہ اول، وہ ثالث حرم ہے،
شفیعِ معظم ، نبی مکرم، محمد (ﷺ) کی ہے وہ جائے اسراء،
وہ نبیوں کی وارث، وہ محترم ہے،
وہ مجھ سے مخاطب ہے اور کہہ رہی ہے کہ
آزادی اس کی ……بطورِ مسلماں، ہے فرض مجھ پر!
نجس صہیونی ہاتھوں سے اس کا چھڑانا، ہے قرض مجھ پر!
مجھے مت بتاؤ کہ
میں بھی اسی دین کا نام لیوا ہوں ……جس کے
نام لیواؤں نے
چودہ صدیوں قبل
اپنی میراث خود اپنے ہاتھوں میں لی تھی،
ہمیشہ پھر اس کی حفاظت ہی کی تھی
رچرڈ اور اس کے حواری صلیبی،
اٹھے اورجب حملہ آور ہوئے تو
ایوبی نے اٹھ کر …… علم حق کا لے کر
مسلمانوں نے اپنا سب کچھ لٹا کر
صلیبیوں کے لشکروں کے مقابل
جنگ کے میداں سجا کر
وراثت کو پھر واپس حاصل کیا تھا
مگر تم سے کہتا ہوں کہ اے میرے بھائی!
یہ ساری کہانی مجھے مت سناؤ
مجھے مت بتاؤ
مجھے مت بتاؤ کہ
عرصہ ہوا،
میں نے ’غیرت‘ کی چادر ……
شانوں سے اپنے اتاری ہوئی ہے
زمانہ ہوا ہے کہ یہ جنگ
میں نے ہاری ہوئی ہے
’ضمیر‘ اپنا کب سے، میراسو چکا ہے
میں تو اکیسویں اس صدی کا مسلماں ہوں ……
دینِ اسلام بھی اب میرا ’نیا‘ ہے
نہ چہرہ پرانا، نہ پیرہن پرانا
نہ فکر وعمل کا ہی دامن پرانا
ہر اک چیز مغرب کی مجھ کو قبول ……
خودی اپنی کب سے ہوئی ہے فضول ……
میں کب کا غلامی کا عادی ہوا ہوں
حمیت سے کب کا میں عاری ہوا ہوں
یہ دنیا کے نقشے پہ کھینچی ’لکیروں‘ کے بندھن کو چھوڑو،
میں تو اپنے ہی گھرکی ’لکیروں‘ میں بس بند ہوا ہوں
مجھے مت بتاؤ
کہ ایسا نہ ہو
میرا سوتا ضمیر …… کسی چوٹ سے جاگ اٹھے!
مجھ کو غزہ کے مسلم کا غم، خود اپنا غم لگنے لگے!
میرے دل میں جو اسلام کی چودہ صدیوں پرانی جو چنگاری ہے، وہ سلگنے لگے!
میں سمجھنے لگوں کہ مری ’اصلیت‘
وہ نہیں ہے جو آج مجھ پہ طاری ہوئی
میں تو غافل ہوں، ناداں ہوں اور ناسمجھ،
یہ غلامی کی چادر ہے بھاری ہوئی
میں یوں اپنی حقیقت سمجھنے لگوں
کہ میں
اس قوم سے ہوں کہ جو
ظلم کے سامنےہرگز دبتی نہیں
اپنے ’دین‘ اور ’عقیدے‘ سے ٹلتی نہیں
اپنی ہر اک ’مقدس‘ زمیں کے دفاع سے کبھی
پیچھے ہٹتی نہیں
اپنا سب کچھ کٹاتی ہے،گھر بھر لٹاتی ہے، پَر
اپنی عزت پہ حرف آنے دیتی نہیں
مجھے اب بتاؤ کہ
میرا ’ضمیر‘
آج کی اس اذیت بھری چوٹ سے
’جاگ‘ اٹھنے کو ہے!
اس دفعہ کا ’زخم‘ ……کتنا گہرا ’زخم ‘ ہے!
آج کا میرا ’غم‘ ……
کیا یہ معمولی ’غم‘ ہے؟!
مجھے پھر بتاؤ کہ اب
حمیت کی، غیرت کی چنگاری سے …… جو مرے جی میں پھر سے سلگنے لگی ہے،
مِرا تن بدن ……
ایک ’آتش فشاں‘ بن کے پھٹنے کو ہے!
جس کی آتش میں صہیونی دشمن سبھی …… راکھ ہوجائیں گے
اور ان کے حواری صلیبی سبھی …… خود سے کھو جائیں گے
آنسوؤں کے بہانے سے کیا فائدہ،
میری ’روح‘ اب اس عنصری قید سے
باہر آنے کو ہے!
وقتِ جنگ آچکا، طبلِ جنگ بج چکا!
اپنے ’غزہ‘ کے بھائیوں کی امداد کو ……
سر کٹانے کو میدان ہے سج چکا!
آؤ! مل کر ……
آؤ! مل کر مسلماں، یہ جنگ سر کریں!
اپنی ’اقصیٰ‘ کو صہیونیوں کے نجس ہاتھ سے چھین کر
اس پہ ’اسلام‘ کا ’پرچمِ لا الہ‘ آج پھر سے بلند
آؤ مل کر کریں!
ہاں! مجھے یہ بتاؤ!